سبزہ خوابیدہ
عائشہ غضنفراللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چینی کہاوت ہے کہ اگر تمھارے پاس دو پیسے ہوں تو ایک پیسہ خرچ کرکے روٹی خریدو اور دوسرے پیسے سے پھول…. کیوں کہ روٹی زندگی دیتی ہے تو پھول زندگی جینے کا فن سکھاتے ہیں۔
یہ بات کس قدر سچ ہے اس کا اندازہ ایک عام انسان بخوبی لگاسکتا ہے۔
بلاشبہ ایک ملک کے لیے ہریالی وشادابی کتنی ضروری ہے؟ یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں، اندرونِ ملک کے جتنے اسفار کیے، میرے لیے سب سے زیادہ پرلطف اور یاد گار سفر وہی تھا، جس میں ہم نے سبزے سے ڈھکے پہاڑوں پر مسکن بنایا تھا۔
جیسے ہی صبح کاذب کا وقت ہوتا، چیڑ اور دیودار کے بلند درختوں سے چھن چھن کر آتی دھوپ، پودوں کی ڈالیوں اور درختوں کے پتوں کو یوں سنہرا رنگ کر دیتی، گویا ابھی سونے کے پانی میں نہلائی گئی ہوں۔ وادی میں بل کھاتا دریا جو پورے سفر میں ہمارا ہم قدم رہاتھا، اُس کے شفاف پانیوں میں لہراتی کونپلوں اور پتوں کا سبز عکس اِس قدر مبہوت کردیتا کہ بے اختیار انسان سبحان اللہ و بحمدہ پکار اٹھے۔
کبھی زور و شور سے چنگھاڑتا پانی، پتھروں، درختوں سے ٹکراتا گزر رہا ہے۔ننھے پودوں کی غصیلے پانی سے نبرد آزمائی اس قدر بھلی لگتی کہ کئی پہر ہم بیٹھے بس یہ منظر دیکھتے رہتے۔ سبزے کا قالین اُن پر خوب صورت سفید پیلے رنگین جنگلی پھول…. چہار طرف ہریالی۔ شادابی تصور کریں تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ درختوں اور پودوں کی وجہ سے وہاں کی فضا گرد سے اس قدر صاف ہے کہ طبیعت بشاش ہوجائے۔ الحمدللہ ہمارا وطن اس طرح کے مناظر سے بھرا پڑا ہے۔ خوب صورت وادیوں سے مزین، قدرتی کشیدہ کاری سے آراستہ یہ سرزمین…. کشور حسین، جس کے حسن کی بہتری اور مزید بحالی کا فرض ہمارے سروں پر بلاتفریق قائم ہے۔
مرغزار، میاندم، کالام کی سیر میں جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہم نے یہ کہنا شروع کیا: ”اللہ! بس جی چاہتا ہے یہیں مستقل بسیرا کرلیں، آسائشات وتکلفات بھری دنیا میں اب کیا کشش….؟“
تو ابو جی نے یک لمحے کے لیے اسٹیرنگ سے دونوں ہاتھ اٹھا کر ہمیں داد دی۔ بے اختیار بولے:”واہ بیٹا جی! اپنے گھر میں ہریالی لانے کا نہ سوچنا…. بلکہ کسی نے سوچا ہے تو دیس نکالے کو ترجیح دی۔“
ہم کھسیانے سے گئے، اُدھر امی نے بھی ابو کی بات سے ٹکڑا جوڑنا لازم خیال کیا، جبھی چہرہ موڑتے ہوئے بولیں:
”بچپن میں جس کینو کے درخت پر چڑھ چڑھ کر وقت گزارا ہے، کبھی اُس بے چارے کو مڑ کر پوچھا ہے ، اس نے پھل دینا کیوں چھوڑ اہے،لیکن ہے تو اب بھی درخت…. سایہ تو دے رہا ہے، گھر میں رونق تو ہے اس کے سبب…. اور جس فالسے کے بوٹے کو ساری عمر جھنجھوڑتی آئی ہو، اب وہ ٹنڈ منڈ سوکھ کر ’بچا‘ہوا کھڑا ہے، کبھی اس غریب کا بھی دھیان آیا، اب ناشپاتی، آڑو کے باغات اور اخروٹ، خوبانیوں سے لدے خوشے دیکھ کر رال ٹپکنے لگی ہے، خود کچھ نہ کرنا، بس بستر باندھ کر یہیں فروکش ہونے کا سوچنا۔“
امی تو بمشکل اپنے پسندیدہ موضوع سے ہٹیں، لیکن آپ یقین کریں ان کی جھاڑ کے سبب وہاں اُس دلکش وادی میں بھی مجھے اپنے گھر کا خمیدہ کمر کینو کا درخت اور مرجھائے کملائے ہوئے فالسے اور لیموں کے پودے بے طرح یاد آنے لگے۔
بلامبالغہ میرا دل چاہا کہ ابھی اڑ کر پہنچوں اور اپنے گھر کے بچے کھچے پودوں کی یوں نگہداشت کروں کہ آغاجی مرحوم کا لگایا گیا، محنت بھرا چمن ایک بار پھر آباد ہوجائے، جسے انھوں نے ہمارے لیے سینچ سینچ کر فائدہ مند بنایا اور ہماری احسان فراموشی کے اُن کے جانے کے بعد نفع تو خوب اٹھایامگر اُس سے زیادہ نقصان ہی دیتے رہے۔
اب مجھے اپنے صحن کے داہنے کونے میں لگا شہتوت کا پودا بھی خوب یاد آنے لگا تھا، جسے گرمی کے باعث سوکھ جانے پر ہم نے اکھاڑ پھینکا تھا۔ انار کا بوٹا جسے جانے کیوں دیمک چاٹ گئی، پودینے کا ہرا بھرا گلشن جسے مرغیوں کی فوج نے اجاڑ کر رکھ دیا۔
زمین پر تمکنت سے چھائی گیاتوری اور کدو کی سبز بیلیں جو ہماری سستی کی پاداش میں مٹیالی ہو ہو کر مردہ ہوگئیں۔
تب مجھے اُس وقت خوب اندازہ ہوا کہ ہریالی ہمارے لیے کتنی ضروری ہے کہ صرف ایک اجاڑ باغ کو سوچ کر جو یاسیت ہمارے اندر بیٹھی بلاشبہ وہ بہت بری تھی۔ چاروں اَور سبزہ وہریالی دیکھ کر جو خوشی اور سر شاری محسوس ہوتی ہے ،وہ واقعتا صرف محسوس کی جاسکتی ہے، بتائی نہیں جا سکتی۔سبزہ و پھول آپ کو فطرت کے قریب کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک کتاب نظر سے گزری، جس میں رنگ و روشنی سے علاج پر زور دیا گیا کہ انسانی زندگی میں رنگ کا کس قدر کردار ہے؟ پوری کتاب کا لب لباب ہی یہی تھا کہ گھر میں صحت یابی لانے کے واسطے گھاس، سبزہ درخت، پھل، پھول، رنگ خوشبو انتہائی ضروری ہیں۔
نفرت و سنگدلی کے علاج کے لیے لکھا تھا کہ یہ اخلاقی امراض پھولوں کے گلدستوں کو ہر روز کم از کم دس منٹ تک دیکھتے رہنے سے چند روز میں دور ہوجاتے ہیں۔
کتنی ہی نفسیاتی ایسی الجھنیں اور بیماریاں ہیں جن کا علاج فقط خوب صورت و سرسبز مقام کی سیر سے آسان ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ جڑی بوٹیوں، درختوں ان کے پتوں، پھولوں پھلوں وغیرہ سے جو مزید فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ تو واقعتا شمار و اعداد سے اوپر کی باتیں ہیں۔
شاید و باید کوئی انسان ایسا ہو جس کا بچپن پیڑوں سے لٹکتے اور درختوں کی ٹھنڈی چھاﺅں تلے کھیلتے نہ گزرا ہو۔درخت سے انسانیت کا رشتہ بہت پرانا ہے۔
گیہوں کے خوشے جو جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کی آزمائش کے لیے لگائے گئے، حضرت آدم علیہ السلام سے نادانستگی میں خطا ہوئی، گندم کا دانہ کھالیا، جس کے سبب سر سبز و شاداب جنت سے دنیا میں اتارے گئے، اس موقع پر بھی انھوں نے اپنا ستر ڈھکنے کے لیے درختوں کے پتوں سے پردہ پوشی کی۔
حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے آزاد ہوئے، تب بھی اللہ کے حکم سے کدو کی بیل کے ذریعے نبی علیہ السلام کی مدد کی گئی۔
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بارہ سال کی عمر میں شام کی جانب مسافر ہوئے تو راستے میں بحیرا راہب کی خانقاہ کے قریب جس درخت کے سایہ تلے سرور کائنات علیہ السلام نے چھاﺅں حاصل کی، وہ جاوداں درخت آج بھی رسول کریم علیہ السلام کے معجزے کا واضح نشان ہے۔
طائف کے باسیوں کو اسلام کی دعوت دینے کی خاطر جب ہمارے پیغمبر نے وہاں کا رخ کیا اور پھر وہاں کے رہنے والوں نے اسلام کی تبلیغ کو مجرم قرار دیتے ہوئے بدترین سلوک کرکے ہمارے نبی کو زخمی کیا جب نبی¿ شفیق صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خون سے نعلین اطہر تر ہوگئے، تب عتبہ بن شیبہ کے انگوروں کے باغ میں رحمة للعالمین علیہ السلام نے آرام فرمایا۔
جہاں نبی کی جدائی میں سسکتا کھجور کا تنا (منبر) امر ہوا تو وہیں کیکر کا درخت بیعتِ رضوان کی یادگار ہے جب اس درخت تلے بیٹھ کر نبی علیہ السلام نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی اور یداللہ فوق ایدیھم کا انعام پایا۔
ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کا وہ باغ جو انھیں بہت ہی محبوب تھا، اللہ کی راہ میں اس لیے صدقہ ہوا کہ لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آیت نازل ہوئی۔ یعنی تم اس وقت تک نیکی نہیں پاسکتے جب تک اپنی پسندیدہ و محبوب شے صدقہ نہ کردو۔ ہمارے نبی علیہ السلام کا ارشادِ عالی ہے کہ تم جنت کے باغوں میں سیر کرتے رہو، دریافت کرنے پر فرمایا کہ ذکر کی مجلسیں جنت کے باغ ہیں۔
کیا خیال ہے جنت میں باغ نہ لگائے جائیں….!؟
قرآن پاک میں اللہ نے اہلِ سبا کے باغ کا بھی ذکر فرمایا ہے جن کا باغ اس قدر گنجان اور ثمریاب تھا کہ اگر ایک کنارے سے کوئی شخص خالی ٹوکری سر پر رکھ کر داخل ہوتا تو باغ کے دوسرے کنارے سے نکلتے ہوئے وہ ٹوکری پھلوں سے بھر چکی ہوتی مگر اہلِ سبا کی ناشکریوں کے سبب اللہ نے وہ باغ جھاڑ جھنکاڑ کی صورت میں بدل دیا۔
نبی علیہ السلام کا فرمان اقدس ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ اللہ ہم سب کی قبروں کو جنت کا باغ بنائے، آمین!
ایک اور حدیث بھی پڑھتے چلیں کہ ارشادِ فخر موجودات علیہ السلام ہے:
مَابَینَ بَیتِی وَ مِنبَرِی رَوضَة مِّن رِیَاضِ الجَنَّةِ۔
”میرے گھر اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک بات ہے۔“
یہ مسجدِ نبوی کی وہی جگہ ہے جسے آج زمانہ ریاض الجنہ کہتا ہے۔ اللہ ہم سب کو وہاں بار بار مقبولیت کے ساتھ حاضری نصیب فرمائے۔ آمین!
ایک اور ارشاد بھی فرمایا کہ اللہ اس شخص کو سر سبز و شاداب رکھے جس نے میری احادیث کو غور سے سنا اسے یاد کیا اور آگے پہنچایا۔
یہاں ہم سرسبزی و شادابی کے ضمن میں جنت ارضی کا بھی ذکر کرتے چلیں…. جنت کا معنی ہوتا ہے باغ اور مشہور شعر ہے کہ
یارانِ جہاں یہ کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
اس جنتِ ارضی کو کفار سے بچانے کے لیے تگ و دو کرنا بھی تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے اور اب مزید کیا کہیں؟بس عزم کیجیے کہ جہاں تک ہوسکے دنیا وآخرت کے فوائد کے لیے، دونوں جہانوں میں باغات اپنے نام کرائیے۔
اللہ ہم سب کو تا ابد سرسبز و شاداب رکھے، آمین!
٭٭٭