skip to Main Content
سب جھوٹے ہیں؟

سب جھوٹے ہیں؟

اعظم طارق کوہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاصم کے نئے انکشاف نے سب کو حیرت سے اُچھلنے پر مجبور کردیا۔ کیا صورتحال اس حد تک جاسکتی ہے۔ وہ سب یہی سوچ رہے تھے۔ اُن کے چہروں پر پریشانی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ وہ ساتویں جماعت کے ۷ لڑکے تھے۔ جو اس مسئلے کو انتہائی سنجید گی کے ساتھ لے رہے تھے اور مسئلہ تھا بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے والا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ ان کے مستقبل کے ساتھ گھناؤ نا کھیل کھیلا جارہا ہے اور انہیں ہی کچھ کرنا پڑئے گا۔ 
آج عاصم نے انکشاف کیاکہ شام کو گراؤنڈ جاتے ہوئے اس نے اسکول میں ’’ستار‘‘ اور اس کے ساتھیوں کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ سب گاؤں کے بدمعاش لوگ تھے اور اس کھنڈر نما اسکول سے بہترنشے والی جگہ بھلا انہیں کہاں مل سکتی تھی۔جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ عاصم کے اس انکشاف سے پہلے ہی اسکول کی حالت کافی دگرگوں تھی۔ اساتذہ اسکول سے غائب تھے۔ سخت گرمی میں پنکھے موجود نہیں تھے۔ اسکول سے روزانہ ایک ڈیسک یا کرسی گم ہوجایا کرتی تھی۔ اسکو ل کا پلستر جگہ جگہ سے اُکھڑ چکا تھا۔ اسکول کچھ اس طرح بنا ہوا تھاکہ بارشوں کا سارا پانی اسکول میں ہی پناہ لیتا تھا۔ پورے گاؤں میں یہ ایک ہی اسکول تھا اور اس کی بھی حالت کولہو کی بیل جیسی ہورہی تھی۔ چھت کے بارے میں گمان گزرتا تھا کہ اب گری کے تب گری۔
’’اب ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ عثمان غصے سے آگ بگولہ ہو تے ہوئے بولا۔ 
’’سب نے ہمارے اسکول کو مذاق بنا رکھا ہے۔ جن کے لیے اسکول بنا ہے۔ وہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور باہر سے بدمعاشوں کے گروہ نے اسکول کو شراب خانہ بنا رکھا ہے۔‘‘
’’کیا کریں گے ہم؟۔۔۔ زیادہ سے زیادہ اس پرنسپل کے نام درخواست لکھیں گے۔ جو ہفتے میں ایک دن اپنا دیدار کراتے ہیں۔‘‘ امجد جذباتی تھا مگر معاملات پر کانی گہری گرفت تھی حالانکہ اس کی عمر ابھی ۱۳؍سال تھی۔ ’’اب تک ہم سیکڑوں درخواستیں پرنسپل کو تھما چکے ہیں۔ وہ اس بات کو روتے ہیں کہ ہمیں فنڈ نہیں ملتا۔ پرنسپل سے اوپر اگر انسپکٹر کو شکایت کرو تووہ حکومت کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں۔ 
’’اب درخواستیں گئی بھاڑ میں! ہم پورے گاؤں والوں کو اکھٹا کریں گے۔ اور۔۔۔‘‘ قاسم نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’اور کیا!‘‘ سب ایک ساتھ بولے۔
’’اور یہ کہ متعلقہ بورڈکے خلاف قرارداد پاس کریں گے۔‘‘ قاسم کی بات ختم ہوتے ہی سب پر خاموشی چھاگئی۔ سب قاسم کو عجیب سی نظروں سے گھور رہے تھے۔ ان کی ٹیم کا گروپ لیڈر امجد آہستہ آہستہ چلتا ہوا قاسم کے پاس آیا اور دوسرے لمحے قاسم کے سر پر چپت رسید کرتے ہوے کہا:’’ کبھی کبھی کھوٹے سکے بھی کام آجاتے ہیں۔‘‘
جواب میں قاسم نے برا سا منھ بنایا۔ معلوم نہیں اس نے یہ برا سا منھ کھوٹے سکے کا خطاب ملنے پر بنایا یا امجد کی چپت رسید کرنے پر۔

*۔۔۔*۔۔۔*

گاؤں کے معزز افراد اسکول میں جمع تھے۔ اسکول کے بچے ان کو دیکھ کر چہ مگوئیاں کررہے تھے۔ ان میں سے جو سب سے عمر رسیدہ شخص تھے۔ وہ بولے:’’یہ ہیڈ ماسڑ کہاں مرگیا۔ ہمیں تو اس نے دعوت نامہ بھیجا کہ آج اسکول میں پروگرام ہے اور خود ابھی تک آیا نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کو کس نے کہا کہ آج اسکول میں پروگرام وغیرہ ہے۔‘‘ یہ حساب کے سر امتیاز تھے۔ جو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو آیا کرتے تھے۔ 
’’ہمیں بچوں نے کارڈ دیے تھے۔۔۔یہ دیکھو۔۔۔اس میں لکھا کہ معززین کے لیے ایک نشست کا اہتمام ہے۔ شرکت فرما کر ممنون فرمائیں۔‘‘ ایک دوسرے عمر رسید شخص نے کہا۔ سر امتیاز نے ہاتھ سے لکھے اس دعوت نامے کو غور سے دیکھا،ان کے چہرے پر شکنیں نمودار ہوگئیں اورایک جانب انگوٹھا منھ میں لیے ہوئے بچے کو اشارہ کر کے اپنے جانب بلایا۔ ’’جاؤ ہیڈ ماسٹر سے کہو کہ اسکول میں گاؤں کے چودھری سمیت سیکڑوں افراد آئے ہیں۔ جلدی سے آجائیں۔ لوگ آپ کا پوچھ رہے ہیں۔‘‘ سر امتیاز نے سر گوشی کی۔ سر کی بات سن کر بچہ بھاگتا ہوا اسکول سے نکل گیا۔ 
’’بلاؤ ہیڈ ماسٹر کو آخر چکر کیا ہے؟‘‘
’’بس جناب! آپ انتظا ر کریں ابھی آتے ہی ہوں گے۔ آپ کا اپنا اسکول ہے۔‘‘ سر امتیاز نے زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔ تھوڑی دیر میں ہیڈ ماسٹر دھوتی باندھے ہوئے ہانپتے کانپتے اسکول میں داخل ہوئے۔ 
دعوت نامہ پڑھ کر انہوں نے بھی اپنا سر پیٹ لیا۔ نجانے کس بچے کی شرارت تھی کہ سر کی حالت خراب ہوئے جارہی تھی۔ اسکول کے تمام بچے جو آج نہیں بھی آئے تھے۔ وہ بھی گھروں سے نکل کر اسکول آگئے۔ اسکول کا ویران میدان آج بچوں اور بڑوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔ قریب تھا کہ چودھری اپنی پلٹن کولے کر اس بھیڑ میں سے نکل پڑتے۔ اچانک ایک ننھی آواز سنائی دی۔
’’رُکیے چودھری صاحب! آپ ایسے نہیں جاسکتے۔‘‘
سب نے آواز کی سمت دیکھا۔ دو تین کر سیوں کو ایک دوسرے پر کھڑا کر کے امجد کسی لیڈر کی طرح کھڑا تھا۔ تین بچوں نے کرسیوں پر اپنی گرفت رکھی تھی کہ کہیں لیڈر زمین بوس نہ ہوجائے۔
’’یہ کس کا پتر ہے۔‘‘ چودھری نے ہیڈ ماسٹر کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’یہ کرم دین کا لڑکا ہے۔ لگتا ہے یہ شرارت اسی کی ہوگی۔ یہ پہلے بھی۔۔۔‘‘ پرنسپل بولتے بولتے خاموش ہوگیا۔ اُسے اندازہ تھاکہ مزید زبان کھولنے کا مقصد اپنے آپ کو پھنسوانا ہے۔ 
’’چودھری صاحب اور گاؤں کے معزر لوگو! کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ ہمیشہ پسماندہ رہیں۔ کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کے گاؤں کے بچے بڑوں کی عزت کرنا چھوڑدیں۔ کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ علم حاصل نہ کرسکیں۔‘‘امجد نے باقاعدہ تقریر شروع کردی۔
’’نا پتر ہم بھلا ایسا کیوں چاہنے لگے۔‘‘ چودھری کرامت بے ساختہ بول پڑا۔ 
’’تو پھر کیوں ہمیں ’’ستار ‘‘ جیسا بدمعاش بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ گاؤں کا یہ اسکول موہنجودڑو کا کوئی حصہ لگنے لگا ہے۔ اسکول کو ملنے والے فنڈ سے لوگوں نے کوٹھیاں ڈال لی ہیں۔ گاڑیاں خرید لی گئی ہیں۔۔۔ اسکول کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ چھت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب گر جائے۔۔۔‘‘ امجد سانس لینے کے لیے خاموش ہوا تو اچانک ہلکے سے دھماکے کی آواز سنائی دی۔
’’یہ کیا ہوا!؟‘‘ سب نے گردن موڑ کر عجیب منظر دیکھا۔ اسکول کی ساتویں جماعت کی چھت زمین بوس ہوچکی تھی۔ یہ اتفاق تھا یا پھر ہیڈ ماسٹر کی شامت آئی ہوئی تھی۔ چودھری بھی اندر تک کانپ اٹھا۔ یہ اچھا تھا کہ بچے کلاس سے باہر تماشا دیکھنے میں محو تھے ورنہ۔۔۔ لوگ چھت گرنے پر حیران تھے کہ ایک انہونی مزید ہوگئی۔ تھوڑی دیر میں ہی لوگ پھر سے پرجوش ہوگئے۔ 
امجد ایک بار پھر گویا ہوا۔ ’’چودھری صاحب! ہم قرار داد پاس کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسکول کو ۔۔۔‘‘
’’اوئے خاموش ۔۔۔‘‘ چودھری کرامت حلق کے بل چیخ پڑا۔ چاروں جانب موت جیسی خاموشی طاری ہوگئی۔ چودھری کرامت کا چہرہ غصے سے لال انگارہ ہوگیا۔ اسے شاید ہی پہلے کسی نے اس قدر غصے میں دیکھا تھا۔ میرے سامنے اس ’’قرارداد‘‘ کا نام مت لینا ۔۔۔نام مت لینا۔۔۔‘‘
’’قرارداد پیش کرنا ہمارا حق ہے۔‘‘ شعیب منمنایا۔
’’سب منا فق ہیں۔۔۔ سب جھوٹے ہیں۔۔۔سب دغے باز ہیں۔ پورے مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ’’آج سے کئی سال پہلے بھی ہم نے اسی دن قرارداد پاس کی تھی۔‘‘ چودھری کرامت کی غراہٹ سنائی دی۔ 
’’آج تو ۲۳ مارچ بھی ہے۔ قرارداد پاکستان کا دن۔‘‘ قاسم نے شعیب کے کان میں سر گوشی کی۔ 
’’ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا کہ یا رب ہم اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کریں گے۔آزادی کے ساتھ عبادات کریں گے۔ اسلامی ثقافت کو فروغ دیں گے۔۔۔لیکن ہم سب منافق نکلے۔۔۔ہم نے گڑگڑا کر ۔۔۔رو رو کر ۔۔۔حتیٰ کہ خانہ کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کر دعا کی۔۔۔ہم نے ۱۰؍ لاکھ لوگوں کے مجمع سے وعدہ لیا۔ ۲۳ مارچ ۔۔۔سب کو یاد ہوگا ۔۔۔لیکن ۔۔۔ہم نے دھوکہ دیا۔دھوکہ۔‘‘ نجانے کیوں آج دوسروں کے آنسو پونچھنے والا چودھری کرامت کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہے جارہی تھی۔
’’پتا ہے کس کو دھوکہ دیا۔۔۔اللہ کو ۔۔۔ہم سب دھوکے باز نکلے۔۔۔آج ہم کیوں مشکلات کا شکار ہیں ۔۔۔ہمارے شہر اور گاؤں محفوظ نہیں رہے۔ ‘‘چودھری کرامت کو کھانسی آگئی۔’’اس ملک میں اسلام کے علاوہ سب چیزوں پر عمل ہورہا ہے۔ جن انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ ان ہی لوگوں کے دن اتنے جوش اور جذبے سے مناتے ہیں کہ اتنا جوش اور جذبہ تو وہ لوگ بھی نہیں لاسکے۔ ہماری عیدیں پھیکی ہوگئی ہیں اور ہم فادر ڈے، مدر ڈے اور ویلنٹائن ڈے جیسے دنوں کے منانے کے لیے رہ گئے۔ ‘‘گاؤں کے بوڑھے تو باقاعدہ رونے لگے۔
’’ہم سب نے اپنے رب کو دھوکہ دیا ۔۔۔ہم سب دھوکے باز ہیں۔‘‘ چودھری کرامت نے سب کو رلا دیا تھا۔ 
’’کوئی قرارداد نہیں ہوگی۔‘‘ گاؤں کے بزرگ رشید چاچو نے غمزدہ ہوکر کہا۔ 
’’اب مزید دھوکے دینے کی ہمت نہیں رہی۔ ہم بغیر قرارداد کے کام کریں گے۔۔۔تم ہمارا مستقبل ہو۔۔۔‘‘
’’جن لوگوں نے اس اسکول کو نقصان پہنچایا ہے۔۔۔سب کو فارغ کردیا جائے گا۔‘‘ چودھری کرامت روئے جارہا تھا اور بولے جارہا تھا۔
امجد چلتا ہوا چودھری کے پاس آیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہنے لگا: ’’یہ ٹھیک ہے کہ اس ملک کے باشندوں نے ا س ملک میں اسلامی نظام کو نافذ نہ کر کے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیا ہے۔ لیکن ۔۔۔اب ہم ہیں نا۔۔۔ہم کوشش کریں گے۔ہم ان غلطیوں کی تلافی کریں گے۔ جو ہمارے بڑوں نے کی ہیں‘‘۔۔۔ امجد کی اس بات پر فضا اللہ اکبر کی آواز سے گونج اُٹھی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

ہیڈ ماسٹر اور انسپکٹر سمیت صرف تنخوا ہیں لینے والے اساتذہ کو نکال باہر کر دیا گیا اور ۶ ماہ کے اندر اندر اسکول کی حالت اتنی اچھی کردی گئی کہ آس پاس کے تمام گاؤں میں سب سے خوب صورت اسکول کہا جانے لگا۔ گاؤں کے لوگ ساتویں جماعت کی چھت کی زمین بوسی پر آج تک حیران ہیں لیکن صرف امجد کے اس شرارتی ٹولے کے علاوہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ چھت گرانے کے لیے انہیں کتنی محنت کرنی پڑی تھی۔لیکن اس سے بہرحال و ہ فائدہ نہیں اُٹھاسکے تھے، جس کا وہ سوچ رہے تھے لیکن عین وقت پر معاملہ اس سے زیادہ احسن انداز سے حل ہوا تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top