skip to Main Content

رابنسن کروسو

ناول: Robinson Cruso
مصنف: Daniel Defoe
مترجم: ستار طاہر
۔۔۔۔۔
 جہاز کی تباہی
میرا نام رابنسن کروسو ہے اور میں یارک شائر برطانیہ کا رہنے والا ہوں۔میرے والد مجھے ہمیشہ سمندری سفر سے منع کرتے تھے جبکہ مجھے سمندری سفر کا جنون تھا۔ اٹھارہ برس کی عمر ہوگی کہ جب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی روزی کمانے کے لئے سمندری سفر کو وسیلہ بنانا چاہیے۔ والد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود میں مختلف قسم کا مال تجارت لے کر لندن سے ایک تجارتی جہاز پر سوار ہو کر گنی کی طرف روانہ ہوا۔
پہلا سفر ہی بڑا بدقسمت رہا۔ سمندر کے بیچ میں بحری قزاقوں نے جہاز پر حملہ کیا اور سب کچھ لوٹ کر جتنے مسافر تھے، انہیں غلام بنا کر بیچ دیا۔ مجھے خریدنے والا ایک ترک تھا۔ دوسال تک میں اس کی غلامی کرتا رہا۔ پھر اپنے ایک غلام ساتھی کے ساتھ فرار کا منصو بہ بنایا۔ اس بے چارے کو بھی سمندری لہریں بہا کر لے گئیں۔ میں نے کئی خطرات کا سامنا کیا۔ ایک جنگل میں جو جنگلی درندوں سے بھرا ہوا تھا، ایک حبشی قبیلہ میرا میزبان بنا اور میں کئی دنوں تک ان کا مہمان رہا۔ پھر جب ایک تجارتی جہاز کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ لوگ مجھے ایک چھوٹی سی کشتی میں بٹھا کر جہاز تک چھوڑ آئے۔ جہاز کا کپتان بڑا اچھا اور مہربان انسان تھا، اس نے مجھے جہاز میں بٹھایا، میری ضرورتیں پوری کیں اور کرایہ لئے بغیر مجھے برازیل پہنچا دیا۔ میں نے کئی ماہ وہاں مزدوری کی۔ پیسہ پیسہ جمع کیا اور کچھ سامان خریدنے کے بعد لندن روانہ ہوا۔ یہ سامان لندن میں اچھے داموں بک گیا۔
اگرچہ میں اس بحری سفر میں مرتے مرتے بچا تھا اور غلام تک بنا لیا گیا تھا، لیکن میرے دل سے سمندری سفر کا شوق نہ نکلا۔ دل میں بھی یہ بات سما گئی کہ پھر سفر کرنا ہے اور قسمت آزمانی ہے۔ یوں پھر سے سامان تجارت خریدا اور ایک بار پھر سمندری جہاز پر سوار برازیل کی طرف روانہ ہوا۔
ہمارا یہ جہاز ایک سو بیس ٹن وزنی تھا۔ چھ توپیں اس پر نصب تھیں۔بیس سے زائد لوگ اس پر کام کر تے تھے۔گرم مصالحے اور کپاس سے لدا جہاز اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا، کہ موسلادھار بارش شروع ہوئی اور جہاز سمندری طوفان میں یوں ڈولنے لگا، جیسے کوئی کھلونا ہو۔ جہاز کا کپتان تجربہ کار تھا، لیکن زبردست طوفان کے سامنے کر بھی کیاسکتا تھا۔طوفان تھا، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور جہاز کی قسمت بھی خراب تھی کہ اس کا رخ سمندر میں ابھری چٹانوں کی طرف ہوگیا، لنگر ٹوٹ گیا۔۔۔کسی اور کو تو کیا، خود کپتان تک کو معلوم نہیں تھا کہ جہاز کس طرف جارہا ہے۔ سامنے بڑی بڑی چٹانیں دکھائی دے رہی تھیں اور ہوائیں اتنی طاقت ور، کہ انہوں نے جہاز کو دھکیل کر ان نوکیلی چٹانوں سے ٹکرا دیا۔ایک زبردست دھماکہ ہوا،جہاز کے دو ٹکڑے ہو گئے!
میں اپنے آپ کو کسی مبالغے کے بغیر بڑا ماہر تیراک سمجھتا ہوں، لیکن میں اس وقت بپھرے ہوئے سمندر کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ جوان تھا، تنومند تھا اس لئے میں تیرتا ہوا ان چٹانوں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر جو کچھ میں نے دیکھا وہ انتہائی ہولناک تھا۔کپتان کا سر پھٹا ہوا تھا اور اس کی لاش میرے سامنے بہہ رہی تھی۔ جہاز کے کئی اور ملازموں کی لاشیں بھی بہتی ہوئی میرے قریب سے گزریں۔ آس پاس بہت سی چیزیں بہہ رہی تھیں۔ ان میں ایک چھوٹی سی کشتی بھی تھی۔ پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے ، میں کسی نہ کسی طرح اس کشتی تک پہنچ ہی گیا۔
کشتی میں اپنے آپ کو گرانے کے بعد، میں گویا بے ہوش ہونے لگا۔ میرا پیٹ سمندر کے کڑوے پانی سے بھر گیا تھا۔ الٹا لیٹا تو پانی پیٹ سے نکلنے لگا۔ پھر یکدم طوفان کا زور ٹوٹ گیا۔ یوں لگتا تھا کہ طوفان کا مقصد یہ تھا کہ جہاز ٹوٹ جائے، کپتان اور دوسرے لوگ ہلاک ہو جائیں۔ اب ہوا کی تیزی بھی کم ہوگئی تھی اور بارش بھی ہلکی ہوگئی تھی۔ جہاز چٹانوں میں پھنسا ہچکولے کھا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ میری کشتی کے پیچھے ساحل ہے، جس کے اونچے اونچے درخت صاف دکھائی دے رہے تھے۔
قدرت مجھ پر مہربان تھی، ایک زبردست پانی کی لہر نے میری کشتی کو اچھالا اور ساحل کی ریت پر لا پھینکا۔ میں بہت دیر تک وہیں ریت پر لیٹا رہا۔ ہلکی بارش میرے جسم پر برستی رہی۔ سانس لے کر، ہمت کر کے میں نے سر اٹھا کر جزیرے کی طرف دیکھا۔ یہ ایک انوکھا جزیرہ تھا۔ درخت کم تھے۔ اونچی چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔
دو ڈھائی فرلانگ کے فاصلے پر سمندر میں جہاز، دو ٹکڑے ہو کر چٹانوں میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ کشتی جو مجھے ساحل تک لائی تھی، اس کے ایک طرف کے تختے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے۔
میں نے سچے دل سے خدا کا شکر ادا کیا، جس نے میری جان بچائی تھی۔اس خوفناک اور جان لیوا طوفان نے جہاز کے ٹکڑے کر دیئے تھے اور میرے خیال کے مطابق تمام ملاحوں کو ڈبو کر ہلاک کر دیا تھا۔ کپتان اور بہت سے ملاحوں کی لاشیں تو میں نے خود طوفانی لہروں میں بہتے دیکھی تھیں۔ اگر باقی لوگ زندہ ہوتے، تو ساحل پر نظر آتے، لیکن ان میںسے کوئی بھی ساحل پر نہیں تھا۔میں اکیلا ہی زندہ و سلامت ساحل تک پہنچا تھا اور اس کے بعد میں نے اپنی زندگی میں ان ملاحوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا۔
میں سمندر کو دیکھ رہا تھا۔لہریں کئی چیزیں بہا کر ساحل کی ریت تک لا رہی تھیں۔ ملاحوں کی ٹوپیاں اور جوتے تھے۔ میں نے ایک سرخ ٹوپی اٹھائی، اسے نچوڑا، جھاڑا اور اپنے ننگے سر پر پہن لی۔اسی طرح اپنے پیروں میں پورے آنے والے بوٹ اٹھائے، ان میں سے پانی نکالا اور پاؤں میں پہن لیا۔
میرے کپڑے تو گیلے تھے ہی، لیکن قمیص کہنیوں سے پھٹ گئی تھی۔بہرحال میں زندہ تھا اور اس پر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا۔
 سنسان جزیرہ
قدرت کے رنگ نیارے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے بادل غائب ہوئے اور دھوپ نکل آئی۔
میں زندہ تو تھا، لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کھانے کو نہ پینے کو۔ بھوک اور پیاس نے تنگ کر رکھا تھا اور قدرت نے مجھے اس ویران اور خوفناک جزیرے میں بھوکا پیاسا مرنے کے لئے لا پھینکا تھا۔ میری جیب میں لکڑی کا بنا ہوا تمباکو پینے کاپائپ اور تمباکو کا چمڑے کا بٹوا رہ گیا تھا۔ تمباکو بھیگ چکا تھا۔ میں نے تمباکو کو سوکھنے کے لئے دھوپ میں رکھ دیا۔ میرے پاس دیا سلائی بھی نہیں تھی کہ تمباکو کے کش ہی لگا سکتا۔ میں بہت پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے۔ پیاس کی شدت نے بہت تنگ کیا ہوا تھا۔ سامنے سمندر تھا لیکن اس کا پانی تو پیا نہیں جا سکتا تھا۔ پانی کی تلاش میں اٹھ کر چلنے لگا۔ سمندر کے کنارے کنارے چلتے ایک گڑھا دیکھا جس میں بارش کا پانی جمع ہوا تھا۔ یہ میٹھا پانی پیا تو پیاس بجھ گئی لیکن پھر بھوک نے ستانا شروع کر دیا۔ جو درخت نظر آ رہے تھے۔ ان پر کوئی پھل نہیں تھا۔ شام بھی سر پر کھڑی تھی۔ جزیرے کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہاں کیسے کیسے درندے رہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ مجھے رات کسی درخت پر بسر کرنی چاہیے۔ میں بہت تھک گیا تھا، اس لئے سونے کے لئے ایک درخت کا انتخاب کر کے اس پر چڑھ گیا۔ شدید تھکن کا یہ فائدہ ہوا کہ میں جلد ہی سو گیا۔
اگلے دن جب میں بیدار ہوا تو دن چڑھ چکا تھا۔ ہر طرف دھوپ تھی۔ درختوں پر پرندے چہک رہے تھے۔ میں درخت سے نیچے اترا۔ سمندر اب بالکل پرسکون تھا۔ جیسے کبھی طوفان آیا ہی نہ ہو۔ لیکن چٹانوں میں پھنسا ہوا، ٹوٹا ہوا جہاز زبردست طوفان کی گواہی دے رہا تھا۔ یہ جہاز کبھی پورا تھا۔ اس پر انسانوں کے قہقہے گونجتے تھے لیکن اب وہ سب مر چکے تھے۔ ان کی یا د نے مجھے رلا دیا۔
میں نے جہاز پر جانے کا ارادہ کر لیا، کیونکہ جہاز پر جانا میری زندگی کے لئے بے حد ضروری تھا۔ وہاں سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں ملنے کی امید تھی۔ میں اپنی ٹوٹی کشتی میں بیٹھا، جس کا پیندا صحیح سلامت تھا، لیکن چپو طوفان میں بہہ گئے تھے۔ میں نے کشتی کو کھینچ کر سمندر میں پہنچایا اور پھر اس پر سوار ہوا، ہاتھوں کی مدد سے میں نے کشتی کو جہاز کی طرف لے جانا شروع کیا۔
چپو نہ ہوں تو کسی کشتی کو کھینا بہت مشکل ہوتا ہے، جبکہ کشتی بھی ٹوٹی پھوٹی ہو۔ بہرحال میں ہمت کر کے کشتی کو چٹانوں تک لے ہی گیا، جہاں جہاز کا آدھا حصہ پھنسا ہوا تھا۔ جہاز کا دوسرا آدھا حصہ پانی میں غرق ہو چکا تھا۔
کشتی سے اتر کر اسے ایک چٹان کے کنارے سے باندھا۔ رسی کی مدد سے آدھے جہاز کے اوپر آیا۔ جہاز یوں ٹوٹ کر الگ ہوا تھا، جیسے کسی نے چھری سے کیک کو کاٹ دیا ہو۔
جہاز کے باورچی خانے کا دروازہ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک چٹان کی نوک نے اس حصے میں ایک بڑا شگاف بنا دیا تھا۔ باورچی خانے کا سارا سامان سمندر میں ڈوب چکا تھا۔ میں کسی نہ کسی طرح آ گے بڑھتا رہا۔ کھانا پکانے کے تیل کے سارے کنستر بہہ چکے تھے۔ جہاز کے فرش پر مجھے ایک کلہاڑی دکھائی دی جسے میں نے اٹھا لیا۔ ایک الماری دیکھی، جو ابھی تک بند پڑی تھی، کلہاڑی سے اس الماری کو توڑا، الماری سے لکڑی کا ایک بڑا ڈبہ ملاجس میں بکری کے گوشت کے کچھ خشک ٹکڑے تھے، کچھ چاول تھے، کچھ پیاز، ایک تھیلا، جس میں بڑھئی کے کام کے سارے اوزار موجود تھے۔ ایک ایسا چھوٹا تھیلا ملا جس میں بارود اور چھرے بھرے ہوئے تھے۔ ایک بندوق اورا یک پستول بھی وہاں سے مل گئے اور پھر دیا سلائی بھی۔
اس سارے سامان کو ایک بوری میں ڈال کر کندھے پر اٹھایا، کشتی میں رکھا اور پھر کشتی کو جزیرے کے ساحل تک لے آیا۔ وہ درخت جس پر میں نے رات بسر کی تھی، اس کے ساتھ اس بوری کو لٹکا دیا۔ خشک گوشت کے کچھ ٹکڑے پیاز سے کھائے۔ آ گ جلا کر اپنے کپڑے خشک کئے۔ پائپ میں تمباکو ڈالا اور کش لگانے لگا۔ پھر پستول میں بارود بھر کر جزیرے کا چکر لگانے چل دیا۔ میں نے سن اور پڑھ رکھا تھا کہ برازیل میں ایسے جزیرے بھی ہیں جہاں آدم خور قبیلے رہتے ہیں۔
مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہ جزیرہ کس طرح کا ہے۔ میں سب سے پہلے یہی جائزہ لینا چاہتا تھا۔ اس لئے جب ایک پہاڑی ٹیلہ دکھائی دیا تو اس پر چڑھ کر جہاں تک نگاہ جاسکتی تھی، جزیرے کا جائزہ لیا۔
افسوس میں ایک ایسے جزیرے میں آ گیا تھا، جو چھوٹا تھا اور اسے چاروں طرف سے سمندر نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ چاروں طرف پانی تھا اور یہ چھوٹا سا جزیرہ۔میں واپس اس درخت کے پاس آیا جس پر رات بسر کی تھی۔ شام ہونے سے پہلے میں نے کلہاڑی سے درختوں کی ٹہنیاں اور شاخیں کاٹیں اور پھر انہیں اسی درخت کے چاروں طرف گاڑ کر ایک پنجرہ سا بنایا تاکہ کوئی جنگلی جانور حملہ نہ کر دے۔
تھوڑے دنوں کے بعد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ اس جزیرے میں میرے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔نہ انسان، نہ حیوان۔رات درخت پر سویا۔اب پیٹ بھرا ہوا تھا، اس لئے گہری نیند سویا۔
دوسرے دن پھر اٹھا، کشتی میں بیٹھا اور ٹوٹے ہوئے جہاز کا رخ کیا۔ اب تک یہ حقیقت معلوم ہو چکی تھی کہ یہ جزیرہ دنیا سے الگ تھلگ ہے اور عام تجارتی راستوں سے ہٹا ہوا ہے۔ جانے اب کب تک مجھے وہاں اکیلا رہنا تھا، اس لئے میں سمجھتا تھا کہ جہاز سے جو بھی کام کی چیز مجھے مل جائے، اسے جزیرے پر لے آؤں۔ اس دوسرے پھیرے میں جو چیزیں میرے ہاتھ لگیں ان کی تفصیل یوں ہے:
سونے کے 36 پونڈ، آٹھ جوڑے قمیص اور پتلون کے، یہ بے چارے ملاحوں کے کپڑے تھے جو سمندر میں غرق ہو چکے تھے، گندم کا ایک تھیلا، رسی کا ایک بنڈل، دیا سلائی کا بڑا بکس، دور بین، چقماق پتھر، پانی پینے کے مگ، تھالیاں، کیتلی اور ترپال۔
یہ سب سامان میں نے شاخوں اور ٹہنیوں سے بنے ہوئے پنجرے میں رکھ دیا، جو اس درخت کے نیچے بنایا تھا، جہاں میں رات کو سوتا تھا۔
میں نے اس رات درخت پر بسیرا نہیں کیا، بلکہ نیچے درخت کے پاس ہی سویا۔کیونکہ ان راتوں میں، جو گزریں تھیں، میں نے کسی درندے یا حیوان کی آواز نہیں سنی تھی۔ یہاں جزیرے میں جو پرندے تھے، وہ بھی سارا دن دکھائی نہ دیتے، صبح اڑ جاتے اور شام گئے آکر درختوں پر بسیرا کرتے تھے۔
اس شام پھر تیز سمندری ہوا چلنے لگی۔ جب میں سویا تو ہوا چل رہی تھی، جب صبح آنکھ کھلی اور میں نے چٹانوں میں پھنسے جہاز کی طرف دیکھا، تو جہاز کا وہ ٹوٹا ہوا حصہ، جو ان چٹانوں میں پھنسا ہوا تھا، وہ بھی ہواؤں کی یلغار نے توڑ پھوڑ کر غائب کر دیا تھا۔ جہاز کے ٹکڑے اور تختے جو پانی میں بہہ رہے تھے، میں نے جمع کر لئے۔
جہاز اب پورے کا پورا سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ میرا دل بہت اداس ہوا۔ تاہم یہ اداسی دور ہوئی تو یہ اطمینان دل میں پیدا ہوا کہ میں نے جہاز کے مکمل غرق ہونے سے پہلے پہلے ضروری چیزیں اس میں سے نکال لی تھیں۔ لیکن اب مجھے نئی سوچوں اور ضرورتوں نے گھیر لیا۔
 کیلنڈر
اب میرے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ میں اپنے رہنے کے لئے کوئی محفوظ جگہ تیار کروں۔ موزوں جگہ تلاش کرتے ہوئے مجھے ایک ایسی جگہ مل گئی، جو پہاڑی کے دامن میں تھی۔ یہاں چٹان کے پاس ایک گڑھا بھی تھا۔ میں نے جہاز کے تختے جوڑ کر نیم دائرے میں ایک دیوار بنا دی۔ پھر اس میں لکڑی کے ڈنڈے جوڑ کر ایک سیڑھی بنائی۔ یہ سیڑھی مستقل نہیں تھی، بلکہ اوپر رہائش کے لئے جو جگہ بنائی تھی، وہاں جا کر سیڑھی کو اوپر کھینچ لیتا تھا۔ یوں میں نے اپنے لئے محفوظ ٹھکانہ بنا لیا۔ جنگلی جانوروں کا اب مجھے کوئی خطرہ نہیں تھا۔
جہاز کی تباہی کے بعد اس جزیرے میں مجھے چار دن ہو گئے تھے۔ جزیرے کے جنگل سے گزرا تو ایک جنگلی بکرے کو دیکھا، جو چھوٹے قد کا تھا اور بہت تیز بھاگتا تھا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا لیکن وہ میرے ہاتھ نہ لگا۔ میں بھی اس کے پیچھے بھاگتا رہا۔ جنگل میں، میں نے دو تین اور جنگلی بکرے اور بکریاں دیکھیں۔ ایک کا بندوق سے نشانہ لیا تو وہ زخمی ہو کر گر پڑی۔ اسے اٹھا کر میں اپنے ٹھکانے میں لے آیا۔ اسے کاٹا، گوشت کے ٹکڑے بنائے اور سکھانے کے لئے دھوپ میں ڈال دیا۔کھال بھی سکھا کر لکڑی کی دیوار پر ڈال دی۔ ایک ہفتے میں، میں نے ایسی تین اور جنگلی بکریوں کو شکار کر کے گوشت محفوظ کر لیا۔ ان کا گوشت قدرے نمکین تھا، لیکن بہت مزیدار۔
اس جزیرے میں رہتے اب میں دنوں اور تاریخوں کو بھولنے لگا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دن اور تاریخیں مستقل میرے ذہن سے محو ہو جائیں، اس لئے میں نے ایک لکڑی کے تختے کو کاٹا اور اس کی ایک صلیب بنالی۔ اس صلیب کو میں نے اپنے ٹھکانے کے سامنے سمندر کے کنارے گہرا گاڑ کر اس پر اپنے چاقو سے لکھا:
’’میں اس جز یرے پر 30 ستمبر 1659ء کو آیا تھا۔‘‘
صلیب کے ڈنڈے پر میں نے چاقو سے سات لکیریں کھینچ دیں اور یوں اسے اپنے انداز کا کیلنڈر بنا لیا، جس سے میں دن اور تاریخیں یاد رکھ سکتا تھا۔
زندگی کی سب آسائشیں اور آرام پیچھے رہ گئے تھے۔ مجھے اپنے آپ کو مصروف بھی رکھنا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے آرام کے لئے چھوٹی چھوٹی چیزیں بنانے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو میں نے ایک درخت کو آری سے کاٹ کر نیچے گرایا، پھر کلہاڑی سے اس کے دو بڑے ٹکڑے کئے۔ چونکہ بڑھئی کا سارا سامان میرے پاس موجود تھا، اس لئے میں نے اس سے لکڑی کے تختے بنائے اور پھر ایک میز، ایک بھاری بھرکم کرسی اور ایک تخت تیار کیا۔ ان چیزوں کو میں اپنے کیبن کے اندر لے آیا۔ہاں، جہاز میں مجھے ڈائری، قلم اور سیاہی بھی ملی تھی۔میں نے یہ ڈائری لکھنی شروع کر دی۔ ہر روز جو ہوتا، جو کرتا، وہ اس ڈائری میں لکھ لیتا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب تک سیاہی ختم نہ ہوگئی۔
دل میں ایک آس تھی کہ کبھی کوئی جہاز اس جزیرے کے سمندر سے گزرے گا۔ اس لئے میں دور بین لگا کر دیر تک سمندر کی طرف بھی دیکھتا رہتا۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا اور مجھے ایسے لگتا کہ جیسے میں نے کسی جہاز کا بادبان دیکھ لیا ہے۔ دل خوشی سے اچھل پڑتا، لیکن وہ نظر کا دھوکا ہوتا اور پھر مایوسی سے آنکھیں آ نسو بہانے لگتیں۔ میں لکڑی کے اپنے ہی بنائے ہوئے تخت پر لیٹ کر دیر تک روتا رہتا۔
زندہ رہنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت پڑتی ہے۔اور اس جزیرے میں تو کوئی آدمی بھی نہیں تھا کہ میری کسی طرح سے مدد کر سکتا۔ اس لئے مجھے سب کچھ خود ہی سوچنا تھا اور خود ہی کرنا تھا۔
جہاز سے مجھے ایک چھوٹے سے تھیلے میں کچھ گندم ملی تھی۔ اس کے دانے میں نے اپنے ٹھکانے کے آس پاس چاروں طرف بکھیر دیئے۔
پھر اس جزیرے پر بارشوں کا موسم شروع ہوگیا۔سردی بڑھ گئی اور میں بیمار ہو گیا۔ تیز بخار نے مجھے آ لیا۔ چھ دنوں تک میں بخار میں تڑپتا رہا۔ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا۔ لیٹا رہتا، گھونٹ گھونٹ پانی پیتا۔ راتوں کو ڈرا دینے والے خواب دکھائی دیتے۔ کیبن کے باہر سے مسلسل بارش کا شور سنتا۔ میں بہت کمزور ہو گیا۔
سات دن گزرے تو بارش کے ساتھ ساتھ بخار کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ میں کیبن سے نیچے آیا اور یہ دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوا کہ میں نے گندم کے جو دانے بکھیرے تھے، وہ پھوٹ پڑے تھے ۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں اپنی کمزوری اور بخار کو بھول کر ناچنے لگا۔
تاہم اب ضروری تھا کہ گندم کے ان خوشوں کو پانی ملتا رہے، ورنہ وہ سوکھ جاتے۔پانی کی تلاش میں، میں جزیرے میں پھر نکلا۔ اس بار میں نے اس جزیرے کا بڑا حصہ دیکھ ڈالا اور میری تلاش کامیاب رہی۔
مجھے ایک چشمہ مل گیا!اس کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ اس کے قریب ہی جنگلی انگور کی بیلیں بھی لگی تھیں اور جنگلی تمباکو کی جھاڑیاں بھی۔ سب کچھ خودرو تھا۔ میں نے پانی سے اپنی مشک بھری اور انگور کے گچھے توڑ کر اپنے کیبن میں لے آیا اور انہیں سوکھنے کے لئے ڈال دیا، تاکہ ان کا منقیٰ بن جائے۔
گندم کی چھوٹی سی فصل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگی۔میں نے کیلنڈر بنا لیا تھا۔ جس سے میں دن اور تاریخ کا حساب لگا لیتا تھا۔اب مجھے اس جزیرے پر آئے دس مہینے ہو چکے تھے، کہ ایک دن اچانک ایک کتا، خدا جانے کہاں سے آیا، وہ میرے کیبن کے پاس بیٹھ گیا۔ شروع شروع میں وہ مجھ سے ڈرتا رہا، لیکن جب میں نے بکرے کے خشک گوشت سے اس کی تواضح کی، تو وہ میرے قریب آیا۔ میں نے اسے پیار سے سہلایا تو وہ میرے قدموں میں لیٹنے لگا۔ یوں ہماری رفاقت کا آغاز ہوا۔ دس مہینوں میں پہلی بار مجھے ایک وفادار جاندار ملا تھا۔ اس لئے میرے احساسات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ وہ کتا پھر میرے پاس ہی رہنے لگا۔
اس جنگل میں طوطے بھی تھے۔ کچھ طوطے میں نے پکڑ کر پنجرے میں ڈال رکھے تھے۔ کچھ مر گئے، کچھ میں نے اڑا دیئے لیکن ایک خوش رنگ، خاصا بڑا طوطا میرے پاس رہا۔ اب میں بندوق ہاتھ میں تھامے، سرخ ٹوپی پہنے، جنگل میں شکار کرنے یا پانی لینے جاتا تو یہ طوطا میرے کندھے پر بیٹھا ہوتا۔ جنگلی بکریاں جو پہلے غائب ہوگئی تھیں۔ اب پھر نظر آنے لگیں۔ میں نے دو بکریاں پکڑ کر اپنے کیبن میں باندھ دیں۔
ایک مدت کے بعد مجھے دودھ نصیب ہوا، جو بکری کا تھا۔ یوں میری صحت بہت اچھی ہوتی گئی۔ جسم طاقتور ہوتا گیا۔ چشمے کا ٹھنڈا میٹھا پانی، بکری کا دودھ اور بکری کا گوشت، ساری چیزیں طاقت بڑھانے والی تھیں۔ گندم کو پتھر پر پیس کر میں پتھر کے توے پر موٹی سی روٹی پکا لیتا تھا۔
سب چیزیں وافر تھیں۔صرف بارود تھا، جو آدھا رہ گیا تھا اور میں نے اسے محفوظ کر لیا تھا۔ اب بھی مجھے آدم خوروں کا ڈر رہتا تھا۔ حالانکہ اتنے عرصے سے اس جزیرے میں رہتے ہوئے میں نے کوئی آدم خور نہیں دیکھا تھا، لیکن میں وہمی ہو گیا تھا اور ان کا خوف دل سے نکلتا ہی نہیں تھا۔
 طوطا
میری یہ عادت بن گئی کہ میں صبح اٹھ کر خدا کا شکر ادا کرتا کہ جس نے مجھے زندگی دی اور ہر نعمت سے نوازا۔ یہ حقیقت ہے کہ مجھے اس جزیرے میں ہر نعمت میسر تھی۔اگر کوئی دکھ تھا تو صرف تنہائی کا۔جب میں شدید تنہائی محسوس کرتا تو میں اپنے پالتو طوطے اور کتے سے باتیں کر نے لگتا۔وہ میری باتوں کو تو کیا سمجھتے، لیکن اس طرح سے میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی اور کبھی میں یوں بھی سوچتا کہ میں ان کی زبان سیکھ گیا ہوں، جو خاص اشاروں پر مشتمل تھی۔جب طوطا دو بار ٹائیں ٹائیں کرتا تو میں سمجھ جاتا کہ وہ یہ کہہ ر ہا ہے کہ وہ بھوکا ہے۔جب وہ تین بار ٹائیں ٹائیں کر کے پر پھڑپھڑاتا تو وہ گویا مجھے یہ کہتا تھا کہ وہ جنگل کی سیر کے لئے جانا چاہتا ہے۔میں اس کے پاؤں کی رسی کھولتا اور اپنے کند ھے سے اڑا دیتا۔
طوطے کی عادت تھی کہ وہ ایک دو گھنٹے جنگل میں جا کر اپنا پیٹ بھر کے واپس میرے پاس آ جاتا، رات وہ کیبن کے درخت پر سوتا تھا۔
مجھے کئی باتیں سوجھتی تھیں، جو میری ضرورت سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ پرانی کشتی جو میرے پاس تھی، اب اس قابل بھی نہیں رہی تھی کہ اس کی مرمت کر کے اسے کام میں لایا جا سکے۔ اس لئے میں نے نئی کشتی بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے پاس ہر طرح کے اوزار اور سامان تو موجود تھا ہی اور درختوں کی بھی کیا کمی تھی۔ میں ایک ایسی کشتی بنانا چاہتا تھا، جیسی جنگلی قبیلوں کے پاس میں نے دیکھی تھی۔ ایسی کشتی تیار کرنے پر مجھے پورا ایک مہینہ لگا۔ میں نے دن رات کام کیا تھا۔ جس حد تک ممکن تھا، میں نے اپنی مرضی کی کشتی بنانے کی کوشش کی۔ لیکن میری ایک ماہ کی انتہائی محنت اکارت گئی، کیونکہ ایک بات تو میرے ذہن سے ہی نکل گئی تھی۔وہ کشتی اتنی بھاری اور وزنی بنی کہ میں اسے ہلا بھی نہیں سکتا تھا، سمندر تک کیسے لے جا تا۔! تو یہ بات میں کشتی بناتے وقت دل سے نکال بیٹھا تھا کہ جو کشتی میں تیار کر رہا ہوں، اسے سمندر تک بھی لے جا سکوں گا یا نہیں؟
بہرحال اپنی اس غلطی سے میں نے ہمت نہیں ہاری اور جو غلطی کی تھی اس سے بھی بہت کچھ سیکھا اور ایک دوسری کشتی بنانے میں مصروف ہو گیا۔ یوں پھر ایک ماہ کی سخت محنت کے نتیجے میں، میں ایک ایسی کھوکھلی اور اپنی مرضی کی کشتی بنانے میں کامیاب ہو گیا، جسے میں آسانی سے دھکیلتا ہوا سمندر میں لے گیا۔ میں بہت خوش تھا۔ سمندر میں اس کشتی پر میں نے پورے جزیرے کے گرد چکر لگایا۔جزیرے کا جنوبی حصہ بھی شمالی اور مشرقی حصے کی طرح ہی تھا، جہاں ایسی چٹانوں کی کثرت تھی جن پر سبز اور بھوری کائی جمی ہوئی تھی۔ ساحل کے ساتھ گھنے درخت تھے۔ میں نے یہ چکر سمندر کے کنارے کے ساتھ ساتھ لگایا، کیونکہ آگے سمندر کی بڑی لہریں تھیں اور میں کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔
سمجھوتہ
اس ویران اور سنسان جزیرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے چار سال کا عرصہ گزر گیا۔ میں ایک طرح سے اس جزیرے میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔ ان چار برسوں کا ہر دن لمبا اور ہر رات طویل تھی۔ ان چار برسوں میں کیسے کیسے خطرات تھے، جن کے احساس نے میرے دل کو لرزایا تھا اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ پورے چار برس گزر گئے تھے اور میں نے اس پورے عرصے میں کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی تھی اور ظاہر ہے جب میں نے کسی انسان کو دیکھا ہی نہیں تھا تو پھر بات کس سے کرتا!
اس خوف سے کہ میں اپنی انسانی زبان انگریزی ہی نہ بھول جاؤں، میں گھنٹوں اپنے طوطے اور کتے سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ میں تو ان سے انگریزی میں باتیں کرتا اور ان پر تو اس کا کچھ اثر نہ ہوا، لیکن میں محسوس کرنے لگا کہ ان کی زبان مجھ پر حاوی ہو گئی ہے۔ میں خاموش رہنے لگا۔ پھر طوطے اور کتے سے مختلف آوازوں اور اشاروں میں باتیں کرتا، جنہیں وہ آہستہ آہستہ سمجھنے لگے تھے۔ چار سال کا یہ عرصہ، انسانوں کے بغیر، اپنے شہر لندن سے ہزاروں میل دور، میں نے ایک کتے اور ایک طوطے کی رفاقت میں گزار دیا تھا۔ میں اپنے بچپن اور لڑکپن کے دوستوں کو یاد کرتا۔ ان کی شکلیں ذہن میں تازہ کرنے کوشش کرتا، لیکن ساری باتیں میری اداس اور تنہائی کو کم کرنے کے بجائے بڑھا دیتی تھیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں اپنے والد کو وہاں درخت کے پاس کھڑے دیکھتا، تو بے اختیار انہیں پکارتا ہوا آگے بڑھتا۔لیکن یہ محض میرا وہم ہوتا تھا، کیونکہ دوسرے لمحے میں تصور دھندلا جاتا اور سامنے کوئی بھی دکھائی نہ دیتا۔تب مجھے اپنے والد کی نصیحت یاد آتی، کہ وہ مجھے ہمیشہ سمندری سفر سے منع کیا کر تے تھے۔اگر میں ان کی بات مان لیتا، تو نہ آج یہ سب کچھ لکھ رہا ہوتا اور نہ ہی ان تلخ تجربات سے گزرتا، جن کی وجہ سے میں اس ویران اور بے آباد جزیرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا تھا اور خدا جانے ابھی مجھے کیا کیا دیکھنا اور کیا کیا بر داشت کرنا تھا۔
ان چار برسوں کے تجربات کی وجہ سے اب میں اس جزیرے میں باقاعدگی سے زندگی بسر کر رہا تھا، اب میں اپنے کھیت میں گندم کی فصل اگاتا تھا۔ گندم کو پیس کر اس کا آٹا بنا کر رکھ لیتا تھا۔ اس سے میری روٹی پکتی، جو میں بکری کے گوشت کے ساتھ کھاتا۔ دیا سلائی عرصہ ہوا ختم ہو گئی تھی، لیکن آ گ جلانے میں کوئی دقت پیش نہ آتی تھی کیونکہ چقماق کے پتھر موجود تھے۔ لباس کا بھی کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا۔ بکری کی کھال سے جیسی تیسی ایک جیکٹ اور کھلی تھیلا نما پتلون میں نے خود بنائی تھی۔ میری خوراک میں اب مچھلیاں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ میں اپنی مرضی کی کشتی بنا چکا تھا، اب اس پر سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ مچھلیاں پکڑنے نکل جاتا تھا۔ مجھے تمباکو پینے کی عادت تھی اور اس جزیرے میں خودرو جنگلی تمباکو کی کوئی کمی نہیں تھی۔
یہ ایک عجیب انوکھی زندگی تھی، جو میں بسر کر رہا تھا۔ میں ایک ایسا انسان تھا جسے تقدیر نے انسانوں کی بستیوں اور شہروں سے ہزاروں میل دور اس جزیرے میں لا کر اسی جزیرے میں رہنے کا پابند بنا دیا تھا۔ میں اس جزیرے کا آزاد قیدی تھا۔ اب میں انیس بیس برس کا لڑکا بھی نہیں رہا تھا۔ اب میری عمر چوبیس برس ہو چکی تھی۔ میں نے جو کیلنڈر بنایا تھا، وہ مجھے دنوں مہینوں اور برسوں سے باخبر رکھتا تھا، چونکہ وہ لکڑی جس پر میں لکیریں ڈال کر دنوں کا حساب رکھتا تھا، اب اس پر گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اس لئے میں نے اس کے قریب ہی ایک اور لکڑی گاڑ دی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ میری سرخ بحری ٹوپی پھٹ چکی تھی۔ جوتے بھی قابلِ استعمال نہیں رہے تھے، میں نے بکری کی کھال کی ٹوپی بنائی اور جو تے بھی۔
میری داڑھی اور سر کے بال بے تحاشا بڑھ چکے تھے۔ ناخن تو میں جہاز سے ملنے والی چھری سے باقاعدہ تراش لیتا تھا۔ کئی بار اس چھری سے میں نے داڑھی اور سر کے بال بھی کاٹے۔ لیکن پھر میں نے داڑھی اور سر کے بالوں کو کاٹنا چھوڑ دیا۔ بکری کی کھال سے میں نے ایک چھتری بھی بنالی تھی تا کہ بارش اور دھوپ میں باہر نکلنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔
جب میں باہر نکلتا تو طوطا میرے کندھے پر بیٹھا ہوتا، بغل میں بندوق ہوتی، گلے میں دور بین، سر پر بکری کی کھال کی ٹوپی، داڑھی اور سر کے بال لہراتے۔میں اپنا بادشاہ آپ تھا اور خود ہی اپنا خدمت گزار بھی تھا۔ لکڑی کی میز جو میں نے بنائی تھی، اس پر میں وہ کھانا چنتا جو میں نے خود پکایا ہوتا تھا۔ اپنی بنائی ہوئی کرسی پر کسی جلاوطن بادشاہ کی طرح یوں بیٹھتا کہ میرے دائیں بائیں طوطا، کتا اور دو بلیاں بھی کرسی پر بیٹھی ہوتی تھیں، جنہیں میں اپنی غذا سے ان کا پورا حصہ پیش کرتا تھا۔
میں نے تقدیر سے سمجھوتہ کر لیا تھا، کیونکہ اس کے سوا میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ میں ہر بات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھتا۔ جیسے بھی دن گزر رہے تھے، ان پر شاکر ہو گیا۔لیکن امید تو دل سے نہیں نکلتی۔ اس لئے میں ہر روز صبح اور شام کو کسی اونچی جگہ پر چڑھ کر دوربین سے سمندر کا جائزہ ضرور لیتا کہ شاید کوئی جہاز اس طرف آ تا دکھائی دے اور میں دھویں سے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکوں۔
مگر ان چار برسوں میں ایک بار بھی میں نے کسی جہاز کو ادھر سے گزرتے نہ دیکھا تھا۔ چار برسوں میں میرا کتا بوڑھا ہو گیا تھا۔ اب وہ ایک جھنجھلایا ہوا چڑچڑا کتاتھا۔ کسی بات پر خود ہی بھونکنے لگتا اور چکر کاٹنے لگتا۔ کبھی تیز تیز دوڑنا شروع کر دیتا۔
باقی رہا طوطا، تو اس کی گردن سے اس کے بال جھڑ جاتے تھے۔ مگر وہ کسی انوکھی نسل کا طوطا تھا کہ اس کے بال جھڑتے تو پھر وہیں نئے سرے سے بال اگ آتے تھے۔ پھر بھی وہ بوڑھا ہو رہا تھا اور بڑھاپے کے آثارصاف دکھائی دینے لگے تھے۔
اور میں بھی بہت بدل گیا تھا۔ اس جزیرے میں رہتے ہوئے ان چار برسوں میں میری گوری رنگت سانولی ہوئی اور پھر جلد کا رنگ سیاہ ہونے لگا۔ میرے حلیے اور رنگت کو دیکھ کر، اگر میں اس حالت میں اپنے والد کے سامنے جاتا، تو انہیں بھی مجھے پہچاننے میں بہت مشکل پیش آتی۔ مجھے اپنی زبان انگریزی کے کئی الفاظ بھول گئے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کوئی لفظ یاد آیا تو اس کا مطلب ذہن سے نکل جاتا۔
 آنسو
دس برس اور بیت گئے۔
اس سنسان غیر آباد جزیرے میں آئے مجھے پندرہ سال کا عرصہ ہو گیا۔اب میں چونتیس برس کا ہو گیا تھا! سر اور داڑھی کے بالوں میں سفید بال آ گئے۔ایک روز جب میں نے چشمے کے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو میں بے اختیار آنسو بہانے لگا۔ اپنے والد اور والدہ کی یاد میں دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ میری والدہ تو میرے سامنے ہی انتقال کر گئی تھی، لیکن باپ کا تصور کر کے، کہ وہ نجانے کس حال میں ہو گا، میرا بہت برا حال ہوا۔ میری زندگی کا سب سے خوبصورت زمانہ اس جزیرے میں غارت ہو گیا تھا۔ میں اس جزیرے میں ہی بھرپور جوان ہو کر اب ادھیڑ عمری کی منزل میں داخل ہو رہا تھا۔
میں سو چتا، میرے والد اور میرے دوستوں نے یہ یقین کر لیا ہوگا کہ میں بھی بدقسمت جہاز کے تمام ملاحوں اور افراد کے ساتھ سمندر میں ڈوب چکا ہوں۔وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پندرہ سال سے میں ایک ویران اور بے آباد جزیرے میں تنِ تنہا اکیلا زندگی بسر کر رہا ہوں اور زندہ ہوں۔
 آدم خور
اس سنسان جزیرے پر آئے مجھے پندرہ برس ہو گئے۔ ایک دن جب میں صبح کے وقت اپنے کیبن سے کشتی کی طرف حسب معمول اس طرح جا رہا تھا کہ بندوق میری بغل میں تھی، طوطا کندھے پر بیٹھا تھا، کھلی چھتری میرے سر پر تھی، دور بین گلے میں لگی ہوئی تھی، داڑھی اور سر کے سیاہ و سفید بال ہوا میں لہرا رہے تھے،کہ اچانک میں حیران ہو گیا۔ ریت پر کسی انسان کے ننگے پاؤں کے نشان پڑے تھے۔میں غور سے انہیں دیکھنے لگا۔سب سے پہلے مجھے ایک ہی انسان کے پیروں کے نشان دکھائی دیئے۔ اس کے بعد آ گے بڑھا تو کم از کم تین چار انسانوں کے پیروں کے نشان موجود تھے۔ میں پیروں کے ان نشانوں کو دیکھ کر خوش بھی تھا اور حیران بھی۔میری حیرانی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ پیروں کے یہ نشان تازہ تھے، جیسے وہ لوگ، جن کے پیروں کے یہ نشان تھے، تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزرے تھے۔ میں ان نشانوں کو غور سے دیکھتا ہوا ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ لگ بھگ ایک فرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد پیروں کے یہ نشان ایک چھوٹے ٹیلے سے ہوتے ہوئے اس کے پیچھے نیچے کی طرف جا رہے تھے، میں ٹیلے کے اوپر جھاڑیوں میں چھپ گیا۔
مجھے سمندر کنارے کھڑی ہوئی کشتی بھی دکھائی دی۔ میں نے دوربین لگائی اور دیکھنے لگا۔جو منظر مجھے نظر آیا، وہ بہت خوفناک تھا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر۔
وہ چھ سات نیم عریاں، وحشی آدم خور تھے۔ انہوں نے چودہ پندرہ برس کے ایک لڑکے کو پکڑ رکھا تھا۔ وہ اس لڑکے کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دو وحشی آدم خور وہاں آگ جلا رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس لڑکے کو پکڑ کر اسے کھانا چاہتے ہیں۔ ایک آدم خور ایک چھرا لیے قریب کھڑا تھا۔ میری حیرت کم ہونے لگی تھی۔اتنی مدت کے بعد ان انسانوں کو دیکھ کر جو اگرچہ آدم خور تھے، مجھے ایک عجیب طرح کی خوشی ہوئی تھی لیکن میں یہ بھی سوچنے لگا کہ وہ تو اس لڑکے کو کھا جائیں گے۔ کیا مجھے انہیں روکنا نہیں چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک لمبے عرصے کے بعد انسانوں کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا تھا، اسی لئے میرے لئے فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
میں دیکھ رہا تھا کہ وہ لڑکا ان آدم خوروں کی گرفت سے نکلنے کے لئے پوری کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ اکیلا تھا اور مقابلہ چھ سات آدم خوروں سے تھا۔ یہ آدم خور وحشی، جن کی شکلیں انسانوں جیسی تھیں، مجھے انسانیت کے دشمن محسوس ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی فیصلہ کرتا، میں نے دوربین سے دیکھا۔ وہ لڑکا ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ ان آدم خوروں کے شکنجے سے آزاد ہوا اور جس ٹیلے کے پاس میں کھڑا تھا، اس طرف تیزی سے بھاگنے لگا۔ وہ میرے قریب آ رہا تھا اور آدم خور پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
وہ لڑکا دبلا پلتا تھا۔ وہ بھاگ رہا تھا۔ بہت تیزی سے، اور آدم خور اس کے پیچھے آرہے تھے۔وہ اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے۔تیز رفتار لڑکا ایک بار ٹھوکر کھا کر گرا تو میرے دل کو دھچکا لگا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ آدم خور اسے پکڑتے، وہ پھر تیزی سے بھاگنے لگا۔اب وہ میرے بہت قریب آ رہا تھا۔دور بین سے میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا چہرہ پسینے میں شرابور ہے اور وہ بری طرح ہانپ رہا ہے۔ اس کا سارا جسم ننگا تھا، اس نے ایک لنگوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔آدم خور وحشی موت کی طرح اس کا تعاقب کر رہے تھے اور وہ لڑ کا موت سے بچنے کے لئے دوڑ رہا تھا۔
اور پھر میں اسی لمحے ہوش میں آگیا۔
میں نے فیصلہ کرنے میں دیر نہ کی۔میں نے بندوق اٹھائی اور لڑکے کے تعاقب میں آنے والے آدم خوروں کے سینے کا نشانہ باندھ کر گولی چلا دی! گولی چلنے سے دھائیں کی زبردست آواز سے جزیرہ گونج اٹھا۔ پرندے شور مچاتے اڑ گئے اور میں نے ایک آدم خور کی خون میں لت پت لاش کو دیکھا۔ اپنے ایک ساتھی کو زمین پر مردہ پڑا دیکھ کر آدم خور رک گئے۔
اس دوران میں لڑکا بھاگ کر مجھ سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ کبھی تو وہ مجھے حیرانی سے دیکھتا، کبھی لاش کو۔اتنے میں ایک دوسرا آدم خور لڑکے کی طرف بڑھنے لگا۔ میں نے پستول نکالا اور اس پر فائر کر دیا۔ میں خود بھی خاصا حیران ہوا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی مشق کے بغیر میرا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ اس آدم خور کے ماتھے پر پستول کی گولی لگی اور وہ بھی اپنے خون میں لت پت ہو کر ریت پر گر گیا۔ اپنے دوسرے ساتھی کو یوں مرتے دیکھ کر باقی آدم خور اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہ مڑ کر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے۔ اب وہ موت سے بچنے کے لئے بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ وہ مڑکے پیچھے دیکھے بغیر کشتی تک پہنچے۔اس میں سوار ہوئے اور کھلے سمندر میں چلے گئے۔
 فرائیڈے
وہ جنگلی لڑکا وہیں، مجھ سے کچھ دور کھڑا حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے شکریہ اور احسان مندی جھلک رہی تھی اور ایک طرح کی حیرانی بھی کہ میرے پاس یہ کیسی چیز تھی کہ جس سے میں نے وہیں کھڑے دور سے آنے والے دو آدم خوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
شاید وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میں نے اس کی جان کیوں بچائی ہے! میری اپنی کیفیت بھی بہت عجیب اور انوکھی تھی۔ایک طویل مدت کے بعد میں انسان کے بچے کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ میرے پاس آئے، لیکن وہ سہما سہما حیران سا وہیں کھڑا رہا۔ میں خود اس کے پاس گیا اور اسے یوں دیکھنے لگا، جیسے وہ کوئی عجیب مخلوق ہو۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔اس کا چہرہ بھولا بھالا تھا  اس کے بال لمبے تھے اور ہوا میں لہرا رہے تھے۔انسان کے اس بچے کو دیکھ کر میں بے حد مسرور ہوا اور بے اختیار میری آنکھیں خوشی سے آنسو بہانے لگیں۔
میں نے شفقت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی انگریزی زبان میں کہا:
’’میں تمہارا دوست ہوں۔تم بھی میرے دوست بنو۔‘‘
لڑکے کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ میری بات کو نہیں سمجھا، وہ میری زبان سے آشنا نہیں ہے۔ میں خوشدلی سے ہنسنے لگا اور پھر کہا:
’’میرے بچے، کیا تم انگریزی نہیں سمجھتے؟‘‘
لڑکا اب بھی کچھ نہ سمجھ سکا، لیکن میرے چہرے کی کیفیت اور میری شفقت بھری حرکتوں سے وہ اتنا ضرور سمجھ گیا کہ میں اس کا ہمدرد ہوں۔ میں نے اس کی جان آدم خوروں سے بچائی ہے۔
میں نے دوربین لگا کر سمندر کی طرف دیکھا۔آدم خوروں کی کشتی اب اتنی دور نکل گئی تھی، کہ سمندر میں ایک بڑے دھبے جتنی دکھائی دے رہی تھی۔میں سو چنے لگا کہ یہ کون ہیں، کس طرف سے آئے تھے اور اب کدھر جا رہے ہیں۔بہرحال ایک بات تو میں بخوبی سمجھ گیا تھا کہ جس جزیرے میں کھڑا تھا، جہاں میں برسوں سے رہتا چلا آ رہا تھا، اس جزیرے کے قریب ہی کوئی دوسرا جزیرہ بھی ہے، جہاں کوئی وحشی آدم خور قبیلہ آباد ہے۔
میں نے ایک بار پھر جنگلی لڑکے کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ تو وہ یکدم میرے قدموں میں گر گیا اور اپنی زبان میں میرے احسان کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ میں اس کی زبان تو نہیں سمجھتا تھا، لیکن اُس کی اِس حرکت اور اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ میرا احسان مند ہے ۔ میں نے اسے اپنے قدموں سے اوپر اٹھایا اور اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا، تو وہ میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ہم کیبن کے قریب پہنچے جہاں سیڑھی لٹک رہی تھی۔میں سیڑھی سے اوپر چڑھ گیا اور اسے بھی سیڑھی کے ذریعے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔وہ خوشی خوشی اوپر آ گیا۔ میرے کتے نے اس کا استقبال ناراضگی سے بھونک بھونک کر کیا۔میں نے کتے کو چپ کرا لیا۔
لڑکے کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بھوکا ہے، اس لئے میں نے لکڑی کی پلیٹ میں اسے پھیکا دلیہ ڈال کر دیا۔وہ اسے غور سے دیکھتا رہا پھر کھانے لگا اور ساری پلیٹ چٹ کر گیا۔
میں یہ جاننے کے لئے بے چین تھا کہ وہ کون ہے اور یہ آدم خور اس کی جان کیوں لینا چاہتے تھے اور کون تھے۔لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ میری زبان نہیں جانتا تھا اور میں اس کی زبان سے ناواقف تھا، لیکن ان برسوں میں اشاروں کی زبان خاصی جان گیا تھا۔اس لئے میں نے اس سے اشاروں میں پوچھا کہ وہ مجھے بتائے کہ وہ کون ہے۔
اس جنگی لڑکے نے اپنی عجیب و غریب غوں غوں کرتی زبان اور اشاروں میں مجھے جو کچھ بتایا، اس سے میں یہ جاننے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ اس جزیرے کے قریب واقع ایک جزیرے کا رہنے والا ہے، جہاں اس کا باپ قبیلے کا سردار تھا۔ دشمن قبیلے نے ان پر حملہ کیا اور سارے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور وہ اسے بے آباد سنسان جزیرے پر اس لئے لائے تھے کہ اس کے ٹکڑے کر کے آگ میں بھون کر کھا جائیں۔
اس کی کہانی خوفزدہ کر دینے والی تھی، کیونکہ میرے دل میں تو پہلے سے ہی آدم خوروں کا خوف موجود تھا جو اگرچہ برسہا برس سے اس جزیرے پر رہتے ہوئے اور کسی آدم خور کو نہ دیکھ کر کم پڑ گیا تھا۔ لیکن اب تو یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس جزیرے کے قریب ہی کوئی جزیرہ ہے، جہاں یہ آدم خور آباد ہیں۔میرے دل نے مجھے خبردار کیا کہ وہ آدم خور ایک بار پھر حملہ کرنے آئیں گے۔
اس کی دو معقول وجوہات تھیں۔انہیں معلوم تھا کہ ان کا دشمن اب اس جزیرے میں میری پناہ میں ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ میں نے ان کے دو آدمیوں کو ہلاک کیا تھا اور و ہ اس کا بدلہ لینے ضرور آئیں گے۔
ان وحشی آدم خوروں سے مقابلہ کرنے کے لئے میں نے تیاریاں شروع کر دیں۔میں نے اس لڑکے کو پستول چلانا سکھایا۔میں نے اس کا نام بھی رکھ دیا تھا۔چونکہ وہ اس جز یرے پر جس دن مجھے ملا تھا، اس دن فرائیڈے (جمعہ) تھا، اس لئے میں نے اس دن کی نسبت سے اس کا نام’ فرائیڈے‘ رکھ دیا۔
دو چار روز کی کوشش کے بعد فرائیڈے پستول کا استعمال سیکھ گیا۔میں نے لکڑی کی دیوار میں چھ جگہ چھوٹے چھوٹے سوراخ بنا دیے، تاکہ اگر دشمن حملہ کرے تو دیوار کے پیچھے سے جوابی کاروائی کی جا سکے۔بارود بھی میرے پاس کافی تھا اور چھرے بھی تھیلی میں بھرے پڑے تھے۔
ایک احتیاطی تدبیر میں نے یہ اختیار کی کہ جنگل سے کانٹوں والی جھاڑیاں لاکر دیوار کے اوپر اس طرح سے بچھا دیں، کہ کسی کے بھی اندر آنے میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔
جنگلی لڑکے فرائیڈے کو تیر اندازی میں بڑی مہارت تھی۔میں نے اس کے لئے ایک بہت اچھی کمان بنا دی اور ایسے تیر بھی بنا کر دیئے، جن کی نوکیں بہت تیز تھیں۔ یوں فرائیڈے بھی مسلح ہوگیا۔اس نے مجھے اشاروں میں خبردار کر دیا تھا کہ آدم خور وحشی ضرور حملہ کریں گے۔وہ اسے حاصل کرنے اور اپنے مارے جانے والے ساتھیوں کا بدلہ لینے اس جزیرے پر ضرور آئیں گے۔بہرحال ہم نے اپنی طرف سے پوری تیاری کرلی تھی اور میں صبح و شام دور بین سے دور دور تک جزیرے کا جائزہ لے لیتا تھا کہ کہیں آدم خور جزیرے میں داخل تو نہیں ہو گئے۔یوں فرائیڈے کو اس جزیرے میں آئے ایک ہفتہ ہو گیا۔اب وہ میرا رفیق بن گیا تھا۔اس نے انگریزی کے کئی لفظ سیکھ لئے تھے اور وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ایک دن اس نے مجھ سے اپنے انداز میں پوچھا کہ میں اس جزیرے میں کب سے ہوں، کیسے رہتا ہوں؟ میرے بالوں کی حالت دیکھ کر اس نے یہ انداز ہ لگا لیا تھا کہ میں اس جزیرے میں بہت عرصے سے مقیم ہوں۔
میں نے فرائیڈے کو اپنی بدقسمتی کی پوری داستان سنائی کہ کس طرح جہاز تباہ ہوا اور میں اکیلا ہی زندہ بچ سکا۔اس کے بعد اس جزیرے میں اب تک میں نے جو کچھ کیا تھا اسے وہ دکھایا۔میری بنائی ہوئی ہر چیز میں اس نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ میری بہادری سے بہت متاثر ہوا ہے اور اس کے دل میں میرے لئے ہمدردی بھی پیدا ہوگئی ہے۔
فرائیڈے بہت کام کرنے والا لڑکا تھا۔وہ بہت سے کاموں میں میرا ہاتھ بٹانے لگا۔وہ گندم کے دانوں کو پٹک کر بالیوں سے علیحدہ کرتا، پھر انہیں جمع کر کے پتھر پر پیس کر ان کا آٹا بناتا۔اس کے بعد وہ روٹی بناتا۔وہ کتے کو سمندر کے پاس لے جا کر اسے نہلاتا۔ جنگل میں جا کر جنگلی انگور توڑ کر لاتا اور انہیں خشک کرنے کے لئے ڈال دیتا۔وہ ایک دن تیر کمان لے کر شکار کو نکلا اور دو بکریوں کو شکار کر کے لے آیا تو ہم دونوں نے ان کا گوشت بھون کر کھایا۔میں نے اسے پوچھا کہ وہ چونکہ آدم خور قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے کیا اب بھی اس کے دل میں آدمیوں کا گوشت کھانے کی خواہش ہے؟ میرے سوال کو سمجھ کر وہ بوکھلا گیا اور کہنے لگا کہ اب وہ بکری کا گوشت ہی پسند کرتا ہے اور انسانوں کا گوشت کھانا نہیں چاہتا۔ اس کے اس جواب سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ میں خود اس میں اچھی تبدیلیاں لانے کا خواہش مند تھا۔میں چاہتا تھا کہ اس کا جنگلی پن ختم ہو جائے۔میں نے اسے کئی نئے الفاظ سکھائے اور اسے بتائے بغیر اس کی خوراک میں سے گوشت کم کرنا شروع کر دیا اور اسے زیادہ تر روٹی اور انگور پر مشتمل خوراک کھلاتا،تاکہ اس کی گوشت خوری کی عادت ہی سرے سے چھوٹ جائے۔
یوں فرائیڈے کو میرے پاس رہتے ایک ماہ ہو گیا۔
 حملہ
ایک مہینے کے بعد ایک رات میں اپنی عادت کے مطابق بیٹھا ہوا بندوق صاف کر رہا تھا اور پستول صاف کرکے تخت پر رکھ دیا تھا۔ اس وقت فرائیڈے پتھر کی سل پر گندم کے دانے پیس رہا تھا۔ کیبن کے اندر ایک طرف پتھر کے چولہے میں آگ جل رہی تھی۔ جب میں بندوق صاف کر چکا تو مجھے نیند آنے لگی۔ اصل میں آج میں پھر بہت اداس اور مایوس تھا۔ آج بھی کوئی جہاز ادھر سے نہیں گزرا تھا۔ بعض اوقات میں اس خیال سے بہت دُکھی ہو جاتا تھا کہ میں آخر کب تک اس ویران جزیرے میں یونہی پڑا رہوں گا؟
میں نے فرائیڈے کو بتایا کہ میں اب سونے لگا ہوں اور کچھ دیر پہرہ دینے کے بعد وہ بھی سو جائے۔ میں تخت پر لیٹا اور جلد ہی سوگیا۔
لگ بھگ آدھی رات کے وقت فرائیڈے نے مجھے ہلا کر جگا دیا۔میں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا ’’کیا بات ہے فرائیڈے؟‘‘
اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مجھے بتایا کہ اس کے خیال میں کوئی کیبن کے باہر گھوم رہا ہے۔
میں فوراً اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پستول فرائیڈے کو دیا اور بندوق خود سنبھال لی۔ ہم دونوں دیوار میں بنائے گئے سوراخوں کے پیچھے گویا اپنے مورچوں میں بیٹھ گئے۔ یہ خیال اطمینان بخش تھا کہ دیوار کے اوپر میں نے کانٹوں والی جھاڑیاں بکھیری ہوئی ہیں۔
میں کان لگا کر پوری توجہ سے کوئی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔ رات خاموش تھی، صرف سمندر کی لہروں کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے سوراخ سے آنکھ لگا کر باہر کا جائزہ لیا تو وہاں بھی کوئی دکھائی نہ دیا۔ پتوں پر چلنے کی بھی کوئی چاپ سنائی نہ دی۔ یہ کام بھی میں نے بطور خاص کیا تھا کہ کیبن کے نیچے چاروں طرف خشک پتے جمع کر دیئے تھے کہ اگر کوئی ان پر چلے، تو اس کے قدموں کی چاپ سنائی دے۔ جب مجھے کچھ بھی دکھائی دیا نہ شبہ ہوا، تو میں نے سرگوشی میں پوچھا:
’’کون ہے، کہاں ہے؟ فرائیڈے۔۔۔‘‘
فرائیڈے نے اپنے ایک کان پر ہاتھ رکھ کر منہ سے ہلکی سی آواز نکالی، جو کسی جانور کی بولی سے ملتی تھی۔ اس نے اس طرح مجھے بتایا تھا کہ کوئی آدم خور اس جزیرے پر آ چکا ہے اور اس آدم خور نے ایسی ہی خاص آواز نکال کر اپنے کسی دوسرے آدم خور ساتھی کو اپنے پہنچ جانے کی اطلاع دی تھی۔ چونکہ فرائیڈے ایسی آوازوں اور اشاروں کے بارے میں پورا علم رکھتا تھا۔ اس لئے وہ چوکس ہو گیا اور مجھے جگا دیا تھا۔
اتنے برسوں سے اس ویران جزیرے پر رہتے ہوئے میں اندھیرے میں بھی عام آدمی کی نسبت صاف صاف دیکھ لیا کرتا تھا، کیونکہ میرے لئے اندھیرا ندھیرا نہیں رہا تھا۔ یوں کہہ لیں کہ میں الو کی طرح اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا تھا۔ہم اپنے اپنے مورچوں پر ڈٹے بیٹھے رہے۔
آسمان بالکل تاریک نہیں تھا۔ ستاروں نے اپنی چمک سے ہلکی ہلکی روشنی پھیلا رکھی تھی لیکن سوائے سمندر کی لہروں کی دھیمی آواز کے کوئی دوسری آواز کہیں سے ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی، اس کے باوجود میں فرائیڈے کی اطلاع پر شک نہیں کر سکتا تھا۔ وہ جزیرے میں پیدا ہوا تھا۔ فطرت کی گود میں پرورش پانے والا فرائیڈے کوئی غلطی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے کانوں نے لازمی طور پر وہ مشکوک آواز سنی ہوگی۔
گھڑی نہ ہونے کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ تو لگانا ممکن نہیں تھا، لیکن اس جزیرے میں رہتے ہوئے دن رات کے وقت کا اندازہ لگانے کی مجھے خاصی مہارت ہو چکی تھی۔ اس وقت میرے خیال میں نصف شب گزر چکی تھی اور رات آہستہ آہستہ صبح کی طرف بڑھ رہی تھی۔
میں کان لگائے دشمن کی چاپ سننے کے لئے بے چین تھا۔ میری آنکھیں اندھیروں کو چیر کر باہر دیکھ رہی تھیں۔ کافی دیر تک ہم دونوں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے چوکس اور ہوشیار بیٹھے رہے۔ باہر خاموشی تھی۔ رات تھی اور سمندر کی لہروں کا ہلکا شور تھا۔میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے باہر نکل کر دشمن کا سراغ لگانا چاہیے۔ میرے دل میں کوئی خوف نہیں تھا، کیونکہ میں اسلحہ سے لیس تھا اور جزیرے کے چپے چپے سے پوری طرح واقف تھا۔ اس لئے میرے لئے دشمن کی نظروں سے چھپ کر دشمن کو تلاش کرنا مشکل نہیں تھا۔ میں نے فرائیڈے کو اشاروں اور الفاظ سے ہدایات دیں۔ ’’میں دشمن کو دیکھنے باہر جا رہا ہوں۔ وہ یہاں ہوشیار اور چوکس رہے۔ جونہی میں نیچے اتر جاؤں، وہ فوراً رسی کی سیڑھی کو اوپر کھینچ لے اور میں جب سیٹی بجاؤں تو وہ فوراً ہی رسی کی سیڑھی کو نیچے لٹکادے تاکہ میں اوپر آ سکوں۔‘‘
میں نے ایک ایک بات اسے اچھی طرح سے سمجھا دی۔ وہ ذہین لڑکا تھا اس لئے سب کچھ سمجھ گیا۔ میں نے سیڑھی نیچے لٹکائی اور پھر اس کے ذریعے نیچے اتر گیا۔
میں خاموشی سے کیبن سے باہر نکلا میرے پاس بندوق بھی تھی اور ایک چھرا بھی۔ عین اسی وقت میرے طوطے نے ٹیں ٹیں شروع کر دی۔ اس وقت مجھے اس کی یہ ٹیں ٹیں بری لگی۔ شاید وہ میرے ساتھ جانے کے لئے ٹیں ٹیں کر رہا تھا۔ اس کی آواز سن کر کوئی الو بھی بول پڑا تھا۔ بہرحال میں باہر آیا۔ نیچے اترا اور فرائیڈے نے فوراً سیڑھی اوپر کھینچ لی۔ طوطا خاموش ہو گیا تھا۔
میں کچھ دیر ایک درخت کے نیچے تاریکی میں کھڑا رہا، پھر بہت آہستہ سے آواز پیدا کئے بغیر میں جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتا ٹیلے کی طرف بڑھنے لگا کیونکہ پہلی بار اس ٹیلے سے میں نے آدم خوروں کو جزیرے میں دیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس ٹیلے پر چڑھ کر میں دور بین سے ان کو دیکھ سکوں گا یا پھر ان کی کشتی مجھے ساحل پر نظر آ جائے گی۔ بہت احتیاط سے ایک ایک قدم پھونک کر اٹھاتے ہوئے میں اس ٹیلے کے اوپر چڑھا اور جھاڑیوں کی اوٹ سے سمندر کے کنارے کی طرف دیکھا۔
میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔سمندر کے کنارے وحشی آدم خوروں کی کشتی کھڑی تھی!
اب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ ہوشیار اور ذہین فرائیڈے نے درست اطلاع دی تھی۔ آدم خور اس جزیرے میں اتر چکے تھے اور وہ کس لئے آئے تھے، اس کے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں تھی۔ میں بے آواز قدموں سے، لیکن پہلے سے تیز رفتار کے ساتھ واپس چل دیا۔ میرے اندازے کے مطابق آدم خور چار پانچ سے کم نہیں ہو سکتے تھے۔ جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا، کیبن کی طرف بڑھتا ہوا میں سوچ رہا تھا کہ اگر میری غیر حاضری میں آدم خوروں نے کیبن پر حملہ کر دیا تو اکیلے فرائیڈے کے لئے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اگرچہ اس کے پاس تیر کمان اور پستول بھی تھا پھر بھی وہ اکیلا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
میرے اندیشے درست ثابت ہوئے۔ عین اسی لمحے کیبن سے پستول چلنے کی آواز سے پورا جنگل گونج اٹھا۔ یہ فائر فرائیڈے نے کیا تھا۔ پرندے درختوں پر شور مچانے لگے۔ میں کیبن کی طرف بھاگا۔
مجھے آدم خوروں کے چیخنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ میں کیبن کے قریب ایک بڑے درخت کے پیچھے آ کر چھپ گیا۔
دو آدم خور کیبن کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فرائیڈے دیوار میں بنے سوراخوں کے راستے سے پستول کے فائر کر رہا تھا۔ دو دوسرے ننگے آدم خوروں نے کیبن پر تیروں کی بارش کر دی تھی۔ میں نے ایک آدم خور کا نشانہ لیا اور بندوق چلا دی۔ دھماکے کے ساتھ گولی چلی اور وہ آدم خور چیخ کر اچھلا اور پھر زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ میں نے اس کے فوراً بعد دوسرے آدم خور کو نشانہ بنایا اور گولی چلا دی۔ وہ آدم خور لنگڑاتا ہوا تیزی سے ایک طرف بھاگنے لگا۔
فرائیڈے کا حوصلہ بھی بڑھ گیا۔ کیونکہ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ میں وہاں پہنچ گیا ہوں اور دشمنوں کو ہلاک کر رہا ہوں۔ اس نے کیبن کے اندر سے دشمنوں پر دھڑا دھڑ فائرنگ شروع کر دی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کی کوئی گولی دشمنوں کو نہیں لگ رہی تھی، لیکن پستول کے دھماکوں نے آدم خوروں کو ڈرا ضرور دیا تھا اور وہ بھاگ گئے۔
میرے پاس اب بارود نہیں رہا تھا۔ اس لئے میں بندوق سے کوئی فائر نہیں کر سکتا تھا۔ چھرا میرے پاس تھا لیکن آدم خوروں کی تیراندازی کے سامنے اس کی کیا حیثیت تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جلد از جلد کیبن میں پہنچ جاؤں۔ جب آدم خور بھاگے اور میدان صاف ہوا تو میں نے اشارے کی ہلکی سی سیٹی بجائی۔
فرائیڈے نے فوراً رسی کی سیڑھی نیچے لٹکا دی۔ میں تیزی سے بھاگا اور سیڑھی پر چڑھ کر اوپر پہنچا اور سیڑھی کو تیزی سے اوپر کھینچ لیا۔ فرائیڈے، جو کچھ سہما ہوا تھا، میری واپسی پر بہت خوش ہوا۔ میں نے جلدی سے اپنی بندوق میں بارود بھرا اور دیوار کے سوراخ سے باہر دیکھنے لگا۔
آدم خور اپنے ساتھی کی لاش گھسیٹ کر لے گئے تھے۔ آس پاس ان کا کوئی نام ونشان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ باہر مکمل خاموشی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ دشمن ہار کر وہاں سے بھاگ چکا ہے۔ تاہم میں چوکس بیٹھا رہا کیونکہ دشمن وہیں کہیں گھات لگا کر بھی بیٹھ سکتا تھا اور کسی طرف سے بھی کوئی تیر آ سکتا تھا۔ کوئی آدم خور درخت پر چڑھ کر بھی کیبن کے اندر چھلانگ لگا سکتا تھا۔
ہم انتظار کرتے رہے۔ رات ختم ہو رہی تھی۔ صبح کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ میں نے اشاروں ہی سے فرائیڈے سے کہا کہ وہ اب سو جائے، میں پہرہ دوں گا۔ لیکن اس نے سر ہلا کر انکار کر دیا اور کہا کہ میں آرام کروں۔ لیکن یہ وقت آرام کا نہیں تھا۔ دشمن کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔
کلیجہ
اور پھر صبح کا اجالا چاروں طرف پھیلنے لگا۔
فرائیڈے کو کیبن میں ہی رکنے کی ہدایت دے کر میں باہر آیا۔ کیبن سے نیچے اترا اور محتاط انداز میں آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے پھر اسی ٹیلے پر آ گیا۔ میں نے جب سمندر کی طرف دیکھا تو سمندر صبح کی روشنی سے چمک رہا تھا۔
آدم خوروں کی کشتی غائب ہو چکی تھی۔
اس سے یہ صاف اشارہ ملتا تھا کہ آدم خور جزیرے سے نکل بھاگے ہیں۔ میں تیز تیز چلتا کیبن کے پاس پہنچا اور فرائیڈے کو اونچی آواز میں بتایا کہ آدم خور جا چکے ہیں، اس لئے وہ بھی کیبن سے نیچے اتر آئے۔ وہ بہت خوش خوش نیچے آیا اور ہم دونوں سمندر کے کنارے کی طرف چل پڑے۔
پھر اچانک ایک تیر، ایک طرف سے آیا۔فرائیڈے کی گردن کے بالکل قریب سے ہوتا ہوا ایک درخت میں گڑ گیا!
نشانہ فرائیڈے کو بنایا گیا تھا اور یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بال بال بچ گیا تھا۔
آدم خور ابھی جزیرے میں موجود تھے۔یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک ہے یا زیادہ۔ یہ تیر ایک درخت کی جانب سے آیا تھا اور سو فیصدی فرائیڈے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ گویا وہ فرائیڈے کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ سب آدم خور تو چلے گئے ہوں، لیکن اپنے ایک ساتھی کو وہاں چھوڑ گئے ہوں، کہ ہم جب بھی کیبن سے باہر نکلیں، وہ جان پر کھیل کر چھپ کر، فرائیڈے کو ہلاک کر دے۔
میں نے درختوں کا جائزہ لینا شروع کیا اور درختوں کے اوپر دیکھا۔ اگرچہ اس میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی تھی۔ روشنی کے باوجود درختوں کے اوپر شاخوں اور پتوں میں چھپا ہوا آدم خور تلاش کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ یہ آدم خور ننگے ہوتے ہیں اور ان کی رنگت پتوں اور شاخوں میں گھل مل جاتی ہے۔
مجھے ایک ترکیب سوجھی اور وہ تیر میرے اندازے کے مطابق جس درخت کی طرف سے آیا تھا۔ اس کی طرف میں نے گولی چلا دی۔فرائیڈے نے بھی میری تقلید کی اور یوں ہم نے دشمن کو دھماکوں سے خوفزدہ کرنا شروع کر دیا۔ میں اور فرائیڈے درختوں کی اوٹ میں چھپے وقفے وقفے سے فائز کر تے رہے۔ سارا جنگل گونج اٹھا پرندے شور مچاتے اڑ گئے۔
اس کے بعد ہم نے دشمن کو تلاش کرنا شروع کیا۔فرائیڈے نے کچھ زبان سے اور کچھ اپنے اشاروں سے بتایا کہ ان کے قبیلوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جنہیں جانباز کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی جان قبیلے کے لئے وقف کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کسی جانباز کو آدم خور یہاں اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے ہیں، تا کہ وہ اپنی جان قربان کر کے بھی فرائیڈے کو قتل کر دے۔ ایسے لوگوں کو اپنی جان کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آتے ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہیں کرتے۔ فرائیڈے کی ان باتوں نے مجھے مزید محتاط اور چوکنا کر دیا۔ کیونکہ یہ تو کوئی ایسا پاگل اور اپنی زندگی سے بے خوف شخص لگتا تھا، جو کسی وقت بھی ہمارے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔ ہم دونوں اس نامعلوم شخص کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ جس نے فرائیڈے پر تیر چلایا تھا۔ ہم نے جزیرے کو چھان مارا۔ لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ وہ کسی جگہ چھپ کر بیٹھ گیا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا۔
میں نے فرائیڈے سے کہا۔’’فرائیڈے واپس کیبن میں جاؤ۔‘‘
میں سمجھتا تھا کہ اصل خطرہ فرائیڈے کو ہے۔اسی کو پہلے نشانہ بنایا گیا تھا اور آدم خور قبیلے نے اسی کو قتل کرنے کے لیے یہاں اس خاص بہادر جانباز کو پیچھے چھوڑا ہے۔بہرحال وہ دشمن تو میرے بھی تھے لیکن ان کا پہلا ہدف فرائیڈے ہی تھا۔فرائیڈے اکیلا کیبن میں جانے کے لیے تیار نہیں تھا مگر میرے اصرار پر وہ کیبن کے اندر چلا گیا۔
میں اکیلا اس چھپے دشمن کی تلاش میں نکلا۔میں بے حد محتاط اور چوکنا ہو چکا تھا۔جھاڑیوں اور درختوں کے پیچھے سے ہوکر میں اسے تلاش کر رہا تھا۔ جزیرے کے چپے چپے سے میری واقفیت تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ آ دم خور بھی جنگلی ہے، کسی درخت پر بندر کی طرح اچھل کر چڑھنا اور چھپ جانا اس کے لئے عام مہارت اور مشق کی طرح ہے۔ بہرحال میں پوری طرح چوکس تھا۔ ایک ایک آہٹ پر کان لگائے ہوئے میں جزیرے کے مشرقی ساحل کی طرف نکل آیا۔
اچانک ایک سنسناتا ہوا تیر میرے بازو کے قریب سے گزرتا ہوا سامنے ایک پتھر سے جا ٹکرایا۔ میں نے زمین پر بیٹھنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور گھٹنوں کے بل دوڑتا ہوا ایک چٹان کے پیچھے چپ گیا اور پھر جس طرف سے میرے اندازے سے وہ تیر آ یا تھا۔ ادھر بندوق سے فائر کر دیا مگر اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔
ابھی تک مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ کہاں چھپا ہے۔ کسی جھاڑی کے پیچھے یا درخت کے عقب میں۔مجھے یہ بھی احساس تھا کہ وہ میری نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہوگا۔
دوسری بار بندوق چلانے کے لئے میں اس میں بارود بھر رہا تھا کہ ایک دوسرا تیر سنسناتا ہوا میرے سر کے اوپر سے گزرتا ہواچٹان سے جا لگا اور دو ٹکڑے ہو گیا۔
میں نے فوراً اس طرف گولی چلا دی لیکن اس بار بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ درختوں پر بیٹھے پرندے شور مچاتے اڑ گئے۔ اسی لمحے ایک اور خیال میرے لئے تکلیف اور خطرے کا سبب بنا کہ کہیں فرائیڈے فائروں کی آواز سن کر کیبن سے باہر نہ آ جائے۔ایسی صورت میں اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
میں نے پھر بندوق میں بارود بھر کر حملے کی تیاری کی اور اسی لمحے ایک خوفناک چیخ فضا میں گونجی اور پھر کسی کے درخت سے دھم کے ساتھ گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں اس طرف تیزی سے بھاگا۔ میں نے ایک خوفناک منظر دیکھا۔
آدم خور زمین پر گرا ہے۔ ایک تیر اس کی گردن میں پیوست ہے اور زمین اس کے خون سے سرخ ہو رہی ہے۔
ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ تیر کہاں سے آیا کہ میں نے اچانک فرائیڈے کو ایک درخت کے پیچھے سے مسکراتا ہوا اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ فرائیڈے کا کارنامہ تھا۔جیسا کہ میں نے اندازہ لگایا تھا، ویسے ہی ہوا تھا۔ میرے پہلے فائر کی آواز سن کر فرائیڈے کیبن سے باہر آ گیا تھا۔ وہ تیر کمان لے کر آدم خور کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وہ چونکہ ان آدم خوروں کی تمام عادات سے واقف تھا، اس لئے بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ آدم خور کہاں چھپا ہوسکتا ہے۔ فرائیڈے نے اپنی تیز نظروں سے آدم خور کو ایک درخت کی شاخوں میں چھپے ہوئے دیکھ لیا۔ اس کے بعد اس نے اس کا نشانہ لیا اور تیر چلا دیا۔
فرائیڈے کا نشانہ خطا نہیں جا سکتا تھا، کیونکہ تیر چلانے میں اسے خاص مہارت حاصل تھی۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، فرائیڈے نے اپنے لنگوٹ کے ساتھ اڑسا ہوا ایک چاقو نکالا اور بڑی بے دردی سے اس آدم خور کا پیٹ چاک کر دیا۔ اس کے بعد اس نے آدم خور کا کلیجہ نکالا اور اسے چبانے لگا۔ میرے لئے یہ منظر بہت ہولناک اور کریہہ تھا۔میں اسے نہیں دیکھ سکتا تھا، اس لئے میں نے منہ پھیر لیا۔ میں فرائیڈے کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ فرائیڈے تو انتقام لے رہا تھا۔ یہ آدم خور ان لوگوں کا ساتھی تھا، جنہوں نے مل کر اس کے سارے قبیلے اور ماں باپ کو قتل کیا تھا اور بھون کر کھا گئے تھے۔
فرائیڈے آگے بڑھا، ادب سے میرے سامنے جھکا۔ میں نے اس پر نگاہ ڈالی، اس کے ہاتھ خون سے لت پت تھے اور منہ بھی۔ اس نے چند لفظوں میں سارا ماجرا بیان کر دیا۔
اس نے مجھے بتایا کہ آدم خور کا کلیجہ چبا کر اس نے قدیم رسم کے مطابق اپنے خاندان کے قتل کا بدلہ چکا دیا ہے۔ اب وہ فخر کر سکتا تھا کہ اس نے اپنے خاندان کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا تھا۔
پھر اس خیال سے، کہ لاش کی بُو جزیرے میں پھیل سکتی ہے، ہم دونوں نے مل کر ایک گڑھا کھود کر آدم خور کی لاش کو اس میں دفن کر دیا۔ اس کے بعد ہم دونوں سمندر کی طرف گئے۔وہاں دیر تک نہاتے رہے اور پھر کیبن کا رخ کر لیا۔
 ان دیکھی آفت
ہر روز کی طرح میں نے چوٹی پر چڑھ کر دور بین لگا کر سمندر کو دیکھا۔آج بھی کوئی جہاز دکھائی نہ دیا۔
اس جزیرے میں رہتے ہوئے اب مجھے بیس برس ہو گئے تھے۔ان بیس برسوں میں مجھے ایک بار بھی کوئی جہاز دکھائی نہ دیا تھا۔ میری آنکھیں کسی جہاز کے بادبانوں کو دیکھنے کے لئے ترس گئی تھیں۔ سمندر کی لہریں انہی چٹانوں سے ٹکرا کرلوٹ آتی تھیں، جن سے وہ جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہوا تھا، جس پر سوار میں بیس برس پہلے ادھر آیا تھا۔ یہ چٹانیں تباہی کی وہ نشانی تھیں جو ہر روز میرا منہ چڑاتی تھیں۔
نا امید، مایوس، دل شکستہ میں اور کیبن۔ وہی کھانا، پتھر پر پکائی ہوئی روٹی، خشک انگور اور چشمے کا ٹھنڈا پانی اور پھر جزیرے پر آدم خوروں کے حملے کا خطرہ۔
فرائیڈے مجھے بتا چکا تھا کہ جب تک اس قبیلے کا ایک شخص بھی زندہ ہے، وہ ہم سے انتقام لینے کے لئے جزیرے میں آتے ہی رہیں گے۔گویا اب اس جزیرے میں ہماری زندگیوں کو ایک مستقل خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔
انسان بھی عجیب چیز ہے۔میری مایوسی اور نا امیدی خودبخود دور ہوگئی، کیونکہ ہماری زندگیوں کو خطرہ لاحق تھا اور اب میرے سامنے ایک مقصد بھی تھا کہ اپنی زندگیوں کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لئے مقصد نے میری مایوسی کو ختم کر دیا۔ میں نے جزیرے کا بھرپور جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور کیبن سے نکلتے وقت فرائیڈے سے کہا کہ وہ خشک انگوروں کو ان کے خوشوں سے توڑ کر لکڑی کے صندوق میں اچھی طرح بند کر دے۔
سمندر کے کنارے پہنچ کر اپنی کشتی کو سمندر کے پانیوں کے حوالے کرکے میں جزیرے کے ساتھ ساتھ کشتی کو کھینے لگا۔ یہ ایک خوبصورت دن تھا۔ دھوپ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ساحل پر کھڑے اونچے گھنے درخت اچھے لگ رہے تھے۔ نامعلوم پھولوں اور شگوفوں نے جو درختوں سے لگے ہوئے تھے، جزیرے میں خوشبو پھیلا دی تھی۔ سب کچھ بہت اچھا بہت خوبصورت اور بہت بھلا لگ رہا تھا۔ میں بہت آہستہ سے کشتی کھیتا جا رہا تھا۔
اچانک کشتی کو زبردست دھکا لگا۔
کشتی گھوم گئی۔میں سمندر میں گرتے گرتے بچا۔میں اس ان دیکھی آفت پر ششدر رہ گیا۔ایسا کیوں اور کیسے ہوا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ نئی مصیبت کیسی تھی۔
میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر اچانک میں نے ایک شارک مچھلی کا کچھ حصہ پانی کے اوپر نکلا ہوا دیکھا۔ اوہ میرے خدا۔۔۔! تو یہ کارستانی اس خوفناک شارک مچھلی کی تھی۔اس سمندر میں، میں اس سے پہلے کئی شارک مچھلیاں دیکھ چکا تھا، لیکن بلاشبہ یہ شارک مچھلی ان سب سے بڑی تھی۔
جہاں تک میرے علم میں تھا، عام شارک مچھلیاں کسی کشتی کو دیکھ کر خاموشی سے اس کے پاس سے گزر جانے کی عادی ہوتی ہیں، لیکن ایسی شارک مچھلیاں بھی ہوتی ہیں جو آدم خور ہوتی ہیں اور ایسی شارک مچھلیاں ہی کشتیوں کو دھکا دیتی ہیں۔ یہ شارک مچھلی ایسی ہی آدم خور مچھلی تھی۔
میں نے دیکھا وہ پلٹ رہی ہے، دوبارہ حملہ کر نے کے لئے۔اب تک میں بالکل سنبھل کر چوکس ہو چکا تھا۔ بندوق بارود سے بھری ہوئی تھی۔ میں اس کے سر کا نشانہ لینا چاہتا تھا۔ جونہی وہ کشتی کے قریب آئی اور اس کا سر پانی سے اوپر ابھرا، میں نے بندوق کا فائز کر دیا۔
وہ بڑی تیزی سے اچھلی اور پانی کے اندر غائب ہوگئی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ فائر نشانے پر لگنے سے وہ مر کر ڈوب گئی ہے مگر ایسا نہیں ہوا تھا، میرا اندازہ غلط نکلا۔وہ شدید زخمی ہوئی تھی اور غصے سے بھری شارک مچھلی نے کشتی کو زور سے ٹکر ماری۔
کشتی اس ٹکر کو نہ سہہ سکی اور الٹ گئی!
میں سمندر کے پانی میں گر گیا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ شارک مچھلی اتنی شدید زخمی ہوئی تھی کہ وہ مجھ پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکی۔ وہ سمندر میں نہ جانے کہاں غائب ہوگئی۔ میں سمندر میں تیرتا ہوا کشتی کے پاس گیا اور پھر اسے پانی پر کھینچتا ہوا کنارے تک لے آیا۔
کشتی کو زور لگا کر بڑی مشکل سے سیدھا کیا۔ اتنی دیر میں فرائیڈے بھاگا بھاگا وہاں پہنچا۔فائر کی آواز نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ کشتی پر شارک مچھلی نے حملہ کر دیا تھا، میں نے اس پر فائز کیا تھا۔ ہم دونوں نے مل کر کشتی کو چٹان سے باندھ دیا۔
اپنے کیبن پہنچ کر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ بندوق کو اچھی طرح صاف کیا۔ یہ بندوق ہمارا سب سے قیمتی ہتھیار تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس میں کوئی خرابی واقع ہو۔اس لئے اس کی صفائی کا خاص خیال رکھتا تھا۔
میرے پاس اب بارود صرف دو تھیلوں میں باقی رہ گیا تھا اور ابھی ہمیں آدم خوروں کے حملے کا ڈر تھا اور ان سے مقابلہ بھی کرنا تھا۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اب بندوق کو کم سے کم استعمال میں لایا جائے ۔ بندوق کی جگہ آئند ہ ہم پستول اور تیر کمان سے کام لیں۔
ہم دونوں نے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹا اور گرا دیا اور اس کی شاخوں سے تیر کمان بنانے لگے۔ میں اور فرائیڈے دو دن اس کام میں لگے رہے۔ یوں ہم نے ہزاروں تیر تیار کر لئے۔ میں نے ایسے تیز اور نوکیلے تیر بنائے تھے کہ ہاتھی کے جسم میں بھی آر پار ہو سکتے تھے۔ تیر کمانوں سے ہم جنگل میں اڑتی مرغابیاں اور دوسرے پرندوں کا شکار کرنے لگے۔کبھی کبھار کوئی جنگلی بکری بھی ہمارا شکار بن جاتی تھی۔
تین مہینے گزر گئے لیکن آدم خوروں نے جزیرے پر قدم رکھا اور نہ ہی ہم پر حملہ کیا۔ میراخیال تھا کہ وہ بندوق کے دھماکوں سے خوفزدہ ہوچکے ہیں، اس لئے اب کبھی اس طرف رخ نہیں کریں گے۔ مگر فرائیڈے کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ کہتا، وہ ضرور آئیں گے، وہ ہمیں بھول نہیں سکتے۔
 مایوسی
اور پھر ایک دن وہ واقعہ ہوا، جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
ہر روز کی طرح دل میں امید لئے، میں صبح کے وقت پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا دور بین سے سمندر کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں نے جو کچھ دیکھا، اس پر مجھے فوری طور پر یقین نہ آیا۔ میں نے دوربین آنکھوں سے ہٹائی اور دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مَل کر پھر دور بین لگا کر دیکھا۔ میری آنکھیں ایک سفید رنگ کے بھاپ سے چلنے والے جہاز کو دیکھ رہی تھیں، جو سمندر سے گزر رہا تھا۔ خوشی سے میرا دل سینہ پھاڑ کر گویا باہر آنے کو مچلنے لگا۔ دور بین ہٹا کر میں زور زور سے اچھل کر چیخنے چلانے لگا:
’’مدد۔۔۔میری مدد کرو۔۔۔مدد۔۔۔‘‘
میری چیخ و پکار سن کر فرائیڈے بھاگتا ہوا آیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے جہاز دیکھا ہے۔فوراً آگ جلا کر دھواں کر دو۔
اس دن کے لئے میں نے برسوں سے خشک لکڑیوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ ہم نے انہیں جلا کر دھواں کر دیا۔ میں نے اپنی بکری کی کھال کی بنی ہوئی جیکٹ اتاری اور زور زور سے اسے ہلانے اور لہرانے لگا۔ دھوئیں کے مرغولے اوپر ہوا میں اڑنے اور کھیلنے لگے۔ میر ادل کہہ رہا تھا کہ اتنی مدت کے بعد اس طرف آنے والا جہاز اس دھوئیں کو ضرور دیکھے گا اور میری مدد کے لئے پہنچ جائے گا۔
مگر افسوس۔۔۔بدقسمتی کہ ایسا نہ ہوا۔
میں نے دور بین لگائی۔جہاز قر یب آنے کے بجائے دور ہوتا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے جہاز پر موجود لوگوں نے اس طرف دیکھا ہی نہیں تھا،ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ انہیں دھوئیں کے بادل ہی دکھائی نہ دیتے۔ میں پھر اچھل اچھل کر، جیکٹ لہرا کر، چیخ چیخ کر جہاز والوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن جہاز دور۔۔۔اور دور ہوتا جارہا تھا۔
میں نے پھر دور بین لگا کر دیکھا اور میر ا دل جیسے ڈوبنے لگا۔جہاز سمندر میں دور ہوتا گیا۔نگاہوں سے دور اور پھر وہ نظر سے اوجھل ہو گیا۔
میں بے اختیار رونے لگا۔
بائیس برس کے بعد دل میں آزادی کی امید پیدا ہوئی تھی، پورے بائیس برس…لیکن وہ بھی دم توڑ گئی۔ میں تقدیر کو کوسنے لگا۔ جس نے مجھے اس جزیرے کا قیدی بنا دیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے میری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ میں اسی جزیرے پر قیدی بنا رہوں اور یہیں گمنامی کی موت مرجاؤں۔
میں پہاڑی پر گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گیا اور آنسو بہانے لگا، میں بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
فرائیڈے میری حالت پر اتنا دکھی ہوا کہ وہ بھی ایک طرف بیٹھ کر آنسو بہانے لگا۔ میرا کتا بھی کیبن سے بھاگتے ہوئے آیا۔ میری حالت دیکھ کر میری گردن پر پیار کرنے لگا۔ میرا طوطا بھی اڑتا ہوا آیا اور کندھے پر آکر بیٹھ گیا اور یوں ٹیں ٹیں کرنے لگا، جیسے مجھے حوصلہ دے رہا ہواور کہہ رہا ہو کہ میں ہمت نہ ہاروں، خدا سے مایوس نہ ہوں۔
فرائیڈے اٹھ کر میرے پاس آیا۔میرے سر پر ہاتھ رکھا۔میں نے آنکھیں اوپر اٹھا کر دیکھا تو وہ رو رہا تھا اور بڑے جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’ماسٹر…ماسٹر…‘‘
میں نے اپنے کتے کو اداس دیکھا، طوطے کو سر جھکائے پایا۔یہ میرے ہمدرد تھے۔میں نے آستین سے آنسو پونچھے اور اٹھ کر پہاڑی سے چل دیا۔ وہ سب سر جھکائے میرے ساتھ چلنے لگے۔
میرا دکھ بہت گہرا تھا۔اتنے برسوں سے میں جس جہاز کو دیکھنے کے لئے دعائیں مانگتا اور ترستا رہا تھا۔ وہ جہاز دکھائی بھی دیا تو جہاز والوں نے میری طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔میری قسمت نے مجھے کیسا زخم لگایا تھا۔میں بوڑھا ہو رہا تھا اور اس جزیرے کا قیدی بن کر رہ گیا تھا۔
خدا جانے ابھی کیسی کیسی مصیبتیں میری قسمت میں لکھی تھیں۔
وہ رات میں نے بڑے کرب اور دکھ میں بسر کی۔آنسو آنکھوں میں آ جاتے تھے۔ اپنے والد کی یاد آتی تو دل بھر آتا۔ سوچتا، کیا وہ اب زندہ ہوگا۔ اگر زندہ بھی ہوگا تو بہت بوڑ ھا ہو گیا ہوگا۔
کاش میں نے اس کی نصیحت پر عمل کیا ہوتا۔ میں رات بھر نہ سو سکا۔نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بار بار سوچتا تھا کہ آخر مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے کہ جس کی اتنی سخت اور لمبی سزا مل رہی ہے۔
صبح ہوئی اور میں معمول کے مطابق جزیرے میں گشت کے لئے بھی نہ گیا۔ کیبن میں ہی لیٹا رہا۔ فرائیڈے میری حالت پر بہت پریشان تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ وہ پریشان نہ ہو، کھیت میں جا کر کام کرے۔
میں رات بھر جاگتا رہا تھا کسی لمحے میری آنکھ لگ گئی۔جب آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی۔فرائیڈے آگ جلا کر اس پر بکری کے گوشت کے ٹکڑے بھون رہا تھا۔
 طوفان
اچانک بجلی چمکنے اور بادل گرجنے لگے۔
میں نے فرائیڈے سے پوچھا۔ ’’کیا باہر بادل چھائے ہوئے تھے؟‘‘
’’ہاں ماسٹر‘‘ اس نے جواب دیا۔
وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ اسے خوش دیکھ کر میرے دل کا بوجھ بھی اتر گیا۔ ویسے بھی میں اتنا رویا تھا کہ اب صبر آ چکا تھا۔ موسم یکدم سرد ہوگیا۔ سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ جانے طوطے کو کیا ہوا کہ مسلسل ٹیں ٹیں کرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ کر پنجرے میں بند کیا اور خاموش کرادیا۔ کتا منہ اونچا کر کے کچھ سونگھتا ہوا بھونک رہا تھا۔ اسے بھی سختی سے ڈانٹا تو وہ چپ ہوگیا۔
بادل پہلے سے بھی زیادہ کڑاکے کے ساتھ گرجا اور بارش شروع ہوگئی۔فرائیڈے نے لکڑی کی دیوار کے سوراخ سے آ نکھ لگا کر باہر دیکھا اور بولا:
’’ماسٹر!بڑی تیز ہوا چل رہی ہے۔۔۔‘‘
اس کے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں پریشانی چھپی ہوئی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی کہ اس جزیرے میں ایسی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ بارش بہت تیز ہوگئی اور اس کی بوچھاڑ کیبن کی لکڑی کی دیواروں پر شور کے ساتھ پڑ رہی تھی۔ کیبن کی چھت میں نے درخت کی شاخوں اور لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر بنائی تھی۔اس پر بھی بارش تیزی سے گر رہی تھی۔
میں اس قسم کی بارشوں کا عادی ہو چکا تھا۔ فرائیڈے کے لئے بھی ایسی بارشیں عام تھیں، لیکن تھوڑی دیر کے بعد خود میں نے محسوس کیا کہ یہ بارش پہلی بارشوں سے مختلف ہوگئی ہے۔جوں جوں رات ہورہی تھی، ہوا کی تندی اور تیزی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سمندر میں بھی جیسے طوفان آ گیا تھا۔ لہریں چٹانوں سے ٹکرا کر شور پیدا کر رہی تھیں۔فرائیڈے نے لکڑی کی پلیٹ میں بکری کے گوشت کے ٹکڑے رکھے اور پلیٹ میرے آگے کر دی۔ میں نے کچھ ٹکڑے کھائے اور پھر اپنے گھٹنے پر مچھلی کے تیل کی مالش کر نے لگا۔ جب شارک مچھلی نے کشتی الٹا دی تھی تو میرے گھٹنے میں چوٹ لگ گئی تھی اور درد ہوتا رہتا تھا۔ کیبن کے اندر ہوا کے تیز جھونکے چولہے میں آگ کو بھڑکا رہے تھے۔ فرائیڈے نے چولہے کے آگے پتھر کی سل رکھ دی کہ شعلے پھیل کر کیبن کو ہی آگ نہ لگا دیں۔
ہوا کی تیزی اور زور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھنے اونچے درختوں کے جھولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بادل ایسے گرجتے تھے، جیسے آسمان پھٹنے والا ہے۔ بجلی یوں چمکتی کہ آنکھیں چندھیانے لگتی تھیں۔ بارش گویا اب آبشار کی طرح گر رہی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد کیبن کی چھت ٹپکنے لگی۔ فرائیڈے نے لکڑی کی ایک کھپچی لے کر اندر سے چھت میں اس جگہ گاڑ دی، جہاں سے وہ ٹپک رہی تھی۔یوں چھت ٹپکنی بند ہوگئی۔
مصیبت اس وقت آئی جب ہوا میں ایسی قوت اور تیزی پیدا ہوگئی کہ کیبن کو جیسے تھپیڑے مارنے لگی۔شدید طوفان آ چکا تھا۔ ہمارا کیبن ایک طرف سے چٹان میں پھنسا ہوا تھا۔ اس لئے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ تو نہیں تھا۔لیکن یہ خطرہ ضرور تھا کہ طوفانی ہوا کہیں کیبن کو ہی اڑا کر نہ لے جائے، کیونکہ دیواروں کی بنیادیں زمین میں گہری نہیں تھیں۔ ابھی یہ خیالات میرے دل میں پیدا ہی ہو رہے تھے کہ طوفانی ہواؤں کے ٹکراؤ سے اچانک لکڑی کی ایک دیوار کچھ اوپر اٹھ گئی۔جلدی سے اٹھ کر میں نے درخت کی ایک ٹوٹی ہوئی شاخ دیوار کے ساتھ اس طرح لگائی کہ ہوا کا سارا زور اب دیوار کے بجائے اس پر پڑے۔
طوفان بڑے زوروں کا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ سارا جزیرہ ہل رہا ہے۔ درختوں کے جڑ سے اکھڑنے اور گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سمندر کی لہروں کا شور بتا رہا تھا کہ سمندر جزیرے کے اندر پھیل رہا ہے۔
پھر ایک نئے خوف نے مجھے پریشان کر دیا۔
ہمارے کیبن کی چھت کے پاس ہی ایک بھاری گھنا درخت تھا، یہ ڈر پیدا ہوگیا کہ کہیں وہ درخت ٹوٹ کر چھت پر نہ گر جائے۔ ایسی صورت میں تو کیبن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا لازمی تھا۔ ہماری زندگیاں خطرے میں تھیں۔۔۔!
میں نے فرائیڈے کو حکم دیا کہ وہ فوراً چولہے میں جلنے والی آگ بجھا دے۔ اس نے فوراً آگ بجھا دی۔
میں باہر نکلا۔ رسی کی سیڑھی پر چڑھ کر دیوار کے اوپر گیا اور اس درخت کو دیکھا۔ جوکسی پا گل کی طرح تیز و تند طوفانی ہواؤں میں جھول رہا تھا۔ درخت بہت مضبوط اور بڑا تھا۔ بظاہر اس کے ٹوٹنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا، لیکن اس وقت ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہماری زندگیاں خدا کے رحم و کرم پر تھیں کیونکہ درخت ٹوٹ کر چھت پر گرتا تو ہم اسے روک نہیں سکتے تھے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ جب سے میں اس جزیرے میں آیا تھا، میں نے ان گنت طوفان دیکھے تھے، لیکن ایسا طوفان پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔
وہ تمام چیزیں جن کے بھیگ جانے اور ناکارہ ہو جانے کا اندیشہ ہو سکتا تھا، ہم نے محفوظ کر کے چٹان کی کھوہ میں چھپا دیں۔
سمندری طوفان کی شدت میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی۔ پانی کی بوچھاڑیں مسلسل دیواروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ بار بار بجلی کوندتی تھی، بادل گرج رہے تھے۔ سمندری لہریں چٹانوں سے ٹکرا کر خوفزدہ کرنے والا شور مچا رہی تھیں۔ایسے شور اور طوفان میں بھلا کسے نیند آ سکتی تھی، لیکن فرائیڈے نے مجھے کہا:
’’ماسٹر!تم سو جاؤ۔۔۔میں جاگ کر پہرہ دیتا ہوں۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔
آدھی رات کے بعد مجھے یوں لگا کہ جیسے طوفان میں کچھ کمی آ گئی ہے۔ دیکھا تو فرائیڈے گہری نیند سو رہا تھا۔ میں بھی اونگھنے لگا اور اونگھتے او نگھتے ہی دوبارہ سو گیا۔جب آنکھ کھلی تو صبح ہو رہی تھی۔ آسمان پر اب بھی بادل چھائے ہوئے تھے۔ میں نے فرائیڈے کو جگایا۔ اٹھ جاؤ، صبح ہوگئی ہے۔طوفان بھی گز رگیا ہے۔
فرائیڈے نے آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔میں نے اسے صبح کا سلام سکھا دیا تھا، اس نے مجھے صبح بخیر کہا۔میں نے اسے سلام کا جواب دیا۔اس کے بعد وہ اٹھ کر ناشتہ تیار کرنے لگا۔میں جائزہ لینے کے لیے کیبن سے باہر نکل آیا۔
طوفان نے جزیرے میں تباہی مچادی تھی۔
کئی درخت ٹوٹے ہوئے، گرے پڑے تھے۔ ساحل کی ریت پر ان گنت سیپیاں اور گھونگھے بکھرے ہوئے تھے۔ چٹانوں کے پاس دو تین شارک مچھلیاں مردہ پڑی دکھائی دیں۔ واقعی رات کا طوفان بہت ظالم تھا۔ ایسا تباہ کن طوفان میرے سامنے تو اتنے برسوں میں نہ آیا تھا، جس نے جزیرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
میں واپس آیا تو فرائیڈے ناشتہ تیار کر چکا تھا۔ ناشتے کے بعد ہم کام میں جٹ گئے۔ کیبن کی ضروری مرمت کی۔ دیوار جو کئی جگہ سے ہل گئی تھی، وہاں لکڑی کے کئی نئے تختے بنا کر پھنسا دیئے۔ چھت پر چڑھ کر اس کی مرمت کی۔ شام تک ہم دونوں ہی کاموں میں مصروف رہے۔
شام کے کھانے سے پہلے میں ایک بار پھر دور بین لگا کر پہاڑی پر چڑھا اور سمندر کو دیکھنے لگا۔ سمندر پرسکون تھا۔ کوئی جہاز دکھائی نہ دے رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ برسوں کے بعد میں نے جو جہاز دیکھا تھا، شاید وہ اصلی جہاز نہ تھا، بلکہ میرا وہم تھا۔ میں سوچنے لگا کہ وہ جہاز حقیقت تھا یا میرا وہم۔۔۔اور ایسے خیالوں نے ایک بار پھر میرا دل بوجھل کر دیا۔
 سہانا خواب
تین سال اور گزر گئے۔
مجھے اس جزیرے میں رہتے ہوئے اب تیس برس ہو گئے تھے۔اب لندن کی گلیاں اور بازار اور اپنے باپ کی شکل میرے ذہن میں دھندلانے لگی تھی۔ اس عر صے میں فرائیڈے کو میں نے اتنی انگریزی بولنا سکھا دی تھی ،وہ اب اپنا مطلب بخوبی بیان کر سکتا تھا۔ فرائیڈے سے میں نے بھی تھوڑی بہت جنگلی بولی سیکھ لی تھی۔ اس کی باتوں سے میں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ٹرینیڈیڈ خلیج اور فوکو میں واقع ہے۔فرائیڈے سے مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس کے قبیلے کا جزیرہ ہمارے جزیرے سے تھوڑے سے فاصلے پر ہی ہے۔
ایک دن اس نے مجھے بڑی تفصیل سے بتایا۔ ’’ماسٹر ہمارا قبیلہ بہت پرانا ہے اور آدم خور ہے۔ کوئی بھی باہر سے آنے والا آدمی ہمارے ہاتھوں بچ نہیں سکتا۔ گوروں کو تو بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔‘‘
اس نے بتایا۔ ’’ان دنوں میں چھوٹا تھا۔ جب ایک بڑے طوفان میں راستے سے بھٹک کر ایک جہاز ہمارے جزیرے سے آ لگا۔ ہمارے قبیلے کے لوگوں نے جہاز کے ہر آدمی کو پکڑ لیا۔ ہر روز ایک آدمی قتل کیا جاتا اور اسے آگ پر بھون کر کھایا جاتا تھا۔ اس طرح پندرہ بیس دنوں تک خوب دعوتیں اڑائی گئیں۔‘‘
جب میں نے فرائیڈے سے یہ پوچھا کہ اس نے بھی کبھی انسانی گوشت کھایا ہے، تو وہ بوکھلا گیا، پھر کہنے لگا:
’’ماسٹر، میں نے اپنی زندگی میں بس ایک دو بار انسان کا بھنا ہوا گوشت کھایا ہے۔ یا پھر اس دن آپ کے سامنے کچا کلیجہ چبا ڈالا تھا، لیکن شوق میں نہیں بلکہ انتقام کی وجہ سے۔اصل میں میرے باپ کو انسانی گوشت پسند نہیں تھا۔۔۔‘‘
یکدم اس کے لہجے میں گرمی اور جوش پیدا ہوا، وہ کہنے لگا:
’’ہاں دل میں یہ آرزو ضرور ہے، کہ کسی دن اپنے دشمنوں سے بدلہ لوں، وہاں جا کر سردار کو قتل کرکے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور لوگوں کا انتقام لوں۔‘‘
مجھے ایک بات سوجھی اور میں نے فرائیڈے سے کہا:
’’فرائیڈے کیوں نہ ہم ایسا کریں کہ ایک بڑی کشتی بنا کر خدا کا نام لے کر یہاں سے چل دیں۔ کسی نہ کسی طرح ہم ٹرینیڈیڈ کے ساحل تک تو پہنچ ہی جائیں گے۔ وہاں پہنچ جانے کی صورت میں ہم وہاں دن رات کام کریں، روپیہ جمع کریں،پھر کرائے کے سپاہی بھرتی کریں۔ انہیں اسلحہ دے کر تمہارے جزیرے پر حملہ کر دیں۔‘‘
فرائیڈے کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا ۔’’ماسٹر کرائے کے سپاہی جمع کر کے فوج بنانے کا خیال دل سے نکال لو۔میرے خیال میں ہمیں ایک بڑی کشتی بنا کر سمندر میں نکل پڑنا چا ہیے۔کہیں نہ کہیں تو کوئی جہاز مل ہی جائے گا اور یوں آپ کو اس جزیرے سے آزادی مل سکتی ہے۔‘‘
اس کی یہ بات میرے دل کو لگی، میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔تو ہم کل سے ہی کشتی بنانا شروع کر تے ہیں۔‘‘
’’میں ہر طرح سے تیار ہوں۔‘‘ فرائیڈے نے جواب دیا۔
اس رات ہم طرح طرح کے منصوبے بناتے سو گئے۔ میں نے ایک دلچسپ خواب دیکھا۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں لندن پہنچ گیا ہوں۔میرے پاس سونے سے بھرے ہوئے بڑے بڑے صندوق ہیں، جو جہاز سے اتارے جا رہے ہیں۔لوگ خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے میرا استقبال کر رہے ہیں۔اخباروں کے نمائندے جمع ہیں۔میرے والد میرے پاس کھڑے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ۔وہ بار بار مجھے سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اتنے برسوں کی جدائی کے بعد اتنی زیادہ دولت لے کر کامیاب لوٹا ہوں۔
پھر میری آنکھ کھل گئی۔
صبح ہو رہی تھی، فرائیڈے گہری نیند سو رہا تھا۔میں نے اسے جگا کر کہا، ’’فرائیڈے، میں ابھی کچھ دیر اور سوؤں گا، تم کیبن سے کلہاڑا لے کر جنگل میں چلے جاؤ اور کوئی ایسا درخت چنو، جس سے ہم ایک بڑی کشتی بنا کر اس جزیرے سے روانہ ہو سکیں۔‘‘
جب فرائیڈے کلہاڑا اٹھا کر کیبن سے باہر نکل گیا، تو میں پھر سوگیا، میں پھر وہی سہانا خواب دیکھنا چاہتا تھا۔
 سمندری ڈاکو
فرائیڈے کے جانے کے بعد میں تھوڑی دیر ہی سویا ہوں گا کہ اچانک گولیوں کے دھماکے ہوئے اور میری آنکھ کھل گئی۔میں نے سب سے پہلے اپنے پستول اور بندوق کو دیکھا، دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر موجود تھیں۔میں حیران ہوا کہ اس جزیرے میں پھر کس نے گولیاں چلائی ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی فوج یہاں آ گئی ہے۔
یہ خیال آتے ہی میں خوشی سے اچھلا۔اب میں اس منحوس جزیرے سے جا سکتا تھا۔
میں باہر نکلنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ فرائیڈے ہانپتا کانپتا اوپر آ گیا۔
اس نے جلدی جلدی بتایا، ’’ماسٹر، ماسٹر، دو کشتیوں پر سمندری ڈاکو جزیرے میں آئے تھے۔انہوں نے گورے ملاحوں کو ساحل پر لا کر گولیوں سے اڑا دیا اور پھر واپس چلے گئے۔‘‘
میں تیزی سے بھاگنے لگا۔
فرائیڈے بھی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ہم دونوں ساحل پر پہنچے۔سب سے پہلے میں نے ایک سیاہ بادبانوں والا جہاز دیکھا جو ساحل سے کافی فاصلے پر سمندر میں کھڑا تھا۔اس کے اونچے مستول پر انسانی کھوپڑی والا سمندری ڈاکوؤں کا سیاہ جھنڈا لہراتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا۔
دو کشتیاں ساحل کو چھوڑ کر تیزی سے جہاز کی طرف جاتی دکھائی دیں۔ ان کشتیوں میں سمندری ڈاکو بیٹھے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے سروں پر لال رنگ کے رومال باندھ رکھے تھے اور کانوں میں بڑے مندرے پہنے ہوئے تھے جو دھوپ میں لشکارے مار رہے تھے۔ اس منحوس جزیرے سے نکلنے کی زبردست خواہش نے مجھے بے چین کر دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ بحری ڈاکو کسی اجنبی کو ایک لمحے کے لئے بھی اپنے جہاز پر آنے کی اجازت نہیں دیتے اور اجنبی کو قتل کر دیتے ہیں۔ میں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر زور زور سے چلاتے ہوئے سمندر کی طرف بھا گنا شروع کر دیا۔
میں مدد مدد پکارنے لگا،حالانکہ ڈاکوؤں کی کشتیاں ساحل سے بہت دور نکل گئی تھیں۔فرائیڈے بھی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ ڈاکوؤں نے ہم دونوں کو جنگلی انسان سمجھا ہوگا اور ریت پر بھاگتے دیکھ لیا تھا۔انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کر دی۔فرائیڈے نے مجھے دھکا دیا اور ریت پر گرا دیا۔
ڈاکوؤں کی گولیاں ہمارے سروں کے اوپر سے سنسناتے ہوئے گزر رہی تھیں۔میرے اندر آزاد ہونے کی آرزو، اس جزیرے سے نجات حاصل کرنے کی تڑپ اتنی شدید تھی کہ میں نے فرائیڈے کو پیچھے ہٹایا، ریت سے اٹھا اور پھر سمندر کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ سمندر کا پانی اب میرے گھٹنوں تک پہنچ گیا تھا۔
میں زور سے ہاتھ ہلا کر چیخ رہا تھا۔ ’’خدا کے لئے مجھے اس دوزخ سے لے چلو۔میں تیس برسوں سے یہاں سڑ رہا ہوں۔مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔مجھے جہاز پر گولی مار دینا، لیکن خدا کے لئے اس جزیرے سے لے چلو۔مجھے ایک بار اپنے جہاز پر سوار کر لو…‘‘
سمندری ڈاکو قہقہے لگاتے دکھائی دیے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہم پر گولیاں چلا دیں، جو میرے آس پاس اِدھر اُدھر گرنے لگیں۔پھر وہ کشتیوں سے اترے، جہاز پر سوار ہوئے اور کشتیوں کو رسوں کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا۔۔۔اور پھر۔۔۔میری سوگوار آنکھوں نے جہاز کو لنگر اٹھاتے دیکھا۔جہاز چل دیا اور میں کھڑا دیکھتا کا دیکھتا ہی رہ گیا…
میں وہیں کھڑا رہا، جہاز دور ہوتا چلا گیا۔حتیٰ کہ وہ ایک دھبہ سا بن کر رہ گیا اور پھر آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔
فرائیڈے نے مجھے ہوش میں آ نے کے لئے کہا اور یاد دلایا کہ تین گورے ملاح سمندر کے کنارے پر پڑے ہیں، جنہیں ان ڈاکوؤں نے سمندر کے کنارے پر لا کر گولی ماری تھی۔
میں تیز تیز چلتا ساحل پر ان تینوں لاشوں کے قریب پہنچا، وہ تینوں سفید فام تھے۔ان میں سے دو مر چکے تھے۔گولیاں ان کے دل کے پار ہوگئی تھیں۔
البتہ ایک شخص میں ابھی کچھ سانس باقی رہ گئے تھے۔میں اس پر جھکا، اس سے پوچھا:
’’کون ہو تم، انگریز ہو؟‘‘
مرنے والا ملاح چند گھڑیوں کا مہمان تھا۔اس کے بال سرخ اور ناک مڑی ہوئی تھی۔اس نے کپتان کی وردی پہنی ہوئی تھی، جو خون میں بھیگی ہوئی تھی۔اس نے رک رک کر لڑکھڑاتی زبان میں مجھے بتایا کہ وہ فرانسیسی جہاز کا کپتان ہے۔جہاز پر سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور اسے غرق کر دیا۔سارا مال لوٹ کر اپنے جہاز پر لے گئے۔تمام مسافروں کو جہاز کے ساتھ ہی ڈبو دیا۔
وہ مر رہا تھا۔
میں نے چلا کر پو چھا:
’’یہ جزیرہ کس خلیج میں ہے۔کیا یہ ٹرینیڈیڈ کی خلیج ہے؟‘‘
فرانسیسی کپتان نے آہستہ سے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔ پھر اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی، وہ مر گیا۔مرتے مرتے اس نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ یہ ٹرینیڈیڈ کی خلیج ہی تھی۔اس کا مطلب تھا کہ اگر میں حوصلہ کر کے سمندر میں نکل پڑتا تو ایک نہ ایک دن ٹرینیڈیڈ پہنچ ہی سکتا تھا۔
میں نے فرائیڈے سے کہا:
’’ان لاشوں کی تلاشی لو، شاید کوئی کام کی چیز نکل آئے۔ان تینوں سے ہمیں پستول ملے۔گولیوں کی پٹیاں بھی مل گئیں۔جو ان کے جسموں کے ساتھ بندھی تھیں۔حیرت ہے کہ ڈاکوئوں نے ان کے پستولوں اور گولیوں کو کیوں نہ لیا تھا۔ ہم نے ان کی جیبوں کی تلاشی لی۔ ایک پنسل، ایک چاقو، سگریٹوں کا ایک پیکٹ اور ایک بڑی دیا سلائی کی ڈبیہ ملی۔
ساری چیزیں ہم نے قبضے میں لے لیں اور پھر انہیں وہیں گڑھے کھود کر وردیوں سمیت دفنا دیا اور قبروں پر لکڑی کی صلیبیں بھی گاڑ دیں۔
کیبن میں واپس آ کر میں نے گولیاں اور تینوں پستول سنبھال کر رکھے۔گولیاں بہت بڑی تعداد میں تھیں۔ہم نے ایک ایک سگریٹ سلگایا۔سگریٹ بہت عمدہ تھے۔کش لگاتے ہی مجھے لندن یاد آگیا تو دل اداس ہو گیا۔
میں نے کش لگاتے ہوئے فرائیڈے سے کہا:
’’میرا اندازہ درست نکلا۔اگر ہم بڑی کشتی میں سوار ہو کر یہاں سے نکلیں تو کسی دن ٹرینڈیڈ ضرور پہنچ سکتے ہیں۔
فرائیڈے نے جواب دیا۔ ’’میں نے ایک ایسے درخت کو تلاش کر کے نشان لگا دیا ہے، جس سے ایک مضبوط اور بڑی کشتی بن سکتی ہے۔‘‘
 فرائیڈے کا اغوا
دوسرے دن سے ہم نے اس درخت کو کاٹ کر زمین پر گرا دیا اس کے بعد ہمیں اس کے تختے کاٹ کر ایک مضبوط کشتی تیار کرنی تھی۔ہم اس جزیرے سے نکلنے کا پختہ عزم کر چکے تھے۔ ہم پورا پورا دن کشتی کی تیاری پر کام کر نے لگے۔ ہمارا کام بہت مشکل تھا۔ لوہے کے کیل تھے نہ میخیں، اس لئے ہمیں لکڑی کی میخیں بنانی پڑیں اور انہیں ٹھونک کر ہی تختوں کو جوڑتے تھے۔
پورا ایک ہفتہ گزر گیا اور ہم نے آدھی کشتی بنائی۔ فرائیڈے کشتی بنانے میں میرا بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہا تھا۔ شاید وہ بھی اس جزیرے سے آزادی حاصل کر کے کسی بڑے جدید شہر کو دیکھنے کے لئے بے چین تھا۔ وہ سارا سارا دن میرے ساتھ کام میں لگا رہتا۔
ایک مہینے میں کشتی نصف سے زیادہ مکمل ہو چکی تھی۔ ہم نے کشتی میں ڈھلوانی چھت کا سائبان بھی بنایا تھا۔ کیونکہ اس طرح ہم بارش سے محفوظ رہ سکتے تھے اور دھوپ سے بھی۔ وہ لوگ جنہوں نے ایسے سمندروں کا سفر کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ سمندر کی دھوپ کتنی گرم اور ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ پانی سے بھاپ اڑنے لگتی ہے، اگر سایہ نہ ہو تو دھوپ جھلسا دیتی ہے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ جب میں صبح اٹھا تو اپنے آپ کو بہت تھکا ہوا پایا۔ رات میں نے جزیرے کا چکر بھی لگایا تھا اور سارا دن کشتی پر کام بھی کرتا رہا تھا۔ اس لئے میں بہت تھکا ماندہ تھا۔ فرائیڈے نے اونچی آواز میں مجھے صبح کا سلام کیا تو میں نے اسے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ نیند سے میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ فرائیڈے مسکراتا ہوا کشتی پر کام کر نے کے لئے چلا گیا اور رسی کی سیڑھی اوپر اچھال دی۔ میں پھر سوگیا۔
میرا خیال ہے کہ میں کوئی گھنٹہ بھر سویا ہوں گا کہ طوطے کے شور کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں آنکھیں ملتا اٹھا۔ طوطا ٹیں ٹیں کرتا رہا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ اس لئے جب میں نے اسے کھانے کو روٹی اور انگور دیئے تو وہ رغبت سے کھانے لگا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے کتے کو بھی روٹی اور دودھ دیا۔ خود بھی تھوڑا بہت ناشتہ کیا۔ پھر پستول اور دور بین لے کر کیبن سے نکل آیا۔ باہر آتے ہی میں نے رسی کی سیڑھی کو ایک درخت سے باندھ دیا۔
اب بھی میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور کام کرنے کو دل نہ چاہتا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ فرائیڈے وہاں میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ میں اسے جا کر بتادوں گا کہ آج میرا کام کرنے کا موڈ نہیں۔ وہ اکیلا ہی کام کرے۔
یوں میں چلتا ہوا اس گھنے درخت کی طرف چل دیا جس کے سائے میں ہم کشتی بنار ہے تھے۔
فرائیڈے وہاں نہیں تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔ میں نے سوچا فرائیڈے چشمے پر پانی پینے چلا گیا ہوگا اور لکڑی میں میخیں ٹھوکنے لگا۔ جب لگ بھگ ایک گھنٹہ گزر گیا اور فرائیڈے واپس نہیں آیا تو میں پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ آخر فرائیڈے کہاں چلا گیا ہے۔ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا۔
میں تیز تیز چلتا ہوا چشمے پر پہنچا لیکن فرائیڈے وہاں نہیں تھا!
یہ سوچ کر، کہ وہ کیبن سے کوئی چیز لینے نہ گیا ہو، میں نے کیبن کا رخ کیا، مگر کیبن میں بھی وہ نہ ملا تو میری پریشانی بڑھ گئی۔
میں نے پورے جزیرے میں اسے تلاش کیا۔ اونچی اونچی آواز میں اسے بار بار پکارا۔ مگر جنگل میں میری آواز ہی گونجتی رہ گئی، کوئی جواب نہیں مل سکا۔
یاخدا، فرائیڈے کہاں چلا گیا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے تلاش کرتا جب میں جزیرے کے مغربی کنارے کی طرف گیا تو وہاں تازہ قدموں کے نشان دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔یہ چھ سات آدمیوں کے قدموں کے نشان تھے اور بالکل تازہ تھے۔ قدموں کے یہ نشان جنگل کی طرف جارہے تھے۔میں ان کے پیچھے پیچھے چلا، پھر یہ نشان سمندر کے کنارے تک آ گئے۔
اور پھر اچانک مجھے ایک خیال آیا اور میں کانپ کر رہ گیا۔
کہیں فرائیڈے کو آدم خور اغوا کر کے تو نہیں لے گئے۔۔؟؟
قدموں کے نشانات نے میرے شبہے کو یقین میں بدل دیا۔ قدموں کے نشانات میں فرائیڈے کے قدموں کے نشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔ قدموں کے نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ فرائیڈے کو گھسیٹ کر لے جایا گیا تھا۔
دل میں خیال آیا کہ فرائیڈے نے چیخ کر مجھے پکارا کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب بھی خود ہی مل گیا کہ آدم خوروں نے یقینا اس کا منہ بند کر دیا ہوگا۔
ساحل پر کشتی گھسیٹنے کے نشان بھی صاف دکھائی دے رہے تھے۔
فرائیڈے کو اغوا کرلیا گیا تھا۔۔۔!
فرائیڈے کا اغوا ہو جانا میرے لئے بہت پریشان کن تھا۔ وہ میرا ساتھی تھا۔ میں اسے بھائیوں کی طرح چاہنے لگا تھا اور وہ میرا وفادار تھا۔ اس کی زندگی کو خطرہ تھا، وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ پھر دل میں خیال آیا کہ وہ اسے یہاں بھی قتل کر کے بھون کے کھا سکتے تھے، کوئی خاص وجہ ہوگی کہ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ممکن ہے ان کا خیال ہو کہ اگر انہوں نے جزیرے میں آ گ جلائی تو اس کے دھویں سے مجھے خبر ہو سکتی تھی اور میں ان کو بندوق سے قتل کر سکتا تھا۔
اب کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔فرائیڈے کو آدم خور اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
میں کیبن میں آ گیا اور اندر پہنچ کر سیڑھی اوپر کھینچ لی۔میں ایک کونے میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔سوچتے سوچتے دوپہر ڈھلنے لگی۔ میں نے کچھ روٹی کھائی اور باہر نکل آیا۔ سمندر کے کنارے ٹہلنے لگا۔ میرا طوطا میرے کندھے پر بیٹھا تھا، کتا ساتھ ساتھ چل رہا تھا، گلے میں پستول اور دور بین لگی ہوئی تھی، پیٹی میں شکاری چاقو تھا۔ سر پر کھال کی بنی چھتری تان رکھی تھی۔
میں سوچنے لگا، قسمت نے نجانے ابھی مجھے کتنی تکلیفیں اور پہنچانی ہیں۔ میں کب تک یہاں قید رہوں گا۔ فرائیڈے نے میری زندگی کو تنہائی سے نجات دلوا دی تھی۔ وہ میرے سارے کام کرتا تھا۔ اب اس کی زندگی خطرے میں تھی۔
میں سمندر کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔میری آنکھوں کے سامنے سمندر پھیلا ہوا تھا۔ لہریں آتیں اور کنارے کو چوم کر واپس چلی جاتیں۔ میں نے تصور میں دیکھا کہ وحشی آدم خور فرائیڈے کو آ گ پر بھون بھون کر کھا رہے ہیں۔
یہ خیالی منظر اتنا تکلیف دہ تھا کہ میں یکدم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہوں گا، بلکہ ہر قیمت پر فرائیڈے کی جان بچانے کی کوشش کروں گا۔میرے پاس بندوق اور گولیاں ہیں، وہ آدم خور میر امقابلہ نہیں کر سکتے۔‘‘
اور میں نے اپنے آپ سے کہا:
’’فرائیڈے کو بچانے کے لئے آدم خوروں کے جزیرے میں جانا ہو گا۔‘‘
میرے دل نے ہی مجھے جواب دیا۔ ’’ہاں میں وہاں جاؤں گا، فرائیڈے کو بچاؤں گا۔‘‘
میں تیز تیز چلتا کیبن میں پہنچا۔ میرے لئے مناسب وقت بھی تھا کہ میں رات کے وقت جزیرے سے رخصت ہوتا، کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ آدم خوروں کو میری روانگی کا علم ہو۔ میں نے تیاری شروع کر دی۔ پانچوں پستول بھر کر گلے میں لٹکا لئے۔ بندوق بھی تیار کر لی۔دوربین بھی ساتھ رکھی اور اپنی چھوٹی کشتی میں سوار ہوکر سمندر میں اتر آیا اور اس سمت کشتی کھینے لگا، جس طرف اشارہ کر کے مجھے فرائیڈے نے بتایا تھا کہ اس کا جز یرہ اس سمت میں ہے۔
 آدم خوروں کا جزیرہ
سمندر پر سکون تھا۔سویا سویا لگ رہا تھا۔ آسمان پر ان گنت ستارے چمک رہے تھے۔میرے چپوؤں کی چپک چپک کی آواز خاموشی میں دور تک گونج رہی تھی۔ میں اس سے پہلے کبھی فرائیڈے کے جزیرے میں نہیں گیا تھا اور نہ ہی مجھے اس کا صحیح پتہ ہی معلوم تھا۔ میں یہ چاہتا تھا کہ رات کے وقت ہی اس جزیرے تک پہنچ جاؤں۔دن کی روشنی میں آدم خور مجھے دیکھ سکتے تھے اور میرے اور فرائیڈے کے خلاف بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
دل میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے۔ یہ بھی سوچتا کہ اگر آدم خور فرائیڈے کو کسی دوسرے جزیرے میں لے گئے ہوں تو۔۔۔؟ میری کشتی اب جزیرے سے خاصی دور آ گئی تھی۔
مجھے کشتی کھیتے آدھی رات ہوئی۔بار بار دل میں یہ اندیشہ جنم لیتا کہ میں کسی غلط سمت کی طرف تو نہیں بڑھ رہا۔ میری کشتی چھوٹی اور کمزور تھی اور میں اسے کھلے سمندر میں لے کر نہیں جا سکتا تھا۔ اس طرح تو میں خود اپنی موت کو دعوت دیتا۔ یہ کشتی تو بس تیس چالیس میلوں کے درمیان ہی پر سکون سمندر میں سفر کر سکتی تھی۔ کھلے سمندر میں اس کے لئے اونچی اور طاقتور لہروں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بار بار میں چونکتا اور دیکھتا کہ کہیں کشتی کھلے سمندر کی طرف نہ بڑھ رہی ہو، کیونکہ اس میں میری موت تھی۔
اچانک میری نظر مشرق کی طرف پڑی۔
دور مجھے روشنی نظر آئی۔ اس کا مطلب تھا کہ ادھر کوئی جزیرہ ہے، جس میں کسی جگہ آ گ جل رہی ہے۔ میں سوچنے لگا ممکن ہے یہی جزیرہ فرائیڈے کا جزیرہ ہو۔ میں غور سے اس روشنی کو دیکھتا رہا۔ بہرحال کشتی اس طرف جا رہی تھی اور روشنی قریب آ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ گھنے درخت بھی نظر آنے لگے تھے جو کسی جزیرے کے ساحل پر ہی ہو سکتے تھے۔اب میں جزیرے کے اتنے قریب تھا کہ کشتی میں، میں دکھائی بھی دے سکتا تھا، اس لئے میں کشتی میں لیٹ کر چپو چلانے لگا۔ مجھے علم تھا کہ اگر میں اندھیرے میں صاف صاف دیکھ لیتا ہوں تو میری طرح یہ آدم خور بھی اندھیرے میں دیکھنے کے عادی ہوں گے اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جزیرے کے آدم خور رات کو چوکیداری بھی کرتے ہوں اور آنے جانے والوں پر نگاہ رکھتے ہوں۔
میں کشتی کو مشرقی کنارے کی طرف لے گیا۔ یہ کنارہ گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے اب یقین ہو گیا تھا کہ یہ ایک آباد جزیرہ ہے۔ وہ آ گ جو میں نے دور سے دیکھی تھی، وہ ایک جھونپڑی کے باہر جل رہی تھی۔
میرے لئے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہ رہا کہ یہ جھونپڑی دراصل نگرانی کی چوکی تھی۔کوئی نہ کوئی شخص وہاں ضرور پہرہ دے رہا ہو گا۔ کشتی کو کنارے پر لا کر میں اسے خاموشی سے کھینچتا ایک چٹان کی کھوہ میں لے گیا، جہاں سمندری بیلیں اگی ہوئی تھیں۔
دونوں ہاتھوں میں پستول تھامے، میں دبے پاؤں اس جھونپڑی کی طرف بڑھا۔ میرا پہلا کام یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا میں اسی جزیرے میں آیا ہوں، جو فرائیڈے کا جزیرہ ہے اور جہاں میرے خیال کے مطابق اسے اغوا کر کے لایا گیا ہوگا۔
ایک اطمینان بھی مجھے حاصل تھا کہ اگر یہ جزیرہ فرائیڈے کا ہی جزیرہ نکلا تو پھر ان لوگوں کی زبان نہ صرف میں سمجھ سکتا ہوں، بلکہ ان کی زبان آسانی سے بول بھی سکتا ہوں۔
یہ ایک خوبصورت اور پراسرار منظر تھا۔ رات گہری تھی۔آسمان پرستارے چمک رہے تھے۔ ان کی روشنی دھیمی تھی۔
سمندر پر سکون تھا۔میں کنارے کے درختوں کے نیچے جھک کر آگے بڑھ رہا تھا اور پھر میں اس جھونپڑی کے عقب میں اس کے بہت قریب آ گیا۔
آگ کا چھوٹا سا الاؤ جل رہا تھا۔
ایک ننگا آدم خور گھٹنوں میں سر دیئے اونگھ رہا تھا۔
ایک ویران سنسان جزیرے میں برسہا برس اکیلے رہنے اور شکار کرنے کی وجہ سے میں بے آواز چلنے میں پوری مہارت حاصل کر چکا تھا۔ اس لئے بے آواز چلتا ہوا جھونپڑی کے عقب میں گیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا کوئی جھونپڑی کے اندر بھی ہے یا جھونپڑی خالی ہے۔
جھونپڑی کی گھاس کی بنی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر میں نے تھوڑی سی گھاس ایک طرف کر کے دیکھا۔اندر تاریکی تھی۔ تاریکی میں دیکھنے والی میری آنکھوں نے جلدی دیکھ لیا کہ جھونپڑی میں پانی کے ایک گھڑے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ باہر آگ کے الاؤ کے پاس اونگھنے والا آدم خور اکیلا ہی پہرہ دے رہا تھا۔ اس اکیلے آدم خور کو قابو میں کرنا میرے لئے مشکل نہ تھا۔ اس وقت میں پستول چلانے کے حق میں نہیں تھا، کیونکہ پستول کے دھماکے کے نتیجے میں بہت سے آدم خور مقابلے میں آ سکتے تھے۔
میں زمین پر منہ کے بل لیٹ کر سمندری کیڑے کی طرح رینگتے ہوئے آدم خور کی طرف بڑھنے لگا۔پستول میرے گلے میں لٹکے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھوں میں بکری کی کھال کی بنی رسی پکڑی ہوئی تھی۔
وحشی آدم خور گہری نیند سو رہا تھا۔ اسے کچھ خبر نہ ہوئی، حالانکہ میں جانتا تھا کہ یہ جنگلی معمولی سی آہٹ پر چوکنے ہو جاتے ہیں۔
میں نے تیزی سے وہ رسی اس کے گلے میں ڈالی، اسے اتنا مروڑا کہ جنگلی آ دم خور کی آ نکھیں باہر نکل آئیں۔اس نے بے حد وحشت سے میری طرف دیکھا۔
میں اسے گھسیٹتا ہوا جھونپڑی کے اندر لے گیا۔ اس کا گلا رسی سے اس حد تک دبا رکھا تھا کہ اس کے حلق سے آواز بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ جھونپڑے کے اندر لے جا کر میں نے رسی کی گرفت معمولی سی ڈھیلی کی اور اس کے کان کے قریب اپنا منہ لے جا کر کہا:
’’آج تم ساتھ والے جزیرے سے ایک لڑکے کو اغواکر کے لائے ہو؟‘‘
اس نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔
اور اس سے پہلے کہ وہ چیخنے کی کوشش کرتا، میں نے رسی کس کر پستول اس کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے کہا:
’’یہ وہ چیز ہے، جو آگ اگلتی ہے، دھماکہ ہوتا ہے اور انسان تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔اگر تم زندہ رہناچا ہتے ہو تو خاموش بیٹھے رہو۔ ادھر دیکھو۔میرے پاس ایسے کتنے ہی پستول ہیں۔ میں تمہیں اور تمہارے سب ساتھیوں کو آسانی سے ہلاک کر سکتا ہوں۔ مجھے بتاؤ وہ لڑکا کہاں ہے، کہیں تمہارے ساتھیوں نے اسے بھون کر تو نہیں کھا لیا؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلا کر جواب دیا۔ ’’نہیں۔۔۔‘‘
میرے بدترین اندیشے غلط ثابت ہوئے تو میں بہت خوش ہوا۔ فرائیڈے ابھی زندہ تھا، اسے بچایا جا سکتا تھا۔
’’مجھے بتاؤ وہ کس جھونپڑی میں قید ہے، کہاں ہے؟‘‘
جنگلی پہرے دار اب خوف زدہ ہو چکا تھا۔وہ اپنی جان بچانا چاہتا تھا، اس لئے اس نے مجھے بتا دیا کہ فرائیڈے کو جنگل کے اندر سردار کی بڑی جھونپڑی کے پیچھے ایک جھونپڑی میں قید کر کے رکھا گیا ہے۔ جہاں ہر وقت دو آدم خور پہرہ دیتے ہیں اور ان کے پاس چھرے اور تیر کمان ہیں۔
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ فرائیڈے کو ابھی تک اس لئے قتل نہیں کیا گیا کہ کچھ دنوں کے بعد کسی دیوتا کا تہوار ہے اور سردار اس تہوار کے دن فرائیڈے کا خون اور گوشت دیوتا کے حضور بطور نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہے۔
اس خبر سے میرے اطمینان میں مزید اضافہ ہوا۔ اب میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں فرائیڈے کو آزاد کرانے کی کوشش کر سکوں، لیکن اس سے پہلے مجھے اس پہرے دار آ دم خور کو ٹھکانے لگانا تھا۔ کیونکہ بچ جانے کی صورت میں یہ اپنے سردار اور قبیلے کو میرے بارے میں بتا سکتا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا، ’’تم اب تک کتنے انسانوں کو ہلاک کر کے ان کا گوشت کھا چکے ہو؟‘‘
اس نے اشاروں میں جواب دیا، میں بارہ انسانوں کا گوشت کھا چکا ہوں۔
میرے لئے اس آدم خور کو قتل کرنے کا معقول سبب موجود تھا۔ میں نے اس کے سر پر بڑے زور سے پستول کا دستہ مارا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے گھسیٹ کر میں سمندر کے کنارے لے آیا۔ پھر ایک اونچی چٹان پر چڑھ کر اسے دھکیل کر گہرے سمندر میں کھاڑی میں گرا دیا۔وہ بچ نہیں سکتا تھا۔
وہاں سے میں تیزی سے اس کی جھونپڑی تک آیا۔آس پاس کا جائزہ لیا۔آسمان پر صبح کی پہلی نیلی نیلی روشنی کا غبار پھیلنے لگا تھا۔ درخت اب صاف دکھائی دے رہے تھے اور جنگل میں جاتی ایک چھوٹی سی پگڈنڈی کو بھی میں نے دیکھ لیا۔ لیکن میں اس راستے کی بجائے دوسری طرف سے جنگل میں داخل ہوا کیونکہ اس پگڈنڈی پر تو کوئی آدم خور بھی آ سکتا تھا اور وہ اس جنگل میں لازمی ہوں گے۔اس لئے میں بہت احتیاط سے چل رہاتھا۔
چلتے چلتے میں ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کئی درختوں کا بہت ہی گھنا جھنڈ تھا۔ دن کی روشنی پھیل رہی تھی۔ اب آ گے جانا خطرے سے خالی نہ ہو سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک طرف سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ دھواں اسی جگہ سے اٹھ رہا ہے جہاں پاس ہی آدم خوروں کی جھونپڑیاں ہوں گی۔
میں نے درختوں کی شاخوں کو ایک طرف ہٹا کر دیکھا۔
سامنے ایک کھلی صاف جگہ تھی، جہاں درختوں کے پاس کنارے کنارے جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں ایک جھونپڑی سب سے اونچی دکھائی دے رہی تھی۔ یہی جھونپڑی قبیلے کے ظالم سردار کی تھی۔ اب دن کی روشنی چمکدار ہوکر پھیلنے لگی تھی۔
میں آ گے بڑھ کر خطرات مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ انہیں جلد ہی اپنے ایک ساتھی کی گمشدگی کا علم ہو جائے، جو پہرہ دیتا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی لاش پانی میں پھول کر اوپر آ جائے۔ دونوں صورتوں میں وہ اس کی تلاش شروع کر دیں گے جوان کے خیال میں جزیرے میں آیا ہے۔۔۔اور وہ میں تھا!
اب میرے لئے یہی بہتر تھا کہ میں اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس جزیرے میں اجنبی ہوں اور وہ اس جزیرے کے چپے چپے سے واقف ہیں، کوئی محفوظ جگہ ڈھونڈ کر چھپ جاؤں اور تاریکی ہو نے کا انتظار کروں کیونکہ اس وقت میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
میں کسی مناسب چھپنے کی جگہ کو تلاش کر نے لگا۔ یہ جزیرہ میرے جزیرے سے کہیں زیادہ گھنا تھا۔ یہاں درخت بھی گھنے تھے اور جھاڑیاں بھی۔ گھاس بھی اونچی اور گھنی تھی۔ میرے اندازے کے مطابق مجھے ایک ایسی محفوظ جگہ مل ہی گئی، جہاں میں چھپ سکتا تھا۔
یہ ایک کُھوہ تھی، جو ایک چٹان کے اندر اور جھاڑیوں میں تھی۔ کھوہ کے منہ پر گنجان جھاڑیوں نے پردہ کر رکھا تھا، میں اس محفوظ کھوہ میں بیٹھ گیا۔ بندوق کو میں نے چٹان کی اندرونی دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ میں بہت تھک گیا تھا۔ کشتی چلانے سے میرے بازوؤں میں درد ہونے لگا تھا۔درختوں پر پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ باہر دھوپ نکل آئی تھی، دھوپ کی کرنیں کھوہ کے اندر بھی آ رہی تھیں۔ میں بہت چوکس بیٹھا تھا۔میں باہر سے آنے والی ایک ایک آواز پر کان دھرے ہوئے تھا۔
میرے خیال میں اب تک آدم خوروں کو اپنے ساتھی کی گمشدگی یا اس کی لاش کا پتہ چل گیا ہوگا۔
چال
دور سے لوگوں کی آوازیں سنائی دیں۔میرے کان کھڑے ہو گئے۔یوں لگ رہا تھا جیسے جنگلی آدم خور میری طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔آوازیں قریب تر ہوتی جارہی تھیں۔چونکہ میں ان کی زبان جانتا تھا، اس لئے جب آوازیں قریب آئیں تو میں نے سنا کہ وہ آ پس میں باتیں کر رہے ہیں، بہت غصے میں ہیں کیونکہ ان کے ساتھی آدم خور پہرے دار کی لاش سمندری کھاڑی میں مل گئی تھی! ان کے سردار نے انہیں حکم دیا کہ قاتل جزیرے میں ہی ہوگا، اسے پکڑ کر اس کے سامنے پیش کیا جائے، تاکہ وہ خود اس کا سر تن سے جدا کرے اور پھر اس کا گوشت بھون کر کھائے۔
وہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ میری ہی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔میری سانسیں ناہموار ہونے لگیں، مجھے یوں لگا جیسے وہ میرے پاس ہی آ کر رک گئے ہیں۔ان کی آوازوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ تعداد میں چار ہیں، وہ میرے بارے میں یعنی قاتل کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔
وہ میرے خون کے پیاسے تھے۔ایک بار تو میں بھی حوصلہ ہار گیا اور موت کے خوف سے خون خشک ہونے لگا، لیکن میں نے جلدی اپنے آپ کو سنبھال لیا۔
میرا خوف ہی میری موت کا سبب بن سکتا تھا۔میری معمولی سی غلطی مجھے موت کے گھاٹ اتار سکتی تھی۔میں اپنی جگہ جم کر، حوصلے سے بیٹھا رہا۔
میں بزدل نہیں تھا، ان تیس برسوں میں، میں نے جتنے خطروں کا مقابلہ کیا تھا، کوئی اور ہوتا تو اب تک مر چکا ہوتا۔یہ میری ہمت اور بہادری تھی کہ میں زندہ تھا۔ میں نے سینکڑوں خوفناک راتوں میں جزیرے میں اکیلے رہتے ہمت نہیں ہاری تھی۔اب اگر میں خوفزدہ ہوا تھا تو اس کی وجہ ان آدم خوروں کے بھیانک ارادے تھے۔میں موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن میں ایسی موت مرنے کے لئے تو ہرگز تیار نہ تھا کہ میرا سر کاٹا جائے اور پھر میرا گوشت بھون کر کھایا جائے۔
میرا خیال ہے کہ وہ میرے قریب والی چٹان پر بیٹھ گئے تھے اور مسلسل غصے اور طیش میں بولتے چلے جا رہے تھے۔کبھی کبھی ان کی باتوں سے یہ بھی پتہ چلتا کہ وہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ انہی دنوں انہوں نے ایک آدمی کو بھون کر کھایا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ ان کی آوازیں دور ہونے لگیں۔اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے اٹھ کر جنگل میں جا رہے تھے۔ان کی آوازیں مدھم ہوئیں اور پھر بالکل غائب ہوگئیں۔
کئی منٹوں تک میں اسی طرح بیٹھا رہا۔
میں نے سوچا کہ اب میں باہر نکل کر دیکھ سکتا ہوں کہ وہ کدھر گئے ہیں۔
جھاڑیاں ہٹا کر باہر نکلا۔ احتیاط سے چاروں طرف دیکھا، جنگل ویران تھا۔میں، جو ابھی تھوڑی دیر پہلے خوفزدہ ہو گیا تھا۔اس وقت ایک انتہائی دلیرانہ اور خطرناک فیصلہ کر چکا تھا!
میں نے سوچا مجھے ابھی دن میں ہی فرائیڈے کی اس جھونپڑی کا پتہ لگا لینا چاہیے۔جس میں اسے قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔ یہ ایک خطرناک فیصلہ تھا! کیونکہ ان آدم خوروں کو اپنے ساتھی کے قتل کا علم ہو چکا تھا۔وہ جنگل میں جھاڑیوں میں چھپ کر بھی بیٹھے ہو سکتے تھے۔ لیکن میں نے جو فیصلہ کیا تھا، اسے بدلنے کیلئے تیار نہ تھا!
اصل میں، میں اب اس کھوہ کے اندر بیکار بیٹھے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے پستول ہاتھوں میں پکڑے اور چل پڑا۔
میں سردار کی اونچی جھونپڑی کے عقب کی طرف اندازے سے چلنے لگا اور پھر کافی فاصلہ طے کر کے اچانک میں رکنے پر مجبور ہو گیا۔میں ششدر تھا اور مجھے اپنی آنکھوں پر کئی لمحے یقین نہیں آیا۔
مجھ سے آگے دس بارہ گز کے فاصلے پر ایک آدم خور میری طرف پیٹھ کئے جھک کر زمین پر کچھ دیکھ رہا تھا۔
میں بڑی احتیاط سے الٹے قدم چلتا، ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا۔ جہاں جھاڑیاں بھی تھیں۔
آدم خور کے تیز حساس کانوں نے میرے قدموں کی چاپ سن لی تھی۔میں نے جھاڑیوں میں سے دیکھا، وہ حیران اور چوکنا اپنی لال لال آنکھوں سے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اور ناک سے بھی کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگالیا۔ میں نے پستول پیٹی میں اڑس کر چھرا ہاتھ میں پکڑا، پھر ایک خیال میرے ذہن میں آیا اور میں نے چھرا رکھ کر وہی بکرے کی کھال کی رسی ہاتھ میں پکڑی۔
جنگلی آدم خور بھی چوکس تھا اور وار کر نے کیلئے تیار۔اس نے کمان میں تیر لگا لیا تھا۔میں نے دیکھا اس کے ناک کے نتھنے سکڑ اور پھیل رہے تھے۔ وہ بہت ہی حساس آدم خور تھا۔ ہواؤں کو سونگھتا، ایک ایک قدم اٹھاتا وہ اسی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں میں چھپا ہوا تھا۔
میرے لئے اسے ہلاک کرنا کیا مشکل تھا۔پستول کا ایک فائر اور وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتا، لیکن اس وقت میں ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ میں اسے تو ختم کر لیتا، لیکن پستول کے چلنے سے جو دھماکہ ہوتا اس سے سارا جنگل گونج اٹھتا۔ سارے آدم خور مجھے پکڑنے کے لئے جان کی بازی لگا دیتے۔اس طرح میرے لئے فرائیڈے کی زندگی بچانا ناممکن ہو جاتا اور اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دیتا۔
اس وقت انتہائی ذہانت اور بہادری کی ضرورت تھی۔مجھے ایک ترکیب سوجھی اور میں نے اس پر عمل کیا۔
جب وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا، میں نے جیب سے سیسے کی ایک خالی گولی نکال کر اس کے سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دی۔
گولی زمین پر پتوں پر گری۔
وہ چونک کر پیچھے کو گھوم گیا۔
یہی سنہری موقعہ تھا، میں بجلی کی طرح لپکا اور وہ رسی اس کی گردن میں کس دی۔وہ پوری قوت سے اپنے ہاتھوں سے رسی کی گرفت کو گردن سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔بکری کی کھال کی مضبوط رسی اس کی کالی گردن کی جلد کے اندر دھنستی چلی جا رہی تھی۔اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں، زبان منہ کے باہر لٹک گئی۔ میں نے اسے اس وقت چھوڑا، جب وہ مر چکا تھا!
اس کی لاش کو تیزی سے گھسیٹتے ہوئے میں اس کھوہ میں لے گیا، جہاں میں نے پناہ لی تھی۔ اس کھوہ میں اس کی لاش رکھ کر میں نے پتوں اور جھاڑیوں سے اسے چھپا دیا. اس کام سے فارغ ہو کر میں پھر باہر نکلا اور پھر سے اس جھونپڑی کی تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا، جہاں فرائیڈے کو قید کیا گیا تھا۔
جھونپڑی
قدم قدم پر جان لیوا خطرے تھے۔
چلتے ہوئے، ایک جگہ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک سرخ رنگ کا سانپ پھن پھیلائے، میرے سامنے کھڑا تھا، میں رک گیا۔ اگر میں اس لمحے پھرتی سے کام نہ لیتا تو آج یہ کہانی سنانے کو زندہ نہ ہوتا۔
میں نے جلدی سے چھرا نکالا اور اُدھر سانپ نے ایک سنسنی خیز سیٹی بجائی اور جھک کر مجھ پر حملہ کیا اور میں نے اس پر چھرے سے وار کیا۔ پہلا وار ہی کاری ثابت ہوا اور سانپ کی گردن کٹ گئی۔
میں چھپتا چھپاتا پھونک پھونک کر قدم رکھتا بڑھتا رہا۔پھر میں نے عورتوں اور مردوں کی کچھ آوازیں سنیں۔ اب میں ان کی جھونپڑیوں کے قریب پہنچ گیا تھا۔
میں نے ایک اونچے گھنے درخت کا انتخاب کیا اور بڑی احتیاط سے آس پاس کا جائزہ لے کر اس درخت پر چڑھ گیا۔دور بین لگا کر دیکھا تو مجھے سردار کی اونچی جھونپڑی دکھائی دی،جس کی چھت پر ایک بانس پر انسان کی کھوپڑی ٹنگی ہوئی تھی۔وہ جھونپڑی مجھے دکھائی نہ دی، جہاں فرائیڈے کو قید کیا گیا تھا۔ بہرحال میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ جھونپڑی، اس کے عقب میں ہوگی۔
جس وقت میں اس گھنے درخت سے اترنے ہی والا تھا کہ دو آدم خور کچھ دور سے باتیں کرتے اس طرف آتے دکھائی دیئے۔
میں نے اپنے آپ کو پتوں اور شاخوں میں چھپا لیا۔ وہ چلے گئے۔درخت سے آگے بڑھ گئے،لیکن پھر اچانک رک گئے۔وہ دونوں زمین کی طرف دیکھ رہے تھے۔
یہ وہی جگہ تھی، جہاں میں نے سانپ کا سر اڑایا تھا، سانپ کے جسم کے دونوں حصے پڑے تھے۔ایک آدم خور نے سانپ کی سری اٹھائی اور اپنے ساتھی کو دکھائی تو وہ کہنے لگا:
’’یہ مردہ شکرقندی ہے، کھالو۔۔۔‘‘
وہ زور سے اپنے مذاق پر ہنسنے لگا۔ پہلے آدم خور نے اسے غصے سے مکا مارا اور بولا۔ ’’خاموش۔۔۔چپ ہو جاؤ۔‘‘
دوسرا چپ ہو گیا۔پہلے آدم خور نے سانپ کا دوسرا حصہ بھی اٹھا لیا، اسے غور سے دیکھا۔میں اب درخت پر ٹنگا کچھ بے چین ہو رہا تھا۔اچانک اس آدم خور نے سانپ کو منہ میں ڈالا اور شوق سے کھاتا ہوا اپنے ساتھی کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر میں وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
میں کافی دیر تک درخت پر ہی بیٹھا رہا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ میں انتہائی احتیاط سے کام لوں۔میں آہستہ سے درخت سے اترا۔ اب مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ یہاں کسی لمحے بھی کسی آدم خور سے سامنا ہوسکتا ہے۔اس لئے مجھے انتہائی چوکس اور محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔ بہرحال احتیاط اپنی جگہ، لیکن میں نظروں سے غائب تو نہیں ہو سکتا تھا۔
میں بہت احتیاط سے چاروں طرف کا ہر ممکن جائزہ لیتے ہوئے سردار کی جھونپڑی کے پیچھے واقع جھونپڑی کی طرف بڑھ رہا تھا، کیونکہ یہی وہ جھونپڑی تھی، جہاں فرائیڈے کو قید کیا گیا تھا۔راستے میں ایک چھوٹا سا تالاب آیا۔جہاں سنگھاڑے نظر آئے تو میں نے کچھ سنگھاڑے اکھاڑ کر کھائے، یوں میری بھوک میں کمی ہوئی۔تالاب کے پیچھے سے ہوتا ہوا جب میں آگے بڑھا تو مجھے وہ جھونپڑی دکھائی دی۔
یہ جھونپڑی درختوں میں گھری ہوئی تھی۔دو ننگ دھرنگ آدم خور تیر کمان سنبھالے وہاں پہرہ دے رہے تھے اور ان کے پاس چھرے بھی تھے۔ایک جھونپڑی کے بند دروازے کے سامنے لیٹا تھا اور دوسرا کھڑا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔
میں نے بڑے غور سے جھونپڑی کا معائنہ کیا۔
اس جھونپڑی کی دیواریں بانس جوڑ کر بنائی گئی تھیں اور اتنی مضبوط تھیں کہ انہیں توڑا نہیں جا سکتا تھا۔پہریدار بھی چوکس بیٹھے تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ، کہ دن کا وقت تھا جب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ فرائیڈے اس جھونپڑی میں قید، موت کا انتظار کر رہا ہے اور اسے بالکل علم نہیں کہ میں اس جھونپڑی سے صرف پچاس قدم کے فاصلے پر کھڑا اس کی مدد کے لیے آ چکا ہوں۔
ایک بار میرے دل میں خیال آیا کہ فرائیڈے کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے کیوں نہ مخصوص سیٹی بجاؤں۔پھر میں نے سوچا کہ اگر ایسا کیا تو جواب میں فرائیڈے بھی سیٹی بجا سکتا ہے اور اس سے پہریدار کو شک ہو سکتا ہے اور معاملہ بگڑ سکتا ہے۔
بہرحال یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ پہرے دار رات کے وقت بھی اس جھونپڑی کی نگرانی کرتے ہوں گے اور جب تک ان پر قابو نہ پایا جائے یا انہیں قتل نہ کیا جائے، فرائیڈے تک پہنچنا اور اسے آزاد کرانا ممکن نہیں۔دن کے وقت اگر میں اپنے ہتھیار استعمال کرتا تو معاملات خراب ہو سکتے تھے۔میں نے سوچا کہ اب مجھے شام کی تاریکی کا انتظار کرنا چاہیے۔
یہ سوچنے کے بعد میں اچھی طرح دیکھ بھال کر کے قریب ہی واقع ایک بیری کے درخت پر چڑھ کر چھپ گیا۔اگرچہ بیری میں بہت کانٹے تھے لیکن ایک تو میں بہت سخت جان تھا اور دوسرا بکری کی کھال کا لباس پہن رکھا تھا، اس لئے کانٹوں کو برداشت کر گیا۔
انگلش ماسٹر
بیری کے درخت پر چڑھنے اور چھپنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں نے لال لال اور پکے ہوئے بیر توڑ کر پیٹ بھر کر کھائے۔پھر ذرا آرام دہ صورت بنا کر درخت پر ٹانگیں پھیلا لیں تاکہ کچھ تھکن اتر سکے۔کچھ دیر اونگھا بھی اور بالآخر انتظارختم ہوا اور شام کی تاریکی پھیلنے لگی، درخت پر طوطے شور مچانے لگے۔
اس پورے عرصے میں، میں لگ بھگ ہر دس منٹ کے بعد اس جھونپڑی کا جائزہ ضرور لے لیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب شام ہونے والی تھی تو جھونپڑی کے پہریدار تبدیل ہو گئے۔بہرحال جو پہریدار آئے، وہ بھی پہلے جیسے آدم خوروں کی طرح تھے۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ شام کے وقت ایک آدم خور پتے پر شکر قندی کے کچھ ٹکڑے رکھ کر جھونپڑی کے اندر گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ خالی تھے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فرائیڈے کے لئے کھانا لے کر جھونپڑی کے اندر گیا تھا۔
مجھے شدت سے پیاس محسوس ہونے لگی۔ پھر پیاس اس حد تک بڑھی کہ میں صبر نہ کر سکا۔ درخت سے اترا اور اسی تالاب کا رخ کیا، جہاں سے میں نے سنگھاڑے توڑ کر کھائے تھے۔جب میں تالاب کے پانی سے پیاس بجھا کر چھپ چھپ کر واپس آر ہا تھا، تو یکدم ایک ادھیڑ عمر کے آدم خور سے میرا آمنا سامنا ہوگیا۔
میں گھبرا گیا،لیکن میں نے دیکھا کہ وہ آدم خور بجائے اس کے کہ شور مچاتا، جہاں کھڑا تھا، وہیں چپ چاپ کھڑا رہا۔
میں نے پستول نکال کر اس پر تان لیا۔میں اپنی جان بچانے کے لئے اسے گولی کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
آدم خور نے عجیب حرکت کی، آہستہ سے بولا:
’’ماسٹر، انگلش ماسٹر۔۔۔؟‘‘
میں حیرت سے اسے تکتا رہ گیا۔ اس طرح تو فرائیڈے مجھے مخاطب کیا کرتا تھا۔ پھر اچانک ایک خیال میرے دل میں بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔ مجھے یاد آیا کہ فرائیڈے نے کئی بار مجھے بتایا تھا کہ اب بھی اس جزیرے میں کچھ ایسے آدم خور موجود ہیں، جو اس کے وفادار ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایسے وفادار آدم خوروں کی تعداد بہت کم ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ آدم خور بھی اس کے اور اس کے والد کے وفاداروں میں سے ایک ہو گا اور فرائیڈے نے اسے میرے بارے میں بتایا ہوگا کہ میں اس کا انگلش ماسٹر ہوں اور میں نے ہی فرائیڈے کی جان بچائی تھی۔
میں چند قدم آگے بڑھا اور اس سے پوچھا۔ ’’ہاں۔۔۔میں ہی انگلش ماسٹر ہوں۔۔۔میں فرائیڈے کو بچانے آیا ہوں، بتاؤ فرائیڈے کہاں ہے؟‘‘
میں نے دیکھا کہ آدم خور کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی، وہ ڈرے بغیر میرے پاس آ گیا۔ اس کا رنگ بے حد سیاہ تھا۔ آنکھیں سرخ اور سر کے بال سفید تھے۔ گلے میں انسانوں اور جانوروں کی ہڈیوں کی مالا پہن رکھی تھی۔
میرے قریب آ کر اس نے بہت آہستہ سے کہا، ’’وہ بانس کی اس جھونپڑی میں بند ہے، دو دن کے بعد ظالم سردار اسے قتل کر کے بھون کر کھا جائے گا۔ماسٹر تم بھی بھاگ جاؤ۔یہاں سے نکل جاؤ۔ظالم سردار تمہاری تلاش میں ہے۔وہ تمہیں بھی بھون کر کھا جائے گا۔‘‘
میں نے اسے کھینچا اور گھنی جنگلی جھاڑیوں میں لے گیا۔ وہاں قدرے کھلی جگہ پر ہمارا کھڑا رہنا ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔
میں نے اسے بتایا کہ میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے یہاں پہنچا ہوں اور یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جاؤں گا بلکہ فرائیڈے کو آ زادکرا کے ہی جاؤں گا۔
وہ آدم خور کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے رک رک کر مجھے بتایا کہ وہ فرائیڈے کے والدین کا وفادار ساتھی ہے۔ وہ فرائیڈے کا بھی وفادار ہے۔
اور پھر کہنے لگا۔ ’’ہم جو اس کے وفادار ہیں، تعداد میں بہت کم ہیں۔ہم مل کر بھی اسے ظالم سردار کے چنگل سے نہیں بچا سکتے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اکیلے اتنے بڑے قبیلے کے سردار کا مقابلہ کیسے کر سکو گے۔‘‘
میں نے اسے بتایا۔ ’’میں یہ فیصلہ کر کے آیا ہوں کہ فرائیڈے کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔یہ دیکھو میرے پاس چھ سات پستول اور ایک بندوق ہے اور مجھے پانچ چھ ایسے آدمی مل جائیں جو پستول چلانا جانتے ہوں، تو میری ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔‘‘
اس آ دم خور نے جواب دیا۔’’یہاں تو کوئی بھی ایسا نہیں جو پستول چلانا جانتا ہو۔۔۔بلکہ میں نے تو زندگی میں پہلی بار پستول دیکھا ہے اور ہمارے ساتھی بھی پستول سے بالکل ناواقف ہیں۔‘‘
کچھ سوچنے کے بعد میں نے اسے کہا۔ ’’تم مجھے فرائیڈے کی جھونپڑی تک پہنچا دو اور میرے ساتھ رہو۔‘‘
اس نے جواب دیا۔ ’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اگر سردار کو علم ہو گیا، تو وہ مجھے قتل کر کے بھون کر کھا جائے گا۔ ہاں،میں یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں اپنی جھونپڑی میں رات بھر چھپالوں اور جب صبح ہو رہی ہو تو تم یہاں سے فرار ہو جاؤ۔‘‘
میں اسے کچھ بھی بتائے بغیر اس کے ساتھ چل پڑا۔ ایک تو میں اب بیری پر ٹنگا رہنا نہیں چاہتا تھا اور اس کی جھونپڑی میرے لئے زیادہ محفوظ ثابت ہوسکتی تھی۔ دوسرے میرے دل میں یہ امید بھی تھی کہ ممکن ہے اس کی جھونپڑی میں کوئی ایسا وفادار مل جائے جو فرائیڈے کی جان بچانے کے لئے بہادری کا مظاہرہ کر کے میر اساتھ دینے پر تیار ہو جائے۔
وہ مجھے جنگل کے انتہائی گھنے علاقے کے اندر سے گزارتا ہوا ایک تالاب کے پاس سے آگے بڑھا۔ اس کی جھونپڑی چاروں طرف سے گھنی بیلوں میں چھپی ہوئی تھی۔ یہاں غیر معمولی سناٹا تھا۔ چھوٹی سی جھونپڑی کے اندر لا کر اس نے مجھے پینے کے لئے پانی دیا اور کھانے کے لئے پیلے رنگ کے کیلوں کا ایک گچھا لے آیا۔ میں نے کیلے کھانے شروع کئے اور دل میں ایک دو بار یہ بھی خیال آیا کہ کہیں مجھے کسی چال میں تو نہیں پھنسایا گیا۔لیکن اپنے پستولوں اور بندوقوں کی وجہ سے میرا حوصلہ قائم رہا، اور میں نے دل میں کہا اگر میں مقابلے میں مارا گیا تو بھی مرنے سے پہلے دس بارہ آدم خوروں کو تو قتل کر کے ہی مروں گا۔
جھونپڑی بڑی بدبودار تھی اور بو بہت نا گوار تھی۔
میں نے پوچھا۔ ’’کیا تم بھی انسانوں کا گوشت کھاتے ہو؟‘‘
وہ خاموش رہا اور مجھے دیکھتا رہا۔
اچانک باہر آہٹ ہوئی۔اس نے مجھے جلدی سے ایک کونے میں چھپا دیا اور خود جھونپڑی کے باہر چلا گیا۔ میں نے پستول پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر لی۔
کچھ دیر وہ باہر کسی سے باتیں کرتا رہا۔ میں نے باہر آدم خوروں کی سیٹیوں کی آوازیں بھی سنیں۔ وہ باتیں کر رہا تھا، لیکن اس کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اندر آ گیا اور میرے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔
میں نے اپنا پستول اس کی کنپٹی سے لگاتے ہوئے کہا:
’’اگر تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا تو جان لو کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اس نے میرے گھٹنے پر اپنا بڑا اور کھر درا ہاتھ رکھ کر اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ فرائیڈے اور اس کے باپ کا وفادار ہے۔
جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ باہر کس سے کیا باتیں کر رہا تھا، تو اس نے جواب دیا۔’’انگلش ماسٹر، سردار کو پتہ چل چکا ہے کہ تم جزیرے میں ہو۔ تمہاری تلاش کی جا رہی ہے۔ فرائیڈے کی نگرانی بھی سخت کر دی گئی ہے۔‘‘
میں نے اس سے اپنی کشتی کے بارے میں پوچھا کہ وہ پکڑی تو نہیں گئی تو اس نے نفی میں جواب دیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے اپنی کشتی کہاں چھپائی ہے۔ میں نے اس کے سوال کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
پھر کچھ سوچ کر میں نے اسے کہا کہ یا تو وہ مجھے فرائیڈے کی جھونپڑی تک ساتھ لے چلے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو خود کسی طرح سے فرائیڈے کو جا کر اطلاع دیدے کہ میں اس کی مدد کے لئے پہنچ چکا ہوں۔ اس نے سوچ کر رک رک کر جواب دیا:
’’ماسٹر، اس جزیرے میں فرائیڈے کے والد یا فرائیڈے کے جتنے وفادار ہیں، ظالم سردار نے ان سب کی نگرانی شروع کر دی ہے۔ میں کوشش کر کے آپ کوفرائیڈ ے کی جھونپڑی کے قریب چھوڑ آتا ہوں۔‘‘
اس جنگلی آدم خور کی ذہنی حالت کو میں بخوبی سمجھ رہا تھا۔وہ ڈرا ہوا تھا، اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح میری مدد بھی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے سوچنے کاموقع دیا تو وہ کچھ دیر کے بعد خود ہی کہنے لگا:
’’میں فرائیڈے سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ جھونپڑی سے چلا گیا۔
میں نے اس کے جانے کے بعد ایک بار پھر غور سے جھونپڑی کا جائزہ لیا۔ جھونپڑی میں پانی کے دو مٹکوں اور دو پیالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ شدید ناگوار بو جھونپڑی کے ایک کونے سے آ رہی تھی۔ میں اس طرف گیا تو وہاں جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر میری طبیعت بے حد خراب ہوئی اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
اس کونے میں انسانی جسم کے کئی کٹے ہوئے، گلے سڑے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔
میں جلدی سے پلٹ کر دور کے کونے میں بیٹھ گیا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ بھی آدم خور تھا اور انسانوں کا گوشت کھاتا تھا!
میں اب جھونپڑیوں میں اکیلا تھا اور رات تیزی سے گزر رہی تھی۔ میں جانتا تھا کہ مجھے جو کچھ کرنا ہے آج کی رات ہی کرنا ہے۔ تاخیر ہونے کی صورت میں سب کچھ بگڑ سکتا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ اب دیر کرنی مناسب نہیں اور مجھے خود ہی فرائیڈے کی جھونپڑی کی طرف جانا چاہیے۔ میں ارادہ پختہ کر ہی رہا تھا کہ جھونپڑی کا گھاس پھونس کا دروازہ کھلا اور وہی آدم خور اندر داخل ہوا۔
میرے قریب آ کر اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’ماسٹر، میں اس سے نہیں مل سکا۔ پہرے داروں کو شک ہو جاتا۔‘‘
اس نے میرے سوالوں کے جواب میں بتایا کہ پہرے دار بہت چوکس ہیں۔
میں خاموشی سے سوچنے لگا۔ اب مزید وقت ضائع کرنا بے کار تھا۔ یہ بہت قیمتی وقت تھا۔ میں نے اس سے پھر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ابھی تک میری کشتی قبیلے والوں کے ہاتھ نہیں لگی۔ میں تیزی سے منصوبہ بنانے لگا۔
ایک طریقہ تو یہ تھا کہ اگر میں کسی طر ح جزیرے کے ظالم سردار کو یرغمال بنالوں تو اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر میں فرائیڈے کو زندہ و سلامت اس جزیرے سے لے جا سکتا تھا۔ لیکن اس منصوبے میں کچھ خرابیاں تھیں۔ایک تو یہ کہ ان آدم خوروں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ سردار کی بھی پروا نہ کریں اور مجھ پر حملہ کر دیں۔ ایسی صورت میں نہ تو میں بچ سکتا تھا اور نہ ہی فرائیڈے۔۔۔اور یوں دونوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے!
دوسری ترکیب واضح تھی کہ میں اس جھونپڑی پر حملہ کروں، جس کے اندر فرائیڈے کو قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے میں نے اس آدم خور کو راہ پر لانے کی کوشش کی اور اسے سمجھایا کہ وہ میرے ساتھ فرائیڈے کی جھونپڑی تک چلے۔ وہاں جا کر وہ پہرے داروں کو باتوں میں لگائے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو باتوں میں لگا کر تھوڑی دیر کے لئے جھونپڑی سے دور لے جائے۔ اس نے خوف کا اظہار کیا تو میں نے اسے سمجھایا۔
میں ان دونوں کوقتل کر دوں گا، کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس لئے کوئی تمہاری مخبری نہیں کر سکے گا۔
وہ بالآخر رضامند ہو گیا اور ہم دونوں جھونپڑی سے باہر آ گئے۔
پھانسی کا پھندہ
باہر رات خاموش تھی۔ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، کوئی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ایک ٹیکری سی آئی تو ہم اس کے پیچھے رک گئے۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر آہستہ سے وہاں سے کھسک گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ پہرے داروں میں سے ایک پہرے دار کو باتوں میں لگائے ایک طرف لئے جا رہا تھا۔
یہی لمحہ تھا جب مجھے حملہ کرنا چا ہیے تھا۔
میں بہت احتیاط سے دبے پاؤں چلتا دوسرے پہرے دار کے پیچھے آ گیا۔ وہ جھونپڑی کے باہر ایک درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ ترکش زمین پر رکھا تھا اور کمان اس کے گلے میں تھی۔ میں دبے پاؤں چلتا، جھکا جھکا اس کے پیچھے، آگے بڑھا۔خوش قسمتی سے گھاس گیلی تھی، اس لئے کسی طرح کی کوئی آہٹ بھی پیدا نہ ہوئی۔
چمڑے کی وہ رسی میں نے مضبوطی سے ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ وہ جس درخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اس کے پاس پہنچ کر میں رکا۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ اٹھنے والا ہے۔شاید وہ یہ دیکھنے کے لئے اٹھ رہا تھا کہ اس کا دوسرا ساتھی پہرے دار کدھر چلا گیا ہے۔اس کا اٹھنا میرے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔اس لئے اس کے ارادے کو بھانپتے ہی میں نے چمڑے کی رسی اس کی گردن میں ڈال کر پلک جھپکتے ہی اس زور سے کس دی کہ وہ آواز تک نہ نکال سکا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑ کر اپنے آپ کو رسی کی گرفت سے آزاد کرانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میری گرفت بہت مضبوط تھی۔
دو منٹوں میں وہ مر چکا تھا۔
میں نے اس کی لاش گھسیٹی اور جھاڑیوں میں لے جا کر چھپا دیا۔ اتنے میں اس کا ساتھی دوسرا پہرے دار آتا دکھائی دیا۔وفادار آدم خور اب اس کے ساتھ نہیں تھا۔ میں جلدی سے جھاڑیوں کی اوٹ میں ہوگیا۔
جب اس نے اپنے ساتھی پہرے دار کو وہاں نہیں دیکھا تو کچھ گھبرا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ چوکس ہو گیا ہے۔ کمان میں تیر چڑھا لیا ہے اور جھک کر آگے بڑھنے لگا ہے۔
اس نے خطرے کی بوسونگھ لی تھی!
عجیب اتفاق یہ ہوا کہ وہ سیدھا ان جھاڑیوں کی طرف آ رہا تھا، جہاں میں چھپا ہوا تھا۔ میں بھی ہر طرح سے تیار تھا۔
بس میری خواہش تھی تو یہ کہ وہ میرے آمنے سامنے نہ آئے بلکہ اس کی کمر میری طرف ہو، تاکہ میں عقب سے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کردوں، لیکن وہ ناک کی سیدھ میں میری طرف بڑھ رہا تھا۔
میں اپنے سانس تک روک چکا تھا۔
مجھے اپنی پرانی ترکیب یاد آئی۔ میں نے تھیلی سے ایک گولی نکالی اور اسے اچھال کر پہرے دار کے پیچھے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔
آدم خور خرگوش کی طرح اچھلا اور پیچھے کو گھوم گیا۔
یہی لمحہ تھا، جب میں نے آگے بڑھ کر پستول کا بھاری دستہ اس کے سر کے پیچھے پوری طاقت سے رسید کر دیا۔
وہ اوندھے منہ گر گیا۔
میں نے پھر پستول کے دستے سے دوسرا کاری وار کیا، تو وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو گیا۔میں نے اس کے گلے میں رسی ڈالی اور اسے اس طرح کس دیا کہ ایک دو منٹوں میں وہ مر گیا۔اب میرے لئے میدان صاف تھا۔
 فرائیڈے کی آزادی
میں بھاگتا ہوا میں جھونپڑی کے پاس پہنچا۔
اس کے بانس سے بنے ہوئے دروازے کو لات مار کر کھولتے ہوئے پکارا:
’’فرائیڈے…!فرائیڈے…!‘‘
فرائیڈے میری آواز سنتے ہی وہ دروازے کی طرف لپکا، مجھے دیکھا اور میرے قدموں میں گر گیا۔
میں نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور کہا:
’’جلدی۔۔۔جلدی میرے ساتھ چلو۔۔۔بھاگو جلدی۔۔۔‘‘
اور پھر ہم دونوں منہ اٹھائے اپنے اندازے کے مطابق سمندر کی طرف دوڑنے لگے۔
رات کا اندھیرا، تاریک جنگل۔۔۔تھوڑی دور گئے تھے کہ اچانک ایک درخت سے ایک جنگلی آ دم خور نے چھلانگ لگائی اور ہمارے سامنے چھرا تان کر کھڑا ہو گیا۔
اس نے مجھے اور فرائیڈے کو دیکھا اور چیخ کر اعلان کیا کہ وہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا!
اب میں پستول کا استعمال کرنے پر مجبور تھا، میں نے پستول نکالا، نشانہ لیا اور پستول داغ دیا۔
دھماکے سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ وہ جنگلی چیخ مار کر زمین پر لَوٹنے لگا۔
ہم وہاں سے تیزی سے بھاگے، جزیرے میں اب جنگلی آدم خوروں کی چیخیں گونجنے لگی تھیں۔ وہ ہماری تلاش میں بھاگے چلے آ رہے تھے۔ میں نے بھاگتے بھاگتے دو پستول فرائیڈے کو بھی پکڑا دیئے۔ ہم بھا گے جا رہے تھے، اندازے سے ہی سہی لیکن ہماری سمت درست تھی۔ ہم جنگل سے باہر نکل آئے تھے۔
جنگلی جھاڑیوں میں بھاگنے سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے،لیکن میں خوش تھا، کیونکہ سامنے وہی چٹان تھی، جہاں میں نے اپنی کشتی کو چھپایا تھا۔
اِدھر ہم چٹان پر چڑھے، اُدھر دس بارہ آدم خور ہمارے سامنے آ گئے۔وہ سب مل کر ہم پر تیر بر سا رہے تھے۔ ہم نے ایک ہی لمحے میں چار پستول داغ دیئے۔ تین آدم خور زمین پر گر کر تڑپنے لگے۔
میں نے دوسرا فائر کیا۔آدم خور پیچھے ہٹنے لگے۔جب تک ہم چٹان تک پہنچے، بلاشبہ وہاں کئی سو ننگ دھڑنگ آدم خور جمع ہو چکے تھے۔ وہ سب مل کر چیختے چلاتے تیروں کی بارش کرنے لگے۔ ہم چٹان کی آڑ لے کر اس کے پیچھے بیٹھ کر فائرنگ کر نے لگے۔
میں نے بندوق بھر کر چلا دی۔ چھروں نے کتنے ہی آدم خوروں کو شدید زخمی کر دیا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ بہت بہادر تھے۔ وہ مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ میں اور فرائیڈے ان پر گولیاں برساتے جا رہے تھے۔ بہت سے آدم خور مر گئے تھے۔ مشرق سے سورج طلوع ہوا اور ہر طرف دن کا اجالا پھیلنے لگا۔
چاروں طرف جنگلی آدم خوروں کی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ بہت سے زخمی تھے، کچھ رینگ رہے تھے لیکن ان کے پیچھے تیر اندازوں کی ایک قطار ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔
ایک طرح سے باقاعدہ لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے فرائیڈے سے کہا۔ ’’تم جلدی سے کشتی میں سوار ہونے کی کوشش کرو۔‘‘
کشتی نیچے پتھروں کے درمیان ہچکولے کھا رہی تھی۔
فرائیڈے کھسکتا ہوا کشتی میں پہنچ گیا۔ میں نے جنگلی آدم خوروں پر بندوق اور پستول سے فائر کئے۔ دوآ دم خور گر پڑے۔
میں فائرنگ کرتا ہوا کشتی کی طرف بڑھنے لگا۔ فرائیڈے اب تک کشتی کو کھول کر پتھروں سے نکال کر سمندر کے کنارے لے آیا تھا۔
میں نے دیکھا، آدم خوروں کی ایک بڑی تعداد بھی کشتیوں میں سوار ہو رہی تھی۔ وہ ہمارے فرار کو نا کام کر نے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔
فرائیڈے نے اونچی آواز میں مجھے کشتی پر سوار ہونے کے لئے کہا۔ میں فائر نگ کرتا کشتی کے قریب پہنچا۔ چھلانگ لگائی اور کشتی میں سوار ہو گیا۔
فرائیڈے نے تیزی سے کشتی کے چپو چلانے شروع کر دیئے۔
اب ہماری کشتی چٹان کی اوٹ سے باہر نکل کر کھلے سمندر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہم اب دشمنوں کے بالکل سامنے تھے، وہ کشتیوں میں سوار ہمارا تعاقب کرتے ہوئے ہم پر تیروں کی بارش کر رہے تھے۔ ہماری کشتی اب تیزی سے دشمنوں کے جزیرے سے دور ہوتی جا رہی تھی۔لیکن ان کی کشتیوں کی رفتار تیز تھی اور وہ ہمارے قریب آ تے جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا ایک کشتی میں چار چار آدم خور بیٹھے تھے۔ میں نے فرائیڈے سے کہا:
’’چپو چھوڑ دو اور میرے ساتھ مل کر ان پر فائرنگ شروع کر دو۔‘‘
کیونکہ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہم ان کی رفتار کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے، وہ بہت جلد ہمارے سروں پر پہنچ سکتے تھے، اس لئے ضروری تھا کہ انہیں ختم کیا جاتا۔
ہم دونوں ان کشتیوں پر سوار آدم خوروں پر گولیاں چلانے لگے۔ وہ مسلسل بہادری سے آ گے بڑھ رہے تھے۔ ان کی کشتیاں اب بالکل ہماری سیدھ میں تھیں۔ ہماری پہلی باڑ کے نتیجے میں تین آدم خور ہلاک یا زخمی ہو کر کشتیوں سے گر گئے۔ ہم نے دوسری کشتی کو نشانہ بنایا۔ آدم خور اب ہم پر تیروں کے ساتھ نیزے بھی پھینک رہے تھے۔ ہم دونوں مسلسل فائر کرتے اور انہیں زخمی یا ہلاک کر رہے تھے، وہ سمندر میں گر رہے تھے۔
میں نے دیکھا اب صرف دو آدم خور ایک ایک کشتی میں باقی رہ گئے تھے۔ لیکن دوسری طرف دیکھا تو ہمارے مقابلے کے لئے کنارے سے چار دوسری کشتیاں سمندر میں اتاری جا رہی تھیں۔بہر حال ان چار کشتیوں اور ہمارے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ میں نے فرائیڈے سے کہا کہ اب وہ تیز تیز چپو چلائے۔ میں نے فائرنگ جاری رکھی۔ دو میں سے ایک آ دم خور مر گیا۔
میری مسلسل اور اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں پیچھے آنے والی تازہ دم کشتیوں کو آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی، کیونکہ وہ پہلی دو کشتیوں میں سوار اپنے ساتھیوں کا انجام بھی دیکھ چکے تھے۔
میں نے چپو سنبھال لیے۔
اب ہم دونوں تیزی سے کشتی کھینے لگے۔ سمندر پر سکون تھا۔ اس لئے ہماری کشتی کی رفتار تیز تر ہوگئی۔
آدم خور اب بھی ہم پر تیر برسا رہے تھے، لیکن اب ان کی کشتیاں آگے نہیں بڑھ رہی تھیں۔ ہماری گولیوں اور ان کے مرنے والے ساتھیوں نے انہیں خوفزدہ کر دیا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد آدم خوروں کا جزیرہ ہماری نظروں سے غائب ہو گیا اور ہم اپنے جزیرے کے قریب پہنچ رہے تھے۔میں بے حد خوش تھا کہ فرائیڈے کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جزیرے کے قریب پہنچے تو فرائیڈے نے مشورہ دیا:
’’ماسٹر وہ لوگ ہم پر بہت بڑا حملہ کرنے کی کوشش کریں گے۔اب ہمیں اپنی کشتی کو اس کی پہلی جگہ کے بجائے جنوبی کنارے پر چھپا دینا چا ہیے۔‘‘
حالات کی نزاکت کو دیکھ کر مجھے اس کا مشورہ معقول لگا اور ہم دونوں نے کشتی کو جنوبی ساحل پر لے جا کر جھاڑیوں میں چھپا دیا۔
وہاں سے ہم سیدھے اپنے کیبن میں پہنچے۔ ہم دونوں بے حد تھکے ہوئے تھے۔ میں تو پہنچتے ہی تخت پر لیٹ گیا۔ کتے اور طوطے نے ہمارا زبردست استقبال کیا۔ فرائیڈے کھانا تیار کرنے لگا۔
میں شام تک سویا رہا۔ پھر جزیرے کا گشت کیا۔ آدھی رات تک پہرہ دینے کے بعد پھر سو گیا۔ میرا دل مسرور اور مطمئن تھا، فرائیڈے کی زندگی بچ گئی تھی۔۔۔!
 توپ
صبح اٹھ کر سب سے پہلے ہم نے جنوبی ساحل پر جا کر اپنی کشتی کو سمندر میں دھکیلا اور سارے جزیرے کا کنارے کے ساتھ ساتھ چکر لگایا۔ صورت حال معمول کے مطابق تھی۔ واپس آ کر کشتی کو وہیں محفوظ کر کے، میں اور فرائیڈے اپنی نامکمل بڑی کشتی کو بنانے میں مصروف ہوگئے۔ کام کے دوران فرائیڈے نے مجھے اپنے اغوا کی پوری داستان سنائی۔
وہ اس روز کشتی بنانے میں مصروف تھا کہ پیچھے سے آدم خور آئے اور اسے پکڑ لیا، انہوں نے اس کے منہ میں گھاس ٹھونسی اور اسے اٹھا کر لے گئے۔ اس نے دل میں کئی بار سوچا کہ میں اسے بچانے کے لئے ضرور آؤں گا۔ مگر جب یہ خیال آتا کہ میں نے وہ جزیرہ ہی نہیں دیکھا تو وہ بہت مایوس ہوتا۔وہ ان لوگوں کی قید میں تھا، جو کسی صورت بھی اسے زندہ چھوڑ نے والے نہیں تھے۔
اس نے بتایا۔ ’’ماسٹر آپ مجھے بار بار یاد آتے تھے۔ اگر آپ میری مدد کے لئے نہ آتے تو اب تک وہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے، بھون کر کھا گئے ہو تے۔‘‘
میں نے اس کی ساری داستان سننے کے بعد پوچھا ۔’’کیا اپنا اتنا نقصان کرانے، کئی آدمیوں کو ہلاک اور زخمی کرانے کے بعد بھی وہ بدلہ لینے ہم پر حملہ کرنے کے لئے آئیں گے۔کیا تمہارے خیال میں ہمیں جوابی کارروائی کی تیاری کرنی چا ہیے؟‘‘
فرائیڈے نے بڑے زور سے کہا ۔’’ماسٹر وہ ضرور آئیں گے۔۔۔وہ بڑا حملہ کریں گے۔۔۔ہمیں ان کے حملے کا جواب دینے کے لئے ابھی سے تیاری کر لینی چا ہیے۔‘‘
بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں رات کو باری باری کیبن کے اندر ہی مورچہ بنا کر پہرہ دینا ہوگا۔ بارود کا ایک تھیلا بھی ہمارے پاس تھا۔ گولیاں بھی ایک تھیلے میں بھری ہوئی تھیں۔ ہم دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے۔
فرائیڈے کو اس کے دشمنوں کی قید سے چھڑا کر ہمیں اپنے جزیرے میں آئے سات دن ہوئے تھے کہ میرا پیارا کتا مر گیا۔ مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ اس نے جزیرے میں میری تنہائی کے انتہائی شدید اور تکلیف دہ دنوں میں میرا ساتھ دیا تھا۔ اس کی رفاقت نے مجھے بڑا سہارا دیا تھا۔ وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ اب عرصے سے اس میں وہ پہلی سی تیز طراری نہیں رہی تھی۔وہ تھوڑا سا بھاگنے سے ہاپنے لگتا تھا۔ وہ کیبن میں اپنی جگہ پر بیٹھا گھنٹوں مجھے دیکھتا اور ہانپتا رہتا تھا۔ میں نے اس کے لئے قبر کھودی اورا سے دفن کر دیا۔ اس کی قبر پر میں نے لکڑی کی ایک تختی بھی لگا دی۔ اس پر میں نے لکھا تھا:
’’میرا وفادار کتا۔‘‘
عجیب اتفاق ہے کہ وفادار کتے کی وفات کے دوسرے ہفتے طوطا بھی مر گیا۔ یہ بھی ایک ایسا صدمہ تھا جو مجھے بہرحال برداشت کرنا پڑا۔ خدا جانے قدرت کو کیا منظور تھا، جو یکے بعد دیگرے کتا اور طوطا مر گئے۔میں نے کتے کے پاس ہی طوطے کو بھی دفن کر دیا۔
پندرہ بیس دن گزر گئے، لیکن دشمن کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ میں اطمینان کا اظہار کرتا تو فرائیڈے سے کہتا:
’’ماسٹر، وہ ضرور آئیں گے۔وہ تیاریاں کر رہے ہوں گے۔وہ ہمیں کسی قیمت پر معاف نہیں کر یں گے۔اس لئے بھی مجھے پھر اغوا کرکے لے جانے کے لئے آئیں گے، کہ اس بار آپ کی وجہ سے میں بچ گیا اور انہوں نے اپنے دیوتا کے سامنے میری جو قربانی دینی تھی، وہ نہ دے سکے۔ اس طرح وہ دیوتا کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ جب تک مجھے قربان نہ کرلیں گے، انہیں چین نہیں آئے گا۔‘‘
میں اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہتا۔ ’’اگر وہ آتے ہیں تو آنے دو۔ہم بھی انہیں خوب مزہ چکھائیں گے۔‘‘
فرائیڈے کہتا۔ ’’ماسٹر، وہ بہت بڑی تعداد میں آئیں گے۔ بھلا ہم دو آدمی ایک فوج کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟‘‘
میں اسے بتا تا۔ ’’فرائیڈے، اس جزیرے پر ہم دونوں ہی رہتے ہیں۔اس لئے مقابلہ بھی ہم دونوں کو ہی کرنا ہوگا۔ خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔‘‘
میری تسلیوں سے اس کا حوصلہ تو بندھتا لیکن پریشانی دور نہ ہوتی۔ اس کی یہ پریشانی بے جا بھی نہیں تھی، اس لئے کہ وہ اپنے قبیلے کے لوگوں اور ان کی نفسیات کو مجھ سے بہتر جانتا تھا۔
بعض اتفاقات بہت ہی اہم ہوتے ہیں۔
ایک دن میں اور فرائیڈے سمندر کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ میں نے دور ساحل کی ریت پر کسی بڑی سی چیز کو دیکھا۔ میں نے دور بین لگا کر دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے وہ کوئی توپ ہے۔
ہم بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچے تو واقعی وہاں ایک اوسط سائز کی بڑی توپ پڑی تھی۔ ایسی توپیں جنگی جہازوں کے عرشے پر لگی ہوتی ہیں۔ یہ توپ بھی لکڑی کے ایک بڑے تختے پر جڑی ہوئی، ایک طرف پہلو کے بل پڑی تھی۔ہم دونوں نے زور لگا کر اسے سیدھا کیا۔ یہ ایک وزنی توپ تھی۔
فرائیڈے پوچھنے لگا۔ ’’ماسٹر یہ کیا چیز ہے؟‘‘
اس نے اس سے پہلے کبھی کوئی توپ نہیں دیکھی تھی، اس لئے وہ بڑا حیران ہو رہا تھا، میں نے اسے بتایا کہ اسے توپ کہتے ہیں اور اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر اسے دشمن کی طرف اونچا کر کے چلایا جائے تو ایک ہی گولے سے بہت سے آدمیوں کے ٹکڑے اڑا دیتی ہے۔
توپ کی یہ خوبی سن کر وہ بہت خوش ہوا اور بولا۔ ’’ماسٹر، دیوتا ہم پر بہت مہربان ہیں، اس لئے ہمیں دشمن کے مقابلے کے لئے توپ دے دی ہے۔‘‘
میں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا، جس نے مشکل وقت میں ہمیں یہ توپ عنایت کر دی تھی۔واقعی ہمیں اس کی بہت ضرورت تھی۔
میں سوچنے لگا کہ یہ توپ کہاں سے آئی ہوگی۔ میرے خیال میں یہ توپ جنگی جہاز کی تھی، جسے سمندری ڈاکوؤں نے سمندر میں ڈبو دیا ہوگا۔ چونکہ یہ توپ لکڑی کے تختے پر نصب تھی، اس لئے سمندر کی تیز لہریں اسے ابھار کر سطح سمندر پر لے آئی ہوں گی۔اور پھر اسے بہا کر سمندر کے کنارے پر پھینک گئی تھیں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ہم اس توپ کو کیبن تک کیسے لے کر جائیں۔جس جگہ یہ توپ تھی، وہاں سے ہمارا کیبن جنگل کے کنارے سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر تھا۔ اور توپ اتنی بھاری تھی کہ ہم اسے اٹھا کر وہاں نہیں لے جا سکتے تھے۔ البتہ اسے گھسیٹ کر وہاں تک پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی تھی، وہ بھی اس صورت میں کہ اس کے نیچے کسی درخت کے تنے کو رکھا جائے۔
ہم دونوں کلہاڑے سے ایک درخت کاٹنے لگے۔ درخت کاٹنے کے بعد اسے سرکاتے ہوئے ہم توپ کے پاس لائے۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے توپ کو تنے کے اوپر رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ پھر اسے گھسیٹتے ہوئے کیبن کی طرف بڑھے۔
جب توپ کیبن میں آ گئی تو ہم نے گھاس اور بکری کی کھال کے چمڑے سے توپ کو صاف کرنا شروع کیا۔ دو پہر تک ہم نے توپ کو چمکا کر رکھ دیا۔میرے ذہن میں ایک بات آئی۔ ہم اگر اس توپ کا رخ ایک طرف ہی رکھتے تو اس توپ سے دشمن کے خلاف پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا کیونکہ دشمن دوسری طرف سے حملہ کر سکتا تھا۔ ضروری تھا کہ توپ کو اس طرح نصب کیا جائے کہ اس کا رخ ہر سمت میں موڑا جا سکے۔ جب یہ بات میں نے فرائیڈے کو بتائی تو وہ کہنے لگا:
’’ماسٹر، مگر ایسا کس طر ح ہو گا؟‘‘
میں خود بھی سوچ رہا تھا۔میں نے ذہن پر زور دیا، کئی ترکیبیں سوچیں۔آ خرکار اس کا حل میرے ذہن میں آ ہی گیا:
’’فرائیڈے ایسا کرو، ہمارے پاس بکریوں کی جتنی کھالیں پڑی ہیں، انہیں کاٹ کر جوڑ کر ایک مضبوط لمبا رسہ تیار کرو۔‘‘
فرائیڈے نے حیرت سے پوچھا ۔’’ماسٹر، چمڑے کا رسہ کس لئے؟‘‘
’’تم بس ساری کھالیں نکال لاؤ۔پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘
ہمارے پاس بکریوں اور بکروں کی جتنی کھالیں تھیں۔ فرائیڈے انہیں نکال کر باہر لے آیا۔ ہم نے کھالوں کو لمبائی کے رخ سے کاٹنا شروع کیا۔ پھر ان کے لمبے باریک فیتے سے بنائے۔ اس کے بعد ان سب کو آپس میں جوڑ دیا اور مروڑ کر ایک لمبا رسہ تیار کیا۔
اس رسے کو میں نے فرائیڈے کے ساتھ مل کر توپ کے دونوں پہیوں کے درمیان میں ڈالا۔ پھر اسے اوپر کے درخت کی ایک بڑی ٹہنی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا۔ اس کے بعد ہم دونوں نے مل کر دونوں طرف سے رسے میں لکڑی ڈال کر اسے بل دینا شروع کیا۔ نتیجہ وہی نکلا جو میرے ذہن میں تھا۔
توپ زمین سے کم ازکم دو فٹ اونچی اٹھ گئی اور جھولنے لگی۔ اب ہم جس طرف چاہتے، اسے موڑ سکتے تھے۔ اور ہم نے ایسا کر کے بھی کئی بار دیکھا۔ ہمارا تجربہ کامیاب رہا تھا۔
اب ساری بات فرائیڈے کی سمجھ میں بھی آ گئی، وہ خوشی سے بولا:
’’واہ ماسٹر، کمال کر دیا۔۔۔! اب ہم توپ کا رخ جدھر چاہیں گے، موڑ سکیں گے اور دشمن کو ہر طرف سے نشانہ بنایا جا سکے گا۔‘‘
کیبن سے بارود اور لوہے کی گولیوں کی بوری باہر لانے کے بعد ہم نے توپ کے قریب ایک گڑھا کھودا۔ بوریاں اس میں رکھ کر اوپر جھاڑیاں رکھ دیں۔ احتیاط کے طور پر میں نے وہاں پتھر بھی رکھوائے تا کہ اگر دشمن کے حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے بارود اور گولیاں ختم ہو جائیں تو پتھر ڈال کر توپ داغتے رہیں۔
یہ سب کچھ کرتے ہوئے کئی بار میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ ساری تیاری بیکار جائے گی، کیونکہ میرے خیال میں ایک تو اب آدم خور ادھر آنے کی جرات ہی نہیں کر سکتے تھے اور اگر وہ کوشش بھی کرتے تو زیادہ آدم خور نہیں آ سکتے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ رات کو تھوڑی سی تعداد میں چھپ کر آئیں گے اور کارروائی کریں گے۔اور ہم ان سے توپ کے بغیر بھی آسانی سے نمٹ سکتے تھے۔ بہرحال رات کو میں اور فرائیڈے باری باری پہرہ دیتے رہے۔
پندرہ دن اورگز ر گئے۔
جب دشمن کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہوا تو میں نے رات کو پہرہ دینا چھوڑ دیا۔فرائیڈے مجھے خبردار کرتا رہا کہ انہوں نے اچانک حملہ کر دیا تو…مگر میں لاپروائی کا اظہار کرتا رہا۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہی نہیں تھا کہ آدم خور کسی بڑے حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ ان کے اتنے آدمی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں اور وہ پستول اور بندوق سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ دوبارہ ادھر کا رخ کرنے کی جرات ہی نہیں کریں گے۔
مگر…ایک روز بالکل اچانک ہم پر آدم خوروں نے حملہ کر دیا۔
 اچانک حملہ
آدم خوروں کا یہ حملہ اس قدر اچانک اور زبردست تھا، کہ کچھ لمحوں کے لیے تو میں سچ میں بوکھلا گیا۔
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔میں حسبِ معمول گشت پر تھا۔دور بین سے آس پاس کا جائزہ لیا تو کوئی غیر معمولی چیز دکھائی نہ دی۔
میں واپس اپنے کیبن کی طرف آ رہا تھا کہ اچانک مجھے کچھ شور سا سنائی دیا۔ میں نے سمندر کی طرف دیکھا اور حیران رہ گیا!
آدم خوروں سے بھری ہوئی ہیں بیس پچیس کشتیاں ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔آدم خور نیزے لہرا کر، شور مچاتے ہوئے ہمارے جزیرے کی طرف بڑھتے چلے آ رہے تھے۔
فرائیڈے نے بھی یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ وہ بھاگا ہوا آیا اور کہا ۔’’وہ آ گئے۔۔۔ماسٹر! وہ آ گئے۔۔۔‘‘
میں نے اپنے حواس مجتمع کرتے ہوئے اسے تسلی دی۔ ’’ہماری توپ ان کو ایسا مزہ چکھائے گی کہ۔۔۔تم دیکھنا۔‘‘
ہم تیز تیز بھاگتے اپنی توپ کے پاس پہنچے، گڑھے سے بارود اور سیسے سے بھری ہوئی بوریاں نکالیں۔ توپ میں بارود بھر کر میں نے اس کا منہ سیسے کی گولیوں سے بھر دیا۔ چقماق رگڑ کر آگ دہکا کر ان پر درختوں کی شاخیں ڈال دیں۔
اب ہم دشمن کا زبردست استقبال کر سکتے تھے!
فرائیڈے توپ پر چڑھا بیٹھا تھا، میں نے اسے ہٹایا اور کہا۔ ’’جب میں توپ کو آگ دکھاؤں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر زمین پر بیٹھ جانا۔‘‘
میں نے اپنے کانوں میں بکری کی اون کے پھاہے ٹھونس لئے تھے۔
دشمن کی کشتیاں ساحل پر رکیں۔ وہ سب کشتیوں سے اتر کر تیر کمان لئے ہمارے کیبن کی طرف بڑھنے لگے۔
ایک شخص سب سے آگے تھا۔اس نے سر پر کسی جانور کا سر باندھ رکھا تھا۔ سب سے آ گے چلتے ہوئے وہ چیخ چیخ کر نعرے لگا رہا تھا۔
فرائیڈے نے بتایا۔ ’’یہی وہ سردار ہے، جس نے میرے خاندان کو قتل کر دیا۔ اس وقت وہ ایسے نعرے لگا رہا ہے، جو مذہبی جنگ لڑنے کے لئے آ تے ہوئے لگاتے ہیں۔‘‘
توپ عمل کے لئے بالکل تیار تھی!
انتظار تھا، تو بس اس بات کا کہ وہ توپ کے نشانے میں آ جائیں۔یوں دلیری سے آگے بڑھنے والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کتنی بڑی قیامت ان پر ٹوٹنے والی ہے۔ میں نے ان کا بھرپور جائزہ لیا۔ وہ ڈیڑھ سو سے کسی طور بھی کم نہیں تھے۔
وہ سب مسلسل نیزے لہرا رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ جب ہمارے کیبن اور ان کے مابین آدھا فاصلہ رہ گیا، تو ان سب نے ہم پر تیروں کی برسات کر دی۔
ہم جلدی سے زمین پر بیٹھ گئے۔فرائیڈے گھبرا گیا تھا:
’’ماسٹر وہ سر پر آ گئے۔اب تو توپ چلادیں۔‘‘
میں نے اسے کہا کہ وہ خاموش رہے۔ میں بہتر جانتا ہوں کہ توپ کب چلنی چاہیے۔
دوربین لگائے میں ان کو بغور دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اپنے ننگے جسموں پر لال رنگ کی دھاریاں بنا رکھی تھی۔چھرے ہاتھوں میں تھے۔ اب میں نے دوربین آنکھوں سے ہٹادی، کیونکہ وہ خاصے قریب آ رہے تھے۔
فرائیڈے اتنا خوفزدہ ہوا کہ کیبن کے پیچھے بھاگ گیا۔ اب توپ کا کمال دکھانے کا وقت آ گیا تھا!
میں نے جلتی ہوئی آگ میں سے ایک لمبی شاخ اٹھائی اور بارود کو دکھا دی۔بارود کو آگ لگنے کی دیر تھی، کہ ایسا زبردست دھما کہ ہوا کہ سارا جزیزہ کانپ گیا۔ جیسے آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا ہو!
آدم خوروں کی پہلی قطار کے پرخچے اڑ گئے۔ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا۔
میں نے فرائیڈے کی طرف دیکھا، وہ اوندھے منہ لیٹے کانپ رہا تھا۔ میں نے بہت تیزی سے توپ میں پھر بارود بھرا۔ توپ کو آگ لگائی اور پھر قیامت خیز دھما کہ ہوا۔اور دوسری قطار کے سارے آدم خوروں کے لوتھڑے ہوا میں بکھر گئے۔
میں نے توپ کو تیسری بار بھرا۔ آدم خوروں کی طرف دیکھا۔ وہ آدھے سے زیادہ مر چکے تھے۔ باقی بوکھلائے ہوئے تھے۔ وہ تیر تک چلانا بھول گئے تھے اور ان میں سے کچھ سمندر کی طرف بھاگ رہے تھے۔
میں نے توپ کو آگ دکھا دی۔وہ آدم خور جو کھڑے تھے، وہ بھی ہوا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھیل گئے۔ بھاگنے والے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور وہ جو کشتیوں تک پہنچے تھے، وہ حیران کن تیزی کے ساتھ چپو چلاتے سمندر میں دور تک اتر گئے۔ اب وہاں ایک بھی آدم خور باقی نہ رہا تھا۔
کانپتے اور لرزتے ہوئے فرائیڈے کو میں نے زمین سے اٹھایا۔ وہ توپ کی طرف اشارہ کر کے عجیب لہجے میں پوچھ رہا تھا:
’’ماسٹر آخر یہ کیا چیز ہے۔۔۔موت کی دیوی۔۔۔؟‘‘
میں ہنس پڑا اور اسے تسلی دی کہ اب وہ آدم خور یہاں کبھی نہیں آئیں گے، وہ بے اختیار کہنے لگا:
’’ماسٹر اس توپ سے تو آدم خوروں کے جزیرے کو فتح کیا جا سکتا ہے۔‘‘
سامنے میدان جنگ کا سا نقشہ تھا۔ آدم خوروں کی لاشوں کے ٹکڑے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ کوئی بھی ایسی لاش نہیں تھی جو صحیح و سالم ہو۔
میں نے فرائیڈے سے پوچھا۔’’کیا تم اپنے جزیرے پر واپس جانا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا، ’’ماسٹر، اب میرا وہاں کون ہے، وہاں جا کر میں کیا کروں گا؟ میں اب آدم خوروں کی زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا۔اب تو میں کسی بڑے شہر جا کر اپنی روزی کمانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے اس سے وعدہ کیا، ’’اگر ہم جزیرے سے نکلنے میں کامیا ب ہوگئے، تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گا۔‘‘
فرائیڈے نے سچے دل سے کہا۔ ’’ماسٹر، میں تمام عمر آپ کی خدمت کروں گا۔‘‘
میں نے اسے کہا۔’’اب ہمارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کشتی مکمل کر کے جتنی جلدی ہو، اس جزیرے سے نکل جائیں۔ خدا نے چاہا تو ہم ایک نہ ایک دن ٹرینیڈیڈ کے ساحل پر ضرور پہنچیں گے۔‘‘
اس کے بعد ہم نے توپ کو اچھی طرح صاف کیا۔جو بارود بچ گیا تھا، اسے محفوظ کر لیا۔ اس رات ہم چین کی نیند سوئے۔
دوسرے دن سے ہم نے پھر پوری محنت سے کشتی بنانی شروع کر دی۔ میرا اب اس جزیرے میں ایک پل بھی دل نہیں لگتا تھا۔ شام تک کام کیا تو فرائیڈے کہنے لگا، ’’ماسٹر اب چند دنوں میں کشتی مکمل ہو جائے گی اور ہم اس جزیرے کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں گے۔‘‘
 بے سہارا
میں بہت اداس رہنے لگا۔
اس جزیرے میں میری جوانی بڑھاپے میں بدل گئی تھی۔میں نے سمندری جہازوں کے غرق ہونے کی کئی کہانیاں پڑھی تھیں۔ ایسے لوگوں کی داستانیں بھی میری نظر سے گزری تھیں جو جہاز کی تباہی کے بعد کسی ویران جزیرے میں جا نکلے تھے، لیکن پھر کسی جہاز نے انہیں اٹھایا اور ان کی دنیا میں واپس پہنچا دیا، لیکن میرے ساتھ جو کچھ ہواتھا، وہ اپنی جگہ ایک اکیلی مثال تھی اور ناقابلِ یقین واقعہ تھا!
ان طویل برسوں میں کوئی جہاز ادھر نہ آیا تھا، اب ساری امیدیں اس بڑی کشتی کے ساتھ وابستہ تھیں، جسے ہم بنا رہے تھے۔
ہم سارا دن اس کشتی پر کام کرنے لگے۔ فرائیڈے کی ہمت اور محنت کی میں داد دیتا ہوں کہ اس نے کشتی بنانے میں میرا پورا ہاتھ بٹایا بلکہ مجھ سے بھی زیادہ محنت کی۔ہم نے ضرورت کی ساری چیزیں اکٹھی کیں۔ لکڑی کے ایک بڑے ڈرم کو پانی سے بھرا۔ روٹی اور گوشت کے ٹکڑوں سے ایک صندوق بھر لیا۔ غرضیکہ ایک لمبے سمندری سفر میں ہمیں جس چیز کی بھی ضرورت پڑ سکتی تھی، ہم نے کشتی میں جمع کر دی۔
چونکہ بارشوں اور سمندر میں طوفان کا موسم شروع ہونے والا تھا، اس لئے ہم نے اس موسم کے ختم ہونے تک جزیرے میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔
اور پھر ایک دن ایک کشتی ہمارے جزیرے کے ساحل کی طرف آتی دکھائی دی۔میں نے پستول نکال لیا اور مقابلے کی تیاری کرنے لگا۔
کشتی میں آدم خور سوار تھے۔ کشتی ساحل پر رکی اور پھر ایک آدم خور اس میں سے اتر کر بھاگتا ہوا ہماری طرف آیا۔فرائیڈے نے اسے پہچان لیا اور کہا۔ ’’یہ میرے باپ کا ایک وفادار ساتھی ہے۔‘‘
وہ آدم خور میرے پاس آ کر قدموں میں یوں گر گیا، جیسے مجھے سجدہ کر رہا ہو۔میں نے اسے اٹھایا اور پوچھا کہ وہ کیسے آیا ہے۔ اس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا، ’’ظالم سردار نے اس عبرت ناک شکست کے بعد ان سب لوگوں کو قید کر لیا ہے، جو فر ائیڈے اور اس کے باپ کے وفادار ہیں۔اس نے ان کے بچوں اور عورتوں کو بھی قیدی بنا لیا ہے اور پورے چاند کی رات کو وہ سب کی قربانی دینے والا ہے۔ میں بڑی مشکل سے جان بچا کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ہماری اور ہمارے بچوں کی جان بچاؤ۔ظالم سردار سے ہمیں نجات دلوا دو۔‘‘
جب میں نے اس سے پوچھا کہ میں کس طرح ان کی مدد کر سکتا ہوں، تو اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ’’تم جادوگر ہو۔ تمہارے پاس آگ برسانے والا جادو کا پہاڑ ہے۔اسے لے کر ہمارے جزیرے کو فتح کر لو۔سردار کو ختم کر دو۔ ہم ساری عمر تمہارا احسان نہیں بھولیں گے۔دعائیں دیں گے۔ورنہ وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کر کے بھون کر کھا جائے گا۔‘‘
میں نے فرائیڈے سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چا ہیے، تو اس نے کہا، ’’ماسٹر، یہ میرے والد کے سچے اور وفادار ساتھی ہیں۔انہوں نے ہمیشہ میرے باپ کا ساتھ دیا۔ اب میں بھی ان کا ساتھ دوں گا۔آپ مجھے اجازت دیں کہ میں یہ توپ کشتی پر رکھ کر جزیرے میں جا کر ظالم سردار کو ختم کر دوں!‘‘
میں نے جواب دیا، ’’توپ چلانا تمہارے اکیلے کے بس کا روگ نہیں، میں تمہاری زندگی خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔میں تمہارے وفادار قبیلے کی مدد کے لئے خود تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘
فرائیڈے اور وہ آدم خور میرے فیصلے پر بہت خوش ہوئے!!
اس آ دم خور کو مدد کا پورا یقین دلا کر ہم نے واپس بھجوا دیا۔اب ہمیں ایک بار پھر فرائیڈے کے جزیرے پر جانا تھا۔
 جزیرے کی فتح
توپ بہت وزنی تھی، یہ ہماری چھوٹی کشتی میں نہیں جا سکتی تھی، اس لئے ہم نے نئی اور بڑی کشتی سے سارا سامان اتارا اور اسے حفاظت سے پھر کیبن میں رکھ دیا۔ ہم نے توپ کو بڑی اور نئی کشتی میں رکھا اور پھر اسے رسوں سے کھینچتے ہوئے سمندر کے کنارے تک لے آئے ۔بارود بھی کشتی میں رکھ لیا گیا۔
اگرچہ موسم کا کچھ اعتبار نہ تھا۔ پھر بھی جلدی حملہ کرنا ضروری تھا، کیونکہ ایک دو دنوں کے بعد چاند رات آنے والی تھی۔ بلا شبہ سینکڑوں لوگوں، بچوں اور عورتوں تک کی زندگیاں خطرے میں تھیں، اپنے منصوبے پر غور کرنے کے بعد میں نے فرائیڈے سے کہا، ’’آج صبح منہ اندھیرے ہم آ دم خوروں کے جزیرے پر حملہ کریں گے۔‘‘
فرائیڈے کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
ابھی صبح نہیں ہوئی تھی اور تاریکی پھیلی ہوئی تھی کہ ہم دونوں کیبن سے نکلے اور بڑی کشتی میں آ گئے اور کشتی کو دھکیلتے ہوئے کھلے سمندر میں نکل آئے۔ سمندر پر سکون تھا۔ جب ہمارا جزیرہ نگاہوں سے اوجھل ہوا تو صبح کی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہمیں آدم خوروں کا جزیرہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے فرائیڈ ے کو اپنی حکمت عملی سے آگاہ کیا، ’’ہم سامنے سے نہیں، بلکہ عقب سے جا کر گولہ باری کریں گے۔ اس طرح ہم سردار کی بڑی جھونپڑی کا صحیح نشانہ لے سکیں گے۔‘‘
فرائیڈے نے میرے منصوبے کی تائید کی۔
ہم آدم خوروں کے جزیرے میں سامنے سے نہیں، بلکہ عقب سے آئے۔ دھوپ سے اب سارا جزیرہ چمک رہا تھا۔ہمیں آدم خوروں سے چھپنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے پاس توپ تھی اور آدم خور توپ کے کمالات اور تباہی سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے۔ وہ اس سے خوفزدہ تھے۔
ہم اپنی کشتی کو ایک کھاڑی میں لے آئے۔ جہاں سے سردار کی اونچی جھونپڑی کا پچھلا حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے وہیں کنارے کے قریب کشتی روکی۔فرائیڈے کو بندوق دے کر کہا کہ تھوڑے فاصلے پر واقع درخت پر جا کر چھپ جائے تاکہ وہ اوپر سے آدم خوروں کو نشانہ بنا سکے۔
میں نے توپ میں بارود بھرنا شروع کر دیا۔ چقماق سے آگ جلائی اور پھر توپ کا منہ سردار کی اونچی جھونپڑی کی طرف کر کے اسے آگ دکھادی۔
ایسا خوفناک دھماکہ ہوا کہ سارا جزیرہ ہل گیا۔پرندے خوف سے آوازیں نکالتے ،پھڑ پھڑاتے درختوں سے اڑ گئے۔ دھماکے سے کشتی بھی پیچھے کو ہٹ گئی۔ میں چپوؤں کی مدد سے اسے آگے لے آیا۔ بارود کا دھواں صاف ہوا تو میں نے دیکھا سردار کی اونچی جھونپڑی کا نام و نشان تک باقی نہیں تھا۔
جزیرے پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ آدم خور شور مچاتے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ وہ تیر برساتے ہماری توپ کی طرف بڑھے۔ وہ چیخ رہے تھے۔ میں نے توپ کو بارود سے دوبارہ بھر دیا۔ اس عرصے میں درخت پر چھپا فرائیڈے ان پر فائر کرنے لگا۔ آدم خور گرتے گئے اور آگے بڑھتے گئے۔
میں نے دوسری بار توپ داغ دی۔ زبر دست دھماکا ہوا اور آدم خوروں کے جسم کے ٹکڑے اڑنے لگے۔ آدم خوروں کے چہرے پر اب خوف اور دہشت صاف دکھائی دینے لگی تھی۔ کچھ آدم خور جہاں تھے، حیرت سے وہیں ساکت کھڑے رہ گئے۔ کچھ پیچھے کو بھاگنے لگے۔فرائیڈے ان پر فائرنگ کرتا رہا۔
میں نے تیسری بار پر توپ چلائی۔پھر وقفہ دے کر چوتھی بار توپ چلادی۔ان گنت بھاگتے ہوئے آدم خور زمین پر گر کر تڑپنے لگے۔ میں نے اونچی آواز میں جزیرے کے لوگوں کی زبان میں پکارکر کہا:
’’آدم خوروں کے سردار، ہتھیار پھینک کر سامنے آ جاؤ۔میں تم پر رحم نہیں کروں گا۔تم ہزاروں انسانوں کو کھا چکے ہو۔ یاد رکھو میں تمہارے جزیرے کو نیست و نابود کردوں گا۔‘‘
کسی نے میری آواز کا جواب نہیں دیا۔ آدم خور لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے، کچھ چھپ گئے تھے۔
میں نے پھر بارود بھرا اور توپ چلا دی۔
اس بار جو دھماکہ ہوا، وہ پہلے تمام دھماکوں سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن تھا۔ کیونکہ اس بار میں نے توپ میں پہلے سے زیادہ بارود بھر دیا تھا۔ اب چاروں طرف تباہی پھیل گئی تھی۔ جھونپڑیاں جلنے لگی تھیں اور آدم خور ہاتھ اونچے کئے اور سر جھکائے ہوئے ہماری طرف آنے لگے۔سردار سب سے آگے تھا۔
میں نے فرائیڈے کو آواز دی، ’’درخت سے نیچے آ جاؤ۔اپنے وفادار ساتھیوں سے کہو کہ وہ ان کو سردار سمیت گرفتار کرلیں۔‘‘
فرائیڈے نے چھلانگ لگائی اور درخت سے نیچے اتر آیا۔ سردار نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
میں نے پستول سے دوبارہ ہوائی فائر کرنے کے بعد سردار کو مخاطب کر کے کہا، ’’آدم خور سردار! تمہاری زندگی کا آخری وقت آ گیا ہے۔تم نے جتنا ظلم کرنا تھا، کر لیا۔اب تمہیں تمہارے مظالم کی سزا ملے گی!
میں نے فرائیڈے سے کہا، ’’اپنے آدمیوں سے کہو انہیں گرفتار کر لیں۔‘‘
فرائیڈے نے اپنے وفاداروں کو پکارا۔ ہجوم میں سے کتنے ہی لوگ نکل آئے، جنہوں نے سب سے پہلے سردار کو باندھا، پھر باقی آدم خوروں کو جو سردار کے وفادار تھے۔
میں دونوں ہاتھوں میں پستول پکڑے سردار کے سامنے آ کر کھڑ اہو گیا۔ جب میں نے سردار کی زبان میں بولنا شروع کیا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹنے لگیں۔میں نے کہا:
’’تم نے قبیلے کے سردار کو قتل کیا۔اس کا سارا خاندان کھا گئے۔اپنے مخالفوں پر ظلم کیا۔اب تک تم ہزاروں انسانوں کو کھا چکے ہو۔ تم سے ہر مظلوم کابدلہ لیا جائے گا۔اگر تم کچھ کہنا چاہتے ہو تو بولو۔‘‘
تمام آدم خور مجھے یوں دیکھ رہے تھے، جیسے میں کوئی انسان نہیں بلکہ دیوتا ہوں۔ وہ سب ایک ساتھ کہنے لگے:
’’دیوتا…دیوتا…دیوتا…!‘‘
میں نے اونچی آواز میں ان کی زبان میں ان سے کہا:
’’غور سے سنو، میں عام انسان ہوں، تمہارا دیوتا اور سردار فرائیڈے ہے۔ ہاں میرے پاس یہ توپ ہے، جس سے میں ایک منٹ میں تم سب کو ہلاک کر سکتا ہوں۔میں سردار کے ساتھیوں کو معاف کرتا ہوں اور انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ فرائیڈے کی اطاعت قبول کر لیں۔ سردار کو زندہ نہیں چھوڑوں گا!‘‘
سارے آدم خور سجدے میں گر گئے۔ پھر انہوں نے فرائیڈے کو اپنا سردار تسلیم کر لیا۔ سردار کو ساتھ لئے وہ ہمیں جزیرے میں جلوس کی شکل میں اسی جگہ لے گئے، جہاں سینکڑوں عورتیں اور بچے قید تھے۔ سب کو آزاد کیا گیا۔ بچے اور عورتیں نعرے لگاتے میرے ارد گرد جمع ہو گئے۔ میں نے بچوں کو پیار کیا۔عورتیں میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے لگیں۔ وہ سب مجھے دیوتا کہہ ر ہے تھے۔
فرائیڈے بہت خوش تھا۔
اس وقت لوگوں نے اعلان کیا کہ اب قبیلے اور جزیرے کا سردار فرائیڈے ہے۔ دوپہر کو انہوں نے ہمارے اعزاز میں زبردست دعوت دی۔ آدم خور مرد، عورتیں اور بچے ناچ کر ہمارا دل بہلانے لگے۔ دعوت میں سالم بھونی ہوئی بکریاں تھیں۔ فرائیڈے نے میرے کان میں کہا:
’’یہ میری وجہ سے ہے،ورنہ لوگ تو آج سردار کو بھون کر کھانا چاہتے تھے۔‘‘
کھانے کے بعد انہوں نے سردار کو پیش کیا، جو رسوں میں بندھا ہوا تھا۔ فرائیڈے کے وفادار اسے گھسیٹ کر لا رہے تھے۔ سردار کی حالت بہت خراب تھی۔ بہت پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن موت کا خوف اس کے چہرے پر نہیں تھا۔ وہ واقعی ایک ظالم اور پتھر دل انسان تھا۔
اس نے معافی نہیں مانگی۔ مجھے جان بخشی کے لئے نہیں کہا۔ سب اسے قتل کرنا چاہتے تھے اور اس کا گوشت کھانا چاہتے تھے، لیکن مجھے اس کی بہادری بہت پسند آئی۔
میں نے کہا:
’’اگر فرائیڈے اجازت دے تو اس کی جان بخشی کر کے اسے کسی بہت دور دراز واقع جزیرے میں جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘
فرائیڈے نے کہا۔’’میں اسے جلا وطن کرنے پر رضامند ہوں۔‘‘
لیکن آدم خور مرد، عورتیں اور بچے اس کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ شور مچانے لگے۔چیخ رہے تھے۔ ’’ہم اس ظالم کو زندہ نہیں چھوڑیں گے..‘‘ وہ مجھے یاد دلاتے کہ میں نے سردار کو قتل کرنے اور سزادینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ چیخ رہے تھے کہ اگر میں ان کی مدد کو نہ آتا، تو یہ ظالم سردار سینکڑوں بچوں، عورتوں اور مردوں کو قتل کر کے ہڑپ کر جاتا۔وہ کسی صورت میں بھی اسے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
 آدم خور سردار کا انجام
آدم خوروں نے سردار کے اردگرد ناچنا شروع کر دیا۔
یہ موت کا وحشیانہ رقص تھا۔ عورتوں کے ہاتھوں میں نوکیلے تیر تھے، ناچتے ہوئے وہ ان تیروں کو سردار کے جسم میں چبھونے لگیں، اس کے جسم کے زخموں سے خون بہنے لگا۔ وہ خاموش بیٹھا تھا، اپنی قسمت پر راضی ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ موت اس کے سر پر پہنچ گئی ہے۔
فرائیڈے کے وفاداروں میں سے ایک بوڑھے آدم خور نے آگے بڑھ کر زمین سے مٹی اٹھائی اور ظالم سردار کے سر پر ڈال دی، یہ کوئی خاص رسم تھی۔ اس کے بعد سب عورتیں اور مرد دیوانہ وار خوشی سے چیخنے لگے۔ پھر انہوں نے سردار کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کر دیا اور اچانک ایک چھرے والے آدم خور نے سردار کی گردن پر چھرا چلایا اور اسے بکرے کی طرح ذبح کر دیا۔
خون کا فوارہ سامنے گرنے لگا۔ آدم خور چلو بھر بھر کے اس کا خون پینے لگے۔ مردہ سردار کی کٹی ہوئی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ اور پھر کتنے ہی آدم خور چھرے لے کر سردار کے جسم پر ٹوٹ پڑے۔ میں خوفزدہ بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اب سردار کا جسم دکھائی نہیں دیتا تھا، لوگ اس پر جھکے تھے۔
جب آ دم خوروں کی بھیڑ چَھٹی تو میں نے دیکھا، جہاں پہلے سردار کا جسم تھا، وہاں اب خون کے نشانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سر دار کی بوٹی بوٹی کر کے لے گئے تھے۔
سردار کا سر ایک نیزے پر چڑھا کر سارے جزیرے میں گھمایا گیا اور پھر اس سر کو فرائیڈے کے باپ کی پرانی جھونپڑی کے اوپر لٹکا دیا گیا۔
وہ رات میں نے فرائیڈے کے کہنے پر اس جزیرے پر بسر کی۔ جزیرے میں جشن کا سماں تھا۔ سب نا چ رہے تھے۔جب آدھی رات کے بعد میں سویا تو بھی لوگ ناچ رہے تھے۔
دوسرے دن فرائیڈے بھی میرے ساتھ جانے پر ضد کرنے لگا۔ اس کا دل اب آدم خوروں میں نہیں لگتا تھا۔ وہ میرے ساتھ جزیرے پر اور پھر کشتی میں سوار ہو کر میرے ساتھ کسی بڑے شہر میں جانا چاہتا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اب وہ سردار ہے۔اسے اپنے جزیرے اور قبیلے میں رہنا ہے۔ وہ ان لوگوں کی عادتیں بدل کر آدم خوری کی عادت چھڑا کر انسانیت پر بڑا احسان کر سکتا تھا۔
بالآخر میں نے اسے اپنی دلیلوں سے قائل کر لیا اور وہ اپنے جزیرے میں رکنے پر آمادہ ہو گیا۔ میں جانتا تھا کہ اگر فرائیڈے میرے ساتھ کسی بڑے شہر میں چلا بھی گیا تو وہاں اس کا دل نہیں لگے گا۔ وہ بڑے شہروں میں رہنے کا عادی نہیں ہو سکتا تھا۔
چلتے وقت میں نے اسے توپ بھی دے دی اور بچا ہوا بارود بھی۔اور دو پستول بھی اس کے حوالے کر دیے۔
سارے جزیرے نے مجھے رخصت کیا۔ فرائیڈے بہت جذباتی ہو رہا تھا۔اس نے کہا کہ وہ مجھے ملنے کے لئے جزیرے میں آ تا رہے گا۔
 موت کا احساس
میں اب پھر اکیلا تھا۔
اپنے جزیرے میں بالکل اکیلا اور تنہا۔
طوطے اور کتے کی موت کے بعد فرائیڈے بھی اب اپنے جزیرے میں تھا!
تنہائی مجھے کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ اپنے کیبن میں بیٹھ کر میں سوچنے لگا کہ اب میں یہ تنہائی کیسے برداشت کروں گا۔بتیس برس سے میں اس جزیرے میں تھا اور اب اس جزیرے میں ایک پل بسر کرنا بھی میرے لئے مشکل ہو رہا تھا، لیکن میں مجبور تھا۔بارشوں اور سمندری طوفانوں کے موسم کے گزر جانے کے بعد ہی میں جزیرے سے نکل سکتا تھا۔
اس رات مجھے بخار ہو گیا۔ بخار کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور بے ہوشی میں، میں نجانے کیا کیا بکتا رہا۔ مجھے شدت سے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب میں بچ نہیں سکوں گا۔
اگلے دن شام کو بخار میں کمی ہوئی۔ پھر بھی میں رات بھر لیٹا رہا۔ اگلے دن دوپہر کو میں اٹھا۔ سمندر کے کنارے دھوپ میں آ کر بیٹھ گیا۔گرمی کا موسم شروع ہو رہا تھا۔ شام تک وہیں دھوپ سینکتا رہا۔ رات کو تھوڑی روٹی اور کچھ خشک انگور کھا کر سو گیا۔ اس رات بخار بھی اتر گیا، نیند بھی خوب آئی۔
صبح میں ہشاش بشاش اٹھا۔ میں نے بڑی کشتی میں پھر سے ضروری سامان لادنا شروع کر دیا۔ اب فرائیڈے تو تھا نہیں اس لئے سارا کام بھی مجھے کرنا تھا اور اکیلے ہی اس جزیرے سے روانہ ہونا تھا۔ میرے خیال میں ایک ماہ کے بعد موسم میرے سفر کے لئے سازگار ہونے والا تھا۔
اور پھر بارشیں شروع ہو گئیں۔ میرے کیبن کی چھت ٹپکنے لگی۔ میں چٹان کی کھوہ میں لیٹ گیا۔ زبردست طوفان آیا۔ درخت جھولنے لگے۔ سمندر کی لہریں خوفناک شور مچاتیں۔ بجلیاں کڑکتیں، بادل گرجتے تو یوں لگتا جیسے بھونچال آ گیا ہے۔
مجھے سب سے زیادہ فکر اپنی کشتی کی تھی۔ خدا سے دعا کرتا کہ اسے طوفان اور بارشوں سے محفوظ رکھے۔ جب طوفان تھم گیا تو میں باہر نکلا۔ جزیرے میں ساحل کے کنارے کئی درخت اکھڑ کر زمین پر گرے ہوئے تھے۔
میں بھاگتا ہوا حواس باختہ اس چٹان کی طرف بڑھا، جہاں میں نے کشتی باندھ رکھی تھی۔وہاں پہنچ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔
وہاں کشتی نہیں تھی۔۔۔!
میں نے بے قرار ہو کر ادھر ادھر نظریں دوڑائی، لیکن،دور دور تک کشتی دکھائی نہیں دے رہی تھی!
طوفانی لہریں رسی توڑ کر کشتی کو خدا جانے کہاں بہا کر لے گئی تھیں۔
وہ کشتی، جسے میں نے فرائیڈے کے ساتھ مل کر مہینوں میں تیار کیا تھا، وہ اس جزیرے سے آزادی حاصل کرنے کا آخری سہارا اور آخری امید تھی۔اب وہی نجانے طوفان میں کہاں بہہ گئی تھی۔
میرا دل بھر آیا اور میں شدت غم سے رونے لگا۔
بوجھل دل کے ساتھ اپنے کیبن میں پہنچا۔ تنہائی کا احساس بڑھنے لگا۔ مایوسی نے مجھے گھیر لیا۔ میری ہر امید دم توڑ گئی تھی۔
اب تو گویا یہ جزیرہ میرے لئے موت کا جزیرہ بن گیا تھا۔ میں اب بوڑھا اور کمزور ہو گیا تھا۔ بتیس برس میں اس جزیرے نے میری طاقت چوس لی تھی۔
میں نے یقین کر لیا تھا کہ اب میں مرنے والا ہوں۔ میری قسمت میں اس جزیرے میں اکیلے اور تنہا، کسمپرسی کی موت کو گلے لگانا ہی لکھا تھا۔
میں آ نکھیں بند کر کے موت کا انتظار کرنے لگا!
میں آنکھیں بند کئے لیٹا تھا کہ میرے کانوں نے سمندری جہاز کے بھونپو کی آواز سنی۔ مجھے یقین نہ آیا۔اسے میں نے ایک وہم قرار دیا۔ دل نے کہا موت سے پہلے یہ آوازیں بس میرا دل بہلا رہی ہیں۔
لیکن دوسری بار پھر میں نے جہاز کی سیٹی کی آواز سنی۔میں نے آنکھیں کھولیں۔ تیزی سے کیبن سے باہر آیا۔ پھر بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھا۔ اگرچہ میں دوربین کیبن میں بھول آیا تھا، لیکن مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑی۔وہ جو سمندر میں تھا۔۔۔وہ ایک جہاز تھا۔۔۔! میرے اور اس کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے دو تین بار اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو مَلا۔
ہاں وہ جہاز تھا۔۔۔سمندر میں کھڑا جہاز تھا!
نیلی وردیوں والے ملاح صاف نظر آ رہے تھے اور کچھ ملاح ایک کشتی میں بیٹھے ساحل سے جہاز کی طرف جاتے دکھائی دیے۔
میں زور زور سے چیخنے اور چلانے لگا۔ میں نے پستول سے ہوائی فائر کیا۔ پستول کی آواز پر جہاز کی طرف جاتی ہوئی کشتی مڑی اور ساحل کی طرف بڑھنے لگی۔
میں پہاڑی سے اترا اور سمندر کی طرف بھاگنے لگا۔لیکن ٹھوکر کھا کر ریت پر منہ کے بل گر پڑا۔
میں جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھا، لیکن پھر ساحل پر گر گیا۔میں دوبارہ اٹھ کر بھاگنے لگا۔
کشتی ساحل پر آ کر رکی۔ نیلی وردیوں والے ملاح اتر کر میرے اردگرد کھڑے ہو گئے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
میں انہیں دیکھ کر ناقابل بیان خوشی محسوس کر رہا تھا، کیونکہ وہ مہذب انسان تھے، جنہیں دیکھے مجھے بتیس برس ہو گئے تھے۔
ایک ملاح مجھ پر جھکا اور پوچھا۔’’تم کون ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا۔ ’’میں انسان ہوں۔‘‘
پھر میں نے اپنا سفید بالوں والا بوڑھا چہرہ ہاتھوں میں اوپر اٹھا کر رونا شروع کر دیا۔ ملاح مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ انہوں نے مجھے ریت سے اٹھایا۔ جب میں نے بتایا کہ میں اس جزیرے میں بتیس برس سے ہوں تو انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں انہیں پہاڑی پر لے گیا۔ وہ لکڑی کا کیلنڈر دکھایا جو میں نے بنایا تھا۔ انہیں اپنے کیبن میں لے گیا۔ وہ یہ سب دیکھ کر حیران اور ششد رہ رہ گئے۔
انہوں نے مجھے کشتی میں سوار کیا اور جہاز پر لے گئے۔ یہ ایک کھلا اور خوبصورت جہاز تھا۔ کپتان نے ہمدردی سے میری کہانی سنی اور حیران رہ گیا۔ میری ہمت پر سب نے مجھے داد دی۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ پچھلی رات کے طوفان کی وجہ سے ان کا جہاز بھٹک کر ادھر آ گیا تھا۔ ملاح جزیرے میں پینے کے پانی کی تلاش میں اترے تھے۔
میں نے اپنی قسمت پر، جو بہت برسوں کے بعد مہربان ہوئی تھیں، خدا کا شکر ادا کیا۔ کیونکہ اگر میں سویا ہوا ہوتا یا جہاز کے بھونپو کی آواز نہ سنتا تو جہاز جا چکا ہوتا اور میں اسی جزیرے میں مر جاتا۔ جہاں میں نے اپنی بھرپور جوانی کے دن انتہائی تکلیف اور کسمپری میں گزار دیئے تھے۔
وہ طوفان، جس میں میری کشتی بہہ کر نجانے کہاں کھوگئی تھی، کچھ دیر پہلے میں اس طوفان کو کوس رہا تھا،لیکن اب میں اسی طوفان کے بارے میں سوچ کر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا، کیونکہ وہی طوفان اس جہاز کو بھٹکا کر میرے جزیرے کے ساحل پر لے آیا تھا۔
جہاز چل پڑا، جزیرہ دور ہوتا چلا گیا۔مجھے اپنے کتے اور طوطے کی آوازیں سنائی دیں۔ فرائیڈے مجھے بے تحاشا یاد آنے لگا۔
کپتان نے مجھے نرم بستر پر لٹا دیا تھا۔ میں خوشی سے آنسو بہا رہا تھا۔
ایک مہینے کے بعد جہاز لندن پہنچا۔ میرا باپ کب کا مر چکا تھا، میرا کوئی رشتے دار نہ تھا۔ کپتان نے مجھے اپنے ہی جہاز پر نائب کپتان کی ملازمت دے دی اور میں نے اپنی باقی زندگی اس طرح خاموشی سے بسر کر دی۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top