skip to Main Content

قصہ پہلے انسان کا

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
’’کل سے ہمارے اسکول میں چھٹیاں ہیں۔‘‘ عامر نے اعلان کیا۔
’’ کیوں بھئی، تمھارے اسکول میں کیا خاص بات ہے؟ ‘‘باجی نے پوچھا، جو اپنے لباس پر استری کر رہی تھیں۔
’’ہمارے اسکول کو بڑی جماعتوں کے امتحانات کا مرکز بنایا گیا ہے، اس لیے دس دن تک چھٹیاں رہیں گی۔
’’اچھا تو ان چھٹیوں میں کیا کرو گے؟‘‘ باجی نے لباس تہ کرتے ہوئے سوال کیا۔
’’میں تو بہت ساری کہانیاں پڑھوں گا۔‘‘ عامر نے کہا۔
’’ ٹھیک ہے، لیکن اچھی اور سبق آموز کہانیاں پڑھنا۔ تمھیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں قصے بیان کیے ہیں۔‘‘ باجی نے پوچھا۔
’’ اللہ تعالیٰ نے؟ قرآن مجید میں؟‘‘ عامر نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں ہاں، قرآن مجید میں کئی مقامات پر واقعات بیان کیے گئے ہیں، ان میں گزری ہوئی قوموں کے قصے ہیں، انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات ہیں، ان لوگوں کے قصے ہیں جو ایمان پر مضبوطی سے جمے رہے اور ان کو تکالیف دی گئیں۔‘‘
’’باجی، مجھے یہ واقعات سنائیے۔‘‘ عامر نے اشتیاق سے کہا۔
’’ اس وقت تو نہیں، رات میںجب میں برتن وغیرہ سمیٹ کر فارغ ہو جاؤںگی تب سناؤں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے باجی، جزاک اللہ۔‘‘
رات میں جب باجی نے باورچی خانے کا سارا کام مکمل کر لیا تو وہ اپنے کمرے میں آ گئیں، عامر وہاں بیٹھا اپنے اسکول کا کام کر رہا تھا۔ اس نے باجی کودیکھتے ہی کہا:
’’باجی، بس یہ آخری سوال رہ گیا ہے، پانچ منٹ میں کرلوں گا۔‘‘ 
عامر نے کام پورا کر لیا اور کتابیں، کا پیاں سمیٹ کر رکھ دیں تو باجی کہنے لگیں:
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جتنے بھی قصے بیان کیے ہیں، اُن کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ قرآن مجید قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قصے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ انھیں پڑھ کر نصیحت حاصل کریں، گزری ہوئی ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کریں جن پر اللہ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے عذاب آیا، پھر یہ قصے اس لیے بھی بیان کیے گئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور آپ کے صحابہ اورتمام مسلمانوں کے، دلوں کو تسکین دی جائے، ان میں حوصلہ پیدا کیا جائے اور اللہ پر ان کا ایمان پختہ ہو جائے۔ قرآن مجید میں بیان کیے جانے والے قصوں کے یہ مقاصد خود قرآن مجید میں بیان کر دیے گئے ہیں۔‘‘
’’ باجی، آپ نے قصہ نہیں شروع کیا۔‘‘ عامر نے ذرا بے چینی سے کہا۔
’’ قصہ بھی سناتی ہوں، اس سے پہلے یہ باتیں بتانی ضروری تھیں۔ قرآن مجید میں جو پہلا اور اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے، نبی ہیں۔ ان کا قصہ سورہ بقرہ، آل عمران، المائدہ اور کئی دوسری سورتوں میں بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کرنے سے پہلے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا ایک خلیفہ یعنی نائب بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا آپ کسی ایسے کو وہاں مقرر کریں گے جو فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔ ہم آپ کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔ پھر اللہ نے حضرت آدم کو تخلیق کیا، ان کو بہت سی چیزوں کے نام سکھائے اور فرشتوں سے کہا کہ تم ان چیزوںکے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دیا ہے۔‘‘
پھر حضرت آدم علیہ السلام نے ان چیزوں کے نام بتائے؟‘‘ باجی سانس لینے کے لیے رکیں تو عامر نے بے تابی سے سوال کر دیا۔
’’ہاں یہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کے آگے جھک جائیں، دراصل اس سے یہ ظاہر کرنا تھا کہ انسان کو تو زمین پر بھیجا جانا ہے، اسے کچھ اختیارات بھی دیے جانے ہیں، تو جہاں تک اللہ کی مرضی ہو، فرشتے، انسان کے لیے دنیا میں کاموں کو آسان اور ممکن بناتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تو سب جھک گئے مگر شیطان نے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا، تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہ کیا؟ شیطان نے کہا، میں آدم سے بہتر ہوں، مجھے تو آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔‘‘
’’مٹی سے؟‘‘
’’ہاں، اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق فرمایا۔ شیطان نے جو یہ بات کہی تو اللہ تعالیٰ نے ناراض ہو کر اس سے کہا کہ تو یہاں سے نکل جا۔ روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے۔ شیطان نے کہا، مجھے قیامت کے دن تک کی مہلت دے دیں تو میں انسان کی پوری نسل کو سیدھے راستے سے بھٹکا دوں۔ تھوڑے سے لوگ ہی مجھ سے بچ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مہلت دے دی اور فرمایا، جو بھی تیری بات مانے گا میں تجھے اور اُس کو جہنم میں ڈال دوں گا۔ تو جیسے چاہتا ہے بہکالے، اُن پر اپنے چیلے چھوڑ دے اور اُن کو جھوٹے وعدوں کے جال میں پھانس لے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا باجی؟‘‘
’’شیطان نے یہ جانتے ہوئے بھی انسان کو بہکانے کا کام اپنے ذمے لے لیا کہ اُسے خود بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ حضرت حوا کو بھی تخلیق فرمایا۔ اُن دونوں کو جنت میں بھیج دیا اور کہا کہ تم جو چاہو کھاؤ پیومگر ایک خاص درخت ہے، اُس کے قریب نہ جانا۔ حضرت آدم اور حضرت حوا، جنت میں رہنے لگے۔ اب شیطان نے اپنا کام شروع کیا۔ وہ اُن کا بڑا خیر خواہ بن کر آیا۔ اُن کو اکسانے لگا کہ اس خاص درخت کا پھل کھا لیں کیوں کہ اللہ نے تو یہ پھل کھانے سے اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل کر لو۔‘‘
’’پھر حضرت آدم نے شیطان کی بات مان لی۔‘‘
’’ ہاں، اُن سے اور حضرت حو اسے یہ غلطی ہو گئی لیکن جوں ہی اُن کو غلطی کا احساس ہوا، انھوں نے اپنے رب سے معافی مانگنی شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے خود ایک دعا کے الفاظ انھیں سکھائے، یہ دعا سورۃ الاعراف میں شامل ہے کہ اے اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ نے درگزر نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا توہم تباہ ہو جائیں گے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کر لی؟‘‘
’’ہاں، اللہ نے حضرت آدم کی دعا قبول کر لی، لیکن اُن سے اور حضرت حو اسے کہا کہ تم زمین پر اتر جاؤ، ایک خاص عرصے تک تمھیں وہیں رہنا ہے پھر اُسی زمین سے تم کو نکالا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سزا کے طور پر زمین پر نہیں بھیجا بلکہ آزمائش کے طور پر بھیجا کہ زمین پر رہ کر انسان اپنے رب کا کتنا فرماں بردار رہتا ہے۔ اگر وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا تو اُسے جنت دی جائے گی اور اگر وہ نافرمانی کے اور شیطان کے راستے پر چلے گا تو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اللہ نے حضرت آدم کو نبوت بھی عطا کی۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سے انسانوں کو نبوت عطا کی اور اللہ کے ان نبیوں نے اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان سے محفوظ رکھے۔‘‘ عامر طویل سانس لے کر بولا۔
’’آمین۔ اچھا بتاؤ اس قصے سے کیا سبق ملا؟‘‘ 
’’باجی، ایک تو بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کسی حال میں جائزنہیں۔ شیطان نے نافرمانی کی اور اُس پر لعنت کی گئی۔‘‘
’’شاباش، شیطان اور انسان میں فرق ہے کہ شیطان تو غرور میں آ گیا اور اپنی نافرمانی پر شرمندہ بھی نہیں ہوا جبکہ انسان سے غلطی ہوئی تو وہ احساس ہوتے ہی شرمندہ ہو گیا اور اس نے اللہ سے معافی مانگ لی۔ اللہ نے اُسے معاف بھی کر دیا۔‘‘
’’اور باجی، اس سے پتا چلا کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے، اس کی چالوںسے بچ کر رہنا چاہیے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک، شیطان نے اللہ سے کہا تھا کہ میں انسانوں کو دائیں بائیں، آگے پیچھے ،اوپر نیچے ہر طرف سے گھیروں گا۔ شیطان برائی کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔ شیطان، انسان کو بہکانے کے لیے دوست کے روپ میں آتا ہے۔ اُس کا ہمدرد اور خیر خواہ بن کر، سیدھے راستے سے ہٹا کر غلط راستے پر چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے انسانوں کی بہت بڑی تعداد اُس کی باتوں میں آ کر اللہ اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو چھوڑ کر بُرائی اور بے حیائی کے کاموں میں اُلجھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ جنت کی بجائے جہنم کی مستحق قرار پاتی ہے۔ اس کی چالوں سے واقعی ہوشیار رہنا چاہیے۔ اچھا بھئی اب رات بہت ہوگئی۔ صبح فجر کی نماز کے لیے اٹھنا بھی ہے۔ اب تم جاؤ سو جاؤ۔ سونے سے پہلے دعائیں پڑھنا نہ بھولنا۔‘‘ باجی نے یاد دلایا۔
’’ اچھا باجی، جزاک اللہ، اللہ حافظ۔‘‘
’’اللہ حافظ!‘‘
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top