skip to Main Content

قاتل بلی کی ڈائری

کہانی: The diary of a killer cat
مصنف: Anne Fine

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ایسی بلی کی کہانی جسے سب قاتل سمجھتے تھے….لیکن؟

۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر
اچھا بھئی، مجھے پھانسی دے دو۔میں اقرار کرتی ہوں کہ میں نے ایک چڑیا ماری ہے۔ حالانکہ تم لوگوں کو مجھ پر رحم کرنا چاہیے۔ آخر میں ایک بلی ہوں اور میرا کام ہی باہر گھوم پھر کر پرندوں کو ڈرانا اور پکڑنا ہے۔ ویسے آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے تھا؟ اگر کوئی موٹی تازہ چڑیا درخت سے پھسل کر میرے منھ میں آگرے۔ (منھ سے میرا مطلب ہے میرے پنجوں کے بالکل قریب ہی پڑی تھی، مجھے چوٹ بھی لگ سکتی تھی)
ہاں، ہاں، میں مان تو رہی ہوں کہ میں نے اسے چبا لیا۔ اب اتنی سی بات پر ایمی نے رو رو کر برا حال کر لیا اور مجھے اتنی زور سے دبایا کہ میں مرتے، مرتے بچی۔
”اوہ کیٹی تم ایسا کیسے کرسکتی ہو؟“ اس نے ٹشو پیپر سے ناک رگڑتے ہوئے لال آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ میں یہ کیسے کرسکتی ہوں؟ عجیب سا سوال تھا۔ ارے بھئی، میں ایک بلی ہوں۔ اب مجھے کیا معلوم تھا کہ میری ایک چھوٹی سی حرکت کی وجہ سے اتنا بڑا طوفان اٹھے گا کہ ایمی کی امی گرم پانی اور ڈسٹر لے کر بھاگیں گی، ایمی کے ابو مجھے لعنت ملامت کرنے لگیں گے اور ایمی رونے لگے گی۔ اوہ! شاید مجھے چڑیا گھسیٹ کر کارپٹ پر نہیں ڈالنی چاہیے تھی اور شاید اب کارپٹ سے یہ دھبے کبھی صاف نہیں ہوسکیں گے۔ سو مجھے پھانسی دے دو۔
منگل
میں نے چڑیا کے جنازے میں بخوشی شرکت کی۔ میرا خیال ہے کہ باقی لوگ میری شرکت کو پسند نہیں کر رہے تھے۔ مگر بہرحال، یہ باغ میرا بھی اتنا ہی تھا جتنا ان کا ، بلکہ میں ان سے کہیں زیادہ اس باغ میں وقت گزارتی ہوں۔ میں اس پورے خاندان کی واحد فرد ہوں جو اس باغ کا صحےح استعمال کرتی ہوں۔ مگر ان میں سے کوئی اس بات پر میرا شکر گزار نہیں تھا۔ آپ ذرا ان لوگوں کی باتیں تو سنیے!!
” یہ بلی میری کیا ری کو تباہ کررہی ہے۔“
”گلاب کا کوئی پودا تو اس نے چھوڑا ہی نہیں۔“
” ابھی میں نے موتیا لگایا ہی تھا کہ یہ اس کے اوپر بیٹھ گئی۔ بے چارہ پودا فوراً ہی ٹوٹ گیا۔“
”کاش یہ بلی پودوں کے پاس گڑھے نہ کھودا کرے اس سے پودوں کی جڑیں باہر نکل آتی ہیں اور وہ سوکھ جاتے ہیں۔“
غرض رونا دھونا اور ہر وقت کا رونا دھونا! میں نہیں جانتی کہ آخر ان لوگوں نے بلی پالی ہی کیوں ہے جب ہر وقت ان کو مجھ سے کوئی نہ کوئی شکایت ہی رہتی ہے۔ سوائے ایمی کے جسے ننھے منے پرندوں کے بارے میں پریشان ہونے سے فرصت نہیں ملتی۔ اس وقت بھی ایمی نے چڑیا کو ایک ڈبے میں بند کیا اور ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اس میں دبا دیا اور پھر ہم سب قبر کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔ ایمی نے چڑیا کے لیے دعا کی۔
” بھاگ جاؤ۔“ایمی کے والد نے مجھے دھتکارا ۔ مگر میں نے ان کے سخت رویے کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ آخر وہ خود کو سمجھتے کیا ہیں، اگر میں چڑیا کی آخری رسومات میں شریک ہونا چاہتی ہوں تو مجھے کون روک سکتا ہے؟ آخر میں اس چڑیا کو ان سب لوگوں سے زیادہ جانتی ہوں، اس وقت سے جب وہ چڑیا چھوٹی سی تھی!!
بدھ
اچھا بھئی، مجھے خوب مارو! میں اس شاندار گھر میں ایک مردہ چوہا جو لے آئی۔ میرا گلا دبا دو۔ حالانکہ میں نے تو وہ چوہا مارا بھی نہیں تھا۔ میں جب اس کے پاس سے گزری تو وہ پہلے ہی اس دنیا کو خیر باد کہہ چکا تھا۔ آج کل کوئی محفوظ نہیں ہے۔ پوری گلی چوہے مار دواؤں سے بھری ہوئی ہے، تیز رفتار گاڑیاں پورا دن یہاں سے گزرتی رہتی ہیں اور میں اس محلے میں رہنے والی اکلوتی بلی بھی نہیں۔ میں تو یہ تک نہیں جانتی کہ اس بے چارے کے ساتھ ہوا کیا تھا؟ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو وہ پہلے سے ہی مرا ہوا تھا اور اس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اسے اٹھا کر گھر لے جایا جائے، یہ نہ پوچھیے گا کہ کیوں؟ شاید میرا دماغ چل گیا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ایمی مجھے پکڑکر اتنا زیادہ غصہ کرے گی۔
”اوہ کیٹی! تم نے اس ہفتے میں دوسری بار ایسی حرکت کی ہے اور میں یہ حرکتیں برداشت نہیں کرسکتی۔ میں جانتی ہوں کہ تم ایک بلی ہو اور اس طرح کی حرکتوں کی تم سے امید کی جاسکتی ہے مگر پھر بھی میری خاطر کیٹی تم یہ حرکتیں چھوڑ دو۔“ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا،
”تم چھوڑدو گی ناں پلیز۔“ میں نے پلکیں جھپکائیں جس کا مطلب تھا ۔
” نہیں!“ مگر وہ بدستور کہتی رہی۔ ”یہ میرا حکم ہے کیٹی! میں تمھیں بہت چاہتی ہوں مگر تمھیں اس قسم کی حرکتوں کی اجازت نہیں دے سکتی۔ سمجھ گئی؟“ اس نے مجھے پنجوں سے پکڑا ہوا تھا سو میں کہہ بھی کیا سکتی تھی۔ اس لیے میں نے مجبوراً اپنے چہرے پر شرمندگی کے آثار طاری کر لیے اور پھر ایمی دوبارہ رونے لگی اور ہم نے ایک اور جنازے میں شرکت کی۔
جمعرات
میں آپ لوگوں کو خرگوش کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگرچہ میں نے پہلی دفعہ اتنے بڑے خرگوش کو اتنے چھوٹے سے دروازے سے (جو میری آمدورفت کے لیے بڑے دروازے میں کھولا گیا تھا) گزارنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا تھا مگر بظاہر کوئی میری اس کامیابی سے متاثر نہیں نظر آیا۔ حالانکہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے آنے جانے کا راستہ بہت چھوٹا سا ہے اور یہ خرگوش بے حد موٹا تھا۔ اگر میری رائے لی جائے تو اس کو خرگوش کے بجائے دنبہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ مگر اس گھر میں میری رائے لیتا ہی کون ہے؟ خیر! نہ صرف یہ کہ کسی نے مجھے اس کارنامے پر شاباش نہیں دی بلکہ الٹا سب چلانے لگے۔
”ارے یہ تو فیٹی ہے، پڑوسیوں کا خرگوش!“ ایمی چلائی۔
”اُف خدایا! یہ ہم کس مصیبت میں پھنس گئے۔ ہماری بلی نے پڑوسیوں کے خرگوش کو مار ڈالا۔ اب ہم کیا کریں گے!“ ابو نے سرپیٹ لیا۔
” لیکن ایک بلی ایسا کیسے کرسکتی ہے، میرا مطلب ہے کہ یہ کوئی چھوٹا ساپرندہ یا چوہا نہیں۔ یہ خرگوش تو خود بلی کے سائز کا ہے دونوں میں سے کوئی ایک ٹن سے کم کا نہیں۔“ امی نے مجھے گھورا۔ میں نے یہ سن کر غصے سے دُم ہلائی۔ میں اس موٹے خرگوش سے زیادہ اسمارٹ ہوں مگر کسی نے میرے احتجاج پر توجہ نہیں دی۔ ایمی حسب معمول چیخ چیخ کے رونے لگی۔ ” میں یقین نہیں کرسکتی کہ کیٹی اتنی ظالم بھی ہوسکتی ہے۔“ وہ چلائی۔
”اور پھر فیٹی خرگوش تو پڑوس میں برسوں سے رہتا آرہا ہے۔ پہلے تو کیٹی کو کبھی ایسی حرکت کا خیال نہیں آیا۔“ پھر وہ میری طرف مڑی، ”کیٹی! یہ تو تم نے حد ہی کردی ۔ فیٹی اس وقت خرگوش کم اور کوڑے کا ڈھیر زیادہ لگ رہا تھا۔ اس کا پورا جسم کیچڑ میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس کے بالوں میں گھاس پھوس اٹکا ہوا تھا اور اس کے کانوں پر گریس لگ گئی تھی۔ لیکن یہ تو سوچیں کہ کوئی بھی شخص اگر زمین پر گھسیٹتا ہوا ایک باغ سے دوسرے باغ کا سفر کرے اور پھر ایک چھوٹے سے دروازے سے گزر کر آپ تک پہنچے تو وہ اتنا اچھا نہیں لگ سکتا ناں جیسے کوئی پارٹی میں جا رہا ہو اور پھر فیٹی کو اس بات کی کوئی پروا بھی نہیں تھی کہ وہ کیسا لگ رہا ہے۔ وہ مر چکا تھا۔ مگر باقی لوگوں کو اس بات کی بہت پروا تھی (اور کچھ زیادہ ہی پروا تھی، ہنھ!)
”اب ہم کیا کریں؟“ ایمی نے پوچھا ” یہ بہت برا ہوا ہے۔ پڑوسی اب ہم سے کبھی بھی بات نہیں کریں گے۔ “ امی نے سر پکڑ لیا۔
”ہمیں لازمی اس مشکل کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔“ ابو نے کہا اور اُنھوں نے حل نکال ہی لیا۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ یہ ہر لحاظ سے ایک عمدہ منصوبہ تھا۔
سب سے پہلے ایمی کے ابو ٹب لے کر آئے اور اس میں گرم پانی کے ساتھ صابن گھولا ۔ ساتھ ہی وہ مجھے غصے سے گھورتے جا رہے تھے تاکہ میں شرمندہ ہو جاؤں۔ مگر میں بھی اپنی وہی پرانی ” میں متاثر نہیں ہوئی۔“ والی نظروں سے گھورتی رہی۔ پھر ایمی کی امی نے فیٹی کو ٹب میں ڈالا۔ پانی خطرناک حد تک بھورے رنگ کا ہو گیا۔ (کیچڑ کی وجہ سے) اور پھر مجھے گھورتے ہوئے جیسے یہ سب میری ہی غلطی ہو، اسے ٹب سے نکال کر سنک میں ڈال کر صابن سے دھو نے لگیں۔ ایمی حسب معمول رو رہی تھی ۔ (وہ ایک رونی بچی تھی) ”رونا بند کرو ایمی! میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔ اگر تم میری مدد کرنا چاہتی ہو تو پلیز میرے کمرے سے ہیئر ڈرائر اٹھا کر لے آؤ۔“ اس کی امی نے اسے ڈانٹا۔ لہٰذاایمی مسلسل روتے ہوئے اوپر چلی گئی۔ میں کھڑکی کے اوپر بیٹھ گئی اور ان سب کو دیکھنے لگی۔ انھوں نے فیٹی غریب کو خوب رگڑ رگڑ کر صاف کیا تھا۔ اچھا ہی ہوا کہ وہ مر چکا تھا ورنہ اسے اپنے ساتھ یہ سلوک ہر گز پسند نہیں آتا۔ اسے نہانے سے نفرت تھی۔ انھوں نے اس کے بالوں سے پانی نچوڑ کر اسے ایک پرانے اخبار پر رکھ دیا اور ایمی کو ہیئر ڈرائر دیتے ہوئے کہا، ”اب تم اس کو اچھی طرح خشک کرکے اس کے بال سنوار دو۔“ میں تسلیم کرتی ہوں کہ ایمی نے یہ کام بہترین طریقے سے کیا۔ اسے بڑا ہو کر ہیئر سٹائلسٹ بننا چاہیے۔ فیٹی اپنی زندگی میں بھی اتنا خوبصورت نہیں لگا تھا جتنا اب ایمی کی محنت سے لگ رہا تھا۔
”اب کیا کریں؟“ ایمی کے ابو نے کہا۔ ایمی کی امی نے پہلے ہاتھ سے خرگوش اور پھر باہر کی طرف اشارہ کیا۔ ”اوہ نہیں! میں یہ کام نہیں کرسکتا۔“ ایمی کے ابو نے احتجاج کیا۔ ” یہ کام آپ ہی کریں گے۔ اب کیا میں یہ خرگوش رکھنے کے لیے پڑوسیوں کی دیوار کودوں گی؟“ ایمی کی امی نے ان کو ایسی نظروں سے گھورا جن سے وہ مجھے گھورا کرتی ہیں۔ (فرق صرف یہ ہے کہ میں ڈرتی نہیں)
اب میں سمجھی کہ ان لوگوں کا منصوبہ کیا تھا۔ وہ خرگوش کو خاموشی سے اس کے گھر واپس پہنچانا چاہتے تھے تاکہ جب وہ مرا ہوا ملے تو کسی کو پتہ نہ چلے کہ اسے میں گھسیٹ کر اپنے گھر لائی تھی۔ میں اس بارے میں کچھ وضاحت کرنا چاہتی تھی مگر میری سنتا ہی کون ہے اور میں توصرف ایک بلی ہوں۔ میں کھڑکی پر بیٹھی انھیں دیکھتی رہی۔
جمعہ
رات کے بارہ بجے ایمی کے ابو سیاہ لباس میںفیٹی کا پارسل لے کر روانہ ہوئے تو ایمی کی امی نے کہا ” اس وقت کوئی آپ کو دیکھ لے تو چور خیال کرے۔“
”کاش کوئی ہماری بلی بھی چرا کر لے جائے۔“ایمی کے ابو بڑبڑائے۔ میں نے انھیں نظر انداز کیا۔
”باہر کی لائٹ نہ جلانا ورنہ کوئی دیکھ لے گا۔“ ایمی کے ابو نے امی کو خبردار کیا۔ میں نے بھی ابو کے ساتھ باہر نکلنے کی کوشش کی مگر ایمی کی امی نے مجھے اپنے پاؤں سے روک لیا۔ ” تم اب رات میں گھر کے اندر ہی رہو گی۔ اس ہفتے ہم تمھاری وجہ سے خاصی مصیبت جھیل چکے ہیں۔“
میری دوستوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ انھوں نے ایمی کے ابو کو پڑوسیوں کے باغ میں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ”ایمی کے ابو رات کو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتے، کتنی عجیب بات ہے۔“ میری دوست ٹائیگر نے تبصرہ کیا۔ ”وہ ایک گھنٹے تک اندھیرے باغ میں خرگوش کا پنجرہ ڈھونڈتے رہے۔ پھر اس کا دروازہ کھول کر فیٹی کو اندر اس کے بستر پر بٹھا دیا۔ بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے فیٹی سو رہا ہو۔“
” بالکل! کوئی بھی اسے دیکھے گا تو یہی سمجھے گا جیسے فیٹی سوتے میں ہی مر گیا ہو ۔ آرام سے خوشی، خوشی۔“ یہ کہہ کر ہم سب زور سے ہنس پڑے۔
بدستور جمعہ
صبح سویرے ایمی کے ابو نے میرے دروازے پر ایک کیل ٹھونک دی اور مجھ سے مخاطب ہوئے ”دیکھو! میں نے اس دروازے پر یہ کیل لگا دی ہے۔ اب تم اس سے باہر توجا سکتی ہو اور چاہو تو ہمیشہ کے لیے گم بھی ہوسکتی ہو لیکن اگر تم واپس آنا چاہو گی تو اپنے ساتھ کوئی اور چیز لانے کی زحمت اب نہ کرنا کیونکہ یہ دروازہ اب صرف اندر سے کھل سکتا ہے۔ جب تک گھر کا کوئی فرد تمھارے لیے دروازہ نہیں کھولے گا، تم اندر نہیں آسکتی اور خبردار جو میں آئندہ تمھیں کسی مردہ جانور کے ساتھ دروازے پر دیکھوں!“ میں دل مسوس کر رہ گئی۔
ہفتہ
مجھے ہفتے کی صبح بالکل پسند نہیں ، گھر میں ایک ہنگامہ سا مچا ہوتا ہے ۔ سب لوگ مارکیٹ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ ” کیا تم نے میرا پرس دیکھا ہے؟“
”شاپنگ لسٹ کہاں ہے؟“
” کیا کیٹی کا کھانا بھی لانا ہے؟“ (ظاہر ہے لانا ہے اور نہےں تو کیا میں ہوا کھاؤں گی؟)
لیکن آج صبح نسبتاً خاموشی تھی۔ ایمی ایک ٹوٹے ہوئے ٹائل پر فیٹی کی قبر کا کتبہ بنا رہی تھی۔ ”فیٹی خدا تمھیں خوش رکھے۔“
” یہ کتبہ لے کر تم اس وقت تک باہر نہیں نکلو گی جب تک فیٹی کے مرنے کی اطلاع پڑوسی، ہمیں نہ دے دیں۔“ ایمی کے ابو نے اسے خبردار کیا۔ ایمی رونے لگی۔ وہ بہت نرم دل تھی (اور روتو بھی) ”پڑوسن شاپنگ کرنے جارہی ہےں۔“ ایمی کی امی نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو ہم دس منٹ بعد نکلیں گے تاکہ ان سے آمنا سامنا نہ ہو۔“
ایمی کے ابو نے کہا۔ لیکن جب ہم شاپنگ سے فارغ ہوئے اور لوٹنے لگے تو پڑوسی ہمیں راستے میں ٹکرا گئے۔ ”صبح بخیر“ ایمی کی امی نے مجبوراً کہا۔
”صبح بخیر“ پڑوسن نے جواب دیا۔ ”کل کی نسبت آج موسم بہت اچھا ہے۔“
”ہاں ! کل کا دن تو بہت ہی برا تھا۔“ وہ شاید موسم کے بارے میں بات کررہی تھیں مگر ایمی کی آنکھوں میں فوراً آنسو بھر آئے۔ اسے پتہ نہیں کیوں فیٹی سے اتنی محبت تھی جبکہ اس کی پالتو میں تھی، فیٹی نہیں! اب چونکہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا چکی تھیں اور وہ اپنا راستہ ٹھیک سے دیکھ نہیں پا رہی تھی لہٰذا وہ فٹ پاتھ سے ٹکرا گئی اور اس کے شاپنگ بیگ سے میرے کھانے کے ٹن نکل کر سڑک پر لڑھکنے لگے۔ ایمی جلدی جلدی ان کو سمیٹنے لگی، ساتھ ہی اس نے ایک ڈبے کا لیبل پڑھا، ’خرگوش کا گوشت۔“ اور پھر رونا شروع کر دیا۔
واقعی یہ بچی بالکل احمق ہے ۔ اگر یہ بلی ہوتی تو میں اسے کبھی بھی اپنے گینگ میں شامل کرنا پسند نہیں کرتی۔ ”ارے ہاں! خرگوش سے یاد آیا کہ کل ہمارے گھر میں ایک بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔“پڑوسی نے کہا
” واقعی؟“ ایمی کے ابو نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
”اور وہ کیا بھلا؟“ ایمی کی امی نے بھی مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ ” پیر کے دن فیٹی کچھ بیمار لگ رہا تھا۔ اس لیے ہم اسے گھر کے اندر لے آئے۔ منگل کو وہ مزید بیمار ہو گیااور پھر بدھ کو وہ چل بسا۔ وہ بہت بوڑھا ہو گیا تھا اور ایک لمبی خوش گوار زندگی گزار چکا تھا۔ اس لیے ہم کو کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ ہم نے اس کی آخری رسومات ادا کرکے اسے اپنے باغ میں دفنا دیا۔ “(میں اب بادلوں کو گھور رہی تھی) ”اور جمعرات کو وہ اپنی قبر سے غائب ہو گیا“ پڑوسن نے کہا۔
”غائب ہوگیا؟“ ایمی کی امی اور ابو نے ایک ساتھ کہا۔
”ہاں ، وہاں صرف ایک گڑھا اور وہ ڈبہ پڑا ہوا تھا جس میں ہم نے فیٹی کو دفن کیا تھا۔“
”واقعی؟“ ایمی کی امی نے کہا ” خدا کی پناہ!“ ایمی کے ابو نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
”اور پھر کل ایک اور عجیب بات ہوئی۔ فیٹی واپس آگیا۔ وہ بہت صاف ستھرا اور خوبصورت لگ رہا تھا اور اپنے پنجرے میں پڑا تھا۔ ”پڑوسن نے بات مکمل کی۔ ” پنجرے میں ؟آپ نے کہا؟“
”مرنے کے بعد نہایا دھویا؟ کس قدر حیرت کی بات ہے۔“ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ میرے گھر والے بہت اچھے اداکار ہیں۔ ” یہ کیسے ممکن ہے؟“
”نہایت عجیب بات ہے۔“
” یہ تو معمہ ہی ہوگیا۔“ غرض یہ سب باتیں کرتے کرتے ہم سب گھر آگئے۔
گھر پہنچتے ہی ایمی کے امی ابو مجھ پر الٹ پڑے۔ ”چالاک ، دھوکے باز!“
”ہم پر ایسے ظاہر کیا جیسے تم نے اسے خود مارا ہو۔“
”جھوٹی بلی۔“
”مجھے تو پہلے ہی یقین تھا کہ یہ اس موٹے خرگوش کو نہیں مار سکتی۔ وہ اس سے بڑا تھا۔“
آپ لوگوں کو ان کی باتیں سن کر ایسا لگے گا کہ وہ جیسے چاہتے تھے کہ میں اس خرگوش کو مارتی۔ مگر ایمی حسب معمول مہربان تھی۔
”آپ لوگ بے چاری کیٹی کو نہ ڈانٹےں۔ میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ اس غریب نے فیٹی کی قبر بھی نہیں کھودی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حرکت سامنے والے پڑوسیوں کے کتے کی ہے۔ کیٹی نے تو یہ کیا کہ اس بے چارے خرگوش کو اٹھا کر ہمارے پاس لے آئی تاکہ ہم اسے دوبارہ دفنا سکیں۔ کتنی اچھی اور رحمدل ہے میری بلی۔“ اس نے مجھے اپنے ساتھ محبت سے بھینچا۔
” کیوں! میں صحیح کہہ رہی ہوں ناں کیٹی؟“ میں خاموش رہی۔ میں کہہ بھی کیا سکتی ہوں۔ میں صرف ایک بلی ہوں۔ اسی لیے میں خاموشی سے بیٹھ کر دیکھتی رہی کہ ایمی کے ابو میرے دروازے پر ٹھونکی گئی کیل واپس اکھاڑ رہے تھے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top