skip to Main Content

پناکو کے کارنامے

ناول: The Adventure of Pinocchio
مصنف: Carlo Lorenzini
ترجمہ و تہذیب: سعید لخت
۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ…
تم جھٹ بول اٹھو گے کہ’’ ایک بادشاہ تھا۔‘‘
نہیں۔ میرے پیارے بچو! یہ کسی بادشاہ کی کہانی نہیں۔ بلکہ ایک چھوٹے سے، معمولی سے لکڑی کے ٹکڑے کا قصہ ہے جو بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ تمہاری امی چولہے میں جلاتی ہیں۔ لکڑی کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا بہت دنوں سے ایک بڑھئی کی دکان میں پڑا ہوا تھا۔ اس بڑھئی کا نام تھا’ انتونیو‘ مگرآس پاس کے شریر بچے اسے ’چچا ٹماٹر‘ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے کیونکہ اس کی ناک پکے ہوئے ٹماٹر کی طرح سرخ اور چمکیلی تھی۔
توبھئی! ایک دن خداکا کرنا کیا ہوا کہ انتونیو کی نظر لکڑی کے اس ٹکڑے پر پڑگئی۔ وہ خوشی سے ہاتھ مل کر بولا:
’’ آہا!… اسی کی تو مجھے تلاش تھی۔ اس لکڑی سے میز کی ٹانگ بہت اچھی بن سکتی ہے۔‘‘
اس نے بسولا اٹھایا کہ اسے چھیل چھال کر صاف کرے مگر ابھی بسولا لکڑی پر پڑا بھی نہ تھا کہ ایک باریک سی آواز آئی:
’’ذرا آہستہ سے مارنا۔‘‘
بڑھئی کا ہاتھ اٹھا کا اٹھارہ گیا۔ اس نے ہڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھا، میز کے نیچے، اوزاروں کے بکس کے پیچھے ۔دکان کا کوناکونا چھان مارا۔ دروازہ کھول کر باہربھی جھانک لیا مگر وہاں کوئی بھی نہ تھا۔
بڑھئی نے کھسیانا ہو کر چندیا سہلائی اور قہقہہ لگا کر بولا۔ ’’توبہ توبہ! میں بھی کتنا بے وقوف ہوں۔ یہ سب میرا وہم ہے۔‘‘
اس نے پھر بسولا اٹھایا اور زور سے لکڑی پر مارا۔ ایک دم کسی نے زور سے چیخ ماری اوربلبلاکر بولا ۔’’ہائے! تم نے مجھے مارہی ڈالا۔‘‘
یہ سن کر بڑھئی کی سٹی گم ہوگئی۔ آنکھیں باہر نکل آئیں۔زبان لٹک گئی اور وہ پتھر کی بے جان مورتی کی طرح چپ چاپ لکڑی کے اس ٹکڑے کو حیرت سے تکنے لگا۔
جب حواس ذرا ٹھکانے ہوئے تو وہ بڑبڑا کر بولا:
’’یا اللہ! کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ کیا لکڑی کا بے جان ٹکڑا بھی بول سکتا ہے؟ کہیں اس کے اندر کوئی جن تو چھپا ہوا نہیں؟ ‘‘
وہ سر پکڑ کے دھم سے زمین پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت، اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ کون ہے بھائی؟ اندر آجاؤ!‘‘ بڑھئی نے جواب دیا۔
ایک ناٹے سے قد کا بڈھا اندر داخل ہوا۔ اس کا نام ’گپیتو‘ تھا… گپے تو… اسے کریلوں سے بہت نفرت تھی۔ محلے کے بچوں نے کریلا اس کی چڑ بنالی تھی اور جب وہ باہر نکلتا تو اسے ’’ماموں کر یلا۔ ماموں کریلا۔‘‘ کہہ کر دق کیا کرتے۔
’’ آداب عرض ہے۔ بھائی انتو نیو!‘‘گپیتو نے کہا۔’’خیر تو ہے ! یہ اس طرح زمین پر کیوں بیٹھے ہو؟‘‘
’’ چیونٹیوں کو سبق پڑھا رہا ہوں۔‘‘ انتونیو نے کہا۔
’’اچھا دھندا سوچا ہے۔‘‘ گپیتو نے ہنس کر کہا۔ ’’خدابرکت دے!‘‘
’’ تم اپنی کہو، کس طرح آئے؟ ‘‘انتونیو نے جل کرپوچھا۔
’’پیروں سے چل کر۔‘‘ گپیتو مسکرا کر بولا۔’’ خیر! یہ تو تھا مذاق۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک کام میں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’میں حاضر ہوں ۔بے دھڑک کہو ۔‘‘ انتونیو اٹھتے ہوئے بولا۔
گپیتو نے کہا۔ ’’بے کار پھرتے پھرتے آدھی عمربیت گئی۔ سوچتے سوچتے آج ایک بڑی اچھی ترکیب دماغ میں آئی ہے۔ اگر میں کٹھ پتلیاں بنا کر گاؤں گاؤں، قصبے قصبے پھروں اور لوگوں کو ان کا تماشا دکھاؤں تو کافی پیسے کما سکتا ہوں…تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’بڑ اچھا خیال ہے۔ ماموں کریلا!‘‘ ایک ننھی سی آواز آئی۔
کریلے کا نام سنتے ہی گپیتو کا چہرہ چقندر کی طرح سرخ ہو گیا، ڈاڑھی تھر تھر کانپنے لگی اور نتھنے پھڑکنے لگے۔ وہ بڑھئی کی گردن دبوچ کر غصے سے بولا۔ ’’کیوں بے بڑھئی کے بچے! تیری یہ مجال! تو نے مجھے ماموں کر یلا کہا؟‘‘
’’ارے بابا! میں نے کب کہا؟‘‘انتونیو گھبرا کر بولا۔
’’میں بہرا نہیں۔میں نے خود سنا۔‘‘
’’میں نے نہیں کہا ۔‘‘
’’تونے کہا۔‘‘
’’نہیں کہا۔‘‘
’’کہا۔‘‘
پہلے تو تو تو میں میں ہوتی رہی اور پھر مارکٹائی تک نوبت پہنچ گئی۔ گھونسے مار مار کر دونوں نے ایک دوسرے کامنہ سجا دیا۔ آخر جب لڑتے لڑتے تھک گئے تو زمین پر بیٹھ کرہانپنے لگے۔
’’توبہ توبہ !ہم بھی کتنے احمق ہیں!بن بات لڑ پڑے ۔‘‘گپیتو بولا۔’’ ممکن ہے میرے کانوں نے مجھے دھوکا دیا ہو۔‘‘
’’ تو اور کیا‘‘ انتونیو نے کہا۔ ’’بھلا میں ایسی نامعقول بات کہہ سکتا ہوں؟ آؤ ہاتھ ملالیں۔ ‘‘
دونوں نے ہاتھ ملائے اور وعدہ کیا کہ پھر کبھی زندگی بھر نہیں لڑیں گے۔
’’ہاں تو وہ بات کیا تھی؟ بھائی گپیتو!‘‘ انتونیونے پوچھا۔
’’ مجھے تھوڑی سی لکڑی کی ضرورت ہے کٹھ پتلیاں بنانے کے لیے۔‘‘ گیپتو نے کہا۔’’ اگر تم دے سکو تو مہربانی ہوگی۔‘‘
’’ارے میاں! یہ بھی کوئی بڑی بات ہے۔‘‘ انتونیو نے کہا اور جلدی سے وہ لکڑی اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی جس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ اس میں کوئی جن چھپا ہوا ہے۔
’’ایسی عجیب وغریب لکڑی تمہیں دنیا کے تختے پر نہیں ملے گی۔‘‘ انتونیو نے کہا۔ ’’ابھی تو یہی لے جائو کل پرسوں اور ڈھونڈ رکھوں گا۔ ‘‘
گپیتو نے انتونیو کا شکریہ ادا کیا اور لکڑی لے کرگھر آگیا۔
بے چارا گپیتو ایک غریب آدمی تھا۔ چھوٹے سے گھر میں بالکل اکیلا رہتا تھا۔ نہ جورو ، نہ جاتا، اللہ میاں سے ناتا۔ گھر آ کر اس نے چاقو تیز کیا اور اس لکڑی سے کٹھ پتلی بنانے بیٹھا۔
’’یہ لکڑی بہت سخت اور کھردری ہے۔ اس کامیں کٹھ پتلا بناؤں گا۔‘‘ وہ دل ہی دل میں کہنے لگا۔’’ مگر اس کا نام کیا رکھوں! اوں… ہاں… پناکو… بس پناکو ٹھیک رہے گا… یہ بہت برکت والا نام ہے۔ مجھے یاد ہے اس شہر میں ایک بہت مال دار آدمی رہا کرتا تھا۔ اس کا نام بھی پناکو تھا۔‘‘
سب سے پہلے اس نے چاقو سے کٹھ پتلے کے بال بنائے، پھر سر اور اس کے بعد آنکھیں۔ آ نکھیں بننے کی دیر تھی کہ کٹھ پتلے نے انھیں گھما کر چاروں طرف دیکھا اور پھر گپیتو کوگھورنے لگا۔
گپیتو ڈانٹ کر بولا۔ ’’یہ الوئوں کی طرح تو مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھ رہا ہے؟ نظریں نیچی کر۔ بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالا کرتے۔‘‘ کٹھ پتلے نے آنکھیں بند کر لیں اورگیپتو پھراپنے کام میںمشغول ہوگیا۔
اب گیپتو نے اس کی ناک بنانا شروع کی لیکن وہ ابھی پوری بنی بھی نہیں تھی کہ وہ آپ ہی آپ بڑھنے لگی۔ گپیتو نے جلدی سے اسے کاٹ ڈالا مگر جتنی کاٹتا اتنی ہی وہ اور بڑھ جاتی۔ آخر تھک ہار کر اس نے ناک چھوڑ دی اور منہ بنانے لگا۔ ابھی منہ آدھا ہی بنا تھا کہ کٹھ پتلے نے زور کاقہقہہ لگایا اور پھر طرح طرح کے منہ بنانے لگا۔
’’عجیب بد تمیز بچہ ہے!‘‘ گپیتو نے جھلا کر کہا ۔’’اگر اب کوئی بدتمیزی کی تو چپت مار کر منہ توڑ دوں گا۔‘‘
منہ بنانے کے بعد اس نے ٹھوڑی بنائی، پھر گردن، پھر کاندھے، پھر نیچے کا دھڑ اور اس کے بعد بازو اور ہاتھ۔ جونہی کٹھ پتلے کے ہاتھ بنے، اس نے گپیتو کی ٹوپی اتار کر اپنے سر پر رکھ لی اور لگا قہقہے لگانے۔
پنا کو کی اس گستاخی گپیتو کو بہت دکھ ہوا۔اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’بیٹے! اگر مجھے پتا ہوتا کہ تو ایسا نالائق ہوگا تو تجھے ہرگز نہیں بناتا۔خیر، اب جو خدا کی مرضی۔‘‘
اس نے اپنی آنکھیں پونچھیں اور پھر کام شروع کردیا۔
اب صرف ٹانگیں اور پیر رہ گئے تھے۔گپیتو نے وہ بھی منٹوں میں بنا دیے۔ اس کے بعد اس نے کٹھ پتلے کو زمین پر کھڑا کیا اور ہاتھ پکڑ کر اسے چلنا سکھانے لگا۔ پہلے پہل تو پناکو کی ٹانگیں لڑکھڑائیں اور دو تین بار وہ گربھی بڑا لیکن جلد ہی اسے چلنا آ گیا اور وہ سارے کمرے میں دوڑنے لگا۔ اتفاق سے دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک زور کی قلانچ ماری اور دروازے میں سے نکل یہ جا وہ جا۔
’’ پکڑو۔پکڑو۔ لینا۔جانے نہ پائے۔‘‘گپیتوچیختا چلاتا اس کے پیچھے دوڑا۔ راہ گیروں نے کاٹھ کے پتلے کو سڑک پر دوڑتے دیکھا تو وہ ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے اور انھوں نے گپیتو کے رونے دھونے کی طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ سامنے سے ایک پولیس والا آرہا تھا۔ وہ سمجھا کوئی بچھیرارسی تڑا کر بھاگ آیا ہے۔ اس نے دوڑ کر اُسے پکڑ لیا۔
گپیتو بھی ہانپتا کانپتا آپہنچا اور چیخ کر بولا۔’’ شیطان! گھر چل… ایسا مزہ چکھاؤں گا کہ عمر بھر یاد رکھے گا۔ دوڑادوڑا کر ہلکان کر دیا۔ توبہ! توبہ۔ ایسا نا معقول بچہ خدا کسی کونہ دے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے پناکو کا ہاتھ پکڑ ااورگھسیٹا لیکن پناکو مچل گیا اور زمین پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کہنے لگا۔ ’’نہیں نہیں۔میں نہیں جاؤں گا۔ میں گھر نہیں جاؤں گا۔تم مجھے مارو گے۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے بہت سا مجمع اکھٹا ہو گیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک شخص بولا۔’’ ہا! بے چارہ کٹھ پتلا! ظالم نے کس بری طرح اسے مارا ہے۔‘‘
دوسرا بولا۔ ’’میں نے خود دیکھا۔ یہ اس کے لاتیں اور گھو نسے مار رہا تھا۔‘‘
لوگوں نے پناکو کی حمایت میں اورگپیتو کے خلاف ایسے زمین آسمان کے قلا بے ملائے کہ پولیس والے کران کی باتوں کا یقین آگیا ۔ اس نے پنوکو کو تو دیا چھوڑ اور بے چارے گیپتو کو پکڑ کر تھانے لے گیا۔

۔۔۔۔۔

جب پولیس والا گپیتو کو پکڑ کرلے گیا تو پناکو بھاگم بھاگ گھر آیا۔ دروازے کی کنڈی چڑھائی اور کرسی پر بیٹھ کر بولا۔ ’’آہا! اب میں آزاد ہوں۔ جو چاہوں گا، کروں گا۔ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں اور…‘‘
ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ کہیں سے آواز آئی:’’ کریک ۔ کریک۔ کریک۔‘‘
پناکو نے گردن گھما کر دیکھا۔ سامنے دیوار پر ایک جھینگر بیٹھا اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔
’’ تم کون ہو؟‘‘ پناکو نے حیرت سے پوچھا۔
’’میں ایک بولتا جھینگر ہوں۔ سو سال سے اس گھر میں رہ رہا ہوں۔‘‘
’’خیر۔تم سو سال سے رہ رہے ہو یا ہزار سال سے۔‘‘ پنا کونے کہا۔ ’’تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ دم دبا کر چپ چاپ یہاں سے چلے جائو۔ اب یہ گھر میرا ہے۔‘‘
’’ میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تم میری بات نہ سن لو۔‘‘ جھینگر بولا۔
’’ تو پھر جلدی سے کہہ دو…‘‘
’’تم نے اپنے باپ کو مصیبت میں پھنسا کر بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ تمھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘
’’جا جا!… بڑا آیا نصیحت کرنے والا ۔‘‘پنا کو جھڑک کر بولا۔ ’’اسے پکڑواتا نہیں تو کیا اپنی جان کو روگ لگاتا؟ دنیا کے تمام باپ ایک جیسے ہوتے ہیں۔انہیں سوائے نصیحتیں کرنے ، ڈانٹنے ڈپٹنے اور مارنے پیٹنے کے اور کچھ نہیں آتا۔گپیتو بھی میرے ساتھ یہی کچھ کرتا اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ وہ مجھے زبردستی اسکول بھیجتا۔ اسکول! اف کتنا ڈراؤنا نام ہے۔ اس سے تو جیل خانہ اچھا ۔مجھے دنیا کی کسی چیز سے اتنی نفرت نہیں جتنی پڑھنے لکھنے سے ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ دن بھر ادھر ادھر گھومتا پھروں۔ پتنگیں اڑاؤں، کھیل تماشے دیکھوں، درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلے اتاروں…‘‘
’’ لیکن ننھے میاں!‘‘ جھینگر بولا۔ ’’ان باتوں کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ تم ابھی بچے ہو۔ بڑے ہوگئے تو معلوم ہوگا کہ ماں باپ جو کرتے ہیں، اپنے بچوں کی بھلائی ہی کے لیے کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا! اب بکواس بندکرو۔‘‘ پناکو نے غصے سے کہا۔’’اور بھاگو یہاں سے!‘‘
’’ہا!بے چارہ پنا کو۔‘‘ جھینگر نے آہستہ سے کہا ۔مجھے تمہارے اوپررحم آتا ہے۔
’’رحم کیوں آتا ہے؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’ اس لیے کہ ایک توتم بچے ہو۔‘‘ جھینگر بولا۔’’ اوردوسرے عقل کے بالکل کچے۔‘‘
’’ پنا کو جل بھن کر کباب ہوگیا۔ اس نے گپیتو کا ہتھوڑا اٹھایا اور جھینگر کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ بے چارے کے منہ سے چیں تک بھی نہیں نکلی۔
اب رات ہو گئی تھی اور پنا کو کا بھوک کے مارے برا حال تھا۔ صبح سے کچھ کھایا جو نہ تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کسی کونے کھدرے میں کھانے کی کوئی چیز مل جائے لیکن گھر میں تو جھاڑو پھری ہوئی تھی۔ گپیتو غریب کا تو یہ حال تھا کہ روز کنواں کھودنا اور روز پانی پینا۔ وہ اتنا ہی کما پاتا تھا کہ نہ باسی بچے اور نہ کتا کھائے۔
پنا کونے بہت ڈھونڈا، بہت تلاش کیا مگر سوکھی روٹی کا ٹکڑاتک نہ ملا۔ پیٹ میں گڑ بڑ ہو رہی تھی۔ہاتھ پاؤں اینٹھے جارہے تھے، کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی اورحلق میں کانٹے سے چبھ رہے تھے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب پیٹ کھانے کے لیے مانگے۔ اس سے اور کچھ توبن نہ پڑا، دونوں ہاتھوں سے سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہنے لگا۔ ’’ہائے اللہ! یہ میں نے کیا کیا !جھینگر سچ کہتا تھا۔ یہ سب میرے گناہوں کی سزا ہے۔ اگر میرے ابایہاں ہوتے تو وہ مجھے بھوکا نہ مرنے دیتے۔ اب میں مرجاؤں گا۔ بھوکا، پیاسا ۔اے پروردگار! میرا کوئی والی وارث نہیں۔ ارے لوگو!تم ہی میری مدد کرو۔‘‘
بھو کا انسان ذلیل سے ذلیل کام بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ جب کوئی اور سبیل نظر نہ آئی تو پناکو نے ایک بڑی گھٹیا درجے کی ترکیب سوچی ،جسے کوئی خود دار اور شریف انسان گوارا نہیں کر سکتا۔ اس نے سوچا کسی سے بھیک مانگوں۔ شاید کوئی اللہ کا بندہ ترس کھا کر کچھ دے دے۔
وہ جاڑوں کی ایک بڑی ہی بھیانک رات تھی۔ آسمان پرگھنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ بادلوں کی کڑک اور بجلی کی چمک سے دل دہلا جا رہا تھا۔ پنا کونے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ گلی بالکل سنسان تھی۔ آدمی تو آدمی کوئی کتا تک نظر نہ آتا تھا۔ لوگ باگ شام ہی سے لحافوں میں دبک کر سو گئے تھے۔ ایسا خوف ناک سماں دیکھ کر وہ سر سے پیر تک کانپ اٹھا، مگر بھوک نے ہمت بندھائی۔ وہ سکڑا سمٹا باہر نکلا اور پڑوسی کے دروازے کی کنڈی کھڑکھڑائی۔
تھوڑی دیر بعد کسی نے کھڑ کی کھولی اور گردن باہر نکال کر بولا۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’ بابا صبح کا بھوکا ہوں۔‘‘ پنا کو نے گڑ گڑا کر کہا۔ ’’ خدا کے لیے کچھ کھانے کو دو۔‘‘
’’ ذرا ٹھہرو!‘‘ اس آدمی نے کہا اور واپس چلا گیا۔ ایک منٹ کے بعد وہ پھر آیا اور بولا۔’’ کھڑ کی تلے آکر جھولی پھیلائو۔‘‘
پناکو کے پاس جھولی چھوڑ ،ٹوپی تک نہ تھی۔ وہ کھڑکی کے نیچے کھڑا ہوگیا اور بولا۔ ’’بابا! جھولی تو ہے نہیں۔ روٹی پھینک دو۔ میں ہاتھوں میں تھام لوں گا۔‘‘
’’اچھا، تو یہ لو!‘‘ اس آدمی نے کہا اور ٹھنڈے یخ پانی کا بھرا ہوا جگ اس کے سر پر اوندھا دیا۔ ایک تو ویسے ہی سردی کڑاکے کی تھی، اوپر سے برف جیسا پانی پڑا تو پناکو کی قلفی جم گئی۔ اس نے سوچا کہ جب اس بھلے مانس نے ایسا سلوک کیا تو دوسرے بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس لیے خیریت اسی میں ہے کہ ٹھنڈے ٹھنڈے گھر چلے چلو۔ جو قسمت کومنظور ہے وہ ہوکر رہے گا۔ وہ رو تا پیٹتا گھر آیا اور فرش پر لیٹ کر سوگیا۔
صبح کے وقت کسی نے زور سے دروازہ دھڑدھڑایا۔ پنا کو کی آنکھ کھل گئی لیکن بھوک کی وجہ سے کمزوری اتنی بڑھ گئی تھی کہ اٹھا تک نہ گیا۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے کو پوچھا:
’’کون ہے؟ ‘‘
’’میں ہوں بیٹے! دروازہ کھولو۔‘‘ یہ گپیتو کی آواز تھی۔
’’ابا! میرے پیارے ابا! پنا کو خوشی سے چلاتا ہوا اٹھا اور دروازہ کھول کر گپیتو سے لپٹ گیا۔’’ خدا کا شکر ہے تم آگئے۔ ورنہ میں تو بھوک سے مرچلا تھا۔ کل صبح سے ایک کھیل بھی اڑ کر منہ میں نہیں گئی۔ پیارے ابا! تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟‘‘
گپیتو نے جیب سے تین ناشپاتیاں نکالیں اور بولا۔’’ یہ ناشپاتیاں میں نے اپنے ناشتے کے لیے خریدی تھیں۔ پر اب تم کھا لو۔ اگر چہ تم نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اس کی وجہ سے تم میری ہمدردی کے مستحق تو نہیں۔‘‘
’’چھوٹوں کا کام ہے خطا کرنا۔‘‘ پناکو نے ناشپاتی کھاتے ہوئے کہا۔’’ اور بڑوں کا کام ہے معاف کر دینا۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ تمہیں میری وجہ سے تکلیف اٹھانا پڑی ۔ مجھے یقین تھا کہ تھانے والے تمھیں کچھ نہیں کہیں گے اور ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیں گے۔ اب میں نے عہد کیا ہے کہ گھر سے کبھی نہیں بھاگوں گا۔ روز اسکول جایا کروں گا اور خوب جی لگاکر پڑھوں گا۔‘‘
وہ آنا بھوکا تھا کہ منٹوں میں تینوں ناشپاتیاں چٹ کر گیا اور بے چارے گپیتو سے جھوٹوں بھی نہ پوچھا کہ لو!… تھوڑی سی تم بھی کھالو۔ پھر اس نے زور کی ڈکار لی اور پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بولا۔’’ یہ بھوک بھی کم بخت کتنی بری بلا ہوتی ہے ،میری توبہ! اب تو میں زند گی بھر بھی گھر سے قدم باہر نہ رکھوں گا۔‘‘
’’لیکن تم اسکول تو جایا کرو گے نا؟‘‘گپیتو نے پوچھا۔
’’ہاں ہاں !‘‘پنا کو بولا۔’’مگر میرے پاس کپڑے توہیں نہیں؟‘‘
گپیتو سوچ میں پڑ گیا۔ اس غریب کی اتنی بساط کہاں تھی کہ وہ پناکو کو نئے کپڑے خرید کر دیتا۔ اس نے اپنے پھٹے، پرانے کپڑے جمع کیے اور انھیں جوڑ جاڑ کر ایک جوڑا سی دیا۔
’’آہا!‘‘پناکو کپڑے پہن کر بولا۔’’ان کپڑوں میں تو جنٹلمین میں لگتا ہوںمگر اسکول میں پڑھوں گا کیا؟ کتاب تو ہے نہیں۔‘‘
’’ کتاب! کتاب کہاں سے لاؤں بیٹے؟‘‘گپیتو نے کہا۔
’’دکان سے۔‘‘
’’اور پیسے؟‘‘
’’ میں کیا بتاؤں؟‘‘ پنا کو نے بے پروائی سے کہا۔
’’ذرا ٹھہرو۔‘‘ گپیتو سوچتے ہوئے بولا ۔پھراس نے اپنا پھٹا پرانا کوٹ کا ندھے پر ڈالا اور باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک خوب صورت سی کتاب بھی مگر کوٹ غائب تھا۔
’’کوٹ کہاںگیا ابا؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’بیچ ڈالا۔‘‘
’’کیو ں! اتنی توسردی پڑ رہی ہے۔ اب تم پہنو گے کیا؟ ‘‘
’’وہ کوٹ گرم بہت تھابیٹے ۔‘‘گپیتو بولا۔ ’’اسے پہن کر پسینہ آجاتا تھا۔یہ قمیص ہی کافی ہے۔‘‘
پناکو سمجھ گیا کہ گیتو نے کوٹ بیچ کر اس کے لیے کتاب خریدی ہے۔ اس نے محبت سے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بولا۔’’ میرے پیارے ابا! جب میں پڑھ لکھ کر نوکر ہو جاؤں گا تو تمہیں ایک نیا کوٹ خرید دوں گا۔‘‘
دوسرے دن صبح ہی صبح گپیتو نے پناکو کامنہ دھلا، کپڑے پہنائے اور ناشتا کرا کے بولا۔ ’’لو بیٹا! اب اسکول سدھارو۔ مگر دیکھو۔ سیدھے جانا اور سیدھے آنا۔ شاباش!‘‘
پنا کو نے کتاب بغل میں دابی اور اسکول کی طرف چل دیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا ہوگا کہ اس کے کانوں میں بینڈ باجے کی آواز آئی ۔ اس نے سوچا ابھی تو کافی وقت ہے۔ کچھ دیر با جاسن لوں، پھر اسکول چلا جاؤں گا۔ وہ سیدھا اس طرف چلا جدھر سے باجے کی آواز آ رہی تھی۔ تھوڑے فاصلے پر ایک میدان میں تنبو، قناتیں لگی ہوئی تھیں اور ان کے آگے بہت سے لوگ جمع تھے۔ باجا یہیں بج رہا تھا۔
’’ یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ پناکو نے ایک لڑکے سے پوچھا۔
’’تم خود پڑھ لو۔ وہ دیکھو، سامنے بورڈ لگا ہواہے۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
’’ پڑھا ہوا ہوتا تو تم سے کیوں پوچھتا؟‘‘
’’یہ تھیٹرہے۔‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’یہاں کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھایا جاتا ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ پناکوہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔تماشے کا نام سن کر اس کی نیت بدل گئی۔
’’ کتنے کا ٹکٹ ہے؟‘‘
’’ چار آنے کا…‘‘
’’یار! ایک مہربانی کرو۔‘‘ پناکو نے اس کی خوشامد کی۔’’ ایک چونی ادھار دے دو۔ کل دے دوں گا۔‘‘
’’ میں کوئی ساہوکار ہوں۔‘‘ لڑکے نے جھڑک کر کہا۔
’’اچھا، ادھار نہیں دیتے تو میرا یہ کوٹ لے لو۔‘‘
’’ ان پھٹے چیتھڑوں کے چار آنے کون دے گا؟‘‘
پنا کو یہ سن کر مایوس ہوگیا۔ یکا یک اس کی نظر اپنی کتاب پر پڑی اور اس کے چہرے پر امید کی کرن کو ندگئی۔بولا۔’’ دیکھو! یہ کتاب لے لو۔ بالکل نئی ہے۔ ‘‘
’’بچوں کی کتابیں خریدنا بری بات ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
مجمع میں ایک پرانی کتابیں بیچنے والا بھی کھڑا تھا۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا اور بولا۔ ’’لاؤ، مجھے یہ کتاب دے دو۔ یہ لو چونی۔‘‘
پناکو نے کتاب اسے دے دی اور ٹکٹ خرید کر تھیٹرکے اندر چلا گیا۔
ادھرگپیتو بے چارہ سردی سے ٹھٹھر رہا تھا کیونکہ اس نے کوٹ بیچ کر اپنے پیارے بیٹے کے لیے کتاب خریدی تھی اور اس کا پیارا بیٹا کتاب بیچ کرکٹھ پتلیوں کا تماشا دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

جب پنا کو تھیٹر کے اندر داخل ہوا توکھیل شروع ہوگیا تھا۔ اسٹیج پر دوکٹھ پتلیاں آپس میں لڑ رہی تھیں اور تماشائی ہنستے ہنستے لوٹن کبوتر بنے جا رہے تھے۔ یکایک ایک کٹھ پتلی کی نظر پناکو پر پڑی اور وہ چلا کر بولی ۔’’ارے! وہ کون ہے ؟کہیں پنکو تو نہیں؟‘‘
دوسری کٹھ پتلی نے بھی پناکو کی طرف دیکھا اور زور سے بولی۔’’ آہا! یہ تو پناکو ہے…پناکو بھائی!…اوپناکو بھائی!‘‘
ان کی چیخیں سن کر دوسری کٹھ پتلیاں اورکٹھ پتلے بھی پردے کے پیچھے سے نکل آئے اور ’’پناکو۔ پناکو‘‘ کے نعرے لگا کر سارا تھیٹر سرپر اٹھالیا۔ پناکو نے اپنا ایسا پر جوش استقبال ہوتے دیکھا تو مارے خوشی کے آپے سے باہر ہوگیا۔ تماشائیوں کو اُلانگتا، پھلانگتا اسٹیج پر چڑھ گیا اور ایک ایک کٹھ پتلی سے خوب خوب گلے ملا۔
اسٹیج پر ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔سارا کھیل چوپٹ ہو گیا تھا۔ تماشائیوں نے یہ دیکھا تو لگے غل مچانے۔’’ کھیل شروع کرویا ہمارے دام واپس کرو ۔ یہ کیا گڑ بڑ ہے!‘‘
یہ غل غپاڑہ سن کر تھیٹر کا منیجر جلدی سے باہر آیا اور اس نے ایک نئے کٹھ پتلے کو اسٹیج پر دیکھا تو سمجھا کہ یہ ساری گڑ بڑ اسی کی پھیلائی ہوئی ہے۔
تھیٹر کا منیجر بڑا لمبا تڑنگا، موٹا تازا اور بد صورت آدمی تھا۔ اس کی داڑھی اتنی بڑی تھی کہ جب چلتا تو وہ زمین پر گھسٹتی ۔ اُس کی ڈراؤنی شکل دیکھ کر بچے تو بچے، بڑے بھی ڈر جاتے تھے۔ اس نے آتے ہی پنا کو کا کان پکڑ کر اسے اوپر اٹھالیا اور چپت مار کر بولا۔ ’’کیوں بے! کون ہے تو اور یہاں کیوں اودھم مچا رہا ہے؟‘‘
پنا کو مارے درد کے بلبلا اٹھا اور رو کر بولا۔’’قسم لے لیجئے۔ میں نے کوئی گڑبڑ نہیں کی۔ میں تو تماشا دیکھنے…‘‘
’’ اچھا،اچھا! بکواس بند کر۔ کھیل ختم ہونے کے بعد میں تجھے مزا چکھاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پناکو کو دیوار میں لگی ہوئی ایک کھونٹی سے ٹانگ دیا۔
تماشا ختم ہونے کے بعد منیجر باورچی خانے میں گیا اور کھانا پکانے لگا۔ اتفاق سے ایندھن کم تھا۔ اس نے اپنی کٹھ پتلیوں کو حکم دیا۔ ’’جاؤ! باہر برآمدے میں ایک کٹھ پلتاٹنگا ہوا ہے، اسے لے آؤ۔ اس کی لکڑی سے ہنڈیا اچھی پکے گی۔‘‘
کٹھ پتلیاں پہلے تو ہچکچائیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا ایک بھائی چولھے میں جلایا جائے مگر جب انھوں نے اپنے مالک کی لال لال آنکھیں دیکھیں تو بگٹٹ بھاگیں اور پناکو کو پکڑ کرلے آئیں۔
پنا کو مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا اور رو رو کر کہہ رہا تھا ۔’’ہائے ابا! مجھے بچائو! میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘
منیجر صورت کا برا تھا، دل کا اتنا برا نہ تھا۔ اس نے پنا کو کوبلکتے دیکھا تو اسے رحم آگیا۔ اور جب اسے رحم آتا تھا تو زور کی چھینک آتی تھی۔ یہ اس کی ایک خاص نشانی تھی۔ اس دفعہ بھی اسے چھینک آئی۔’’ آخ، چھیں…‘‘ اور چھینکنے کے بعد وہ بولا۔’’ الحمدللہ!‘‘
پنا کو نے جھٹ جواب دیا۔’’یرحمک اللہ(خد تم پررحم کرے)‘‘
منیجر خوش ہوگیا اور نرمی سے بولا۔’’بڑے تمیز داربچے معلوم ہوتے ہو۔ تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟‘‘
’’ جی! ماں تو کوئی نہیں۔ باپ ہے۔‘‘
’’کیا نام ہے ان کا؟‘‘
’’جی، گپیتو…‘‘
’’کیا کرتے ہیں وہ؟‘‘
’’ محنت مزدوری۔‘‘
’’گزر بسر کیسی ہوتی ہے؟‘‘
’’ صبح کو کھاتے ہیں تو شام کی فکر پڑتی ہے۔ انھوں نے اپنا پھٹا پرانا کوٹ بیچ کر میرے لیے کتاب خریدی تھی تاکہ میں اسکول جاؤں۔‘‘
’’اورتم نے وہ کتاب بیچ کرکٹھ پتلیوں کا تماشا دیکھ لیا۔نالائق!‘‘ منیجر کو غصہ آگیا اور اس کی صورت ڈراؤنی ہوگئی۔
’’میری بات تو سنیے۔‘‘ پناکو جلدی سے بولا۔ ’’اب میں نے توبہ کرلی ہے اور عہد کیا ہے کہ کبھی ایسی حرکت نہ کروں گا۔ ہمیشہ اپنے پیارے باپ کا کہا مانوں گا اور نیک لڑکوں کی طرح روز اسکول جایا کروں گا۔‘‘
’’ہا! بے چارہ گپیتو۔‘‘ منیجر سر ہلا کر بولا۔ ’’باپ ایسا شریف اور بٹیا ایسا کمینہ! جی تو چاہتا ہے کہ تیری بوٹیاں نوچ کر چیل کوّوں کو کھلا دوں ،مگر خیر، اس دفعہ معاف کرتا ہوں۔ یہ لے پانچ اشرفیاں۔ سونے کی ہیں۔ گھر جاکر باپ کو دے دینا۔‘‘
پنا کونے اشرفیاں جیب میں ڈالیں، منیجر کا شکریہ ادا کیا اور باہرنکل آیا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ ایک لومڑی اور ایک بلی ملی۔ لومڑی لنگڑی تھی اور بلی اندھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا لیے آہستہ آہستہ چلی جا رہی تھیں۔ پنا کو ان کے پاس سے گزرا تو لومڑی ہوئی:
’’السلام علیکم! میاں پناکو!‘‘
’’ ارے !تمہیں کیسے معلوم کہ میرانام پناکو ہے؟‘‘
’’ میں تمہارے باپ کو خوب اچھی طرح جانتی ہوں۔‘‘لومڑی نے جواب دیا۔
’’ تم نے انھیں کہاں دیکھا تھا؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’ کل وہ اپنے گھر کے دروازے میں بیٹھا سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔‘‘ لومڑی نے کہا۔ ’’پتا نہیں، اس کا کوٹ کہاںگیا؟‘‘
’’ وہ کوٹ؟ …وہ کوٹ۔‘‘ پناکو تھوک نگل کر بولا۔’’ ان کا کوٹ کھو گیا ہے ،لیکن کوئی پروا نہیں۔ میں انھیں نیا کوٹ بنوا دوں گا۔ اب میں ایک امیر آدمی ہوں۔‘‘
’’ امیر آدمی…!‘‘ لومڑی نے کہا اور قہقہہ مار کرہنس پڑی۔
’’ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘ پناکو غصے سے بولا۔ ’’میں جھوٹ تو نہیں کہتا۔ یہ دیکھو، یہ اشرفیاں سونے کی ہیں۔‘‘ اس نے اشرفیاں نکال کر لومڑی کو دکھائیں۔ اشرفیاں دیکھ کر لومڑی اچھل پڑی۔بلی نے بھی مارے حیرت کے دونوں آنکھیں پھاڑ دیں مگر پھر جلدی سے میچ لیں تاکہ پنا کو نہ دیکھے۔ اصل میں یہ دونوں ٹھگ اور دھوکے باز تھیں اور بھولے بھالے لوگوں کو لوٹنے کے لیے انھوں نے یہ سوانگ رچایا تھا۔
’’تم ان اشرفیوں کا کیا کرو گے؟‘‘ لومڑی نے پوچھا ۔
’’سب سے پہلے تو میں اپنے پیارے ابا کے لیے ایک بڑھیاسا کوٹ خریدوں گا اور پھر اپنے لیے ایک کتاب…!‘‘
’’کتاب کا کیا کروگے؟‘‘ لومڑی نے پوچھا۔
’’ اسکول جایا کروں گا ۔‘‘
’’ارے رے رے! اسکول بھول کر بھی نہ جانا۔‘‘ لومڑی کانوں پر ہاتھ دھر کے بولی۔’’ ماسٹر لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ میری ٹانگ ایک ماسٹرہی نے توڑی تھی۔‘‘
’’اور میری آنکھیں پھوڑ دی تھیں۔‘‘ بلی نے کہا۔
’’لیکن پڑھنے لکھنے ہی سے تو آدمی بڑا بنتا ہے۔‘‘پنا کو بولا۔
’’ آدمی صرف دولت سے بڑا بنتا ہے۔‘‘ لومڑی نے کہا۔ ’’اگر تمہارے پاس چار پیسے ہیں تو لوگ تمہاری عزت کریں گے، تمہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ پیسے نہیں تو چاہے تم کتنے ہی پڑھے لکھے ہو، کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔‘‘
’’ بی لومڑی! بالکل سچ کہتی ہیں ۔‘‘بلی نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’اور وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ آدمی دولت مند کس طرح بن سکتا ہے۔ ‘‘
’’کی طرح بن سکتاہے؟ ‘‘پناکو نے جلدی سے پوچھا۔
’’ مجھے رقم کو دوگنا ،چوگنا بلکہ ہزار گنا کرنے کی ترکیب معلوم ہے۔ ‘‘لومڑی نے کہا۔ ’’تمہاری پانچ اشرفی پانچ ہزار اشرفیاں بن سکتی ہیں۔‘‘
’’کیسے …؟‘‘پناکو بولا۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔
’’بڑی آسانی سے۔‘‘ لومڑی نے کہا۔’’ تم گھرجانے کے بجائے ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
پنا کونے کچھ دیر سوچا اور پھربولا۔’’ نہیں۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ میرے ابا میری راہ دیکھ رہے ہوں گے۔ میں سیدھا ان کے پاس جاؤں گا اور یہ اشرفیاں انھیں دے دوں گا۔‘‘
’’تمہاری مرضی۔‘‘ لومڑی بولی۔’’ مگر ایک بات یادرکھو۔ تم گھر آئی لچھمی کو لات مار رہے ہو۔ ایسے موقعے باربار نہیں آیا کرتے۔ یہ تو تمہاری خوش قسمتی تھی کہ تمہیں مل گئے۔‘‘
’’ایک دفعہ پھر سوچ لو ۔‘‘بلی بولی۔ تمہاری پانچ اشرفیاں، پانچ ہزار بن سکتی ہیں۔‘‘
’’ لیکن یہ کس طرح ممکن ہے؟‘‘ پناکو نے کہا۔
’’ میں تمہیں بتاتی ہوں۔‘‘ لومڑی بولی۔ ’’یہاں سے تھوڑی دور ایک جادونگری ہے۔ وہاں جاکر ایک چھوٹا سا گڑھا کھودنا اور اس میں ایک اشرفی د با دینا۔ پھراس پر تھوڑا سا نمک چھڑک کر پانی ڈال دینا۔ صبح کو تم سوکر اٹھوگے تو اس جگہ ایک بڑا سا درخت کھڑا ہو گا ۔جس میں ایک ہزار اشرفیاں لگی ہوں گی۔‘‘
’’اف! میرے اللہ! سچ مچ؟‘‘ پناکوخوشی سے چلا کر بولا۔
’’بی لومڑی کبھی جھوٹ نہیں بولتیں ۔‘‘بلی نے کہا۔
’’اور اگر میں پانچوں اشرفیاں دبادوں تو؟‘‘ پناکوپوچھا۔
’’ تو پانچ درخت اگ آئیں گے اور ہردرخت میں ایک ایک ہزار اشرفیاں لگی ہوں گی۔‘‘
’’ ایسا ہوا تو میں ایک ہزار اشرفیاں تمہیں دے دوں گا۔‘‘ پناکو بولا۔
’’ توبہ! توبہ! ایسی بات پھر کبھی منہ سے نہ نکالنا ۔‘‘لومڑی نے کہا۔ ’’ہم خود غرض نہیں۔ ہم بغیر کسی لالچ کے دوسروں کا کام کرتے ہیں۔‘‘
’’ کتنے اچھے لوگ ہیں یہ!‘‘ پنا کونے دل میں سوچا۔’’ دولت کے لالچ میں نہ اسے اپنا باپ یا د رہا، نہ اس کا کوٹ اور نہ اپنی کتاب۔ اس نے خوشی سے تھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’اچھی بی لومڑی! مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ میں جادو نگری ضرور جاؤں گا۔‘‘
’’ ہمارے پیچھے پیچھے چلے آئو…‘‘لومڑی بولی۔

۔۔۔۔۔

چلتے چلتے رات ہوگئی مگر جادونگری نہیں آئی۔ پنا کو تھک کر چور ہو گیا تھا اور اس کے پیر لڑ کھڑا رہے تھے۔
کچھ دور آگے بڑھے تو ایک سرائے دکھائی دی۔لومڑی بولی۔’’ آؤ، تھوڑی دیر یہاں ٹھہر جائیں۔ کچھ کھا پی لیں، آرام کریں، پھر آگے چلیں گے۔‘‘
سرائے کا مالک لومڑی اور بلی کا واقف تھا۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا اور آہستہ سے بولا:’’ مرغی توموٹی معلوم ہوتی ہے۔ کہاں سے پھانس لائے؟‘‘
لومڑی نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر زور سے بولی۔ ’’بھئی! کچھ کھانے کو ہو تو لاؤ اور تین چارپائیوں پر صاف ستھرے بستر بھی بچھوا دو۔ کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کریں گے۔‘‘
’’ بہت اچھا، سرکار!‘‘ سرائے کے مالک نے کہا۔
’’ اور ہاں!‘‘ لومڑی نے کہا ۔’’ٹھیک بارہ بجے اٹھا دینا۔ ہمیں ایک ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لومڑی اور بلی کئی ہفتوں کی بھوکی ہیں۔ ادھر سرائے کا مالک پلیٹ لاکر رکھتا اور ادھر وہ صاف کر دیتیں۔ خدا خدا کر کے ان کا پیٹ بھرا اور وہ توند پر ہاتھ پھیرتی ہوئی چار پائی پر لیٹ گئیں۔
اس رات پناکو نے ایک بڑا ہی سہانا سپنا دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ جادونگری میں ہے۔ چاروں طرف چھوٹے چھوٹے درخت کھڑے جھوم رہے ہیں اور ان کی ٹہنیوں پر لاکھوں، کروڑوں اشرفیاں لگی ہیں۔ جب ہوا چلتی اور ٹہنیاں ہلتیں تو اشرفیاں کھن کھنا اٹھتیں۔ پناکو مارے خوشی کے دیوانہ ہو گیا اور دونوں ہاتھ پھیلا کر درخت کی طرف بڑھا مگرا بھی اس نے درخت کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ کسی نے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا۔
’’ بارہ بج گئے۔ جاؤ گے نہیں؟‘‘ سرائے کا مالک کہہ رہا تھا۔
”اچھا!‘‘ پناکونے انگڑائی لی اور اس طرف دیکھا جہاں لومڑی اور بلی سونے لیٹی تھیں مگر وہ جگہ خالی تھی۔
’’میرے ساتھی کہاں گئے؟‘‘ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
’’ وہ تو کبھی کے چلے گئے۔ ‘‘سرائے کے مالک نے جواب دیا۔
’’ چلے گئے…؟‘‘ پناکو حیرت سے بولا۔’’ مگر انھیں تو میرے ساتھ جانا تھا۔‘‘
’’بلی کے گھر سے پیغام آیا تھا کہ اس کا بچہ سخت بیمار ہے۔‘‘ سرائے کے مالک نے کہا۔
’’ کھانے کے پیسے دے گئے ہیں؟‘‘ پناکونے پوچھا۔
’’ انھوں نے کہا تھا، ہم پناکو صاحب کے مہمان ہیں۔ کھانے کے پیسے وہی دیں گے۔‘‘
’’ہوں…‘‘ پنا کو سوچتے ہوئے بولا۔’’ انھوں نے مجھے کہاں ملنے کو کہا تھا؟‘‘
’’ جادو نگری میں۔‘‘ سرائے کے مالک نے کہا۔’’ آپ اسی وقت روانہ ہو جائیے۔اور ہاں !کھانے اور ٹھہرنے کا کرایہ ایک اشرفی بنتا ہے۔‘‘
پناکو نے اسے اشرفی دی اور باہرنکل آیا۔ چاروں طرف گھپ اندھیراتھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ ہوا ایسی سائیں سائیں کر رہی تھی کہ دل دہلا جا تا تھا۔ وہ تھوڑی ہی دور گیا ہو گا کہ ایک جھاڑی کی ٹہنی پر ایک ننھا ساکیڑا دکھائی دیا۔ اس کے جسم میں سے ہلکی ہلکی روشنی نکل رہی تھی۔ پنا کو ایک دم ٹھہر گیا اور بولا۔’’ تم کون ہے…؟‘‘
’’ میں اس جھینگر کا بھوت ہوں ،جسے تم نے مارڈالا تھا۔‘‘ کیڑے نے جواب دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دور۔بہت دور۔ کسی دوسری دنیا سے بول رہا ہے۔
’’ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ پنا کونے پوچھا۔
’’ میں تمہیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ اپنے باپ کے گھر واپس چلے جاؤ۔ وہ بہت دکھی ہے اورہر وقت تمہیں یاد کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’کل وہ دنیا کا ایک امیر آدمی ہوگا۔‘‘ پناکو نے کہا۔’’یہ جو میرے پاس چار اشرفیاں ہیں، صبح تک چار ہزار بن جائیں گی۔‘‘
’’ میرے بچے! ‘‘جھینگر کے بھوت نے کہا ۔’’ایسے آدمی کا کبھی یقین نہ کرو جوتمہیں راتوں رات امیربنانے کا وعدہ کرے۔ یہ لوگ دھوکے باز ہوتے ہیں۔ میری مانو۔ واپس چلے جاؤ۔‘‘
’’نہیں۔ میں نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’ یاد رکھو! جو بچے بزرگوں کی نصیحت نہیں مانتے اور من مانی کرتے ہیں، آخر کار وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔‘‘
’’اونھ! وہی پرانی کہانی۔‘‘پناکو نے ناک چڑھاکر کہا۔ ’’مجھے جلدی ہے… خدا حافظ!‘‘
’’ خدا تمہیں ان ٹھگوں سے محفوظ رکھے۔‘‘ جھینگر نے کہا اور غائب ہوگیا۔
پناکو نے جیب میں ہاتھ ڈال کر اشرفیوں کو چھوا اور پھر آگے چل پڑا۔ چند قدم ہی چلا ہوگا کہ ایک آواز آئی۔’’ پناکو! ادھر آؤ …ہم یہاں ہیں۔‘‘
وہ جلدی سے آواز کی سمت بڑھا۔ ایک جھاڑی کے پاس لومڑی اور بلی کھڑی تھیں۔ پناکو نے پوچھا ۔’’تم مجھے چھوڑ کر کیوں چلی آئی تھیں؟‘‘
’’اس میں ایک مصلحت تھی ۔‘‘لومڑی بولی۔’’ سرائے کے مالک کو پتا چل گیا تھا کہ ہم جادونگری جا رہے ہیں۔ وہ سر تھا کہ ہم اسے بھی لے کر چلیں۔ بڑی مشکل سے اسے جل دے کر وہاں سے بھاگے۔‘‘
’’ اس اندھیری رات میں تو میرا دل ہول کھا رہا ہے۔‘‘ پناکو نے کہا۔ ’’جادو نگری کتنی دور ہے؟‘‘
’’بس تھوڑی ہی دور ہے۔‘‘ لومڑی نے کہا ۔’’ آدھے گھنٹے میں ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔ تم وہاں کسی جگہ گڑھا کھود کر اپنی چاروں اشرفیاں دبا دینا۔ چندمنٹ میں ایک درخت اگ آئے گا جس میں چار ہزار اشرفیاں لگی ہوں گی۔‘‘
’’ آؤ، پھر جلدی چلیں۔‘‘ پنا کو نے کہا۔ ’’مجھے گھر بھی جانا ہے۔‘‘
کچھ دور چل کر ایک چھوٹا سا شہر آیا۔ لومڑی اور بلی ایک ویران سے کھیت کے پاس ٹھہرگئیں۔
’’یہ جادونگری ہے۔‘‘ لومڑی نے کہا۔ ’’اس کھیت میں تم اپنی اشرفیاں دبادو۔‘‘
پنا کونے کھیت میں ایک چھوٹا سا گڑھا کھودا اور اس میں اشرفیاں ڈال کر پھر اسے مٹی سے بھر دیا۔
سامنے ایک تالاب ہے۔‘‘ لومڑی نے کہا۔ ’’تھوڑا سا پانی لاکر اس پر چھڑک دو۔‘‘
پنا کو جلدی سے چلو میں پانی لایا اور گڑھے پر چھڑک دیا۔
’’ شاباش!‘‘ لومڑی بولی۔ ’’اب تم شہر میں چلے جاؤ اور ایک ہزار تک گنتی گنو۔ جب ہزار پورے ہو جائیں تو یہاں آجانا۔ اس جگہ ایک چھوٹا سا درخت کھڑا ہوگا جس میں چار ہزار اشرفیاں لگی ہوں گی۔‘‘
پنا کونے ان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ایک ہزار اشرفیاں انھیں بھی دے گا۔
’’نہ نہ، ہمیں تمہارا روپیہ نہیں چاہیے ۔‘‘لومڑی نے کانوں پرہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’خدا کے نیک بندے اپنی خدمت کا صلہ نہیں لیتے۔ ہمیں خدا جنت میں اس کا بدلہ دے گا۔‘‘
پنا کو نے دونوں سے ہاتھ ملائے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا شہر کی طرف چلا گیا۔
شہر میں جاکروہ ایک ٹیلے پربیٹھ گیا اورگنتی گننے لگا۔ جب وہ ہزار پر پہنچا تو جلدی سے اٹھا اور اس کھیت کی طرف دوڑا جس میں اس نے اپنی اشرفیاں گاڑی تھیں۔اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور گال خوشی سے تمتمار ہے تھے۔
’’ کاش، درخت میں چار ہزار کے بجائے پانچ ہزار اشرفیاں لگی ہوں۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔ ’’پھر میں ایک بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا۔ میرا ایک خوب صورت محل ہوگا۔ نوکر چاکر ہوں گے۔ سیر سپاٹے کے لیے بگھی ہو گی۔ جو چاہوں گا، کھائوں گا اور جیسا چاہوں گا پہنوں گا۔‘‘
وہ اسی طرح کے خیالی پلاؤ پکا تاہوا کھیت کے پاس پہنچا اور اشرفیوںسے لدا ہوادرخت تلاش کرنے لگام مگر وہاں کوئی بھی درخت نہ تھا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا، دائیں بائیں، آگے پیچھے ،مگر درخت ہوتا تو دکھائی بھی دیتا۔ وہاں تو کوئی سوکھی ٹہنی تک نہ تھی۔
اچانک اسے کسی کے ہنسنے کی آواز آئی۔ سراٹھا کردیکھا تو سامنے منڈیر پر ایک طوطا بیٹھاچونچ سے پر کرید رہا تھا۔
’’تم کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ پناکونے ڈانٹ کر کہا۔
’’ جب میں کسی بے وقوف کو دیکھتا ہوں تو ہنسی آجاتی ہے۔‘‘ طوطے نے کہا۔ارے احمق! کہیں درختو ںپربھی روپے لگے ہیں آج تک؟ پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا اور مجھے اپنی اس بے وقوفی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اب کہیں جاکر یہ پتا چلا کہ دولت یا تو ہا تھوں سے کمائی جاسکتی ہے یا دماغ سے۔‘‘
’’ میں تمہا را مطلب سمجھا نہیں۔‘‘ پناکونے کہا۔
’’ وہ لومڑی اور بلی دھوکے باز تھیں۔ جب تم اپنی اشرفیاں دباکر چلے گئے تو انھوں نے گڑھا کھود کر انھیں نکال لیا اور بھاگ گئیں۔ اب تم انہیں کبھی نہیں پکڑسکوگے ۔‘‘
پنا کو کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آیا کہ طوطا سچ کہہ رہا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے گڑھا کھودنا شروع کیا اور اس وقت تک کھوتارہا جب تک کہ سخت مٹی نہ آگئی۔ گڑے میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔
رات تو اس نے جوں توں کر کے کاٹی۔صبح ہوئی تو روتا دھوتا شہر گیا اور کچہری میں جاکر جج سے فریاد کی۔ جج کو اس کی بپتاسن کر بہت دکھ ہوا۔ وہ بولا۔’’ تم جیسے بے وقوف کا اس طرح کھلے بندوں پھرنا ٹھیک نہیں۔ہو سکتا ہے کہ پھر کسی دھوکے باز کی چال کا نشانہ بن جاؤ اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی مصیبت میں ڈالو۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے گھنٹی بجائی۔ پولیس کے دو سپاہیوں نے آکر سلوٹ کی۔ جج نے ان سے کہا۔ ’’ہم حکم دیتے ہیں مسمیٰ پناکو ولد گپیتو کو جیل میں بند کر دیا جائے۔‘‘
پناکو بہتیر ا رویا چلایا، پیر پٹخے، چیخا مگر سپاہیوں نے ایک نہ سنی اور اسے کھینچتے ہوئے باہرلے گئے۔

۔۔۔۔۔

پناکو کو قید خانے میں چار مہینے ہی گزرے تھے کہ اس ملک کا بادشاہ ایک ملک فتح کر کے آیا۔ اس خوشی میں ایک بہت بڑا جشن منایا گیا اور بادشاہ نے تمام قیدیوں کو معافی دے دی۔ جو قیدی رہا ہوئے ان میں پناکو بھی تھا۔
قید سے رہائی پاکر پناکو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔اسے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے دوبارہ زندگی پائی ہے۔ چار مہینے جیل کی مصیبتیں جھیل کر اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اب وہ سیدھا گھر جائے گا اور باقی عمر اپنے باپ کی خدمت میں گزار دے گا۔
چلتے چلتے شام ہوگئی مگر سڑک تھی کہ ختم ہونے میں نہیں آتی تھی۔ صبح سے کچھ کھایا بھی نہ تھا۔ بھوک کے مارے آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں۔اس نے سوچا پہلے کچھ کھالوں، پھر آگے چلوں گا۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو دائیں طرف ایک باغ دکھائی دیا۔ وہ جھٹ باغ کی باڑ پھلانگ اندر گھس گیا اور سیبوں سے لدے پھندے ایک درخت کی طرف بڑھا مگر قریب پہنچا ہی تھاکہ ’’کھٹاک‘‘ کی آواز آئی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا پیرکسی شکنجے میں پھنس گیا ہے۔ مارے درد کے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔
وہ حیران پریشان، بیٹھا رو رہا تھا کہ اتنے میں ایک جگنو ادھر سے گزرا۔ پناکو نے اس کی خوشامد کی’’میاں جگنو! میرا پیر پھندے میں پھنس گیا ہے۔ خدا کے لیے مجھے اس مصیبت سے نجات دلاؤ۔ ‘‘
’’لیکن تم اس پھندے میں پھنسے کیسے؟‘‘ جگنو نے پوچھا۔
’’میں اس باغ میں پھل توڑنے آیا تھا۔‘‘
’’یہ پھیل تمہارے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو…‘‘
’’ پھر !تمہیں یہ کس نے سکھایا ہے کہ دوسروں کے باغ اجاڑتے پھرو؟‘‘
’’میں بہت بھوکا ہوں۔‘‘
’’بھوکا ہونا کوئی عذر نہیں۔‘‘
’’ یہ میں جانتا ہوں۔‘‘ پنا کو نے سسکیاں لے کر کہا۔’’آیندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔‘‘
اچانک کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ باغ کا مالی ہاتھ میں لالٹین پکڑے آرہا تھا۔ قریب آ کر اس نے لالٹین اوپر اٹھائی تو مارے حیرت کے اچھل پڑا۔ اس کا خیال تھا کہ پھندے میں کوئی جانور پھنسا ہوگا، مگر وہاںتو ایک لڑکا پھنسا پڑا تھا۔
’’ ہوں…!‘‘ اس نے غصے سے کہا۔’’ تو تم ہووہ چور جو میری مرغی کے چوزے چرا کر لے جاتے تھے!‘‘
’’ نہیں۔ نہیں ‘‘پنا کو نے چلا کر کہا۔ ’’میں تو پھل توڑنے آیا تھا۔‘‘
’’جو شخص پھل چرا سکتا ہے وہ چوزے بھی چرا سکتا ہے۔‘‘مالی نے کہا۔ ’’میرے پیارے بچے! میں تمہیں ایسا سبق دوں کہ عمر بھر یاد رکھو گے۔‘‘
اس نے پھندا کھول کر پنا کو کی ٹانگ نکالی اورپھر اسے گھسیٹتا ہوا اپنے جھونپڑے میں لے گیا۔
’’میراکتا مر گیا ہے۔ آج رات اس کی جگہ تم چوکیداری کروگے۔‘‘ مالی نے کہا۔’’ کل صبح میں سوچوں گا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔‘‘
اس نے کتے کا پٹا اور زنجیر نکالی اور پناکو کے گلے میں ڈال کر اسے دروازے سے باندھ دیا۔
‘‘خبردار! اگر سوئے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا… جونہی کوئی کھٹکا سنو، فوراً مجھے جگا دینا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سو گیا۔
کچھ دیر بعد پناکو کو ’’پھُس پھُس‘‘ کی سی آواز آئی۔ اس نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔ کچھ فاصلے پر چارنیولے کھڑے تھے۔ ایک نیولا آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا اور بولا ۔’’سلام علیکم! میاں موتی!‘‘
’’ میں موتی نہیں ہوں۔‘‘ پنا کو نے کہا۔
’’پھر کون ہو…؟‘‘
’’میرا نام پناکو ہے۔‘‘
’’ اور وہ کتا کہاں ہے جو روزانہ رات کو یہاں پہرا دیتا ہے؟‘‘
’’اس کا آج صبح انتقال ہو گیا۔‘‘
’’چچ چچ! بے چارہ موتی! کتنا اچھا کتا تھا…خیر، صورت سے تم بھی کوئی شریف کتے معلوم ہوتے ہو۔‘‘
’’معاف کیجیے۔میں کتا نہیں ہوں۔‘‘
’’ پھر کون ہو…؟‘‘
’’ ایک کٹھ پتلا، جس نے اپنے باپ کا کہا نہ مانا اور اب اس کی سزا بھگت رہا ہے۔‘‘
’’خیر، تم کوئی ہو، ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ بھی ہمارا ویساہی سمجھوتا ہو جائے جیسا کہ موتی کے ساتھ ہوا تھا۔‘‘
’’کیسا سمجھوتا…؟‘‘ پنا کو نے پوچھا۔
’’ ہم یہاں ہفتے میں ایک دفعہ آئیں گے اور پانچ چوزے لے جایا کریں گے۔ چار چوزے ہمارے اور ایک تمہارا… مگر ایک شرط ہے۔ جب تم ہمیںآتادیکھو تو آنکھیں میچ کر پڑ جانا اور بھونکنا نہیں… کہو ،منظور ہے؟‘‘
’’منظور ہے۔‘‘ پناکو نے کہا اور وہ آنکھیں بند کر کے اس طرح لیٹ گیا جیسے سچ مچ سو رہا ہو۔
نیولے نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ مرغیوں کا ڈر با کھول کر ایک ایک کر کے اندر گھس گئے۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی پناکو نے دروازہ بندکرکے ایک بڑاسا پتھر اس کے آگے رکھ دیا اور زور زور سے بھونکنے لگا ۔بھوں اوں اوں بھوں اوں اوں۔‘‘
اس کی آواز سے مالی کی آنکھ کھل گئی اور وہ ڈنڈالے کر جلدی سے باہر آیا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پناکو سے پوچھا۔
’’ میں نے چور پکڑلیے ہیں۔‘‘ پناکونے کہا۔’’مرغیوں کے ڈربے میں بند ہیں۔‘‘
مالی نے جلدی سے ڈر با کھولا اور چاروں نیولوں کو پکڑ کر بوری میں بند کر دیا۔ پھر اس نے پناکو کی پیٹھ ٹھوکی اور بولا۔’’ تمھیں کیسے پتا چلا کہ یہ بدمعاش ڈربے میں گھسے ہوئے ہیں؟ میرا موتی تو یہ بھید آج تک معلوم نہ کر سکا۔‘‘
پناکو کے دل میں آیا کہ وہ موتی کی سازش کا بھانڈا پھوڑ دے لیکن اس نے سوچا کہ مرے ہوؤں کی برائی کرنا اچھے لوگوں کا شیوہ نہیں۔ موتی نے جو کچھ کیا، اس کا بدلہ اسے خدا دے گا۔ ہمارے گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے کا اب کیا فائدہ!‘‘
اس نے جلدی سے بات بنائی۔’’ میں بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ ایک نیولا میرے پاس آیا اور بولا۔’’ اگر تم خاموش رہنے کا وعدہ کرو تو ایک چوزہ ہم تمہیں بھی دے دیں گے۔ میں نے جھوٹ موٹ وعدہ کر لیامگر جونہی وہ اندرداخل ہوئے، بھونکنا شروع کر دیا۔‘‘
’’شاباش شاباش! ‘‘مالی خوش ہوکر بولا۔’’اب تم آزاد ہو۔ صبح ہوتے ہی جہاں مرضی چاہے چلے جانا۔‘‘
اس نے پناکو کے گلے میں سے پٹا اتار دیا۔
دوسرے دن سورج نکلنے سے پہلے ہی پناکووہاں سے چل کھڑا ہوا۔ اب وہ اس زندگی سے اتنا اکتا گیا تھا کہ ایک ایک لمحہ اس کے لیے بھاری تھا۔چاہتا تھا کہ اس کے پر لگ جائیں اور وہ اڑ کر اپنے باپ کے پاس پہنچ جائے مگر سٹرک اتنی لمبی تھی کہ خدائیوں پہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ چلتے چلتے پیروں میں چھالے پڑ گئے۔ چوٹی کا پسینا ایڑی تک آگیا۔ آخر جب پاؤں میں بالکل ہی جان نہ رہی تو وہ لڑکھڑا کر ایک جگہ گر گیا اور زور زور سے رونے لگا۔
عین اس وقت ،ایک بڑا سا کبوتر اڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔
’’ لڑکے! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ کبوتر نے پوچھا۔
’’ دیکھتے نہیں، رورہا ہوں۔‘‘ پناکو نے رُکھائی سے جواب دیا۔
’’تم پنا کو نامی کٹھ پتلے کو جانتے ہو؟‘‘
’’ پناکو…؟یہ تومیرا نام ہے!‘‘ پناکو نے کہا اور ایک دم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
کبوتر اور قریب آگیا اور بولا۔’’اگرتم پناکو ہو توتم گپیتو کو بھی جانتے ہوگے؟‘‘
’’ جی ہاں! وہ میرے والد صاحب ہیں۔ مگر تم انہیں کیسے جانتے ہو؟ وہ کہاں ہیں؟ مجھے ان کے پاس سے چلو۔ کیا وہ ابھی زندہ ہیں؟‘‘
’’ تین دن ہوئے، میں نے انھیں سمندر کے کنارے دیکھا تھا۔‘‘
’’وہ وہاں کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’ ایک کشتی بنارہے تھے۔ پانچ چھ مہینے سے بے چارہ بوڑھا تمہیں ڈھونڈتا پھررہا ہے۔ اب اس نے سوچا ہے کہ کشتی میں بیٹھ کرسمندر پار جائے اور کسی دوسرے ملک میں تلاش کرے۔‘‘
’’ سمندر یہاں سے کتنی دور ہے؟‘‘
’’ایک ہزار میل…‘‘
’’ہائے! ہائے! اگر میرے پر ہوتے تو فوراً اڑ کر وہاں پہنچ جاتا۔‘‘
’’تم جانا چاہو تو میں تمہیں لے جاسکتا ہوں۔‘‘
’’کس طرح…؟‘‘
’’میری پیٹھ پر بیٹھ جاؤ…‘‘
پنا کو اچھل کر کبوتر کی پیٹھ پر بیٹھ گیا۔
شام تک وہ اڑتے رہے۔ رات ہوئی تو کبوتر ایک سنسان سی جگہ اتر گیا اور بولا۔ ’’رات یہاں گزار کے صبح چلیں گے۔‘‘
پناکو نے کہا۔’’ مجھے تو بھوک لگی ہے اور پیاس بھی۔ کچھ کھانے کو دو۔‘‘
’’ اس اندھیری رات میںتمہارے لیے کھانا کہاں سے لاؤں؟ ‘‘کبوتر نے کہا۔ ’’صبح تک صبر کرو!‘‘
’’مجھ سے تو ایک منٹ بھی صبر نہیں کیا جائے گا ۔‘‘پنا کو بولا۔’’ ادھر ادھر دیکھتا ہوں۔ شاید کچھ مل جائے۔‘‘
اتفاق سے پاس ہی ایک جنگلی بیری کا درخت تھا۔ اس میں لال لال بیر لگے تھے۔ پناکو منٹوں میں ساری بیری صاف کر گیا اور ڈکارلے کر بولا۔’’واہ وا!کتنے میٹھے بیر تھے!‘‘
’’ جنگلی بیریوں کے بیرا تنے کھٹے ہوتے ہیں کہ پرندے بھی نہیں کھاتے۔‘‘ کبوتر نے کہا۔
’’مگر مجھے تو بہت مزے دار لگے۔‘‘ پناکو نے کہا۔
’’جو کے جو تھے۔ بھوک میں بدمزہ سے بدمزہ چیز بھی لذیذ معلوم ہوتی ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے: پیاس نہ دیکھے دھوبی گھاٹ، بھوک نہ دیکھے سوکھے پات۔‘‘
رات انھوں نے وہیں ایک درخت کے سائے میں بسر کی اور صبح ہوتے ہی پھر روانہ ہو گئے۔ شام کے وقت سمندر نظر آیا۔ کبوتر نے پناکو کو نیچے اتار دیا اور بولا۔’’ وہ سامنے ساحل دکھائی دے رہا ہے۔ وہ… جہاں لوگ کھڑے ہیں۔ جلدی سے جاؤ۔ ایسانہ ہو گپیتو کشتی میں بیٹھ کر چلا جائے۔ ‘‘
پناکو دوڑتا ہوا ساحل پر پہنچا۔ یہاں بہت سے لوگ کھڑے سمندر کی طرف اشارے کر رہے تھے۔
’’ کیا ہوا…؟‘‘ پناکو نے ایک بوڑھی عورت سے پوچھا۔
ایک بوڑھا، چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ کرسمندرپار جارہا ہے مگر سمندر میں طوفان آیا ہوا ہے۔ موجیں بلیوں اچھل رہی ہیں اور کشتی ڈوبا چاہتی ہے۔‘‘
’’ کشتی کہاں ہے؟‘‘
’’ وہ… سامنے…!‘‘ عورت نے اشارے سے بتایا۔ پناکو نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ دور سے کشتی ایسی دکھائی دے رہی تھی جیسے چھوٹا سا نقطہ۔ وہ ایک چٹان پر چڑھ گیا اور چیخ کر بولا’’ ابا جان! اباجان…! مت جاؤ… واپس آجاؤ۔ میں آ گیا ہوں… میں آگیا ہوں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے گپیتو نے اس کی آوازسن لی ہے کیونکہ جواب میں وہ بھی ہاتھ ہلا رہا تھا اور کشتی کو ساحل کی طرف لانے کی کوشش کر رہا تھا مگر طوفانی موجوں کے سامنے اس کی ایک نہ چلتی تھی۔ وہ چپو سے کشتی کو ایک گز آگے دھکیلتا تو موجیں اسے دس گز پیچھے لے جاتیں۔ یکا یک ایک بہت زور کی موج بلند ہوئی۔ اس نے کشتی کو تنکے کی طرح اوپر اٹھا لیا اور پھر اسے لے کر نیچے بیٹھ گئی۔
’’ ہا! بے چارہ بڈھا…!‘‘ کنارے پر کھڑے ہوئے لوگوں نے کہا۔’’ اب اسے خدا ہی بچا سکتا ہے۔‘‘
یکا یک انہیں کسی لڑکے کی چیخیں سنائی دیں۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’میرے ابا! میرے ابا…! میں بھی آرہا ہوں۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ کوئی اسے روکے، اس نے سمندر میں چھلانگ لگادی۔

۔۔۔۔۔

پنا کو تمام رات سمندر میں تیرتا رہا۔ اس کو صرف ایک ہی دھن تھی۔ کسی طرح اپنے باپ کی کشتی تک پہنچ جائے۔ اف! کیسی خوف ناک رات تھی!… آسمان پر گھنگھور گھٹائیں جھوم رہی تھیں۔ بجلی کی چمک اور بادل کی گرج سے دل دہلا جاتا تھا۔ طوفانی مو جیں بانسوں اچھل رہی تھیں اور وہ اسے کاغذ کے پرزے کی طرح کبھی اوپر اٹھالیتیں، کبھی نیچے پٹخ دیتیں۔
صبح کے وقت اسے دور کچھ فاصلے پر زمین دکھائی دی۔ سمندر کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ اس نے جزیرے تک پہنچنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر ہیبت ناک موجوں کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔ وہ ایک فٹ آگے بڑھتا تووہ پچاس فٹ پیچھے دھکیل دیتیں ۔ خدا کی قدرت!اچانک پیچھے سے ایک زبردست لہر آئی اور اس نے پناکو کو اٹھا کر جزیرے کے ساحل پر ڈال دیا۔
پناکو کے چوٹ تو بہت آئی مگر صحیح سلامت بچ جانے پر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ یہ کیا جگہ ہے!
آہستہ آہستہ آسمان صاف ہوتا گیا۔ سورج کی روشنی پھیلتی گئی اور سمندر میں طوفان تھم گیا۔ پنا کو نے کنارے پر کھڑے ہو کر سمندر میں نگاہ دوڑائی کہ شایدگپیتو کی کشتی نظر آجائے مگر سوائے پانی کے اور کچھ دکھائی نہ دیا۔
’’اللہ جانے، یہ کون سا جزیرہ ہے!‘‘پنا کونے دل میں سوچا ۔’’کوئی ملے تو اس سے پوچھوں۔‘‘ یکایک ایک بڑی سی مچھلی تیرتی ہوئی کنارے پر آئی۔ پنا کونے اسے پکارا۔’’بی مچھلی…!اوبی مچھلی!…ذرا سنئے تو۔‘‘
مچھلی قریب آئی تو پناکو نے کہا۔ ’’آپ برا نہ مانیں توایک بات پوچھوں؟ ‘‘
’’ایک نہیں ،دو پوچھو۔‘‘ مچھلی نے مسکرا کر کہا۔ وہ ایک ڈالفن مچھلی تھی اور ڈالفن مچھلیاں اپنی شرافت اور رحمدلی کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔
’’ مہربانی فرما کر یہ بتائیے کہ یہاں کوئی ایسی بستی ہے، جہاں کوئی بھو کا پیٹ بھر کر روٹی کھاسکے اور اسے یہ خطرہ نہ ہو کہ کوئی اسے کھالے گا؟‘‘
’’ جی ہاں! کیوں نہیں،‘‘ ڈالفن نے جواب دیا:’’ تھوڑی دور ایک گاؤں ہے۔‘‘
’’کون سی راہ جاتی ہے؟‘‘
’’ بائیں ہاتھ والی پگڈنڈی سیدھی ادھرہی جاتی ہے۔ ناک کی سیدھ میں چلے جاؤ۔‘‘
’’ایک بات اور بتائیے۔ آپ سمندر کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ آپ نے کل یا آج سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی دیکھی ہے؟… اس میں میرے والد صاحب سوارتھے؟‘‘
’’ تمہارا والد کون ہے؟‘‘
’’ وہ دنیا کا سب سے شریف باپ ہے اور میں دنیا کا سب سے کمینہ بیٹا!‘‘ پناکو سر جھکا کر بولا۔
’’کشتی غرق ہوگئی ہوگی۔‘‘
’’اور میرے ابا…؟‘‘
’’ا سے کسی وہیل مچھلی نے نگل لیا ہو گا۔‘‘
’’کیا وہیل بہت بڑی ہوتی ہے؟‘‘ پناکونے کانپ کر کہا۔
’’اتنی بڑی!… اتنی بڑی! جیسے کوئی پانچ منزل کا مکان ۔‘‘ڈالفن نے اسے بتایا۔وہ پوری ریل گاڑی کو انجن سمیت ہڑپ کرسکتی ہے۔‘‘
’’ہائے، میرے اللہ!… اچھا، آپ کا بہت بہت شکریہ!… مجھے بھوک لگی ہے۔ بستی کی طرف جاتا ہوں۔‘‘
وہ مچھلی کی بتائی ہوئی پگڈنڈی پر چل پڑا۔ ذرا سا بھی کھٹکا ہوتا تو ڈر کے مارے بھاگنا شروع کر دیتا۔ اسے دھڑکا لگا تھا کہ کہیں کوئی وہیل سمندرمیں سے نکل کر اسے ہڑپ نہ کر جائے۔
آدھے گھنٹے کی بھاگ دوڑ کے بعد وہ بستی میں پہنچا۔ گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے بالکل بے پروا، اپنی اپنی راہ لگے جارہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہر شخص کسی ضروری کام سے جا رہا ہے۔ پوری بستی میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آیا جو بے کار کھڑا وقت ضائع کر رہا ہو۔
’’یہ جگہ میرے لیے مناسب نہیں ۔‘‘پناکو بولا۔’’ میں تو چھٹی کے دن پیدا ہوا تھا۔ مجھے کام سے کیاکام؟‘‘
اس نے ایک دن اور ایک رات سے کچھ نہ کھایا تھا۔ ایک کھیل تک آ کر منہ میں نہ گئی تھی۔ کھانا حاصل کرنے کے دو ہی طریقے تھے۔ یا تو بھیک مانگی جائے اور یا کام کیا جائے۔ اس نے سوچا بھیک مانگ کر دیکھوں شاید کوئی اللہ کا بندہ ترس کھا کر کچھ دے دے۔ پھر اسے اپنے باپ کی ایک بات یاد آئی۔ گپیتو نے اس سے کہا تھا ۔’’بیٹا! بھیک صرف وہی لوگ مانگتے ہیں جو اپاہج ہوں اور کام کا ج نہ کرسکیں۔ تندرست لوگوں کو کام کر کے روزی کمانا چاہیے۔‘‘
وہ کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے پاس سے ایک آدمی گزرا۔ اس کی پیٹھ پر کوئلے کی دو بوریاں لدی ہوئی تھیں اور ان کے بوجھ تلے وہ دبا جا رہا تھا۔ پناکو نے چہرے سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی شریف آدمی ہے۔ وہ جلدی سے اس کے پاس گیا اور مسمسی صورت بناکر بولا۔ ’’جناب! کل سے کچھ نہیں کھایا۔ ایک آنہ دیں گے؟‘‘
’’ ایک نہیں چار دوں گا۔‘‘ آدمی نے کہا۔ ’’مگر ایک بوری سر پررکھ کر میرے گھر تک لے چلو۔‘‘
’’ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ پنا کو اکڑ کر بولا۔’’میں کوئی مزدور ہوں کہ بوجھ اٹھاتا پھروں؟… میں ایک شریف آدمی ہوں۔‘‘
’’توپھر ایسا کرو۔‘‘ آدمی نے کہا۔ ’’اپنی شرافت کو شہد لگا کر چاٹو۔مگر شہد تھوڑا ہی لگانا ورنہ بد ہضمی ہو جائے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی گزرا۔ اس کے کاند ھے پر چونے کی بوری رکھی ہوئی تھی۔
’’بھائی!‘‘ پنا کو نے اس کی خوشامد کی۔’’ آپ ایک بھو کے، لا چار آدمی کو ایک اکنی دینا پسند کریں گے؟‘‘
’’ ضرور۔‘‘ اس نے جواب دیا۔‘‘ یہ بوری میرے گھر پہنچا دو۔ میں تمہیں ایک چھوڑ چار اکنیاںدوں گا۔‘‘
’’مگر یہ تو بہت بھاری ہے۔‘‘ پنا کونے منہ بناکر کہا:’’ میں تھک جاؤں گا۔‘‘
’’اگرتم تھکنا نہیں چاہتے تو پھر روٹی کے بجائے ہوا کھاؤ۔‘‘ اس نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔
آدھے گھنٹے میں پندرہ بیس آدمی ادھر سے گزرتے، ان سب کرپناکو نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی۔سب نے اسے لعنتیاں دیں اور کہا ۔’’ہٹے کٹے ہوکر بھیک مانگتے شرم نہیں آتی؟ کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
سب سے آخر میں ایک عورت آئی۔ اس کے کولھوں پر دو گھڑے رکھے تھے۔ پنا کو لپک جھپک اس کے پاس گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا۔’’ اماں جی! پیاس لگی ہے۔ تھوڑاسا پانی پلاؤ گی؟‘‘
’’ کیوں نہیں بیٹا! لوپیو…‘‘ اس نے گھڑے کا منہ جھکایا۔
پناکو نے اوک سے پانی پیا اور پھر منہ صاف کر کے بولا۔’’ کاش! اتنا کھانے کو بھی مل جاتا، جتنا پانی پیا ہے۔‘‘
عورت بولی۔’’ اگر تم ایک گھڑاا ٹھاکر میرے گھر تک لے چلو تو میں تمہیں دو روٹیاں دوں گی۔‘‘
پنا کونے سہم کر گھڑے کی طرف دیکھا اور خاموش کھڑارہا۔
’’ روٹیوں کے ساتھ چٹپٹا سالن بھی دوں گی۔‘‘
پناکو نے دوبارہ گھڑے کی طرف دیکھا مگر اس کے منہ سے نہ ’’ہاں‘‘ نکلی اور نہ’’نہ!‘‘
’’ مٹھائی بھی دوں گی۔‘‘ عورت نے لالچ دیا۔
اب پناکو سے ضبط نہ ہوسکا۔ جھٹ بول اٹھا۔’’ اچھی بات ہے۔ لاؤ۔ میرے سر پر رکھ دو۔‘‘
دونوں گھر پہنچے تو عورت نے پناکو کو ایک صاف ستھری چٹائی پر بٹھا دیا جس پر دسترخوان بچھا ہوا تھااور دسترخوان پر طرح طرح کے کھانے چنے ہوئے تھے ۔پنا کو نے بغیر پوچھے گچھے ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا اور اتنا ٹھونس ٹھونس کر کھایا کہ ناک تک پیٹ بھر گیا۔
’’یا اللہ! تیرا شکر ہے۔‘‘ اس نے ڈکارلے کرپیٹ پر ہاتھ پھیرا اور پھر جو سراوپر اٹھایا تو مارے حیرت کے اچھل پڑا…’’ ت ت ت تم… م م م میں…!‘‘
اس کامنہ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں باہرنکلی پڑ رہی تھیں۔
’’کیا بات ہے۔ اتنے حیران کیوںہو؟‘‘ عورت بولی۔
’’ابھی ابھی تو آپ …اچھی بھلی …عورت تھیں… اور ایکا ایکی… ایکا ایکی …اے میرے اللہ!یہ خواب ہے یا حقیقت؟…‘‘
اس کا سر چکراگیا اور وہ غش کھاکر فرش پر گر پڑا۔

۔۔۔۔۔

وہ نیک عورت، اصل میں پری تھی اور سیکڑوی سال سے اس جزیرے میں رہتی تھی۔ گھر سے باہر جاتی تو انسان کا بھیس بدل لیتی اور گھر آتی تو پھر پری بن جاتی۔ اس نے بے ہوش پناکو کو اٹھا کر پلنگ پر لٹایا اور ماتھے پر ہاتھ رکھا تو معلوم ہوا کہ اسے بخار ہے۔ وہ دوڑ کر گلاس میں پانی لائی اور اس میں دوا گھول کر پناکو کو پلانے جھکی۔ گلاس ہونٹوں سے لگنا تھا کہ پنا کونے آنکھیں کھول دیں۔
’’لو…!یہ دوا پی لو۔‘‘ پری نے کہا۔’’ تمہیں بخار ہے۔‘‘
پناکو نے گلاس کو دیکھ کر برا سا منہ بنایا اور بولا۔’’کڑوی ہے کہ میٹھی؟‘‘
کڑوی تو ہے مگر اسے پی کر تمہارا بخار اتر جائے گا۔‘‘
’’ کڑوی ہے تو دُور ہی رکھیے۔‘‘
’’ ضد نہ کرو۔ پی لو۔‘‘
’’مجھے کڑوی چیزیں پسند نہیں۔‘‘
’’ اسے پی لو… پھر میں تھوڑی سی شکر دوں گی۔ اس سے تمہارے منہ کا مزا ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’شکر کہاں ہے؟‘‘
’’ یہ رہی…‘‘ پری نے شکر کا برتن دکھایا۔
’’ پہلے شکر دیجیے، پھر دوا پیوں گا…‘‘
’’وعدہ کرتے ہو؟‘‘
’’وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
پری نے تھوڑی سی شکر دی۔ پنا کو نے کھاکر ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولا۔ ’’اگر شکر دوا ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا!… میں روز کھایا کرتا ۔‘‘
’’اچھا! اب اپنا وعدہ پورا کرو۔‘‘ پری نے کہا۔
پناکو نے گلاس ہاتھ میں لے کر اسے سونگھا اور ابکائی لے کر بولا۔ ’’یہ تو بہت ہی کڑوی ہے۔‘‘
’’ پیے بغیر تمہیں کیسے معلوم ہو گیا؟‘‘
’’ اس کی بو ہی بتا رہی ہے… تھوڑی سی شکر اور دیجیے، پھر پیوں گا۔‘‘
پری نے تھوڑی سی شکر اور دی اور پھر اس کے ہاتھ میں گلاس تھما دیا۔
’’ میں سچ کہہ رہا ہوں، مجھ سے نہیں پی جائے گی۔‘‘ پناکو مچل کر بولا۔
’’آخر کیوں…؟‘‘
’’یہ تکیہ بہت نیچاہے۔‘‘
پری نے ایک دوسرا تکیہ رکھ دیا۔
’’ہائے اللہ!… کہہ تو دیا، نہیںپیوں گا۔‘‘
’’ اب کیا بات ہے؟‘‘
’’دروازہ کھلائے۔‘‘
پری نے دروازہ بھی بند کر دیا۔
’’ نہیں ،نہیں، نہیں!‘‘ پناکو نے چیخ کر کہا۔’’ میں یہ کڑوی کسیلی دوا کبھی نہیں پیوں گا۔‘‘
’’میرے بچے! دوا نہیں پیوگے تو بعد میںافسوس کرو گے۔‘‘
’’ پروا نہیں…‘‘
’’ تم مر جاؤ گے۔‘‘
’’ پروا نہیں… دوا پینے سے مرجانا اچھا۔ ‘‘
’’اچھی بات ہے۔ یہ دیکھو…‘‘ پری نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
اچانک دروازہ کھلا اور چار کالے بھجنگ آدمی ایک چار پائی کاندھوں پر رکھے اندر داخل ہے۔چارپائی پر ایک سفید براق کفن رکھا ہوا تھا۔
’’ تم کون ہو…؟‘‘ پناکو نے خوف سے کپکپا کر کہا۔
’’ ہم موت کے فرشتے ہیں۔ تمہیں لینے آئے ہیں…‘‘
’’ف…ف…ف فرشتے؟‘‘ پناکو آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ ’’مگر میں تو زندہ ہوں۔‘‘
’’ابھی تو زندہ ہو، لیکن اگر تم نے فوراً ہی دوا نہ پی تو مرجاؤ گے۔‘‘
’’او، میری پیاری پری!… او میری چھی پری! … لائو!مجھے دوا دو اور ان موت کے فرشتوں کو باہر نکال دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پری کے ہاتھ سے گلاس لے لیا اور ایک ہی گھونٹ میں ساری دوا پی گیا۔ کالے بھجنگ آدمی پارپائی لے کر چلے گئے۔
دوا کا حلق سے اترنا تھا کہ پنا کو کا بخار جاتا رہا اور وہ بھلا چنگا ہو کر کمرے میں اچھلنے کودنے لگا۔
’’دیکھا!… دوا پیتے ہی اچھے ہوگئے۔‘‘ پری نے مسکرا کر کہا۔
’’سچ مچ ،دواتو جادو تھی، میں مرتے مرتے بچا…‘‘
’’پھر تم پینے میں آنا کانی کیوں کر رہے تھے؟ ‘‘
’’ آپ نہیں جانتیں، سب بچے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ہم لوگ بیماری سے اتنا نہیں ڈرتے، جتنا دوا سے ڈرتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو بہت بری بات ہے۔‘‘ پری نے کہا ۔’’بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیماری کو دور کرنے کے لیے دوا بہت ضروری چیز ہے۔ جو بیمار دوا نہیں پیتے، وہ مرجاتے ہیں۔‘‘
’’آیندہ خیال رکھوں گا… مجھے وہ موت کے فرشتے ہمیشہ یاد رہیں گے۔‘‘ پناکو ہنس کر بولا۔
’’ شاباش!‘‘ پری نے خوش ہو کر کہا۔ ’’اچھا، اب یہ بتاؤ کہ تم کون ہو اور اس جزیرے میں کیسے آگئے؟‘‘
پناکو نے شروع سے آخر تک ساری کہانی سنائی اور بولا۔ ’’افسوس! اب میں اپنے پیارے باپ سے کبھی نہیں مل سکوں گا… انھیں سمندری مچھلیاں کھا گئی ہوں گی۔‘‘
’’نہیں…‘‘ پری نے کہا ’’وہ زندہ ہے اور تم اس سے مل سکتے ہو۔‘‘
’’سچ مچ…!‘‘ پنا کو خوشی سے چلا کر بولا ۔’’وہ کہاں ہیں؟ میں ابھی ان کے پاس جاؤں گا۔‘‘
’’ ایسے نہیں…‘‘ پری نے کہا۔ ’’پہلے تمہیں اچھا لڑکا بننا پڑے گا۔‘‘
’’تو کیا میں اچھا لڑکا نہیں؟‘‘
’’ نہیں۔ اپنے لڑکے اپنے بڑوں کا کہامانتے ہیں۔ ‘‘
’’اور میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔‘‘
’’ اچھے لڑکے دل لگا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں…‘‘
’’اور میں کھیل کود کو پسند کرتا ہوں۔‘‘
’’ اچھے لڑکے ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‘‘
’’ اور میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں… لیکن اب وعدہ کرتا ہوں کہ آج سے کوئی برا کام نہیں کروں گا اور اچھا لڑکا بن کر اپنے باپ کی خدمت کروں گا۔ہا!…بے چارہ گپیتو!… پیارے ابا! تم کہاں ہو…؟‘‘
’’گھبرائو نہیں۔ اگرتم اچھے لڑکے بن گئے توتمہیں گپیتو مل جائے گا۔‘‘
’’ میں آپ کو امی کہا کروں گا۔ کیا آپ میری امی بننا پسند کریں گی؟‘‘
’’ ضرور… مگر شرط یہ ہے کہ تم میرا کہا مانو۔‘‘
’’میں کبھی آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔‘‘
’’اچھا!… کل سے تم اسکول جاؤ گے۔‘‘
اسکول کا نام سن کر پناکو کی ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ اُس کا کھلا ہوا چہرہ ایک دم مُرجھا گیا۔
’’ اور جب تم خوب پڑھ لکھ لوگے تو پیٹ پالنے کے لیے کام کاج کروگے۔‘‘
پناکو کے ہونٹ ہلنے لگے۔
’’ تم کیا بڑبڑا رہے ہو…؟‘‘ پری نے پوچھا۔
’’ میں کہہ رہا تھا کہ… میں اتنا بڑا تو ہو گیا،اب میرا اسکول جانا بھلا لگے گا؟‘‘
’’ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ تم تو ابھی بچے ہو، بوڑھے بوڑھے آدمی پڑھتے ہیں…‘‘
’’اچھا، چلیے، آپ کے کہنے سے اسکول چلا جایا کروں گا، مگرمجھے کام کرنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’ کیوں…؟‘‘
’’کام کرنے سے میں تھک جاتا ہوں۔‘‘
’’میرے بچے!‘‘ پری نے کہا ۔’’روٹی کھانے اور کپڑا پہننے کے لیے ہر شخص کو کوئی نہ کوئی کام ضرور کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب ۔ کاہلی، کام چوری ایک خطرناک بیماری ہے۔ اگر بچپن ہی میں تم اس بیماری میں مبتلا ہو گئے تو عمر بھر اس سے چھٹکا را نہ پاسکو گے۔ پھر یا تو بھیک مانگو گے اور یا جیل کی ہوا کھاؤ گے۔‘‘
پناکو نے جلدی سے اپنا سر اوپر اٹھایا اور بولا۔’’میں پڑھوں گا۔ میں ضرور پڑھوں گا اور ہر وہ کام کروں گا، جس کا آپ حکم دیں گی۔‘‘ ’’شاباش!‘‘ پری نے کہا۔ ’’اگر تم نے میرا کہا مانا تو نہ صرف تمہارا پیارا باپ تمہیں مل جائے گا بلکہ اللہ میاں خوش ہو کر تمہیں سچ مچ کا لڑکا بھی بنا دیں گئے۔‘‘
’’ سچ مچ کا لڑکا!‘‘ پنا کو حیرت سے اچھل کربولا۔’’ آپ کا مطلب ہے کہ میں کٹھ پتلے سے سچ مچ کا انسان بن جاؤں گا؟‘‘
’’بالکل…!‘‘ پری بولی۔
دوسرے دن سے پنا کو اسکول جانے لگا۔ شریر لڑکوں نے کٹھ پتلا سمجھ کر اسے بنانے کی کوشش کی۔ کسی نے اُس کی ٹوپی اتاری، کسی نے کوٹ کھینچا۔ کوئی روشنائی سے اس کے ہونٹوں پر پونچھیں بنانے لگا اور ایک لڑکے نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے پنا کو کے بازوؤں میں ڈور باندھی اور لگا اسے نچانے۔ پنا کو دو ایک دن تک تو ان کی شرارتیں چپ چاپ سنتا رہامگر آخرکب تک! ایک دن اس کے صبر کا پیالہ چھلک پڑا اور اس نے دو تین لڑکوں کی ایسی ٹھکائی کی کہ وہ توبہ توبہ پکار گئے۔ اس کے بعد تمام شریر لڑکے اس سے ڈرنے لگے اور پھر کبھی کسی نے اسے چھیڑنے کی جرأت نہیں کی۔
پنا کو اسکول بھر میں سب سے محنتی اور نیک لڑکا تھا۔ استاد اس سے بہت خوش تھے۔ وہ صبح کو سب سے پہلے آتا اور سہ پہر کو سب سے آخر میں جاتا۔ اس میں ساری باتیں اچھی تھیں، سوائے ایک بات کے۔ اس کے دوست بہت تھے۔ ان میں ایسے لڑکے بھی تھے، جنھیں پڑھنے لکھنے سے نفرت تھی اور جب بھی انھیں موقع ملتا، اسکول سے بھاگ جاتے۔ استاد نے پنا کو کر کئی بار سمجھایا کہ برے لڑکوں کی صحبت میں نہ رہا کرو، وہ تمہیں بھی خراب کر دیں گے۔ پری نے بھی اسے نصیحت کی:
پناکو بیٹے! دوستوں کے معاملے میں تمہیں احتیاط کرنی چاہیے۔ صرف ایسے لڑکوں کو دوست بناؤ، جو نیک اور پڑھنے لکھنے کے شوقین ہوں۔ہر شخص کو بے سوچے سمجھے دوست بنا لینا ٹھیک نہیں۔ برے لڑکے تمہارا دل بھی تعلیم سے اچاٹ کر دیں گے اور کیا خبر ہے، ان کی وجہ سے تم کسی مصیبت میں پھنس جاؤ۔‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں امی!‘‘ پناکو نے کندھے جھٹک کر کہا اور اپنے سر کو انگلی سے اس طرح تھپ تھپایا، جیسے کہہ رہا ہو۔’’ اس میں کافی عقل ہے۔‘‘
ایک دن کا ذکر ہے، پناکو اسکول جا رہا تھا کہ راستے میں چھ سات آوارہ دوست مل گئے۔
’’آئو یار پناکو!…خوب ملے!‘‘ ایک نے کہا ۔’’تم نے وہ خبر سنی؟‘‘
’’ کون سی…؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’ سمندر کے کنارے ایک وہیل مچھلی آئی ہوئی ہے۔‘‘ دوسرے نے بتایا۔
’’ مچھلی کیا ہے، پہاڑ ہے پہاڑ!‘‘ تیسرے نے کہا۔’’ آؤ…! چل کر دیکھیں!‘‘
’’ مجھے تو معافی دو… میں اسکول جا رہا ہوں؟‘‘
’’ اسکول کہیں بھاگا جا رہا ہے؟‘‘ چوتھا بولا:’’ کل چلے جانا… ایک آدھ سبق نہیں پڑھو گے تو کون سی قیامت آجائے گی۔‘‘
’’لیکن استاد کیا کہیں گے؟‘‘
’’ بھونکنے دو انھیں۔ انھیں تو تنخواہ ہی اس بات کی ملتی ہے۔‘‘
’’ اور میری امی؟‘‘
’’انہیں کیا پتا چلے گا۔ وہ سمجھیں گی، تم اسکول میں ہو۔‘‘
’’لیکن ہم اسکول کے بعد بھی تو جا سکتے ہیں؟‘‘
’’لو، اور لو! تمہارا خیال ہے کہ وہیل ہمارے انتظار میں سارا دن بیٹھی رہے گی؟ کیا خبر، ہمارے جاتے جاتے ہی کہیں اور چلی جائے۔ یہ موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا، استاد…! آئو چلیں۔‘‘
’’ وہاں تک پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی؟‘‘ پنا کو نے پوچھا۔
’’ جانے اور آنے میں مشکل سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگے گا۔‘‘
’’ تم نہیں مانتے تو چلو ۔‘‘پنا کو نے کہا اور وہ ان کے ساتھ سمندر کی طرف چل پڑا۔
پناکو کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور وہ اس طرح دوڑ رہا تھا جیسے پر لگ گئے ہوں۔ جب سے کبوتر نے اسے اس عجیب وغریب مچھلی کے متعلق بتایا تھا، اُسے اس کے دیکھنے کا بہت شوق تھا، لیکن اس بے چارے کو یہ پتا نہیں تھا کہ اس کا یہ شوق اسے ایک مصیبت کے منہ میں لیے جارہا ہے۔

۔۔۔۔۔

سمندر کے کنارے پہنچ کر پناکو نے چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا مگر وھیل مچھلی کہیں بھی دکھائی نہ دہ…
’’کہاں ہے وہ وہیل مچھلی؟ ‘‘اس نے لڑکوں سے پوچھا۔
’’ شاید ناشتا کرنے گئی ہے۔‘‘ ایک لڑکے نے ہنسی روک کر کہا۔
’’یا شاید قیلولہ کر رہی ہو ۔‘‘دوسرا قہقہہ لگا کر بولا۔
پناکو سمجھ گیا کہ ان شیطانوں نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔ وہ غصے سے بولا ۔’’یہ کیا مذاق ہے؟ تم مجھے دھوکا دے کر یہاں کیوں لے آئے؟‘‘
’’ ہم چاہتے تھے کہ آج تم اسکول نہ جاؤ۔ روزانہ بلا ناغہ اسکول جاتے ہو۔ ایک دن بھی غیر حاضر نہیں ہوتے۔‘‘
’’ میرے اسکول جانے ،نہ جانے سے تمہیں کیا؟ ‘‘
’’ بہت کچھ ہے… تم روز اسکول جاتے ہو اور ہم ہفتے میں دوتین چھٹیاں کرتے ہیں۔ استاد تمہاری مثال دے کر ہمیں شرم دلاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا!… تم چاہتے کیا ہو؟‘‘
’’ہمارے تین دشمن ہیں، اسکول، پڑھائی اور استاد۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان دشمنوں کے خلاف تم بھی ہمارا ساتھ دو۔‘‘
’’چھی …چھی۔‘‘ پناکو نے نفرت سے کہا۔
’’د یکھو پناکو تمہیں ہماری بات ماننا پڑے گی… ورنہ…‘‘ ایک لڑکے نے مٹھی بھینچ کر اس کی ناک کے سامنے لہرائی۔’’ یادرکھو… ہم سات ہیں اورتم ایک …!‘‘
’’سات مردے کہو…‘‘ پناکو نے منہ چڑا کر کہا۔
’’سنتے ہو؟… یہ ہماری بے عزتی کررہا ہے۔‘‘ ایک لڑکے نے چیخ کر کہا۔
یہ سن کر سب سے بڑا لڑکا آگے بڑھا اور اس نے پنا کو کے سر پرمکا مارا۔ پناکو کو بھی غصہ آگیا۔ اس نے اس لڑکے کے اتنی زور کا گھونسا رسید کیا کہ وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ یہ دیکھ کر تمام لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے اور با قاعدہ جنگ چھڑ گئی۔
پناکوسات کے مقابلے میں اکیلا تھا مگر اس نے ایسی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ گھبرا گئے اور ایسی چیز ڈھونڈنے لگے جسے پھینک کر مار سکیں۔ چونکہ ریت کے سوا وہاں اور کوئی چیز نہ تھی، اس لیے انھوں نے اپنی کتابیں پناکو کی طرف پھینکنا شروع کر دیں۔ پناکو ادھر ادھر ہٹ کر ان کا وار بچاتا رہا اور کتا بیں ایک ایک کر کے سمندر میں گرتی رہیں۔
جب ان کی تمام کتابیں سمندر کی نذر ہوگئیں تواب انھیں کسی دوسری چیز کی تلاش ہوئی۔ کچھ فاصلے پر پناکو کی کتابیں پڑی تھیں۔ ان میں حساب کی ایک موٹی سی کتاب بھی تھی۔ ایک لڑکے نے جلدی سے وہ کتاب اٹھائی اور پوری طاقت سے پنا کو کے کھینچ ماری، مگر وہ پنا کو کے لگنے کے بجائے ایک دوسرے لڑکے کے سر پر جا لگی اور وہ بے ہوش ہو کر دھم سے زمین پر گر پڑا۔
لڑکے کو گرتا دیکھ کر اس کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ پناکو لاکھ برا سہی، پھر بھی اس کے سینے میں رحم بھرا دل تھا۔ اس نے سوچا اگر میں بھی اسے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا تو یہ مرجائے گا۔ اس نے اپنا رومال پانی میں بھگویا اور لڑکے کے ماتھے پر پھیرنے لگا۔ ساتھ ہی زور زور سے چلانے بھی لگا۔’’ دوڑو… دوڑو… بچاؤ…بچاؤ!‘‘
اچانک اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔مڑ کر دیکھا تو پولیس کے دو سپاہی کھڑے تھے۔
’’یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’ یہ…لڑکا… بے ہوش ہو گیا ہے۔‘‘
’’زخمی ہے…؟‘‘
’’جی ہاں…!‘‘
ایک سپاہی نے جھک کر لڑکے کو دیکھا ۔’’ارے! اس کے سر پر تو چوٹ لگی ہے۔ کس نے مارا اس کو؟‘‘
’’میں… میں نے نہیں مارا جناب؟‘‘ پنا کونے خوف سے کانپ کر کہا۔
’’تم نے نہیں مارا تو کس نے مارا ؟‘‘
پنا کو کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ وہ گھبرایا ہوا تھا۔
’’ اس کے سر پر چوٹ کیسے لگی……؟‘‘ سپاہیوں نے پوچھا۔
’’اس کتاب سے…‘‘ پناکو نے انھیں کتاب دکھائی۔
’’یہ کس کی کتاب ہے؟‘‘
’’میری…‘‘
’’ بس تومعاملہ صاف ہے۔ تم ہی نے اسے ماراہے۔ اٹھو! ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
’’لیکن …میں …میں…‘‘
’’اٹھو…ٹھو‘‘ سپاہیوں نے ڈانٹ کر کہا۔
اتنے میں ادھر سے چند ماہی گیر گزرے۔ سپاہیوں نے انھیں روک لیا اور بولے ۔’’یہ بچہ بے ہوش ہے۔ اس کے سر پر چوٹ لگی ہے۔ گھرلے جا کر اس کی دیکھ بھال کرو۔ہم کل آکرلے جائیں گے۔‘‘
اب وہ پناکو کی طرف مڑے اور ڈپٹ کر بولے۔’’ فارورڈ مارچ!‘‘
پناکو کا رواں رواں کانپ رہا تھا اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ گرتا پڑتا سپاہیوں کے ساتھ چلا جارہا تھا۔ اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہاہے اور جلد ہی آنکھ کھل جائے گی مگر اس کی آنکھ نہ کھلی اوربستی آگئی۔
اب اسے ایک نیا خیال پر یشان کرنے لگا۔ اس نے سوچا۔’’ اگر سپاہی پری کے گھر کے پاس سے گزرے اور اس نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا تو وہ کیا خیال کرے گی ۔کاش! زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ اس ذلت سے تو موت اچھی۔‘‘
بستی آگئی تھی اور وہ اس میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور پنا کو کی ٹوپی اڑکر دور جا پڑی۔ پناکو رک گیا اور سپاہیوں سے بولا۔’’اگر آپ اجازت دیں تو ٹوپی اٹھا لاؤں۔‘‘
’’جائو… جلدی سے لے کر آؤ۔‘‘ انھوں نے کہا۔
پناکو نے دوڑ کرٹوپی اٹھالی لیکن بجائے اس کے کہ وہ سپاہیوں کی طرف آتا، پوری طاقت سے سمندر کی طرف دوڑنے لگا۔ سپاہیوں نے دیکھا کہ وہ دوڑ کر اسے نہیں پکڑ سکتے تو انھوں نے اس کے پیچھے ایک خونخوار کتا ڈال دیا۔یہ کتا اس سال کتوں کی دوڑ میں پہلا انعام جیت چکا تھا مگر پنا کو بھی کچھ کم نہ تھا۔ اس کی لکڑی کی ٹانگیں اسے اڑائے لیے جارہی تھیں۔ بستی کے لوگ بڑی دلچسپی سے یہ دوڑ دیکھ رہے تھے۔ ان کے لیے تو یہ ایک انوکھا تماشا تھا۔ اس سے پہلے انھوں نے کتے اور انسان کی دوڑ کبھی نہیں دیکھی تھی۔
اس دوڑ کے دوران میں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کتا پنا کو کے بالکل قریب پہنچ گیا اور پناکو کو اس کی گرم گرم سانس اپنی گردن پر محسوس ہوئی۔ وہ سمجھا کہ کھیل ختم ہوگیا اور اب کتا اسے بھنبھوڑ ڈالے گا مگر خوش قسمتی سے سمندر کا کنارا قریب آگیا تھا اور اس سے پہلے کہ کتا اسے پکڑے، اس نے پانی میں چھلانگ لگادی۔ کتا اس سے دوقدم پیچھے تھا اور اتنی تیز دوڑ رہا تھا کہ کنارے پرپہنچ کر اپنے آپ کو روک نہ سکا اور غڑاپ سے سمندر میں گرپڑا۔
کتے کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ وہ غوطے کھانے لگا۔ ایک دفعہ غوطہ لگا کر اوپر ابھرا تو گھبرا کر بولا۔’’بچاؤ بچاؤ۔ میں ڈوب رہا ہوں۔‘‘
پنا کو تیرتا ہوا دور چلا گیاتھا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور بولا۔ ’’جہنم میں جاؤ، تمہارا علاج یہی ہے۔ ‘‘
’’بچاؤ۔ پیارے پنا کو!… خدا کے لیے مجھے بچاؤ ۔‘‘کتے نے بڑی عاجزی سے کہا۔
اس کی منت سماجت سے پناکو کا دل موم ہو گیا۔ وہ تیرتا ہوا اس کے پاس آیا اور بولا۔’’ پہلے وعدہ کرو کہ میراپیچھانہ کروگے۔
’’ وعدہ کرتا ہوں۔ خدا کے لیے بچاؤ ۔‘‘کتے نے کہا۔
پنا کونے سوچا ،دشمن کی بات کا اعتبار کرنا عقل مندی نہیں۔ ممکن ہے یہ اپنے وعدے سے مکر جائے لیکن پھر اسے اپنے باپ کی ایک نصیحت یاد آگئی۔گپیتو نے ایک دن اس سے کہا تھا۔ ’’بیٹا !نیکی کبھی برباد نہیں جاتی…‘‘ وہ پھرتی سے کتے کی طرف بڑھا اور اسے سہارا دے کر کنارے تک پہنچا دیا۔
’’خدا حافظ !‘‘اس نے ہاتھ ہلا کر کہا۔ ’’میں جا رہا ہوں۔ امید ہے تم کچھ دیر بعد ٹھیک ہو جاؤ گے۔‘‘
’’خدا حافظ! بھائی پناکو…!‘‘ کتے نے آہستہ سے کہا۔’’ میں تمھارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا اور موقع پڑا تو اس کا بدلہ بھی چکا دوں گا۔‘‘
پنا کو کنارے کے ساتھ ساتھ تیرنے لگا۔ جب وہ کافی دور نکل گیا تو اسے کنارے پر ایک غار میں سے دھواں نکلتا دکھائی دیا۔ اس نے سوچا ۔’’بس یہ جگہ ٹھیک ہے۔ یہاں سپاہی نہیں آئیں گے۔ کچھ دیر اس غار میں آگ کے پاس بیٹھ کر کپڑے سکھاؤں گا اور پھر …جو قسمت کومنظور ہوا۔‘‘
وہ جلدی جلدی کنارے کی طرف بڑھا لیکن ابھی خشکی تک نہ پہنچا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی چیز اسے اوپر اٹھارہی ہے۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر بھاگتا تو کیسے؟ وہ چیز تو اسے چاروں طرف سے جکڑ رہی تھی۔ وہ کسی مچھیرے کے جال میں پھنس گیا تھا اور اس کے اردگرد بے شمار مچھلیاں تڑپ رہی تھیں۔
یکایک غار میں سے ایک مچھیرا نکلا۔ اس کی صورت ایسی ڈراؤنی تھی کہ پنا کو کا آدھا خون خشک ہو گیا۔ مچھیرے نے باہر آکر سمندر میں سے جال نکالا اور خوش ہوکر بولا:
’’ اوہو! بہت دنوں کے بعد جال بھرا ہوا نکلا ہے… اب تومیں خوب پیٹ بھرکر مچھلیاں کھاؤں گا۔‘‘
’’ اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ میں مچھلی نہیں۔‘‘پناکونے اطمینان کا سانس لیا۔
ماہی گیر جال گھسیٹ کر غار میں لے گیا۔ غار کے بیچوں بیچے چولہے پر ایک بڑی سی کڑاہی رکھی تھی جس میں تیل کڑکڑا رہا تھا۔ اس نے جال میں ہاتھ ڈال کرمٹھی بھر مچھلیاں نکالیں، انھیں سونگھا اور بولا۔ ’’آہا! بڑی مزے دار معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر انھیں پاس رکھے ہوئے ایک ٹب میں پھینک دیا۔ اسی طرح وہ مٹھی بھر بھر کے جال میں سے مچھلیاں نکالتا رہا اور ٹب میں پھینکتا گیا۔ اب جال میں صرف پناکو رہ گیا۔ مچھیرا اسے دیکھ کر حیرت سے اچھل پڑا اور چیخ کر بولا۔’’ آئیں! یہ کیسی مچھلی ہے؟ میں نے زندگی بھر ایسی مچھلی نہیں دیکھی۔‘‘
اس نے پناکو کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر سوچتے ہوئے بولا۔ ’’اب سمجھا۔ یہ شاید دریائی گھوڑا ہے۔‘‘
پناکو کو بہت غصہ آیا۔ وہ تیزی سے بولا۔’’ گھوڑے ہو گے تم ۔میں تو کٹھ پتلا ہوں۔‘‘
’’کٹھ پتلا…؟‘‘یہ مچھلی کوئی نئی قسم کی ہے؟ خیر،تو کٹھ پتلا ہو یا دریائی گھوڑا، سب سے پہلے میں تجھے ہی کھاؤں گا۔‘‘
’’مجھے کھاؤگے؟ ‘‘پناکو گھبرا کر بولا۔ ’’او خدائی خوار! خدا کو مان۔ میں مچھلی نہیں ہوں۔ دیکھتا نہیں، میں تیری طرح باتیں کر رہا ہوں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ مچھیرا اطمینان سے بولا۔ ’’سنا ہے سمندر میں باتیں کرنے والی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں اور ایسی مچھلیاں بہت مزے دار ہوتی ہیں۔‘‘
پنا کو بہت رویا پیٹا، چیخا چلایا، منتیں کیں، ایڑیاں رگڑیں مگر مچھیرے نے ایک نہ سنی۔ اس نے پناکو کے کپڑے اتارے ،جسم پر مسالا لگایااور پھر گردن پکڑ کر کڑاہی کی طرف بڑھا…

۔۔۔۔۔

مچھیرا، پناکو کو کڑاہی میں ڈالنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک کتا دوڑتا ہوا اندر آیا اور للچائی ہوئی نظروں سے مچھلیوں کی طرف دیکھنے لگا۔مچھیرے نے ڈانٹ کر کہا۔’’ بھاگ جا!… بھاگ یہاں سے!‘‘
کتابہت بھوکا تھا۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔’’ پہلے کچھ کھانے کو دو… پھر جاؤں گا۔‘‘
’’میں کہتا ہوں ،دفع ہو یہاں سے ۔‘‘مچھیرے نے چیخ کر کہا۔
کتے نے سنی ان سنی ایک کر دی۔ اس نے دانت نکال لیے اور غرانے لگا۔ پناکو کی گردن مچھیرے کی مٹھی میں تھی اور منہ کڑاہی کی طرف۔ اس نے زور لگا کر گردن پھیری اور کتے کو دیکھا تو جھٹ پہچان گیا۔ یہ وہی کیا تھا، جسے اس نے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ اس نے زور سے کہا۔
’’ بچاؤ! بچاؤ! مجھے اس ظالم سے بچاؤ۔‘‘
کتے نے آواز سن کر پناکو کی طرف دیکھا اور وہ بھی اسے پہچان گیا۔ اس نے ایک دم قلانچ ماری اور پناکو کو منہ میں دبا کر یہ جا، وہ جا۔ مچھیرا بہت موٹا تھا۔
اس نے کچھ دور تو پیچھا کیا۔ پھر کوستا پیٹتا واپس آ گیا۔
کچھ دور جاکر کتا ٹھہر گیا اور اس نے پناکو کوآہستہ سے زمین پر ڈال دیا۔
’’کس زبان سے تمہارا شکریہ ادا کروں! پناکو نے کہا۔
’’ شکریے کی ضرورت نہیں بھائی پناکو!‘‘ کتے نے جواب دیا۔’’ پہلے تم نے میری جان بچائی تھی۔ میں نے اسی احسان کا بدلہ چکایا ہے، لیکن ذرا سوچو تو۔ اگر مجھے ایک منٹ کی بھی دیر ہو جاتی تو… تو…!‘‘
’’ نہ کہو… خدا کے لیے آگے نہ کہو۔‘‘ پناکونے خوف سے آنکھیں موند لیں۔ ’’اس خیال ہی سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
کتا ہنس پڑا۔ اس نے اپنا پنجہ آگے بڑھایا۔ پناکو نے اسے ہاتھ میں لے کر دبایا اور پھر دونوں جدا ہو گئے۔
پنا کو بستی کی طرف جارہا تھا۔ راستے میں وہ جگہ آئی جہاں اس کی لڑکوں سے لڑائی ہوئی تھی۔ پاس ہی ایک مچھیرا بیٹھا جال ٹھیک کر رہا تھا۔ پناکو نے اسے سلام کیا اور بولا۔ ’’کیوں بھائی! آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا ہوا جس کے سر پر چوٹ لگ گئی تھی؟‘‘
’’ا سے ایک ماہی گیر اپنے گھرے لے گیا تھا اور…‘‘
’’ وہ مرگیا…؟‘‘ پناکو نے کانپ کر کہا۔
’’مراکہاں… اچھا ہو گیا اور اپنے گھر چلا گیا۔‘‘
’’ سچ مچ…؟‘‘ پناکو خوش ہوکر بولا۔’’ اس کے زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی؟‘‘
’’ نہیں۔ لیکن اگر کتاب ذرا اور زور سے لگ جاتی تو وہ مرجاتا۔ ‘‘
’’کس نے مارا تھا اسے؟ ‘‘پناکونے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’اس کے ایک ہم جماعت نے ،جس کا نام پناکو ہے۔‘‘مچھیرے نے کہا۔
’’وہ کون ہے؟‘‘ پنا کو نے پوچھا۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایک آوارہ اور نکھٹو لڑکا ہے لیکن تم اتناکرید کرید کر کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’ بات یہ ہے کہ وہ لڑکا جس کے چوٹ لگی تھی، میرے محلے میں رہتا ہے۔‘‘
’’ ہوں…!‘‘ مچھیرے نے اسے غور سے دیکھا اور بولا۔ ’’یہ تمہارے جسم پر کیا لگا ہے؟ ‘‘
’’میں… میں ایک گڑھے میں گر گیا تھا…‘‘
’’ اور تمہارے کپڑے کہاں گئے ؟ تم تو بالکل ننگے ہو…!‘‘
’’ کپڑے؟… ارے ہاں! راستے میں چوروں نے پکڑ لیا تھا۔ اور کچھ تو میرے پاس تھانہیں ۔کم بختوں نے کپڑے ہی اتارلیے ۔ بھائی ماہی گیر! کیا تم ترس کھا کر مجھے ایک آدھ پھٹا پرانا کپڑا دے دو گے؟ دیکھونا! اس حالت میں گھر کیسے جاسکتا ہوں!‘‘
مچھیرے نے کہا۔ ’’میرے پاس کپڑا تو کوئی فالتو نہیں۔ ہاں! یہ ایک چھوٹی سی بوری ہے۔ تم لے سکتے ہو۔‘‘
مرتا کیا نہ کرتا۔ ننگا رہنے سے یہی بہتر تھا کہ بدن پر بوری لپیٹ لی جائے۔ پنا کونے بوری میں سوراخ کیے اور اسے قمیص کی طرح پہن لیا۔ بوری پہن کر وہ کسی سرکس کا مسخرہ لگتا تھا۔
’’اچھا بھائی! آپ کا بہت بہت شکریہ! مجھے ذرا جلدی ہے۔ خدا حافظ!‘‘ اس نے مچھیرے کو سلام کیا اوربستی کی طرف دوڑنے لگا۔
رات ہوگئی تھی۔ بستی میں گھپ اندھیرا تھا۔ لوگ بستروں میں دبکے میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے۔ پری کے گھر کا دروازہ بند تھا۔ پناکو کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا کہ کھٹ کھٹاؤں یانہ کھٹ کھٹاؤں! اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ پری کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا؟ وہ مجھ سے پوچھے گی کہ دن بھر کہاں رہے؟ تو کیا جواب دوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ اسے لڑائی کا پتہ چل گیا ہو اور وہ مجھے ہی قصور وار سمجھتی ہو۔ اسے بڑی شرم محسوس ہورہی تھی، مگر جاتا بھی کہاں؟صبح کا بھوکا تھا اور آدھی رات کا وقت۔ آسمان پر کالے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہر دم بارش کا دھڑکا تھا۔
اس نے ہمت کرکے دروازے پر دستک دی۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ اس نے زور سے دروازہ کھٹ کھٹایا۔ اس پر بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ اب تو وہ بہت پریشان ہوا۔ آسمان پر بادل گہرے ہوتے جارہے تھے اور بجلی چمک رہی تھی۔
پنا کونے مایوس ہوکر دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹ ڈالا۔ تھوڑی دیر بعد کسی عورت نے کھڑکی کھولی اورغصے سے بولی۔’’ کون ہے؟‘‘
’’ پری صاحبہ اندر ہیں؟ ‘‘پناکو نے پوچھا۔
’’وہ سورہی ہیں۔ تم کون ہو؟‘‘
’’ میں پناکو ہوں۔‘‘
’’پناکو کون…؟‘‘
’’کٹھ پتلا… جو اس گھر میں رہتاتھا۔‘‘
’’ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ صبح کو آنا…‘‘عورت نے کہا اور کھٹ سے کھڑکی بند کر دی۔ اتنے میں زور سے بادل کڑکا اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ پنا کو دروازے سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔ سردی کے مارے دانت سے دانت بج رہے تھے اور بھوک کی وجہ سے آنتیں اینٹھ رہی تھیں۔ وہ کچھ دیرگھٹنوںمیں سردیے بیٹھا رہا۔ پھر اسے معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔
جب ہوش آیا تو وہ کمبلوں میں لپٹا، چارپائی پر لیٹا تھا۔ پری پلنگ کی پٹی سے لگی کھڑی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر وہ آہستہ سے بولی۔’’ تمہارا علاج تو یہ تھا کر تمہیں باہر سردی ہی میں ٹھٹھر کر مرنے دیا جاتا، لیکن…مجھے رحم آگیا ۔‘‘
’’ مجھے معاف کر دیجیے۔ خدا کے لیے معاف کر دیجیے۔ میں سچے دل سے توبہ کرتا ہوں۔ اب کسی کے بہکائے میں نہیں آؤں گا۔ ‘‘پناکو نے سسکیاں لیتے ہوئے کیا۔
’’اچھا! اس دفعہ میں تمھیں معاف کرتی ہوں۔‘‘ پری نے کہا۔ ’’لیکن پھر کبھی ایسی حرکت کی تو یاد رکھنا ،مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
پنا کونے سچ مچ اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ وہ روز سیدھا اسکول جاتا اور چھٹی کے بعد سیدھا گھر آتا… استاد بھی اس سے خوش تھے اور پری بھی۔ اس طرح پانچ چھ مہینے گزر گئے۔
ایک دن پری نے اسے اپنے پاس بلایا اور بڑے پیار سے بولی۔’’ پیارے پناکو! میں تم سے بہت خوش ہوں۔ کل تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی۔‘‘
’’کون سی خواہش؟‘‘ پناکونے پو چھا۔
’’ کل تم کٹھ پتلے کے بجائے سچ مچ کے لڑکے بن جاؤ گے۔ گوشت پوست کے لڑکے، بالکل انسانوں کی طرح۔‘‘
پنا کو کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ ایک منٹ تک گم سم بیٹھا رہا۔ پھر دیوانوں کی طرح کمرے میںناچنے لگا۔
پری بولی۔ ’’اس خوشی میں کل ایک جشن منایا جائے گا۔ تم اسکول کے لڑکوں سے کہہ آؤ کہ وہ کل شام کا کھانا تمہارے ساتھ کھائیں ۔ مگر دیکھو شام سے پہلے پہلے گھر آجانا۔‘‘
پنا کونے ایک گھنٹے کے اندر اندر تمام لڑکوں کو دعوت دے دی۔ اب صرف ایک لڑکا رہ گیا تھا۔ اس کا اصلی نام تورومیو تھا مگرلمبا ہونے کی وجہ سے لڑکے اسے لم ڈھینگ کہتے تھے۔ یہ بہت نکما اور شریر تھا۔ پڑھتاپڑھاتا خاک نہ تھا، اس لیے ہمیشہ استادوں سے مار کھاتا۔ پناکو اسے بہت چاہتا تھا۔
لم ڈھینگ گھر پرنہیں تھا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ صبح سے غائب ہے۔ پتا نہیں، کہاں گیا ہے۔ پناکو اسے ڈھونڈتا ڈھونڈتا بستی کے باہرنکل گیا۔ یہاں ایک کھیت کے کنارے چری کا ڈھیر لگا تھا۔ اس کے پیچھے لم ڈھینگ چھپا بیٹھاتھا۔
پناکو ادھر سے گزرا تولم ڈھینگ نے اسے آواز دی۔ پناکو نے حیرت سے کہا۔’’ ارے! یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’ اندھیرا ہونے کا انتظار کر رہاہوں۔‘‘ لم ڈھینگ نے جواب دیا۔ ’’رات کی سیاہی پھیلتے ہی اس بستی سے چلاجاؤں گا۔‘‘
’’کہاں جاؤ گے؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’بس،یہ مت پوچھو ۔‘‘لم ڈھینگ خوشی سے ہاتھ مل کر بولا۔ ’’ایک ایسے ملک میں جارہا ہوں جس کے سامنے جنت بھی کچھ نہیں۔‘‘
’’میں تمہارے گھر گیا تھا۔‘‘ پناکو نے اسے بتایا۔
’’کیوں؟… خیریت تو ہے؟‘‘
’’ ارے! تم نے نہیں سنا؟ کل میں سچ مچ کا لڑکا بن جاؤں گا۔ بالکل تمہاری طرح۔ اس خوشی میں کل شام اسکول کے تمام لڑکوں کی دعوت ہے۔ تم بھی آنا!‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ میں نہ آسکوں گا۔‘‘ لم ڈھینگ نے کہا ’’آج رات میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے جارہا ہوں۔‘‘
’’ لیکن جا کہاں رہے ہو؟ اس ملک کا نام کیاہے؟‘‘
’’ اس ملک کا نام ہے ’بے فکروں کی دُنیا‘۔ وہاں نہ کوئی اسکول ہے، نہ استاد اور نہ کتابیں۔ وہاں کوئی شخص کام نہیں کرتا۔ اتوار کے علاوہ سنیچر کو بھی چھٹی ہوتی ہے۔ ہفتے میں چھ سنیچر ہوتے ہیں اور ایک اتوار۔ ہر سال جنوری کی پہلی تاریخ کو چھٹیاں شروع ہوتی ہیں اور دسمبر کی اکتیس تاریخ کو ختم ہوتی ہیں۔‘‘
’’ یہ تو بڑا اچھا ملک ہے۔‘‘ پناکو نے کہا۔
’’ تم بھی میرے ساتھ چل سکتے ہو۔‘‘ لم ڈھینگ بولا۔
’’نہیں نہیں۔ میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا ہے کہ میں اچھا لڑکا بنوں گا۔ سورج ڈوبا چاہتا ہے،اب چلتا ہوں۔‘‘
’’ٹھہرو تو، چلے جانا۔ ایسی بھی کیا جلدی ۔‘‘لم ڈھینگ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ اکیلے ہی جارہے ہو یا کوئی اور بھی ساتھ میں ہے؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’پچاس لڑکے اور بھی ہیں۔‘‘
’’پیدل جاؤ گے؟‘‘
’’ نہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک گاڑی آئے گی۔ مجھے سوار کرا کے چلے جانا۔‘‘
’’ماں ناراض ہوگی۔ مجھے جانے دو۔ خدا حافظ!‘‘ پنا کونے ہاتھ چھڑا لیا۔
’’ تمہاری مرضی۔ مگر یاد رکھو۔ ایسا موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔‘‘ لم ڈھینگ نے کہا۔
’’ پنا کو جاتے جاتے رک گیا۔ اس نے پوچھا:
’’ تمہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اس ملک میں کوئی اسکول نہیں؟‘‘
’’ ایک اسکول بھی نہیں؟‘‘
’’ اور نہ کوئی استادہے؟‘‘
’’ استاد کا نام ونشان تک نہیں۔‘‘
’’ وہاں تمام سال چھٹیاں رہتی ہیں؟‘‘
’’تمام سال…‘‘
’’ ہائے! کتنا پیارا ملک ہے! …گاڑی کب آئے گی؟‘‘
’’ بس آتی ہی ہوگی…تمہیں اگر جلدی ہے تو چلے جاؤ۔‘‘
’’نہیں۔ جہاں اتنی دیر ٹھہرا ہوں، تھوڑی دیر اور سہی۔‘‘ پنا کونے کہا۔ ’’تمہیں سوار کرا کے چلا جاؤں گا۔‘‘
سورج ڈوبے آدھا گھنٹا ہوچکا تھا۔ اندھیرا بڑھا جارہا تھا۔ اتنے میں دور سے چھن چھن گھنگھر و بجنے کی آوازآئی۔
’’ گاڑی آرہی ہے۔‘‘ لم ڈھینگ نے کہا۔’’ ” وقت بہت کم ہے۔ پھر سوچ لو۔ چلنا ہے یا نہیں؟‘‘
پنا کونے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ رہا تھا…چند منٹ بعد گاڑی ان کے پاس آ کر ٹھہر گئی۔ اس کے آگے بارہ گدھے جتے تھے اور اسے ایک موٹا سا کوچ وان چلارہا تھا۔
گاڑی بچوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ یہ سب کے سب ’بے فکروں کی دنیا‘ میں جارہے تھے، جہاں نہ کوئی اسکول تھا اور نہ استاد۔ کوچ وان نے لم ڈھینگ سے کہا۔’’ تمہارا ہی نام رومیو ہے؟… جلدی بیٹھو، دیر ہو رہی ہے۔‘‘
لم ڈھینگ اچک کر گاڑی میں سوار ہوگیا۔ کوچ وان پناکو کی طرف مڑا اور بولا۔ ’’لڑکے تم نہیں جاؤ گے؟‘‘
’’جی نہیں۔ میں یہیں رہوں گا۔ ‘‘پناکو نے جواب دیا۔
’’ پنا کو! میری مانو۔ ضد چھوڑو۔ بعد میں افسوس کروگے۔‘‘ لم ڈھینگ نے کہا۔ ’’ذراسوچو تو ۔یہاںتمہیںروز اسکول جانا پڑتا ہے ۔ سبق یاد نہ کرو تو استاد کے ڈنڈے کھانے پڑتے ہیں۔’ بے فکروں کی دنیا‘ میں کوئی اسکول نہیں۔ وہاں تم صبح سے شام تک موج اڑاؤ گے۔ نہ پڑھائی کا ڈر اور نہ مار کا ڈر۔‘‘
پنا کونے ایک لمحہ سوچا اور پھر ایک دم گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی چل دی۔

۔۔۔۔۔

گاڑی رات بھر چلتی رہی اور دوسرے دن پو پھٹے، اس ملک کی سرحدمیں داخل ہوئی جس کا نام لم ڈھینگ نے ’بے فکروں کی دنیا ‘ بتایا تھا۔ یہ ملک دنیا کے تمام ملکوں سے نرالا تھا۔ یہاں صرف لڑکے ہی لڑکے تھے۔ آٹھ برس سے لے کے چودہ برس تک کے لڑکے۔ گلی کوچوں میں بھیڑ لگی ہوئی تھی اور بے فکروں کی ٹولیاں طرح طرح کے کھیل کھیل رہی تھیں۔ کہیں گلی ڈنڈا ہورہاتھا تو کہیں آنکھ مچولی۔ ایک طرف کبڈی کی پالی جمی ہوئی تھی تو دوسری طرف پاؤں ٹکنی یا کیڑی کاڑا کھیلا جارہا تھا۔ دوتین لڑکے سڑک کے بیچوں بیچ سر نیچے ٹانگیں اوپر کیے ہاتھوں کے بل چل رہے تھے اور دوسرے لڑکے تالیاں بجا بجا کر خوش ہورہے تھے۔ غرض ہر طرف ایسی دھما چوکڑی مچی ہوئی تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
پناکو اور لم ڈھینگ کی گاڑی بستی میں داخل ہوئی تو تمام لڑکے اس کے گرد جمع ہوگئے اور انھوں نے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا۔نئے آنے والے جلد ہی بستی کے پرانے باسیوں سے گھل مل گئے اور ان کے ساتھ کھیل کودمیں شامل ہوگئے۔
اسی طرح ہنستے کھیلتے دن گزرنے لگے۔ پناکو جب بھی لم ڈھینگ سے ملتا تو اس کا شکریہ ادا کرتا اور کہتا۔’’ میرے دوست! دوست ہو تو تم جیسا ہو۔ اگرتم مجھے یہاں نہ لاتے تو مجھے عمر بھر افسوس رہتا۔ ہائے! کتنا پیارا ملک ہے یہ! نہ کوئی غم نہ فکر۔ ہر وقت بس کھیل ہی کھیل ۔‘‘
لم ڈھینگ مسکرا کر جواب دیتا۔’’ تم تویہاں آنانہیں چاہتے تھے۔ مجھے دعائیں دو کہ تمہیں بہلا پھسلا کر لے آیا۔ ور نہ تم تو وہیں کتابوں میں سرکھپا رہے ہوتے۔ صبح کو اٹھتے، ناشتا کرتے اور اسکول چلے جاتے۔ وہاں استادوں کے ڈنڈے کھاتے اور منہ بسورتے گھر آجاتے۔ پھر صبح ہوتی اور وہی قصہ دہرایا جاتا…‘‘
’’یار! کس زبان سے تمہارا شکر یہ ادا کروں! ‘‘پناکوکہتا۔ ’’استاد کہتے تھے کہ لم ڈھینگ بہت خراب لڑکا ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ یہ تمہیں بھی خراب کر دے گا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ وہ غلط کہتے تھے۔ تم میرے سچے دوست اورخیر خواہ ہو۔‘‘
جب آدمی خوش ہو تو پتا بھی نہیں چلتا کہ کب دن ہوا اور کب رات آئی اور دکھی ہو تو دن کاٹے نہیں کٹتے۔ ایک ایک منٹ ایک ایک سال بن جا تاہے۔ پناکو کو نہ اسکول کی فکر تھی اور نہ استادوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا دھڑکا۔اپنی نیند سوتا، اپنی بھوک کھاتا۔ جہاں مرضی چاہی چلے گئے اور جب دل چاہا واپس آگئے۔ نہ کوئی پوچھنے والا کہ کہاں گئے تھے اور نہ یہ معلوم کرنے والا کہ اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟ ہر روز عید اور ہر شب، شب برأت۔ اس طرح پانچ مہینے چپ چپاتے گزر گئے مگر پناکو کو ایسا لگتا تھا جیسے کل ہی آیا ہو۔
اور پھر ایک دن بڑی ہی عجیب بات ہوئی۔ صبح کو پنا کو سوکر اٹھا اور اس نے انگڑائی لے کر سر کھجایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے کان ہاتھ سے بھی زیادہ لمبے ہوگئے ہیں۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔’’ یا اللہ! رات تو وہ بھلا چنگا سویا تھا، یہ راتوں رات کیا ہوگیا؟‘‘
کمرے میں آئینہ نہیں تھا۔ اس نے ایک بڑے سے پیالے میں پانی بھرا اور اس میں اپنی شکل دیکھی۔ وہ حیرت سے اچھل پڑا۔ اس کے اپنے کان تو خدا جانے کہاں غائب ہو گئے تھے اور ان کی جگہ گدھے جیسے لمبے لمبے کان اگ آئے تھے۔ وہ کچھ دیر تو تعجب سے اپنی عجیب غریب صورت دیکھتا رہا اور پھر دیوانوں کی طرح چیخیں مار مار کردیواروں سے سر پھوڑنے لگا۔
کمرے میں ایک چوہا بھی رہتا تھا۔ چیخیں سن کر وہ بل میں سے نکل آیا اور بولا۔ ’’پنا کو بھائی !خیر تو ہے؟ کیا ہوا؟‘‘
پنا کو بولا۔ ’’ہائے ہائے!… بس کچھ نہ پوچھا۔‘‘
چوہے نے کہا ۔’’بتاؤ توسہی، ہوا کیا؟‘‘
پناکو بولا۔ ’’تمہیں نبض دیکھنی آتی ہے؟‘‘
’’کچھ کچھ آتی تو ہے۔‘‘
’’ ذرا دیکھو تو… مجھے کوئی بیماری تو نہیں؟‘‘ پناکو نے ہاتھ آگے کیا۔
چوہے نے اپنے پنجے سے پناکو کی نبض چھوئی اور بولا۔ ’’اوہو! پناکو بھائی! یہ تو غضب ہو گیا!‘‘
’’ کیا ہوا؟‘‘ پناکو نے گھبرا کر پوچھا۔
’’تمہیں بڑا ہی خطرناک بخار ہے۔‘‘
’’ کون سا بخار؟…‘‘ گردن توڑ یا گھٹنا توڑ؟‘‘
’’یہ بخار ان دونوں بخاروں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسے ’گدھا بخار‘ کہتے ہیں اور جس آدمی کو یہ بخار آتا ہے، وہ گدھا بن جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد تم گدھا بن جاؤ گے اور ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے پھرو گے۔‘‘
’’ہائے، میرے اللہ! ہائے، میرے ابا! ہائے ،میری اماں! اب کیا کروں؟‘‘ پناکو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
چوہا بولا۔ ’’اب رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ تمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جولڑ کے پڑھنے لکھنے سے نفرت کرتے ہیں، انھیں اللہ میاں گدھا بنا دیتا ہے۔‘‘
’’ پیارے بھائی! خدا کے لیے کوئی ترکیب بتاؤ کہ اس مصیبت سے چھوٹوں ۔‘‘ پناکو نے اس کی منت کی۔
چوہا بولا۔ ’’بیماری بہت بڑھ گئی ہے۔ اب کوئی دوا کام نہیں کرے گی۔ تمہیں اپنا برا بھلا پہلے سوچنا چاہیے تھا۔‘‘
’’اس میں میرا قصور نہیں۔‘‘ پنا کونے کہا ۔’’یہ شرارت اس نامعقول لم ڈھینگ کی ہے۔ وہی مجھے بہکاکر یہاں لایا تھا۔‘‘
’’لم ڈھینگ کون ہے؟‘‘ چوہے نے پوچھا۔
’’ وہ میرا ہم جماعت تھا۔ اس نے مجھے سبز باغ د کھائے اور کہا کہ پڑھنے لکھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ تم میرے ساتھ بے فکروں کی دنیا میں چلو، عیش کرو گے۔ کاش، میں گھر پر ہی رہتا۔ روز اسکول جاتا اور دل لگاکر پڑھتا تو آج سچ مچ کا لڑکا بن گیا ہوتا۔ ٹھہرو! میں ابھی جاکر اس لم ڈھینگ کے بچے کو مزا چکھاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا مگر پھر فوراً ہی اسے اپنے کان یاد آئے۔ اس نے سوچا ،ایسی حالت میں باہر جاؤں گا تو دیکھنے والے مذاق اڑائیں گے۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے جلدی جلدی ایک بڑی سی ٹوپی بنائی اور اسے اوڑھ کر دونوں کان اس کے اندر چھپا لیے۔
اب وہ لم ڈھینگ کے گھر پہنچا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تواندر سے آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’ میں ہوں پناکو۔ دروازہ کھولو۔‘‘
’’ ذرا ٹھہرو …ابھی کھولتا ہوں۔‘‘ لم ڈھینگ نے جواب دیا۔
آدھ گھنٹے بعد دروازہ کھلا۔ پناکو کو یہ دیکھ حیرت ہوئی کہ لم ڈھینگ نے بھی ویسی ہی ایک ٹوپی اوڑھ رکھی ہے اور اس کے اندر اس کے دونوں کان چھپے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ پناکو کو تسلی ہوئی۔ اس نے دل میں سوچا،’’ چلو، یہ اچھا ہوا۔ جو بیماری مجھے لگی ہے، اسے بھی لگ گئی ہے ۔‘‘لیکن وہ ایسا بن گیا جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ مسکرا کربولا۔ ’’سنائو یار! لم ڈھینگ۔ کیا حال ہے؟‘‘
’’ بہت اچھا ۔‘‘لم ڈھینگ نے ہنس کر کہا۔’’ بس،یوں سمجھو، جنت کے مزے آرہے ہیں۔‘‘
’’سچ مچ؟ یا یونہی میرا دل رکھنے کو کہہ رہے ہو؟‘‘
’’یہ تمہیں کیسے پتا چلا؟ ‘‘ لم ڈھینگ نے پوچھا۔
’’تم نے اتنی بڑی ٹوپی کیوں منڈھ رکھی ہے سر پر؟ ‘‘
’’بات یہ ہے میرے گھٹنے میں درد تھا۔ ڈاکٹر نے کہایہ پی ٹوپی اوڑھ لو۔ ٹھیک ہو جاؤ گے، لیکن تم بھی تو ایسی ہی ٹوپی اوڑھے ہوئے ہو۔ تھیں کیا ہوا؟‘‘
’’ میرے پیر میں موچ آگئی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا…‘‘
’’یار! یہ ٹوپی تو جادو کی ہے۔جب سے اوڑھی ہے، درد ورد سب غائب ہوگیا ہے۔‘‘
’’ سچ مچ…؟‘‘ پناکو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
لم ڈھینگ نے گھبرا کر منہ پھیر لیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔
’’ایک بات بتاؤ، یار!‘‘ پناکو نے آہستہ سے پو چھا۔ تمہیں کانوں کی بیماری کبھی ہوئی تھی؟‘‘
’’نہیں تو،… تمہیں ہوئی تھی؟‘‘
’’ نہیں ۔‘‘پناکو نے کہا۔ ’’لیکن آج صبح سے ایک عجیب سی بیماری لگ گئی ہے۔‘‘
’’یار! یہی حال میرا بھی ہے ۔‘‘لم ڈھینگ بولا:’’ کل رات میں اچھا خاصاسویا تھا۔ صبح اٹھا تو کیا دیکھتاہوں کہ…‘‘
’’ذرا ٹوپی تو اتارو۔‘‘ پناکو نے کہا۔
’’ نہیں۔ پہلے تم اتارو۔‘‘ لم ڈھینگ بولا۔
بہت دیر تک دونوں ’’پہلے آپ۔ پہلے آپ‘‘ کرتے رہے۔ آخر فیصلہ ہوا کہ دونوں ایک ساتھ اتاریں۔ پنا کونے ایک۔ دو۔ تین کہا اور تین پر دونوں نے اپنی اپنی ٹوپیاں اتار کر فرش پر پھینک دیں۔
ٹوپیوں کا اترنا تھا کہ دونوں کے گدھے جیسے کان کھڑے ہو کر لہرانے لگے۔ بجائے اس کے کہ وہ شرمندہ ہوتے، انھوں نے ایک دوسرے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور ہنس ہنس کر دو ہرے ہوگئے۔
اچانک لم ڈھینگ خاموش ہوگیا اور چلا کر بولا ۔’’بچاؤ!… خدا کے لیے مجھے بچاؤ۔‘‘
’’کیا ہوا…؟ ‘‘پناکونے پوچھا۔
میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ میں گرا جا رہا ہوں۔
’’ ارے رے رے! میری ٹانگیں بھی مڑ رہی ہیں ۔‘‘پنا کونے کہا۔
ایکا ایکی دونوں نیچے گر پڑے اور چاروں ہاتھ پیروں کے بل کمرے میں دوڑنے لگے۔ بالکل ایسے جیسے چو پائے ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی صورت بدلنے لگی۔ پہلے جسم پر لمبے لمبے بال اگے۔ پھر بازو اور پیر سخت ہو کر موٹے ہو گئے۔ ہاتھوں کے بجائے کھر نکل آئے۔ چہرا لمبوترا ہو گیا۔ اس کے بعد ایک لمبی سی دم بھی نکل آئی۔ اب ان میں اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ انھوں نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا اور پھر منہ اوپر اٹھایا اور بولے:
’’ڈھینچوں…ڈھینچوں…ڈھینچوں…!‘‘

۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے زور سے کہا ۔’’دروازہ کھولو!‘‘ یہ اسی کوچ وان کی آواز تھی جو پنا کو اورلم ڈھینگ کو یہاں لایا تھا۔
پناکو اورلم ڈھینگ تو گدھے بن چکے تھے۔ وہ دروازہ کیسے کھولتے؟ دونوںزور زور سے چیخنے لگے۔’’ ڈھینچوں۔ ڈھینچوں۔‘‘ کو چ وان نے کچھ دیر تو انتظار کیا۔ پھر اتنی زور کا دھکا دیا کہ دروازہ ٹوٹ گیا۔
کو چوان نے اندر آ کرپناکو اور لم ڈھینگ کوگدھے کی شکل میں دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ بولا۔’’ میں نے تمہاری آواز پہچان لی تھی۔ تم بہت اچھارینکتے ہو۔ اب چلو میرے ساتھ۔ میں تمھیں منڈی لے جاؤں گا ۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے جیب سے کنگھی اور برش نکالااور دونوں کی خوب صفائی کی۔ پھر ان کے جسم پر تھوڑا تھوڑا تیل ملا جس سے ان کے بال آئینے کی طرح چمکنے لگے۔ اس کے بعد وہ انھیں جانوروں کی منڈی میں لے گیا۔ اتنے اچھے گدھے دیکھ کر دھڑا دھڑ گاہک آنے لگے اور منٹوں میں دونوں کا سودا ہو گیا۔
لم ڈھینگ کو ایک کمہار نے خریدلیا۔اس کا پہلا گدھا بوجھ ڈھوتے دھوتے مرگیا تھا۔ پنا کو کو سرکس کے منیجر نے خریدا۔ سرکس والا بہت خرانٹ تھا۔ وہ پنا کو کر دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ بہت ہوشیار اور عقل مند گدھا ہے۔ میں اسے کرتب سکھا کر خوب پیسے کماؤں گا۔
اب تم سمجھ گئے ہوگے کہ اس کو چوان کا کیا دھندا تھا۔ یہ شخص بستی بستی گاڑی لے کر پھرتا تھا۔ جہاں کوئی کام چور اور نکما لڑکا دیکھتا، اسے سبز باغ دکھا کر ’’بے فکروں کی دنیا‘‘ میں لے آتا۔ یہاں یہ بچے نکمے پڑے رہتے تھے اور آخر ایک دن گدھے بن جاتے اور تب کو چوان انھیں منڈی میں بیج آتا۔ اس طرح وہ بہت امیر بن گیا تھا۔
لم ڈھینگ پر کیا گزری؟… یہ ہمیں پتا نہیں۔ پناکو کی سنو۔سرکس کا منیجر پناکو کو اپنے ساتھ لے آیا اور اُسے دُوسرے جانوروں کے ساتھ ایک طویلے میں باندھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوکر پناکو کے آگے ایک ناند رکھ گیا جس میں سوکھی گھاس تھی۔ پنا کو کو بڑے زور کی بھوک لگی تھی۔ اس نے تھوڑی سی گھاس منہ میں لے کر چبائی تو اسے الٹی آگئی اور اس نے گھاس تھوک دی۔
منیجر کو بہت غصہ آیا۔ اس نے کہا۔ ’’گھاس نہیں کھائے گا تو کیا لڈو پیڑے کھائے گا؟…ٹھہر تو جا… ابھی خبر لیتا ہوں !‘‘ یہ کہہ کر اس نے کوڑا اٹھایا اوراب جو پناکو کو دھننا شروع کیا ہے تو بے چارے کو نانی یاد آ گئی۔ اس نے ڈھینچوں ڈھینچوں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
منیجر مارتے مارتے تھک گیا تو ٹھہر گیا۔ کہنے لگا:’’ میں دیکھوں گا تو کیسے گھاس نہیں کھاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔
رات ہوگئی تھی۔ دوسرے جانور دانہ گھاس کھا کر سوگئے تھے۔ پنا کو صبح کا بھوکا تھا۔ اسے غش آرہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید انسانوں والا کوئی کھا جا مل جائے مگر ہر طرف گھاس ہی گھاس پڑی تھی۔آخر جب صبر نہ ہوا تو مجبوراً گھاس ہی کھانے لگا۔ بھوک میں اسے گھاس بھی ایسی معلوم ہوئی جیسے لڈو پیڑے۔
دوسرے دن صبح کو منیجر آیا۔ اس نے دیکھا کہ پناکو نے گھاس کھالی ہے تو بہت خوش ہوا۔ بولا۔’’ بیٹا! کھاؤ گے نہیں تو سرکس میں کام کیسے کروگے؟ اب چلو، آج سے تمہاری تعلیم شروع ہوگی۔میں تمہیں ناچنا ،گانا اور رسی پھلانگنا سکھاؤں گا۔ اگر تم نے میرا کہا مانااور جی لگا کر کرتب سیکھے، تب تو ٹھیک ورنہ مار مار کر بھر کس نکال دوں گا۔‘‘
اس دن سے منیجر پناکو کو کرتب سکھانے لگا ۔اگر وہ غلطی کرتا یا کوئی بات بھول جاتا تو اس کی خوب پٹائی ہوتی۔ اس طرح تین مہینے گزر گئے۔اب پناکو اپنے کام میں خوب ماہر ہو گیا تھا۔ وہ بینڈ کی دھن پر اگلے پیراٹھا کر بالکل انسانوں کی طرح ناچتا۔لو ہے کے حلقے میں سے صاف نکل جاتا اور اپنے قد سے اونچی رسی بھی آسانی سے پھلانگ جاتا۔ منیجر اس سے بہت خوش تھا اور اسے ہری ہری نرم گھاس کھانے کو دیتا تھا۔
پنا کو کے ساتھ دوسرے جانور بھی طرح طرح کے کر تب سیکھ رہے تھے۔ جب وہ بھی اپنے اپنے کاموںمیں خوب ماہر ہو گئے تو سرکس کے منیجر نے شہر میں بڑے بڑے اشتہار لگوائے کہ فلاں تاریخ کو تماشا ہوگاجس میں گھوڑے، ہاتھی، بندر، ریچھ اور گدھے وغیرہ اپنے کمال دکھائیں گے۔
تماشا شروع ہوا تو سرکس تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ان میں بچے بھی تھے اور جوان اور بوڑھے بھی۔ ہرشخص بڑی بے چینی سے تماشا شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ آخر بینڈ بجنا شروع ہوا۔پہلے مختلف آدمیوں نے اپنے اپنے کام دکھائے۔ پھر جانوروں کی باری آئی۔ جب گھوڑے، ہاتھی اور بندر وغیرہ بھی تماشا دکھا کر چلے گئے تو اب میاں پنا کو آئے۔اس کے اوپر بڑی خوب صورت جھول پڑی ہوئی تھی اور پیروں میں گھنگھر و بند ھے تھے۔ منیجر ہاتھ میں کوڑا لیے پیچھے پیچھے تھا۔
منیجر نے کوڑے کو جھٹکا دیا اور بولا۔’’ ہاں، بھئی! پناکو!… سب سے پہلے تماشائیوں کو سلام کرو۔‘‘
پنا کو نے جلدی سے اگلے پیروں پر جھک کے زمین پر ما تھا ٹیک دیا۔ تماشائیوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔
منیجر نے کوڑا پھٹکارا اور بولا۔’’ شاباش!… اب ناچ دکھاؤ۔‘‘
بینڈ بجنے لگا اورپنا کو اس کی دھن پر اگلے پیر اٹھا کر ٹھمک ٹھمک ناچنے لگا۔ دیکھنے والے ہنستے ہنستے لوٹن کبوتر بنے جارہے تھے۔ ناچتے ناچتے پناکونے سر جو اٹھایا تو تماشائیوں کے درمیان اسے ایک جانی پہچانی صورت دکھائی دی۔ وہ آہستہ آہستہ ٹھمک ٹھمک کرتا اور آگے بڑھا اور اب جو غور سے دیکھا تو وہ پری تھی۔
پری کو دیکھ کر وہ ناچنا واچنا سب بھول گیا اورچیخیں مارنے لگا۔’’ ڈھینچوں ڈھینچوں۔‘‘
تماشائی سمجھے، یہ بھی کوئی مذاق کی بات ہے۔ وہ اور زور زور سے ہنسنے لگے۔ منیجر نے غصے سے کہا ۔’’پناکو ناچو…! ‘‘مگر پنا کو ٹکٹکی باندھے پری کو تک رہا تھا اور اس کے منہ سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی آوازیں نکل رہی تھیں۔
منیجرغصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے ڈنڈے سے پناکو کواتنا پیٹاکہ وہ غش کھا کر گر گیا۔ سرکس کے ملازم اسے اٹھا کر ایک خیمے میں ڈال آئے۔ دوسرے دن منیجر پناکو کے پاس آیا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ پنا کونے اس کا سارا تماشا خراب کر دیا تھا۔ منیجر نے پنا کو کے ٹھوکر ماری اور کڑک کر بولا:’’اٹھ…!‘‘
پناکو درد سے کراہتا ہوا اٹھا مگر فوراً ہی لڑکھڑا کرگر پڑا۔منیجر نے دو تین لاتیں اور جڑ دیں لیکن پنا کو ہلاتک نہیں۔ زمین پر پڑے پڑے واویلا مچاتا رہا۔
منیجر سمجھا کہ پناکو کو زیادہ چوٹ لگ گئی ہے۔ اس نے جانوروں کے ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے پنا کو کا معائنہ کیا اور بولا۔ ’’اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ یہ عمر بھر کے لیے لنگڑا ہوگیا ہے۔‘‘
یہ سن کر منیجر نے ایک نوکر سے کہا۔ ’’یہ گدھا ہمارے کام کا نہیں رہا۔ اسے منڈی میں بیچ آؤ۔‘‘
نوکر پنا کو کو گھسیٹتا ہوا منڈی لے گیا۔ گاہک اسے دیکھتے ہی کانوں پر ہاتھ دھرتے اور کوئی پاس تک نہ پھٹکتا۔ آخر شام کے وقت ایک گاہک آیا اور اُس نے دام پو چھے۔ نوکر نے کہا ۔’’ دس روپے۔‘‘
گاہک بولا۔’’ اس لنگڑے گدھے کے دس روپے؟ یہ کس کام کا ہے؟ میں تو اس کی کھال کا ڈھول بنائوں گا۔ دو روپے لینے ہیں تو لے لو۔‘‘
پناکو نے یہ سناتو اس کی جان نکل گئی۔ اس نے چیخنا شروع کر دیا۔ڈ ھینچوں ڈھینچوں۔‘‘
نوکر نے سوچا کب تک کھڑا رہوں گا۔ صبح سے یہی ایک گاہک آیا ہے۔ چلو دو روپے ہی بہت ہیں ۔اس نے پناکو کی رسی گاہک کو تھما دی اور روپے جیب میں ڈال کر آگے بڑھ گیا۔
گاہک پناکو کو کھینچا ہوا دریا کے کنارے لے گیا۔ وہاں اُس نے پناکو کی کمر سے ایک بڑا سا پتھر باندھا۔گلے میں بندھی ہوئی رسی ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لی اور اس کو دریا میں دھکا دے دیا۔ پناکو نے باہر نکلنے کی بہتیری کوشش کی مگر کمر سے بھاری پتھر بندھا ہواتھا،اس کے بوجھ سے وہ پانی میں ڈوب گیا۔
گاہک اطمینان سے کنارے پر بیٹھ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جب گدھا ڈوب کر مر جائے گا تو وہ باہرنکال کر اس کی کھال اتارے گا۔

۔۔۔۔۔

دس منٹ گزر گئے۔ آدمی نے سوچا اب گدھا مرگیا ہوگا؟ اس نے رسی کھینچنی شروع کی۔ کھینچتے کھینچتے رسی کا آخری سرا آیا تو وہ حیرت سے اچھل پڑا۔ رسی میں گدھے کے بجائے ایک کٹھ پتلا بندھا کلبلا رہا تھا۔ یہ پنا کو تھا۔ آدمی نے جلدی سے آنکھیں ملیں۔ وہ سمجھا، کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ جب ذرا کچھ اوسان درست ہوئے تو اس نے پنا کو سے پوچھا۔’’وہ… وہ گدھا کہاں گیا؟ اور تم کون ہو؟‘‘
’’میں ہی تو وہ گدھا ہوں۔‘‘ پناکونے ہنس کر کہا۔
پنا کو کی ہنسی سے آدمی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ غصے سے بولا۔ ’’مذاق کرتا ہے۔ سچ سچ بتا یہ کیا ماجرا ہے! ورنہ مار جوتوں کے ٹھرکس نکال دوں گا۔‘‘
پناکو بولا۔’’جناب! آپ ناحق خفا ہو رہے ہیں۔ میں مذاق نہیں کرتا، سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’مگر تو کٹھ پتلا کیسے بن گیا؟‘‘
’’ شاید یہ سمندر کے کھاری پانی کا اثر ہے۔‘‘
’’دیکھ! مذاق نہ کر۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔‘‘
’’ آپ سچ بات جاننا چاہتے ہیں؟‘‘ پناکو نے پوچھا۔
’’ہاں…! ‘‘آدمی نے کہا۔
’’ تو پھر رسی کھول دیجیے۔ میں آپ کو بتاتاہوں۔‘‘ پناکو نے کہا۔
آدمی کو اس بات پر بڑی حیرت تھی کہ گدھا کٹھ پتلاکیسے بن گیا۔ اس نے جلدی سے رسی کھولی۔ پنا کو آزاد ہو گیا۔ اس نے پہلے تو کچھ دیراپنے ہاتھ پاؤں سہلائے جو اتنی دیر بندھے رہنے کی وجہ سے دردکرنے لگے تھے، پھر زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور شروع سے لے کر اپنے گدھا بننے تک کی پوری داستان کہہ سنائی۔
’’ بڑی عجیب کہانی ہے ۔‘‘آدمی تھوڑی کھجا کر بولا۔پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ پھر آپ نے مجھے خرید لیا اور…‘‘
’’تمہیں میں نے دو روپے میں خریدا تھا ۔‘‘آدمی بولا۔’’ یہ دو روپے حرام موت گئے۔ ‘‘
’’ آپ نے مجھے اس لیے خریدا تھا نا کہ میری کھال کا ڈھول بنائیں؟‘‘ پنا کو نے پوچھا۔
’’ہاں! لیکن اب میں تمہاری کھال کیسے اتاروں، تم تو نری لکڑی ہی لکڑی ہو۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں۔ دنیا میں بہت سے گدھے ہیں۔ میں نہ سہی اورسہی۔‘‘
’’لیکن تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کرتم گدھے کیسے بن گئے؟‘‘ آدمی نے پوچھا۔
’’ یہ بات بتانے کی تو نہیں لیکن خیر! آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ یہ سب ایک پری کی کرامت ہے۔ ‘‘
’’پری کی…؟‘‘ آدمی حیرت سے بولا۔
’’جی ہاں، پری کی۔ وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتی ہے لیکن افسوس، میں نے اسے بہت دکھ دیے ہیں۔ میں نے کبھی اس کا کہا نہیں مانا اور آج اسی کی سزا بھگت رہا ہوں۔‘‘
’’پری نے تمہیں گدھے سے کٹھ پتلا کیسے بنایا؟‘‘ آدمی نے پوچھا۔
’’ جب آپ نے مجھے سمندر میں پھینکا تو پری کو پتا چل گیا۔ اس نے فوراً مچھلیوں کی ایک فوج بھیج دی۔مچھلیوں نے آتے ہی میرا گوشت کھانا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام گوشت ختم ہو گیا اور صرف ہڈیاں یعنی لکڑیاں ہی رہ گئیں۔ میں بہت سخت لکڑی کا بنا ہوا ہوں۔ جونہی مچھلیوں کے دانت لکڑی پر لگے ۔انھوں نے برا سا منہ بنایا اور بھاگ گئیں۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اوپر کھینچ لیا۔‘‘
’’ تم سمجھتے ہو، میں اس بے ہودہ کہانی پر یقین کر لوں گا۔‘‘ آدمی نے کہا۔ ’’میں نے دو روپے خرچ کیے ہیں۔ میں تمہیں کسی ٹال والے کے ہاں بیچ دوں گا۔ تمہاری لکڑی بہت اچھی ہے۔ کچھ تو پیسے ملیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں اسی لائق ہوں۔ آئیے چلیں۔‘‘ پنا کونے اُٹھتے ہوئے کہا۔
آدمی بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن جونہی اس نے پنا کو کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔ اس نے ایک دم سمندر میں چھلانگ لگا دی اور آن کی آن میں تیرتا ہوا دور نکل گیا۔
ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا ہو گا کہ اسے سامنے سے ایک پہاڑ سا حرکت کرتا نظر آیا۔ یہ ایک وہیل مچھلی تھی اوراس کی طرف آرہی تھی۔اسے دیکھتے ہی پناکوکے ہوش اڑ گئے اوروہ پھرتی سے پیچھے مڑا مگر وہیل آناً فاناًاس کے قریب پہنچ گئی۔اس نے منہ کھول کر زور سے سانس لی اور پنا کو تنکے کی طرح اڑ کر اس کے پیٹ میں پہنچ گیا۔
یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ پناکو سوچ بھی نہ سکا کہ وہ کہاں ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہوش ٹھکانے ہوئے تو اس نے اندھیرے میں ادھر ادھرٹٹولا کہ شاید باہر نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے لیکن ساری کوششیں بے کارگئیں۔جب اسے یقین ہو گیا کہ میں باہر نہیں نکل سکتا تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اچانک کہیں سے آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’ میں ہوں پناکو۔‘‘پناکو نے کہا۔
’’ آپ کون ہیں؟ ‘‘
’’میںایک ایل مچھلی ہوں۔ مجھے ابھی ابھی اس دیو نے نگلا ہے۔ تم کون سی مچھلی ہو؟‘‘
’’ میں مچھلی نہیں ہوں۔‘‘ پناکو نے جواب دیا۔’’ میں ایک کٹھ پتلا ہوں۔ میری پیاری ایل مچھلی! خدا کے لیے یہاں سے نکلنے کی کوئی ترکیب بتاؤ۔‘‘
’’ میں جانتی تو تم سے پہلے خود نکلتی ۔چپ چاپ بیٹھے رہو۔ تھوڑی دیر میں یہ دیو ہم دونوں کو ہضم کر جائے گا۔ ‘‘
’’میںمرنا نہیں چاہتا ۔‘‘پنا کو بولا۔
’’میری قسمت میں تو مرنا ہی لکھا ہے۔ ‘‘مچھلی نے کہا۔
’’ یہاں نہیں مری تو کوئی شکاری پکڑ لے جائے گا اور مجھے بھون کر کھا جائے گا۔ میرے خیال میں اس مرنے سے مرنا اچھا۔‘‘
’’تمہاری مرضی۔‘‘ پنا کونے کہا۔ ’’میں تو بھاگنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’ بھاگ سکو تو بھاگ جاؤ۔ میں روکتی تھوڑی ہوں۔‘‘
’’ کیا یہ وھیل بہت بڑی ہے؟‘‘
’’ ایک میل سے کیا کم ہو گی؟‘‘
’’آئو، اس کے پیٹ میں سوراخ کریں۔‘‘ پناکو نے کہا۔
مچھلی بولی۔’’ میرے پاس برما نہیں۔ نہ چاقو ہی ہے۔‘‘
’’افسوس! اب کیا ہوگا؟‘‘ پناکونے ہاتھ مل کر کہا۔
اچانک اسے دور فاصلے پر ہلکی سی روشن ٹمٹماتی دکھائی دی۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’ارے! یہ روشنی کیسی ہے؟‘‘
’’سمندرمیں قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔‘‘ ایل مچھلی نے کہا۔’’ ان میں ایسی مچھلیاں بھی ہیںجن کے بدن سے روشنی نکلتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وھیل نے کوئی ایسی ہی مچھلی نگل لی ہے۔ ‘‘
’’اس سے پوچھو ں،شاید وہ کوئی تدبیر بتا دے۔‘‘پنا کونے کہا۔
’’ اگر وہ جانتی تو خود کیوں نہ نکل جاتی؟خیر،تمہاری مرضی، جا کر پوچھ لو۔ خدا تمہیں کامیاب کرے۔‘‘
’’ خدا حافظ! بی مچھلی!‘‘ پناکو نے کہا اور اندھیر ے میں ٹٹولتا، گرتا پڑتا اس روشنی کی طرف بڑھنے لگا۔

۔۔۔۔۔

جوں جوں وہ آگے بڑھتا گیا، روشنی تیز ہوتی گئی اور جب وہ قریب پہنچا تو مارے حیرت کے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ سامنے ایک میز پڑی تھی۔ میز پر موم بتی جل رہی تھی۔ پاس ہی کرسی رکھی تھی اور اس کرسی پر گپیتو بیٹھا تھا… پناکو کا باپ۔
پناکو کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ روئے ، چیخے یا قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ کچھ دیر تو یونہی دیوانوں کی طرح اسے گھورتا رہا، پھر ایک دم ہاتھ پھیلا کر آگے بڑھا اورگپیتو سے چمٹ گیا۔
’’ ابّا…!ہائے ابّا !اتم کہاں چلے گئے تھے۔‘‘ سسکیاں لیتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے تمہارے لیے دنیا کا کونہ کو نہ چھان مارا… ابّا! … پیارے ابّا!‘‘
گپیتو کی بھی بری حالت تھی۔ وہ بھی زار و قطار رو رہاتھا۔ آخر جب رو دھوکر باپ بیٹے کا جی ہلکا ہوا ،دل کا غبار نکلا تو اب انھوں نے اپنی اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ پناکو پر جوکچھ گزری تھی وہ اس نے ایک ایک کر کے بتادی۔ گپیتو نے اسے بتایا کہ جب کشتی میں سوار ہوا تو تھوڑی دیر بعد طوفان آگیا اور اس کی کشتی ڈوب گئی۔
’’پھر میرے بچے !‘‘گپیتو بولا ۔’’یہ وہیل مچھلی ادھرآنکلی اور اس نے مجھے نگل لیا۔ اب میں یہاں دو سال سے ہوں۔‘‘
’’ لیکن اتنا عرصہ آپ زندہ کیسے رہے؟‘‘ پنا کو نے پوچھا۔’’ کھاناکہاں سے کھاتے ہیں اور یہ موم بتیاں وغیرہ کہاں سے آئیں؟‘‘ گپیتو نے کہا۔’’جس طوفان نے میری کشتی ڈبوئی تھی، اسی طوفان میں گھر کر ایک تجارتی جہاز بھی ڈوباتھا۔ اس میں بہت سا سامان بھی تھا۔ وہ سب سامان بھی یہ مچھلی نگل گئی۔ اسی میں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں تھیں۔ انہی کے سہارے میں زندہ رہا۔ لیکن… آہ! آج یہ سب سامان ختم ہو گیا اور یہ موم بتی بھی بس آخری ہے۔‘‘
’’پھر تو ہمیں فوراً ہی یہاں سے نکلنے کی کوئی تجویز سوچنی چاہیے۔‘‘ پنا کونے کہا۔
’’ میرے بچے! اس دیو کے پیٹ میں سے نکلنا ناممکن ہے ۔‘‘گپیتو بولا۔
’’کوئی چیز ناممکن نہیں ابا جان!‘‘ پنا کونے کہا۔’’ جس راستے سے ہم یہاں آئے ہیں، اسی راستے سے ہم باہر نکل سکتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میں تیرنا نہیں جانتا۔‘‘ گپیتو بولا۔
’’ فکر نہ کیجیے، آپ میری پیٹھ پر بیٹھ جانا۔ میں آپ کو کنارے پر لے جاؤں گا۔ وہیل سورہی ہے۔ یہ موقع بہت اچھا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے موم بتی اٹھالی اور بولا۔’’آئیے،میرے پیچھے پیچھے چلے آئیے۔‘‘
دونوں باپ بیٹے، چپ چاپ، سانس روکے، دبے دبے قدم اٹھاتے وہیل کے منہ کی طرف بڑھے۔ وہیل بو ڑھی تھی۔ اس کے پھیپھڑے کمزور تھے، اس لیے وہ کھول کر سوتی تھی۔
وہ دونوں تھوڑی دور آگے بڑھے تو انھیں ہلکی ہلکی روشنی نظر آئی۔یہ روشنی چاند کی تھی جو وہیل کے منہ کے راستے اندر آ رہی تھی۔
’’وہیل بے خبر سو رہی ہے۔‘‘ پنا کونے آہستہ سے کہا۔’’ سمندر پر سکون ہے۔ چاندنی بھی چھٹکی ہوئی ہے، اس سے اچھا موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔ ذرا جلدی چلیے۔ ایسا نہ ہو، وہ جاگ جائے۔‘‘
اب وھیل کا منہ آ گیا تھا۔ دونوں آہستہ آہستہ اس کی زبان پر چلتے ہوئے منہ کے سرے پر پہنچے۔پناکو نے کہا۔ ’’میری کمر مضبوطی سے پکڑ لیجئے۔‘‘ گپیتو نے دونوں ہاتھوں سے اس کی کمر پکڑلی اور پنا کو نے ایک دم سمندر میں چھلانگ لگادی۔
پنا کو تیرتا ہوا بہت دور نکل آیا لیکن کنارا دکھائی نہ دیا۔گپیتواس کی پیٹھ پر چمٹا بیٹھا تھا۔ پنا کو کو ایسامحسوس ہوا جیسے وہ کانپ رہا ہے۔ اس نے باپ کی ہمت بند ھائی۔’’گھبرائیے نہیں ابا جی!کنارا آیا ہی چاہتاہے۔ ‘‘
’’کہاں بیٹے؟‘‘ گپیتو نے آہ بھر کر کہا۔ ’’مجھے توکوسوں تک زمین نظر نہیں آتی۔‘‘
پناکو نے کہا۔ ’’آپ کی نظر کمزور ہے ابا جی!… بوڑھے جو ہو گئے ہیں۔ میری نگاہ بہت تیز ہے۔ وہ دیکھیے۔ وہ رہا کنارا… وہ بائیں طرف۔‘‘ اس نے ایک طرف یونہی اشارہ کر دیا۔ حالاں کہ چاروں طرف سمندر ہی سمندر تھا۔ کنارے کا نام ونشاں تک نہ تھا۔ آدھے گھنٹے تک وہ تیرتارہا۔ آہستہ آہستہ اس کے پاؤں شل ہونے لگے۔ طاقت جواب دینے لگی اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ اس کی جان نکل رہی ہے۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’ابا!… پیارے ابا! ہم ڈوب رہے ہیں۔خدا کو یاد کیجیے۔‘‘
یکایک کسی کی آواز آئی ۔’’کون ڈوب رہا ہے؟‘‘
اس آواز سے پنا کو کی ہمت بندھی۔ اس نے جلدی سے کہا۔ ’’میں اور میرے ابا۔‘‘
’’آہا!… یہ آواز تو میں پہچانتی ہوں۔ تم پناکوتونہیں؟‘‘
’’ وہی… وہی ہوں۔‘‘ پناکو نے کہا۔’’ آپ… آپ کون ہیں؟… ارے! آپ تو وہی ایل مچھلی ہیں جو وہیل مچھلی کے پیٹ میں تھیں۔ آپ کیسے بچ نکلیں !‘‘
’’تمہارے پیچھے پیچھے چلی آئی تھی۔ تم نے مجھے راستہ دکھایا تھا اور اس کے لیے میں تمہاری شکرگزارہوں۔ بتاؤ میں تمہاری کیا خدمت کرسکتی ہوں۔‘‘
’’ آپ دیکھ رہی ہیں، میں ڈوب رہا ہوں۔ کیا آپ مجھے اور میرے والد صاحب کو کنارے تک پہنچاسکتی ہیں؟‘‘
’’ ضرور ضرور!‘‘ ایل مچھلی نے کہا۔’’ تم دونوںمیری دم پکڑ کر لٹک جاؤ۔ منٹوں میں کنارے لگائے دیتی ہوں۔‘‘
دونوں باپ بیٹے ایل کی دم سے چمٹ گئے اور اس نے تھوڑی دیر میں انھیں کنارے پر پہنچا دیا۔ خشکی پر پہنچ کر دونوں خوشی سے ناچنے لگے۔ پناکو نے ایل کا بہت شکریہ ادا کیا اور باپ کو لے کر آگے چل پڑا۔
صبح ہونے والی تھی۔ مشرق کی طرف ہلکا ہلکا اجالا ہونے لگا تھا۔ کچھ دور گئے ہوں گے کہ سامنے ایک بستی دکھائی دی۔ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھے۔ بستی کے پاس پہنچ کر پناکو نے گپیتو کو ایک درخت کے تلے بیٹھا دیا اور بولا۔ ’’آپ یہاں بیٹھیے۔ میں کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہوں۔ خالی پیٹ تو اب ایک قدم بھی نہیں چلا جائے گا۔‘‘
پنا کوبستی میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسے ایک کسان دکھائی دیا، وہ کاندھے پر ہل رکھے کھیت پر جا رہا تھا۔ پناکو نے اسے روک لیا اور بڑی عاجزی سے بولا۔ ’’بھائی! میں اور میرا بوڑھا باپ کل سے بھوکے ہیں ،خدا کے لیے کے کھانے کو دو۔‘‘
کسان بولا۔’’ بھیک مانگتے شرم نہیں آتی؟…ہٹے کٹے ہو، کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’ آپ مجھے کام بتائیے۔ جو کہیں گے ،کروں گا۔‘‘ پناکو نے سینہ تان کر کہا۔
’’ آؤ، میرے ساتھ کھیت پر چلو۔‘‘ کسان نے کہا۔
کھیت پاس ہی تھا۔ ایک طرف کنواں تھا۔ کسان نے کہا۔’’ اس کنویں میں سے سوڈول پانی نکال کر کھیت میں ڈالو۔ میں تمہیں روٹی دوں گا۔‘‘
پناکو نے جلدی سے آستینیں چڑھائیں اور پانی کھینچنا شروع کر دیا۔ زندگی میں یہ پہلا کام تھا جو اس نے کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا سانس پھول گیا اور وہ سر سے پیر تک پسینے میں نہا گیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ ڈول پر ڈول کھینچتا رہا۔
’’شاباش!‘‘ کسان نے اس کی پیٹھ ٹھونک کر کہا۔’’ ’’سوڈول ہوگئے۔ لو! یہ چار روٹیاں تم بھی کھاؤ اور اپنے باپ کو بھی کھلاؤ… اور ہاں سُنو! اگر کام کرنا چاہو تو میں تمہیں ملازم رکھ سکتا ہوں۔ روٹی کے علاوہ پیسے بھی دوں گا۔‘‘
’’اور رہنے کے لیے جگہ بھی…؟‘‘ پنا کونے پوچھا۔
’’ہاں، میرا گھر کافی بڑا ہے۔ایک کوٹھڑی تم لے لینا۔‘‘ کسان نے جواب دیا۔
پنا کو روٹی لے کر باپ کے پاس گیا۔ روٹیاں خوب موٹی موٹی تھیں۔ ساگ بھی بہت ساتھا۔ دونوں نے پیٹ بھر کرکھا نا کھایا اور ٹھنڈا پانی پی کر درخت کے تلے پیرپسار کر سو گئے۔
پنا کو دوسرے دن سے کسان کے ساتھ کام کرنے لگا۔ کچھ دن بعد اس نے ٹوکریاں بننابھی سیکھ لیا۔ اب فالتو وقت میں وہ ٹوکریاں بنا کرتا اور انھیں بیچ کر مہینے میں پندرہ بیس روپے کما لیتا۔ اب وہ بہت نیک لڑکا بن گیا تھا۔ نہ کسی سے لڑائی، نہ جھگڑا۔ بس اپنے کام سے کام۔ شرارت کرنا تو کجا،کسی دوسرے کو بھی شرارت کرتے دیکھتا تو اسے منع کرتا۔ اس طرح پانچ مہینے گزر گئے۔
اب اس کے پاس کافی پیسے جمع ہوگئے تھے۔ اس نے سوچا، کچھ کپڑے بنالوں۔ اپنے بھی اور اپنے ابا کے بھی۔ اس نے گپیتو سے کہا تو اس نے خوشی سے اجازت دے دی۔
پنا کو پیسے لے کر بازار کی طرف چلا۔ تھوڑی ہی دور گیا ہوگا کہ ایک راہ گیر اسے دیکھ کر رک گیا اور اس طرح دیکھنے لگا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ پنا کو کو بڑا تعجب ہوا مگر وہ رکا نہیں، چلتا ہی گیا۔
’’میاں صاحبزادے! ذرا سننا۔‘‘ اس آدمی نے آواز دی۔
پنا کورک گیا اور بولا۔’’ فرمائیے!‘‘
’’ تمہارا نام پناکو تو نہیں؟ وہ پنا کو جو ایک پری کے ہاں رہتا تھا؟‘‘
’’جی ہاں، میں وہی پنا کو ہوں۔‘‘ پنا کو نے جلدی سے کہا۔’’ آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ ‘‘
اس آدمی نے کہا۔ ’’میں پری کے پڑوس میں رہتا ہوں۔‘‘
’’فرمائیے، پری کا کیا حال ہے؟ خیریت سے ہیں وہ۔ میری حالت ذرا اچھی ہو جائے تو میں ملنے جاؤں گا۔ اب… اب میں نیک لڑکا بن گیا ہوں۔‘‘ پناکو ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔
’’ لیکن …‘‘ اُس آدمی نے گلا صاف کرنے کہا۔’’ تمہیں یہ سن کر افسوس ہوگا کہ پری ایک سال سے بہت سخت بیما رہے۔ جتنا جمع جتھا تھا، وہ دواؤں پر اٹھ گیا۔اب یہ حالت ہے کہ روٹی کھانے تک کو پیسے نہیں… افسوس!‘‘
پنا کو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بولا۔‘‘ یہ رقم پری کو دے دینا۔ چند روز بعد میں بھی آؤں گا اور… اور بھی پیسے لاؤں گا۔‘‘
وہ آدمی پیسے لے کر چلا گیا۔
پنا کو خالی ہاتھ گھر آیا تو گپیتو کو بڑا تعجب ہوا۔ اس نے پوچھا ۔’’پناکو بیٹے! کپڑے نہیں لائے؟‘‘
پناکو نے اسے سارا واقعہ سنا یا۔گپیتو نے خوش ہوکر اسے سینے سے لگا لیا اور بولا۔ ’’شاباش! اب تم سچ مچ نیک بچے بن گئے ہو۔‘‘
اس رات پنا کونے پری کو خواب میں دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی اور بالکل تندرست تھی۔ پری نے کہا ۔’’مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اب تم نیک لڑکے بن گئے ہو۔ میں نے تمہارا امتحان لینے کے لیے اس آدمی کر بھیجا تھا۔ میں نہ تو بیمارہوں اور نہ مجھے پیسوں ہی کی ضرورت ہے۔ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ جب تم نیک اور فرماں بردار بچے بن جاؤ گے تو میں تمہیںسچ مچ کا لڑکا بنا دوں گی۔ اب وہ دن آ گیا ہے، لیکن یا درکھو، ہمیشہ اچھے لوگوں کی صحبت میں رہنا۔ جی لگاکرتعلیم حاصل کرنا اور اپنے باپ اور استادوں کا کہا ماننا۔‘‘
پنا کو صبح کو اٹھا تو حیرت سے اچھل پڑا۔ اب وہ لکڑی کا کٹھ پتلا نہیں تھا بلکہ بالکل انسانوں جیسا بن گیا تھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں ملیں اور ادھرادھر دیکھا تو دنیاہی بدلی ہوئی تھی۔ وہ گھاس پھونس کے جھونپڑے کے بجائے ایک خوب صورت سجے سجائے کمرے میں لیٹا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں گیا تو وہ بھی خوب سجا ہوا تھا۔ کمرے میں دو الماریاں تھیں۔ پناکو نے ایک الماری کھولی تو وہ طرح طرح کے قیمتی کپڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے دو تین جوڑے پہن کر دیکھے تو وہ اس کے بالکل ٹھیک آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسی کے لیے سلوائے گئے ہیں۔ دوسری الماری میں کسی بڑے آدمی کے کپڑے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ گپیتوکے ہیں۔
اس نے زور سے آواز دی۔’’ اباجی!… اباجان! کہاں ہیں آپ؟‘‘
آوازسن کرگپیتودوڑا ہوا آیا اور پناکو سے لپٹ گیا۔ پنا کونے کہا۔ ’’پیارے ابا! یہ سب کچھ اس پری کی مہربانی ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں نیک لڑکا بن جاؤں گا تو وہ مجھے سچ مچ کا لڑکا بنا دے گی۔ پیارے ابا! اب میں ہمیشہ نیک کام کروں گا۔ جی لگا کر تعلیم حاصل کروں گا۔ آپ جو کہیں گے، وہی کروں گا اور کبھی برے لڑکوں کی صحبت میں نہیں بیٹھوں گا۔‘‘
کچھ دن میںگپیتو نے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔ پناکو صبح اسکول جاتا۔ چھٹی کے بعد کچھ دیر کھیلتا، پھر اسکول کا کام کرتا اور اس کے بعد دکان پر جاکر گپیتو کا ہاتھ بٹاتا۔ اس طرح دونوں باپ بیٹے ہنسی خوشی رہنے سہنے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top