skip to Main Content

پاکستان کا حسن،وادیٔ کاغان

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

اللہ رب العالمین نے پاکستان کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں میں پاکستان کے بے حد حسین قدرتی مناظر بھی شامل ہیں۔ اونچے اونچے پہاڑوں کے دامن میں سرسبز وادیاں اتنی دلکش ہیں کہ انہیں دیکھتے ہی زباں پر سبحان اللہ کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو، یہ نہایت خوبصورت وادیاں، اپنے خالق کی عظیم قدرت اورزبردست حکمت کی واضح نشانیاں ہیں۔
پاکستان کی حسین وجمیل وادیوں میں وادی کاغان کو خاص شہرت حاصل ہے اور پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر سے لوگ اس وادی کی سیر کے لیے آتے ہیں۔ وادی کاغان، مشہور مقام بالا کوٹ سے تقریباً چوراسی (84) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بالا کوٹ وہ مقام ہے جہاں تحریک مجاہدین کے عظیم رہنماؤں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی قبریں موجود ہیں۔ بالاکوٹ کو ہم وادی کاغان کا دروازہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا شہر مانسہرہ سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور واقع ہے۔ مانسہرہ سے بسیں تقریباً ایک گھنٹے میں بالاکوٹ پہنچتی ہیں۔ بالاکوٹ سے دریائے کنہار بھی ہمارے ساتھ ساتھ بہنے لگتا ہے۔ یہی دریا وادی کاغان میں بھی ہمارا ہم سفر رہتا ہے۔
بالا کوٹ سے بس یا جیپ کے ذریعے سے، کاغان کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔ یوں تو چوراسی کلو میٹر کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں لیکن چونکہ کاغان جانے والا راستہ بلند پہاڑوں کو تراش کر بنایا گیا ہے اس لیے یہ ذرا دشوار ہے۔ تنگ سڑک پہاڑوں میں بل کھاتی ہوئی چلی جاتی ہے اور اس پر سفر کرنے والی تمام گاڑیاں بھی سڑک پر بل کھاتی ہوئی چلتی ہیں۔ مسافروں کو بڑے صبر اور ضبط کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ سڑک کی ایک جانب بلند پہاڑ ہیں اور دوسری جانب سینکڑوں فٹ گہرائی میں دریائے کنہار جھاگ اڑاتا بہ رہا ہے۔ گاڑی کے ڈرائیور کو بہت دیکھ بھال کر گاڑی چلانی ہوتی ہے۔ اس سفر میں مشکلات تو ہیں لیکن اس قسم کے سفر کا اپنا لطف بھی ہے۔ آپ کی گاڑی جب بھی پہاڑی راستوں پر، بلندی کی جانب چلے تو آپ اللہ اکبر کہیے اور جب آپ بلندی سے نشیب کی طرف اتر رہے ہوں تو آپ سبحان اللہ کہیے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
بالاکوٹ سے تقریباً چوبیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ”کوائی“ واقع ہے۔ یہ بہت خوب صورت مقام ہے۔
کوائی سے چلیں تو راستے میں مہاندری کا چھوٹا سا قصبہ ملتا ہے۔ مہاندری سے پندرہ کلومیٹر دور کا غان ہے اور کاغان سے تقریباً پچیس کلو میٹر کا سفر کریں تو ہم ناران پہنچ جائیں گے۔ وادی کاغان، زیادہ تر مقامات پر بہت تنگ ہے لیکن ناران میں یہ وادی خاصی کشادہ ہو جاتی ہے۔
ناران میں قیام کے لیے کئی ہوٹل موجود ہیں۔ چاروں طرف سے بلند پہاڑوں میں گھری ہوئی یہ وادی بے حد دلکش ہے۔ آپ صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد اونچے اونچے پہاڑوں کی اوٹ سے طلوع ہوتے ہوئے سورج کا منظر دیکھیں گے تو اس منظر کا قدرتی حسن کبھی بھلا نہ سکیں گے۔
موسم گرما میں یہ وادی سرسبز ہو جاتی ہے۔ ہر سُو ہریالی کا راج ہوتا ہے اور پوری وادی ایک جیتی جاگتی خوش رنگ تصویر محسوس ہوتی ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑ برف کا لباس پہن لیتے ہیں اور اردگرد کی ہر شے پر برف اپنی سفید چادر پھیلا دیتی ہے۔ ناران، سطح سمندر سے تقریبا چوبیس سو میٹر (سات ہزار آٹھ سوفٹ) بلند ہے، اس لیے یہاں سال کے زیادہ تر مہینوں میں موسم سرد رہتا ہے۔ مئی سے اگست تک موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مہینوں میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔
دریائے کنہار، ناران میں بھی تیزی اور تندی کے ساتھ بہتا ہوا اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے شمالی علاقوں کے دریاؤں میں ایک مچھلی بڑی تعداد میں پیدا فرمائی ہے۔ یہ ٹراؤٹ مچھلی کہلاتی ہے اور اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی، ہوٹلوں میں تو دستیاب ہے ہی، اگر چاہیں تو ڈور اور کانٹے یا دیگر ذرائع کی مدد سے خود بھی مچھلی کا شکار کھیلا جاسکتا ہے۔
ناران میں ایک بازار بھی ہے۔ یہاں مقامی دست کاری کے اچھے نمونے مل جاتے ہیں۔ سیاح انہیں وادی کاغان کی یادگار کے طور پر خرید کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ وادی کاغان کی شہرت کی ایک بڑی وجہ جھیل سیف الملوک ہے۔ یہ نہایت حسین وجمیل جھیل، ناران سے تقریبا دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر موسم اچھا ہوتو ناران سے جیپیں جھیل سیف الملوک لے جاتی ہیں۔ برف باری کے موسم میں یہ راستہ برف سے اٹ جاتا ہے۔ ویسے جو لوگ مہم جو طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، وہ ناران سے جھیل سیف الملوک تک کا فاصلہ پیدل ہی طے کرتے ہیں۔ یہ راستہ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بلند ہوتا جاتا ہے اور جب آپ جھیل سیف الملوک پر پہنچتے ہیں تو آپ سطح سمندر سے تقریبا تین ہزار پانچ سو میٹر (دس ہزار پانچ سوفٹ) کی بلندی پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔
جھیل سیف الملوک کی چاروں جانب بلند پہاڑ ہیں، جن کا عکس جھیل کے پرسکون پانی میں بہت بھلا محسوس ہوتا ہے۔ وادی کاغان کی سب سے بلند چوٹی ملکہ پربت یہیں واقع ہے۔ اس چوٹی کی اونچائی سترہ ہزار تین سو ساٹھ فٹ ہے۔ وادی کاغان کی سیر کے لیے مئی کے وسط سے اگست کے وسط تک کا موسم مناسب ہے کیونکہ موسم سرما میں اتنی برف باری ہوتی ہے کہ سفر مشکل ہو جاتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top