خرگوش
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
محلے بھر کے بچے ماہ رخ کے گھر میں جمع تھے۔
وجہ یہ تھی کہ ماہ رخ کے چھوٹے بھائی فرخ کی فرمائش پر اُن بچوں کے ابو، بازار سے دو خر گوش لے آئے تھے۔ ان خرگوشوں کی آمد کی خبر جلد ہی پورے محلے میں پھیل گئی۔ اب بہت سارے بچے خرگوشوں سے ملنے کے لیے آ رہے تھے۔
سب سے زیادہ خوشی فرخ کو تھی۔ گھر میں جیسے ہی ماموں جان داخل ہوئے، سب بچوں نے انہیں بلند آواز سے سلام کیا اور فرخ نے اپنی توتلی زبان میں کہا:
”ماموں دان، ابو ہمارے لیے تر جوش لائے ہیں؟“
”وہ کیا ہوتا ہے؟“ ماموں جان نے جان بوجھ کر حیرانی سے کہا۔
”یہ ڑئے، دو دو تر جوش!“ فرخ نے بڑے جوش سے ایک طرف اشارہ کیا، جہاں دو خر گوش بیٹھے گاجریں کھا رہے تھے، اور بہت سے بچے بیٹھے انہیں دیکھ رہے تھے۔ اس وقت ماہ رخ اندرونی کمرے سے آئی۔ ماموں جان کو دیکھتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا، وہ فوراً کہنے لگی:
”السلام علیکم ماموں جان، کتنا اچھا ہوا کہ آپ آگئے۔“
”وعلیکم السلام۔ ایسی کیا بات ہے جو میرے آنے پر اتنی خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس وقت تو تمام بچوں کی توجہ خرگوشوں کی طرف ہے۔“ماموں جان نے کہا۔
”ماموں جان، میری توجہ بھی خرگوشوں کی طرف ہی ہے۔!!“ماہ رخ نے اطمینان سے کہا۔”فرق صرف یہ ہے کہ بچے صرف خرگوشوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور میں آپ کو۔۔۔۔!“
”کیا کہ رہی ہو، نالائق، میں تمہیں خرگوش نظر آ رہا ہوں؟“ ماموں جان مصنوعی ناراضگی سے بولے۔
”اچھے اور پیارے ماموں جان، آپ خوب سمجھتے ہیں کہ میں آپ کو دیکھ کر کیوں خوش ہو رہی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے آج خرگوشوں کے بارے میں بہت سی معلوماتی باتیں بتا ئیں گے۔“
”اچھا بھئی، اب تو پکڑے گئے۔“ ماموں جان نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ”یوں کرو، پہلے پانی پلاؤ، پھر لسی پلاؤ، پھر کچھ بات ہو گی۔“
”ابھی لائی۔“ ماہ رخ اندرونی کمرے میں چلی گئی۔ ذراسی دیر میں وہ پانی اور لسی لے آئی۔ ماموں جان نے پانی پی کر الحمدللہ کہتے ہوئے لسی کا گلاس اٹھالیا اور کہنے لگے:
”خرگوش دنیا میں ہزاروں برس سے موجود ہیں۔ ان کی نسل بہت تیزی سے بڑھتی ہے، اس لیے یہ دنیا کے تقریباً ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔“
”ماموں جان، خرگوش ہر وقت اپنے نتھنے ہلاتے رہتے ہیں۔۔۔کیوں؟“ماہ رخ نے پوچھا۔
”در اصل خرگوش کو اللہ نے سونگھنے کی اچھی صلاحیت دی ہے۔ وہ سو میٹر دور سے بھی کوئی بو سونگھ لیتے ہیں۔ ان کی سننے کی صلاحیت بھی اچھی ہوتی ہے۔ وہ اپنے دونوں کانوں کو ایک ساتھ یا الگ الگ حرکت دے سکتے ہیں۔ تم نے ایک بات پر غور کیا؟“
”وہ کیا ماموں جان؟“
”وہ یہ کہ اللہ نے خرگوش کو چار پیر دیے ہیں، لیکن وہ چار پیروں والے دوسرے جانوروں کی طرح چاروں پیروں پر نہیں چل سکتا بلکہ اپنی پچھلی دو ٹانگوں کی مدد سے پھدک کر اور چھلانگ لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتا ہے۔ اللہ نے خرگوش کی پچھلی ٹانگیں مضبوط بنائی ہیں۔ اگلی ٹانگوں کو وہ چھلانگ لگاتے ہوئے، اپنے جسم کا توازن برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔“
”اچھا، یہ بات ہے، واقعی عجیب بات ہے۔“ماہ رخ متاثر ہوکر بولی، پھراس نے پوچھا:
”ماموں جان، خرگوش گاجر کے علاوہ اور کیا کھاتے ہیں؟“
”مختلف اقسام کے پودے، گھاس پھوس، درختوں کی چھال، مٹر، سلادکے پتے، پھلیاں وغیرہ، سب کچھ کھا جاتے ہیں۔“
”میں نے سنا ہے خرگوش زمین کے اندر گھر بنا کر رہتے ہیں۔“
”ہاں، اللہ نے ان کو یہ صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ نرم اور بھر بھری لیکن خشک زمین پسند کرتے ہیں، وہاں یہ اپنے پنجوں کی مدد سے زمین کھود کر اندر ہی اندر خاصے بڑے گھر بنا لیتے ہیں جو بھٹ کہلاتے ہیں۔ یہ اتنے سمجھ دار ہوتے ہیں کہ اپنے بھٹ کے دروازے کے قریب گھاس پھوس، پتوں وغیرہ کا ڈھیر جمع کر لیتے ہیں تا کہ بھٹ ان کے دشمنوں کو نظر نہ آسکے۔“
”خرگوش کے دشمن بھی ہوتے ہیں؟“
”ہاں! ان کا سب سے بڑا دشمن تو انسان ہے، پھر سانپ، بھیڑیا، لومڑی، نیولا، کتے، عقاب وغیرہ بھی ان کی تاک میں رہتے ہیں۔“
”پھر تو خرگوش ان سے بیچنے کے لیے تیز بھاگتا ہوگا!“
”ہاں، تقریباً تیس کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے، تقریباً تین میٹر یعنی دس فٹ لمبی چھلانگ بھی لگا سکتا ہے مگر جلدی تھک جاتا ہے، پھر بھی خرگوش کا پیچھا کرنے والے خرگوش کے اچانک رک جانے سے پریشان ہو جاتے ہیں، ابھی وہ کچھ سمجھ نہیں پاتے کہ خرگوش چکر لگا کر کسی اور سمت میں دوڑنے لگتاہے یا گھنی جھاڑیوں میں چھپ جاتا ہے۔“
”ماموں جان، آج تو خرگوش کی باتیں سن کر بڑا لطف آیا۔“ماہ رخ نے خوشی سے کہا۔
”ہوں، تولسی کا ایک گلاس لے آؤ۔“
”ا بھی لاتی ہوں۔“ ماہ رخ خرگوشوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے لسی لینے چلی گئی۔