skip to Main Content

نیند سے بیداری تک

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

دروازے پر دستک دیتے ہی دروازہ کھل گیا اور دو بچے، شور مچاتے ہوئے افضال صاحب سے لپٹ گئے۔
”ماموں جان! السلام علیکم، آپ کب آئے؟“
دونوں بچے خوش خوش، ماموں جان کا ہاتھ پکڑ کر اندر چلے گئے۔ ان میں سے ایک کا نام سعید تھا اور دوسرے کا منیر۔ سعید کی عمر13 سال تھی اور منیر اس سے تین سال چھوٹا تھا۔
کمرے میں پہنچتے ہی سعید نے پنکھے کا بٹن دبا کر پنکھا چلا دیا۔ منیر نے ماموں کو کرسی پیش کی۔ ماموں کرسی پر بیٹھ گئے۔
”ہاں بھئی بچو! یہ بتاؤ کہ مغرب کی نماز کس کس نے پڑھی؟“
سعید اور منیر یہ سنتے ہی شرمندہ ہو گئے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔
”اچھا! اگر ابھی تک نماز نہیں پڑھی تو جاؤ پہلے نماز پڑھو، پھر باتیں کریں گے۔“ ماموں جان نے کہا۔ دونوں بچے اٹھ کر وضو کرنے چلے گئے۔
جتنی دیر میں بچوں نے نماز ادا کی، اتنی دیر میں بچوں کی امی چائے بنا کر لے آئیں۔ چائے کے ساتھ کچھ پھل اور بسکٹ بھی تھے۔
ماموں جان نے ایک بسکٹ اٹھایا اور بسم اللہ پڑھ کر منہ میں رکھتے ہوئے بولے:
”بھئی میں سعید اور منیر کے لیے تحفے تو لایا ہوں، لیکن پہلے میں ان دونوں کاامتحان لوں گا۔“
امتحان کا لفظ سنتے ہی سعید اور منیر کے چہرے اداس ہو گئے تو ماموں جان نے جلدی سے کہا:
”مشکل امتحان نہیں ہے۔ بہت آسان سوالات ہوں گے۔ تمام سوالوں کا تعلق سونے اور جاگنے کے آداب سے ہو گا اور تم لوگوں کو یاد ہوگا، پچھلی مرتبہ جب میں آیا تھا تو میں نے تم دونوں کو سونے اور جاگنے کے آداب بتائے تھے، بتائے تھے نا؟“
”جی ماموں جان، بتائے تو تھے۔“ سعید نے آہستہ سے کہا۔
”اچھا تو، آج تمہارے حافظے کا امتحان ہے، اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ تم لوگ جو اچھی باتیں سیکھتے ہو، ان پر عمل بھی کرتے ہو یا نہیں۔“ ماموں جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ماموں جان! اگر ہم آپ کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے تو آپ ہمیں تحفے نہیں دیں گے؟“ منیر نے منہ بسورتے ہوئے پوچھا تو ماموں ہنس پڑے اور بولے:
”یہ فیصلہ بعد میں کریں گے۔ چلو پہلے سوال کا جواب بتاؤ، پہلے سعید کو جواب دینا ہے۔ یہ بتاؤ کہ عشا کی نماز پڑھنے سے پہلے سو جانا کیسی بات ہے؟“
”اچھی بات نہیں ہے ماموں جان۔“ سعید نے جوش سے جواب دیا۔ ”مجھے یاد آ گیا، آپ نے بتایا تھا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشا سے پہلے کبھی نہ سوتے تھے۔“
”بالکل ٹھیک ہے، عشا سے پہلے سو جانے سے عشا کی نماز چھوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اچھا بھئی اگلا سوال، منیر بیٹے تم بتاؤ، رات سونے سے پہلے ہاتھ منہ دھو لینے کی کیا اہمیت ہے؟“
”سونے سے پہلے؟ ماموں جان، ہاتھ منہ تو صبح جاگنے کے بعد دھوتے ہیں۔“ منیر نے حیرت سے کہا۔
”صبح تو بیٹے، منہ ہاتھ دھوتے ہی ہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہی ہے کہ کسی بھی وقت نیند آ جائے تو، جاگنے کے بعد ہاتھ دھو لینا چاہیے، اس لیے کہ نیند میں انسان کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ہاتھ پر کوئی ناپاک چیز لگ گئی ہے یا نہیں۔ میں تو بیٹے رات سونے سے پہلے کی بات کر رہا تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس کے ہاتھ میں چکنائی وغیرہ لگی ہو اور وہ اسے دھوئے بغیر سو گیا اور اسے کوئی نقصان پہنچا تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔“ ماموں جان نے بتایا۔
”ماموں جان! اس آدمی کو نقصان کیوں ہو گا؟“ سعید نے پوچھا۔
”اس لیے بیٹے، کہ اگر ہاتھ میں چکنائی یا کوئی اور چیز مثلاً میٹھی شے لگی ہو گی تو رات میں کوئی کیڑا غذا کی تلاش میں اس کے ہاتھ پر چڑھ سکتا ہے اور اسے کاٹ سکتا ہے۔“
”اب بھئی یہ بتاؤ کہ بستر پر جائیں تو کیا کرنا چاہیے؟“ ماموں جان کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولے۔
”فوراً سو جانا چاہیے۔“ منیر نے جھٹ کہا۔
”نہیں! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ جب کوئی رات میں بستر سے اُٹھے اور پھر بستر پر جائے تو بستر کو تین بار جھاڑ دے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے بستر پر کیا چیز آگئی ہے۔“
پھر ماموں جان بولے: ”ایک اور کام کی بات بتاؤں کہ ان ساری باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اگر یہ نیت کر لی جائے کہ یہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے تو سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی ملے گا۔ اب یہ بتاؤ سعید بیٹے، رات کو سونے سے پہلے کیا پڑھنا چاہیے؟“
”کوئی اچھی کتاب پڑھ سکتے ہیں!“ سعید نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”وہ تو ٹھیک ہے، میں سونے سے پہلے کی بات کر رہا ہوں، یعنی اس کے بعد کوئی اور کام نہیں کرنا، بس سو جانا ہے۔“
”میرا خیال ہے، کوئی دعا پڑھنی چاہیے۔“
”ہاں، اب تم قریب پہنچے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اپنے بستر پر آرام کرنے کے وقت قرآن مجید کی کوئی سورۃ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اس شخص کے جاگنے تک، تکلیف پہنچانے والی ہر چیز سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے قرآن مجید کا کچھ حصہ ضرور تلاوت فرماتے تھے۔“ماموں نے کہا۔
”ہم بھی اب یہی کریں گے۔“ سعید نے کہا۔
”شاباش! ویسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے سے پہلے پڑھنے کی کچھ اور دعا ئیں بھی بتائی ہیں۔ انھیں بھی یاد کر کے پڑھنا چاہیے۔ اچھا منیر بیٹے یہ بتاؤ، سوتے ہوئے دائیں کروٹ پر لیٹنا چاہیے کہ بائیں کروٹ پر، پیٹ کے بل یا پیٹھ کے بل؟“
”ماموں جان دائیں ہاتھ سونا چاہیے۔“
”بالکل ٹھیک۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پیٹ کے بل لیٹے کو اللہ نا پسند فرماتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ،دائیں رخسار کے نیچے رکھتے تھے۔“
”رخسار کیا ماموں جان؟“ منیر نے پوچھا۔
”رخسار، گال کو کہتے ہیں بیٹے۔“ماموں جان نے بتایا، پھر وہ بولے۔“ بس بھئی، آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ منیر، ذرا میرا بیگ اٹھانا۔“
منیر دوڑ کر ماموں جان کا بیگ لے آیا، ماموں جان نے بیگ کھولا اور کلائی کی دو گھڑیاں اور ٹافیوں کے دو پیکٹ نکالے۔
”لو بھئی، گھڑی اور ٹافیاں تم دونوں کے لیے۔“
”ماموں جان!“ سعید نے نعرہ لگایا۔
”زندہ باد!!“منیر نے اونچی آواز میں جواب دیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top