نادو، دادو اور گدھا
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک گاﺅں تھا۔گاﺅں چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی،مگر وہ ایک درمیانے درجے کا گاﺅں تھا۔کسی زمانے میں یہاں نہر کے کنارے دو چھوٹے چھوٹے گھر آباد تھے۔ایک گھر میں ایک مرد اور اس کی بیوی تھی اور دوسرے گھر میں صرف ایک مرد تھا۔ان کے علاوہ ایک اور ہستی بھی تھی جو کبھی ایک گھر میں ہوتی تو کبھی دوسرے گھر میں۔یہ ہستی کوئی انسان نہیں تھی۔توپھر کون تھی؟یہ ایک گدھا تھا اور اس گدھے کا تعلق دونوں گھروں سے تھا۔وہ کس طرح؟یہ ابھی بتاتا ہوں۔اس گدھے کا اصل مالک نادو تھا جو اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا،مگر دادو جو تنہا دوسرے گھر میں رہتا تھا،نادو کا بہت گہرا دوست تھا۔اس لیے نادو نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ ایک روز گدھے کو وہ اپنے ساتھ لے جاتا تھا اور اس سے بار برداری کا کام لیتا تھا۔اس طرح جو کچھ کماتا تھا اس سے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔دوسرے روز یہی کام گدھے سے دادو لیتا تھا۔دادو کی کمائی اس کی اپنی جیب میں جاتی تھی۔
کئی سال بیت گئے تھے اور یہ سلسلہ جاری تھا۔دونوں دوستوں میں کبھی نااتفاقی یا جھگڑانہیں ہوا تھا۔دونوں کی کمائی بہت کم تھی۔اس سے صرف دو وقت کی روٹی اور معمولی لباس مہیا ہوتا تھا۔پھر بھی وہ بہت خوش تھے۔محبت اور خلوص کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے اور باتیں کرتے تھے۔
ایک روز دادو کی باری تھی۔جس صبح جس کی باری ہوتی تھی،اس کے گھر شام ہی کوگدھاباندھ دیا جاتا تھا۔چناں چہ قاعدے کے مطابق نادو گھر لوٹا۔اپنی بیوی کو دوسرے روز کھانا پکانے کے لیے سامان دیا اور گدھے کی پشت پر پیار سے ہاتھ پھیر کر بولا:
”چل اپنے دادو کے گھر۔کل تو اس کا ساتھ دے گا۔“
نادو نے گدھا اپنے دوست کے ہاں پہنچا دیا۔واپس جا رہا تھا کہ اس نے دادو کو دیکھا۔گھر کے دالان میں بڑا مایوس بیٹھا تھا۔
”کیا ہوا دادو؟“نادو نے پوچھا۔
”کچھ نہیں بھائی نادو۔“دادو نے کہا۔
”کچھ تو ہے دوست!اس طرح کیوں ناامید بیٹھے ہو؟“
نادو نے اصرار کیا تو دادو کہنے لگا:
”نادو یہ ہماری زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔نہ ہمیں کھانے کو اچھا ملتا ہے۔نہ پہننے کو اچھالباس ہے۔گدھے پر ریت لاد کر بازاروں میں جاکر بیچ دیتے ہیں۔چند پیسے ملتے ہیں تو پیٹ بھر کر سو جاتے ہیں۔“
نادو نے اس سے پہلے دادو سے کبھی ایسی بات نہیں سنی تھی۔حیران ہوکر بولا:
”شکایت تم نے پہلے تو کبھی نہیں کی تھی۔آج کیا ہوا تمہیں؟“
”ہونا کیاتھا۔روز بازاروں میں اچھی اچھی اور اعلا چیزیں دیکھ کر ترستا رہتا ہوں۔“
نادو بولا:”ایسی چیزیں تو ہر روز میں بھی دیکھتا رہتا ہوں۔میری تو کبھی ایسی حالت نہیں ہوئی۔“
دادو غصے سے بولا:”تم جھوٹ بولتے ہو۔تم بھی ترستے رہتے ہو۔بتاتے نہیں ہو۔“
نادو نے محسوس کرلیا کہ اگر یہ گفتگو جاری رہی تو دونوں میں تلخی پیدا ہو جائے گی۔سوچ کر بولا:
”اچھا دادو!یہ کہو کل جاﺅ گے؟“
”جاﺅں گا کیوں نہیں!نہیں جاﺅں گا تو کھاﺅں گا کہاں سے؟“دادو نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے آج تم تنور پر جا کر روٹی دال مت کھانا۔“
”وہ کیوں؟“دادو نے سوال کیا۔
”ہمارے گھر کھانا۔“
دادو نادو کے گھر آگیا۔نادو، اس کی بیوی اوردادو نے کھانا کھایا۔کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔نادو محسوس کررہا تھا کہ دادو اس طرح خوش نہیں ہے جس طرح روز نظر آتا تھا۔
اس کے جانے کے بعد نادو کی بیوی نے پوچھا۔”یہ دادو کو آج ہوا کیاہے؟“نادو نے اسے ٹال دیا۔
صبح نادو نے جاکر دیکھا۔دادو گدھا لے کر جا چکا تھا۔
دادو واپس آکر سب سے پہلے نادو کے گھر آتا تھا۔گدھا وہاں چھوڑ کر اپنے گھر چلا جاتا تھا،مگر اس دن شام ہونے کو آئی اور دادو کا کوئی پتا نہیں تھا۔نادو اور اس کی بیوی نے سمجھا کہ اسے ضرور کوئی کام پڑگیا ہوگا،اس لیے دیر ہو گئی ہے۔
شام ہو گئی اور دادو نہ آیا۔اب تو نادو فکرمند ہوگیا۔کیونکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ شام ہونے سے بیش تر دادو گھر نہ پہنچ جائے اور اس روز شام کا اندھیرا پھیلتا جا رہاتھا اور دادو کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔
”اللہ خیر کرے۔یہ دادو چلاکہاںگیا۔“نادو نے دل میں کہا اور اسے دادو کے الفاظ یاد آگئے جن سے اس کی گہری مایوسی کا اظہار ہوتا تھا۔ کہیں دادو نے یہ ارادہ تو نہیں کرلیا کہ رات تک کام کرکے زیادہ پیسے کمائے گا اور اچھی زندگی بسر کرے گا۔نادو کے دل میں ایک خیال پیدا ہوگیا۔
رات کا پہلا حصہ بیت رہا تھا اور نادو اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھا اپنے دوست کی راہ تک رہا تھا۔اس کی بیوی دومرتبہ اسے اندر چلنے کے لیے کہہ چکی تھی، مگر نادو اندر جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔آخر اس کی بیوی کہنے لگی:
”یہاں بیٹھنے سے فائدہ، کہیں جا کر اسے ڈھونڈو۔کسی اپنے دوست کے ہاں نہ چلا گیا ہو۔“
بیوی کے یہ الفاظ سن کر نادو نے بھی محسوس کیا کہ دروازے پر اس طرح بیٹھے رہنا بے کار ہے۔اسے کچھ کرنا چاہیے اور وہ اس راہ پر چلنے لگا جدھر سے دادو گھر آیا کرتا تھا۔
اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور وہ فکر مندی کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔
”ہیں یہ کیا!“اس کے ہونٹوں سے نکلا۔اس کے پاس اس کا گدھا دکھائی دے رہا تھا۔گدھا بڑا اداس لگتا تھااور بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔
نادو پریشان ہوگیا۔”دادو گدھے کے ساتھ گیا تھا۔گدھا یہ کھڑ اہے اور وہ خود کہاں غائب ہو گیاہے۔“وہ گدھے کی لگام پکڑ کر کچھ دور گیا۔ دادو وہاں ہوتا تو نظر آتا۔نادو گدھے کے ساتھ گھر آگیا۔”دادو کہاں ہے؟“ اس کی بیوی نے پوچھا۔
”میں کیا جانوں کہاں ہے؟یہ آہستہ آہستہ آرہا تھا۔“نادو نے جواب دیا۔
اس رات نادو اور اس کی بیوی اس قدر پریشان تھے کہ ان میں کسی نے بھی نہ روٹی کھائی اور نہ آرام سے سوسکے۔
”صبح ہوگئی۔“بیوی نے کہا،”جاکر دیکھو تو، دادو گھر آگیا ہوگا۔“
نادو فوراً اٹھ کر دادو کے گھر گیا۔دروازے پر تالا لگا تھا۔اس کا صاف مطلب تھا کہ دادو گھر نہیں آیا تھا۔آیا ہوتا تو دروازے پر تالا کیوں لگا ہوتا۔
نادو اور اس کی بیوی،دونوں دادو کے اس طرح غائب ہو جانے پر پریشان تھے ، مگر بے چارے کر بھی کیا سکتے تھے۔
دن گزرتے گئے۔نادو دو لڑکوں کا باپ بن گیا۔اس کی آمدنی بڑھتی جا رہی تھی۔پہلے تو صرف ایک گدھا تھا اور اب دو کا اضافہ ہوگیا تھا۔ دادو کا غائب ہو جانا نادو کے لیے سب سے زیادہ افسوس ناک واقعہ تھا۔کبھی کبھی تنہائیوں میں اسے یاد کرتا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے تھے۔وہ اپنے بچوں کو بتایا کرتا تھا۔”تمہارا ایک چچاتھا جو ایک روز شہر گیا اور لوٹ کر نہ آیا۔“
”کیوں لوٹ کر نہ آیا؟“ایک بچہ پوچھتا۔
”یہ میں نہیں جانتا۔“
”تو آپ نے اسے ڈھونڈا نہیں تھا؟“دوسرا بچہ سوال کرتا۔
نادو آہ بھر کر کہتا:
”ڈھونڈا تھا بیٹا!پر وہ کہیں بھی نہیں ملا۔اب تک نظر نہیں آیا۔مرچکا ہوگا۔زندہ ہوتا تو ضرور واپس آجاتا۔“
کئی سال بیت گئے۔
نادو کے بیٹوں نے سارا کام سنبھال لیا تھا۔اب ان کے ہاں نو گدھے تھے۔پہلا گدھا بیمار رہتا تھا۔نادو نے اپنے لڑکوں کو منع کردیا تھا کہ اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔وہ گھر کے صحن میں پڑا رہتا تھا۔صحن سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔اب تو نادو کی بیوی اور لڑکوں نے یقین کرلیا تھا کہ دادو مر چکا ہے اور اور وہ اس سے بالکل مایوس ہو چکے تھے۔
جاڑوں کی ایک سرد رات تھی۔چوں کہ سردی بڑھ گئی تھی،اس لیے نادو کی بیوی اور بیٹے اس وقت جاگے جب نادو نے انہیں زبردستی جگایا۔ صبح گوالے سے دودھ لانے کا کام نادو کے بڑے بیٹے سعید کے سپرد تھا۔اس نے ڈول ہاتھ میں لیا اور دروازے کی طرف چلا۔دروازہ کھولا تو اسے ایک بوڑھا آدمی دکھائی دیا جو دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔
سعید نے سمجھا کہ کوئی فقیر ہے،بولا:”صبح ہی صبح آجاتے ہو ٹھہرکرآنا۔“
بوڑھے نے کہا:”بیٹا! میں فقیر نہیں ہوں۔“
”تم کون ہو؟“
فقیر نے جواب دیا۔”اپنے باپ سے کہو ذرا باہر آجائے۔“
نادو نے دیکھا کہ اس کا بیٹا دودھ لانے کے بجائے دروازے پر کھڑا کسی سے باتیں کررہا ہے تو کہنے لگا:”سعید کون آیا ہے؟“
سعید بولا۔”میاں جی!ایک آدمی ہے۔آپ کو پوچھتا ہے۔“
”مجھے پوچھتا ہے۔کون ہے؟“
اور نادو باہر آگیا۔بوڑھے نے نظریں اٹھائیں۔کئی لمحے چپ چاپ نادو کو دیکھتا رہا،پھر کہنے لگا:
”نادو!تم اپنے دادو کو بھول گئے ہو۔“
”تم دادو؟“نادو نے فوراً بانہیں پھیلا کر اسے سینے سے لگا لیا۔”کہاں چلے گئے تھے؟“
”بتاتا ہوں۔“دادو نے کہا۔نادو اسے اندر لے آیا۔نادو اور اس کے بیٹے دادو کو دیکھ کر سخت حیران رہ گئے،کیوں کہ وہ تو سمجھ چکے تھے کہ وہ مر گیا ہے،مگر وہ زندہ ان کے سامنے موجود تھا۔
دادو نے گرم گرم چائے پی اور اپنی کہانی سنانے لگا:
”نادو تم نے اس صبح میری باتوں سے ضرور اندازہ لگا لیا ہوگا کہ میرے اندر لالچ پیدا ہوگیا ہے اور میں جب دریاکے کنارے بورے میں ریت بھر رہا تھا تو یہ لالچ بہت بڑھ گیا۔میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں جس سے مجھے ایک دم دولت مل جائے اور میں شان دار زندگی بسر کرنے لگوں۔اس وقت ہوا یہ کہ مجھ سے ذرا دور ایک شخص درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نوٹ گن رہا تھا۔لالچ نے اندھا تو مجھے کر ہی دیا تھا۔اس موقعے کو غنیمت جانا اور اور جھٹ اس پرجھپٹ پڑا،نوٹ میرے ہاتھ میں آگئے،مگر اس شخص کے شور مچانے سے نہ جانے کئی آدمی کہاں سے آگئے۔
انہوں نے پہلے تو مجھے خوب پیٹا۔پھر پولیس کے حوالے کردیا۔مقدمہ چلا اور مجھے چارسال کی قید ہو گئی۔چار سال کے بعد رہا ہوا تو ایک دکان دار کو لوٹنے کی کوشش میں گرفتار ہوکر جیل بھیج دیا گیا۔پانچ سال کی سزا ہوئی۔سزا کاٹنے کے بعد لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرکے پیٹ بھرنے لگا۔اس مدت میں تم ہر وقت مجھے یادرہے۔جب یاد بڑھ جاتی تھی تو روپڑتا تھا۔کل میں ایک بازار سے گزر رہا تھا کہ تمہارا ایک ہم شکل آدمی نظروں کے سامنے آگیا۔تمہاری یاد نے مجھے تڑپا دیا اور میں نے سوچ لیا کہ مرنے سے پہلے ایک بار ضرور تمہیں دیکھوں گا اور میں رات گزار کر صبح آگیا۔یہ ہے میری ساری کہانی۔“
پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔کھانا کھانے کے بعد دادو نے پوچھا۔”وہ ہمارا گدھا کہاں ہے؟“
”وہ۔“نادو بولا،”بیمار ہے۔کام کاج تو کرتا نہیں۔صحن میں پڑا رہتا ہے۔“
”لے چل مجھے اس کے پاس۔“نادو اسے سہارا دے کر صحن میں لے آیا۔
گدھے نے اپنے پرانے ساتھی کو پہچان لیا اور جھٹ اس کے پاس آگیا۔
دونوں چپ چاپ کھڑے تھے۔دادو نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ کی طرف بڑھا دیا۔اس کا ہاتھ گدھے کی پیٹھ پر لگا ہی تھا کہ دادو دھم سے گرپڑااور ایسا گرا پھر کبھی نہ اٹھ سکا۔