ماؤ کی کہانی
تحریر: سر العلبہ الذھبیہ
مصنف: احمد محمود نجیب
ترجمہ و تلخیص: محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔۔
صدیوں پہلے کی بات ہے کہ چین کے ایک شہر میں چار دوست رہتے تھے۔ ان کے نام سنگ، پنگ، کاؤ اور ماؤ تھے۔ وہ چاروں اکیلے تھے، اس دنیا میں ان کا کوئی اپنا باقی نہ رہا تھا، لہٰذا انہوں نے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا اور آپس میں تہیہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہیں گے اور کبھی ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیں گے۔ان چاروں میں سے ماؤ بہت خوب صورت تھا، صورت کے ساتھ ساتھ اس کی سیرت بھی بہت اچھی تھی۔ وہ نیک سوچ رکھنے والا لڑکا تھا جبکہ باقی تینوں شر کی طرف مائل تھے۔وہ اکثر الٹے سیدھے کام کرتے رہتے۔ایک دن ان تینوں نے سوچا کہ انہیں ایک گروہ بناکر ڈاکہ زنی شروع کرنی چاہیے تاکہ وہ جلد از جلد مال دار بن جائیں،مگر ماؤ نے یہ تجویز سختی سے رد کر دی اور کہا:
”دوستو، کیا تم یہ پسند کرو گے کہ کوئی تمہارے گھر گھسے اور تمہارا محنت سے کمایا ہوا مال چرالے؟؟“
تینوں نے انکار میں سر ہلایا اور بولے:
”ہم کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔“
ماؤ مسکرایا اور بولا:
”تو پھر تم دوسروں کی کمائی کیوں چرانا چاہتے ہو؟“
تینوں لاجواب ہو گئے اور خاموش ہو گئے.۔ماؤ ان سے ناراض ہو کر باہر نکل گیا تھا،مگر وہ باز نہ آئے اور اندر ہی اندر کھچڑی پکاتے رہے، ایک دن وہ جمع ہوئے اور کہنے لگے:
”ہمیں ایک خفیہ گروہ بنا لینا چاہیے اور کسی نہ کسی طرح ماؤ سے بھی پیچھا چھڑانا ہو گا، تاکہ وہ بعد میں ہمارا راز ظاہر نہ کر دے۔“
”اس کی ترکیب میں نے سوچ لی ہے۔“کاؤ نے کہا تو باقی دو چونکے۔
”ہمیں بھی بتاؤ نا۔“ انہوں نے کاؤ سے پوچھا۔
”ضرور کیوں نہیں، ترکیب یہ ہے کہ تم جا کر ماؤ سے کہو کہ ہم نے ڈاکہ زنی کی سوچ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی ہے اور اب ہم جلد ہی ڈھنگ کا کوئی کام شروع کر دیں گے، اس کے بعد کل صبح میرا دوست سونار آئے گا اور باقی ترکیب اس کی مدد سے مکمل ہو گی۔“کاؤ نے کہا تو ان دونوں نے اسے شک بھری نگاہوں سے دیکھا، پھر سنگ بولا:
”یہ کیسی ترکیب ہے؟“
”سنگ درست کہہ رہا ہے، اس سے تو کہیں یہ نتیجہ نہیں نکلا کہ ہم ماؤ سے پیچھا چھڑا لیں گے۔“پنگ نے بھی سنگ کی تائید کی۔
کاؤ دھیرے سے مسکرا دیا اور کہا:
”دوستو، میں نے بتایا تو ہے کہ کل میرا دوست سونار آئے گا، لہٰذا باقی جو کچھ ہو گا تم خود ہی دیکھ لینا۔“
کاؤ کی بات سن کر وہ کندھے اچکا کر رہ گئے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اگلی صبح منہ اندھیرے ہی ان کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔سنگ آنکھیں ملتا ہوا بیدار ہوا اور جا کر دروازہ کھولا۔
”کون ہو تم اور اتنے زور سے دروازہ کیوں پیٹ رہے ہو؟“ اس نے باہر کھڑے شخص کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس دوران باقی تینوں بھائی بھی بیدار ہو چکے تھے۔
باہر ٹھہرے شخص نے سنگ کو عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور بولا:
”میں ہوں سونار…… جانتا ہوں اسرار…… ہر ایک خبر و اخبار…… تلاش کیا لیل و نہار“
”تم کسے تلاش کر رہے ہو اور یہ کیا شعر وشاعری شروع کر دی ہے؟“
سنگ سچ مچ پریشان ہو گیا تھا۔اب اس کے باقی بھائی بھی دروازے پر آچکے تھے۔
”میں ایک ایسے شخص کو تلاش کر رہا ہوں جس کی کلائی پہ پتے کی طرح کا نشان ہے اور اس کا نام میم سے شروع ہوتا ہے، میرے خفیہ علم کے مطابق وہ اسی مکان میں رہتا ہے۔“ سونار نے بدستور پراسرار لہجے میں کہا۔
اس کی بات سن کر کاؤ کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی جبکہ باقی دونوں حیرت کے عالم میں ماؤ کو دیکھنے لگے۔ ماؤ بھی حیران تھا۔ کاؤ نے جھٹ سے اس کی کلائیوں سے کپڑا ہٹایا اور سونار کا بتایا ہوا نشان تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی دائیں کلائی پہ وہ نشان مل گیا۔
”اف یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔“ کاؤ نے کانپتی آواز میں کہا۔
چند لمحے خاموشی میں گزر گئے، پھر سنگ بولا:
”اے سونار! ہمارے اس بھائی کا نام میم سے شروع ہوتا ہے، اس کا نام ماؤ ہے اور اس کی کلائی پہ پتے جیسا نشان بھی ہے۔ اب تم بتاؤ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟“
سونار ان کے قریب ہوا اور پھر وہ ماؤ کے سامنے جھک گیا۔ساتھ ہی اس کی لجاجت بھری آواز سنائی دی:
”اے عظیم ماؤ، میں آپ کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں۔“
ماؤ گڑبڑا گیا اور اسے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا:
”میں آپ کو نہیں جانتا، لیکن آپ میرے بارے میں کیسے جانتے ہیں؟“
”میں خفیہ علوم کا ماہر ہوں عظیم ماؤ، مجھے بلاد کہرمان کے جادوگر نے آپ کی تلاش پر مامور کیا ہے، کیوں کہ آپ جادوئی آواز کے مالک ہیں اور آپ کے منہ سے نکلنے والی آواز ہی سے خزانے والے غار کا دہانہ کھلے گا۔“سونار نے پوری تفصیل بتائی۔
”لیکن یہ بلاد کہرمان کہاں ہے اور میں وہاں تک کیسے پہنچوں گا؟“ماؤ نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
”بلاد کہرمان یہاں سے مشرق کی طرف واقع ہے اور اس طرف جانے کا راستہ نہایت خطرناک ہے۔“سونار نے کہا۔
”تو پھر میں کیسے جا سکتا ہوں؟؟ میں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا اور نہ ہی مجھے خزانے سے کوئی غرض ہے۔“ماؤ نے انکار کرنے والے انداز میں کہا۔
”ارے نہیں عظیم ماؤ، آپ بے فکر رہیں۔ آپ کے راستے میں آنے والی مشکلات کا حل اس میں ہے۔“ سونار نے یہ کہتے ہوئے ایک تھیلی اس کے سامنے لہرائی۔
”یہ کیا ہے؟“ وہ سب بولے۔
”اس تھیلی میں جادوئی دانے ہیں، راستے میں جو مشکل درپیش ہو تو اس میں سے ایک دانہ نکال کر کھا لینا، اسی وقت وہ مشکل دور ہو جائے گی۔ کاش آپ کے ساتھ میں بھی جاسکتا لیکن یہ شرط ہے کہ آپ اکیلے جائیں۔“ سونار نے حسرت بھرے انداز میں کہا۔
تھوڑی سی پس و پیش کے بعد ماؤ سونار کی باتوں میں آ گیا اور خزانے والے غار کی طرف جانے پہ رضامند ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے اس کے لیے سامان سفر تیار کیا اور اسے روانہ کر دیا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
ماؤ کو روانہ کرنے کے بعد وہ تینوں گھر میں بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔سنگ بولا:
”یار سونار، تم تو بہت بڑے ادا کار ہو۔“
”ہاہاہا“ سونار ہنسا۔
”ہاں واقعی سونار، مجھے تو یہ سب سچ لگنے لگا تھا۔“ پنگ نے کہا تو کاؤ بھی ہنس پڑا۔
”دیکھا میری ترکیب کیسے کامیاب رہی۔“کاؤ نے فخریہ انداز میں کہا۔
”ہاں بالکل مگر وہ جادوئی دانے کیسے تھے؟“ سنگ نے پوچھا۔
”وہ خطرناک زہر تھا دوستو، پہلا دانا کھاتے ہی ماؤ کا کام تمام ہو جائے گا۔“سونار نے بتایا۔
”اوہ“ وہ چونکے۔
”ہاں اور اب ہم اپنا گروہ بنا کر ڈاکے کی منصوبہ بندی شروع کریں۔“ کاؤ نے کہا تو وہ سب سر ہلانے لگے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
ماؤ کئی دن سے مسلسل سفر کر رہا تھا اور مشرق کی طرف چلتے ہوئے کئی شہر اور جنگل عبور کر چکا تھا، لیکن ابھی تک اسے بلاد کہرمان کا کوئی سراغ نہ ملا تھا، نہ ہی لوگ اس نام کے شہر سے واقف تھے، اور واقف بھی کیسے ہوتے، اس نام کا کوئی شہر روئے زمین پر موجود ہی نہیں تھا،کیوں کہ وہ سب تو سونار کا جھوٹ تھا۔ یہ آٹھواں روز تھا، شام ہو چکی تھی، اندھیرا پھیل رہا تھا، ماؤ درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس رکا اور یہیں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے گھوڑا درخت کے نیچے باندھا اور آگ جلانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کرنے لگا۔اچانک اس نے دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنیں اور گردوغبار اڑتے دیکھا۔ وہ فوراً ایک درخت پہ چڑھ گیا اور خود کو پتوں میں چھپا لیا۔ آوازیں قریب آنے لگیں اور پھر گھڑ سواروں کا ایک گروہ وہاں آن پہنچا، وہ سب تیز تیز آواز میں باتیں کر رہے تھے، جب انہوں نے وہاں ایک گھوڑے کو تنہا کھڑے دیکھا تو حیران ہوئے، ان کی آپس کی باتوں سے ماؤ پہ یہ انکشاف ہوا کہ وہ سب پیشہ ور ڈاکو ہیں اور ایک بادشاہ کے محل میں ڈاکا ڈال کر آئے ہیں۔ ماؤ یہ سن کر بہت خوف زدہ ہو گیا۔ گھڑ سوار ماؤ کے گھوڑے کی تلاشی لینے لگے اور ان کی نظر ماؤ کی جادوئی دانوں والی تھیلی پہ جم گئی۔ اس تھیلی پہ سونار نے لکھ دیا تھا۔
”جادوئی دانے، ایک دانہ دے شیر جیسی طاقت۔“
یہ پڑھ کر ڈاکو بہت خوش ہوئے اور باری باری دانے کھانے لگے۔ ساتھ ہی ان کے قہقہے بلند ہو رہے تھے،مگر اگلے لمحات بہت عجیب تھے، ماؤ نے ان سب کو گرتے ہوئے دیکھا، یوں لگ رہا تھا جیسے انہیں گہری نیند نے ڈھانپ لیا ہو۔ ماؤ نے سوچا صبح تک درخت پر ہی رہنا بہتر ہے، اور پھر یہ بھیانک رات گزر گئی۔ صبح ہوئی تو ماؤ نے نیچے جھانکا۔ سبھی ڈاکو ٹیڑھے میڑھے انداز میں پڑے ہوئے تھے، اور ان کے گھوڑے ہنہنا رہے تھے مگر کوئی بھی ڈاکو حرکت نہیں کر رہا تھا۔ ماؤ نے دیکھا کہ ایک دو گھوڑوں کے سم بھی ڈاکوؤں کو لگے مگر پھر بھی وہ نہ ہلے۔ تب ماؤ کو احساس ہوا کہ ڈاکو مر چکے ہیں۔ وہ لرزتا کانپتا نیچے اترا اور قریب آ کر دیکھا، سبھی ڈاکوؤں کے جسم نیلے پڑ چکے تھے اور ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
”اف،تو کیا سونار نے مجھے زہریلے دانے دئیے تھے؟؟“ماؤ سوچنے لگا۔
”اف، تو کیا اس نے سب کچھ جھوٹ کہا تھا؟؟ بلاد کہرمان اور سونے کا راز سب فریب تھا؟؟“
رفتہ رفتہ ماؤ پہ حقیقت کھل رہی تھی، وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے دوستوں نے اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے یہ ناٹک کیا تھا۔
اسے بے حد دکھ ہوا۔ اس نے ڈاکوؤں کی تلاشی لی اور اسے پتہ چل گیا کہ انہوں نے کس بادشاہ کا محل لوٹا ہے۔ اس نے دیکھا سب گھوڑے ہیرے جواہرات سے لدے ہوئے ہیں۔ اس نے سب کو رسی کی مدد سے قطار میں باندھا اور انہیں ہانکتا ہوا بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑا۔ ایک دن کے بعد وہ محل کے سامنے پہنچ گیا۔ بادشاہ کی ریاست میں اس ڈاکے کی وجہ سے سوگ کا سماں تھا،مگر جب ماؤ لوٹے ہوئے مال کے ساتھ لوٹا اور ساری کہانی گوش گزار کی تو بادشاہ بے حد خوش ہوا اور ماؤ کو اپنا وزیر بننے کی درخواست کی جس پہ ماؤ نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور یہ پیشکش قبول کر لی اور یوں نیک طبیعت ماؤ کو ایمان داری کے صلے میں وزارت مل گئی جب کہ اس کے لالچی دوستوں نے ڈاکہ زنی کا کام شروع کر دیا اور چند وارداتوں کے بعد ہی وہ پکڑے گئے اور انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ ماؤ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہا تھا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اچھی زندگی گزارنے کا موقع عطا کیا، اس نے عزم کیا کہ وہ ہمیشہ ایمان داری کو اپنا شعار بنائے گا۔