skip to Main Content

میں بے چارہ

کہانی: He was Sorry for Himself
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمی نے بونوں کو شکست دینے کے لیے عجیب وغریب حرکتیں شروع کردیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”اوہو! میرا گلا پھر خراب ہوگیا۔“ جرمی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ وہ بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور تھوک نگلنے کی کوشش کی۔ ”کیا مصیبت ہے! میرا گلا دکھ رہا ہے۔ آخر ان بیماریوں نے میرا ہی پیچھا کیوں پکڑلیا ہے۔ کس قدر بدقسمت لڑکا ہوں میں بھی!“
وہ دوبارہ لیٹ گیا اور جب اس کی امی اسے اسکول کے لیے اٹھانے آئیں تو وہ بہت غمگین اور پریشان نظر آرہا تھا۔ ”میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے امی! میرا گلا پھر خراب ہوگیا ہے۔“
”اوہو اچھا! مجھے دکھانا ذرا۔“ امی نے کہا۔ اس نے اپنا منھ کھول کر دکھایا۔ ”ہوں! ابھی اتنا خراب تو نہیں لگ رہا مگر بہتر ہوگا کہ تم آج اسکول نہ جاﺅ۔ ناشتہ کرکے تھوڑی دیر باہر دھوپ میں کھیلو، کودوگے تو خود کو بہتر محسوس کرو گے۔ اور ہاں آج گھر پر رہو گے تو اپنی سائیکل صاف کرلینا، بہت گندی ہورہی ہے۔“
جرمی امی کی باتیں سن کر مایوس ہوگیا۔ اس کے خیال میں امی کو اس کی زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی۔ ”مگر میں اُٹھنا نہیں چاہتا۔ میں خود کو بہت بیمار محسوس کررہا ہوں۔“ اس نے احتجاج کیا۔
”نہیں! تم اتنے بیمار نہیں ہو کہ اُٹھ بھی نہ سکو۔“ اس کی امی نے سختی سے کہا۔
”تم حسب معمول اپنے لیے ضرورت سے زیادہ پریشان ہورہے ہو۔ میں جانتی ہوں کہ تمھارا گلا بہت جلدی، جلدی خراب ہوتا ہے اور تم پچھلے دنوں کافی بیمار بھی رہے ہو لیکن تم بیماری کو اپنے سر پر سوار کرلیتے ہو اور جب کوئی خود ترسی کا شکار ہوجائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا، تمھیں اپنی بیماری سے لڑنے کی کوشش کرنی چاہے جرمی! پھر تم دیکھو گے کہ تم کتنی جلدی صحت یاب ہوتے ہو۔“
”لیکن میں بیماری سے نہیں لڑسکتا۔ میں اتنا مضبوط نہیں ہوں۔“ جرمی نے اُداسی سے کہا۔
”اوہ جرمی!“ اس کی امی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ ”کاش کہ تم اپنے آپ کو خود ترسی کی کیفیت سے کبھی باہر نکال سکو۔ تم اچھے بھلے ذہین ہو، اگر محنت کرو تو اپنی کلاس میں فرسٹ آسکتے ہو۔ پھر یہ تو دیکھو کہ تم کتنے خوش قسمت ہو۔ تمھارے پاس اچھا گھر ہے، تم اچھے اسکول میں پڑھتے ہو، تمھارے پاس کھلونے اور کتابیں ہیں، سواری کے لیے اپنی سائیکل ہے۔ اگر تم ان معمولی بیماریوں کو اپنے اوپر سوار کرنا چھوڑ دو تو یہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، مگر تم تو بس ہر وقت بستر میں لیٹے ہاے واے کرنا پسند کرتے ہو!“ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔
جرمی بستر میں لیٹا تیوریاں چڑھاتا رہ گیا۔ اسے امی کی باتیں بہت بُری لگی تھیں۔ ”امی کو میرا ذرا بھی خیال نہیں ہے، سب بچوں کی امیاں ان کا اتنا خیال رکھتی ہیں اور ایک میں بدقسمت ہوں!“ اس نے سوچا۔ ”اگر میں دوسرے بچوں کی طرح صحت مند اور مضبوط نہیں ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے!“ وہ مزید غمگین ہوگیا، تاہم وہ بستر سے اٹھ گیا کیوں کہ اس نے بھانپ لیا تھا کہ اگر وہ مزید لیٹا رہا تو امی سے ڈانٹ کھائے گا۔ ناشتے کے بعد وہ باہر برآمد میں نکلا۔
وہ ایک خوبصورت دن تھا۔ ”یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے کہ میں اتنا بیمار ہوں اور امی کہہ رہی ہیں کہ میں اپنی سائیکل کی صفائی کروں۔“ اس نے غصے سے سوچا اور کوشش کرکے زور سے کھانسا۔ شاید امی کو اس کے کھانسنے کی آواز آجائے اور وہ اسے دوبارہ بستر میں لیٹنے کو کہہ دیں!
”اس طرح مت کھانسو!“ امی نے کچن سے کہا۔ ”اس طرح تمھارا گلا اور خراب ہوگا اور یہ اتنا منھ کیوں لٹکایا ہوا ہے؟ جاﺅ، جا کر کھیلو، کودو۔“
جرمی کو بہت غصہ آیا۔ وہ اپنی سائیکل پر سوار ہوگیا۔ ”میں اپنی سائیکل لے کر بہت دور نکل جاﺅں گا اور گھنٹوں گھر سے باہر گزاروں گا۔“ اس نے سوچا۔ ”تب امی پریشان ہو کر سوچیں گی کہ میں کہاں غائب ہوں اور مجھ پر کیا گزری! پھر جب میں تھکا ہارا، بھوک پیاس سے نڈھال گھر واپس آﺅں گا تو تب امی کو میری حالت دیکھ کر افسوس ہوگا۔“ سائیکل چلاتے چلاتے وہ ایک ایسی سڑک تک جا پہنچا جہاں وہ آج تک نہیں آیا تھا۔ یہ سڑک بہت طویل تھی۔ جرمی اب کافی تھک چکا تھا۔ وہ سائیکل سے اتر کر ایک درخت کے ساے میں بیٹھ گیا۔ اس نے تھوک نکل کر اپنے گلے کی تکلیف کا اندازہ کیا۔ اسے خیال آیا کہ اس تکلیف کی وجہ سے شاید اس کے سر میں بھی درد شروع ہوجائے یا پھر بخار ہوجائے۔ وہ بے حد غمگین ہوگیا۔ کسی کو بھی اس کی پروا نہیں! اس نے سرد آہیں بھرنا شروع کردیں۔
”کیا ہوا؟ اتنی سرد آہیں کیوں بھر رہے ہو؟“ اچانک ایک آواز آئی تو جرمی اچھل پڑا۔ ایک گول مٹول چھوٹا سا آدمی جو قد میں جرمی سے بھی چھوٹا تھا، لال کپڑوں میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔
”تم کون ہو؟“ جرمی نے اسے گھورا۔ ”میں ایک بونا ہوں۔ اُمید ہے کہ تم نے کہانیوں میں میرا ذکر پڑھا ہوگا۔ میں اس درخت کے اندر رہتا ہوں جس کے آگے تم بیٹھے ہوئے ہو۔“ جرمی یہ سن کر حیران رہ گیا۔ اس نے پیچھے پلٹ کر درخت کی جانب دیکھا مگر اسے وہاں کوئی دروازہ نظر نہیں آیا۔ ”میرے گھر کا دروازہ اس درخت کے تنے میں ہے۔ یہ دور سے نظر نہیں آتا کیوں کہ اس کے اوپر بیل چھائی رہتی ہے۔ تم اندر چل کر تھوڑا آرام کرلو۔ تمھیں اس طرح بیٹھے دیکھ کر لگتا ہے جیسے تم بہت تھکے ہوئے ہو۔“ بونے نے کہا۔ ”ہاں!“ جرمی نے پھر ٹھنڈی آہ بھری۔ ”میں بہت تھکا ہوا ہو۔ میرا گلا بھی خراب ہے اور مجھے لگ رہا ہے جیسے میرے سر میں درد شروع ہونےو الا ہے۔ مجھے اس وقت اپنے بستر میں آرام کرنا چاہیے تھا مگر میری امی نے مجھے گھر سے باہر بھیج دیا۔ “
”چچ…. چچ“ بو نے ہمدردی سے کہا۔ ”تم اندر چل کر بیٹھو، میرے کچھ دوست آئے ہوئے ہیں جن کے لیے میں نے لیموں کا شربت بنایا ہے۔ اگر تمھارا گلا زیادہ خراب نہ ہو تو تم بھی ایک گلاس پی سکتے ہو۔“
”اوہ ہاں! میرا گلا اب اتنا بھی خراب نہیں۔ میں شربت ضرور پیوں گا۔“ جرمی نے جلدی سے کہا۔ بونے نے درخت کے تنے پر ڈھکی بیل کو ہٹایا اور جرمی کو وہاں ایک دروازہ دکھائی دینے لگا۔ بونے نے دروازہ کھول کر اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ درخت کا تنا اندر سے خاصا کشادہ تھا اور جرمی نے اپنے آپ کو ایک گول کمرے میں کھڑا پایا۔ کمرے میں دو اور بونے موجود تھے۔
”یہ کون لڑکا ہے؟“ ایک موٹے بونے نے پوچھا: ”یہ میرے گھر کے باہر بیٹھا آہیں بھر رہا تھا۔ یہ ایک اُداس لڑکا ہے جو بہت تھکا ہوا ہے، اس کا گلا بھی خراب ہے اور اس کا خیال ہے کہ بہت جلد اس کے سر میں درد بھی شروع ہونے والا ہے۔ اس کی امی نے اسے آرام کروانے کے بجاے اسے گھر سے باہر بھیج دیا ہے۔“
میزبان بونے نے تعارف کرایا۔ ”میں اس لڑکے کو جانتا ہو۔“ اسکارف والے بونے نے جرمی کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں اس کے گھر کے باغ میں رہتا ہوں۔ یہ وہی لڑکا ہے جس کے بارے میں تم لوگوں کو اکثر بتاتا رہتا ہوں۔ ارے وہی جو اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم خیال کرتا ہے۔“
”اوہ اچھا! تو یہ وہ لڑکا ہے۔“ وہ تینوں جرمی کو گھورنے لگے۔ ”حالاں کہ یہ ایک بہت خوش قسمت لڑکا ہے۔ اس کا گھر بہت خوبصورت ہے، محبت کرنے والے ماں باپ ہیں، اچھی سائیکل، کتابیں اور کھلونے ہیں، کھانے اور پینے کو ہمیشہ اچھا ملتا ہے مگر افسوس یہ سب کچھ اس کے کام کا نہیں کیوں کہ یہ تو ہر وقت غم زدہ رہنا پسند کرتا ہے مگر اس کو غمگین رہنے کے بہت کم مواقع ملتے ہیں جو واقعی اس کے لیے پریشانی کی بات ہوگی۔“
اسکارف والا بونا بولا: ”اگر یہ بدقسمت لڑکا ہوتا تو اس کو خود پر ترس کھانے میں بے حد لطف آتا۔ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ بدقسمتی اس کے ساتھ رہے۔“ باقی دو بونوں نے تائید میں سر ہلایا۔ جرمی یہ سب سن کر کچھ گھبرا سا گیا تھا۔ اس نے شربت کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ ”میرا خیال ہے….“ لیکن بونے نے اپنی باتیں کرنے میں اسی طرح مصروف رہے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو! ”ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو!“ میزبان بونے نے کہا۔ ”ہمیں اسے اُداس ہونے کے لیے کچھ اور وجوہ دینی چاہییں تاکہ یہ اُداس ہو کر خوش ہوسکے۔ ایسا کرنا اس کی مدد ہوگی۔“
”بالکل! مثال کے طور پر یہ خود کو کس قدر مظلوم خیال کرے گا اگر ہم اس کے محبت کرنے والے والدین اس سے دور کردیں؟ یا پھر اس کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا اس کی سائیکل چوری ہوجائے؟ اسی طرح اس کو اُداس ہونے اور واویلا کرنے کے بہت سے مواقع مل جائیں گے۔“ موٹے بونے نے سنجیدگی سے کہا۔
جرمی اب بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا تھا۔ اس نے اپنا گلاس نیچے رکھ د یا۔ ”مجھے تم لوگوں کی باتیں بالکل پسند نہیں آرہیں۔ اگر میرے ساتھ ہمیشہ کچھ بُرا ہوتا رہتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں جان بوجھ کر تو خود کو بیمار نہیں کرتا ہوں ناں؟“
”یہ سچ ہے لیکن دنیا کے سارے بچے کبھی نہ کبھی بیمار ضرور پڑتے ہیں لیکن تم بیماری کا مقابلہ کرنے کے بجاے خود کو بیماری کے حوالے کردیتے ہو بلکہ بیماری کو خود پر اتنا سوار کرلیتے ہو کہ خود کو بیمار اور لاچار محسوس کرکے خوش ہوتے ہو۔“ اسکارف والے بونے نے کہا۔ ”تم بزدل ہو اور ناشکرے بھی!“ میزبان بونے نے کہا۔ ”تم لوگ بہت بُرے ہو۔“ جرمی یہ کہہ کر دروازے کی طرف بھاگا۔ ”اب میں یہاں ایک منٹ بھی اور نہیں رک سکتا۔“ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ ”میں سیدھا گھر جا کر امی کو یہ سب بتاﺅں گا۔“ اس نے سوچا مگر یہ کیا؟ اس کی سائیکل غائب تھی۔ اس نے پاگلوں کی طرح پوری سڑک چھان ماری مگر سائیکل نہ ملنی تھی نہ ملی۔
”میری سائیکل چوری ہوگئی! اوہ ضرور یہ ان بونوں کی حرکت ہے!“ جرمی رونے لگا۔ ”میں بھی کس قدر بدقسمت لڑکا ہوں۔“ اچانک جھاڑیوں کے پیچھے سے اسے ایک طنزیہ آواز سنائی دی۔ ”کیا تم بے چارگی سے لطف اندوز ہورہے ہو جرمی؟ ابھی تو تم اور زیادہ افسوس محسوس کروگے۔ خوش ہوجاﺅ!“ جرمی نے اپنے پاﺅں پٹخے۔
”تم چپ رہو!“ وہ چلایا۔ ہنسنے کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ جرمی کو رونا آرہا تھا مگر وہ اب نہیں روئے گا! اس نے سوچا اگر وہ رویا تو بونوں کو خوش ہونے کا موقع ملے گا۔ ”میں یہاں سے پیدل گھر جاﺅں گا اور سیر کا لطف اٹھاﺅں گا۔“ وہ چلایا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ یہاں سے اس کا گھر بہت دور تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو واقعی بہت تھک چکا تھا۔ جوں ہی وہ گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوا، گھریلو ملازمہ نے ایک بُری خبر سنائی۔ ”اوہ جرمی! تم آگئے؟ تمھاری امی کو خبر ملی تھی کہ تمھارے ابو کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ وہ ہسپتال گئی ہوئی ہیں۔“
”اوہ!“ جرمی کے منھ سے نکلا۔ اس کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ بونے اب اس حد تک آگئے ہیں! وہ اس کو زیادہ سے زیادہ غمگین اور بے چارہ بنانا چاہتے ہیں۔ خیر! ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ زندگی میں پہلی بار وہ اپنے بجاے اپنے والدین کے لیے پریشان تھا۔
”تمھاری امی کو اتنی جلدی میں ہسپتال جانا پڑا۔“ ملازمہ نے اس کا کھانا میز پر رکھتے ہوئے کہا: ” وہ الماری کا سارا سامان باہر ہی چھوڑ گئیں جب یہ اطلاع ملی تو وہ الماری کی صفائی کے لیے سارا سامان باہر نکال رہی تھیں اور یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ الماری ٹھیک کرنے کے بعد وہ گیراج دھوئیں گی تاکہ تمھاری ابو کو چھٹی والے دن صفائی نہ کرنی پرے۔ اب دیکھو، ہسپتال سے کب تک لوٹتی ہیں۔ تمھارے لیے اُنھوں نے جاتے ہوئے پیغام دیا تھا کہ اگر تمھارا گلا زیادہ خراب ہے تو تم کھانا کھا کر بستر میں چلے جانا اور آرام کرنا۔“
”میں آرام نہیں کروں گا۔“ جرمی نے ایک دم سینہ پھلا کر باآواز بلند کہا جیسے کسی کو سنارہا ہو۔ ”میں کھانا کھا کر پہلے تو وہ الماری ٹھیک کروں گا جو امی ٹھیک کرنے جارہی تھیں اور پھر میں گیراج دھوﺅں گا۔ میں نے ابو کو گیراج دھوتے ہوئے اکثر دیکھا ہے اور میں آسانی سے یہ کام کرسکتا ہوں۔“
”مگر تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو جرمی!“ ملازمہ نے کہا۔
”وہ تو میں ہوں کیوں کہ میری سائیکل چوری ہوگئی ہے اور میں پورا راستہ پیدل چل کر آیا ہوں لیکن مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ اس وقت میں صرف امی اور ابو کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں جیسے بھی ہوسکے۔“ جرمی احساس جرم کا شکار تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ بدقسمتی بونوں کی لائی ہوئی ہے۔ وہ اسے غمگین دیکھنا چاہتے تھے اور یوں اس کی وجہ سے پورا گھر ڈسٹرب ہورہا تھا۔ مگر وہ خود کو بے چارہ نہیں سمجھے گا۔ وہ بونوں کو دکھادے گا کہ وہ حالات کا مقابلہ جواں مردی سے کرسکتا ہے۔ وہ کوئی ننھا بچہ نہیں ہے۔ وہ اپنے گلے کی تکلیف بھول چکا تھا۔ اس کا سر بھی درد نہیں کررہا تھا۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پہلے الماری ٹھیک کی اور پھر گیراج دھویا۔ اس نے اپنے والد کی گاڑی صاف کی اور کمروں میں جھاڑو لگائی۔ ”مجھے پتا نہیں تھا کہ تم اچھے اچھے اور ذمہ دار لڑکے ہو۔“ ملازمہ نے کہا۔ ”میں تو تمھیں ہر وقت بیمار رہنے والا ایک ننھا اور کمزور بچہ خیال کرتی تھی۔ آج تم بہت مختلف لگ رہے ہو جرمی! بہت مضبوط اور سمجھدار!“
”وہ تو میں ہوں۔“ جرمی نے باغ کی طرف منھ کرکے باآواز بلند کہا۔ ”اور اگر اس گھر میں کسی نے مجھے کمزور لاچار سمجھنے کی کوشش کی تو اچھا نہ ہوگا۔“ ملازمہ اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ جرمی تھکا ہارا، منھ بسورتا جب گھر لوٹے گا تو یہ بُری خبر سن کر روتا، دھوتا بستر میں گھس جائے گا مگر وہ تو کسی سمجھدار بڑے لڑکے کی طرح ماں باپ کی جگہ گھر کی دیکھ بھال کررہا تھا۔
اسی وقت ایک ٹیکسی دروازے پر آکر رکی۔ جرمی دوڑ کر باہر گیا۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ کیا اس کے والد بہت زیادہ زخمی ہوں گے؟ کیا اس کی امی بہت زیادہ پریشان ہوں گی؟ اس کی امی پہلے باہر نکلیں اور پھر اس کے والد کو سہارا دے کر ٹیکس سے باہر اتارا۔ وہ لنگڑا کر چل رہے تھے مگر وہ کہیں سے بھی بیمار نہیں لگ رہے تھے۔
”ہیلو جرمی!“ وہ بولے۔ ”اُمید ہے کہ تم یہ خیال نہیں کررہے ہوگے کہ میں کسی گاڑی کے نیچے آگیا ہوں گا یا ایسا ہی کوئی خوفناک حادثہ میرے ساتھ پیش آیا ہوگا۔ نہیں! میں صرف دفتر کی سیڑھیوں سے نیچے گر گیا تھا اور میرے پاﺅں میں موچ آگئی ہے لیکن میں چند ہی روز میں ان شاءاللہ بالکل ٹھیک ہوجاﺅں گا۔“
جرمی نے اطمینان کا سانس کھینچا۔ اب وہ اتنا بھی بدقسمت نہیں تھا!
”تمھاری اب کیسی طبیعت ہے جرمی؟“ اس کی امی نے پوچھا۔ ”میں بالکل ٹھیک ہوں امی!“ اس نے سر اُٹھا کر مضبوط لہجے میں کہا۔ ”میں آپ لوگوں کے پیچھے سارا دن گھر کی دیکھ بھال میں مصروف رہا۔“ یہ سن کر اس کی امی بے حد خوش ہوئیں۔ اس کے ابو نے اس کے گلے کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔ ”جانتے ہو بیٹا؟ آج جب میں دفتر کی سیڑھیوں سے گر پڑا تو میں نے سوچا، اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میں جرمی پر اتنا بھروسہ نہیں کرسکتا کہ وہ میرے پیچھے اپنی امی کو اور گھر کو سنبھال سکے کیوں کہ تم تو خود ہر وقت اتنا پریشان اور بیمار رہتے ہو لیکن اب میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میرا بیٹا بہت بہادر اور ذمہ دار ہے۔“
”جی ہاں! آپ مجھ پر بھروسہ کرسکتے ہیں ابو!“ جرمی نے مضبوط لہجے میں کہا اور اس نے یہ کرکے دکھایا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top