skip to Main Content

لوٹ مار

نوشاد عادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سر جھکائے سڑک کے کنارے چل رہا تھا۔ سڑک کے دونوں جانب بلند عمارتیں اور خوبصورت دوکانیں اس کی غربت کا مذاق اڑاتی محسوس ہورہی تھیں۔ ٹریفک معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ فٹ پاتھ پہ لوگوں کی آمدوروفت جاری تھی۔ لیکن اس کا دھیان اپنے گھر کی طرف لگا ہوا تھا۔ گھر میں مفلسی اور غربت کا ٹھکانہ تھا۔ تفکرات اور پریشانیوں کے سواء اس گھر میں کچھ بھی تو نہ تھا۔ اسے رہ رہ کر یہ خیال کچو کے لگا رہا تھا کہ گھر میں اس کی بیوی اور تین بچے اس کا انتظار کر رہے ہونگے۔ کیونکہ انہوں نے دو دنوں سے کچھ بھی نہ کھایا تھا۔ وہ خود بھی بھوکا تھا۔
وہ مزدوری کرتا تھا جس جگہ وہ گزشتہ دنوں کام کر رہا تھا وہاں کام مکمل ہونے کے بعد تمام مزدوروں کو فارغ کردیا گیا تھا۔ تقدیر بھی اس سے نالاں تھی۔ اس لئے اسے تین دن سے کوئی کام نہیں ملا تھا۔ تھوڑی بہت جمع پونجی تھی جو کہ خرچ ہوگئی تھی۔ ہر چیز پر صبر کرلیا تھا۔ مگر بھوک پر صبر کیسے کیا جائے۔ بار بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے بچوں کے سسکتے ہوئے چہرے گھوم رہے تھے۔ جو اس سے روٹی کا تقاضا کر رہے تھے۔ اس نے کئی جگہ کام دیکھا مگر اس کے لئے کوئی کام نہیں تھا۔ اس کی کسی سے جان پہچان بھی نہ تھی۔ کہ کچھ روپے ادھار مانگ لیتا۔
سب سے پہلے وہ ایک آئل ڈپو پر رکا تھا وہاں کئی ٹرک گدھا گاڑیاں اور سوزوکیاں کھڑی تھیں۔ ان گاڑیوں پر تیل کے ڈرم چڑھائے جارہے تھے۔ بہت سے مزدور اس کام میں لگے ہوئے تھے۔ دو تین آدمی چبوترے پر کھڑے تھے اور مزدوروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ اس نے کچھ لمحے رک کر سوچا اور پھر چبوترے پر کھڑے آدمیوں کی طرف بڑھنے لگا ایک آدمی چلا رہا تھا۔
’’دیکھ کے کالے خاں۔۔۔ آنکھیں کھول کے ابھی ڈرم گر جاتا۔۔۔ دھیان سے کام کرو۔۔۔ ٹانگ وانگ ٹوٹ جاتی تو بلاوجہ کی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔۔۔ اوئے لمبو۔۔۔ تختہ سیدھا کر ۔۔۔ اینٹ لگا نیچے۔۔۔ ہاں چھوڑ دے بس ٹھیک ہے۔۔۔‘‘
دوسرا آدمی بھی اس کے قریب کھڑا تھا بولا ’’اوئے لمبو۔۔۔ اس سوزوکی میں کتنے ڈرم رکھے ہیں۔۔۔‘‘
’’پانچ‘‘ لمبو نے گن کر بتایا‘‘ آپ نے پانچ ہی کہے تھے ناجی۔۔۔؟‘‘
’’چھ کہے تھے۔۔۔ ایک اور چڑھا دو‘‘ دوسرے آدمی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رجسٹر دیکھا ’’لیکن صاحب جی۔۔۔ ایک اور کیسے آئے گا؟۔۔۔ اب جگہ کہاں ہے۔۔۔‘‘
’’صاحب جیسا بولیں ویسا ہی کیا کر۔۔۔ بیچ میں پخ پخ مت کیا کر‘‘’’پہلا آدمی جو غالباً سیٹھ صاحب کا چمچہ تھا جھنجھلا کر بولا‘‘۔ وہ امیدو وہم کا شکار چبوترے کے پاس پہنچا اور آس بھری نظروں سے ان آدمیوں کی طرف دیکھنے لگا کئی منٹ پس وپیش میں گزر گئے۔ آخر اس نے التجائیہ لہجے میں انہیں مخاطب کیا ’’صاحب جی۔۔۔ صاحب جی۔۔۔‘‘
صاحب جی رجسٹر میں غرق مغز ماری کر رہے تھے۔ اس کی طرف متوجہ ہوکر بولے ’’کیا ہوا بھئی؟ ۔۔۔ کون ہو تم؟‘‘
’’صاحب جی۔۔۔ اس نے بمشکل تھوک نگلا‘‘ میں مزدور آدمی ہوں جی۔۔۔ یہاں کوئی کام مل جائے گا‘‘
اتنے میں باقی دونوں آدمی بھی اسے مڑ کر حقارت بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’کام کرو گے۔۔۔ رجسٹر والے صاحب نے کہا کوئی ہے یہاں تمہارا جاننے والا۔۔۔‘‘
’’جاننے والا۔۔۔ نہیں جی۔۔۔ کوئی نہیں ہے۔۔۔‘‘ اس نے لاچارگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’تو پھر چل دو۔۔۔ بغیر ضمانت یا جان پہچان کے یہاں کوئی مزدور کام نہیں کرسکتا۔۔۔ ان صاحب نے سخت لہجے میں کہا۔
’’مگر جناب عالی میں۔۔۔‘‘ وہ ہکلانے لگا میں کا کچا دھاگہ ٹوٹ رہا تھا۔
’’کیا ہوا اقبال صاحب کون ہے یہ بندہ۔۔۔؟‘‘ کالے خان کپڑے سے میلا منہ پونچھتے ہوئے قریب آیا۔
’’پتا نہیں کون ہے ایسے ہی منہ اٹھا کر چلا آیا۔۔۔ کام چاہئے۔۔۔‘‘ اقبال صاحب کے انداز واطوار میں نفرت تھی۔
’’میں جانتا ہوں اقبال صاحب ایسے بھکاریوں۔۔۔‘‘ کالے خان نے اسے سر تاپا کڑے تیوروں سے گھورا‘‘ کام کرتے ہیں اور پھر موقع پاکر کوئی قیمتی شے بھی چوری کرلیتے ہیں۔۔۔
چل بھئی۔۔۔چل دے یہاں سے۔۔۔ شکل دیکھ جاکہ اپنی آئینے میں۔۔۔ کوئی مفت میں بھی کام نہیں کروائے گا۔۔۔ چل پھٹا کھا۔۔۔‘‘ کالے خان نے چٹکی بجا کر ہاتھ ہلایا۔
وہ اپنے ٹوٹے ہوئے دل کی کرچیاں سمیٹتا ہوا وہاں سے چل دیا۔ اپنی بے عزتی کا اسے کوئی ملال نہیں تھا۔ کیونکہ یہ بڑے لوگ اور بڑے لوگوں کے چمچے غریبوں کا اسی طرح مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی دل آزاری کرتے ہیں۔ اسے افسوس کام نہ ملنے کا تھا۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ کیونکہ گھر میں بھوک کے جال میں پھنسے ہوئے چہرے اس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھیں گے تب وہ کیا کرے گا؟ کیا جواب دے گا؟ کس طرح ان بھوکے اسیروں کو رہائی دلائے گا؟
اس پر مایوس کی بڑی چادر آن پڑی تھی جس نے اس کے پورے وجود کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ چلتا رہا۔ کئی جگہ اس نے کام کی بات کی۔ مگر کہیں صرف دو ٹوک الفاظ میں منع کردیا گیا اور کہیں بے حد ذلیل کیا گیا۔ اس کی ذہنی کیفیت کا یہ عالم ہوگیا کہ وہ سنجیدگی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ بار بار مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار موت کو گلے لگا لیا جائے۔
وہ سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا اس نے سامنے سے ایک کار کو آتے دیکھا۔ وہ بھاگ کر سڑک کے درمیان آگیا۔ قسمت بھی اس کے ساتھ مذاق کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ نہ جینے دیتی تھی اور نہ مرنے دیتی تھی۔ کار والے نے اسے مہارت سے بچا لیا اور کچھ فاصلے پر کار روک کر اسے بے نقط سنانے لگا۔ وہ جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ جینا تو عذاب ہی ہے اب مرنا بھی سزا بن گیا تھا۔ اچانک اس کے اندر سے آواز گونجی۔
’’احمق۔۔۔ کیوں اپنی زندگی کے پیچھے پڑ گیا ہے۔۔۔ تو تو مرے گاہی لیکن تیرے ساتھ چار زندگیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ جو گھر پر تیرا انتظار کررہی ہیں۔۔۔ انہیں کس کے آسرے پر چھوڑے جارہا ہے ۔۔۔؟ سوچا ہے تونے؟۔۔۔ جب تو ان کے لئے کچھ نہیں کر پایا تو وہ خود کیا کریں گے۔۔۔ چل چھوڑ دے یہ حماقت۔۔۔ چھوڑ دے۔۔۔‘‘
اسے اب احساس ہوگیا تھا کہ اس کی پریشانیوں کا حل خودکشی نہیں ہے۔ وہ تو مر جاتا تمام دنیاوی جھنجھٹوں سے نجات حاصل کرلیتا لیکن اس کے بیوی بچے جس طرح دربدر کی ٹھوکریں کھا کھا کر زندہ در بدر ہوجائیں اس کا تصور ہی لرزہ خیز تھا۔ اسے اپنے اس بزدلانہ فیصلے پر افسوس ہوا۔ وہ سوچ بچار میں الجھا ہوا عالیشان بنگلوں کی طرف نکل آیا۔ کچھ دیر کے لئے وہ اپنا دکھ بھول کر ان بنگلوں کو دیکھنے لگا۔ اچانک ۔۔۔ بالکل اچانک اس کے۔۔۔ دماغ میں شعلہ بھڑکا وہ خود بھی ششدر رہ گیا۔
چوری۔۔۔؟ مگر بھلا میں چوری کیسے کرسکتا ہون۔۔۔؟ وہ زیر لب خود کلامی کرنے لگا مگر اس کے اندر شیطان جا بیٹھا جو اسے چوری جیسے قبیح فعل کی طرف اکسانے لگا۔ آخر کار وہ سنجیدہ ہوگیا۔ بہت دیکھ بھال کر وہ ایک بنگلے میں داخل ہوگیا۔ وہاں کئی ملازمین بھی تھے۔ مگر اس نے بہت ہوشیاری سے بہت سی قیمتی اشیاء چرالیں اور اپنے بڑے سے میلے رومال میں لپیٹ کر گٹھڑی بنالی۔ واپسی کے لئے اس نے عقبی راستے کو ترجیح دی۔
ڈرائینگ روم کے دروازے کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے چند آدمیوں کی آوازیں سنیں۔ نہ جانے اس کے ذہن میں کیا آئی وہ کان لگا کر ان کی باتیں سننے لگا۔
’’اور امین سیٹھ۔۔۔ تم سناؤ تمہارا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ دونوں ہاتھوں سے کما رہے ہو تم۔۔۔‘‘ کسی آدمی کی آواز سنائی دی ’’کون سے کاروبار کا پوچھ رہے ہو تحریم صاحب۔۔۔؟‘‘ سیٹھ امین کا ہلکا سا قہقہہ ابھرا کوئی ایک کاروبار ہے کیا۔۔۔ سارے کاروبار اے ون چل رہے ہیں۔۔۔ اے ون‘‘۔
’’دو نمبرکے کاروبار کرتے ہو۔۔۔ تمہارے کئی کارخانوں میں د و نمبر کی چیزیں بنتی ہیں پھر بھی کاروبار بہترین چل رہے ہیں‘‘ یہ تیسرے شخص کی حیرت زدہ آواز تھی۔
’’سکندر صاحب۔۔۔ آج کل زمانہ ہی دو نمبر کا ہے۔۔۔ کون ایسا شریف ہے جو آج کل کے دور میں بے ایمانی نہیں کرتا۔۔۔ دو نمبر کا مال بنا کر نہیں بیچتا؟ ڈھونڈنے نکلو گے تو ایک بھی شریف اور ایماندار نہیں ملے گا۔۔۔ آپ ہو کس دنیا میں ۔۔۔ سب لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ پیسہ آنا چاہئے اور بس۔۔۔ اگر میں دو نمبر کا کاروبار کرتا ہوں تو کون سا پہاڑ گر گیا اور پھر سکندر صاحب آپ بھی تو ۔۔۔‘‘ سیٹھ امین نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’بھئی اب آپ نے بات کلیئر کردی ہے تو پھر ہم کیوں چھپائیں گے‘‘ سکندر صاحب نے شرمندہ ہوئے بغیر کہا‘‘ ہم بھی اسی دنیا کے باسی ہیں اسی ملک میں رہتے ہیں ۔۔۔ہم نے بھی اپنا پیٹ پالنا ہے۔۔۔ ورنہ بھوکے مریں گے۔۔۔‘‘
وہ کھڑکی کے پاس کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔ اور اپنی جگہ منجمد ہوکر رہ گیا تھا۔ وہ تو یہاں چوری کرنے آیا تھا مگر یہاں آکر معلوم پڑا کہ اس جگہ تو بڑے بڑے ڈاکو موجود ہیں۔
سفید پوش چور اور معزز ڈاکو۔۔۔ اس سے قبل وہ حرکت میں آتا اسے دو ہاتھو ں نے جکڑ لیا۔ اس کے بدن سے پسینہ بہہ نکلا۔ خوف ودہشت کے مارے اس کے ہاتھوں سے گٹھڑی چھوٹ گئی۔ اسے عقب سے جکڑنے والا کوئی ملازم تھا۔ ملازم نے اسے پکڑتے ہی شور مچا دیا۔
وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کے حلق سے ڈری سہمی آوازیں نکل رہی تھیں۔ معزز لوگ اور دوسرے ملازمین بھی وہاں آگئے۔
’’صاحب جی۔۔۔صاحب جی۔۔۔ یہ چور ہے۔۔۔ میں نے جی۔۔۔ اسے خود پکڑا ہے‘‘ ملازم اپنا کارنامہ سنانے لگا۔
’’ٹہرو۔۔۔ اس کا دھیان رکھو۔۔۔ میں ابھی پولیس کو فون کرتا ہوں’’ سیٹھ صاحب نے جاکر پولیس کو فون کردیا۔
’’جناب عالیٰ۔۔۔ میں مجبور تھا‘‘ وہ گڑ گڑاتا ہوا سیٹھ کے قدموں میں گر گیا‘‘ میرے بچے دو وقت سے بھوکے ہیں سیٹھ جی۔۔۔ مجھے معاف کردیں۔۔۔‘‘
’’دفع ہو۔۔۔ ہٹ یہاں سے۔۔۔‘‘ سیٹھ صاحب نے حقارت سے ٹھوکر ماری۔
وہ روتا رہ گیا پولیس آئی۔ نہ سلام نہ دعا آتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ دے دھنا دھن شروع ہوگئے۔�آخر اتنا خطرناک ڈاکو پکڑا تھا۔ کوئی مذاق بات تھوڑی تھی۔ ان جوانوں نے اس جگہ اس سے دس پندرہ ڈاکے منوالئے۔ جب اس نے اس علاقے میں گزشتہ تین سال سے ہونے والی تمام ڈکیتیاں اپنے ذمہ لے لیں تو انسپکٹر صاحب فرمانے لگے۔
’’لوجی سیٹھ صاحب۔۔۔ یہ تو بڑا مشہور اور خطرناک ڈاکو نکلا‘‘ انسپکٹر نے مونچھوں کو نوکیلیں دیتے ہوئے کہا ’’آپ نے دیکھا۔۔۔ اس ڈکیت نے کتنی لوٹ مار مچائی ہوئی تھی۔۔۔ آج تک قانون کو دھوکا دیتا رہا۔۔۔‘‘ 
سیٹھ صاحب نے ہونٹ سیکڑلئے‘‘ اسے اتنے سال کی سزا دو کہ جب یہ باہر آئے تو اپنا ماضی بھول جائے۔۔۔‘‘
’’سال۔۔۔ انسپکٹر ہنسا‘‘ وہ تو سیٹھ جی۔۔۔ یہ ابھی تھانے جاکر پندرہ منٹ میں اپنا ماضی بھول جائے گا اور آپ سال کی بات کر رہے ہیں ہم بڑے مصروف لوگ ہیں جی۔۔۔ اتنا وقت نہیں ہمارے پاس کہ ہم سال بھر اس میں سر کھپائیں‘‘۔
اچانک وہ جوش سے پھٹ پڑا۔ بہت دیر سے سن کر ضبط کررکھا تھا ’’انسپکٹر صاحب جی ۔۔۔ پکڑنا ہے تو پہلے ان سیٹھوں کو پکڑو۔۔۔ یہ تو سب سے بڑے ڈکیت ہیں۔۔۔ یہ تو ہزاروں لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔۔۔ میں نے خود سنی ہیں جی ان کی باتیں۔۔۔ یہ سب دو نمبر کا کاروبار کرتے ہیں۔۔۔ شریف بن کر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔۔۔ تم ان کو کیوں نہیں پکڑتے۔۔۔؟ کیا ان لوگوں کے لئے کوئی قانون نہیں بنا ہے؟ ۔۔۔ قانون صرف کمزوروں اور غریبوں کے لئے ہے۔۔۔؟ وہ چلانے لگا۔
’’بکواس بند کر خبیث کے پتر۔۔۔‘‘ انسپکٹر نے طیش میں آکر کئی لاتیں اور اس کے پہلو میں جڑدیں۔ ’’شرفاء پر الزام لگاتا ہے۔۔۔ ہیں؟ تو چل ذرا تھانے۔۔۔ پھر دیکھ ذرا اپنا حشر۔ پولیس والے اس خطرناک ڈاکو کو بالوں سے پکڑ کر لے گئے۔ ڈاکو کی باتیں سن کر معزز سیٹھوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔ وہ بوکھلا گئے تھے۔ مگر جب پولیس اسے لے گئی تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ پولیس نے ڈاکو کی باتوں پر کان نہیں دھرے۔ دھرے تو صرف دو چار ہاتھ دھرے اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے چھوٹی سی چوری کی تھی۔ وہ سیٹھ امین اور سیٹھ تحریم کی طرح بڑا لیٹرا نہیں تھا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top