خاکی لفافہ
کہانی: At Rushy Bridge
مصنفہ:Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
ہر روز ننھا ٹام اپنی امی کے لیے شاپنگ کرنے دوسرے قصبے جایا کرتا تھا۔ دوسرے قصبے جانے کا راستہ ایک پل پر سے ہو کر گزرتا تھا۔ یہ پل محض ایک تختہ تھا جو نہر کے دو پاٹوں کو ملاتا تھا۔ ایک موٹا بھتنا ہر روز ٹام کو اس پل سے گزرتے دیکھتا تھا۔ ٹام کی سامان سے بھری ٹوکری دیکھ کر اُس کے منہ میں پانی آجا تا تھا۔
”وہ بہت چھوٹا ہے۔ میں اُسے ڈرا دھمکا کر اُس کا سامان چھین سکتا ہوں۔“بھتنے نے ایک دن فیصلہ کیا۔ چنانچہ اگلی شام وہ پل پر موجود تھا۔
”شام بخیر!“ٹام نے کچھ خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”شام بخیر!“ بھتنے نے کہا۔”اگر تم پل پار کرنا چاہتے ہو تو تمھیں مجھے اپنا تھیلا دینا ہو گا۔“
”ہر گز نہیں!“ ٹام نے فوراً کہا۔
”ٹھیک ہے! پھر تم آج رات گھر نہیں جا سکو گے۔“ بھتنے نے کہا اور پل پر راستہ روک کر بیٹھ گیا۔ مجبوراً ٹام کو اپنا تھیلا بھتنے کے حوالے کرنا پڑا جس کے اندر ایک کشمش والا کیک تھا۔
”مجھے کیک پسند ہے لیکن کشمش نہیں۔“ بھتنے نے ناک بھوں چڑھا کر کہا اور کیک لے کرآگے چل پڑا۔ ٹام جو اس کے پیچھے چل رہا تھا، فور اًبولا:
”مجھے اس میں سے کشمش علیحدہ کرنے دو۔“ بھتنے نے کیک ٹام کے حوالے کر دیا لیکن ٹام نے کیک پکڑتے ہی ایک جست لگائی اور بھتنے سے آگے نکل گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ بھتنے کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔
اگلی شام بھتناپل پر موجود تھا۔
”مجھے اپنا تھیلا دو۔ میں تمھیں کل شام کیک لے کر بھاگ جانے کی سخت سزا دوں گا۔“ اس نے ٹام کو دیکھتے ہی دھمکایا۔
ٹام نے چاروناچار اپنی ٹوکری بھتنے کے حوالے کر دی۔ ٹوکری میں گوشت، مکھن اور پھل تھے۔ بھتنے نے ٹوکری میں جھانک کر ٹام کو جانے کی اجازت دے دی۔ ٹام اُس کے پیچھے پیچھے چلا۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بھتنے پرحملہ کر دے لیکن بھتنا اُس سے زیادہ طاقت ور تھا۔ پھر اچانک ہی ایک ترکیب اُس کے دماغ میں آئی۔
یہ ترکیب بارش کے پانی سے بھرا ایک گڑھا دیکھ کر آئی تھی۔ وہ نیچے جھکا، اپنے دونوں ہاتھ پانی سے بھرے اور وہ سارا پانی بھتنے کے سر پر پھینک دیا جو اُس کے آگے آگے چل رہا تھا۔ بھتنا ٹھٹک کر رک گیا۔ ٹام نے پیچھے سے اور پانی پھینکا۔
”اوہ! بارش شروع ہوگئی اور میں نے اپنا بہترین سوٹ پہنا ہوا ہے۔“ وہ بڑبڑایا۔
”جلدی سے اپنی چھتری کھول لو ورنہ سوٹ برباد ہو جائے گا۔ ٹام نے پیچھے سے مشورہ دیا۔
بھتنے کی چھتری اُس کی بغل میں دبی ہوئی تھی۔ اُس نے سامان کی ٹوکری نیچے رکھی اور اپنی چھتری کھولنے لگا۔ چھتری کھول کر اُس نے ادھر اُدھر دیکھا۔
”ارے! میں نے اپنی ٹوکری کہاں رکھ دی؟“
لیکن ٹوکری جس کی تھی، وہ اُسے لے کر کب کا نو دو گیارہ ہو چکا تھا۔ اس وقت سورج بادلوں میں سے نکل آیا اور بھتنا یہ بھی جان گیا کہ اُسے چھتری کھولنے کے لیے رُکنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ وہ غصے سے پاؤں پٹختا رہ گیا۔
اگلے دن بھتنا پھر پل پر موجود تھا اور بہت غصے میں نظر آرہا تھا۔ ٹام کے پاس آج ایک خاکی لفافہ تھا۔ بھتنے نے جھپٹا مار کر کاغذ کا وہ بڑا سا لفافہ چھین لیا۔
”میں اپنا یہ پارسل بھی تم سے لے لوں گا۔ کیوں کہ تم بہت بے وقوف ہو۔ میں ہمیشہ تم سے جیت جاتا ہوں۔ اس پارسل کو مجھ سے بچانے کا واحد طریقہ تو بس یہ ہے کہ تم اس کو زمین پر رکھ کے اس کے اوپر جم کر بیٹھ جاؤ اور جب میں تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جاؤں تب اسے لے کر چلے جاؤ۔ لیکن یہ بات تمھاری عقل میں کب آئے گی!ہاہا!“ ٹام بے خوفی سے ہنسا۔
”بے وقوف تو تم ہو جو مجھے اتنا ز بر دست طریقہ بتا دیا۔ میں اب یہی کروں گا۔“ بھتنے نے کہا اور پارسل زمین پر رکھ اُس کے اوپر بیٹھ گیا لیکن فوراً ہی درد کے مارے چلا اٹھا:
”اوہ! یہ مجھے کیا چبھ رہا ہے؟ اس پارسل میں کیا ہے؟“
”میری پالتو خار پشت! جو آج تم سے میرا بدلہ لینے آئی ہے۔ کہو! اس پر بیٹھنے کا مزہ آیا؟ اس کے تمام کانٹے تھیلا پھاڑ کر باہر نکل آئے ہیں اور اب تم اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔“ ٹام ہنس کر بولا۔
”اسے ہٹاؤ! میں وعدہ کرتا ہوں، آئندہ تم کو کبھی نہیں روکوں گا۔“ بھتنے نے روتے ہوئے کہا۔ لہٰذا ٹام نے اپنی پالتو خار پشت کو کھینچا اور دونوں گھر کی طرف چل پڑے۔
”اب وہ کبھی میرا سامان چھیننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ کیوں کہ ظالم لوگ ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں۔“ ٹام نے اپنی خار پشت کو بتایا اور ایسا ہی ہوا۔