skip to Main Content

کراماتی مرتبان

عراق کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
شہر بغداد میں ایک دستکارر ہتا تھا۔ اللہ نے اسے ایسے ہنر مند ہاتھ عطا کئے تھے کہ ان سے بنانرم و ملائم کپڑا ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔ اسکی تین بیٹیاں بھی تھیں۔ دو بیٹیاں پہلی بیوی سے تھیں۔ جس کے مرنے کے بعد اس نے دوسری شادی کی تو اللہ نے ایک اور بیٹی عطا کی۔ دوسری بیوی بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہی اور کچھ عرصے بعد باپ بھی چل بسا اور تینوں لڑکیاں دنیامیں تنہا رہ گئیں۔ تینوں بہنیں فہیمہ، عقیلہ اور زبیدہ کچھ دن بہت غمگین رہیں اور پھر زندگی گزارنے کے لئے انہوں نے باپ کا کام سنبھال لیا۔ زبیدہ تھی تو سب سے چھوٹی پر بہت سمجھدارتھی۔ اس نے محسوس کیا کہ بڑی بہنوں کا رو یہ ا س سے کچھ بیگانگی کا رویہ لئے ہوئے ہے اور انہوں نے تقسیم کار کچھ ایسے کی ہے کہ کام کا زیاد ہ تر بوجھ اس پہ آ پڑا ہے۔ کپڑابننے کی ذمہ داری زبید ہ پہ تھی اور جب کپڑا تیار ہو جا تا تو دونوں بڑی بہنیں اسے بازار بیچنے چل پڑ تیں اوراتنی دیر لگا کر لوٹتیں کہ کھانا پکانا اور گھر کے باقی سارے امور بھی اسے ہی نمٹانے پڑتے۔ لیکن بیچاری خاموش ہی رہتی۔ اس پہ بھی دونوں بہنیں اسے بہانے بہانے سناتی رہتیں کہ کپڑے میں بہت نقص تھے۔ بہت سے دکاندار تو کپڑا لینے کو تیار ہی نہ تھے۔ بہت مشکل سے ایک دکاندار لینے کو تیار ہوا تو پیسے بہت کم ملے ہیں۔ زبیدہ اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ محنت کر کے کپڑ ابنتی مگر نتیجہ وہی رہتا کہ بہت خراب بنائی تھی۔ زبیدہ دن بہ دن تنہا اور پر یشان ہوتی جارہی تھی۔ بہنیں سید ھے منہ بات نہ کرتی تھیں نہ ہی اسے گھر سے باہر نکلنے کا موقع ملتا تھا۔ ایک دن کیا ہوا کہ جب بہنوں کو بازار جانا تھا تو انہیں پھُک کر بخار چڑھ گیا۔ گھر میں نہ پیسے تھے نہ ہی کھانے پینے کا سامان۔مجبور اًز بیدہ کو بازار جانا پڑا۔ وہاں جا کر وہ حیران رہ گئی کیونکہ ہر دکاندار اسے بلار ہا تھا کہ وہ پہلے اسکی دکان پہ آئے۔ سب کی نظر یں اس کپڑے کے تھان پہ جمی تھیں جوز بیدہ کے ہاتھ میں تھا۔ کئی دکانداروں نے اس سے پوچھا بھی کہ”بہن جی! آج آپ اکیلی آئی ہیں؟“ برقعے کی وجہ سے سب اسے بڑی دو بہنوں میں سے ایک سمجھ رہے تھے۔ زبیدہ نے پورے بازار کا چکر لگایا تو اسے پتہ چلا کہ اسکے بنے کپڑے کی اس قد ر مانگ ہے کہ ہر کوئی منہ مانگے دام دینے کو تیار ہے۔ حیران پریشان زبیدہ نے اس دکاندار کے ہاتھ تھان بیچا جوسب سے زیادہ دام دینے کو تیار تھا۔ پیسے اتنے زیادہ تھے کہ دو تین ہفتے با آسانی گزارہ ہوسکتا تھا۔
اس نے پھل،سبزیاں،مٹھائی اور بہت کچھ خریدا۔ حکیم صاحب سے بخار کی دوا بھی لی۔ ابھی بھی اسکے پاس کا فی پیسے تھے۔ وہ ادھر ادھر دیکھتی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ اچا نک زیورات کی دکان پہ ا سکے قدم رک گئے۔ ایک بہت خوبصورت موتیوں کے ہار پہ اسکی نظر یں جمی رہ گئیں۔ اس نے قیمت پوچھی تو وہ بہت مہنگا تھا۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھ گئی۔ کچھ فاصلے پر ایک بوڑھی عورت زمین پہ مٹی کے برتن رکھ کر فروخت کر رہی تھی۔ ان میں ایک مرتبان ایسا خوش وضع تھا کہ زبیدہ کے قدم ایک بار پھر رک گئے۔ اس نے بڑھیا سے مرتبان کی قیمت پوچھی۔ ویسے تو وہ زیادہ نہ تھی پرمٹی کا برتن ہونے کے حساب سے کافی تھی۔ زبیدہ نے سوچا کہ آگے پتا نہیں وہ دوبارہ کبھی بازار آسکے یا نہ آسکے تو آج کم از کم اپنی پسند کی ایک چیز خرید ہی لے۔ چلو ہارنہیں تو مرتبان ہی سہی۔ میرے کمرے کے کونے میں در یچے کے عین سامنے یہ بہت اچھا لگے گا۔ چنانچہ زبیدہ نے مرتبان خرید لیا۔
گھر آ کر اس نے پھل اور دوائیں بہنوں کود یں۔ بقایا رقم بھی ان کے سامنے رکھ دی۔ انہیں کھا نابنا کر کھلایا لیکن ان دونوں کا منہ پھر بھی سیدھا نہ ہوا۔ مرتبان دیکھ کر با تیں ہی بناتی ر ہیں کہ فضول سے برتن پہ پیسے اجاڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ زبیدہ خاموش ہی رہی اور اس نے مرتبان کو اپنے کمرے میں سجادیا۔ رات کو جب وہ سونے کے لئے لیٹی تو موتیوں کا خوبصورت ہار اسکی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔ کاش میں وہ ہار خریدسکتی۔ یہی سوچتے سوچتے وہ نجانے کب سوگئی۔اگلے روز و ہ حسب معمول صبح سویرے اٹھی۔ در یچے سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آرہی تھی۔ پھر اسکی نظر مرتبان پر پڑی۔ ارے کوئی چمکدارسی چیز اسکے منہ سے باہر نکلی جگمگار ہی تھی۔ وہ لپک کر قریب گئی۔ یہ تو بالکل ویسا ہار تھا جو کل اسے دکان پہ پسند آیا تھا۔ وہ پریشان ہوگئی کہ مرتبان تو بالکل خالی تھا۔ پھر یہ ہار کیسے آ گیا۔ وہ ڈرسی گئی کہ کہیں اس یہ چوری کا الزام نہ لگ جائے۔ اس نے ہار اپنی الماری میں چھپادیا اور سارادن کھوئی کھوئی ہی رہی۔ بہنیں اسے اسکی سستی اور کا ہلی پہ ٹوکتی ر ہیں اور وہ سر جھکائے کام کرتی رہی۔
اگلے چند دنوں میں کپڑے کا تھان تیار ہو گیا تو فہیمہ اورعقیلہ اسے لے کر بازار چلی گئیں۔ ان کا بخاراتر چکا تھا۔ ان کے جانے کے بعد زبیدہ نے ہار پہن کر آئینے میں دیکھا۔ اس پہ بہت جچ رہا تھا۔ اس نے اسے دوبارہ الماری میں چھپا دیا۔ بہنیں بازار سے دیر سے لوٹیں۔ انہوں نے نیا کپڑا بننے کے لئے دھا گہ وغیر ہ خریدا تھا اور ساتھ ہی اپنے لئے بہت خوبصورت چپلیں بھی لائی تھیں۔ زبیدہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ اگر وہ اسکے لئے بھی چپل لے آتیں تو کیا ہو جاتا؟ رات کوبھی وہ یہی سوچتے سوچتے سوگئی۔ صبح اسکی آنکھ کھلی تو مرتبان سے انتہائی خوبصورت چپلیں جھانک رہی تھیں۔ اب بات واضح ہوگئی تھی۔ یہ کوئی کراماتی مرتبان تھا اور مالک کی دلی خواہشات کے ساتھ اس کا کوئی عجیب سا تعلق تھا۔ آزمانے کے لئے اگلی رات زبیدہ نے جان بوجھ کر سبز رنگ کے لباس کی آرزو کی اور اگلی صبح و ہ لباس مرتبان سے باہر جھانک رہا تھا۔ زبید نے کرشماتی مرتبان کے کارنامے بہنوں سے پوشیدہ رکھے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ فوراً اس سے یہ مرتبان چھین لیں گی۔ اب اسے جس چیز کی خواہش ہوتی۔ مرتبان اسے مہیا کر دیتا۔ بہنیں جب گھر پہ نہ ہوتیں تو وہ اچھے اچھے لباس اور زیورات پہن کر خوش ہوتی۔ مرتبان اسکے لئے کھانے پینے کی مزے مزے کی چیز یں بھی حاضر کر دیتا۔
ایک روز شاہی محل سے دعوت نامہ آیا۔ شہر بھر کی خواتین کو ملکہ نے محل میں مدعو کیا تھا۔ فہیمہ اور عقیلہ تو خوشی سے اچھل پڑیں۔ ایسے موقعے روز روز نہیں آیا کرتے۔ دونوں نے بہترین ملبوسات، زیورات اور جوتے خریدے۔ زبیدہ کو جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا بلکہ ڈھیر سارادھا کہ خرید لائیں کہ ان کے محل جانے کے بعد وہ بیکار نہ بیٹھے بلکہ کپڑ ابنتی رہے۔ زبیدہ خاموش رہی۔
دعوت کے روز دونوں بہنیں صبح سویرے سے بننے سنور نے میں مصروف ہو گئیں اور شام ہو تے ہی محل کی طرف روانہ ہو گئیں۔ ان کے جانے کے بعد زبیدہ نے بھی بہترین لباس،زیورات سے خود کو آراستہ کیا۔ نئے ڈھنگ سے بال سنوارے اور سبک سے سینڈل پہن کر برقعہ اوڑھا اورمحل کی طرف روانہ ہوگئی۔ جشن شروع ہو چکا تھا۔ شہربھر کی خواتین کے ساتھ اس کی بہنیں بھی زرنگار کرسیوں پہ متمکن تھیں۔ ملکہ نے ایک نئی مہمان کو آتے دیکھاتو کنیزوں کو اشارہ کیا کہ وہ اسے اسکے پاس لے آئیں کیونکہ ہال میں کوئی خالی کرسی نظر نہیں آ رہی تھی۔ کنیزوں نے زبیدہ کا بر قعہ اتر وایا اور اسے بہت احترام سے ملکہ کے پاس لے گئیں۔ ملکہ نے اسے اپنے تخت پہ بٹھالیا۔ سب کی نگاہیں اس پہ جم گئیں۔عقیلہ، فہیمہ بھی چونک گئیں کہ زبیدہ یہاں کہاں؟ پھر انہوں نے سوچا کہ اس بیچاری کے پاس ایسے لباس اور زیورات بھلا کہاں؟ یہ ضرور کسی امیر،وزیر کی بیٹی ہے جبھی تو ملکہ نے اسے اتنی عزت دی ہے۔ ہاں اسکی شکل ضرورز بیدہ سے مل رہی ہے۔
کنیزوں نے کھانا چن دیا اور سب کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔ ملکہ نے یہ تقریب اس لئے سجائی تھی کہ وہ شہزادے کے لئے کسی بہت اچھی اور بھلے خاندان کی لڑکی کی تلاش میں تھی۔ اس نے سب طرف نظر یں دوڑائیں اور اسکی نگاہ انتخاب اسی لڑکی پہ آٹکی جوا سکے قریب بیٹھی تھی۔ وہ کنیزوں کو اشارہ کر کے اٹھی اور ادھر ادھر پھر کر دوسری خواتین سے بھی بات چیت کرنے لگی۔ دوسری طرف کنیز یں زبیدہ کو ٹٹولے لگیں کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے۔ زبید و کی بہنیں بھی اسی چکر میں تھیں کہ زبیدہ کے قریب پہنچ کرا سے اچھی طرح جانچ لیں۔ زبیدہ اس صورتحال سے اس قدر گھبرائی کہ سب کی آنکھ بچا کر ڈیوڑھی میں چلی گئی جہاں سب کے برقعے رکھے تھے۔ کنیز خاص اسکے تعاقب میں تھی۔ زبیدہ کے ہاتھ جو بھی برقعہ لگا،وہ اسے اوڑھ کر وہاں سے بھاگ نکلی۔

اسے لگا کہ کوئی اسکے تعاقب میں ہے۔ وہ گھبرا کر گھوڑوں کے اصطبل کی طرف جانکلی۔ سامنے گھوڑوں کے پانی پینے کی ہودی آ گئی۔ اس نے چھلانگ لگاکر اسے پار کیا اور ایک ابلق گھوڑے کے پیچھے چھپ گئی۔ چند کنیزیں وہاں آ پہنچی تھیں اور رک کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں کہ لڑ کی کہاں گئی۔ جب نہیں نظر نہ آئی تو انہوں نے سوچا کہ بڑے پھا ٹک کے پاس چلنا چاہیے۔ گزرے گی تو وہیں سے ہی۔ زبیدہ پر یشان کھڑی تھی کہ اب کہاں جائے۔اتنے میں اس نے دیکھا کہ ایک گھسیارہ گھاس کے گٹھے لئے آیا۔ گھاس وہاں ڈالی اور ایک بچھیرے کی رسی تھام کر ایک تنگ سے راستے کی طرف نکل گیا۔ زبیدہ اسکے پیچھے چل دی۔ کچھ دیر بھول بھلیاں سے راستوں پہ چلنے کے بعد وہ باہر نکل آئی۔ آگے کا راستہ اسے آتا تھا۔ وہ برق رفتاری سے گھر پہنچی، کپڑے بدلے اور کھڈی پہ بیٹھ کر کپڑ ابننے لگی۔ دعوت ختم ہوئی توبڑی بہنوں کو گھر آتے آتے آدھی رات گزرگئی۔ انہوں نے ناک بھوں چڑ ہائی کہ زبید ہ بہت سست ہوتی جارہی ہے۔ ابھی تک کتنا کم کپڑا بنا ہے۔ پھر دیر تک محل کی باتیں کرتی رہیں۔ زبیدہ چپ چاپ سنتی رہی۔ ادھر محل میں سب کنیزوں کی شامت آئی ہوئی تھی۔ وہ ملکہ کی پسند ید ہ لڑ کی کاسراغ کھو چکی تھیں۔ کنیز خاص پر تو ملکہ کو بہت ہی غصہ تھا اور وہ اپنی شرمند گی دوسری کنیزوں پہ نکال رہی تھی۔
اگلے روز خلیفہ اور شہزادے کا شکار پہ جانے کا پروگرام تھا۔ خدام نے گھوڑوں کو اچھی طرح گھاس اور دانہ کھلایا۔ پھر پانی پلانے کو ہودی پہ لائے تو گھوڑے گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگے۔ سب پر یشان کہ یہ ہودی میں منہ کیوں نہیں ڈال رہے۔ شہزا دہ قریب ہی کھڑا تھا اس نے ہودی میں جھانکا تو پانی میں کوئی ایسی چمکدار چیز پڑی تھی کہ خود اسکی آنکھیں بھی چندھیا گئیں۔ اس نے ایک خادم سے وہ چیز نکالنے کو کہا۔ یہ ایک چمکدار پازیب تھی۔ ایسی خوبصورت اور نازک پازیب تو شاید ملکہ کے پاس بھی نہ ہو۔ شہزادے نے سوچا۔ یہ پازیب جس کسی کی بھی ہے وہ کوئی بہت ہی باذوق اور نفیس ہستی ہوگی۔ اس نے پازیب کو خلیفہ کے سامنے رکھا اور کہا۔ اب جب اسکی شادی کی با تیں ہورہی ہیں تو اسکی خواہش ہے کہ اسکی شادی اس پازیب کی مالکہ سے ہو۔
خلیفہ نے کہا کہ بھئی یہ کام تو عورتوں کے کرنے کے ہیں۔ تم اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور انہیں یہ بات بتاؤ۔ شہزادے نے پازیب ملکہ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو کنیز خاص بھی موجودتھی۔ اس نے ملکہ کے کان میں کہا کہ یہ پازیب تو اسی لڑ کی کی ہے جو انہیں بہت پسند آئی تھی۔ اس روز جب وہ تخت پہ بیٹھ ر ہی تھی تو اس کا پائینچہ ذراسا سرک گیا تھا اور کنیز خاص نے یہ خوبصورت پازیب اسکے پاؤں میں دیکھی تھی۔ ملکہ نے یہ سن کر پازیب اسکے حوالے کی اور کہا کہ اب جیسے بھی ممکن ہواسکی مالکہ کوڈھونڈ کر لاؤ۔
کنیز خاص نے پہلے تو تمام امراء، وزراء کے محلات کا جائزہ لیا پھر شہر میں گھر گھر تلاش شروع کروادی۔ لیکن کہیں وہ نرم و نازک پاؤں نہ مل سکا جس میں وہ پازیب پوری آتی۔ ایک روز دو کنیزیں زبیدہ کے محلے میں بھی آ پہنچیں اور گھر گھر پھرتی، زبیدہ کے گھر بھی آ گئیں۔ فہیمہ اور عقیلہ نے بڑے چاؤ سے پازیب اپنے پاؤں میں چڑ ھانے کی کوشش کی مگر کنیزوں نے فوراً کھینچ لی کہ نہ بی بی ایسی نازک چیزان بڑے بڑے پیروں کے لئے نہیں ہے۔ پھر انہوں نے زبیدہ کو آواز دی۔”آؤ بیٹی! تم بھی قسمت آزما لو۔“
دونوں لڑکیاں زور سے ہنس پڑیں۔ ”یہ کیا قسمت آزمائے گی۔ اس بیچاری نے کبھی چھلا تک نہیں پہنا، نہ ہی کبھی گھر سے نکلی ہے۔“
”تو کیا ہوا؟ ہے تو ایک لڑکی ہی۔ پھر کیسی نرم ونازک سی ہے۔“ ایک کنیز نے ہمدردی سے کہا۔”کیا پتہ قسمت سے یہ پازیب اس کو پوری آ جائے اور تو شہر بھر میں کسی لڑکی کے پاؤں میں یہ پوری نہ بیٹھی۔“
عقیلہ، فہیمہ ہنستی ہی رہ گئیں۔ زبیدہ نے خاموشی سے اٹھ کر پازیب پاؤں میں ڈال لی جیسے اسی کی ہو اور حقیقت بھی یہی تھی۔ اس روز جب اس نے پانی کی ہودی پھلانگی تھی تو اسکے پاؤں سے پازیب کھل کر پانی میں جا پڑی تھی مگر ز بیدہ کو گھر آ کر پتہ چلاتھا۔ کنیزیں تو خوشی سے ناچ اٹھیں۔ ان کی محنت رنگ لے آ ئی تھی۔ فہیمہ اورعقیلہ پہلے تو چکر اسی گئیں پھر چلانے لگیں۔”یہ پازیب اسکی نہیں۔ اسکے پاس تو کوئی زیور ہی نہیں اور پھر یہ دعوت میں گئی بھی نہیں تھی۔“
زبیدہ نے اندر سے دوسری پازیب لا کر سب کے سامنے رکھ دی۔ دونوں بہنوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ کنیزیں خوشی خوشی ز بید ہ کولے کرمحل کی طرف روانہ ہو گئیں۔ ملکہ نے زبیدہ کو پہچان لیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ وہ بن ماں باپ کی بچی ہے تو اسے محل کے ایک حصے میں ہی ٹھہر ادیا۔ ولی عہد کے ساتھ اسکی شادی کا اعلان کر دیا گیا۔ زبیدہ نے درخواست کی کہ اسکی بہنوں کو بھی بلوالیا جائے۔ چنانچہ وہ بھی محل میں آ گئیں۔ بظاہر دونوں خوش تھیں لیکن اندر ہی اندرحسد کی آگ میں پھک رہی تھیں۔
ایک دن ان میں سے ایک کوئی بہانہ کر کے محل سے نکلی اور کسی جادوگرنی سے جادو کی کیلیں لے آئی۔ اگلے روز دونوں نے بہت پیار سے زبیدہ سے کہا کہ آؤ تمہارا بناؤ سنگھار کر یں اور بال بناتے بناتے بہت ہوشیاری سے جادو کی کیلیں اسکے سر میں ٹھونک دیں۔ ان کے اثر سے زبیدہ چڑ یا بن کر اڑ گئی۔ شام تک اسکے غائب ہونے کی خبر پورے محل میں پھیل گئی۔ فہیمہ عقیلہ نے ملکہ کو بتایا کہ یہ اسکی پرانی عادت ہے۔ وہ اکثر گھر سے بھی کئی کئی دن کے لئے غائب ہو جاتی تھی اور واپسی پہ بھی نہیں بتاتی تھی کہ وہ کہاں گئی تھی۔اسکی اس عادت کی بدولت اماں ابا پریشان رہتے تھے اور اسی غم میں انہوں نے جان دی تھی۔ ملکہ بہت گھبرائی کہ یہ کیا غلطی ہوگئی۔ ہمیں پہلے چھان بین کر لینی چاہیے تھی۔ شہزاد ہ الگ پریشان تھا کہ اسکی ہونے والی دلہن ایسی نکلی۔ اب وہ کیا کرے؟
ایک روز وہ اپنے بستر پر پریشان لیٹا تھا اچانک ایک سفید رنگ کی چڑ یا آ کر در یچے میں بیٹھ گئی۔ اسکے چہکنے میں ایک دردتھا۔ شہزادے نے یونہی بے دھیانی میں ہاتھ آ گے بڑھایا تو چڑ یا فوراً اس پہ آبیٹھی۔ پھر شہزادے کو خیال آیا کہ یہ چڑیا تو کئی دن سے اسکے دریچے کے آس پاس ہی منڈلارہی ہے اور درد بھرے گیت گا رہی ہے۔ وہ پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔ اسے لگا کہ چڑیا کے سر میں کوئی سخت سی چیز چبھی ہوئی ہے۔ شہزادے نے فوراً اسے کھینچ نکالا۔ یہ جادو کے کیل تھے جنہیں نکالتے ہی چڑیا ایک لڑ کی میں تبدیل ہوگئی جوکوئی اور نہیں بلکہ زبیدہ تھی۔ اس نے ساری حقیقت بتائی تو شہزادہ پریشان ہو گیا اور اسے اپنی ماں کے پاس لے گیا۔ ملکہ کا تو ارادہ تھا کہ ایسی ظالم بہنوں کا سرتن سے جدا کر دینا چاہیے لیکن زبید ہ نے ان کی جاں بخشی کی درخواست کی۔ پھر بھی انہیں محل میں نہ رہنے دیا گیا بلکہ پرانے گھر واپس بھجوادیا گیا۔ زبید ہ کی شہزادے سے دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ وہ اپنا مرتبان پرانے گھر سے لے آئی تھی۔ اسکی بدولت اس نے اپنی رعایا کی سہولتوں کے لئے بہت کچھ حاصل کیا اور لوگوں کو فائدہ پہنچاتی رہی۔ عرصہ دراز تک اسکی داد و دہش اورسخاوت بغداد میں ضرب المثل بنی رہی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top