skip to Main Content

جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

کلیم چغتائی

…..
میری چادر ’شمعون‘ کے پاس لے جائیے، اُن سے کہیں کہ اس کے بدلے کچھ اناج دے دیں

…..

وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ بنی سلیم سے تھا۔ وہ اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ مجلس میں حاضر تھے۔ وہ مسلمان ہونا چاہتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں کلمہ طیبہ پڑھوایا۔ ضروری احکام اور مسائل کی تعلیم دی، پھر دریافت کیا: ”کیا آپ کے پاس کچھ مال ہے؟“ جواب ملا:
”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اپنے قبیلے کے تین ہزار افراد میں سب سے زیادہ محتاج میں ہی ہوں۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ”آپ میں سے کون اس مسکین کی مدد کرے گا؟“
حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ نے اپنی اونٹنی پیش کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا عمامہ پیش کردیا۔ پھر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان نو مسلم صحابی کو لے کر مختلف گھروں پر گئے کہ کھانے کا کوئی انتظام ہوجائے مگر ہر جگہ سے معذرت کی گئی۔ پھر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ایک دروازے پر دستک دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنا کر مدد چاہی۔ اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی: ”اللہ کی قسم، آج گھر میں سب کو تیسرا فاقہ ہے۔ دونوں بچے بھوکے سوئے ہیں لیکن آپ کو خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی۔ یہ میری چادر ’شمعون‘ کے پاس لے جائیے، اُن سے کہیں کہ اس کے بدلے کچھ اناج دے دیں۔“
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ چادر لے کر شمعون کے پاس پہنچے۔ وہ ایک یہودی تھے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ساری بات اُنھیں بتائی۔ شمعون حیران رہ گئے کہ یہ کیسا نیا دین ہے؟ جس کے ماننے والے خود بھوکے رہ کر اپنے ساتھیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ وہ مسلمان ہوگئے۔ پھر اُنھوں نے کچھ اناج حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو دیا اور چادر بھی واپس کردی۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اناج اور چادر لے کر واپس اسی گھر پر آئے۔ خاتون نے تھوڑی دیر میں اناج پیس کر روٹیاں تیار کردیں۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اس میں سے کچھ بچوں کے لیے رکھ لیجیے۔“ جواب ملا: ”جو چیز میں اللہ کی راہ میں دے چکی، وہ میرے بچوں کے لیے جائز نہیں ہوسکتی۔“
یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور پیاری صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”سیدۃ النساء اہل الجنتہ“ یعنی ’جنت کی خواتین کی سردار کا لقب عطا فرمایا، تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پانچ برس پہلے پیدا ہوئیں۔ آپ کو کئی لقب دیے گئے مثلاً الزہراء (تازہ پھول کی طرح پاکیزہ) بتول (اللہ کی سچی بندی) بضعۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا)۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بہت سنجیدہ تھیں اور سادہ زندگی پسند کرتی تھیں۔ ایک بار آپ کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تمام بچیوں کے لیے اچھے کپڑے اور زیور بنوائے لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سادہ لباس پہن کر تقریب میں شرکت کی۔ آپ کو قیمتی لباس اور زیور پہننے کے بجاے سادگی سے رہنا پسند تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت ذہین تھیں اور آپ رضی اللہ عنہا کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیمات سن کر یاد کر لیا کرتی تھیں۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت کھلے عام دینے کا آغاز فرمایا تو کفار مکہ آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہما کو سخت تکالیف دینے لگے۔ کفار، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خاک ڈالتے۔ ایک بار ایک کافر نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ملی تو آپ رضی اللہ عنہا دوڑ کر آئیں اور آپ رضی اللہ عنہا نے وہ اوجھڑی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے ہٹائی۔

٭……٭

ہجرت کے کچھ عرصے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ یہ مبارک تقریب دو یا تین ہجری کے درمیان کے وقت ہوئی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو جو معمولی سا جہیز دیا وہ کچھ یوں تھا۔ ایک بستر، ایک تخت، چمڑے کا ایک تکیہ، ایک مشکیزہ، مٹی کے دو برتن، ایک چکی، ایک پیالہ، دو چادریں اور ایک جاے نماز……
جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رخصت ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ایک برتن میں پانی منگوایا، اس میں اپنے مبارک ہاتھ ڈال کر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سینے، بازوؤں پر پانی چھڑکا۔ پھر دعا فرمائی اور واپس تشریف لے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے تین ہجری میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک بیٹا عطا فرمایا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر بچے کے کان میں اذان دی، پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کا نام ’حسن‘ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ اگلے سال اللہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک اور بیٹا عطا فرمایا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ’حسین‘ رکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں، حسن اور حسین سے گہری محبت فرماتے تھے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت عبادت کرنے والی خاتون تھیں لیکن آپ رضی اللہ عنہا اپنی عبادت کی وجہ سے گھر کی ذمہ داریوں میں کوئی کمی نہیں آنے دیتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا جنگوں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ مجاہدوں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ اُحد کا معرکہ ہوا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ بہت چھوٹے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شیر خوار بچے کو گود میں لے کر میدان جنگ میں آتی تھیں۔ غزوہئ خندق میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن سے خندق کی کھدائی میں مصروف تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے روٹی پکا کر پیش کی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تین دن بعد مجھے یہ لقمہ ملا ہے۔“
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا لوگوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ محتاجوں کی کھلے دل سے مدد کرتی تھیں، چاہے خود فاقہ کرنا پڑے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت اداس رہنے لگیں۔ رمضان المبارک گیارہ ہجری میں آپ رضی اللہ عنہا بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے انتقال سے پہلے ہدایت ٍفرمائی کہ میرا جنازہ لے جاتے ہوئے اور تدفین کے موقع پر، پردے کا خاص خیال رکھا جائے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتی تھیں۔ گھر کے کام کرتے ہوئے بھی آپ رضی اللہ عنہا قرآن پاک کی تلاوت فرماتی رہتی تھیں۔

٭……٭

جب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہونے لگی تو جنگوں میں حاصل ہونے والا مال غنیمت مدینہ منورہ آنے لگا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق مال غنیمت کا صرف پانچواں حصہ پاس رکھ کر باقی مجاہدوں اور عام مسلمانوں میں تقسیم فرما دیتے پھر اپنا حصہ بھی اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، چکی پیستے پیستے تمھارے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے ہیں اور چولھا پھونکتے پھونکتے تمھارے چہرے کا رنگ بدل گیا ہے۔ تم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ایک خادمہ مانگ لاؤ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں مگر شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکیں۔
دوسرے دن آپ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں اور اپنی تکالیف بیان کرکے ایک خادمہ کی درخواست کی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا اور کہا۔ مجھے ابھی ’اصحابِ صفہ‘ کے لیے انتظام کرنا ہے۔
رات میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ”تم جس چیز کی خواہش کررہی تھیں، میں اس سے بہتر چیز بتاتا ہوں۔تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو اور رات سونے سے پہلے ۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمد للہ اور ۴۳ بار اللہ اکبر پڑھا کرو۔ یہ عمل تمھارے لیے لونڈی اور غلام سے بہتر ہوگا۔“
یہ تسبیحات حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سکھائیں۔ اس لیے انھیں ’تسبیحاتِ فاطمہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس واقعے سے ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں جہانوں کے سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی تک کے لیے کسی خادمہ کا انتظام کرنا پسند نہیں فرمایا، کیوں کہ ان سے زیادہ ضرورت مند صحابہ رضی اللہ عنہما موجود تھے، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اتنی صابر اور سعادت مند بیٹی تھیں کہ جب آپ رضی اللہ عنہا کے والد محترم نے آپ رضی اللہ عنہا کو خادمہ دینے سے انکار فرما دیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کوئی ضد نہیں کی اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری سعادت مندی سے مان لی، جس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو ہر نماز کے بعد اور رات سونے سے پہلے پڑھنے کے لیے تسبیحات سکھائیں، اس طرح یہ تسبیحات تمام مسلمانوں تک پہنچ گئیں اور مسلمان اب انھیں نمازوں کے بعد اور رات سونے سے پہلے پڑھا کرتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ عمل قیامت تک جاری رہے گا۔

٭……٭

مشکیزہ: چمڑے کی بوتل

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top