توبہ
فریال یاور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر انصاری ہیں۔ جو تاریخ میں اپنی کنیت…
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’خالد کو تم لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دو کیونکہ وہ خدا کی تلوار ہے جس کو اس نے کفار پر کھینچا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں سو سے زیادہ جنگوں میں شریک ہوا۔ میرے جسم میں ایک بالشت برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں تیر تلوار یا نیزے کا زخم نہ ہو۔ اس کے باوجود میں اپنے بستر پر مر رہاہوں۔ بزدلوں کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوں اور میرے لیے لاالہ الا ﷲ سے زیادہ کوئی عمل بھی امید افزا نہیں۔ میں اسی کو ڈھال بنائے ہوئے ہوں۔‘‘
یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مرنے سے پہلے ایک ایسے بہادر سپاہی کی زبان سے ادا ہوئے۔ جس کی ساری زندگی اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے بسر ہوئی۔ جنہوں نے جنگ موتہ میں مسلمانوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ جس میں ان کے ہاتھوں سے نو تلواریں ٹوٹیں۔ جنہوں نے مسلمہ کذاب کا خاتمہ کیا۔ جنہوں نے فتح مکہ کے دن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے حکم پر ’’عزیٰ‘‘ نامی بت کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ یہی وہ صاحب ہیں جنہیں سریہ موتہ کے موقع پر ’’سیف ﷲ‘‘ یعنی ﷲ کی تلوار کا لقب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ یہ مبارک ذکر ابو سلیمان حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کا ہے۔ جنہیں ﷲ تعالیٰ نے بہت بہادری اور جرات سے نوازا تھا۔
اپنے قبول اسلام کا واقعہ خود حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولیداس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم جمع ہو کر مدینہ پہنچے۔ یہ ہجرت کا آٹھواں سال اور صفر کی یکم تاریخ تھی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو ہماری آمد کی اطلاع ہو چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش تھے۔ میں نے عمدہ کپڑے پہنے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا۔ راستے میں میرا بھائی ملا اور کہنے لگا: ’’جلدی کرو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے آنے کی اطلاع ہو چکی ہے اور وہ تمہارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ میں تیزی سے چلا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔ میں نے ان کے قریب پہنچ کر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت سے جواب دیا۔ پھر میں نے کلمہ پڑھا ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام تعریفیں ﷲ کے لیے ہیں۔ جس نے تمہیں ہدایت دی ۔ مجھے تمہاری عقل کے متعلق یہی خیال تھا کہ وہ خیر کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گی۔‘‘
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ا ے ﷲ کے رسول !آپ کو معلوم ہے کہ میں جنگوں میں حق سے منھ موڑ کر آپ کے خلاف جنگ کرتا رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﷲ سے دعا فرمائیں کہ ﷲ مجھے معاف فرماے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام پہلے کی تمام غلطیوں کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ﷲ سے ان کے لیے دعا فرمائی۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے والدین کا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا تھا۔ والد کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا۔ اسی قبیلے کے پاس زمانہ جاہلیت میں جنگی سامان اور جنگی گھوڑوں کی حفاظت و دیکھ بھال کی ذمہ داری تھی۔ اسی وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میں اہم جنگوں میں شریک رہے اور جنگی لشکروں کی کامیاب قیادت بھی کرتے رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک سیرت کی کتابوں میں جو بتایا گیا ہے۔ اس کے مطابق حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید لمبے قد، بھاری جسم، چوڑے اور کشادہ سینے کے مالک تھے۔ لوگوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ گویا ایک طرف تو بچپن ہی سے جنگی طور طریقوں سے واقفیت تھی تو دوسری طرف ایک مضبوط جسم کے مالک بھی۔ مگر ایک اور چیز جو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام میں نمایاں کرتی ہے۔ وہ ان کی بہادری اور شجاعت ہے۔ حضرت قیس رضی اللہ عنہ بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید کو یہ کہتے سنا ہے: ’’جہاد نے مجھے کثرت قرات قرآن سے باز رکھا۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک زہر لایا گیا ۔ پوچھا:’’ یہ کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا :’’زہر ہے۔‘‘ ’’بسم ﷲ۔‘‘ پڑھ کر اسے پی گئے۔ جسے کسی نے اپنے اشعار میں اس طرح بیان کیا ہے: ’’خالدبن ولید سم قاتل کو اس طرح پی گئے جس طرح پیاسا انسان ٹھنڈے خوشگوار پانی کو منھ سے لگا کر پیتا ہے۔‘‘
جس طرح جنگی معرکوں میں بہادری سے لڑنا اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح دشمن کو شک و شبہات میں ڈالنا بھی ایک کامیاب جنگی چال سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ سریہ موتہ میں پیش آیا۔ اس جنگ میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو امیر لشکر بنایا اور فرمایا :’’اگر زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ شہید ہوجائیں تو جعفر رضی اللہ عنہ امیر ہوں گے۔ اگر جعفر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوجائیں تو عبدﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ امیر لشکر ہوں گے۔‘‘ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک سفید جھنڈا بنا کر حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو دیا۔ موتہ کے مقام پر دونوں لشکروں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا اور زبردست مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار تھی اور ان کے مقابلے میں کفار کی تعداد دو لاکھ تھی لیکن مسلمان کبھی زیادہ تعداد میں ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان کی طاقت پر فتح مند ہوئے۔
مقابلے میں زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ شہید ہوئے پھر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے۔ انہوں نے جھنڈا لیا تو وہ بھی شہید ہوگئے۔ جب عبدﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی شہیدہو گئے تو مسلمان پریشان ہوگئے اور پیچھے ہٹنے لگے۔ ایسے میں حضرت ثابت بن اقرم نے آگے بڑھ کر جھنڈا اٹھایا اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو تھما دیا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے جھنڈا لیا اور حملہ آور ہوئے اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد کو حضرت خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں نے ختم کر ڈالا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اس دن نو تلواریں ٹوٹیں۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے جنگی مہارت کو کام میں لا کر لشکر اسلام کو علاحدہ کرکے آنے والی شکست سے بچا لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ رات ہو چکی تھی۔ اس فرصت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر کی ترتیب بدل دی۔ جب صبح ہوئی۔ دشمن نے مسلمانوں کی ترتیب بدلی ہوئی دیکھی اور شور اور ہتھیاروں کی جھنکار سنی تو سمجھے کہ مدد آگئی۔ مشرکین خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ مشرکین کے بھاگنے کے دوران بھی مسلمان ان سے لڑتے رہے۔ اس طرح مشرکین بڑی تعداد میں مارے گئے اور باقی نے میدانِ جنگ سے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ جنگ ختم ہوئی۔ جنگ کے اس دانش مندانہ طریقے پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی بہادری کا اظہاربھی فرمایا اور حوصلہ افزائی بھی کی۔
اسی طرح فتح مکہ میں بھی حضرت خالد رضی اللہ عنہ شریک رہے اور میمنہ (دائیں بازو کی فوج) کے قائد تھے۔ اس موقع پر انہوں نے بعض مشرکین سے لڑائی بھی کی۔ جو اسلامی لشکر کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہتے تھے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید ہمیشہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غزوہ حنین میں شرکت کی۔ پھر ہجرت کے نویں سال ۵ رجب کو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے گئے۔ اس کے بعد غزوہ طائف میں رسول ﷲ کے ساتھ شریک ہوئے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی اور جہاد جاری رہا۔ اس دور میں ایک شخص مسلمہ بن کذاب نے نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم پر یمامہ کی جانب بڑھے۔ جہاں مسلمہ کذاب رہتا تھا۔ دونوں گروہوں میں مقابلہ ہوا۔ پہلے تو مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر مسلمانوں نے پھر بھرپور حملہ کیا اور مقابلہ کرتے ہوئے اس باغ میں داخل ہوئے۔ جس میں مسلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور سب کو جہنم رسید کیا۔ اسی طرح بے شمار فتوحات اور جہادی تحریکوں میں مصروف رہے۔ آپ کے ہاتھوں ۳۰ سے زائد شہر فتح ہوئے۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی۔ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کے موقع پر اپنے سر کے بال اتروائے اور لوگ بال لینے کے لیے جھپٹ پڑے تو حضرت خالد بن ولید نے آپ کی پیشانی کے بال لیے اور انہیں اپنی ٹوپی میں سی لیا۔ جنگ یرموک میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ ٹوپی گم ہوگئی مگر تلاش کرنے پر مل گئی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جس جنگ میں میرے پاس یہ ٹوپی ہوتی ہے۔ ﷲ اس میں مجھے فتح عطا فرماتے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آپ کی قدر دانی فرماتے تھے اور لوگوں کو بھی ان کا لحاظ رکھنے کی ہدایت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا: ’’خالد کو تم لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دو کیونکہ وہ خدا کی تلوار ہے جس کو اس نے کفار پر کھینچا ہے۔ ‘‘
حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سے ۱۸ احادیث مروی ہیں۔ چونکہ شروع ہی سے بطور سپاہی زندگی بسر کی۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس جنگی ساز و سامان بہت تھا۔ جسے اسلام لانے کے بعد راہ خدا میں وقف کردیا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کی وفات ۲۱ ہجری حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہوئی۔ ۶۰ سال زندہ رہے۔ سوا سو جنگوں میں شرکت کی اور کفار کی ایک بڑی جماعت کو قتل کیا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنا گھوڑا اسلحہ اور غلام بھی ﷲ کی راہ میں صدقہ کر دیا۔جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ ابو سلیمان پرﷲ اپنا رحم فرماے۔ وہ بالکل ہمارے گمان کے مطابق تھے۔‘‘
*۔۔۔*