skip to Main Content

حضرت امام احمد بن حنبلؒ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

روٹی پکانے کے لئے خمیر کی ضرورت تھی!
صالح کے گھر سے خمیر لے لیا گیا اور روٹی تیار کرلی گئی۔ روٹی پک کر سامنے آئی تو صالح کے والد محترم نے پوچھا:
”یہ روٹی کیسی ہے؟“
بتایا گیا کہ خمیر صالح کے گھر سے آیا ہے۔ اس پر صالح کے والد نے فرمایا:
”اس نے تو ایک سال تک قاضی کے منصب کو اختیار کیا ہے، اب اس کی روٹی ہمارے حلق سے نہ اتر سکے گی۔“ پوچھا گیا:”اب ان روٹیوں کا کیا کریں؟“ فرمایا!”جب کوئی سائل آئے اور سوال کرے تو تفصیل سے روٹیوں کے بارے میں اسے بتا دینا کہ خمیر صالح کے گھر کا ہے، آٹا احمد کے گھر کا ہے اور احمد نے ان روٹیوں کو کھانے سے انکار کر دیا ہے، اگر وہ ان روٹیوں کو لینا پسند کرے تو بہتر ہے اسے دے دینا۔“
چالیس روز تک دروازے پر کوئی سائل نہ آیا۔ روٹیاں خراب ہو گئیں حتیٰ کہ ان روٹیوں کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا۔
یہ امام احمد بن حنبل تھے۔ جنہوں نے اپنے بیٹے کے گھر کے خمیر سے تیار شدہ روٹی تک کھانا گوارا نہ کیا، حالانکہ آپ کے صاحبزادے صالح نہایت متقی شخص تھے لیکن چونکہ اصفہان میں ایک سال تک قاضی رہے تھے اور امام صاحب کے نزدیک اس وقت کی اسلامی حکومت اپنے فرائض پوری طرح انجام نہیں دے رہی تھی، اس لئے امام صاحب سرکاری عہدوں پر فائز افراد سے کچھ لینا پسند نہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ قاضی سے فیصلہ کرتے ہوئے غلطی بھی ہو سکتی ہے، غالباً اسی وجہ سے امام صاحب اس قدر احتیاط کرتے تھے اور ایسا زہد و تقویٰ رکھنے والوں کے نام زندہ جاوید ہو جایا کرتے ہیں۔
آپ کا نام احمد بن محمد بن حنبل اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ آپ عربی النسل ہیں اور آپ کا تعلق قبیلہ شیبان سے ہے جو قبیلہ قریش کی شاخ ہے۔ ربیع الاول 164ھ / نومبر 780ء میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ ایک روایت یہ ہے کہ ربیع الثانی 164ھ / دسمبر 780ء میں آپ کے والد مرو سے بغداد منتقل ہوئے اور اس کے چند ماہ بعد آپ کی پیدائش عمل میں آئی۔ آپ کی والدہ محترمہ صفیہ بنت عبدالمالک مرو سے بغداد آئی تھیں۔ ابھی آپ صرف تین سال کے تھے کہ سایہ پدری سے محروم ہو گئے۔ آپ کے والد سرخس کے جرنیل تھے۔ والد کے انتقال کے بعد آپ کی تربیت کی تمام تر ذمہ داری والدہ محترمہ پر آپڑی۔
اس دور میں بغداد علم کا مرکز تھا۔ آپ خود فرماتے ہیں:
”میں بچہ ہی تھا کہ حفظ قرآن سے فارغ ہو گیا۔ 14 سال کی عمر کو پہنچا تو تحریر وکتابت کی مشق و تحصیل میں منہمک ہو گیا۔“
آپ کا دور طالب علم بڑی تنگ دستی میں گزرا، حتیٰ کہ حال یہ تھا کہ سوتے وقت سر کے نیچے تکیہ کی جگہ اینٹ رکھ لیا کرتے تھے۔ جب آپ نے 179ھ میں اپنی عمر کے 16 ویں سال میں قدم رکھا تو علم حدیث کی تحصیل کا آغاز کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
”حدیث کا پہلا سبق میں نے امام ابو یوسف سے حاصل کیا۔“
امام ابویوسف سے تین سال تک فقہ اور حدیث کا علم حاصل کرتے رہے، اس دوران امام محمد سے بھی استفادہ کیا۔ اس کے بعد چار سال تک بغداد میں امام ہیشم بن بشیر بن ابو حازم سے علم حاصل کرتے رہے۔ آپ نے حصول علم کے لئے طویل سفر کیے۔ راستے میں زاد راہ ختم ہو گیا تو محنت مزدوری کی۔ آپ یمن اور شام بھی گئے۔
186 ھ میں بصرہ اور 187ھ میں حجاز تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضرت امام شافعی سے ملاقات ہوئی۔ دوسری بار بغداد میں ملے اور امام شافعی سے علم حاصل کیا۔ پھر امام شافعی جب تک بغداد میں رہے، آپ ان سے جدا نہ ہوئے۔ امام شافعی کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور وہ آپ کے تقویٰ کی تعریف فرمایا کرتے تھے۔ امام احمد نے تحصیل حدیث کے لئے جو سفر کئے ان کے نتیجے میں آپ کو دس لاکھ سے زائد احادیث حفظ ہو گئیں۔ آپ کے اساتذہ کی تعداد سو سے زائد ہے۔
چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو آپ نے بغداد کی جامع مسجد میں باقاعدہ حلقہ درس قائم کیا۔ آپ کی مجلس درس عام طور پر نماز عصر کے بعد منعقد ہوتی تھی۔ نہایت باوقار مجلس ہوتی تھی۔ آپ کے درس میں سامعین کی تعداد پانچ پانچ ہزار تک ہوتی تھی جن میں پانچ سو تو صرف لکھنے والے ہوتے تھے۔ آپ کے شاگردوں میں امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ابو داؤؒ، امام ترندیؒ، ابو زرعہؒ جیسے عظیم المرتبت محد ثین شامل ہیں۔
امام صاحب کا عظیم علمی کارنامہ مسند احمد کی تالیف ہے، جو تیس ہزار احادیث پر مشتمل ہے۔ آپ نے دیگر کئی کتابیں، مثلاً کتب السنۃ تصنیف فرمائیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:”امام احمد آٹھ علوم میں بے نظیر عالم فاضل سمجھے جاتے تھے۔ جن میں قرآن پاک، حدیث، فقہ اور لغت شامل ہیں۔“
خلیفہ ہارون الرشید ان شدت پسند علماء کے خلاف تھے، جو معتزلہ کہلاتے ہیں جن کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید عقلاً معلوم ہو سکتی ہے، اس لئے وحی کے بغیر اہل حکمت و عقل توحید پر ایمان لا سکتے ہیں۔ ہارون کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مامون، رجب 198ھ / فروری 814ء میں مسند خلافت پر بیٹھے۔ مامون معتزلہ سے متاثر تھے، چنانچہ معتزلہ ان پر چھا گئے۔ انہوں نے قرآن پاک کے مخلوق ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ یہاں سے امام صاحب کے دور ابتلاء کا آغاز ہوتا ہے جو کم وبیش 14 سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے۔
امام نے محسوس کیا کہ کتاب و سنت کے خلاف ایک عقیدہ کو عام کیا جا رہا ہے، اگر مسلمانوں کو درست عقائد کی تعلیم نہ دی گئی تو امت مسلمہ کے بڑے حصہ کے گمراہ ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اس طرح صحیح کو غلط سے الگ کر کے پیش نہ کرنے کی ذمہ داری علماء پر عائد ہو گی۔ خلق قرآن کا مسئلہ اٹھانے والوں کا کہنا یہ تھا کہ قرآن کریم اللہ کی دیگر مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے جبکہ امام صاحب نے واضح کیا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس طرح اللہ کی ایک صفت ہے۔ چنانچہ آپ خلق قرآن کے غلط عقیدے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کی یہ جسارت وقت کے حکمرانوں اور ان کے گرد جمع مصا حبین کو سخت ناگوار گزری، اس لئے آپ پر مصائب و مظالم کا دروازہ کھل گیا۔
مامون الرشید اپنی زندگی کے آخری ایام میں رومیوں کے ساتھ لڑنے کے لئے بغداد سے روانہ ہوئے تو انہوں نے بغداد کے گورنر اسحق بن ابراہیم کو پیغام بھجوایا کہ تمام لوگوں کو”خلق قرآن“ کے مسئلے کی دعوت دی جائے۔ گورنر نے تمام علماء، ائمہ حدیث کو جمع کیا اور انہیں خلق قرآن کے مسئلے پر قائل کرنے کی کوشش کی لیکن سب نے اس عقیدے پر لبیک کہنے سے انکار کر دیا۔
مامون کو خبر ملی تو انہوں نے حکم دیا کہ امام احمد اور امام محمد بن نوح کو بیڑیاں پہنا کر دربار میں حاضر کیا جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ راستہ میں امام محمد بن نوح ”عانہ“ کے مقام پر رب سے جا ملے۔ امام احمد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور سفر جاری رہا۔ آپ راستہ میں دعا فرما رہے تھے کہ”اے اللہ میری مامون سے ملاقات نہ ہو۔“ چنانچہ ابھی آپ کا سفر جاری تھا کہ طرطوس کے مقام پر لوگ چیخنے چلاتے آپ کے پاس آئے کہ مامون فوت ہو گئے ہیں۔
مامون کا انتقال رجب 218ھ / جولائی 883ء میں ہوا۔ اس کے بعد ابو اسحق، محمد بن ہارون المعتصم تخت نشین ہوئے۔ انہوں نے ابن ابی داؤد کو منصب قضاء سونپ دیا جو امام صاحب کے بدترین مخالفین میں سے ایک تھا،اس کے حکم سے امام صاحب کو واپس بغداد لے جا کر قید کر دیا گیا اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ جیل ہی میں آپ نے مجلس درس قائم کی۔ پاؤں میں بیڑیوں کے باوجود نماز کی امامت فرماتے تھے۔
چند دنوں کے بعد بغداد کا گورنر اسحاق بن ابراہیم جیل میں امام صاحب کے پاس پہنچا اور آپ سے دوستانہ انداز میں باتیں شروع کر دیں۔ باتوں باتوں میں اس نے پرانے تعلقات کا واسطہ دیا اور کہنے لگا:
”کس قدر اچھا ہو کہ آپ امیرالمومنین معتصم باللہ کی مخالفت ترک کر دیں۔“
امام صاحب نے انکار کر دیا۔ اس پر اسحاق نے پینترا بدل کر دھمکی دی کہ آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اس پر بھی امام صاحب مرعوب نہ ہوئے تو اسحاق نے جھلا کر حکم دیا کہ امام صاحب کو مزید بوجھل بیڑیاں پہنا دی جائیں۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو حکم دیا کہ جیل سے نکل کر پیدل چلیں۔
امام صاحب نے چلنے کی پوری کوشش کی لیکن ظالموں نے بیڑیاں اس قدر وزنی ڈال دی تھیں کہ پاؤں اٹھانا ممکن نہ تھا۔ پاؤں اٹھاتے تو سخت تکلیف ہوتی۔ مجبور ہو کر آپ نے پاجامے سے ازاربند نکالا اور اسے پاؤں اور بیڑیوں کے درمیان رکھا تاکہ چلا جا سکے اور پاجامہ بلا ازار بند لپیٹ لیا، لیکن اس طرح بھی چلنا ممکن نہیں تھا، جب اسحاق بن ابراہیم کو یقین ہو گیا کہ امام صاحب چل نہیں سکتے تو انہیں ایک سواری پر اسی حالت میں بٹھا دیا گیا۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں وزنی بیڑیاں،کسی انسان کے سہارے کے بغیر اس حالت میں سواری پر بیٹھنا بھی مشکل تھا، قریب تھا کہ گر پڑیں، لیکن اللہ نے اپنے بندے کی حفاظت کی۔ نصف شب کے قریب آپ کو ایک شخص ابو اسحاق کے گھر لے جا کر ایک تاریک کمرے میں بند کر دیا گیا۔

صبح امام صاحب کو خلیفہ معتصم کے دربار میں پابجولاں پیش کیا گیا، وہاں امام صاحب کا بدترین مخالف ابن ابی داؤد اور ان کے دیگر ساتھی بھی موجود تھے۔ امام صاحب کو خوفزدہ کرنے کے لئے تلواریں میانوں سے باہر چمک رہی تھیں،نیزے سجے ہوئے تھے اور لاٹھیاں موجود تھیں۔ آپ نے طاقت کے اس مظاہرے کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ ابن ابی داؤد اور دیگر مصاحبوں نے خلیفہ کو بھڑکایا کہ یہ شخص ہم کو کافر بنا رہا ہے اور علماء سے کہا کہ خلق قرآن کے مسئلے پر مناظرہ کریں۔
مجلس مناظرہ کے لئے ملک کے کونے کونے سے علماء بلائے گئے۔ مناظرہ تین دن تک جاری رہا۔ امام صاحب نے نہایت موثر دلائل دے کر مخالفین کی زبان بند کر دی اور ان کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا۔ خلیفہ اس صورتحال سے بڑے پریشان ہوئے۔ ایک دن انہوں نے امام صاحب سے کہا:
”اے احمد! آپ کے مسئلے نے مجھے سخت پریشان کر رکھا ہے، مجھے رات بھر نیند نہیں آتی۔ اگر مجھ سے پہلے حکمران نے آپ کو گرفتار نہ کیا ہوتا تو میں کبھی اس قسم کی جرات نہ کرتا، میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ کا مسئلہ کسی طور پر حل ہو جاتا ہے تو میں کبھی کسی کو اس قسم کے مسائل کی وجہ سے گرفتار نہیں کروں گا۔“
مناظرہ کے تیسرے دن خلیفہ کو اس کے مصاحبین نے پٹی پڑھائی، جس پر خلیفہ نے کہا: ”ارے احمد! مجھے خبر ملی ہے کہ آپ منصب جلیلہ کے خواہش مند ہیں، اگر آپ میری بات مان جائیں تو نہ صرف آپ کا شاہانہ استقبال ہو گا بلکہ سرکاری ملازمین بھی آپ کے دائیں بائیں ہوں گے، آپ کو اچھے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ آپ کی عظمت شان کے قصائد کہے جائیں گے اور آپ کی تشہیر کے لئے سرکاری ذرائع اختیار کئے جائیں گے۔“
امام صاحب نے جواب میں فرمایا:”اے امیرالمومنین! ہمارے سامنے قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ صحیح احادیث کا ذخیرہ موجود ہے۔ اگر آپ اپنا موقف ان کی روشنی میں واضح کر دیں تو مجھے آپ کا موقف اختیار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو گی۔“
اس واضح اعلان پر امام صاحب کے مخالفین آگ بگولہ ہو گئے۔یکے بعد دیگرے سب نے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ امام صاحب ان کے اعتراضات کے جوابات دیتے رہے۔ جب مخالفین دلا ئل دینے سے عاجز آگئے تو ابن ابی داؤد نے دھمکی دی کہ امیرالمومنین نے آج قسم کھا کر کہا ہے کہ آپ کو شدید اذیتیں دی جائیں اور کوڑے برسائے جائیں۔
امام صاحب نے کہا کہ اس سے پہلے مجھے کھلی مجلس میں اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ میدان مناظرہ میں لائے گئے۔ یہاں بھی امام صاحب نے اپنے دلائل سے سب کو مبہوت کر دیا۔ اس صورت حال سے امام صاحب کے مخالفین سخت ناخوش ہوئے۔ ابن ابی داؤد، برغوث، شعیب اور بشیر مریسی خلیفہ کو برابر اکساتے رہے۔ حتیٰ کہ خلیفہ نے حکم دیا کہ آپ کی قمیص اتار کر پشت پر کوڑے برسائے جائیں۔ جب آپ کو کوڑے مارنے کی تیاری شروع ہوئی تو آپ نے نہایت جرات کے ساتھ خلیفہ سے کہا:
”یاد رکھئے! جس طرح آج میں آپ کی عدالت میں کھڑا ہوں اسی طرح ایک دن آپ کو بھی اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اے امیرالمومنین اللہ کے جلال سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔“
خلیفہ مقصم پر ان کلمات کو سن کر سکتہ طاری ہو گیا۔ ابن ابی داؤد نے فوراً کہا:
”امیرالمومنین آپ ایک کافر اور گمراہ انسان کی باتوں سے متاثر ہو رہے ہیں؟“
امام صاحب نے کہا:”امیرالمومنین! آپ میرے قتل کے معاملے میں اللہ سے ڈریں۔قیامت کے روز کیا جواب دیں گے؟“
ابھی آپ کا یہ جملہ مکمل نہ ہونے پایا تھا کہ ہر طرف سے شور مچ گیا۔ ”یہ کافرہے……یہ کافر ہے۔“
خلیفہ نے حکم دیا کہ امام صاحب کو ٹکٹکی پر باندھ دیا جائے۔
آپ کو ٹکٹکی پر باندھ دیا گیا۔ ٹکٹکی کی دونوں جانب لگی لکڑیوں کو پکڑنے کا حکم دیا گیا اور جلاد نے کوڑے برسانے شروع کر دیئے۔ کائنات تھرا گئی۔ ایک عظیم انسان پر کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں اذیتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ خلیفہ بار بار کوڑوں کا معائنہ کرتے اور انہیں تبدیل کرنے اور زیادہ سخت کوڑے لگانے کا حکم دیتے۔ باری باری ایک جلاد زور سے کوڑے مارتا اور پیچھے ہٹ جاتا، لیکن خلیفہ کی تسلی نہ ہوتی اور جلادوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتے:
”تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پورے زور سے کوڑے کیوں نہیں مار رہا ہے؟“
ایک جلاد نے بعد میں بتایا: ”میں نے امام احمد کی پیٹھ پر اتنے کوڑے برسائے کہ اگر کسی ہاتھی کو اتنے کوڑے لگ جائیں تو وہ بھی اپنے ہوش و حواس قائم نہ رکھ سکے۔“
ایک قیدی ابوا لہیثم جو امام صاحب کو کوڑے لگنے کا منظر دیکھ رہا تھا کہتا ہے:”میں نے کبھی اتنی قوت سے کسی پر کوڑے لگتے نہیں دیکھے۔“جب امام صاحب کو کوڑے سے زخم لگتا تو جلاد ایک آلے سے زخم کی گہرائی ناپتے کہ کہیں اندر سوراخ تو نہیں، ایک بار کوڑا ان کے کان پر لگا جس سے کان پھٹ گیا۔
کوڑے برس رہے تھے اور اللہ کے اس اولوالعزم اور صابر بندے کی زبان پر قرآن کی یہ آیت جاری تھی۔
ترجمہ! ”تم پر وہی مصیبت آ سکتی ہے جو اللہ نے پہلے ہی لکھ دی ہے۔“
اتنے کوڑے برسائے گئے کہ امام صاحب بے ہوش ہو گئے۔ ہوش میں آئے تو پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ پھر بے ہوش ہو گئے۔ خاصی دیر بعد ہوش آیا تو خلیفہ نے کہا:”اب بھی وقت ہے میری بات تسلیم کر لو۔“ امام صاحب نے انکار کر دیا تو تیسری بار کوڑے لگائے گئے۔ یہاں تک کہ امام صاحب پھر بے ہوش ہو گئے۔ اس پر خلیفہ کچھ خوفزدہ ہو گئے۔ انہوں نے کوڑوں کا سلسلہ بند کروایا اور ابن ابی داؤد کے اصرار کے باوجود امام صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
آپ کو بغداد کے گورنر کی خاص سواری پر گھر بھیج دیا گیا۔ سواری پر نہایت تکلیف کے عالم میں تھے۔ سواری سے اتارنے والوں کا بیان ہے کہ جب ہمارا ہاتھ امام صاحب کے جسم کے اس حصہ کو لگتا جہاں کوڑے برستے رہے تھے،وہ سخت تکلیف محسوس کرتے بالآخر وہ ہمارا سہارا لے کر اترے۔ کمر چونکہ شدید زخمی تھی اس لئے منہ کے بل لیٹ گئے۔ علاج کا سلسلہ شروع ہوا، جسم کا جو حصہ کوڑوں کی ضربات سے بے حس ہو چکا تھا اسے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ بالآخر زخم مندمل ہوئے البتہ ہاتھ اور دونوں انگوٹھے کام نہیں کر رہے تھے۔
ربیع الاول 220ھ میں واثق باللہ تخت نشین ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ امام صاحب نہایت پر عزم ہیں، انہیں زدو کوب کرنا یا ایذائیں دینا مناسب نہیں، البتہ انہوں نے اپنے غم و غصہ کو فرو کرنے کے لئے حکم دیا کہ امام صاحب کے پیروکاروں پر ظلم توڑے جائیں، چنانچہ محدثین، فقہاء، معلمین، حتیٰ کہ موذنوں تک کو پکڑ کر ان پر مظالم ڈھائے گئے۔ اکثر لوگ روپوش ہو گئے۔ بہت سے قید کر لئے گئے۔ امام صاحب کو ان کے گھر پر نظربند کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے بھی نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ واثق کی وفات یعنی 232ھ تک آپ کا یہ دور ابتلاء جاری رہا۔

ذی الحجہ 232ھ / جولائی 848ء میں متوکل خلیفہ بنے۔ وہ عقائد کے اعتبار سے مامون، معتصم اور واثق سے مختلف تھے اور قرآن پاک کو مخلوق تسلیم کرنے والوں کو شدید لعن طعن کرتے تھے۔ ان کے دور میں صورت حال بدل گئی، لیکن یہ امام صاحب کے لئے آزمائشوں کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
آپ کے قدموں میں مال و دولت ڈھیر کیا جانے لگا۔ اعلیٰ عہدوں کی پیشکشیں ہونے لگیں۔ رہائش کے لئے آرام دہ اور خوشنما محل پیش کئے جانے لگے، لیکن مرد درویش صفت نے اس سامان تعیش کی جانب ایک نگاہ غلط انداز بھی نہ ڈالی۔
امام صاحب کے صاحبزادے عبداللہ بیان کرتے ہیں: ”متوکل نے والد محترم کو پیغام بھیجا کہ میں آپ کے دیدار کا متمنی ہوں اور آپ کی دعاؤں کا تبرک چاہتا ہوں،آپ قدم رنجہ فرمائیں۔ چنانچہ ہم وہاں پہنچے۔ خلیفہ نے ہماری رہائش کے لئے ایک بہترین محل کا انتخاب کیا۔ امام صاحب محل میں داخل ہوئے تو متوکل نے اپنی والدہ ے کہا……امام صاحب کے محل میں داخل ہوتے ہی محل بقعہ نور بن گیا۔“
کہاں تو کئی سال تک یہ عالم تھا کہ امام احمد بن حنبل پر کوڑے برس رہے تھے، انہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی تھیں اور ان پر مظالم کئے جا رہے تھے اور کہاں اب یہ دور ہے کہ خلیفہ بہت سا مال و دولت لئے مودب کھڑے ہیں کہ حضرت قبول فرمائیں تو عزت افزائی ہو۔ پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ عزیمت کا پیکر ہ شخص جس نے برہنہ پشت پر کوڑوں کی مار نہایت صبرو استقامت کے ساتھ جھیل کی تھی، خلیفہ کے ہاتھوں میں فاخرانہ لباس اور مال و زر دیکھ کر رو پڑتا ہے اور کہتا ہے:
”ساٹھ سال تک تو میں اس ابتلاء سے محفوظ رہا،اب عمر کے آخری حصہ میں اس فتنہ سے دوچار ہونا پڑا ہے۔“
بعد میں متوکل نے آپ کی خدمت میں بہت سا مال و دولت بھیجا، پہلے تو آپ نے انکار کیا، لیکن لوگوں کے اصرار پر لے کر تمام کا تمام مال مستحق افراد میں تقسیم کر دیا۔ اب حال یہ تھا کہ خلیفہ متوکل آپ کے مشورے کے بغیر نہ کسی کو معزول کرتے تھے نہ کسی کو کوئی منصب سونپتے تھے۔ بقیہ زندگی بھر شاذ ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن خلیفہ نے کسی اہم مسئلے پر مشورے کے لئے امام صاحب کو پیغام نہ بھیجا ہو۔ یہاں تک کہ ان کے عہد میں عباسی خلافت دراصل محدثین حنابلہ کی حکومت کہلاتی تھی۔
امام صاحب کے لئے یہ دور بڑی آزمائشوں کا دور تھا جب لوگ آپ کی راہ میں آنکھیں بچھا رہے تھے اور آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ ایسے عالم میں آپ فرماتے ہیں:
”اگر مجھے راستہ ملے تو میں کہیں کسی نامعلوم مقام کی طرف بھاگ جاؤں یہاں تک کہ میرے ذکر کا سلسلہ ہی بند ہو جائے، جی چاہتا ہے کہ مکہ کی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں چھپ رہوں یہاں تک کہ کوئی مجھے یاد نہ کرے۔ میں شہرت کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا ہوں۔“
امام احمد نے جس فقہ یعنی فقہ حنبلی کی بنیاد ڈالی وہ آج مسلمانوں کے چار اہم فقہی مسالک میں سے ایک ہے۔ فقہ حنبلی میں زیادہ اہمیت صحابہ کرام کی رائے کو دی گئی ہے۔ امام صاحب صحابہ کرام کی پیروی میں بہت سخت تھے۔
آپ کے حکیمانہ فیصلوں اور آراء کو بعد میں آپ کے شاگرد ابو بکر المروزی کے ایک شاگرد ابوبکر الخلال محدث نے کتاب الجامع کی شکل میں مرتب کر دیا۔
امام صاحب نے اپنے اصول و عقائد سے متعلق دو بنیادی رسالے تصنیف کئے۔ ان میں سے ایک رسالہ”رسالہ الرو علی الجہمیہ والزنادقہ“ میں آپ نے ایک فرقہ کے پیرو کار جہم بن صفوان کے عقائد کی وضاحت اور تردید کی۔ یہ عقائد پورے خراسان میں پھیلے ہوئے تھے۔ دوسرے رسالے ”کتاب السنۃ“ میں آپ نے بعض دینی مسائل پر نظر ڈالی ہے اور اسلام کے تمام بڑے بڑے اصولوں کے مطابق اپنا موقف صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے ایک ”کتاب الصلوۃ“ تحریر کی جو نماز باجماعت، صحت کے ساتھ ادا کرنے کی ضرورت پر تحریر کی گئی ہے۔ ”مسند من مسائل احمد بن حنبل“ امام صاحب کی سیاسی اور مذہبی خیالات کے مطالعہ کے لئے اہم ہے۔ آپ نے ایک ”کتاب الورع“ بھی تصنیف فرمائی ہے جس میں ایسے مسائل کے بارے میں آپ کی آراء درج ہیں جن میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
فقہائے حنابلہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ہر دور میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا تاکہ فقہی مسائل کی ترتیب و تدوین کا عمل جامد ہو کر نہ رہ جائے، بلکہ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق قرآن حدیث کی روشنی میں فقہی مسائل ترتیب دیئے جاتے رہیں۔
علم حدیث کے دائرے میں امام صاحب مستقل مجتہد کہے جا سکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:”امام احمد بن حنبل کو اپنے شیوخ سے احادیث و اخبار کا جو انبار ملا تھا،اس میں سے آپ نے اپنا مسلک خود قائم کیا۔“
77 سال کی عمر میں بیمار پڑ گئے۔ 9 دن تک بیمار رہے۔ عیادت کرنے والوں کی بھیڑ کا یہ حال تھا کہ بازار میں خرید و فروخت دشوار ہو گئی۔ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں آپ کی پیدائش ہوئی اور جمعہ 12 ربیع الاول 241 / 13 جولائی 855ء کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کو بغداد کے مقابر الشہداء میں سپرد خاک کیا گیا۔ جنازے میں لاکھوں سوگواروں نے شرکت کی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top