skip to Main Content

ہدایت کا سرچشمہ

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
قرآن مجید اس پوری کائنات کے خالق و مالک، اللہ تعالیٰ کا برکت اور عظمت والا کلام ہے۔ یہ کتاب ہمارے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس پر ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ یہ کتاب ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کی طرف بلاتی ہے۔
قرآن مجید میں لفظ ’’قرآن‘‘ چھیاسٹھ (66) مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قرآن کا ذکر چار ناموں سے کیا ہے: القرآن، الفرقان، الکتاب اور الذکر۔ قرآن مجید کو ’’القرآن‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بار بار پڑھا جاتا ہے۔ یہ آیات اور سورتوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں مختلف علوم ،قصّوں اور واقعات کو بہت حکمت اور دانائی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کو ’’الفرقان‘‘ یعنی ’’فرق کرنے والا ‘‘اس لیے کہاگیا ہے کہ یہ حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کر دیتا ہے۔
قرآن مجید کو’’ الذکر‘‘ یعنی ’’ نصیحت‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے ذریعے سے اللہ نے اپنے بندوں کو نصیحتیں کی ہیں۔
سورۃ یونس کی آیت نمبر 57 میں ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نصیحت (قرآن مجید) آ چکی ہے جس میں دلوں کی بیماری کے لیے شفا ہے اور وہ نصیحت اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘
قرآن مجید کے علاوہ احادیث نبوی میں بھی قرآن مجید کا تذکرہ مختلف حوالوں سے ملتا ہے۔ مثلاً صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے والا قیامت کے دن مقرب فرشتوں کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’ قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے والے لوگ رشک کے قابل ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سب سے زیادہ مبارک مہینے کی سب سے افضل رات میں نازل کیا۔ یہ رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور شب قدر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس، قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ’’ہم نے اسے لیلۃ القدر میںنازل کیا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی سب سے پہلی آیات، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم، غار حرا میں عبادت فرما رہے تھے۔ یہ’’ سورۃ العلق‘‘ کی ابتدائی پانچ آیات تھیں جنھیں اللہ کے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام، اللہ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد قرآن مجید کی مختلف آیات، مختلف مواقع پر نازل ہوتی رہیں اوراللہ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت فرماتے گئے کہ کن آیات کو قرآن پاک کی کس سورت میں کسی جگہ شامل کیا جائے۔ اس طرح تیئیس (23) برس کی مدت میں پورا قرآن نازل کیا گیا۔
قرآن کریم کی کچھ سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور کچھ مدینہ منورہ ہیں۔ کچھ سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں مگر ان کی بعض آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ علمائے کرام کی اکثریت کے مطابق جو سورتیں ہجرت نبوی سے پہلے نازل ہوئیں، وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور جو سورتیں ہجرت نبوی کے بعد نازل ہوئیں، وہ مدنی سورتیں کہلاتی ہیں، چاہے وہ کسی بھی جگہ نازل ہوئی ہوں۔ مکی سورتیں، اس زمانے میں نازل ہوئیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پھیلانے کا آغاز فرمایا اور تیرہ برس تک اہل مکہ کو اسلام کی طرف بلاتے رہے۔ آپ ﷺکے مخالفین نے آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو سخت تکالیف دیں۔ ان حالات کی وجہ سے مکی سورتوں میں زیادہ تر توحید، اللہ کی عبادت، قیامت، جزا وسزا، جنت دوزخ اور اجتماعی اخلاق کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
مدنی سورتوں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزار نے کے تفصیلی احکام نازل کیے گئے۔ مکی سورتیں عموماً مختصر ہیں اور مدنی سورتیںطویل ہیں۔
مکی سورتوں کی تعداد چھیاسی (86) ہے۔ سب سے پہلے سورۃ العلق نازل ہوئی اور مکی سورتوں میں سب سے آخر میں اترنے والی سورۃ،مطففین ہے۔
مدنی سورتوں کی تعداد اٹھائیس (28) ہے۔ ان میں قرآن پاک کی سب سے طویل سورۃ، سورۃ البقرہ بھی شامل ہے۔ پینتیس (35) مکی سورتیں ایسی ہیں جن کی بعض آیات مدنی ہیں۔ آٹھ مدنی سورتیں ایسی ہیں جن کی بعض آیات مدینہ منورہ سے باہر نازل ہوئیں۔ قرآن مجید کا زیادہ تر حصہ دن کے اوقات میں نازل ہوا۔ کچھ سورتیں رات میں نازل ہوئیں۔ قرآن پاک کے تیس پارے ہیں۔ سورتوں کی تعداد ایک سو چودہ ہے۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top