skip to Main Content

علم کا خزانہ

کلیم چغتائی

…..
کئی گھنٹوں کی محنت اور تحقیق کے بعد آخر بزرگ کو تلاش میں کامیابی مل ہی گئی لیکن……

…..

بزرگ مطالعہ میں مصروف تھے۔ ان کی چاروں طرف بہت سی کتابیں، ہاتھ سے لکھے ہوئے کاغذات اور کتابوں کے مسوّدے رکھے ہوئے تھے۔ وہ کبھی کوئی کتاب اُٹھا کر اس کا مطالعہ شروع کردیتے، کبھی کوئی کاغذ اُٹھا کر اس پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے لگتے۔ کبھی کسی مسودے کے صفحات پلٹنے لگتے۔
بزرگ ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی رنگت سرخ اور سفید تھی، چہرے پر سفید داڑھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ سر پر عمامہ تھا جس کا شملہ، بزرگ کے شانوں کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ بزرگ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے لیکن اس حالت میں بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ بزرگ کا قد اچھا خاصا ہوگا۔
بزرگ جہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہیں برابر میں ایک ٹوکرا بھی رکھا ہوا تھا۔ اس ٹوکرے میں بہت سی کھجوریں بھی تھیں۔ بزرگ مطالعہ کرتے ہوئے، ٹوکرے میں سے کھجوریں نکال نکال کر نوش فرما رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مطالعہ میں اتنے مصروف ہیں کہ انھیں خود بھی خبر نہیں ہے کہ وہ علمی کام انجام دینے کے دوران کھجوریں بھی نوش فرما رہے ہیں۔
بزرگ کو دراصل، ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش تھی۔ یہ حدیث انھیں یاد تھی مگر اب وہ اسے بھول گئے تھے۔
دراصل بزرگ کے شاگردوں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تھا۔ بزرگ چاہتے تھے کہ کتابوں میں وہ حدیث لکھی ہوئی مل جائے تو وہ اس کو بالکل درست الفاظ اور اس کے حوالوں کے ساتھ، اپنے شاگردوں کو سنا سکیں۔
کئی گھنٹوں کی محنت اور تحقیق کے بعد آخر، بزرگ اس حدیث کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس کے بارے میں ان کے شاگردوں نے سوال کیا تھا، لیکن اب بزرگ خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کر رہے تھے۔ انھیں لگ رہا تھا کہ ان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔
بزرگ بیمار پڑگئے۔ علاج کی کوشش کی گئی۔ طبیبوں نے دوائیں دیں مگر بزرگ کی طبیعت مزید خراب ہوگئی اور اس بیماری میں آپ کا انتقال ہوگیا۔
طبیبوں کی راے یہ تھی کہ بزرگ کا انتقال بہت زیادہ مقدار میں کھجوریں نوش کرلینے سے ہوا۔ آپ مطالعہ میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ آپ کو احساس ہی نہ ہوسکا کہ آپ زیادہ مقدار میں کھجوریں نوش فرما چکے ہیں۔
یہ بزرگ تھے، عظیم محدث، امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ، جنھوں نے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت اہم کتاب ’صحیح مسلم‘ مرتب فرمائی۔ اس کتاب کی تیاری میں آپ نے بہت زیادہ محنت اور تحقیق فرمائی۔ علم سے آپ کی گہری دلچسپی کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جو ہم نے ابھی آپ کو سنایا۔
آئیے…… اب ذرا امام مسلم کے بارے میں کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
آپ کا نام ’مسلم‘ اور لقب ’عساکر الدین‘ ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام حجاج بن مسلم تھا۔ آپ خراسان کے مشہور شہر نیشاپور میں 206ھ (821ء) میں پیدا ہوئے۔ امام مسلم نے اپنی ابتدائی تعلیم والدین کی نگرانی میں حاصل کی۔ والدین نے آپ کی اتنی اچھی تربیت کی کہ آپ کبھی برے کاموں کے قریب تک نہیں گئے۔ آپ نہایت متقی اور اللہ سے ڈرنے والے تھے۔ آپ نے کبھی کسی کے لیے برے الفاظ ادا نہیں فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے امام مسلم کو غیر معمولی ذہانت، سوجھ بوجھ اور عمدہ حافظہ عطا فرمایا تھا۔ اس زمانے میں جتنے علوم اور فنون رائج تھے، امام مسلم نے ان میں سے اکثر میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ اس کے بعد آپ نے اٹھارہ برس کی عمر میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم حاصل کرنا شروع کیا۔
اس زمانے میں علم حدیث کی طرف بہت توجہ دی جارہی تھی۔ امام مسلم کا شہر نیشاپور علمی سرگرمیوں کا بڑا مرکز تھا۔ اسی دور میں علمی کام کے حوالے سے بغداد کے بعد نیشاپور ہی کا نام لیا جاتا تھا۔ نیشاپور میں حدیث کے دو بڑے اساتذہ، حضرت محمد بن یحییٰ ذیلی ؒ نیشاپوری اور حضرت یحییٰ نیشاپوری موجود تھے۔ امام بخاری ؒبھی ان کے شاگردوں میں سے تھے۔
امام مسلم نے علم حدیث حاصل کرنے کے لیے دور دور تک سفر بھی کیا۔ اس زمانے میں سفر کے ذرائع کم تھے اور سفر کرنا آج کے مقابلے میں مشکل اور کٹھن تھا لیکن امام مسلم، عراق، حجاز، یمن اور شام تشریف لے گئے اور آپ نے وہاں حدیث کے اساتذہ کو تلاش کرکے ان سے حدیث کا علم حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں امام احمد بن حنبل ؒ اور امام بخاری بھی شامل ہیں۔
امام مسلم کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں امام ترمذی بھی شامل ہیں، جنھوں نے حدیث کی سب سے درست چھ کتابوں میں سے ایک، جامع ترمذی کو مرتب کیا ہے۔
امام مسلم کے دور میں جو علماء کرام موجود تھے، انھوں نے امام مسلم کے بے پناہ علم اور صلاحیتوں کی بہت تعریف کی ہے۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ کی بہت قدر کرتے تھے اور آپ کو ”علم کا خزانہ“ قرار دیتے تھے۔ آپ کے دور کے ایک عالم احمد بن سلمہ تو آپ کو اتنا زیادہ پسند کرتے تھے کہ آپ نے حدیثوں کا جو مجموعہ ’صحیح مسلم‘ کے نام سے تیار کیا، اس کی تیاری کے دوران میں کئی برس تک احمد بن سلمہ آپ کے ساتھ ساتھ رہے اور جہاں آپ جاتے، وہاں احمد بن سلمہ بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔
امام مسلم بہت مخلص، حق گو اور بے باک انسان تھے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایتوں کے انتخاب میں آپ نے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا۔
امام مسلم کسی معاملے میں اپنی تحقیق کے بعد کوئی راے قائم کرتے تھے تو بڑے سے بڑے عالم کے سامنے اس راے کا اظہار کسی جھجک کے بغیر کردیتے تھے۔ آپ اگر دیکھتے کہ آپ کے کسی استاد کی راے کسی علمی مسئلے میں آپ کی راے سے مختلف ہے، تب بھی اپنی راے کا اظہار واضح طور پر کر دیتے تھے، لیکن استاد کے احترام میں کوئی کمی نہ آنے دیتے تھے۔
امام مسلم نہایت متقی، دیانت دار، پرہیزگار اور بہت بلند اخلاق کے مالک تھے۔ آپ کی زبان سے کبھی کسی نے برے الفاظ نہیں سنے۔ آپ نے کبھی کسی سے سخت لہجے میں بات نہیں کی۔ کبھی کسی کا برا نہ چاہا، کسی کی غیبت بھی نہیں کی، نہ کسی کو مارا پیٹا۔
امام مسلم اگرچہ زیادہ تر مطالعے اور لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے اور آپ کو دوسرے کاموں کے لیے فرصت کم ہی ملتی تھی لیکن پھر بھی آپ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ وقت نکال لیتے تھے۔ امام مسلم کپڑوں کی تجارت فرماتے تھے۔
امام مسلم کی کتابوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور و معروف کتاب ’صحیح مسلم‘ ہے، جو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت اہم مجموعہ ہے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ کتابیں سب سے زیادہ درست اور صحیح مانی جاتی ہیں۔ ان کو ’صحاح ستہ‘ کہتے ہیں۔ ان میں سے بھی دو کتابیں سب سے زیادہ اہم اور صحیح تسلیم کی جاتی ہیں۔ پہلے درجے پر امام بخاری کی کتاب ’صحیح بخاری‘ اور اس کے بعد ’صحیح مسلم‘ کا مرتبہ ہے۔ یہ دونوں کتابیں، ’صحیحین‘ یعنی دو صحیح کتابیں کہلاتی ہیں۔
علم الحدیث میں حدیثوں کے اس مجموعے کو ’صحیح‘ کہا جاتا ہے، جس میں شامل احادیث کو روایت کرنے والوں کا سلسلہ مکمل ہو یعنی بیچ میں کوئی راوی ناقابل بھروسہ یا غائب نہ ہو۔
امام مسلم نے پندرہ برس تک شدید محنت اور تحقیق کے بعد تین لاکھ احادیث میں سے بارہ ہزار احادیث منتخب کرکے مجموعہ ’صحیح مسلم‘ ترتیب دیا۔ اس مجموعہ کی کئی شرحیں بھی لکھی گئیں۔
امام مسلم کا انتقال رجب 261ھ (مئی 875ء) میں ہوا۔ آپ نے پچپن برس کی عمر پائی۔ امام صاحب کو نیشاپور کے مضافات میں نصر آباد کے مقام پر سپرد خاک کیا گیا۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top