skip to Main Content

اختیار

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

صدیق کے والد کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تو صدیق کی عمر صرف بارہ برس تھی۔ یہ عمر کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے، لیکن صرف کھیل کو د سے گھر کے اخراجات تو پورے نہیں ہو سکتے۔ اوروہ بھی بارہ برس کے بچے کا کھیل۔ وہ کوئی سعید انور یا شاہد آفریدی تو تھا نہیں کہ کرکٹ اسٹار بن کر خوب دولت اور شہرت سمیٹتا پھرتا اور اگر وہ کرکٹ کھیلنے میں مہارت حاصل کر بھی لیتا تو بھی اسے قومی کرکٹ ٹیم تک پہنچنے کے لئے کئی برس اور بہت ساری خوش قسمتی درکار تھی۔
آخر محلے کے اسماعیل چچانے ایک دن صدیق کا ہاتھ پکڑا اور اسے چاچارحیم بخش کی دکان پر بٹھا آئے۔ چاچارحیم بخش مانے ہوئے بڑھئی تھے۔ ان کی دکان پر ہر قسم کا فرنیچر تیار ہوتا تھا۔ مکانات کے دروازے اور کھڑکیاں بھی بناتے تھے۔ انہوں نے صدیق کو گہری نظروں سے دیکھااور پھر اپنی بھار ی آواز میں بولے:
”اسماعیل یار! اس بچے کے حالات کسی سے چھپے نہیں ہیں۔ اس کے باپ کی وفات کے بعد یہ پورے محلے کا بچہ ہے۔ تم اگر سفارش نہ بھی کرتے تو میں خود اسے شاگرد بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا، لیکن پھر یہ خیال بھی آتا تھا کہ اس کی والدہ نہ جانے پسند بھی کریں گی یا نہیں۔“
پھر انہوں نے صدیق کی طرف دیکھا اور بولے۔ ”بیٹا! دیانت اور محنت سے کام کرنا۔ میں تمہیں ایسا کام سکھا دوں گا کہ پھر کبھی کسی کے محتاج نہیں رہو گے۔“
”مگر…… میں اسکول بھی جاؤں گا۔“ صدیق نے پہلی بار لب کھولے۔
”اسکول؟ ہاں، ہاں اسکول بھی جانا۔“ چاچا رحیم بخش ایک نامکمل میز کو کھینچ کر دیوار سے لگاتے ہوئے بولے۔”علم کے بغیر تو آدمی ادھورا ہے۔ تم ایسا کرنا، دو پہر کو اسکول سے واپس آکر کھانا کھانے کے بعد سیدھے ادھر ہی آجانا۔ شام تک کام سیکھنا۔ پھر تم جا کر اسکول کا کام وغیرہ کر لینا۔ جمعہ کو میں چھٹی کرتا ہوں، اس لیے جمعہ کو تمہاری بھی چھٹی، مگر اتوار کو پورا دن کام کرتا ہوں۔ تمہیں آنا ہو گا۔“
”ٹھیک ہے چاچا!“ صدیق نے اپنا ننھا سا سر ہلا دیا۔
یوں وہ چاچارحیم بخش کی دکان پر جانے لگا۔ کام سے لگن اور اپنی محنت کی وجہ سے اس نے صرف چھ ماہ میں خاصا کام سیکھ لیا۔ اب چاچا اسے ایک اچھی والی آری بھی دے دیا کرتے تھے۔ شروع شروع میں جب اسے آری چلانی نہیں آتی تھی تو چاچا اسے ایک بالکل ناکارہ قسم کی آری دیا کرتے تھے، تاکہ اسے مشق ہو جائے۔ یوں تو چاچا کی دکان میں بجلی سے چلنے والی آرامشین بھی تھی، مگر اس پر صرف ماہر کاریگر ہی کام کرتے تھے۔
چا چار حیم بخش کام سکھانے کے معاملے میں جتنے فیاض تھے، کام لینے کے معاملے میں اتنے ہی سخت تھے۔ ایک غلطی تو وہ معاف کر دیتے، دوسری بار وہی غلطی کرنے پر ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا۔ ان کے غصے سے سب کار یگر ڈرتے تھے۔

۔۔۔۔۔

سورج کی روشنی ماند پڑگئی تھی۔ چاروں طرف ملگجی سااند ھیرا چھانے لگا تھا۔ اپنے اپنے آشیانوں کو لوٹنے والے پرندے، فضا میں اڑتے نظر آرہے تھے۔ صدیق نے رندہ ہاتھ سے رکھ دیااور انگڑائی لی۔ آج وہ مسلسل کام میں لگا رہا تھا، اس لیے کچھ تھک سا گیا تھا۔ اس نے اوزار سلیقے سے رکھے۔ بکھری ہوئی چیزوں کو سمیٹا۔ فرنیچر کی تیاری کے دور ان میں لکڑی کے چھوٹے ٹکڑے بچ جاتے ہیں،انہیں اکٹھا کر کے ایک طرف ڈالا۔ ان میں طرح طرح کے ٹکڑے تھے۔ لمبوترے، گول، تکونے، اور چوکور۔
اچانک صدیق کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ کیوں نہ لکڑی کے ان ٹکڑوں کو اپنے گھرلے جاؤں، ان کو جوڑ کر چھوٹی بہن عائشہ کے لیے کھلونے بنادوں گا۔ اب تو مجھے بھی لکڑی کا کام اچھا خاصاآگیا ہے، اور ہاں ……!باورچی خانے میں روز رات کو چوہے آجاتے ہیں۔ لکڑی کے ذرا بڑے ٹکڑے اگر ٹوٹی ہوئی کھڑکی میں لگادوں گا تو چوہوں کے آنے کا راستہ بند ہو جائے گا۔
یہ خیال آتے ہی اس نے لکڑی کے تمام ٹکڑوں کو سمیٹا اور کاغذ کے ایک بڑے سے تھیلے میں ڈال دیا۔ چا چار حیم بخش کچھ دیر پہلے ہی کسی کام سے چلے گئے تھے، اور اسے ہدایت کر گئے تھے کہ دکان بند کر کے چابی ان کے گھر دیتا جائے۔دکان کے باقی کاریگر پہلے ہی جا چکے تھے۔
صدیق نے دکان کی بتیاں بجھائیں۔ لکڑی کے ٹکڑوں کا تھیلا اٹھایا۔ دکان کو تالا لگایا اور تھیلا اٹھا کر چل دیا۔ راستے میں رک کر اس نے چاچا رحیم بخش کے گھر پر دستک دی۔ دستک دینے سے پہلے وہ لکڑی کے ٹکڑوں کے تھیلے کو ایک طرف کونے میں چھپانا نہیں بھولا تھا۔ دستک سن کر چا چار حیم بخش کی بچی دروازے پر آئی۔ صدیق نے دکان کی چابی بچی کو تھمائی۔ جب وہ چابی لے کر اندر چلی گئی تو صدیق نے تھیلا اٹھایا اور اپنے گھر چلا گیا۔
اماں نے صدیق کے ہاتھ میں بڑا سا تھیلادیکھا تو پوچھ بیٹھیں،”یہ کیا ہے بیٹا؟“
”یہ…… یہ!“ صدیق گھبراگیا، پھر فوراًہی اس نے جھوٹ کا سہار الیا۔”یہ بیکار لکڑی کے ٹکڑے ہیں چاچا نے خود ہی مجھے دے دیے۔ باورچی خانے کی کھڑ کی میں لگا دوں گا، تو چوہے اندر نہیں آئیں گے اور عائشہ کے لیے ان ٹکڑوں سے کھلونے بھی بناؤں گا۔“
”چلو ٹھیک ہے۔“ اماں نے خوش ہو کر کہا۔”مگر ابھی کھلونے بنانے نہ بیٹھ جانا بیٹا۔ منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھالو۔ نماز تو پڑھ لی ہو گی تم نے؟“
”نماز، نہیں اماں، رہ گئی۔“ صدیق نے شرمندگی سے کیا۔
”یہ کیا کیا تم نے؟ جاؤ پہلے نماز پڑ ھو۔ ابھی مغرب کی نماز کا وقت باقی ہے۔ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوتا ہے مغرب کا۔“
صدیق نے وضو کر کے نماز پڑھی۔ اس کے نماز ختم کرتے ہی ماں نے کھانالگاد یا۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ آج صدیق کا دل کھانے میں نہیں لگ رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی کوئی چیز کھوگئی ہو۔ اسے بار بار خیال آرہا تھا کہ ایک تو وہ لکڑی کے ٹکڑے، چاچا کی اجازت کے بغیر اٹھا لایا ہے، دوسری اماں کے پوچھنے پر اسے جھوٹ بولنا پڑا۔ اماں نے اسے آہستہ آہستہ کھاتے دیکھا تو بول پڑیں:
”کیا ہوا تمہیں؟ کھاتے کیوں نہیں؟“
”کچھ نہیں اماں، بس جی نہیں چاہ رہا۔“ اس نے بڑبڑا کر جواب دیا۔
اماں اسے غور سے دیکھتی ہوئی اٹھ گئیں۔ عائشہ برتن اٹھا کر لے گئی۔ اسی وقت عشاء کی اذان شروع ہو گئی۔ صدیق نماز پڑھنے کے لیے مسجد چلا گیا۔
نماز سے واپس آکر صدیق نے اپنا بستہ اٹھایا اور اسکول کا ہوم ورک کرنے بیٹھ گیا مگر جیومیٹری کی شکلیں، لکڑی کے گول، تکونے اور چوکور ٹکڑے بن کر اس کی نگاہوں کے سامنے ناچ رہی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اسکول سے ملنے والا گھر کا کام مکمل نہیں کیا۔ کتابیں سمیٹ کر رکھ دیں، روزانہ کی طرح دانت بھی صاف نہیں کیے اور کمرے کی بتی بجھا کر بستر پر لیٹ گیا۔ صدیق کو اس رات نیند نہ آئی۔ وہ آنکھیں بند کرتا تو اسے لگتا جیسے بہت بڑا الاؤ جل رہا ہے اور کوئی اس میں لکڑی کے ویسے ہی ٹکڑے پھینک رہا ہے جیسے ٹکڑے وہ چاچا رحیم بخش کی اجازت کے بغیر اٹھا لایا تھا، تکونے، گول، لمبوترے، چوکور! پھر کوئی اسے اٹھا کر دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیتا ہے۔ درد کی شدید لہر اس کے پورے جسم سے اٹھی۔ وہ شعلوں میں گرا تڑپ رہا تھا۔ اس نے چیخنا چاہا لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔ پھر ایک جھٹکے کے ساتھ وہ ہوش و حو اس میں آگیا تو اس نے دیکھا کہ اس نے اپنے تکیے کو مضبوطی سے اپنی بانہوں میں جکڑ کر رکھا ہوا ہے، اور پسینہ پسینہ ہو رہا ہے۔
آخر سناٹے کو چیرتی ہوئی فجر کی اذان کی آواز بلند ہوئی تو وہ ا ٹھا اور وضو کرکے مسجد چلا گیا۔ نماز کے بعد اس نے گڑ گڑا کر اللہ میاں سے معافی مانگی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہے جار ہے تھے۔ اللہ میاں سے معافی مانگ کر اسے سکون ملا۔ اسے امید ہو گئی تھی کہ وہ جس الجھن میں گرفتار سے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
مسجد سے واپس آکر اس نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ پھر اسکول جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اماں بھی کب کی اٹھ چکی تھیں۔ اسکول سے واپس آکر صدیق نے نماز ظہر ادا کی۔ دو پہر کا کھانا کھایا اور چاچا رحیم بخش کی دکان پر پہنچ گیا۔ چاچا اس وقت ایک الماری پر فارمیکا لگارہے تھے۔ صدیق نے انھیں سلام کیا۔ چاچا نے مسکرا کر جواب دیا اور اسے ایک میز کے پائے بنانے پر لگا دیا۔ ابھی وہ لکڑی چھیل کر صاف کر رہا تھا کہ چاچا بولے:
”ارے صدیق، کل یہاں بہت سی لکڑی کے ٹکڑے پڑے تھے،وہ کہاں گئے؟“
صدیق کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ ایک اور جھوٹ بول دے، لیکن اسے اماں کی بات یاد آگئی، ”بیٹا! تمہارا نام صدیق ہے، یعنی سچا، مسلمان تو ویسے بھی کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور تمھیں تو اپنے نام کی لاج رکھنی ہے، کبھی جھوٹ نہ بولنا۔“
”پھر اب کیا کروں؟“اس نے جی ہی جی میں خود سے پوچھا، اور ایسا بن گیا جیسے اس نے چاچا کا سوال سنا ہی نہ ہو۔ چاچا بڑبڑائے:
”پتا نہیں کون اٹھا کر لے گیا؟ کاریگر تو کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں اٹھائے۔ میں نے تو سوچا تھا کہ میں یہ لکڑی کے ٹکڑے صدیق کو دے دوں گا، لکڑی اچھی قسم کی ہے۔ اس کے گھر میں کام آجائے گی۔“
صدیق سناٹے میں رہ گیا۔ رندہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر پڑا۔ جو چیز حلال ذریعے سے اس کی قسمت میں تھی، اسے اس نے شیطان کے بہکائے میں آکر چوری کر لیا تھا۔ وہ بجلی کی طرح تڑپ کر اٹھا اور چاچا کے ہاتھ پکڑ کر بے اختیار رونے لگا۔ چاچا اسے حیرانی سے دیکھے جارہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top