ہو ہو کی دعوت
کہانی: Hoo Hoo’s Party
مصنفہ: Enid Blyton
ترجمہ: ہُوہُو کی دعوت
مترجم: ریاض عادل
۔۔۔۔۔
ہُو ہُو نامی الو کوبہت بھوک لگی ہوئی تھی۔اس سے جو ہوسکتا تھا،وہ کرچکاتھا۔ہررات اس نے اپنی بھرپورکوشش کی تھی مگر ایک ہفتہ ہوچلاتھا کہ اسے کوئی چوہایا خرگوش کھانے کو نہیں ملاتھا۔وہ اپنے گھر،جو ایک کھوکھلے درخت میں واقع تھا، میں بیٹھا اپنے کھانے کی فکر میں گم تھا کہ اس کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا:
”میں ایک دعوت کا انتظام کرتاہوں۔“اس نے اپنے آپ سے کہا:”میں وسکرزچوہے، ٹیلرجنگلی چوہے،سافٹ ایئرز خرگوش، سنگر بلبل،ماؤڈی چھچھوندراور فرسکی گلہری کواپنے گھرآنے کی دعوت دوں گا۔ہاہا!!ہوہو!!“
اپنے خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس نے پہلا دعوت نامہ لکھنا شروع کیا:”ہُوہُو الوکی جانب سے،جناب وسکرزچوہے کو، اپنے گھرمیں،جوکھوکھلے درخت میں واقع ہے،آنے والی،چاندکی، چودھویں رات کوکھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔“پھر اسی طرح اس نے ٹیلرجنگلی چوہے، سافٹ ایئرزخرگوش،سنگربلبل،ماؤڈی چھچھوندراور فرسکی گلہری کے نام علاحدہ علاحدہ دعوت نامے لکھے اور انھیں بھیج کر ان کے جواب کا انتظارکرنے لگا۔
وسکرزنامی چوہا بہت خوش تھا کیوں کہ اس سے پہلے اسے کبھی کسی نے کھانے کی دعوت نہیں دی تھی۔اس نے شکریے کے ساتھ وہ دعوت قبول کرلی۔جنگلی چوہاٹیلر ہروقت بھوکاہی رہتاتھا،اس لیے دعوت کے خیال ہی سے وہ اتنا خوش ہواکہ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ سب سے پہلے وہاں پہنچے گا اور سب سے زیادہ کھائے گا۔اس نے بھی فوراًیہ دعوت قبول کرلی۔
سافٹ ایئرز خرگوش نے فخریہ انداز میں دعوت نامہ باربار پڑھا۔اس نے اپنی زندگی میں اب تک صرف ایک دعوت کھائی تھی۔اس دعوت میں اسے اتنا مزہ آیاتھا کہ اسے ہمیشہ دوسری دعوت کی آرزو تھی۔اس نے بھی ایک صاف ستھرا جوابی خط لکھ کردعوت قبول کرلی۔
سنگر نامی بلبل کو یہ پورا یقین تھا کہ اسے،اس کی مترنم آواز کی وجہ سے دعوت دی گئی ہے۔ اس نے سوچا:”مجھے امید ہے کہ وہ مجھے گانا گانے کو کہیں گے۔یہ بہت خوب رہے گا۔وہ سارے میری پیاری آواز کی خوب تعریف کریں گے۔“اس نے اسی دن اپنا جواب لکھاکہ اسے ہُوہُوکی دعوت قبول ہے۔
ماؤڈی چھچھوندراب تک سینکڑوں دعوتیں کھاچکاتھا۔اس کا خیال تھا کہ اس رات اس کی کہیں اور دعوت ہے مگر جب اس نے اپنی کاپی دیکھی تو اس رات اس کی کوئی پارٹی نہیں تھی۔چناں چہ اس نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اس دعوت میں ضرورجائے گااور اس نے جوابی خط لکھ دیا۔
فرسکی نامی گلہری نے ہُوہُو کا دعوت نامہ انتہائی غورسے پڑھا،پھردوبارا اورپھر سہ بارا پڑھا۔وہ ہُوہُوکو بالکل پسندنہیں کرتی تھی اور اس کا خیال تھاکہ ہُوہُوبھی اسے پسند نہیں کرتاہے۔”پھر اس نے مجھے کیوں دعوت دی ہے ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔“فرسکی نے اپنے آپ سے کہا،وہ اپنی عمر کے لحاظ سے کافی سمجھ دارتھی۔”حیرت ہے!دیکھتی ہوں اور کس کس کو دعوت ملی ہے؟“اور پھر جب اس نے جنگل کا چکر لگاکر معلومات لیں تو اسے پتا چلا کہ وسکرزچوہے، ٹیلرجنگلی چوہے،سافٹ ایئرزخرگوش،سنگربلبل اورماؤڈی چھچھوندرکو بھی کھانے کی دعوت دی گئی ہے۔وہ گہری سوچ میں گم ہوکر بیٹھ گئی۔
بہت غوروفکر کے بعد،آخرکار اس نے دعوت قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے بھی ہُوہُو کو جوابی خط لکھ کر اس کی دعوت قبول کرلی۔پھر اس نے دعوت میں جانے والے اپنے سب دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہنے لگی:”دعوت والی رات چاند نکلنے سے پہلے تیاررہنا ہم اکٹھے چلیں گے۔“
”مگرکیوں؟“سب ایک دم بولے:”ہُوہُو نے تو ہمیں پورے چاند کی روشنی میں بلایا ہے۔“
”کوئی بات نہیں۔تم ایسا ہی کرو،جیسا میں کہتی ہوں۔بالآخر تم سب خوش ہوجاؤ گے۔“فرسکی نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہاتو وہ سارے مان گئے،کیوں کہ انھیں فرسکی کی ذہانت پرپورابھروساتھا۔دعوت والی رات،وہ سب چاندنکلنے سے پہلے تیارہوچکے تھے۔
جنگل تاریکی میں ڈوبا ہواتھا،جب فرسکی خاموشی سے وسکرز، ٹیلر،سافٹ ایئرز،سنگر اورماؤڈی کے پاس گئی اور انھیں سمجھاتے ہوئے کہنے لگی:”ہم سب اکٹھے کھوکھلے درخت کی طرف جائیں گے اورپہلے اس میں جھانک کردیکھیں گے کہ ہُوہُو نے ہماری دعوت کے لیے کیا انتظام کیا ہواہے۔لیکن ہم سامنے والے راستے سے نہیں جائیں گے۔مجھے کھوکھلے درخت کی پچھلی طرف،ایک چھوٹے سوراخ کا پتا ہے۔ہم اس سوراخ سے اس طرح جھانکیں گے کہ ہُوہُو ہمیں نہ دیکھ سکے۔“
پھر وہ سب اکٹھے ہوکر،بغیر کوئی شور کیے،کھوکھلے درخت کی جانب چلنے لگے۔جلد ہی وہ کھوکھلے درخت کے قریب پہنچ چکے تھے۔فرسکی انھیں گھماکر کھوکھلے درخت کی پچھلی طرف موجود چھوٹے سوراخ تک لے آئی تھی،جس سے وہ سب اندرجھانک کردیکھنے لگے تھے۔ اسی اثنا میں چاند نکل آیاتھااوراس کی چاندنی میں، چھوٹے مہمان، اندر کا منظر واضح طورپردیکھ سکتے تھے۔درخت کے اندرونی منظر نے انھیں بڑی حیرانی میں مبتلا کردیاتھا۔اندر ان کے کھانے کے لیے کوئی ایک چیزبھی نہیں تھی۔وہاں صرف ایک خالی طباق اور پانچ خالی پلیٹیں پڑی ہوئی تھیں۔
”واہ بھئی واہ!بڑی عجیب دعوت ہے۔پتا نہیں کیک،جیلیز اور دوسری چیزیں کہاں ہیں؟“ماؤڈی نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
”شش!!“فرسکی نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:”کیا تمھیں سنائی نہیں دے رہاکہ کوئی آرہاہے؟“
وہ سب ایک دم خاموش ہوکرسننے اور دیکھنے لگے۔اور پھر پتا ہے انھوں نے کیا دیکھا؟انھوں نے دیکھا کہ ہُوہُو،اپنے چار دوستوں کے ساتھ کھوکھلے درخت میں داخل ہوا۔اپنے جیسے چار اُلوؤں کے ساتھ۔
”بیٹھ جاؤ!“اس نے چاروں کو،خالی طباق اور پلیٹوں کے گردبیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:”ہمارارات کا کھانا جلد ہی یہاں ہوگا۔ ہمیں صرف انتظارکرنا ہے۔مجھے امید ہے کہ آپ میری دعوت سے جی بھر کے لطف اندوزہوں گے۔“
سارے اُلو بیٹھ کررات کے کھانے کا انتظارکرنے لگے۔کھوکھلے درخت کی عقبی جانب موجودچھوٹے سوراخ سے جھانکتی ننھی مخلوق،ڈر کے مارے، بڑی مشکل سے سانس لے رہی تھی۔اچانک ہی ان پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اُلوؤں کی آج رات کی دعوت اورخوراک وہ خود تھے۔حقیقت کھلنے پر وہ سارے ایک ایک کرکے وہاں سے،اپنے گھروں کولوٹ آئے۔صرف فرسکی وہاں رہ گئی تھی۔ وہ ہُوہُو سے بالکل خوف زدہ نہیں تھی،اس لیے وہ بدستوراپنی آنکھیں سوراخ سے لگائے، اندر کا منظردیکھتی رہی۔
اُلوکافی دیر کھانے کا انتظارکرتے رہے مگر ان کا کھانا نہیں آیا۔اورآتا بھی کیسے،وہ تو اپنے گھروں کو جاچکاتھا۔پھران چاروں نے غضب ناک ہوکر ہُوہُو کوبے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ ہُوہُو نے جب خوف کے مارے چلانا شروع کیا تو وہ اسے کھوکھلے درخت میں چھوڑ کراڑگئے۔
”ہُوہُو!تمھاری دعوت کیسی رہی؟“فرسکی نے سارامنظر دیکھنے کے بعداس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔پھر اس نے ہُوہُو کے جواب کا انتظار کیے بغیرجست لگائی اور درخت کی سب سے اونچی شاخ میں اپنی حفاظت کے پیش نظر چھپ کر ہنسنے لگی کہ اُلو بہت غصے میں ہوگا۔وہ واقعی غصے میں تھا۔مگر اس کے بعداس نے عمربھر کسی کی دعوت نہیں کی۔
٭٭٭