skip to Main Content

ہرن کہانی

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

بس کی تمام نشستیں بھر چکی تھیں۔
ڈرائیور نے ہارن بجایا اور کوئی بٹن دبایا۔ بس کا خودکار دروازہ دھیرے سے سرکتا ہوا بند ہو گیا۔ بس ائیر کنڈیشنڈ تھی۔ اس کی کھڑکیاں بڑی بڑی تھیں۔ ان میں شیشے لگے ہوئے تھے۔ کھڑکیوں کو کھولا نہیں جا سکتا تھا۔
بس روانہ ہو گئی۔ یہ سفاری پارک کی بس تھی جو سفاری پارک آنے والے لوگوں کو پارک کی سیر کرواتی تھی۔ پارک میں مختلف جانوروں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا۔
ننھا فرخ، ماہ رُخ کی گود میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ سب سے زیادہ خوش تھا۔ ماہ رخ کے برابر والی نشست پر ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ماموں جان بس کے مردوں والے حصے میں تھے۔
بس نے ایک چکر کاٹا اور دھیمی رفتار سے سفاری پارک کے اندرونی حصے کی طرف چلنے لگی۔ اچا نک فرخ نے خوشی سے چلا کر کہا:
”باجی،ہلن ہیرن!“ وہ تتلا کر بولتا تھا۔
ماہ رخ نے بھی دیکھا، پانچ چھے ہرن کچھ دور درختوں کے نیچے کھڑے تھے۔ وہ چوکنا ہو کر چاروں طرف دیکھ رہے تھے، پھر وہ مڑے اور دوڑتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

٭……٭……٭

سفاری پارک سے واپسی پر فرخ نے گھر کے ہر فرد کو جوش سے بتایا کہ ہم نے سفاری پارک میں ہرن، بندر، طوطے اور نیل گائیں دیکھیں۔ ماموں جان، فرخ کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ ماہ رخ نے موقع اچھا دیکھا اور پوچھ بیٹھی:
”ماموں جان! آج آپ ہرن کے بارے میں بتائیے۔“
ماموں جان ہنس پڑے اور بولے:
”میں یہی سوچ رہا تھا کہ تم نے ابھی تک فرمائش کیوں نہیں کی۔ چلو آج تمہیں ہرن سے ملواتے ہیں۔“
ماہ رخ کا چہرہ کھل اُٹھا۔ وہ جلدی سے اپنی کاپی اور قلم اٹھا کر ماموں جان کے پاس آ بیٹھی۔ ماموں جان نے کہنا شروع کیا:
”بیٹی، ہرن کا تعلق جگالی کرنے والے جانوروں کے خاندان سے ہے۔ جگالی سمجھتی ہو؟“
”جی؟ جی ہاں، کچھ کچھ۔“
”ابھی ہم ہرن کے نظام ہاضمہ پر بات کریں گے تو جگالی پوری طرح سمجھ میں آ جائے گی۔ ابھی یوں سمجھو کہ گائیں اور بکریاں چارہ جلدی جلدی کھانے کے کچھ دیر بعد اسی چارے کو پھر سے چبا کر نگلتے ہیں، ہرن بھی اسی طرح کرتا ہے۔ اس عمل کو جگالی کہتے ہیں۔“
”ہاں، ماموں جان، عید الاضحی پر ہمارے گھر میں جو بکرے آئے تھے، وہ چارہ اسی طرح کھا رہے تھے۔“ ماہ رخ نے خوش ہو کر کہا۔ ”شاباش! تو میں یہ بتا رہا تھا کہ ہرن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ امریکہ میں پائے جاتے ہیں، کچھ افریقہ میں اور کچھ ایشیا میں، لیکن تمام ہرنوں میں ایک خصوصیت ضرور ہوتی ہے کہ ان کے سینگ ہوتے ہیں۔“
”خوب! ماموں جان، ہرن کے سینگ کتنے بڑے ہو سکتے ہیں؟“ماہ رخ نے پوچھا۔
”اکثر کئی فٹ اونچے ہوتے ہیں۔ یہ شاخ دار ہوتے ہیں۔ بڑی تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ایک ہفتے میں ایک سے دو انچ تک بڑھ جاتے ہیں۔ سینگ بڑھنے کے زمانے میں ان پر مخمل کی طرح کی کھال چڑھی ہوتی ہے۔ سینگ جب پوری طرح بڑے ہو جاتے ہیں تو ان پر موجود مخمل جیسی کھال جھر جاتی ہے۔“ماموں جان نے بتایا۔
”ماموں جان، ہرن اپنے سینگوں سے کیا کام لیتے ہیں؟“
”بیٹی، ایک تو سینگ ہرن کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھر ہرن اپنے سینگوں کی مدد سے درختوں پر نشانات ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے علاقے کی حد بندی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی دوسرے ہرنوں سے لڑنے میں بھی سینگ استعمال ہوتے ہیں۔“
”اچھا یہ تو بتائیے کہ کیا سارے ہرن ایک ہی سائز کے ہوتے ہیں؟“
”نہیں نہیں، یورپ کا ہرن ’ایلک‘ تقریباً ساڑھے سات فٹ اونچا ہوتا ہے، یہ اس کے کندھوں تک کی اونچائی ہے جبکہ جنوبی امریکہ کا’پوڈو‘ ہرن تو صرف دس انچ اونچا ہوتا ہے۔“
”تو پھر ایلک ہی سب سے بھاری ہوگا؟“
”ہاں، اس کا وزن 340 کلوگرام یا750 پاؤنڈ ہوتا ہے۔“
”ہرن کیا کھاتے ہیں؟“ ماہ رُخ نے سوال کیا۔
”درختوں کے پتے، ٹہنیاں، گھاس، درختوں کی چھال وغیرہ۔ اللہ تعالی نے یہ اشیاء کھانے کے لیے ہرن کو مخصوص قسم کے دانت دیے ہیں۔ اس کے نچلے جبڑے میں جو دانت ہوتے ہیں، ان پر ہلال نما ابھار ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہرن کو نباتات چبانے میں مدد ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرن کو نظام ہاضمہ بھی خاص قسم کا عطا کیا ہے، تا کہ وہ یہ نباتات ہضم کر سکے۔“
”اچھا ماموں جان یہ تو بتائیے کہ ہرن کی دیکھنے کی صلاحیت کیسی ہے؟“ماہ رخ نے پوچھا۔
”اللہ تعالیٰ نے ہرن کو آنکھیں اُس کے سر کے دونوں جانب عطا کی ہیں۔ اس سے اسے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تین سو دس درجے زاویے پر اپنے چاروں طرف دیکھ سکتا ہے، چاہے وہ سر سیدھا کیے سامنے کی طرف دیکھ رہا ہو۔ ہرن کو ایک نقصان بھی ہے، وہ یہ کہ دونوں آنکھوں سے کسی ایک شے کو نہیں دیکھ سکتا۔ ایک بات اور ہے، ہرن رات کے اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہرن کی آنکھوں پر ایک خصوصی جھلی بنا دی ہے، جب رات میں روشنی پڑتی ہے تو ہرن کی آنکھیں چمکتی ہیں۔“
”جیسے بلی کی آنکھیں چمکتی ہیں۔“ ماہ رخ نے جلدی سے کہا۔
”ہاں، بالکل اسی طرح، اچھا اب سنو کہ ہرن کو اللہ تعالیٰ نے سُننے کی بہت اچھی صلاحیت بخشی ہے۔ ہرن جب کوئی آواز سنتا ہے تو اُسے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ آواز کتنی دُور سے آئی ہے۔ یہ بہت سی ایسی آوازیں سن لیتا ہے جو ہمیں نہیں سنائی دیتیں۔“
”پھر تو ہرن کے سونگھنے کی صلاحیت بھی اچھی ہوگی؟“
”کیوں نہیں! ہرن سینکڑوں گز دُور سے کسی شے کی بُو سونگھ لیتا ہے۔“
”ہرن دوڑتا بھی بہت تیز ہے نا؟“
”ہاں! اللہ تعالیٰ نے اسے مضبوط ٹانگیں عطا کی ہیں۔ ان کی مدد سے وہ تیز دوڑ سکتا ہے۔ مختلف ہرنوں کے دوڑنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے مثلاً میوں ڈیئر تقریباً ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہرن اس رفتار سے چند منٹ تک ہی دوڑ سکتے ہیں، پھر وہ تھک جاتے ہیں۔ دراصل وہ خطرے کے وقت تیز رفتاری سے دوڑ کر کسی محفوظ مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ دوڑتے ہوئے وہ چھلانگ بھی لگا لیتے ہیں۔ میول ڈیئر تو آٹھ فٹ بلند چھلانگ لگا سکتا ہے۔“
”ماموں جان! ہرن بھی انسان کی طرح خاندان بنا کر رہتے ہیں؟“
”ہاں بیٹی! ہرن کی اکثر قسمیں خاندان کی شکل میں رہتی ہیں لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قسم کے خاندان کی سربراہ کوئی ہرنی ہوتی ہے جبکہ نر ہرن اکیلا رہتا ہے۔ ویسے کئی اقسام کے ہرن جوڑوں کی شکل میں رہتے ہیں۔“
”ماموں جان! اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے، آپ نے ہرن کے متعلق بہت قیمتی باتیں بتائیں۔“ ماہ رخ نے شکر بھرے لہجے میں کہا۔
”اللہ تمہیں بھی خوش رکھے۔ علم سے تمہاری دلچسپی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔“یہ کہہ کر ماموں جان اپنے کمرے میں چلے گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top