skip to Main Content
امان میاں کے طوطے

امان میاں کے طوطے

وقار محسن

…………………………………………….

وقار محسن کے قلم سے بچوں کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں ایک خوبصورت تحریر

…………………………………………….

صدر میں واقع رینبو سینٹر سے میں نے اپنے آٹھ سالہ نواسے امان کو کارٹون کی سی ڈیز خرید کر دیئے اور جب میں ان کی انگلی پکڑ کر سڑک کے پار کار پارکنگ کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک امان میاں اپنی انگلی چھڑا کر سامنے دوکان کی طرف بھاگے جہاں پنجروں میں بے شمار رنگ برنگے پرندے چہچہا رہے تھے۔ امان آسٹریلین طوطوں کے پنجرے کے پا س جا کر خوشی سے تالی بجانے لگے اور مجھے بے تابی سے آواز دی۔ 
’’نانا پاپا! ادھر آئیں۔ دیکھیں بلو چڑیا اپنے منے کو چونچ سے دانہ کھلا رہی ہے۔ ‘‘ میں ان کی نیت بھانپ گیا کہ اب یہ طوطے لینے کیلئے مچل جائیں گے اور ان کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ میں نے ان کو بہلانے کیلئے کہا۔ 
’’ ہاں بیٹا! چلو اگلے اتوار آپ کو چڑیا گھر کی سیرکرائیں گے۔ وہاں ڈھیر سے پیارے پیارے طوطے ہوں گے۔‘‘
’’ہم نئیں! نانا پایا! ہمیں چڑیا گھر نہیں جانا ، ہم نے یہ سارے طوطے لینا ہیں۔‘‘ وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آسٹریلین طوطوں کے دو جوڑے بمع سفید تیلیوں والے پنجرے کے خریدنے پڑے۔ پنجرے میں نیچے کی طرف دو پلاسٹک کی ڈبیاں تھیں۔ ایک پانی کیلئے اور ایک دانے کیلئے ۔ اوپر کی طرف مٹی کی ایک ہنڈیا بندھی تھی جس میں ایک سوراخ تھا اور جب میں نے امان میاں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ بتایا کہ ہنڈیا میں بیٹھ کر طوطی انڈے دے گی تو امان کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اپنے نزدیک رکھے پنجرے میں وہ بار بار جھانک کر دیکھتے کہ طوطی نے انڈا دیا یا نہیں۔
پنجرہ لے کر جب میں گھر میں داخل ہوا تو امان میاں نے خوشی سے ناچتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی ننھے ایان، سفید جھرے کتے موتی، نانی ، امی اور چچا عنایت کاشمیری کو جمع کر لیا۔ ننھے ایان اپنے دودھ کے فیڈر کا نپل پنجرے کی جالی میں اندر سرکا کر طوطوں کو دودھ کی آفر کرنے لگے۔ موتی اپنے پنجے پٹک کر اامتناج کرنے لگے کہ ان کو بھی طوطوں کا دیدار قریب سے کرنے دیا جائے۔ 
’’امان بھائی! میں اپنا ٹافیوں کا ڈبہ لاؤں طوطوں کو کھلانے کیلئے۔‘‘ ننھی تانیہ نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔
’’ نہیں ننھی! طوطے ٹافی نہیں آئسکریم کھاتے ہیں۔ اور ہاں منی! رات کو طوطے ہنڈیا میں انڈے دیں گے پھر ان میں تمہاری طرح ننھے ننھے طوطے نکلیں گے۔‘‘ امان میاں نے اپنی معلومات کا فخریہ اظہار کیا۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد پھر سب بچے پنجرے کے اردگرد جمع ہوگئے لیکن آہستہ آہستہ ان کا جوش ماند پڑنے لگا۔ بچوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود سارے طوطے ایک کونے میں اداس بیٹھے رہے۔ آئسکریم ، ٹافی، چپس، سینڈوچ، بسکٹ ، موتی کی مرغوب ہڈی، جلیبی، دکھانے کے باوجود طوطے روٹھے بیٹھے رہے۔ 
’’امان بھائی ! طوطے ہم سے کٹی کیوں ہیں؟ ہم سے بات کیوں نہیں کرتے۔‘‘ ننھے ایان نے اداسی سے پوچھا۔
’’ننھے! شاید طوطوں کا گھر چھوٹا ہے۔ اس میں روشنی بھی نہیں ہے۔ جھولابھی نہیں ہے۔ میں چچا عنایت کاشمیری سے کہوں گا کہ وہ ان کے لیے ایک بڑا سا پنجرہ بنائیں جس میں رنگین بلب ہوں، جھولے ہوں، صوفہ اور پلنگ بھی ہوں۔‘‘
عنایت کاشمیری ہمارے گھر میں تقریباً پندرہ سال سے ملازم ہیں۔ کیونکہ سب بچوں کو انہوں نے گود میں کھلایا ہے۔ اس لیے سب ان سے بہت مانوس ہیں۔ اگلے دن سب بچوں کی مدد سے عنایت خان نے لکڑی کا ایک خوبصورت پنجرہ تیار کر دیا۔ تیل کی سنہری جالیاں ، پلاسٹک کا دائرہ نما جھولا، دو رنگین بلب اور یوں طوطوں کا محل تیار ہو گیا۔ لیکن بچوں کو یہ دیکھ کر نہایت مایوسی ہوئی کہ اس سنہرے محل میں بیٹھ کر طوطے خوش نہ ہوئے اور یونہی چونچ لٹکائے اداس بیٹھے رہے۔
رات کو امان میاں کی قیادت میں بچوں کا وفد میرے پاس آیا اور امان میاں منہ بسورتے ہوئے رقت انگیز آواز میں بولے۔
’’ نانا پاپا! یہ طوطے بہت مغرور اور ناشکرے ہیں۔ یہ دھوپ، بارش اور سردی میں جنگلوں میں دربدر مارے پھرتے تھے۔ کچے، پکے پھلوں پر گزارا کرتے تھے۔ بڑے پرندے ان کو مارنے کی تاک میں رہتے تھے۔ یہاں ہم نے ان کے لیے سنہرا محل بنا کر دیا۔ کھانے کیلئے ہر چیز پیش کی۔ سب بچے ان سے پیار کرتے ہیں لیکن یہ جاہل مغرور طوطے منہ بنائے بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘
برابر کرسی پر بیٹھی امان میاں کی نانی بھی ان کا شکوہ سن رہی تھیں۔ انہوں نے مسکرا کر امان اور ایان کو اپنی گود میں بٹھایا اور کہا۔
’’امان بیٹا! دنیا میں آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔ قید اور غلامی سے بڑی کوئی لعنت نہیں۔ قید چاہے جیل میں ہو، کوٹھری میں ہو یا سونے چاندی کے محل میں ہو قید ہے۔ دولت کے انبار اور سنہرے محل وہ خوشی نہیں دے سکتے جو آزادی کی سانس لینے میں ہے۔ یہ طوطے درختوں کی شاخوں پر آزاد فضاؤں میں اڑتے تھے، چہچہاتے تھے۔ بارش کی پھوار میں پر پھیلا کر نہاتے تھے۔ رنگ برنگے پھولوں کے درمیان اپنے بہن بھائی اور دوستوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ رات کو تھک کر تنکوں کے گھونسلے میں اپنے ابو، امی کے پروں میں چھپ کر گہری نیند سوتے تھے۔ بھلا پنجرہ میں رہ کر وہ کیسے خوش ہو سکتے ہیں۔ اگر تم واقعی ان کو خوش دیکھنا چاہتے ہو تو ان کو آزاد کر دو اور بادلوں میں رقص کرنے دو۔‘‘
میرا خیال تھا کہ نانی کی یہ باتیں بچے نہیں سمجھ پائیں گے لیکن مجھے بہت تعجب ہوا جب امان میاں اپنی نانی کی گود سے اتر کر بڑے پراعتماد قدموں سے چلتے ہوئے اپنے دوستوں کے ہمراہ انار کے درخت کے نیچے گئے جہاں طوطوں کا پنجرہ لٹکا ہوا تھا۔ انہوں نے پنجرے کی کھڑکی کا کنڈا کھولا۔ پہلے تو طوطوں نے اپنی گول گول آنکھوں کو گھماتے ہوئے بچوں کی طرف حیرت سے دیکھا کہ کہیں یہ ان کو پکڑنے کی چال تو نہیں۔ لیکن جب امان میاں نے مسکراتے ہوئے سیٹی بجا کر ان کو باہر جانے کا اشارہ کیا تو وہ خوشی سے چہچہاتے ہوئے پھر سے اڑ کر انار کے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھے۔ گلابی رنگ کے طوطے نے اپنا نازک پنجہ اٹھا کر اپنی چونچ پر رکھا تو ایان میاں چہک کر بولے۔
’’دیکھو۔۔۔ دیکھو، امان بھائی طوطا ہم سب کو پیار بھرے انداز میں دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
’’ نہیں ننھے! وہ ہم سب کو سلامی دے رہا ہے جیسے یوم آزادی کو پاکستانی جھنڈے کو سلامی دی جاتی ہے۔‘‘ امان میاں نے خیال ظاہر کیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top