ہمت مرداں۔۔۔مددِخدا
کہانی: Never Mind!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: ماہم احسن
۔۔۔۔۔
سعید کے سالانہ امتحان ہوچکے تھے۔ جب نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی جماعت میں اول آیا تھا۔ وہ اکلوتا تھا اور سب کا لاڈلا تھا۔ سب بہت خوش ہوئے۔ امی نے اسے انعام میں کہانیوں کی کتاب دی۔ ابو نے سائیکل خرید کردی۔ دوسرے شہر سے خالہ نے گیند بلا بھجوایا۔
دو دن بعد ڈاکیا دو منی آرڈر لایا۔ چچا فرید کی طرف سے ہزار روپے جبکہ پھپھی علینہ کی طرف سے پانچ سو روپے آئے تھے۔
’’امی میں امیر ہوگیا!‘‘ سعید خوشی سے پھولا نہ سمایا۔’’آہا! میں اب اپنی پسند کی چیزیں خریدوں گا۔ امی، میں ان پیسوں سے اپنی من پسند چیز خرید لوں؟‘‘
’’ہاں بالکل، لیکن دیکھو فضول خرچی بالکل نہ کرنا۔‘‘ امی نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
’’زبردست!‘‘ سعید نے خوشی سے کہا۔’’پتہ ہے امی میں کیا خریدوں گا؟ میں وہی کالے رنگ کا پینٹ باکس خریدوں گا جو میں نے پرسوں اسٹیشنری کی دکان پر دیکھا تھا۔ امی، کیا میں آج ہی وہ پینٹ باکس خریدنے چلا جاؤں؟‘‘
’’بالکل، تم جاسکتے ہو۔ اچھا یہ بتاؤ باقی پیسوں سے کیا خریدوگے؟‘‘
’’باقی پانچ سو روپے؟‘‘ سعید نے سوچتے ہوئے کہا۔’’میں نے اس بارے میں سوچا نہیں۔ ٹافیاں یا شاید۔۔۔۔بلکہ میں انھیں بھی پرس میں رکھ لیتا ہوں۔ شاید مجھے ضرورت پڑ جائے۔‘‘
کچھ دیر بعد سعید دکان کی طرف جارہا تھا۔ راستے میں بھی وہ مسلسل اس کالے رنگ کے پینٹ باکس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس پینٹ باکس کے اندر بیس مختلف رنگ تھے اور چار مختلف سائز کے برش۔ وہ واقعی ایک زبردست پینٹ باکس تھا۔
دراصل سعید کو مصوری کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنی بنائی گئی مصوری میں صرف رنگ کرتا یا پھر کریون لیکن آج وہ پینٹ باکس خریدنے والا تھا۔ اس کو اس بات کی خوشی تھی کہ وہ اب اپنی مصوری میں پینٹ کرسکے گا۔
’’پینٹ سے مصوری ضرور خوب صورت نظر آئے گی۔‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچتا ہوا جارہا تھا کہ راستے میں اسے طارق نظر آیا۔
طارق اس کا بہترین دوست تھا۔
’’طارق۔۔۔!کیسے ہو؟ تمہیں کچھ بتانا تھا۔‘‘ سعید نے طارق سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔’’دیکھو مجھے سالانہ امتحانات میں کامیابی کے نتیجے میں کیا ملا!‘‘
سعید نے یہ کہتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈال کر ہزار روپے کا نوٹ پرس سے نکالا لیکن یہ کیا! ہوا تیزی سے اڑتی ہوئی آئی اور اس سے پہلے کہ طارق نوٹ دیکھ پاتا، ہوا اسے اڑا کر لے گئی۔
نوٹ ہوا میں اونچا اونچا اڑتا ہوا باڑ کے نزدیک پہنچا اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
’’ارے۔۔نہیں!‘‘ سعید چیخ اٹھا۔’’میرے روپے! طارق جلدی کرو، میرے ساتھ روپے ڈھونڈو!‘‘
طارق اور سعید دونوں ایک ساتھ بھاگے اور باڑ کے پیچھے پہنچے۔ لیکن نوٹ کہیں بھی نہیں تھا۔ وہاں ایک بکرا کھڑا جگالی کررہا تھا۔ سعید نے مشکوک نگاہوں سے بکرے کو گھورا۔
مجھے پکا یقین ہے کہ اسی بکرے نے نوٹ نگل لیا ہے۔‘‘ وہ روہانسی آواز میں بولا۔’’یہ ہر وقت الم غلم کھاتا رہتا ہے۔ کل بھی یہ ایک اخبار چبا رہا تھا۔ گندے بکرے کیا تم نے وہ نوٹ چبا لیا؟‘‘
بکرے نے اپنا سر ہلایا اور وہاں سے بھاگ گیا۔۔
طارق نے ہمدردی سے سعید کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’کوئی بات نہیں!‘‘ اس نے کہا۔’’تمھارا دوسرا لفافہ تو تمھارے پاس موجود ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہے تو۔‘‘ سعید نے مرے مرے لہجے میں سر ہلایا۔’’لیکن اس میں صرف پانچ سو روپے ہیں۔ میں وہ پینٹ باکس نہیں خرید سکوں گا۔ کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں!‘‘ طارق نے دوبارہ کہا۔’’تم کچھ کریون خرید لو۔ کریون سے بھی تصویر خوب صورت نظر آتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ سعید نے اداسی سے سر ہلایا۔
تھوڑی دیر بعد وہ اور طارق اسٹیشنری کی دکان پر موجود تھے۔
’’یہ نئے کریون آئے ہیں، یہ خرید لو۔ یہ صرف 200 روپے کے ہیں۔‘‘
سعید نے پس و پیش کیے بغیر چپ چاپ طارق کی بات مان لی۔
طارق ذہین لڑکا تھا۔ وہ سعید کو ہمیشہ درست مشورے دیتا تھا۔
’’آہا، یہ دیکھو، دکان پر نیا رسالہ آیا ہے۔ یہ خرید لو۔ یہ 200 رپے کا ہے۔ اس میں ایک تصویر دی گئی ہے۔ جس کو ایک ہفتے میں مکمل کرکے رنگ کرکے بھیجنا ہے۔ میں نے اس بارے میں پڑھا تھا۔ بہترین تصویر کو انعام بھی ملے گا۔ باقی سو رپے کی چند پینسل اور ٹافیاں لے لو۔‘‘
سعید جب گھر آیا تو اس کے پاس کریون کا ڈبہ، رسالہ، پینسلیں اور کچھ ٹافیاں تھیں۔ اس نے کچھ ٹافیاں طارق کو بھی دی تھیں۔اس نے طارق سے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ رسالہ پڑھنے کے بعد اس کو بھی پڑھنے کے لیے دے گا۔
اس نے ساری بات امی کے گوش گزار کردی۔ اس نے بتایا کہ کس طرح ہزار روپے ہوا اس کے ہاتھ سے اڑا لے گئی۔ امی کو افسوس ہوا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ انھوں نے اس کی ہمت بندھائی۔’’کوئی مسئلہ نہیں! تمہیں اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’امی دیکھیں، اس رسالہ میں تصویر کا ایک مقابلہ دیا گیا ہے۔ اس تصویر کو مکمل کرتے ہوئے اس میں بہترین رنگ کرنا ہے۔ امی کیا میں اچھا رنگ کر پاؤں گا؟‘‘ سعید نے کہا۔
’’بالکل، میرا بیٹا کیوں نہیں کرسکے گا؟‘‘ امی نے پیار سے پوچھا۔
’’میرے پاس وہ زبردست سا پینٹ باکس نہیں ہے نا!‘‘ سعید نے مایوسی سے کہا۔’’اگر میرے پاس وہ ہوتا تو اس تصویر میں کتنا اچھا رنگ کرپاتا۔‘‘
’’کریون سے بھی بہت اچھا رنگ ہوتا ہے بیٹا، تم کوشش تو کرو۔ بس ہمت نہیں ہارنا، محنت کرو۔۔۔محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔‘‘
سعید نے فرمانبرداری سر ہلایا اور اس تصویر پر کام کرنے لگا۔ دو گھنٹے کی محنت کے بعد نئے کریون کی مدد سے وہ تصور مکمل کر چکا تھا۔ اس نے بہت بہترین تصویر بنائی تھی۔
’’ارے۔۔۔ واہ! کتنی اچھی تصویر بنائی ہے تم نے!‘‘ امی نے تعریف کی۔’’اب تم اس تصویر کو جلد از جلد پوسٹ کردو۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک زبردست سا انعام جیت جاؤ۔‘‘
سعید نے رسالہ میں سے تصویر کو کاٹا۔ اس کی پشت پر اپنا نام اور پتہ لکھا۔ پھر تصویر کو لفافے میں ڈال کر پوسٹ کردیا۔
کچھ دن بعد انعام یافتگان کے نام شائع ہوئے۔ سعید کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا، کیونکہ اس کا نام بھی شامل تھا۔ سعید سے انتظار نہیں ہورہا تھا۔ وہ جلد از جلد اپنا انعام پانا چاہتا تھا۔
ایک دوپہر اچانک تحفہ گھر پر پہنچ گیا۔ ڈاکیا ایک خاکی رنگ کا بڑا سا لفافہ انھیں دے گیا تھا۔ اس پر سعید کا نام لکھا تھا۔
’’سعید ابرار۔۔۔۔سعید ابرار۔۔۔‘‘سعید نے دو دفعہ اپنا نام پڑھا۔ اسے یقین نہ آتا تھا۔
’’امی! امی!‘‘ وہ تیزی سے امی کو پکارتے ہوئے اندر آیا۔’’امی تحفہ آگیا ہے۔ آئیے اسے کھولتے ہیں!‘‘
امی نے لفافہ احتیاط سے کھولا۔ سعید نے ہاتھ بڑھا کر اندر سے تحفہ نکالا۔
وہ ایک بڑا، کالے رنگ کا چمکتا ہوا پینٹ باکس تھا۔ وہی پینٹ باکس جو اسے چاہیے تھا!
’’امی!‘‘ وہ فرط مسرت سے چلایا۔’’امی یقین نہیں آتا! یہ وہی ہے، ہاں بالکل وہی جو میں نے اس دن دکان پر دیکھا تھا۔ دیکھیں! آخرکار مجھے پینٹ باکس مل ہی گیا۔ آہا، میں بہت خوش ہوں۔‘‘
’’میں بھی بہت خوش ہوں بیٹا!‘‘ امی نے سعید کو پیار کیا۔’’تمہیں تمھاری محنت کا صلہ ملا ہے۔ اس دن دو گھنٹے تم نے جس تصویر پر صرف کیے، اس کا پھل تو ملنا تھا نا؟ شاباش!‘‘
بچو! آپ بھی محنت کیجیے، محنت میں عظمت ہے اور ہاں ہمت نہ ہاریے، مایوس نہ ہوئیے۔ کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔

