skip to Main Content

ہوا کی جیت

مصنفہ: Enid  Blyton
مترجم: رئیس احمد مغل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے تقریباً تیرہ سو سال پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بوڑھی عورت کو پھولوں سے سخت نفرت تھی اور اسے آدھا جادو بھی آتا تھا۔ وہ ایک پہاڑی کے دامن میں ایک بہت بڑے لیکن تاریک اور گندے گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ اس کے گھر کے ارد گرد ایک اونچی دیوار تھی جو اس جادوگرنی نے اس لیے بنوائی تھی کہ کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ وہ کیا کرتی رہتی ہے،لیکن اسی دیوار میں ایک دروازہ بھی تھا۔
صبح سویرے جب بوڑھی جادوگرنی ا بھی غفلت کی نیند میں ہوتی، ایک رحم دل شخص جس کا نام محفوظ تھا اور اس کا گھر پہاڑی کے پیچھے بہنے والے چشمے سے پار،مشرق کی طرف تھا،اس دروازے سے داخل ہوتا اور اس ویران صحن میں پھولوں کے بیج بوتا۔وہ ہر صبح ندی پار کرتا اور صحن میں پانی دے کر واپس اپنے گھر چلا جاتا۔راستے میں وہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا کہ جب گلاب،یاسمین اور موتیا کے خوبصورت پھول اپنی بہار دکھائیں گے تو بوڑھی عورت کتنی خوش ہوگی۔
لیکن اس کے برعکس، ایک صبح جب ہوا کی پہلی اڑان کے ساتھ، گلاب کی خوشبو اندر کمرے تک پہنچی تو بوڑھی خوش ہونے کے بجائے انتہائی ناراض ہوئی اور غصے سے لرزنے لگی۔اس نے گلاب کے ایک تازہ پھول کو توڑ کر پاؤں کے نیچے مسل ڈالا اور سارے پودے اکھاڑ دئیے۔اس دوران میں روزانہ کی طرح جب محفوظ صاحب پہنچے توصحن کی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ گئے۔
”تو یہ تم احمق ہو!“اسے دیکھتے ہیں بوڑھی دھاڑی۔”تمہیں علم نہیں کہ مجھے پھولوں سے شدید نفرت ہے؟“
”کیا؟ پھولوں سے نفرت ہے؟“محفوظ صاحب حیران رہ گئے۔
”ہاں نفرت اور سخت نفرت، مجھے خوبصورت چیزوں سے نفرت ہے۔میں ایک گندی، پھوہڑ بوڑھی عورت ہوں،مجھے اس بات کا اچھی طرح علم ہے لیکن مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں،میں اسی طرح رہنا چاہتی ہوں۔“
بوڑھی عورت اتنے غصے میں تھی کہ اگر اسے پورا جادو آتا ہوتا تو وہ محفوظ صاحب کو مکھی بنا کر اسی بڑی دیوار پر چپکا دیتی۔لیکن اسے آدھا جادو آتا تھا۔
”میں اس دروازے کے آگے دیوار بنا کر اسے ہمیشہ کے لئے بند کر دوں گی، اور دیوار کے اوپر لوہے اور چبھنے والے شیشوں کے ٹکڑے لگا دوں گی۔پھر تمہارے جیسا کوئی احمق میرے صحن میں داخل ہونے کی جرأت نہ کر سکے گا۔اور ہاں میں دو منتر بھی پڑھوں گی۔پہلے منتر سے اس دیوار کے اندر کوئی زندہ چیز نہ آ سکے گی اور دوسرے منتر سے اس صحن میں بوئے ہوئے تمام بیچ قتل ہو جائیں گے۔
اپنی یہ تجویز اسے اتنی پسند آئی کہ وہ خوشی سے قہقہے لگانے لگی”……ہاں میں دو منتر پڑھوں گی اورپھر کوئی منحوس پھول اس صحن میں نہیں اگے گا……یہ صحن اور یہ گھر اسی طرح گندا اور ویران رہے گا……ہاہاہا……بالکل اسی طرح گندا اور ویران جس طرح میں چاہتی ہوں۔“
بے چارے محفوظ صاحب اس دن بڑی مشکل سے وہاں سے جان بچا کر بھاگے۔بوڑھی عورت نے جو کچھ کہا تھا اس پر عمل کیا۔ جلد ہی دیوار میں کوئی دروازہ نظر نہ آتا تھا،دیوار کے اوپر نوکیلے شیشوں کی تہ چمکتی ہوئی دور سے نظر آتی اور جادوگرنی کے منتر کی وجہ سے دیوار سے بیس فٹ کے فاصلے سے آگے جانا ممکن نہیں تھا۔جادوگرنی نے اپنے منتر سے تمام بیجوں کو زمین میں ہی ختم کر دیا اور یہ سارے کام مکمل کرنے کے بعد بوڑھی جادوگرنی نے اپنے آپ کو اپنی کالی بلی کے ساتھ عمارت میں بند کر لیا اور اپنی بنائی ہوئی مشین پر کپڑا بنتی رہی۔
گرمیوں کے روشن دن گزرے اور اس گندے گھر کی طرف کسی شخص نے بھی نہ دیکھا۔مگر میں نے یہ نہیں کہا کہ اس گھر میں کوئی بھی نہیں آیا۔اصل میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہاں کوئی بھی نہیں آیا۔مشرق کی زوردار ہوا کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے اس ویران گھر اور صحن کو دیکھا۔ اس نے منتر،مضبوط دیوار اور چبھنے والے شیشوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔کیوں کہ یہ ساری رکاوٹیں اسے اندر جانے سے نہیں روک سکتی تھیں۔اس دن مشرق کی ہوا نے بار بار سوچا۔
”گھاس کی ایک پتی تک نہ ہونا کتنی بری بات ہے۔اس گھر کے اردگرد طرح طرح کے پودے ہیں،قریب ہی پانی ہے اور پھر بھی گھاس کی ایک پتی تک نہیں! بہت بری بات،بہت ہی بری بات ہے!“
اور پھر شام تک ہوا،یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ اس صحن کو اتنا ویران نہیں رہنے دے گی۔
دوسرے دن صبح ہی صبح ہوا نے اپنے کام کا آغاز کیا۔کبھی اِدھر کبھی اُدھر،ایک دن میں ہوا نے بہت سی چیزیں جمع کر لیں۔تراشی ہوئی پینسل کے تراشے،بزرگوں کی داڑھی سے گرے ہوئے بال،جلائے ہوئے کاغذوں کی راکھ،اور طرح طرح کے بیج۔کوئی بیج چھوٹا تھا تو کوئی اتنا بڑا کہ ہوا کو اسے اٹھانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔لیکن ہوا بھی ارادے کی پکی تھی۔اس نے یہ سارے بیج اس صحن تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ اصل میں یہ سب بیج بھی ہوا کے ساتھ جانے اور اس صحن میں اگنے کو بے چین تھے جہاں کی بوڑھی جادوگرنی، جسے ابھی آدھا جادو آتا تھا، پھولوں اور خوبصورتی سے نفرت کرتی تھی۔
وہ بیج،سردی کے پورے موسم میں اس ویران صحن میں سختیاں برداشت کرتے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ آخر کبھی تو گرمیاں آئیں گی اور ہوا اپنے وعدے کے مطابق،بادل کو اس صحن تک لا کر پانی کا انتظام کرے گی۔ہوا سردیوں میں اس گھر کو اور ان بیجوں کو بھولی نہیں تھی،لیکن اسے معلوم تھا کہ سردیوں میں اپنے دوست بیجوں کے پاس جانے سے ان کو اور زیادہ سردی لگے گی اور ان کی تکلیف میں اضافہ ہوگا۔آخر سردیوں کا سخت زمانہ گزرا اور پہاڑوں پر جمی برف پگھلنا شروع ہوئی۔
پانی بھاپ بن کر جب بادل بنا تو ہوا سیدھی اس کے پاس گئی اور اسے بوڑھی عورت کا قصہ سنایا۔بادل ساری بات سن کر سخت غصے میں آگیا۔اسے یوں بھی غصہ بہت آتا تھا،لیکن ایسی بڑھیا کا سن کر،جسے پھولوں اور خوبصورتی سے نفرت ہے،اس کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ وہ دھاڑتا ہوا،اس گھر کے اوپر پہنچا اور خوب خوب بارش برسائی۔وہ بارش برساتا جاتا اور غصے سے چنگھاڑتا جاتا۔ایسی خوفناک آواز سن کر بوڑھی عورت بھی ڈر گئی اور اس نے اپنے دروازے اور کھڑکیاں اور زیادہ مضبوطی سے بند کر لئے۔ایسی ہی دو تین ہی بارشوں کے بعد،اتنا سبزہ پھوٹا کہ پورا صحن طرح طرح کے پھولوں کی خوشبو اور سبز رنگ سے بھر گیا۔اس صحن کی خوشبو دیوار سے باہر تک مہکنے لگی۔
جب یہی مہک بوڑھی عورت کی ناک تک پہنچی تو اس کا مارے غصے کے برا حال ہوگیا۔وہ کھڑکی بند کرنے باورچی خانے تک آئی تاکہ یہ مہک جس کے بھی گھر سے آرہی ہے،بوڑھی عورت تک نہ پہنچے۔لیکن کھڑکی سے باہر اپنے صحن کا منظر دیکھ کر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ا سے اندازہ ہی نہ تھا کہ جس دوران میں وہ عمارت میں بند رہی اور اپنے آدھے جادو سے کام لے کر اپنی ضروریات زندگی پوری کرتی رہی،باہر اس سے بھی زیادہ محنت،مگر خاموشی سے،ہوا اس کے صحن کو خوبصورت بنانے میں کرتی رہی۔وہ بوڑھی عورت جیسے ہی ہوش میں آئی اس نے اپنی بلی کو اپنے ساتھ،جادو کی جھاڑو پر بٹھایا اور اسے اڑنے کا حکم دیا۔یہ جھاڑو کیوں کہ بوڑھی جادوگرنی صرف جادو کے لیے استعمال کرتی تھی اور اس سے اس نے گھر کبھی صاف نہیں کیا تھا،اس لئے اس پر گرد جمی ہوئی تھی۔لہٰذا اس پر بیٹھتے ہیں بلی کو زور دار چھینک آئی اور چھینک کے ساتھ ہی جھاڑونے یوں اڑنا شروع کر دیا جیسے یہ بلی کی چھینک سے ہی اسٹارٹ ہوا ہو اور پھر وہ کالی بلی،جھاڑو اور بوڑھی عورت کبھی واپس نہ آئے۔اس منظر کو دیکھ کر پھولوں اور ہوا نے مل کر قہقہہ لگایا اور آس پاس کے درختوں نے بھی جھوم جھوم کر ان کا ساتھ دیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top