skip to Main Content

گڈمارننگ

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

دفتر میں نئے ڈائرکٹر صاحب کیا آئے تھے کہ دفتر کا رنگ ہی بدل گیا تھا۔ نئے ڈائرکٹر صاحب کو آئے ابھی مہینہ بھرہی ہوا تھالیکن اس عرصہ میں اسٹاف کے بیشتر لوگ شلوار قمیص چھوڑ کرپتلون قمیص پہننے لگے تھے۔کئی صاحبان تو سخت گرمی میں بھی سوٹ چڑھائے گلے میں ٹائی پھنسائے چلے آتے۔ دفتر کے بہت سے لوگ پہلے نماز کے پابند تھے لیکن اب گنتی کے چند افراد ہی ظہر کی نماز کے لئے مسجد کی طرف جاتے نظر آتے۔ پہلے گفتگو میں اللہ رسول کا نام آجا تا تھا لیکن اب تو تازہ ترین انگریزی فلموں پر تبصرے ہوتے تھے۔
دفتر میں اچانک تبدیلی کا واحد سبب نئے ڈائرکٹر صاحب تھے جو سر سے پیر تک مغربی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ سر پر ہیٹ لگائے، سوٹ پہنے اور گلے میں ٹائی باند ھے وہ دفتر آتے۔گفتگو میں آدھے سے زیادہ الفاظ انگریزی کے استعمال کرتے۔ دوپہر کے کھانے میں سینڈو چ کھاتے۔ انگریزی فلموں پر تبصرہ کرنا بہت پسند کرتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی تقریباً پورا اسٹاف ان کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔ ان سے پہلے جو ڈائرکٹر صاحب تھے، وہ مذہبی آدمی تھے۔ نماز با قاعدگی سے پڑھتے تھے۔ شلوار قمیص میں بھی آجاتے تھے، اس لئے ان کے دور میں دفتری ماحول خاصا شریفانہ تھا۔

۔۔۔۔۔

ہاشمی صاحب محسوس کر رہے تھے کہ ان کے اور ڈائرکٹر صاحب کے درمیان کشیدگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ڈائرکٹر صاحب صبح جب ان کے کمرے کے سامنے سے گزرتے اور ہاشمی صاحب کھڑے ہو کر انہیں ’السلام علیکم‘ کہتے تو وہ دیکھتے کہ ڈائرکٹر صاحب کی بھنویں تن گئی ہیں اوران کے چہرے سے ایسا ظاہر ہوتا کہ وہ اپنا غصہ ضبط کر رہے ہیں۔ اس عالم میں وہ محض سر کے اشارے سے سلام کا جواب دے کر گزر جاتے۔ذرا دیر بعد وہ کسی نہ کسی بہانے سے ہاشمی صاحب کو اپنے کمرے میں بلاکر کس مسئلے پر زبردست ڈانٹ پلاتے۔ ہاشمی صاحب، ڈائرکٹر صاحب کے کمرے سے سر جھکائے ہوئے نکلتے تو بہت سے لوگ ہمدردانہ نظروں سے ان کو دیکھ کررہ جاتے۔ وہ اپنی میز پر آکر بیٹھ جاتے تو حبیب صاحب لپک کرچلے آتے۔
”ارے یار، میں نے تم سے کہا ہے کہ یہ سلام دعا کا چکر چھوڑو، تم سے ذراسی ’گڈما رننگ‘ نہیں کہی جاتی۔“
”میں کیا کروں حبیب صاحب،کتنی بار کوشش کی لیکن اچھا نہیں لگا کہ اپنے رسول ﷺکی سنت کو چھوڑ کر انگریزوں کی عادت اپنا ؤ ں۔“
”بھئی صرف دفتر میں ڈائرکٹر صاحب کو گڈما رننگ کردیا کرو،باقی ہر جگہ اپنا پسندیدہ سلام چلانا!“ حبیب صاحب ناراض ہو کر کہتے۔
”کوشش کروں گا، مجھ سے بولا نہیں جاتا، گڈ مارننگ حلق میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔“ ہاشمی صاحب بے چارگی سے کہہ اُٹھتے۔
سال ختم ہونے والا تھا۔ نئے سال کے آغاز پر دفتر کے تمام کارکنوں کو سالانہ ترقیاں دی جاتی تھیں۔ دفتر بھر میں ارسلان کی ترقی ہو جانے کی افواہ گرم تھی۔ وہ ڈائرکٹر صاحب کو بڑے ادب سے گڈمار ننگ کہتا تھا۔ لوگ آکر اسے پیشگی مبارک باد دے رہے تھے اور وہ بڑے انکسار سے ’تھینک یو، تھینک یو‘ کہہ رہا تھا۔
ہاشمی صاحب کے لئے یہ لمحات بڑے کٹھن تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دفتر آنا چھوڑ دیں۔ ڈائرکٹر صاحب سے ان کا سامنا ہو جاتا تو وہ نظریں نیچی کئے بیٹھے رہ جاتے، ڈائرکٹر صاحب بھی شایدان سے بالکل بیزار ہو چکے تھے۔ روزانہ دو تین بار ہاشمی صاحب کو اپنے کمرے میں بلاکر ڈانٹنا ان کا معمول بن چکا تھا۔ ہاشمی صاحب شدید اعصابی دباؤ کا شکار تھے۔ ہر وقت انہیں ایسا لگتا جیسے سر پر کچے دھاگے سے بندھی ہوئی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان کی بیٹیوں نے بھی ان کی اس بدلی ہوئی کیفیت کو محسوس کر لیا تھا لیکن بیوی کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ ٹال گئے تھے۔

۔۔۔۔۔

اس روز ہاشمی صاحب دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلے تو ان کا چہرہ بڑا ہشاش بشاش تھا۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ذہن سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ وہ بڑے خوش گوار موڈ میں دفتر پہنچے۔ راستے میں نہ انہیں بس کے بھرے ہونے کا احساس ہوا، نہ ان صاحب پر انہیں غصہ آیا جو بھری ہوئی بس میں بھی ٹھاٹ سے سگریٹ کے کش لگا کر ٹھیک ان کے منہ پر دھواں چھوڑ رہے تھے اور نہ اس سائیکل سوار کو برا بھلا کہا جو بس اسٹاپ پر انہیں تقریباً ٹکر مارتا ہوا نکل گیا تھا۔ حالانکہ پچھلے دنوں انہیں ذراسی بات پر غصہ آجاتا تھا۔
دفتر پہنچ کر وہ اپنی کرسی پر جاکر بیٹھے ہی تھے کہ چپراسی نے اطلاع دی۔
”صاحب بلارہے ہیں آپ کو۔“
”اچھا ابھی آرہا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ بڑے اطمینان سے اُٹھے اور ڈائرکٹر صاحب کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔
”السلام علیکم جناب!“ انہوں نے بڑے اخلاق سے ڈائرکٹر صاحب کو سلام کیا۔
ڈائرکٹر صاحب کا موڈ شاید صبح ہی سے خراب تھا۔ انہوں نے ہاشمی صاحب کے سلام کے جواب میں سرتک نہ ہلایا بلکہ انہیں سخت نظروں سے گھورنے لگے۔
ہاشمی صاحب اطمینان سے کھڑے ہوئے تھے۔ جیسے ڈائرکٹر صاحب انہیں نہیں بلکہ کسی اور کو غصہ بھری نظروں سے گھور رہے ہوں۔ ڈائرکٹر صاحب منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائے، انہوں نے میز پر رکھی ایک درخواست پر نظر دوڑائی اور پھر اسے توڑ مروڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔ وہ چند لمحوں تک ہاشمی صاحب کو گھورتے رہے اور پھر جیسے پھٹ پڑے۔
”آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں؟“
”جی میں سمجھا نہیں۔“
”پوزمت کیجئے خود کو، میں کہتا ہوں آپ کب تک کرتے رہیں گے اس طرح؟“
”میں اب تک نہیں سمجھا جناب؟“
”یہی آپ کا اسلام اسلام۔ آپ کو پتا نہیں کہ دفتر کے کچھ قاعدے ہوتے ہیں۔“
”مجھ سے کیا غلطی ہوگئی جناب؟“
”جناب!“ ڈائرکٹر صاحب نے چڑ کر ہاشمی صاحب کی نقل اتاری۔”سر کہتے ہوئے آپ کو برا لگتا ہے۔ مائنڈ اِٹ۔ آپ ذرا اپنا اسٹائل چینج کریں ورنہ……“
”اور۔ اگر آپ کی بات ماننے سے انکار کر دوں تو؟“ ہاشمی صاحب نے اسی اطمینان سے پوچھا۔
ڈائرکٹر صاحب کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ ان کی مٹھیاں کھلنے اور بند ہونے لگیں اور ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ان سے کبھی کسی نے اتنی جرأت سے بات نہ کی تھی۔ ان کا خون کھول رہا تھا اور ان کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ وہ ہاشمی صاحب کو شایدگولی مار دیتے۔
ہاشمی صاحب اسی سکون سے کھڑے رہے۔ آخر انہوں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے ادب سے پوچھا۔”مجھے جانے کی اجازت ہے جناب؟“
ڈائرکٹر صاحب نے انہیں بڑی حیرت سے دیکھا، پھر ان کا تنا ہوا چہرہ آہستہ آہستہ معمول پر آگیا۔ چندلمحوں تک وہ ہاشمی صاحب کو غور سے دیکھتے اور اپنی انگلیوں سے میز کو بجاتے رہے، پھر انہوں نے کہا:
”کیا آپ کو کسی اور دفتر میں جاب مل گئی ہے؟“
”جی نہیں!“
”کیا آپ نے اپنا بزنس شروع کر دیا ہے؟“
”جی نہیں!“
”یونو، میں آپ کو نوکری سے نکال بھی سکتا ہوں۔“
”جی ہاں!“
”آپ میریڈ(شادی شدہ) ہیں؟“
”جی ہاں!“
”کتنے بچے ہیں آپ کے؟“
”تین“
”آپ کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ اگر آپ کو ڈسمس کر دیا گیا تو آپ کے بچوں کا کیا بنے گا؟“
”جناب! رزق دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو کسی اور ذریعہ سے رزق دے گا؟“
”آئی سی!“ ڈائرکٹر صاحب نے گہرا سانس لیا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگاکر پھر وہ بولے۔
”کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ میں اتنی بہادری کیسے پیدا ہوگئی۔ میرا خیال ہے آپ پہلے تو بڑے شائی(شرمیلے)ہوتے تھے۔“
”جی ہاں جناب! کل تک میں بے حد گھبرا یا ہو اور سخت پریشان تھا لیکن آج میں بالکل مطمئن اور پر سکو ن ہوں۔“
”حیرت ہے۔“
”میرے اس اطمینان کا سبب میری اہلیہ ہیں۔ ہوا یہ کہ کل رات میں جب سونے کے لئے بستر پر لیٹ گیا تو میری اہلیہ بچوں کو کہانی سنارہی تھی۔ وہ ہر رات سونے سے پہلے بچوں کو ایک کہانی سناتی ہیں۔ بچے بھی کہانی سنے بغیر سوتے نہیں ہیں۔میں حالانکہ دفتر کی آئے دن کی کشیدگی سے سخت پریشان تھا لیکن لیٹے لیٹے میں نے بھی کہانی کی طرف کان لگا دیے۔ میری اہلیہ نے جو کہانی سنائی، اس سے میری دنیا بدل گئی۔ میں نے اپنے اند ر ایک زبر دست قوت محسوس کی، ایسا لگا جیسے ساری فکریں سارے اندیشے دور ہو گئے۔“
”اچھا کون سی سٹوری تھی بھئی ہم بھی سنیں، آپ بیٹھیں نا۔بی ایزی“(آرام سے بیٹھیں)۔ ڈائرکٹر صاحب بھی دلچسپی لینے لگے۔
”کہانی یہ تھی جناب کہ ہارون رشید کا تو آپ نے نام سناہی ہوگا۔“
”یس یس!ہی واز اے مسلم رولر“ (وہ ایک مسلمان حکمران تھے)
”جی ہاں وہ بہت بڑی مملکت کے بادشاہ تھے۔ بغداد میں ان کے ایک قاضی تھے۔ قاضی عافیہ۔“
’’قاضی؟ اچھا جج؟“
”جی ہاں، جج۔ وہ حضرت امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔کچھ لوگوں نے خلیفہ ہارون رشید سے قاضی عافیہ کی شکایت کی کہ قاضی صاحب مقدمات کے فیصلے کرتے ہوئے کسی کی خواہ مخواہ طرف داری کرتے ہیں۔ ہارون رشید نے قاضی صاحب کو بلوایا۔ قاضی صاحب دربار میں پہنچے۔ابھی خلیفہ نے لوگوں کی شکایت کے بارے میں قاضی صاحب سے کوئی بات کی بھی نہیں تھی کہ خلیفہ کو زور دار چھینک آئی۔ ان کا چھینک مارنا تھاکہ سارا در بار’یر حمک اللہ، یرحمک اللہ‘ سے گونج اٹھا۔ جناب آپ کو معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب چھینک آئے تو چھینکنے والے کو’الحمد اللہ‘ کہنا چاہئے اور جو شخص اس الحمد اللہ کو سنے اسے کہنا چاہئے’یر حمک اللہ‘ یعنی آپ پر اللہ کی رحمت ہو، تو جناب سارا دربار تویر حمک اللہ کی آوازوں سے گونج اٹھا لیکن قاضی صاحب خاموش بیٹھے رہے۔“
”کیوں؟“ ڈائرکٹر صاحب نے پوچھا۔
”ہارون رشید نے بھی قاضی صاحب سے یہی پوچھا تھا کہ آپ نے یر حمک اللہ کیوں نہیں کہا۔ قاضی صاحب نے جواب دیا۔’آپ نے الحمد للہ کب کہا تھا؟‘ پھر قاضی صاحب نے خلیفہ کو حضور ﷺکی ایک حدیث سنادی کہ رسول اکرم ﷺکی مجلس میں دو صحابیوں ؓ کو چھینک آئی۔ایک صحابی نے یر حمک اللہ کہا لیکن دوسرے صحابی نے نہیں کہا۔ دوسرے صحابی نے پوچھا،’آپ نے مجھے دعا کیوں نہیں دی؟‘ حضور ﷺنے فرمایا۔’پہلے صحابی نے الحمداللہ کہا تھا، آپ نے نہیں کہا، اس لئے میں نے بھی ’یر حمک اللہ‘ نہیں کہا۔“
”گڈ۔“ ڈائرکٹر صاحب بولے۔
”آپ سوچئے جناب، اتنی بڑی مملکت کا حکمران۔ یہاں تو لوگ معمولی پولیس انسپکٹر کے سامنے گڑ گڑانے لگتے ہیں۔کوئی وزیر یا چھوٹے ملک کا صدر آجائے تو ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن قاضی صاحب بالکل نہیں ڈرے۔ ان کے بھی شاید بیوی بچے ہوں گے، بادشاہ انہیں سخت ترین سزادے سکتا تھا لیکن انہوں نے جس بات کو صحیح سمجھا تھا، اسی پر قائم رہے۔“
”آئی سی۔ پھر قاضی صاحب کو ہارون نے تو جیل میں ڈال دیا ہوگا؟“ ڈائرکٹر صاحب نے پوچھا۔
”جی نہیں جناب۔ جن لوگوں نے قاضی صاحب کی شکایت کی تھی۔ ان کوڈانٹ ڈپٹ کی گئی اور خلیفہ ہارون نے کہا کہ جو شخص میری چھینک کے ساتھ کسی رعایت پر آمادہ نہیں، وہ کسی دوسر ے کی غلط طرف داری کیا کرے گا۔ قاضی صاحب پہلے کی طرح عدالت کے جج کے طور پر کام کرتے رہے۔“
”او کے ہاشمی صاحب!“ ڈائرکٹر صاحب اچانک سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔”اب آپ جائیں مجھے اور کام کرنے ہیں۔“

۔۔۔۔۔

دفتر کے لوگ سخت حیران تھے۔ ڈائر کٹر صاحب کو پتا نہیں کیا ہوگیا تھا۔ انہوں نے دفتر کے تمام شعبوں کے سر براہوں کو بلا کر کہا تھا کہ آئندہ سے دفتر میں گڈمارننگ کی جگہ اسلامی طریقے سے السلام علیکم کہا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہاشمی صاحب کو ترقی دے کر اسسٹنٹ ڈائرکٹر بنا دیا گیا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top