skip to Main Content

فرشتے کا انعام

چین کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
ایک غریب لکڑ ہارا اپنے گاؤں کے قریبی جنگل میں جا کر دن بھر لکڑیاں کا ٹتا اور شام کو قصبے کے بازار میں بیچ کر جو کما تا بس اسی میں اسکے خاندان کی گزر بسر ہوتی۔ رفتہ رفتہ اسکی کلہاڑی بہت پرانی ہوتی گئی۔ اس کا دستہ بھی کمزور پڑ گیا۔ وہ سوچتا کہ مجھے کچھ پیسے بچا کرنئی کلہاڑی لے لینی چاہیے مگر اتنے پیسے ہوتے ہی کہاں تھے کہ کچھ بچت ہوتی۔ ایک روز وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ لکڑ ہارے نے جونہی ایک موٹی ٹہنی پہ ضرب لگائی۔ کلہاڑی کا پھل الگ ہو گیا اور دستہ دوٹکڑے ہو گیا۔ اگلے دودن لکڑ ہارے اور اسکے خاندان پر بہت سخت گزرے۔ کلہاڑی نہیں تھی تو لکڑیاں کیسے کٹتیں اور پیسے کہاں سے آتے؟آخر اسکی بیوی نے کہا کہ تم ہمسائے سے کلہاڑی مانگ کر لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچ کرنئی کلہاڑی خریدو۔ میں زمیندارنی کی منت خوشامد کر کے کچھ کام مانگتی ہوں،بدلے میں جو چاول ملیں گے ان سے ہمارا گزارہ ہو جائے گا۔
پڑوسی ”تا ئی لو“کھا تا پیتا اور خوشحال آدمی تھا۔ پر ساتھ ہی لا لچی اور خودغرض بھی تھا۔”چن ہو“لکڑ ہارے کی بات سن کر بولا۔”ہاں ہاں کلہاڑی لے جاؤ پر اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ لکڑیاں کا ٹنااور وہ ادھر دے جانا۔ سردیاں آرہی ہیں جتنی زیادہ لکڑیاں ہوں اتناہی اچھا ہے۔“
چن ہو نے فوراً حامی بھر لی کیونکہ وہ خود بھی کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ تائی لونے اپنے ملازم کو اشارہ کیا تو اس نے ایک پرانی سی کلہاڑی لا کر چن ہو کوتھما دی۔ کلہاڑی پرانی ضرورتھی پر اسکا دستہ مضبوط اور پھل تیز تھا۔ چن ہوجنگل میں جاکر لکڑیاں کاٹنے لگا۔ اسکی بیکار کلہاڑی تو زیادہ لکڑیاں بھی نہ کاٹتی تھی پر اس کلہاڑی سے خوب تیزی سے لکڑیاں کٹ رہی تھیں۔ ویسے بھی اسے آدھی لکڑیاں ہمسائے کو دینی تھیں۔ شام کو جب وہ بھاری بھرکم گٹھا اٹھائے واپس آرہا تھا تو دریا کے پل سے گزرتے ہوئے اسکے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹی اور دریا میں جاگری۔ چن ہوتو پریشان ہو گیا۔ جلدی سے گٹھا کمر سے اتارا اور پل پر جھک کر دریا کا جائزہ لینے لگا۔ پانی بہت گہرا تھا اور دریا بہت تیز تھا۔ کلہاڑی ڈوب گئی یا بہہ گئی، کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ چن ہو ہمت ہار گیا اور ایک طرف بیٹھ کر رونے لگا۔
اچانک اسے قریب سے ہی ایک آواز سنائی دی۔”کیوں رور ہے ہو بھائی؟“
چن ہونے سر اٹھایا تو اسے ایک فرشتہ دکھائی دیا۔ اس نے اپنی بپتا اسے سنا دی۔ اسکی بات سن کر فرشتے نے دریا میں غوطہ لگایا اور کچھ دیر بعد باہر نکل کر چن ہو سے کہا۔ ”یہ ر ہی تمہاری کلہاڑی۔“
چن ہو نے کہا۔”نہیں یہ میری نہیں۔“
کیونکہ کلہاڑی کا پھل انتہائی چمکدار سنہرا تھا اور دستہ بھی سونے کا بنا تھا جس پہ قیمتی پتھر جڑے تھے۔
فرشتے نے پھر غوطہ لگایا اور نقرئی کلہاڑی نکال لایا۔ جس پہ پنے پکھراج جڑے تھے۔ چن ہونے یہ کلہاڑی لینے سے بھی انکار کر دیا۔
تیسری مرتبہ فرشتہ تائی لوکی کلہاڑی لے آیا۔ چن ہو مارے خوشی کے اچھل پڑا۔ اس نے فرشتے کا بہت شکر یہ ادا کیا اورلکڑیاں لادکر قصبے کے بازار میں پہنچا۔ آدھی لکڑیاں بیچ کرنئی کلہاڑی خریدی اور پھر باقی لکڑیاں اور تائی لو کی کلہاڑی اسے دی اور کہا۔ ”سنبھالو بھائی اپنی امانت۔ بہت مشکل سے بچا کر لایاہوں۔“
”کیا مطلب؟“تائی لونے پوچھا تو چن ہونے ساراقعہ سنادیا۔
تائی لو کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔”بیوقوف انسان! تم نے سونے چاندی کی قیمتی پتھروں والی کلہاڑیاں کیوں لوٹا دیں؟“
”کیونکہ میری تھیں ہی نہیں۔“ چن ہونے سادگی سے جواب دیا اور گھر لوٹ آیا۔
مگر تائی لوتو ساری رات سو ہی نہ سکا۔ بلکہ ذرادیر کو آنکھ لگی بھی تو خواب میں بھی اسے سونے چاندی کی کلہاڑیاں نظر آتی ر ہیں۔
اگلی صبح اس نے خودقسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور رسی اور کلہاڑی لے کر جنگل چلا گیا۔ سارادن وہ یونہی بے دلی سے ادھر ادھر ہاتھ مارتا رہا۔ سورج ڈھلنے کو ہوا تو لکڑیوں کا ایک ہلکا سا گٹھا سر پہ رکھ کر واپس ہولیا۔ پل پرپہنچ کر اس نے جان بوجھ کر کلہاڑی پانی میں گرادی اور بھاں بھاں رونے لگا۔ فرشتے نے ظاہر ہو کر اسکے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بھی اپنی دکھ بھری کہانی سنادی۔ فرشتے نے در یا میں غوطہ لگایا اور اس کی کلہاڑی نکال لایا۔ تائی لونے چلا کر کہا۔
”میری کلہاڑی نہیں ہے۔ وہ تو بہت قیمتی تھی۔“
فرشتہ پھر دریا میں اتر گیا اور چاندی کی کلہاڑی لے آیا۔
”یہ میری کلہاڑی نہیں لیکن تم اسے مجھے پکڑ ادواور پھر سے تلاش کرو۔ میری کلہاڑی بہت قیمتی ہے۔ سونے کی اور اس میں ہیرے جواہرات جڑے ہیں۔“ تائی لونے فرشتے کے ہاتھ سے چاندی کی کلہاڑی جھپٹتے ہوئے کہا۔
فرشتہ مسکرایا اور دریا سے سونے کی کلہاڑی نکال لایا۔ تائی لونے وہ کلہاڑی بھی فرشتے کے ہاتھ سے جھپٹ لی۔ لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر دریا میں پھینکا اور اچھلتا کودتا چل پڑا۔ ایک ہاتھ میں سونے کی کلہاڑی، دوسرے میں چاندی کی۔ دونوں میں قیمتی موتی پتھر جڑے ہوئے۔ وہ لہراتا،بل کھا تا طرح طرح کے گانے گا تا چلا جارہا تھا۔
”آہا!آہا!آج مجھ سے زیادہ امیر کوئی نہیں۔ میں ڈھیروں سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کا مالک ہوں۔ اب میں سونے کی پلیٹ میں چاندی کے چمچ سے کھایا کروں گا۔ آہاجی آہا……“
پر یہ کیا؟ گانا ابھی ادھورا ہی تھا کہ وہ دونوں کلہاڑیوں سمیت پانی میں جا پڑا۔ ایک تو وہ موٹا بہت تھا۔ اوپر سے کچھ زیادہ ہی اچھل کو در ہاتھا۔ اسکے پیروں تلے پل کا ایک کمزور تختہ ٹوٹ گیا اور وہ پہنچا سید ھادریا میں۔ پانی بہت تیز تھا۔ دریا بہت گہرا تھا۔ پتا نہیں بیچارہ ڈوب گیا یا بہاؤ کے ساتھ بہہ گیا۔ بس لالچ نے اسے اس حال کو پہنچایا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top