skip to Main Content

فیصل مسجد

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔“
امام صاحب کی پُر وقار آواز چاروں طرف چھائی ہوئی خاموشی میں اُبھری اور تمام نمازیوں نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیر دیا۔ جو نمازی، جماعت میں دیر سے شامل ہوئے تھے، اُٹھ کر اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرنے لگے۔ باقی نمازی تسبیحات پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ سعید نے تسبیحات پڑھتے ہوئے، بڑے اشتیاق سے اپنی دائیں بائیں جانب اور اطراف میں نظر ڈالی۔ بے حد خوب صورت مسجد تھی۔ جدید فن تعمیر کا شاہکار۔ اس کا جی چاہا کہ اس مسجد کے ایک ایک کونے تک پہنچ کر اس کی دیواروں کو چُھو کر دیکھے۔ پھر اس نے خود کو سمجھایا:”اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ پہلے اللہ کا شکر تو ادا کرلوں جس نے مجھے اتنی خوب صورت مسجد دیکھنے کا موقع عطا فرمایا، مجھے آنکھیں دیں، جن سے میں اتنی حسین مسجد کو دیکھ رہا ہوں۔“
اس وقت امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور وہ بھی سب کچھ بھول کر بڑی عاجزی کے ساتھ، اللہ سے دعائیں مانگنے لگا۔ دعا ختم ہوئی۔ نمازی سنتیں ادا کرنے لگے۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد نوید نے سعید کا شانہ ہلایا:
”چلو، چچا جان بلا رہے ہیں، سلمان اور عثمان بھی ان کے ساتھ ہی ہیں۔“
نوید سعید کا بڑا بھائی تھا۔ دونوں بھائی چھٹیاں گزارنے کے لیے کراچی سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ راولپنڈی میں ان کے چچا سلیمان احمد رہتے تھے۔ ان کے دونوں لڑکوں سلمان اور عثمان سے بھی سعید اور نوید کی اچھی دوستی تھی۔
سعید اور نوید، سلیمان صاحب کے پاس پہنچے۔ دونوں نے سلام کیا۔ سلیمان صاحب، سلمان اور عثمان نے سلام کا جواب دیا۔ سلیمان صاحب کہنے لگے:
”لو بھئی بچو، یہ ہے فیصل مسجد۔ آؤ تمہیں مسجد دکھا ئیں اور اس کے بارے میں بہت سی باتیں بھی بتا ئیں۔ ہم جس وقت مسجد پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ آتے ہی ہم جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ اب اطمینان سے مسجد کو دیکھ سکتے ہیں۔“
وہ سب مسجد کے مرکزی ہال میں موجود تھے۔ سامنے محراب تھی جسے بالکل مختلف انداز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ محراب ایک بہت بڑی کھلی ہوئی کتاب کی شکل کی تھی۔ اس کے دونوں کھلے ہوئے صفحات پر قرآنی آیات لکھی نظر آرہی تھیں۔
”بچو، دیکھو، یہ سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی کتاب ہے۔ اس کے دونوں صفحات پر سورۃ رحمن کی آیات تحریر کی گئی ہیں۔ یہ جس خط میں لکھی گئی ہے، وہ خط کوفی کہلاتا ہے۔ ان آیات کے الفاظ تانبے کے بنے ہوئے حروف سے لکھے گئے ہیں، پھر انھیں سنگ مرمر میں لگا دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے حاشیوں پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام لکھے گئے ہیں۔۔۔ اور دیکھو، دونوں صفحات جس جگہ آکر ملتے ہیں وہاں بڑے حروف میں اللہ لکھا گیا ہے۔ یہ بھی تانبے سے بنایا گیا ہے اور اس کے درمیان میں قیمتی پتھر لاجورد لگا دیا گیا ہے۔ تانبے کے اس سارے کام پر سونے کاپانی چڑھایا گیا ہے۔“
”چچا جان، محراب کے برابر میں جو منبر ہے، اس کے اوپر دائرے میں لکھی ہوئی سورۃ فاتحہ کتنی اچھی لگ رہی ہے۔“ سعید نے کہا۔
”ہاں بیٹے، یہ بھی تانبے سے تحریر کی گئی ہے، اس پر بھی سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے اور درمیان میں لاجورد لگایا گیا ہے۔“
”ابو جی! محراب کے پیچھے دیوار پر کتنی خوب صورت رنگین ٹائلوں پر کلمہ طیبہ لکھا گیا ہے۔“ سلمان نے کہا۔
”ہاں بیٹے، یہ سارا کام ہمارے ملک کے مشہور مصوروں صادقین اورگل جی کا ہے۔“
”ابو جان، سعید اور نوید کو فانوس تو دکھا ئیں۔“عثمان نے کہا۔
”ہاں یہ دیکھیں، ہال کے بالکل بیچ میں کتنا بڑا فانوس لگا یا گیا ہے۔ یہ المونیم کے گول پائپوں کو جوڑ کر دائرے کی شکل میں بنایا گیا ہے۔ اس میں ایک ہزار ایک سو بلب لگائے گئے ہیں۔“
”چچا جان، یہ فانوس تو بڑا بھاری ہوگا؟“ نوید نے سوال کیا۔
”ہاں۔ اس کا وزن تقریباً ساڑھے چھے ٹن ہے۔ یہ سب اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے انسان کو اتنی عقل، صلاحیت اور مہارت عطا کی۔“‘ سلیمان صاحب بولے۔
”ابو جان، آپ نے بتایا تھا نا، اس ہال میں دس ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔“ عثمان نے کہا۔
”شاباش،تمہیں یاد ہے یہ بات۔ ویسے ہال سے باہر کھلے حصوں اوربہت بڑے لان وغیرہ کو ملا کر مجموعی طور پر تین لاکھ افراد یہاں ایک ساتھ نماز ادا کر سکتے ہیں۔“سلیمان صاحب نے بتایا، پھر وہ بولے:
”یہ ہال بہتر (72) میٹر چوڑا اور بہتر (72) میٹر لمبا ہے۔“
”اس کی چھت کتنی بلند ہے!“سعید نے کہا۔
”ہاں بیٹے، یہ تقریباً بیالیس (42) میٹر بلند ہے۔ ایک سو اڑتیس(138) فٹ کے قریب۔“
”ابو جان، اتنے بڑے ہال میں کوئی ستون نہیں ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے۔“سلمان نے توجہ دلائی۔
”ہاں بیٹے، یہ بھی ایک حیرت ناک بات ہے۔ بغیر ستونوں کے، اتنا بڑا ہال شاید دنیا کی کسی مسجد میں نہیں ہے۔ دراصل اس مسجد کی تعمیر اس انداز میں کی گئی ہے کہ چار بہت بڑے اور مضبوط آہنی شہتیر ایک خاص زاویے سے بلند ہوتے ہوئے او پر جا کر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہال میں کوئی ستون بنانے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔“
”یہاں خواتین بھی نماز ادا کر سکتی ہیں؟“ نوید نے پوچھا۔
”ہاں ہاں۔ خواتین کے لیے ایک الگ حصہ ہے، وہ دیکھو۔“ سلیمان صاحب نے مسجد کی مشرقی دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ ”سنگ مرمر کی خوب صورت جالی لگا کر، خواتین کے حصے کو ہال سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اس حصے میں ڈیڑھ ہزار خواتین ایک وقت میں نماز ادا کر سکتی ہیں۔“
وہ سب ہال سے باہر نکل آئے۔ جگہ جگہ فوارے لگے ہوئے تھے اور سرسبز گھاس کے قطعے ماحول کو بہت حسین بنا رہے تھے۔
”ان فواروں کی وجہ سے اندر ہال کا درجہ حرارت خوشگوار رہتا ہے۔“سلیمان صاحب نے بتایا۔
”چچا جان، یہ مسجد دور سے کسی خیمے کی طرح لگتی ہے نا؟“ سعید نے کہا۔
”ہاں بیٹے۔ مسجد کا ڈیزائن ترکی کے ایک ماہر تعمیرات جناب ’وحد دیلو کے‘ نے بنایا تھا۔ مسجد کا ڈیزائن منتخب کرنے کے لیے ایک مقابلہ کروایا گیا تھا۔ اس میں دنیا بھر کے مسلمان ماہرین تعمیرات کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ بہترین ڈیزائن منتخب کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی جیوری بنائی گئی، جسے ماہرین تعمیرات کی بین الاقوامی تنظیم نے منتخب کیا تھا۔“
”چچا جان، اس مسجد کو فیصل مسجد کیوں کہتے ہیں؟“ سعید نے سوال کیا۔
”بیٹے، یہ بڑی پرانی بات ہے، جب 1959ء میں پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کے منصوبے میں ایک بڑی مسجد کو بھی شامل کیا گیا۔ جب 1966ء میں سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل پاکستان کے دورے پر آئے تو انہیں اسلام آباد میں اس مسجد کے منصوبے کے بارے میں بتایا گیا۔ شاہ فیصل (مرحوم) مسجد کے لیے مخصوص کی جانے والی اس جگہ کے قدرتی حسن سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات اپنے ملک کی طرف سے پورے کرنے کی پیش کش کر دی۔ حکومت پاکستان نے ان کی اتنی بڑی پیش کش کے اعتراف میں، مسجد کا نام فیصل مسجد رکھ دیا اور شاہراہ اسلام آباد کے اس حصے کو جو زیرو پوائنٹ سے مسجد تک ہے، فیصل ایونیو کا نام دے دیا۔“
”یہ مسجد کب تعمیر ہوئی؟“ نوید نے پوچھا۔
”بیٹے، انیس سو چوراسی (1984ء) میں تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تھا، پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا جو انیس سو اٹھاسی (1988ء) میں مسجد، نمازیوں کے لیے کھول دی گئی۔“
”ابو جی، مسجد کے مینار کتنے خوب صورت ہیں۔“ عثمان نے کہا۔
”ہاں بیٹے، مسجد کے چاروں میناروں میں سے ہر ایک دوسو پچاسی فٹ بلند ہے۔ تم لوگوں نے دیکھا، ہر مینار کے اوپر ایک ایک سنہری ہلال لگایا گیا ہے اور مسجد کے درمیانی حصے پر ایک بڑا ہلال لگایا گیا ہے، یہ بڑا والا ہلال ڈیڑھ ٹن وزنی ہے۔ سلیمان صاحب نے بتایا، پھر وہ بولے:
”بچو، فیصل مسجد، صرف مسجد نہیں ہے۔“
”میں سمجھا نہیں چچا جان۔“سعید نے کہا۔
”میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف عبادت گاہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ اس لحاظ سے ایک ممتاز مسجد ہے کہ اس کے ساتھ ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی قائم کی گئی ہے۔1980ء میں جب پندرہویں صدی ہجری کا آغاز ہوا تو حکومت پاکستان نے یہاں ایک اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1985ء میں اسے بین الاقوامی یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ یہاں شریعت و قانون، اصول دین اور جدید علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسلامی تحقیقاتی مرکز ہے، اسلامی اقتصادیات کا بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ سب ادارے اور دیگر شعبہ جات سات سو ایکڑ رقبے پر محیط 10-H سیکٹر میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس وقت فیصل مسجد میں ادارہ تحقیقات اسلامی،شریعہ اکیڈمی اور دعوۃ اکیڈمی ہے، جس کے تحت بچوں کے ادب کا شعبہ بھی قائم ہے۔ ایک بڑا کتب خانہ بھی ہے۔“ سلیمان صاحب نے تفصیل سے بتایا، پھر انھوں نے اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالی اور بولے۔
”خاصا وقت ہو گیا۔ آپ لوگوں کو بھوک لگ رہی ہو گی۔ اب واپس گھرچلتے ہیں۔“
وہ سب فیصل مسجد کی سیڑھیاں اترنے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top