skip to Main Content

سچی گواہی

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

باوردی چوکیدار نے سیلوٹ مارا اور کارخانے کا گیٹ کھول دیا۔ سیٹھ رفیق کی بڑی سی کار تیزی سے کارخانے میں داخل ہو گئی۔
سیٹھ صاحب کی کار، پارکنگ کے علاقے میں اپنی مخصوص جگہ پر جا کر رک گئی۔ ڈرائیور نے اتر کر جلدی سے کار کا دروازہ کھولا۔ سیٹھ صاحب کار سے اترے، دوسری طرف سے سیٹھ صاحب کا پندرہ سالہ لڑکا صدیق بھی دروازہ کھول کر اتر گیا۔ صدیق کے اسکول میں آج کل چھٹیاں تھیں۔ سیٹھ رفیق نے اسے حکم دیا تھا کہ جب تک چھٹیاں ہیں، وہ روزانہ فیکٹری (کارخانے) آیا کرے اور یہاں انتظامی امور انجام دینا سیکھے۔
سیٹھ صاحب اپنے کمرے کی طرف چلے۔ راستے میں جو بھی مزدور یا ملازم انھیں ملتا، وہ انہیں سلام کرتا لیکن پتا نہیں کیوں صدیق نے محسوس کیا کہ زیادہ تر لوگ سیٹھ صاحب سے خوش نہیں تھے۔ وہ سیٹھ صاحب کو دیکھ کر تو خوشامد بھرے انداز میں سلام کرتے مگر ایک دو بار صدیق نے آگے بڑھنے کے بعد مڑ کر دیکھا تو وہ لوگ سیٹھ صاحب کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
سیٹھ صاحب اپنے کمرے تک جاتے ہوئے موبائل فون پر گفتگو کرتے رہے۔ کمرے میں پہنچ کر انھوں نے گھنٹی بجائی اور ملازم کو چائے لانے کا حکم دیا، پھر انھوں نے، منیجر انتظامیہ کو طلب کر لیا اور اس سے مختلف امور پر بحث میں مصروف ہو گئے۔ اچانک انھوں نے چونک کر صدیق سے کہا:
”بیٹے تم ادھر والی میز سنبھال لو، جس پر کمپیوٹر رکھا ہے۔ آج ابھی تو تم کمپیوٹر سے کھیلو۔ کل تمہیں کوئی کام دیں گے۔“
صدیق جا کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس کے والد اور منیجر صاحب کی آوازیں، کبھی کبھی اسے سنائی دے جاتی تھیں۔ صدیق نے کمپیوٹر چلا دیا اور کارخانے کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ دیکھنے لگا۔ سیٹھ رفیق کے بڑے سے کارخانے میں کپڑا بنتا تھا۔ اس میں چھے سو مزدور کام کرتے تھے جن کی اکثریت ڈیلی ویجز (روزانہ اجرت) پر ملازم تھی یعنی انہیں روز کے روز اجرت دی جاتی تھی۔ مستقل ملازمین کی تعداد تقریباً پچاس تھی۔
”مگر اُس کی ہمت کیسے ہو گئی؟“ سیٹھ صاحب کی ناراض آواز صدیق کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ منیجر صاحب گھبرا کر کھڑے ہو گئے تھے اور سیٹھ صاحب ان پر گرج رہے تھے۔ غصے میں ان کی آواز بلند ہو گئی تھی۔
”یہ تین آدمی فساد کی جڑ ہیں۔ ایک ہارون، دوسرا صدیقی اور تیسرا فیروز۔۔۔ ان تینوں کو فیکٹری سے دھکے دے کر نکال دو۔“
”مگر سر، اس طرح تو ہنگامہ ہو جائے گا۔ یہ لوگ ویسے بھی مستقل ملازمین ہیں۔“
”او۔۔۔۔ ہو!“سیٹھ صاحب نے دانت پیسے۔ ”میں بھی ان کا مستقل علاج کر دوں گا۔ سنو۔ پرسوں گودام والی سائیڈ میں آگ لگا دو۔ سارا قیمتی سامان وہاں سے ہٹا لینا۔ صر ف فالتو چیز یں چھوڑ دینا۔ ویسے بھی انشورنس تو ہو چکا ہے۔ ہم انشورنس والوں سے کہ دیں گے کہ ہماری قیمتی مشینیں اور بہت سے تھان جل گئے ہیں اور ان تینوں بدمعاشوں ہارون، صدیقی اور فیروز کے خلاف پر چہ کٹوا دینا کہ انھوں نے آگ لگائی ہے۔“
”ٹھیک ہے سر۔“ منیجر صاحب آہستہ سے بولے۔
”اور سنو! آٹھ دس مزدوروں کو پکڑ لینا، گواہی دینے کے لیے، مل جائیں گے نا؟“
”یس سر، کیوں نہیں، ہزار ہزار روپے دینا پڑیں گے۔“
”کوئی بات نہیں، دے دینا، اب آپ جائیں۔“
منیجر صاحب سلام کر کے رخصت ہو گئے لیکن صدیق کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پتھر کا ہو گیا ہو۔ اس کی نظروں کے سامنے کمپیوٹر کا مانیٹر جیسے تھر تھرا رہا تھا، اس پر ہند سے ناچ رہے تھے۔ اس کے سامنے میز، دیوار، دروازہ غرض یہ کہ پوراکمرہ گھوم رہا تھا۔
”کیا ہوا بیٹے، طبیعت ٹھیک ہے؟“صدیق کے والد پوچھ رہے تھے۔ اس نے بمشکل سراٹھا کر اپنے والد کی طرف دیکھا، اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، اس نے لرزتی آواز میں اتنا کہا:
”ابو جی، میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔“
سیٹھ صاحب نے فوراً ڈرائیور کو بلوایا اور صدیق کو اسپتال بھیج دیا۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے صدیق کو تیز بخار ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کا اچھی طرح معائنہ کیا مگر اُن کی سمجھ میں نہیں آیا کہ صدیق کو بخار کس وجہ سے ہے۔ دو تین سینئر ڈاکٹروں نے اتنا کہا کہ کوئی ذہنی صدمہ پہنچا ہے۔ ڈاکٹروں نے صدیق کو نیند لانے والی دوا کا انجکشن دے کر سلا دیا۔ سیٹھ صاحب اسپتال آ کر چلے گئے تھے۔ صدیق کی والدہ اور ایک بہن بھی اسپتال پہنچ چکی تھیں۔
صدیق نیند کے انجکشن کے اثر سے چھے گھنٹے تک سوتا رہا۔ جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی، وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ قریب بیٹھی اُس کی امی بے تاب ہو کر کھڑی ہو گئیں۔
”کیسی طبیعت ہے بیٹا؟“
”ہاں! ٹھیک ہے امی۔ میرا موبائل کہاں ہے؟“ اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔
”تمہارا موبائل؟ وہ تو شاید فیکٹری میں رہ گیا ہو گا، لو تم میرا موبائل لے لو۔“ اس کی امی نے اپنا موبائل فون اسے دے دیا۔
صدیق نے جلدی جلدی اپنے عزیز دوست رضوان کے نمبر ڈائل کیے۔ رضوان گھر پر ہی تھا۔ صدیق نے اسے فوراً اسپتال پہنچنے کے لیے کہا۔ اس کی امی مسکرا رہی تھیں۔ انھیں معلوم تھا، رضوان، صدیق کا گہرا دوست ہے۔ ہر خوشی ہر غم میں اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
رضوان تھوڑی دیر بعد اسپتال پہنچ گیا۔ وہ حیران تھا کہ صدیق کو اچانک کیا ہو گیا۔ رضوان کے آنے پر صدیق کی امی، کمرے سے نکل گئیں تا کہ دونوں دوست آزادی سے باتیں کر سکیں۔ یوں بھی وہ کئی گھنٹے تک بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھیں۔
”رضوان میری مدد کرو، بہت خطرناک معاملہ ہے۔“
”ہوا کیا ہے؟“ رضوان حیرت سے بولا۔
صدیق نے اسے جلدی جلدی صورتِ حال سے آگاہ کیا اور بولا:
”تم کسی طرح یہ بھیانک سازش رکوا دو۔“
”مگر یہ سوچ لو کہ اس طرح تمہارے ابو کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔“
”میں نے سوچ لیا ہے۔“
رضوان اسپتال سے نکل کر سیدھا اپنے ایک رشتہ کے ماموں کے پاس گیا جو خفیہ پولیس میں اعلیٰ عہدے پر تھے۔ ان کے ذریعے سے اس نے خفیہ پولیس کے افسر اعلیٰ سے ملاقات کی۔ افسر اعلیٰ مہتاب صاحب نے رضوان کی بات توجہ سے سنی، پھر بولے:
”کیا آپ اس اطلاع کی پوری ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں؟“
”جی ہاں جناب، یہ بھی تو دیکھیے کہ فیکٹری کے مالک کا بیٹا خود یہ اطلاع دے رہا ہے۔“
”کیا وہ وقت پڑنے پر گواہی دے گا؟“
”بالکل جناب، مگر خدا کے لیے جلدی کریں، ہمارے پاس کل ہی کا دن ہے۔“
”آپ فکر نہ کریں، ان شاء اللہ اب کچھ نہیں ہوگا، مجھے آپ جیسے بچوں پر فخر ہے۔ آپ اپنا فون نمبر اور پتا وغیرہ لکھواتے جائیں۔“

٭……٭……٭

سیٹھ صاحب رات گیارہ بجے ہی نیند کی گولیاں کھا کر سو گئے تھے۔ ان کی آنکھ کھلی تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ انہوں نے گھنٹی بجا کر ملازم سے اخبار منگوایا۔ اخبار آ گیا تو انھوں نے خوشی خوشی اخبار پر نظریں دوڑائیں۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی فیکٹری میں آگ لگنے کی خبر نمایاں طور پر چھپی ہوئی ہوگی۔ مگر یہ کیا؟ اخبار کے پہلے صفحے پر خبر تھی کہ رفیق ٹیکسٹائل مل میں آگ لگانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے جو کل ہی مزدور بن کر فیکٹری میں بھرتی ہوئے تھے، تین مزدوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ ان سے پوچھ کچھ کی جارہی ہے۔ ان مزدوروں کی اطلاع پر منیجر انتظامیہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سیٹھ صاحب کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا۔ انہوں نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنا موبائل فون اٹھایا اور ایک ٹریولنگ ایجنسی کو فون کر کے ملک سے باہر جانے والی پہلی پرواز میں نشست بک کروانے کی ہدایت کی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سیٹھ صاحب اچھل پڑے۔
”کون ہے؟“ انہوں نے گھبرائی ہوئی آواز میں چیخ کر کہا۔
”صاحب! پولیس نے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔“ نوکر کی آواز آئی۔
سیٹھ صاحب اپنے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔

٭……٭……٭

صدیق سر جھکائے اخبار پڑھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسوبہ رہے تھے۔ اخبار میں عدالتی کارروائی کی پوری تفصیل چھپی ہوئی تھی۔ سیٹھ صاحب کے علاوہ خود اس کی، منیجر صاحب کی تصاویر بھی تھیں۔ گورنر صاحب نے اسے خراج تحسین پیش کیا تھا۔ عدالت میں مزدوروں نے جرم کا اعتراف کر لیا تھا۔صدیق کو بھی گواہی دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ سیٹھ صاحب کا جرم ثابت ہو گیا تھا۔ انھیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔
صدیق نے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسو پونچھے۔ اس کے کانوں میں مسجد کے امام صاحب کی آواز گونج رہی تھی۔ پچھلے جمعے ہی کی تو بات ہے، امام صاحب نے قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت پڑھ کر درس دیا تھا۔ وہ یہی تو کہ رہے تھے:
”اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو،خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہو۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top