skip to Main Content

اک ذرا سی شرارت

حسن اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کا وقت اور شہر کا میلہ عروج پر تھا۔ڈگڈگی کی ڈُگ ڈُگ پر اسد اور سیما متوجہ ہوئے۔پاپا سے مداری کا تماشا دیکھنے کے لیے اصرار کیا تو انہوں نے بچوں کی فرمائش قبول کرتے ہوئے رضامندی ظاہر کردی۔مداری کا ریچھ ڈگڈگی کی آواز پر بڑی مہارت سے ناچ رہا تھا۔پاپا کی انگلیاں تھامے اسد اور سیما کو دیکھ کر ریچھ جس کا نام بھولو تھا ایک لمحے کے لیے رُک گیا، اپنے بچپن کے دوست منکو کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور ایک لمبا سانس لیا۔تخیل کے گہرے سمندر میں غوطہ لگا کر بھولو برسوں پرانی جنگل کی زندگی میں پہنچ گیا تھا۔بھولو کی آنکھوں کے سامنے گزشتہ زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی۔
بھولو اپنے والدین کے ساتھ جنگل میں رہتا تھا۔ان کے پڑوس میں بندروں کا ایک خاندان آباد تھا۔بندر فیملی کا اکلوتا بچہ منکو بھولو کا ہم عمر اور دوست تھا۔والدین کے لاڈ اور پیار سے دونوں کی عادتیں بگڑ گئی تھیں۔وہ مل کر خوب شرارتیں کرتے اور محظوظ ہوتے تھے۔
کبھی وہ راستے میں کیچڑ اور کیلے کے چھلکے پھینک کر چُھپ جاتے۔ راہگیر جانوروں کو پھسل کر گرتا دیکھ کر ان پر طنز کرتے، ہنستے اور فقرے کستے تھے۔ہاتھی چاچا، بی لومڑی اور کئی دیگر جانور ان کی شرارتوں کا نشانہ بن چکے تھے۔آئے روز کے شکوے شکایات سے ان کے والدین بہت شرمندگی اور ندامت محسوس کرتے تھے۔
ایک بار تو حد ہی ہوگئی جب بھولو اور منکو نے بلندی سے جنگل کے بادشاہ شیر کے راستے میں پتھر لڑھکا دیا۔ وہ خوش قسمتی سے بال بال بچ گئے۔لیکن اس شرارت کے بعد بھولو اور منکو کے والدین کو بادشاہ سلامت کی جانب سے سخت تنبیہ اور خبرداری کا سامنا کرنا پڑا۔ والدین نے تنگ آکر دونوں کو آخری بار سمجھاتے ہوئے کہا ،”تم دونوں شرارتوں سے باز نہ آئے تو ایک دن پچھتاؤ گے لیکن اس وقت پچھتاوا تمہارے کام نہیں آئے گا۔“
ڈھیٹ بھولو اور منکو نے ہمیشہ کی طرح یہ نصیحت بھی ایک کان سے سُنی اور دوسرے سے نکال کر ہوا میں اُڑا دی۔انہیں ایک نئی اور انوکھی شرارت سُوجھی۔ ان کے گھر کے پاس ہی ایک چٹان پر شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنا رکھا تھا۔بھولو اور منکو نے چھتے کو پتھر مارے اور شہد تیزی سے زمین پر بہنے لگا۔وہ مزےدار شہد چاٹ رہے تھے اور دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے۔منکو بولا ،”سب کہتے ہیں کہ ہم شرارتی ہیں حالانکہ ہم تو بہت عقلمند ہیں۔بھلا شرارت کا پھل شہد کی طرح میٹھا ہو سکتا ہے؟ “
بھولو نے اس کی تائید میں کہا، ” ہمم اصل مزہ تو شہد کھانے میں ہے۔دراصل سب جانور بے وقوف ہیں اور ہماری عقل مندی سے جلتے ہیں۔“
دونوں نے پیٹ بھر کر شہد کھایااور خوشی سے ” ہُرا وہ مارا!“ کا نعرہ بلند کیا اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔مکھیاں بہتے ہوئے شہد کو بے بسی سے دیکھتی رہ گئیں۔ان کی مہینوں کی محنت پل بھر میں خاک میں مل چکی تھی۔مکھیوں کی ملکہ نے سب کو اکٹھا کیا اور کہا،” اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔قدرت نے ہمیں شہد بنانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنے دفاع کے لیے ڈنک جیسے ہتھیار سے بھی لیس کیا ہے۔جس کے استعمال سے ہم دشمن کے خلاف دفاع کر سکتی ہیں۔آئندہ جب بھولو اور منکو شہد گرانے کی نیت سے آئیں تو اس سے پہلے ان پر ٹوٹ پڑو۔اسی صورت میں ہم اپنی اور بچوں کی خوراک بچا سکتی ہیں۔ملکہ نے ان کی حرکتوں کی جاسوسی کے لیے کچھ مکھیوں کی ڈیوٹی لگا دی۔
اگلے دن مقررہ وقت پر جب بھولو اور منکو شہد کے ایک چھتے کی طرف بڑھ رہے تھے تو ملکہ نے لڑاکا مکھیوں کو حملے کا حکم سنا دیا۔شہد کی مکھیوں کے جُھنڈ نے بھولو اور منکو پر ہلہ بول دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مکھیوں کے اچانک وار سے انہیں یوں لگا ،جیسے دن میں اندھیرا چھا گیا ہو۔وہ مکھیوں کے شدید حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔دوڑتے دوڑتے وہ جنگل سے شہر کے مضافات میں واقع ایک میدان میں پہنچ گئے۔اب وہ تھک چکے تھے ۔مکھیاں لگاتار ان کے جسم میں ڈنک پیوست کررہی تھیں۔بھولو اور منکو مکھیوں کے جُھنڈ کے خلاف ناکام مزاحمت اور بے بسی سے اچھل کود رہے تھے۔ایک آدمی دور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔بھولو اور منکو کو اس انداز میں کودتا دیکھ کر اس آدمی نے دونوں کے اندر چھپا ایک ٹیلنٹ تاڑ لیا تھا۔
وہ دوڑا دوڑا ان کے پاس پہنچا۔ نیم بے ہوش بھولو اور منکو کی جان مکھیوں سے تو چھڑائی تاہم دونوں کو قابو کرلیا۔بھولو کے ناک میں نتھلی اور منکو کے گلے میں رسی ڈال کر باندھا اور اپنے ساتھ گھر لے گیا۔
دراصل وہ آدمی بے روزگار تھا اور اس نے بھولو اور منکو کی اچھل کود سے ان کے اندر چُھپی ناچ اور کرتب کی صلاحیت دیکھ لی تھی۔وہ آدمی دنیا کا پہلا مداری تھا جس نے یہ پیشہ اپنایا تھا۔وہ بھولو اور منکو کو مزید کچھ تربیت دے کر سدھانے میں کامیاب ہو گیا۔
بھولو سوچ کے ان کچھ لمحوں سے ابھی پوری طرح باہر نہیں نکلا تھا کہ مداری نے اگلا اشارہ کر دیا اور بے بس بھولو ناچنے لگا۔وہ خوشی سے نہیں مجبوری سے ناچ رہا تھا اور حسرت سے اسد اور سیما کی طرف دیکھ رہا تھا جو اپنے پاپا کی انگلیاں تھامے اس کا ناچ دیکھ رہے تھے، ساتھ ہی اس کے کانوں میں اپنے باپ کی آواز گونج رہی تھی ،”شرارتوں سے باز آجاؤ ورنہ پچھتاؤ گے لیکن اس وقت پچھتاوا کام نہیں آئے گا۔“منکو نے بھولو کی آنکھوں میں چلنے والی کہانی پڑھ لی تھی۔لمحے بھر کے لیے اس نے بھی منہ بسورا مگر سب کچھ بھلا کر کرتب بازی میں مصروف ہوگیا کیونکہ اب اسی سے اس کی اور اسکے مالک کی روزی وابستہ تھی۔
بھولو اور منکو والدین کی نافرمانی اور شرارتوں کی سزا آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ان کی نسلیں رہتی دنیا تک یہ قرض ادا کرتی رہیں گی۔اسد اور سیما دونوں بہن بھائی ان رازوں سے بے نیاز مداری کا تماشا دیکھ کر خوشی خوشی پاپا کے ساتھ گھر واپس آگئے۔لیکن بھولو اور منکو کے ذہن میں کئی سوالوں نے جنم لیا تھا جس کا جواب انسان ہی دے سکتا ہے۔
”ایک ذرا سی شرارت کی اتنی بڑی سزا ہوسکتی ہے کہ مداری انہیں گلی گلی اشاروں پر نچاتا پھر رہا ہے؟ کیا شرارت بچوں کا حق نہیں؟ شہر میں رہائش انسان کا حق ہے تو جنگل میں آزادی سے رہنا جانوروں کا حق کیوں نہیں؟ “ بھولو اور منکو جدید دور کے مہذب انسان کی طرف سے اپنے ان سوالوں کے جواب کے منتظر ہیں؟؟؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top