دعأ
حماد ظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا منظر:
…………..
(مسجد میں جمعہ کی جماعت ختم ہوتی ہے۔ سلام پھیرتے ہی ایک بوڑھا شخص بیچ مسجد میں کھڑا ہوتا ہے اور کہنا شروع کرتا ہے۔ نمازیوں میں چہ مگوئیاں ۔ حقارت سے بڈھے کو دیکھتے ہیں)
بڈھا: نمازی بھائیو! میرے اور میرے بچے کیلئے دعا کرنا۔ میرا بچہ بہت بیمار ہے۔ میں قرض دار ہوں۔
(ایک صاحب بڈھے کو ڈانٹ کر بٹھا دیتے ہیں)
صاحب: باہر جا کر مانگنا، دیکھ نہیں رہے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔
بڈھا: سب میرے لیے دعا کریں۔ (بیٹھ جاتا ہے)
(امام صاحب کھڑے ہوتے ہیں اور نمازیوں سے مخاطب ہوتے ہیں)۔
امام صاحب: جیسا کہ پچھلے جمعہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ مسجد میں تعمیرات کا کام جاری ہے، اس میں پیسہ لگانا جنت میں گھر بنانا ہے۔
ویسے بھی یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جس میں ثواب ستر گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ کچھ پیسے آگئے ہیں ابھی بھی مزید چار سے پانچ لاکھ روپے درکار ہیں۔
*۔۔۔*
دوسرا منظر:
…………..
(مسجد کے باہر دالان میں راشد اور ذاکر کھڑے ہیں)
راشد: یار میرے پاس پچیس روپے ہیں، مسجد میں دوں یا اس بڈھے کو۔
ذاکر: یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے والی بات ہے، بھائی مسجد میں دو۔ یہ بڈھا اور اس جیسے کئی تو رمضان میں دھندا کرنے آجاتے ہیں کراچی میں۔
راشد : لیکن یار یہ مجھے واقعتا ضرورت مند لگ رہا ہے۔
ذاکر: بھائی بڑے اداکار ہوتے ہیں یہ لوگ، اگر ہالی وڈ چلے جائیں تو سارے آسکر ایوارڈ انہی کو ملیں ۔
راشد: ایسا کرتا ہوں بیس مسجدمیں اور پانچ اسے دے دیتا ہوں۔ حقوق العباد بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
(راشد تیزی سے آگے بڑھ گیا، گویا ذاکر سے اور بحث سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہو)
ّ(راشد بڈھے کو دیکھتا ہے جو دروازے سے کافی دور بیٹھا ہے)
راشد: (حیرت سے) نان پروفیشنل! اس طرح تو مل چکی اسے بھیک!
(راشد تیز تیز چلتا بڈھے کے قریب ہوتا ہے اور پانچ کا سکہ دینے کی کوشش کرتا ہے)
(بڈھا جو سوچوں میں گم بیٹھا ہوتا ہے چونک پڑتا ہے)
بڈھا: نہیں نہیں، مجھے پیسے نہیں چاہیے، مجھے دعا چاہیے۔
راشد: (دل ہی دل میں) لگتا ہے بڑا ہاتھ مارنے کے چکر میں ہے۔
راشد: لے لیجئے، قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے، شاید آپ کو قرض اتارنے میں کچھ آسانی ہو جائے۔
بڈھا: کوئی آسانی نہیں ہوگی۔ (آہ بھرتا ہے)
راشد: (دل ہی دل میں) پھر کتنے نوٹوں سے ہوگی آسانی لالچی بڈھے۔
راشد : کیوں کتنا قرض ہے؟
بڈھا: ڈیڑھ کروڑ!
راشد : (دل ہی دل میں) سرک گیا ہے بڈھا!
راشد: اور بچے کو کیا بیماری ہے؟
بڈھا: فالج ہو گیا ہے اسے۔
راشد: (بیساختگی سے) میں نے تو یہ صرف بوڑھوں میں سنی ہے۔ بچوں کو کہاں فالج ہوتا ہے۔
بڈھا: میرے بیٹے کی عمر تقریباً پینتالیس سال ہے۔
(راشد بڑے برے منہ بناتا ہوا پلٹ پڑتا ہے اور سارے پیسے مسجد میں دے دیتا ہے)۔
*۔۔۔*
تیسرا منظر:
…………..
(محلہ کی کسی اور مسجد کا منظر۔ راشد اور آصف باتیں کرتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں)
آصف: بہت بہت شکریہ راشد بھائی کہ اپ افطار پارٹی میں تشریف لائے۔
راشد: نہیں بھائی۔ مجھے بھی بہت لطف آیا کیا رونق لگائی آج تم نے اپنے گھر میں۔ درس میں الگ مستفید ہوئے۔
آصف( بڈھے کی طرف جاتے ہوئے) ایک منٹ میں ذرا سے کچھ خیرات دے دوں۔
راشد: (آصف کا ہاتھ پکڑتے ہوئے) نہیں بھائی یہ کوئی چھوٹا موٹا فقیر نہیں ہے۔ بڑا ٹھگ معلوم ہوتا ہے۔
آصف(حیرت سے) کیا مطلب؟
راشد: مطلب یہ کہ دن میں یہ ہماری مسجد میں بھی آچکا ہے۔ اور اب یہاں ہے۔ چلو جاؤ تم اسے خیرات دینے کی کوشش کر دیکھو۔
(راشد کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔ آصف بڈھے کے پاس سے حیران پریشان واپس آتا ہے)
راشد: کیا ہوا۔۔۔ لے لی خیرات؟
آصف: نہیں وہ کہتا ہے اسے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ بس پھرمیں نے دعا دے دی۔
راشد: بڑے سیدھے ہو۔ خیر کوئی نہ کوئی تو پھنسے ہی گا اس کے چنگل میں، کوئی بڑی اور موٹی مچھلی!
آصف: مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
راشد: میں بھی بس پھنستے پھنستے بچا تھا۔ خیر چھوڑو۔ یہ بتاؤ اب میں اپنے گھر کس دن رکھوں افطار پارٹی؟
(دونوں باتیں کرتے ہوئے دور نکل جاتے ہیں)۔
*۔۔۔*
چوتھا منظر:
…………..
(چند ماہ بعد)
(راشد سڑک پر سے سودا سلف لے کر جا رہا ہے کہ اسے اپنی مسجد سے وہی بڈھا نکلتا ہوا نظر آتا ہے۔ راشد جلدی سے اس کے قریب ہو جاتا ہے)۔
راشد :(طنزیہ لہجہ میں) آپ کے ڈیڑھ کروڑ میں سے کتنی رقم پوری ہوئی؟
(بڈھا مسکرا کر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتا ہے)
بڈھا: تم نے دعا کی تھی؟
راشد: (ہکلا کر) ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ نن۔۔۔ نہیں تو!
بڈھا: چلو تم نے نہ سہی کسی نہ کسی نے تو کی ہی ہوگی، اور اسی میں سے کوئی ایسا بھی ہوگا جس کی رد نہیں ہوئی۔ اسی کی تلاش میں تو میں ٹھوکریں کھا رہا تھا۔
(بڈھا یہ کہہ کر ایک شاندار سی کار کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ جس میں باوردی ڈرائیور موجود ہوتا ہے۔ بڈھے کے بیٹھنے کے بعد کار فراٹے بھرتی چلی جاتی ہے)
راشد: اوہ ۔۔۔ یعنی آخر کار اسے کوئی ایسا بدھو مل ہی گیا جس نے اس کی بات کو سچ سمجھ کر اس کو بڑی رقم دے دی!!
(راشد افسوس اور غصہ کی ملی جلی کیفیت میں ہونٹ چبانے لگتا ہے)۔
(مسجد کے اندر سے خزانچی صاحب باہر آتے ہیں)
راشد: یہ ٹھگ دوبارہ یہاں کیا لینے آیا تھا؟
خزانچی : کون؟ عطاء اﷲ صاحب ، جو ابھی ابھی نکلے ہیں؟
راشد: جی ہاں۔
خزانچی: بھئی یہ تو بہت بڑی مل کے مالک ہیں۔ پچھلے دنوں ان پر اور ان کے بیٹے پر برا وقت آیا ہوا تھا۔ مگر کسی اﷲ والے کی دعا سے یہ کیس جیت گئے، بیٹا صحت یاب ہو گیا۔
راشد: شاید آپ کو بھی کوئی کہانی سنا دی ہے۔
خزانچی: کہانی وانی تو مجھے نہیں پتا یہ دیکھو تعمیرات کے بجٹ میں اب بھی تقریباً تین لاکھ درکار تھے، یہ صاحب پورے تین لاکھ کا چیک دے گئے ہیں۔
(خزانچی صاحب یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں)۔
راشد:(سر پکڑ کر ) اوہ میرے خدا ۔۔۔ یعنی یہ سب حقیقت تھی۔
(اپنی پریشانیاں حل کرانے کیلئے راشد کے ہاتھ بھی خدا کے آگے دعا کیلئے اٹھ جاتے ہیں)
پردہ گرتا ہے۔۔۔
*۔۔۔*۔۔۔*