skip to Main Content

اصلی نقلی

سعید لخت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصر کے شہر اسکندر میں ایک درزی رہتا تھا ۔نام تھا عبداللہ۔ اس کی دکان میں بہت سے کاری گر کام کرتے تھے۔ان میں سعود نام کا ایک نوجوان بھی تھا ۔بہت خوب صورت اور لمبا تڑنگا۔پتا نہیں اس کے مان باپ کون تھے ۔عبداللہ نے اسے چھٹپن سے پالا تھا اور اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا ۔

سعود میں جہاں بہت سی اچھائیاں تھیں،وہاں ایک بُرائی بھی تھی۔اسے اپنی خوب صورتی پر بڑا گھمنڈ تھا۔اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ کسی بادشاہ کا بیٹا ہے ۔بس سوتے جاگتے یہی سپنے دیکھا کرتا۔

ایک دن مصر کے بادشاہ کا وزیر اسکندر یہ آیا۔عبداللہ بڑا نامی درزی تھا۔بڑے بڑے امیر اور سرکاری افسر اس سے کپڑے سلواتے تھے۔وزیر نے اسے محل میں بلوایا اور کہا’’ہمارے چغے کا دامن تھوڑا سا پھٹ گیا ہے۔اس طرح رفو کرنا کہ کوئی پہچان نہ سکے۔‘‘عبداللہ چغا (چوغہ)لے کر دکان پر آیا اور سعود کو رفو کرنے کے لئے دے دیا ،کیونکہ تمام کاریگروں میں وہی سب سے ہوشیار اور تجربہ کار تھا۔

دکان کی چابیاں سعود کے پاس رہتی تھیں۔صبح کے وقت وہی دکان کھولتا اور شام کووہی بند کرتا ۔اس دن شام کوجب سب کاریگر چلے گئے اور سعود دکان بند کرنے لگا تو اس کے دل میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوئی۔اس نے سوچاچغاپہن کر دیکھوں تو سہی کیسا لگتا ہوں ۔اس نے کھونٹی سے چغا اتارا اور پہن کر آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔خوب صورت تو تھا ہی،چغے نے حسن میں چار چاند لگا دئیے۔

’’میں شہزادہ ہوں ۔میں سچ مچ شہزادہ ہوں ‘‘اس نے دل میں کہا ’’میرا باپ ضرور کوئی بادشاہ ہے۔ میں اسے تلاش کروں گا ،چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو۔‘‘اس نے آڑے وقتوں کے لئے کچھ روپے بچا کر رکھے تھے ۔وہ جیب میں ڈالے اور راتوں رات اسکندریہ سے رخصت ہو گیا۔

وہ جس بستی سے گزرتا لوگ تعجب کرتے۔سوچتے اتنا بڑا آدمی اور پیدل جارہا ہے ۔سعود تاڑ گیا کہ لوگ اسے دیکھ کر حیرت کیوں کررہے ہیں۔ اس نے اگلے گاؤں میں پہنچ کر ایک مریل سا گھوڑا خریدا اور اس پر سوار ہو کر آگے چل دیا۔

تھوڑی دور ہی گیا ہو گا کہ ایک گھڑ سوار ملا ۔بیس بائیس برس کی عمر، چندے آفتاب ،چندے ماہتاب۔اس نے سعود کو بتایا کہ میرا نام ہاشم ہے اور میں مصر کے ایک پاشا یوسف کا بھتیجا ہوں۔سعود نے بھی اسے کچھ ایسی ہی باتیں بتائیں اور وہ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔

شام کووہ ایک قصبے کی سرائے میں ٹھہرے ۔کھاناکھا کر سونے لیٹے تو ہاشم نے ایک عجیب بات بتائی۔اس نے کہا’’یوسف پاشا کا انتقال ہو چکا ہے ۔مرتے وقت انہوں نے مجھے بتایا تھاکہ تم میرے بھتیجے نہیں ،بلکہ ملک لیبیا کے بادشاہ کے بیٹے ہو۔تمہارے پیدا ہونے سے پہلے نجومیوں نے بادشاہ کو بتایا تھا کہ جب یہ بچہ پیدا ہو تو اسے اس وقت تک نہ دیکھنا جب تک وہ بائیس سال کا نہ ہو جائے۔اس سے پہلے آپ نے اسے دیکھا تو وہ مرجائے گا۔

’’بادشاہ کو دکھ تو بہت ہوا مگر کرتا بھی کیا۔یوسف پاشا اس کا بچپن کا دوست تھا اور مصر کے دارالسلطنت قاہرہ میں رہتا تھا ۔میرے والد نے مجھے پیدا ہوتے ہی پاشا کے پاس بھیج دیااور اس نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا ۔اس نے مرنے سے پہلے مجھے بتایا کہ تم اس سال رمضان کی چار تاریخ کو پورے بائیس سال کے ہو جاؤ گے۔اس دن تم السراج کے مقام پر جانا جو اسکندریہ سے چار دن کے فاصلے پر ہے۔ وہاں کچھ لوگے تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔انہیں تم یہ خنجر دکھانا اور کہنا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے۔‘‘

’’وہ خنجر کہاں ہے؟‘‘سعود نے جلدی سے پوچھا ۔

’’میری پیٹی میں‘‘ہاشم نے جواب دیا۔

یہ عجیب و غریب کہانی سن کر سعود کے دل میں لالچ نے گھر کیا ۔ اس نے سوچا ’’کاش!میں اس کی جگہ ہوتا ۔اب یہ تو کچھ دنوں میں ایک سلطنت کا وارث بن جائے گا اور میں یوں ہی جوتیاں چٹخاتا پھروں گا۔‘‘

اس نے ہاشم کی طرف دیکھا جو بے خبر پڑا سو رہا تھا۔یکایک اس کے دل میں ایک خطرناک خیال آیا ۔وہ چپکے سے اٹھا ،ہاشم کی پیٹی سے خنجر نکالا اور اس کے گھوڑے پر سوار ہو کر ہوا ہو گیا۔

اس دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی اور سعود کو چار تاریخ تک السّراج کے مقام پر پہنچنا تھا ۔لیکن وہ ہاشم کے تیز رفتار گھوڑے پر تیسرے ہی دن رات کو وہاں پہنچ گیا۔یہاں چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھی۔اور بیچ میں ایک میدان تھا جس میں کہیں کہیں کھجور کے درخت تھے۔سعود نے ایک درخت کے نیچے گھوڑاباندھا اور پیر پسار کر سو گیا۔

دوسرے دن صبح کو گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی۔سعود ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔کچھ دیر بعد پندرہ بیس گھڑ سوار میدان میں آئے اور ایک درخت کے پاس ٹھہر گئے۔ان میں سے ایک اڈھیر عمر کا آدمی تھا جس کی پگڑی میں ایک بہت بڑا لعل جگ مگا رہا تھا ۔وہ سب سے آگے تھا اور باقی سب لوگ ادب سے اس کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے ۔سعود نے سوچا یہی بادشاہ ہے۔وہ ڈورتا ہوا اس کے پاس گیا ،جھک کر تین دفعہ سلام کیا اور بولا ’’میں ہی وہ شخص ہوں جس کی حضور کو تلاش ہے ۔یہ رہا میرا خنجر۔‘‘

بادشاہ نے خنجر دیکھا اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر سعود کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔عین اسی وقت کسی شخص کی دور سے آواز آئی’’ٹھہرئیے!ٹھہرئیے!‘‘سعود نے سر اٹھاکر آواز کی طرف دیکھا تو اس کے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ہاشم اس کے مریل گھوڑے پر سوارچلا آرہا تھا۔

’’یہ شخص مکار ہے،دھوکے باز ہے‘‘ہاشم چیخ کر بولا ’’اصل شہزادہ میں ہوں۔‘‘

بادشاہ کے سپاہی حیرت سے آنکھیں پھاڑے کبھی ہاشم کو دیکھتے اور کبھی سعود کو ۔آخر ان کی نگاہیں بادشاہ کے چہرے پر جم گئیں کہ دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتا ہے ۔بادشاہ نے غصے سے ہونٹ کاٹا اور کڑک کر بولا’’یہ نوجوان پاگل معلوم ہوتا ہے ۔اسے گھوڑے کی پیٹھ سے باندھ دو ۔ہم اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے اور ایسی سزا دیں گے کہ اس کی سات پشتیں یاد رکھیں۔‘‘

حکم کی دیر تھی ،سپاہیوں نے ہاشم کی مشکیں کس دیں اور گھوڑے کی پیٹھ پر اوندھا لٹا کر رسیوں سے باندھ دیا ۔دو دن اور دو راتوں کے سفر کے بعد بادشاہ اپنے ملک لیبیا کی سرحد میں داخل ہوا۔سعود بڑی شان سے گھوڑے پر بیٹھا بادشاہ کے پہلو میں چل رہا تھا اور ہاشم گھوڑے سے بندھا پیچھے پیچھے آرہا تھا ۔تمام گاؤں ،قصبے اور شہر دلہن کی طرح سجائے گئے تھے۔گلی کوچوں میں جھنڈیاں لگی تھیں اور چوکوں میں خوب صورت دروازے لگے تھے۔شاہی جلوس جدھر سے گزرتا ،لوگ اس کی راہ میں آنکھیں بِچھاتے۔

شاہی محل میں ملکہ اپنے پیارے بیٹے کا انتظار کر رہی تھی۔اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔شاہی جلوس محل میں داخل ہوا تو نقارچیوں نے نقارے بجا بجا کر آمد کا اعلان کیا۔ملکہ مارے خوشی کے ننگے سر،ننگے پیر،دوڑی دوڑی آئی اور بے اختیار سعود کو گلے لگا لیا مگر پھر ایکا ایکی پیچھے ہٹی اور بولی’’نہیں ،نہیں۔یہ میرا بیٹا نہیں ہے ۔یہ میرا بیٹا نہیں ہے ۔‘‘

’’آپ کیا فرما رہی ہیں ملکہء عالیہ؟‘‘بادشاہ نے کہا ’’یہی آپ کا بیٹا ہے۔اسے سینے سے لگا کر کلیجا ٹھنڈا کیجئے۔‘‘

’’نہیں،نہیں‘‘ملکہ دونوں ہاتھ ہلاتی ہوئی پیچھے ہٹی۔عین اسی وقت درازہ کھلا،ہاشم دربانوں کو دھکے دیتا ہوااندرآیااور بادشاہ کے قدموں میں سر رکھ کربولا’’آپ مجھے اپنے ہاتھ سے قتل کر دیجئے۔میں اب زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔اس نے کہا ’’اس پاگل کو کس نے چھوڑ دیا ہے؟۔پکڑ لو اسے اور زنجیروں میں جکڑ کر کال کوٹھڑی میں بند کر دو۔کل صبح ہم اس کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔‘‘

’’ٹھرئیے!‘‘ملکہ آگے بڑھ کر بولی’’میں نے اس نوجوان کو پہلی دفعہ دیکھا ہے مگر پتا نہیں کیوں میرا دل اس کی طرف کھچا جا رہا ہے۔میری ممتا کہہ رہی ہے کہ یہی میرا بیٹا ہے۔‘‘

’’یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟‘‘بادشاہ بولا’’السراج کے مقام پر یہی نوجوان مجھے ملا تھااور وہ نشانی دکھائی تھی جو میں نے یوسف پاشا کو دی تھی۔‘‘

ہاشم نے کہا ’’جب میں سو رہا تھا تو اس دھوکے باز نے وہ خنجر میری پیٹی سے نکال لیا اور میرے گھورے پر سوار ہو کر بھاگ گیا۔‘‘

’’یہ غلط ہے،عالی جاہ‘‘سعود بولا ’’یہ شخص اسکندریہ کا ایک معمولی سا درزی ہے اور آپ کا بیٹا بن کر تاج و تخت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘

’’آہ!‘‘بادشاہ سر پکڑ کر بولا ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

’’حضور یوسف پاشا ہی سے کیوں نہیں معلوم کر لیتے؟‘‘ملکہ نے کہا۔

’’وہ مر چکا ہے‘‘بادشاہ نے جواب دیا۔

’’ہمیں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے ‘‘ملکہ نے کہا ’’حضور مجھے تین دن کی مہلت دیں۔ان شاء اللہ میں ثابت کر دکھاؤں گی کہ ہمارا اصلی بیٹا کون ہے۔‘‘

ملکہ نے زنان خانے میں آکر بہت سوچا،بہت مغز کھپایا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔

ملکہ کی ایک منہ چڑھی باندی فرحت ،بہت عقل مند اور ہوشیار تھی۔اس نے ہاتھ باندھ کر کہا’’ملکہ عالیہ اجازت دیں تو بندی کچھ عرض کرے۔‘‘

’’اجازت ہے‘‘ملکہ نے کہا۔

’’حضور،ان نوجوانون کی گفت گو سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ان میں سے ایک شہزادہ ہے اوردوسرا درزی۔‘‘

’’لیکن ہم یہ کیسے ثابت کریں گے؟‘‘ملکہ نے پوچھا۔

’’میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔تنہائی میں عرض کروں گی۔‘‘

تخلیہ !‘‘ملکہ نے تالی بجا کر کہا ۔لونڈیوں اور باندیوں نے جھک کر تین فرشی سلام کئے اور الٹے قدموں باہر نکل گئیں ۔فرحت نے ملکہ کے کان سے منہ لگا لیااور دونوں دیر تک کھسر پھسر کرتی رہیں۔

دوسرے دن بادشاہ نے دربار لگایا۔دونوں نوجوان دربار میں پیش کئے گئے۔بادشاہ نے ملکہ سے کہا ’’اب آپ ثابت کریں کہ ان میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا ؟‘‘

عالی جاہ!‘‘ملکہ بولی’’ان دونوں کو کپڑا ،قینچی اور سوئی دھاگا دے کر الگ الگ کمروں میں بند کر دیا جائے ۔یہ آج شام تک ایک خوب صورت سی پوشاک سیئیں گے۔جس پوشاک کی کاٹ اور سلائی بے عیب ہو گی وہی شہزادہ ہو گا۔‘‘

امتحان کچھ عجیب سا تھا ۔ بادشاہ پہلے تو ہچکچایامگر پھر راضی ہو گیا ۔سعود اور ہاشم کو کپڑا اور سینے پرونے کا سامان دے کر الگ الگ کمروں میں بند کردیا گیا۔

دوسرے دن صبح کو پھر دربار لگا ۔تمام وزیر اور امیرجمع ہوئے ۔سعود کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں مگر ہاشم کا منہ لٹکا ہوا تھا۔سعود نے آگے بڑھ کرپہلے اپنی پوشاک پیش کی ۔

بادشاہ خوشی سے جھوم اٹھا ۔بولا ’’واہ وا! سبحان اللہ !کتنی خوب صورت پوشاک سی ہے۔کمال کر دیا !ہمارے شاہی درزی بھی ایسی پوشاک نہیں سی سکتے۔‘‘

ملکہ نے مسکرا کر ہاشم کی طرف دیکھا اور بولی ’’نوجوان،اب تم اپنی پوشاک دکھاؤ۔‘‘

ہاشم نے ان سلا کپڑا فرش پر پٹخ دیا اور بولا ’’حضور ،یوسف پاشا نے مجھے شہسواری ،تیر اندازی اور تلوار بازی سکھائی تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ پوشاک کس طرح سی جاتی ہے۔‘‘

ملکہ جلدی سے اٹھی اور ہاشم کو سینے سے لگا کربولی ’’میرادل کہہ رہا تھا کہ تو ہی میرا بیٹاہے ۔اب اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہا۔جہاں پناہ !اب بھی آپ نہیں سمجھے کہ شہزادہ کون ہے اور درزی کون؟‘‘

’’او دھوکے باز ۔فریبی لڑکے!‘‘بادشاہ نے سعود سے کہا ’’سچ سچ بتا توکون ہے اور یہ سوانگ کیوں رچایا۔ورنہ یاد رکھ !تیرے سارے بخیے ادھیڑ دوں گا ۔‘‘

سعود کا منہ فق ہو گیا ۔سارا بدن تھر تھر کانپنے لگا ۔وہ اوندھے منہ فرش پر گر پڑا اور بولا ،عالی جاہ !مجھے معاف کر دیں ۔میں ایک بدنصیب درزی ہو ں۔ آپ کا حقیقی بیٹا ہاشم ہے ۔مجھے لالچ نے اندھا کر دیا تھا۔‘‘

’’اسے معاف کر دیجئے،حضور‘‘ہاشم نے کہا ’’لالچ واقعی انسان کواندھا کر دیتا ہے ۔مجھے امید ہے کہ یہ آیندہ ایمان داری کی زندگی بسر کرے گا۔‘‘

’’حضور،لڑکا بڑا اچھا کاریگر ہے ‘‘ملکہ نے کہا ’’ہم سفارش کرتے ہیں کہ اسے شاہی درزیوں میں شامل کر لیا جائے۔کیوں لڑکے ،تمہیں دھوتی شلوار سینی آتی ہے؟‘‘

سعود سر جھکا کر بولا ’’حضور ،زنانہ کپڑوں کا تو میں ماہر ہوں ۔ہر قسم کے غرارے ،شرارے ،بیل باٹم ،بیگی شرٹ اورچوڑی دار پاجامے سی سکتا ہوں ۔‘‘

بادشاہ خوش ہو کر بولا ’’ہم شہزادے اور ملکہ کی سفارش منظور کرتے ہیں ۔آج سے یہ شاہی درزی ہے لیکن ہم نے اپنے درزیوں کو قسم قسم کے خطاب دے رکھے ہیں ۔اسے کیا خطاب دیا جائے؟‘‘

’’شہزادہ‘‘ملکہ نے کہا اور بادشاہ قہقہہ مار کر ہنس پڑا ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top