skip to Main Content

دوبلیاں

کہانی: The Two Cats
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو بلیاں ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک بہت خوب صورت تھی۔نیلی مائل سرمئی کھال، گھنی جھاڑ دار دم اور بڑی بڑی پیلی آنکھیں۔وہ شہزادی کہلاتی تھی اور ہر وقت اپنے حسن کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔
دوسری ایک عام ، چھوٹی سی کالی بلی تھی جس کا سینہ تھوڑا سا سفید ، سبز آنکھیں اورایک مختصر سی دم تھی۔اس کا نام ٹِبس تھا۔
ٹِبس باورچی خانے میں رہتی تھی جبکہ شہزادی صاف ستھری اور آراستہ بیٹھک میں۔ٹِبس کے پاس سونے کے لیے لکڑی کا ایک ڈبہ اور اس میں پھٹا پرانا تکیہ تھا۔شہزادی کا بستر نیلی لکیروں والی ایک گول ٹوکری اور اس میں مخمل کا تکیہ تھا۔ ٹبس کو باورچی خانے کی ایک ٹوٹی ہوئی رکابی میں کھانا ملتا ۔ شہزادی کے کھانے کے لیے نیلے رنگ کا ایک خوب صورت پیالہ تھاجس کے گرد اس کا نام لکھا تھا۔
ایک دن گھر کے مالک نے کہا کہ چونکہ اسے بڑا مالی نقصان ہو گیا ہے، لہٰذا اسے اپنا گھوڑا بیچنا پڑے گا۔ مالی کو فارغ کرنا پڑے گا۔سستے کپڑے پہننے ہوں گے اور سستی خوراک پر گزارا کرنا پڑے گا۔اس نے کہا:
’’بیگم! تمہیں بھی اس وقت تک خریداری سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا جب تک آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ بن جائے۔ ہم نے کتنی بلیاں پال رکھی ہیں؟کیا ان میں سے صرف ایک نہیں رکھی جا سکتی؟‘‘
’’ہاں، میں نے صرف دو ہی پال رکھی ہیں۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا۔’’مگر یقینا ایک کم کی جا سکتی ہے۔میں آپ کی ہر ممکن مدد کروں گی۔‘‘
خوب صورت بلی، شہزادی یہ سب سن رہی تھی۔ اس نے ایک جمائی لی اور سوچنے لگی۔’’باورچی خانے والی اس عام سی بلی کے لیے یہ ایک جھٹکا ہوگا، اسے جانا پڑے گا،پھر میں اس گھر کی اکلوتی بلی بن جائوں گی اور یہ بات آج ہی اسے بتائوں گی۔‘‘
چنانچہ جب ٹِبس صبح بخیر کہنے آئی تو شہزادی نے اس ننھی کالی بلی کو یہ بری خبر سنائی۔اس نے کہا:
’’ اب مالکن صرف ایک ہی بلی رکھے گی۔اس لیے تمہیں جانا پڑے گا۔تمہیں کو ئی یاد بھی نہیں کرے گا۔تمہاری طرح کی ایک عام سی چیز سے ہمیشہ چوہوں اور چوہیوں کی بو آتی رہتی ہے۔‘‘
ٹِبس بہت اداس تھی۔ اسے اپنا گھر بہت عزیزتھا۔اسے موٹا بوڑھا باورچی عزیز تھا جو اکثر رات کو اسے اپنے گھٹنے پربیٹھنے دیتا تھا ۔ اسے باورچی خانے کی انگیٹھی کے پاس رکھا لکڑی کا ڈبہ اور اس میں پڑا پھٹا پرانا تکیہ عزیز تھا۔وہ افسردگی کے ساتھ اپنی دم جھکائے بھاگ گئی۔
مالکن باورچی خانے میں چلی گئی۔ اس نے مالک کی کہی ہوئی ساری بات باورچی کو بتائی۔
’’ اب ہمیں صرف ایک ہی بلی رکھنی ہے۔‘‘اس نے کہا۔’’ اور وہ یقینا شہزادی ہوگی۔‘‘
’’ لیکن کیوں بیگم صاحبہ؟‘‘ بوڑھے باورچی نے حیرت سے کہا۔’’ وہ بلی کون سا ایسا اچھا کام کرتی ہے؟وہ مہنگی خوراک کھاتی ہے۔اسے دیکھ بھال اور ہلا گلا تو چاہیے مگر یہاں رہتے ہوئے کام وہ ٹکے کا نہیں کرتی۔ہاں…مجھے پتا ہے کہ وہ خوب صورت ہے …مگر کام نہ کرنے کا یہ کوئی جواز نہیں۔اب ٹِبس کو دیکھئے!اسے دن بھر میں صرف چند ٹکڑے ہی ملتے ہیں…لیکن یہ بلی بھی اتنی ہی محنت کرتی ہے جتنی کہ میں کرتا ہوں۔یہ درجن بھر چوہوں اور چوہیوں کو پکڑتی ہے۔سیڑھیوں کے نیچے جہاں میں کھانے کی چیزیں رکھتا ہوں، یہ وہاں کسی کو پھٹکنے تک نہیں دیتی۔یہ آپ کاروپیہ روپیہ بچاتی ہے۔‘‘
’’میرے عزیز!‘‘ مالکن بولی۔’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ٹِبس ہمارے لیے بڑی قیمتی ہے، ہم اسے ہی رکھیں گے اور شہزادی کو جانا ہوگا۔ٹِبس ہمارے لیے سخت محنت کرتی ہے اور یہ اپنے گھر میں رہنے کی مستحق ہے۔‘‘
شہزادی کے لیے یہ ایک زبردست جھٹکا تھا۔ایک دن اسے ٹوکری میں بند کرکے اچھی امید کے ساتھ روانہ کردیا گیا۔جہاں تک بات ہے باورچی خانے والی چھوٹی بلی ٹِبس کی …تو وہ اب بھی وہیں رہتی ہے ۔نہ صرف خوش ہے بلکہ رات بھر سخت محنت بھی کرتی ہے۔
’’خوب صورت ہونے سے زیادہ مجھے مصروف رہنا پسند ہے۔‘‘وہ اپنے آپ سے کہتی ہے۔’’کیونکہ لوگ آپ کے بارے میں خوب صورتی سے آگے بھی بہت کچھ سوچتے ہیں۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top