چینی کا پُتلا
کہانی: The Little Sugar Boy
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیا س نواز
۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ گلیان مٹھائیوں کی دکان پر گئی اور چھ پینس یک مشت خرچ کرکے چینی کا ایک پتلا خرید لیا۔یہ پتلا سر سے پائوں تک سفید اور گلابی چینی سے بناہوا تھااور بہت خوب صورت تھا۔وہ اسے لے کر خوشی خوشی گھر کی طرف چل پڑی اور سوچنے لگی کہ آتش دان پر رکھا یہ کتنا خوب صورت لگے گا۔
مگر اسے شدید دھچکا اس وقت لگا جب اس نے چینی کے پتلے کو کاغذ کے لفافے سے نکالا۔پھرپتلے کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس کے منہ کو چاٹا اور بولی۔’’تم کتنے مزے دار ہو!گھر پہنچتے ہی میں تمہیں کھا لوں گی!‘‘
’’میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے کھائے!‘‘چینی کا پتلا خوف سے بولا اور گلیان کے ہاتھ سے چھلانگ لگا کر مرغیوں کے دڑبے کی طرف بھاگا۔ بھورے رنگ کی ایک مرغی نے اسے دیکھا تو اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی بولی۔’’ادھر آئوچینی کے پتلے! میں تمہیں چُگ لوں!‘‘ مگرچینی کا پتلا چلایا۔’’ نہیں، نہیں، نہیں!‘‘ اور کتے کی کوٹھڑی کی طرف بھاگا۔’بوب‘ نامی کتا وہاںپڑا اونگھ رہا تھا ۔ پتلے کے چھوٹے چھوٹے پیروں کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔وہ بھونکنے لگا:
’’ادھر آئو چینی کے پتلے! میں تمہیں کاٹ لوں!‘‘مگر چینی کا پتلا چلایا۔’’نہیں، نہیں، نہیں!‘‘ اور کتے کی پہنچ سے دور بھاگا۔اسی لمحے ’سینڈی‘ نامی دوسرے کتے نے اسے دیکھ لیا۔ وہ زور سے غرایا۔’’ادھر آئو چینی کے پتلے! میں تمہیں بھنبھوڑ ڈالوں!‘‘
مگر چینی کا پتلا چلایا۔’’ نہیں، نہیں ، نہیں!‘‘ اور سینڈی کی ٹانگوں کے درمیان سے نکل کر بھاگا۔ وہ راہ داری پر دوڑتا چلا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے گلیان، بھوری مرغی، بوب اور سینڈی چلے جا رہے تھے۔اس نے اپنا رخ بلی کے گھر کی طرف کیا اور ’پیٹ‘ نامی بلی کی نظر اس پر پڑ گئی۔اس نے اپنے لمبے لمبے پنجے باہر نکالے اور میائوں میائوں کرنے لگی۔’’ادھر آئو چینی کے پتلے! میں تمہیں چبا لوں!‘‘ مگر چینی کا پتلا چلایا۔’’ نہیں، نہیں، نہیں!‘‘اور راستے سے ہٹ کر ایک طرف کو بھاگنے لگا۔ وہاں اسے ’بنکل‘ نامی بلونگڑا مل گیا۔وہ خوشی کے مارے میائوں میائوں کرتا چینی کے پتلے پر جھپٹا۔’’ ادھر آئو چینی کے پتلے! میں تمہیں کاٹ لوں!‘‘
مگر چینی کا پتلا مسلسل بھاگتے اور ہانپتے ہوئے یہی کہہ رہا تھا۔’’نہیں، نہیں، نہیں!‘‘ وہ مسلسل یہی جدوجہد کر رہا تھا کہ کسی طرح کھائے جانے سے بچ جائوں۔بھلا اس جیسا خوب صورت ساتھی چاٹنے، کھانے، چگنے، کاٹنے، بھنبھوڑنے یا چبانے کے لیے ہوتا ہے؟ نہیں، نہیں، نہیں!
وہ آگے بڑھتا رہا اور باقی سارے اس کا پیچھا کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ ایک بڑے جوہڑ پر پہنچ گیا۔ اس نے جوہڑ کو پھلانگنے کی کوشش کی مگر افسوس!چینی کا ننھا سا پتلا اتنی بڑی چھلانگ کہاں لگا سکتا تھا۔’’چھپاک‘‘ کی آواز آئی اور وہ دھوپ سے تپتے پانی کے اس گڑھے کے بالکل درمیان میں جاگرا۔
باقی سب جو ہڑ پر پہنچے اور اس کے گرد گھیرا ڈال کر چلانے لگے۔’’اب تو ہم نے تمہیں گھیر لیا ہے۔‘‘پانی کی گہرائی سے چینی کے ننھے پتلے کی آواز آئی۔’’ نہیں ،نہیں، نہیں!‘‘
’’ہم جو ہڑ کا سارا پانی پی کر تمہیں باہر نکال لیں گے!‘‘ بوب چلایااور گلیان کے علاوہ ساری مخلوق پانی پینے لگی۔گلیان حیرت سے کھڑی دیکھ رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟جوہڑ کم سے کم ہوتا چلا گیا۔
اور پھر…آپ یقین کریں گے! جب وہ جوہڑ کا آخری قطرہ تک پی گئے…تو وہاں چینی کے پتلے کانام و نشان تک نہ تھا۔
’’وہ چلا گیا…!‘‘ ساری مخلوق مایوسی سے چلائی۔’’ وہ بچ گیا…! وہ غائب ہو گیاہے…!چینی کے پتلے !تم کہاں ہو…؟‘‘
گلیان ہنسنے لگی اور کتنی ہی دیرتک ہنستی رہی، پھر وہ چلائی۔’’تم اسے کھانا چاہتے تھے…مگر بجائے کھانے کے تم اسے پی گئے ہو!‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ پیٹ نے پوچھا۔
مگر گلیان نے اپنے سرکو ہلاتے ہوئے کہا۔’’تم خود ہی اندازہ لگائو!‘‘
میں نے تو اندازہ لگا لیا ہے، کیا آپ نے بھی لگایا؟

