چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے
امتیاز علی تاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چچی ایک دو بار نہیں بیسیوں مرتبہ چچا چھکن سے کہہ چکی ہیں کہ’’ باہر تمھارا جو جی چاہے کیا کرو مگر خدا کیلئے گھر کے کسی کام میں دخل نہ دیا کرو۔آپ بھی ہلکان ہوتے ہو ،دوسروں کو بھی ہلکان کرتے ہو ۔سارے گھر میں ایک ہڑ بڑ ی سی پڑ جاتی ہے، میرا دم الجھنے لگتا ہے۔ اور پھر تمھارے کام میں نے نقصان کے سوا کبھی فائدہ ہوتے بھی تو نہیں دیکھا ۔تو ایسا ہاتھ بٹانا بھلا میرے کس کام کا؟‘‘
چچا اس قدر ناشناسی سے کھج جاتے ہیں۔ چڑ کر کہتے بھی ہیں ۔’’بھلا صاحب کان ہوئے ،پھر کبھی آپ کے کام میں دخل دیا تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا ۔‘‘لیکن دخل در معقولات کا انھیں کچھ ایسا لا علاج مرض ہے کہ جہاں کوئی موقع ملا،پھر لنگوٹ کس تیار۔
آج ہی دوپہر کی سنیے۔ چچی کا جی اچھا نہ تھا ،گلا آگیا تھا ۔اس کی وجہ سے ہلکی ہلکی حرارت بھی تھی منہ سر لپیٹے دالان میں پڑی تھیں کہ دھوبن کپڑے لینے آگئی ۔چچی نے کہا ’’بریٹھن آج تو میرا جی اچھا نہیں کل پرسوں آجائیو تو میلے کپڑے دے دوں گی ۔‘‘
دھوبن بولی ۔’’بیوی جی !بریٹھا آج رات بھٹی چڑھا رہا تھا ،کپڑے مل جاتے تو آٹھوے دن میں دے جاتی نہیں تو وہی دس پندرہ دن لگ جائیں گے ۔‘‘
چچی نے کہا ۔’’اب جو ہو سو ہو ،مجھ میں تو اٹھ کر کپڑے دینے کی ہمت نہیں ۔‘‘
چچا چھکن پرلے دالان میں بیٹھے میاں مٹھوکو سبق پڑھا رہے تھے ،کہیں چچی کی بات سن پائی ،انھیں ایسے موقعے اللہ دے ۔جھٹ ادھر آ پہنچے ۔بولے۔ ’’ کیا بات ہے؟کپڑے دینے ہیں دھوبن کو؟ہم دے دیتے ہیں ۔‘‘
چچی بولیں ۔’’اے خدا کے لیے تم رہنے دینا ۔ہلکم ڈالو گے۔ سارے گھر میں۔ پہلے ہی میرا جی اچھا نہیں ہے ۔کل پرسوں اللہ چاہے تو میں آپ اٹھ کر دے دوں گی۔‘‘
چچا کب رکنے والے ہیں بھلا ۔اللہ جانے کام ہی کا جنون ہے،یا گھر کے کاموں سے طبیعت کو خاص مناسبت ہے،یا روک دیے جانے میں انھیں اپنے سلیقے اور سُگھراپے کی توہین نظر آتی ہے ،بولے ۔’’واہ بھلا کوئی بات ہے۔یہ ایسا کام ہی کیا ہے ،ابھی نمٹائے دیتے ہیں ۔‘‘
چچی جانتی ہیں وقت پر چچا کب کسی کی سنتے ہیں ،وہ تو بڑ بڑاتی ہوئی کروٹ لے پڑرہیں اور چچا چلے دھوبن کو کپڑے دینے ۔چچی ٹوک چکی تھیں ،اس لیے آپ نے نہ تو کسی ملازم کو آواز دی ،نہ کسی بچے کو بلایا ،نہ کسی سے یہ پوچھا کہ کس کے کپڑے کہاں پڑے ہیں ،خود ہی گھر کے جالے لینے شروع کر دیے ۔جو کپڑا نظر آیا خود ہی آنکھوں کے سامنے تان کرپرکھا یا، نیچے پھیلا کر دیکھ لیا ۔’’کمبخت پتا بھی تو نہیں چلتا کہ پہننے کا کپڑا ہے یا جھاڑن بن چکا ہے ۔چماروں کے بچے بھی تو اس سے اچھی طرح کپڑا پہنتے ہوں گے ۔‘‘کسی کپڑے کو چھوڑا ،کسی کو بغل میں دبایا ،کہیں جھک کر چار پائی کے نیچے جھانکا ،کہیں ایڑیاں اٹھا کر الماری کے اوپر نظر ڈالی۔ معلوم ہوتا تھاآج چچا نے قسم کھا لی ہے کہ جو کام ہوگا آپ ہی کریں گے ۔لیکن آخر کب تک ؟چچا چھکن کیلئے تو اللہ میاں بہانے پیدا کر دیتے ہیں ۔کپڑوں کی تلاش میں اسباب کی کوٹھری میں گئے تھے ،پانچ منٹ بعداندر سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں ۔
لیجئے صاحب حسبِ معمول سارا گھر چچا میاں کے گرد جمع ہو گیا اور آپ نے سنانے شروع کر دیے اپنے احکام ۔
’’اب کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو ؟جمع کرو میلے کپڑے ۔پر دیکھو رہ نا جائے کوئی ۔ایک ایک کونا دیکھ لیجیو۔دالان میں ڈھیر لگا دو سب کا ۔بندو تو ہمارے کمرے میں سے میلے کپڑے سمیٹ لا۔دو تین جوڑے تو چار پائی کے نیچے حفاظت سے لپٹے رکھے ہیں ،وہ لیتا آئیو۔ اور سننا، وہ چھٹن یا بنو کا ایک کرتا بانس پر لپٹا ہوا کونے میں رکھا ہے ۔پرسوں کمرے کے جالے اتارے تھے ہم نے وہ بھی کھولتا لائیو۔اور دیکھ۔۔۔ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے کم بخت ۔پوری بات ایک مرتبہ نہیں سن لیتا ۔ایک بنیان ہمارا آتش دان میں رکھا ہے ۔بوٹ پونچھے تھے اس سے ۔وہ بھی لیتا آنا ۔جا بھاگ کر جا ۔امامی تو بچوں کے کپڑے جمع کر ۔ہر کونے اور طاق کو دیکھ لیجیو۔یہ بد معاش کپڑے رکھنے کو نئی سے نئی جگہ نکالتے ہیں۔‘‘
نوکر روانہ ہوئے تو بچوں کی باری آگئی ۔’’کہاں گئے یہ سب کے سب ؟او چھٹن!لیجئے ملاحظہ فرمائیے آپ کی صورت!ارے یہ کیا حال بنایا ہے ؟کوئلوں میں کہاں جا گھسا تھا ؟اتا ر اپنے کپڑے ۔نئے کپڑے پھر ملیں گے ۔پہلے میلے کپڑے یہاں لا کر رکھ۔ اور یہ بنو کدھر گئی ؟میں کہتا ہوں آخر یہ مرض کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو جہاں کام کی صورت دیکھی کھسک جانے کی ٹھہرا لی۔ چلو اندر ایک کاغذاور پنسل لا کر دو ہمیں ۔آخر لکھے بھی جائیں گے کپڑے یا نہیں ؟للّو! تم بستروں میں سے میلی چادریں اور تکیوں کے غلاف نکال لاؤ۔‘‘
غرض ایک پانچ منٹ میں گھر کی یہ حالت ہو گئی گویا آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے ۔کوئی اِدھر بھاگ رہا ہے، کوئی اُدھر۔ کوئی چار پائی کے نیچے سے نکل رہا ہے ،کوئی کونے جھانکتا پھر رہا ہے ،کسی نے لپٹے ہوئے بستر سے کشتی شروع کر رکھی ہے ،کوئی کپڑے اتار تولیہ لپیٹے بھاگا جا رہا ہے ۔ساتھ ساتھ چچا کے نعرے بھی سننے میں آرہے ہیں ۔’’ارے آئے ؟ابے لائے؟سب کے پاتھ پاؤں پھول رہے ہیں ۔سٹی گم ہے۔ٹکریں لگ رہی ہیں ۔
کوئی آدھ گھنٹے کی محنت سے سارے کپڑے دالان میں جمع ہوئے۔نوکر اور بچے کپڑوں کے ڈھیر کے گرددائرہ باندھے کھڑے ہیں ۔صورتیں سب کی ایسی ہیں گویا سوانگ بھر رکھا ہے۔ کسی کے منہ پر مٹی پڑی ہے۔ کسی کے بال مٹیالے ہو رہے ہیں ۔کسی کے کپڑوں پر جالے لگے ہوئے ہیں۔ چچا چار پائی پر بیٹھے ایک ایک کپڑے کا معائنہ فرما رہے ہیں ۔ہر کپڑے کو انگلی کے سروں سے اٹھا کر دیکھتے ہیں ۔کبھی بچوں کو کوستے ہیں کہ کم بختوں کو کپڑا پہننے کا سلیقہ نہیں آتا ۔کبھی دھوبن کو ڈانٹتے ہیں ہیں کہ خبر دار جو ایک داغ بھی باقی رہا ۔کہیں بیچ میں وہ بنیان بھی ہاتھ آگیا جس سے آپ نے بوٹ پونچھے تھے ۔خیال نہ رہا کہ یہ اپنی ہی کاروائی ہے ۔برس پڑے ۔’’اب دیکھوتو اس کی حالت۔ یہ انسانوں کا برتا ہوا معلوم ہوتا ہے؟اللہ جانے بدتہذیب کہاں کہاں ۔۔۔‘‘
داغ اچھی طرح دیکھنے سے چچا کو یاد آگیا کہ یہ بنیان ان کے اپنے کمرے کے آتشدان میں سے بر آمد ہوا ہوگا ۔چنانچہ فوراًکپڑوں میں ملا دیا اور ارشاد ہوا ۔’’چلو اب جو ہے سو ہے ۔لو اب کپڑوں کو الگ الگ کرو کہ کون سا کپڑا کس کا ہے ؟‘‘
دس ہاتھ کپڑ ے الگ الگ کرنے میں مصروف ہو گئے ۔ہر ایک کو اپنی کارگزاری دکھانے کا خیال۔ دھوبن چیخ رہی ہے ۔’’اے میاں جانے دو۔ اے بھائی رہنے دو۔ میں ابھی آپ الگ الگ کر دوں گی ۔‘‘مگر بچے کہاں سنتے ہیں ۔کوئی کہتا ہے’’یہ میری قمیص ہے ۔کوئی کہتا ہے تم’’ھاری کہاں سے آئی۔ ’’یہ تو میری ہے۔‘‘ کسی کا کوٹ پر جھگڑا ہے۔ کسی کا واسکٹ پر۔کوئی کرتے کی ایک آستین کھینچ رہا ہے ،کوئی دوسری۔ کسی کی پاجامے کے پائنچوں پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔ کپڑے چر ر چرر پھٹ رہے ہیں ۔چچا سب کے ناموں کی فہرست بنانے میں مشغول ہیں۔بیچ میں سر اٹھا اٹھاکر ڈانٹتے بھی جا رہے ہیں۔’’پھاڑ دیا نا ؟ اب کے بنانے کو کہیو کوئی نیا کپڑا ۔جو ٹاٹ کے کپڑے نہ بنا کر دیے ہوں۔ چلے جاؤ سب یہاں سے۔ ہم اکیلے سب کام کر لیں گے۔‘‘
بچوں اور نوکروں کا قافلہ رخصت ہوا اور دھوبن کے ساتھ مل کر فہرست بننی شروع ہوئی۔ اسے ہدایت دی گئیں کہ’’ دیکھ ہم پوری فہرست بنائیں گے کپڑوں کی ۔سب کے کپڑے جدا جدا لکھوانے ہوں گے ۔اور ساتھ ہی بتانا ہوگا کہ اتنے کپڑے گرم ہیں، اتنے ریشمی، اتنے سوتی ۔‘‘
دھوبن بولی ۔’’یوں ہی تو ہمیشہ لکھے جاتے ہیں ۔‘‘
چچا کو اپنی اس قابلِ قدر اور مہتم بالشان تجویز کی داد نہ ملی تو آپ دھوبن سے چڑ گئے ۔’’پگلی کہیں کی ۔ہر روز تو گھر میں ہلڑ مچا رہتا ہے کہ اس کی قمیص بدل گئی ،اس کا پاجامہ نہیں ملتا ۔اور کہتی ہے کہ یوں ہی لکھے جاتے ہیں کپڑے ۔یوں کسی کو لکھنا آتا تو یہ روز روز کی جھک جھک کیوں ہوا کرتی ؟‘‘
دھوبن چپکی ہو رہی ۔کپڑے گننے شروع کر دیے۔پر اب پہلے ہی کپڑے پر نئی بحث چھڑ گئی ۔دھوبن کہے کہ قمیص چھٹن میاں کی ہے یہ ۔چچا مصر ہیں کہ نہیں بنو کی ہے۔ دھوبن کہتی ہے ۔’’میں کیا پہلی بار کپڑے لے جا رہی ہوں ۔اتنی بھی پہچان نہیں مجھ کو؟‘‘چچا کہتے ہیں۔’’ احمق کہیں کی ۔کپڑا بازار سے لاتے ہیں ہم ،سلواتے ہیں ہم ،روز بچوں کو پہنے ہوئے دیکھتے ہیں ہم اور پہچان تجھے ہو گی ؟‘‘شہادت کیلئے بندو کو بلوایا گیا ۔چچا نے اس سے پوچھا ۔یہ قمیص بنو ہی کی ہے نا؟بندو کی کیا مجال کہ میاں کی تردید کرے۔ڈرتا ڈرتا بولا۔’’معلوم تو کچھ ان ہی کی سی ہوتی ہے ۔پر وہ آپ ہی ٹھیک ٹھیک بتائیں گی۔‘‘بنو کی طلبی ہوئی۔ وہ آتے ہی بولیں ۔’’واہ یہ پھٹی پرانی قمیص میری کیوں ہوتی ،چھٹن ہی کی ہوگی ۔‘‘
دھوبن کو چچا کے مزاج کی کیفیت کیا معلوم، کہہ بیٹھی ’ ’میں نہ کہتی تھی ۔‘‘چچا کو آگ لگ گئی۔’’ اولیاء کی بچی ہیں نہ یہ تو ۔انہیں کیوں نہ معلوم ہوگا ۔منہ پھٹ بدتمیز کہیں کی ۔دوسرا دھوبی رکھ لوں گا میں ۔‘‘
کامل ایک گھنٹے کی محنت کے بعد کہیں فہرست بن کر تیار ہوئی کہ کون سا کپڑا کس کا ہے ۔اور کس کے کپڑے کتنے ہیں ۔اب جناب ادھر دھوبن سے کہا گیا کہ تو سب کے کپڑے گن ،ادھر اپنی فہرست کی میزان ملانی شروع کی ۔دھوبن گنتی ہے تو اُ نسٹھ عدد بنتے ہیں ۔چچا اپنی میزان ملاتے ہیں تو اکسٹھ کپڑے ہوتے ہیں۔دھوبن بار ار کہتی ہے ۔’’میاں ٹھیک طرح جوڑو انسٹھ ہی ہیں ۔‘‘پر چچا ہیں کہ بگڑے جا رہے ہیں ۔’’تیرا جوڑنا ٹھیک اور ہمارا جوڑنا غلط ہو گیا ؟جاہل کہیں کی ۔اٹھ کر دیکھ نیچے دبائے بیٹھی ہو گی ‘‘۔دھوبن غریب ہر طرف دیکھتی ہے ۔بار بار کپڑے گنتی ہے ۔وہی انسٹھ نکلتے ہیں ۔چچا کی نظروں کے سامنے بھی ایک مرتبہ گن دیے ۔وہی انسٹھ ہی نکلے۔ آخر نئے سرے سے تمام کپڑوں کا مقابلہ کیا گیا ۔کوئی گھنٹہ بھر کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دھوبن نے بتائے تھے دو جوڑی موزے اور چچا نے لکھے تھے چار ۔دھوبن انھیں دو عدد گنتی تھی اور چچا چار عدد ۔اس پر پھر بیچاری دھوبن کے لتے لیے گئے ۔’’جوڑی کیا معنی؟چار نہیں تھے موزے ؟یوں تو چار وں مالوں کو بھی دو جوڑی لکھوا دے تو یہ ہمارا قصور ہو گا؟لے کر اتنا وقت مفت میں ضائع کر وا دیا ۔ساری عمر کپڑے دھوتے گزر گئی اور ابھی تک کپڑے گننے کا سلیقہ نہیں آیا ۔‘‘
بارہ بجے دھوبن آئی تھی ،چار بجے رخصت ہوئی۔چچا چھکن فراغت پانے کے بعد فہرست چچی کو دینے آئے ۔بولے۔’’ نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو ۔‘‘
چچی جلی ہوئی تھیں ،بولیں ۔’’گھر پر قیامت بھی تو گزر گئی ۔کوئی بچہ ننگ دھڑنگ پھر رہا ہے ،کوئی غسل خانے میں کپڑوں کے لیے غل مچا رہا ہے ۔دھوبن دکھیا الگ کھسیانی ہو کر گئی ہے ۔آدھا دن بر باد کر کے کس مزے سے کہتے ہیں کہ نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو ۔‘‘
چچا چڑ گئے۔’’تمہیں کبھی پھوٹے منہ سے داد کے دو لفظ کہنے کی توفیق نہ ہوئی ۔‘‘
چچا روٹھ کر چار پائی پر پڑ رہے ۔
چچی نے پوچھا ۔’’پاجاموں میں سے ازار بند بھی نکال لیے تھے ؟‘‘چچا کی آنکھیں کھلیں مگر جواب نہ دیا ۔بڑے مناسب وقت پر روٹھ گئے تھے۔
اتنے میں فہرست دیکھ کر چچی بولیں ۔’’اور یہ میری ریشمی قمیص کون سی ؟ہلکے فیروزی رنگ کی ؟اے غضب خدا کا ۔میں نے تو وہ استری کرنے کو الگ رکھی تھی ۔کم بخت دو کوڑی کی کر لائے گی ۔اور اس میں سے میرے سونے کے بٹن بھی اتار لیے تھے یا نہیں ؟‘‘
اب تک تو چچا کی تیوری چڑھی ہوئی تھی ،سونے کے بٹن کا سنا تو ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ۔
’’بٹن ؟سونے کے ؟تمھارے ؟تمہیں میری قسم !ہئی ہے !وہ تو نہیں اتارے ہم نے ۔‘‘
جوتی پہنتے ہوئے چچا باہر بھاگے ۔’’ارے بھئی چلی گئی دھوبن !او بندو چلی گئی دھوبن !ارے امامی کدھر گئی دھوبن ؟ارے دوڑیو،ارے بھئی جانا ،پکڑنا، لے کر آؤ منہ کیا تکتے ہو، سونے کے بٹن لے گئی اماں سونے کے بٹن، تمھاری چچی کے۔ اس کا گھر کدھر ہے ؟چوک سے مڑ کر کدھر کو ؟اماں خونچے والے !کسی دھوبن کو جاتے دیکھا ہے ؟ار بھئی ریوڑیوں والے ! کوئی دھوبن ادھر تو نہیں گئی ؟۔۔۔او بھائی گنڈیریوں والے !کوئی دھوبن ……دائیں ہاتھ کو ؟اس طرف کو؟۔۔۔؟۔۔۔ابھی تک چچا بٹن لے کر واپس نہیں آئے۔