skip to Main Content

عقل مند بیوقوف

تلخیص:شہباز شاہین

…….

اچانک مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا……ایک سنسنی خیز تحریر

…….

جمعے کی شام، میں حسب معمول امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر کھڑا میکسیکو سے آنے والی ٹریفک کی نگرانی کررہا تھا۔ گاڑیاں میرے قریب آکر رک جاتیں اور میں ان میں سوار مسافروں سے حسب معمول چند سوال کرتا۔ مثال کے طور پر ”آپ کہاں سے آرہے ہیں؟ کیا آپ اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز لائے ہیں، جس پر کسٹم ڈیوٹی لگتی ہے؟“
کسٹم کی ملازمت کرتے ہوئے مجھے خاصا عرصہ بیت چکا تھا۔ میں چہرے کے تاثرات دیکھ کر اندازہ لگا لیتا کہ جواب دینے والا جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔ سوالوں کے اطمینان بخش جواب پا کر میں انہیں امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتا۔ عام طور پر میکسیکو جانے اور وہاں سے آنے والے لوگ امریکی شہری ہوتے، وہ اکثر وہاں تعطیلات گزارنے جاتے تھے۔
کبھی کبھی میں مال و اسباب سے لدے ٹرکوں کی تلاشی بھی لیتا تھا۔ جب مجھے احساس ہوتا کہ ٹرک ڈرائیور جھوٹ بول رہا ہے تو میں اسے ٹرک ایک طرف کھڑا کرنے کا اشارہ کرتا۔ پھر میرے ساتھی اچھی طرح ٹرک کی تلاشی لیتے، لیکن ایسے مواقع بہت کم آتے تھے۔ اس قسم کی تلاشی عموماً کسی مخبر کی خفیہ اطلاع پر ہی لی جاتی یا جب کوئی مسافر غیر معمولی طور پر مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا یا غیر معمولی حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتا، تو میں کھٹک جاتا تھا یا پھر میری چھٹی حس بیدار ہوجاتی۔
ایک بار ایک شخص پر نظر پڑتے ہی مجھے لگا کہ یہ شخص ضرور کسی چکر میں ہے۔ وہ میکسیکو جا رہا تھا اس لیے دوسری سڑک پر تھا۔ وہ زرد رنگ کی، لمبی چوڑی، نئی نکور، آرام دہ گاڑی پر سوار تھا۔ اس کی چھت کھلی تھی اور اس نے گاڑی کا ریڈیو پوری آواز سے کھول رکھا تھا۔ اس کا حلیہ ایسے شعبدے بازوں جیسا تھا جو تماشائیوں کی توجہ ادھر ادھر مبذول کرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے اختیار کرتے اور پھر نظر بچا کر اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ مجھے اس کی چمک دار کار کا بجتا ریڈیو اور اس کا جوش سے تمتماتا ہوا چہرہ کسی شعبدہ باز جیسا ہی نظر آیا۔ میں نے فوراً گاڑی کا نمبر نوٹ کیا تاکہ جب وہ میکسیکو سے واپس آئے تو میں اطمینان سے اس کی خبر لوں۔
ان دنوں میری ڈیوٹی شام چھ بجے سے صبح چار بجے تک ہوتی تھی۔ وہ تقریباً ساڑھے چھ بجے میکسیکو میں داخل ہوا تھا۔ میں صبح چار بجے تک اس کی واپسی کا منتظر رہا، مگر وہ نہیں آیا۔ جب میری ڈیوٹی ختم ہوئی، تو میں نے دوسرے کسٹم افسروں کو اس گاڑی کا نمبر، رنگ اور اس کا حلیہ لکھوا دیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اچھی طرح تلاشی لیں۔ دوسرے روز جب میں اپنی ڈیوٹی پر پہنچا تو اسے بھول چکا تھا، لیکن اگلے ہفتے کی شام وہ پھر مجھے اسی گاڑی میں نظر آیا۔ پہلے کی طرح گاڑی کی چھت گری ہوئی تھی اور ریڈیو پوری آواز سے گونج رہا تھا۔ اس مرتبہ وہ پھر امریکہ سے میکسیکو جا رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ واپس کب آیا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر میری چھٹی حس بیدار ہو گئی، لیکن میں اس دفعہ بھی مجبور تھا۔ وہ میکسیکو جارہا تھا، اس لیے ہم اس کی تلاشی نہیں لے سکتے تھے۔ میں تیزی سے کسٹم کی عمارت میں آیا اور میں نے سرحد کے دوسری طرف میکسیکو کے کسٹم آفس میں فون کرکے درخواست کی کہ وہ لوگ اس زرد کار کی ضرور تلاشی لیں۔
جب فون کرکے واپس سڑک پر آیا تو سرحد کی دوسری طرف وہ زرد کار کسٹم پولیس کے نرغے میں گھری نظر آئی۔ پولیس کا عملہ بڑی تندہی سے گاڑی کی تلاشی لینے میں مصروف تھا۔ نشستیں، ڈگی اور بونٹ کھول کر انجن تک کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی۔ جیک ایک طرف کھڑا لاتعلقی سے اطمینان کے ساتھ کھڑا تھا۔ مجھے اس کے پرسکون ہونے پر کچھ تعجب ضرور ہوا، لیکن کام کی زیادتی کے باعث میں اس پر زیادہ توجہ نہیں دے سکا، البتہ میں نے اسے نظر بھر کے ضرور دیکھا۔ وہ دراز قد اور لباس کے معاملے میں عام نوجوانوں کی طرح شوخ اور بھڑکیلے رنگوں کا مجموعہ تھا۔ میں پھر سے اپنی ڈیوٹی میں مشغول ہوگیا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد میں نے زرد گاڑی کی طرف دیکھا، تو وہ اپنی نشست پر بیٹھ چکا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ کسٹم کا عملہ اس کی گاڑی سے کوئی غیر قانونی چیز برآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ چند ہی ثانیوں میں گاڑی نے حرکت کی۔ اس نے کسٹم عملے کو فضا میں ہاتھ لہرا کر بائی بائی کہا، جیسے انہیں طنز کررہا ہو اور اس کی گاڑی پولیس والوں پر دھواں چھوڑتی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ میں خاصی دیر اس کے بارے میں سوچتا رہا اور آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ امریکا سے کوئی چیز اسمگل کرکے میکسیکو نہیں لے جاتا بلکہ میکسیکو سے یہاں لاتا ہے۔ پولیس والے اس کے بارے میں بس اتنا ہی جان سکے کہ اس کا نام جیک ہے اور وہ سیر و تفریح کے لیے جاتا ہے۔ اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا جنون مجھ پر سوار ہو چکا تھا، لہٰذا میں پہلے سے زیادہ چوکنا ہو کر اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود میں کئی گھنٹے وہاں موجود رہا لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ اس مرتبہ بھی مجھے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ چلتے وقت میں نے عملے کے دوسرے افراد کو ہدایت کی اور یہ بھی کہا کہ جب ان کی ڈیوٹی ختم ہو تو وہ نئے عملے کو یہی تاکید کرکے جائیں تاکہ وہ کسی طرح بچ کر نہ جاسکے۔
اتوار کو پھر میں نے ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد نئے عملے کو یہی ہدایات دیں۔ پیر اور منگل کو میری چھٹی ہوتی تھی۔ میں نے گھر میں بیٹھے بیٹھے تین مرتبہ فون کرکے جیک کی واپسی کے بارے میں پوچھا۔ جواب نفی ہی میں ملا کہ اس قسم کی کوئی گاڑی میکسیکو سے واپس نہیں آئی۔ ہر نئے عملے کو بار بار تاکید کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ سارے عملے کو اس شخص کی زرد گاڑی کا نمبر زبانی یاد ہوگیا۔
ہفتے کی شام جب میں نے ریڈیو کی تیز آواز سن کرنظر اٹھائی تو وہ پھر اپنی گاڑی سمیت دوسری سڑک پر میکسیکو میں داخل ہو رہا تھا۔ اچانک مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ میکسیکو اور کیلی فورنیا کے درمیان تقریباً ایک سو میل لمبی سرحد ہے اور پوری سرحد پر کئی سڑکیں ہیں جن کے ذریعے امریکہ واپس آیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ جیک جب میکسیکو جاتا ہے تو یہ سڑک استعمال کرتا ہے اور واپسی پر کسی اور راستے سے آتا ہے۔ اب تک معاملہ محض میری ذات اور میری کسٹم چوکی تک محدود تھا، لیکن پھر میں نے یہ معاملہ کسٹم کے اعلا حکام کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے میکسیکو اور کیلی فورنیا کی سو میل طویل سرحد کی چوکیوں کو حکم دے دیا کہ زرد رنگ کی گاڑی کہیں سے بھی امریکا آئے تو اس کی اچھی طرح تلاشی لی جائے۔ ایک کسٹم افسر کو مخبروں کے علاوہ اپنی چھٹی حس پر بھی بھروسہ کرنا پڑتا ہے کیوں کہ غیر قانونی اشیا کی اسمگلنگ کے جتنے کیس پکڑے جاتے ہیں ان میں سے اگر نوے فیصد مخبروں کا کارنامہ ہوتے ہیں تو دس فیصد ضرور چھٹی حس کا کرشمہ ہوتے ہیں۔ اعلا حکام کسی کسٹم افسر کی چھٹی حس کا شک نظر انداز نہیں کرسکتے۔

میں اطمینان سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ جب بھی اور جہاں بھی اس زرد گاڑی کی تلاشی لی جائے گی، اعلا حکام کو اس کے بارے میں ضرور آگاہ کیا جائے گا اور وہ مجھے بھی لازمی مطلع کریں گے، لیکن پورا ہفتہ کہیں سے کوئی خبر نہیں آئی۔ ہفتے کی شام جیک حسب معمول دوسری سڑک پر موجود تھا۔
پہلے تو ہم سمجھے کہ وہ جہاں سے بھی امریکہ واپس آیا ہے، اس کی تلاشی لی گئی ہوگی اور کوئی چیز برآمد نہ ہونے پر اعلا حکام کو اطلاع نہیں دی گئی۔ پھر بھی اعلا حکام نے اس سلسلے میں پورا اطمینان کرنا مناسب سمجھا اور تمام سرحدی چوکیوں سے یہ معلوم کیا کہ جیک کس روز اور کس چوکی سے امریکا واپس آیا تھا۔ پتہ چلا کہ وہ کسی چوکی سے واپس نہیں آیا، یعنی اس کی گاڑی کسی چوکی سے امریکہ میں داخل نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ اس نے کوئی ایسا راستہ تلاش کیا ہوا ہے جہاں سے آتے وقت دونوں طرف کسی کسٹم چوکی یا سرحدی محافظوں کا سامنا نہیں ہوتا۔ گویا اس طرح وہ بے خوف و خطر میکسیکو سے ایسی اشیا اسمگل کررہا تھا جنہیں امریکا میں لانے پر پابندی تھی یا جن پر ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی تھی۔ اب ہمارے سامنے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ وہ خفیہ راستہ تلاش کرکے بند کیا جائے یا وہاں کسٹم چوکی قائم کی جائے۔ جیک کا معاملہ اب خصوصی درجے کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔
گاڑیوں کے رجسٹریشن دفتر میں اس کی گاڑی کا نمبر بتا کر اس کا مکمل پتہ حاصل کیا گیا۔ اس کا پورا نام جیک فلپس تھا اور وہ سان ڈیگو میں ایک عمارت کی تیسری منزل پر رہتا تھا۔ چنانچہ اس عمارت کی چوبیس گھنٹے نگرانی ہونے لگی۔ وہ بدھ کو لوٹا اور نیچے پارکنگ لاٹ میں اپنی زرد گاڑی کھڑی کرکے فلیٹ میں چلا گیا۔ بدھ کی شام سے ہفتے کی سہ پہر تک وہ زیادہ تر فلیٹ ہی میں رہا۔ کبھی کبھی چھوٹی موٹی خریداری کے لیے بازار بھی گیا لیکن اس کی خریداری گھریلو استعمال کی اشیاء تک محدود تھی۔ پھر وہ سہ پہر کو اپنی گاڑی میں بیٹھ کر میکسیکو روانہ ہو گیا اور جب میں نے اس کے ریڈیو کی بلند آواز سن کر سر اٹھایا تو وہ ایک دفعہ پھر میکسیکو میں داخل ہو رہا تھا۔ اس بار پچاس گز کے فاصلے سے کسٹم افسروں کی ایک چھاپہ مار گاڑی اس کا تعاقب کررہی تھی۔ میرے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیلنے لگی کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اب بہت جلد جیک ایک چوہے کی طرح ہمارے تیار کیے ہوئے چوہے دان میں پھنس جائے گا۔
لیکن میری خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ہمارے ساتھی واپس آگئے جو اس کے تعاقب میں گئے تھے۔ ان کے منہ لٹکے ہوئے تھے اور آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے اس کا تعاقب میکسیکو کے ایک شہر نچوانا تک کیا، مگر شہر میں داخل ہونے کے بعد وہ ایک مصروف شاہراہ پر انہیں جل دے کر غائب ہوگیا۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ اس کا تعاقب کرنے والے بہت غصے میں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ جیک کو اپنے تعاقب کا احساس ہو گیا تھا اس لیے وہ انہیں ڈاج دینے میں کامیاب ہوگیا۔
اعلا حکام کو ناکامی کی رپورٹ پیش کی گئی اور اس کی واپسی پر دوبارہ تلاشی لینے کا اجازت نامہ حاصل کر لیا گیا۔ اس مرتبہ میں بھی چھاپہ مار ٹیم میں شامل تھا۔ جیک بدھ کو گھر واپس آیا۔ میں چھ آدمیوں کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے بنفس نفیس موجود تھا اور مسکراتے ہوئے فاتحانہ انداز میں اسے تلاشی کا وارنٹ پیش کیا۔ پہلے تو حیرت سے اس کا منہ کھل گیا پھر اس کے جبڑے لٹک گئے اور چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ اس کا یہ ردعمل بالکل فری تھا۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ ہفتے کو وہ جان بوجھ کر غائب نہیں ہوا بلکہ یہ حرکت اس سے نادانستگی میں سرزد ہوئی تھی۔ تلاشی کا وارنٹ دیکھنے سے پہلے اسے علم نہیں تھا کہ کسٹم کا عملہ اسے شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
ہمارے ساتھ بہترین موٹر مکینک بھی تھے۔ انہوں نے ذرا سی دیر میں اس کی پوری گاڑی زمین پر بکھیر دی۔ گاڑی بالکل صاف تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے گھر آنے سے پہلے گاڑی اچھی طرح صاف کروائی ہو۔ ہمیں ٹائروں پر دھول، مٹی اور کیچڑ نظر آنے کی توقع تھی، کیونکہ وہ خفیہ راستے سے واپس آیا تھا لہٰذا ٹائروں کا خراب ہونا لازمی امر تھا، لیکن وہ بھی بالکل صاف تھے۔
یقینا جیک نے گھر واپس آنے سے پہلے کسی جگہ اپنی گاڑی اچھی طرح دھلوائی ہے اور اس حرکت کا مقصد واضح تھا۔ ظاہر ہے کہ ہمیں اس کی گاڑی سے کوئی چیز نہیں ملی یہاں تک کہ خاک دھول بھی نہیں۔ وہ ایک طرف کھڑا اپنی گاڑی کو دوبارہ جڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا، مگر قدرے پریشان تھا۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور بار بار پہلو بدل رہا تھا۔ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ ہم اس کے پیچھے لگ گئے ہیں اور اس کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک اس کے پاس سے کوئی قابل اعتراض مال برآمد نہیں کر لیتے۔
اس بار ناکامی سے مجھے دہری مایوسی ہوئی، ایک تو کسی غیر قانونی چیز کا برآمد نہ ہونا، دوسرا جیک کا ہوشیار ہوجانا۔ میں سوچنے لگا کہ اب وہ کچھ عرصے کے لیے اپنا دھندا چھوڑ دے گا اور اس طرح ہم وہ خفیہ راستے تلاش نہیں کرسکیں گے، جن کے ذریعے وہ واپس آتا تھا۔
پھر جب میں نے دو روز بعد ہفتے کی شام اسے ایک بار پھر میکسیکو کی طرف جاتے دیکھا تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایسا دلیر اسمگلر پہلے کبھی میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ میں اپنا کام چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ یہ دیکھ کر مجھے اور زیادہ حیرت ہوئی کہ اس نے خود کو رضاکارانہ طور پر میکسیکو کے کسٹم افسروں کے سامنے تلاشی کے لیے پیش کردیا۔ وہ اپنی گاڑی کھڑی کرکے خود اندر چلا گیا۔ ہمیں بعد میں اپنے جاسوس کی زبانی معلوم ہوا کہ آج اس نے میکسیکو میں طویل عرصے تک قیام کرنے کی درخواست کی ہے اور اس سلسلے میں کاغذی کارروائی پوری کردی ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خاصی مدت کے بعد واپس آئے گا۔ وہ میری توقعات سے کہیں زیادہ خوفزدہ اور محتاط ہو گیا تھا۔ میں دل ہی دل میں اس شاطر اسمگلر کو داد دینے پر مجبور تھا۔
آئندہ کئی ماہ تک میں جیک کے بارے میں سوچتا رہا۔ ایک وہی مجرم ایسا تھا، جس کے متعلق مجھے پورا یقین تھا کہ وہ اسمگلر ہے، لیکن میں ہر طرح کوشش کرنے کے باوجود اسے نہیں پکڑ سکا تھا۔ وہ میری ملازمت کے شاندار ریکارڈ پر بدنما داغ تھا اور میں ہر قیمت پر یہ داغ دھونا چاہتا تھا۔ ایک سال تک جیک نظر نہیں آیا اور پھر جب اس سے ملاقات ہوئی تو کہاں …… ٹچوانا کے ساحل پر جہاں موسم بہار میں ہر شام کشتیوں کی دوڑ ہوتی ہے۔ اس میں تین چار سو کشتیاں حصہ لیتی ہیں۔ یہ دوڑ دیکھنے کے لیے بہت دور دور سے تماشائی آتے ہیں۔ میں بھی ہر سال یہ دوڑ دیکھنے جاتا ہوں۔ جیک سے میری ملاقات اسی جگہ ہوئی۔ وہ مجھ سے دس قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا۔
میں نے قریب جا کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا: ”جیک! مجھے پہچانا؟“
پہلے تو وہ غیر یقینی انداز میں مسکرایا مگر جب مجھے پہچان گیا تو اس کی مسکراہٹ رخصت ہو گئی۔ وہ گھبراتے ہوئے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا، جیسے میرے ساتھیوں کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہو۔
”گھبراؤ نہیں جیک! میں تنہا ہوں اور صرف کشتیوں کی دوڑ دیکھنے آیا ہوں۔ تم سے ملاقات محض ایک اتفاق ہے۔“
میری یقین دہانی پر وہ مطمئن ہو گیا اور ہم دونوں سمندر میں بھاگتی کشتیوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ اس کا رویہ میرے ساتھ دوستانہ ہو گیا اور وہ بڑے سکون سے کھل کر گفتگو کرنے لگا۔ پھر وہ اپنے بارے میں اِدھر اُدھر کی باتیں بتانے لگا۔ اسی کی زبانی معلوم ہوا کہ اس نے میکسیکو میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے اور ایک چھوٹا سا ہوٹل خرید لیا ہے۔ نیز کشتیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی شروع کر دیا ہے۔ اس نے مجھے اپنے ہوٹل آنے اور وہاں قیام کرنے کی دعوت دی۔
”تم نے وہ ہوٹل اسمگلنگ کی آمدنی سے خریدا ہے؟“ میں نے بے جھجک اس سے پوچھ لیا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر میں نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے گھما پھرا کر اس سے اسمگلنگ کے بارے میں سوال کیے تو وہ کبھی جواب نہیں دے گا۔
وہ میری بیباکی پر مسکرا دیا: ”میں کسی اعتراف نامے پر دستخط نہیں کروں گا۔“ جیک نے جواب دیا۔ پھر چند لمحے توقف کے بعد اثبات میں سر ہلا دیا: ”ہاں، موجودہ کاروبار میں نے اسی نفع سے شروع کیے ہیں۔“
”اسمگلنگ اب تم نے بالکل بند کر دی ہے؟“
”ہاں، بالکل۔“
”یقین نہیں آتا۔“ میں نے کہا۔ ”معلوم ہوتا ہے کہ تم جس چیز کی اسمگلنگ کررہے تھے، وہ بہت منافع بخش تھی، اس لیے تم نے اتنی جلدی کاروبار بھی شروع کر دیا۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ گنتی کے چند اسمگلر ہوتے ہیں جو پکڑے جانے سے قبل ہی غیر قانونی دھندا چھوڑ دیتے ہیں۔“
”میں نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ اگر کسی کو مجھ پر شک ہو گیا، تو فوراً یہ دھندا بند کر دوں گا۔ آپ لوگوں کو میرے متعلق شک ہی نہیں بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ میں اسمگلر ہوں، اس لیے میں نے فوراً اپنا دھندا بند کر دیا اور یہاں آکر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔“
”اگر ایسی بات ہے……“ میں نے پرامید لہجے میں کہا: ”تو شاید تم مجھے اپنا یہ راز بتانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرو گے کہ تم آخر کس راستے سے، کس طرح سرحدی محافظوں کی نظروں سے بچ کر میکسیکو سے واپس امریکہ آتے تھے؟ یہ تو طے ہے کہ تم کسی باقاعدہ سڑک سے واپس نہیں آتے تھے، کیوں کہ تمام چوکیوں پر تمہاری واپسی کا بڑی شدت سے انتظار کیا جاتا تھا۔“
”ہاں، اب میں اپنا یہ راز افشا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ میں کسی خفیہ راستے سے نہیں بلکہ اسی راستے سے آتا تھا، جس سے میکسیکو میں داخل ہوتا تھا۔“
میری امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے اپنا راز بتانا نہیں چاہتا۔ میں نے سوچا غالباً اس کا ارادہ آئندہ بھی اسی راستے سے اسمگلنگ کرنے کا ہے۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“ اس نے قیافے سے میرے خیالات پڑھتے ہوئے کہا۔”آپ یقین کیجئے کہ میں اسی کسٹم چوکی سے واپس آتا تھا، جہاں سے میکسیکو میں داخل ہوتا تھا، لیکن واپس بس میں سوار ہو کر آتا تھا اور میری گاڑی کی نمبر پلیٹ میری جیکٹ کے اندر چھپی ہوتی تھی۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا: ”میں ہر ہفتے امریکہ سے میکسیکو ایک عدد نئی زرد نئی نکور ٹیبل گاڑی اسمگل کرتا تھا۔“
مجھے ایک لمحے کے لیے یہ محسوس ہوا کہ شاید اس دنیا میں عقل مندوں کے ہاتھوں بننے والا میں آخری بے وقوف ہوں۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top