skip to Main Content

بلاعنوان

نامعلوم

۔۔۔۔۔۔

بہت عرصہ گزرا افغانستان میں ایک ڈا کو بہت مشہور ہوا۔ اس کا نام منگو تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ غاروں میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی غاروں سے باہر نکلتا اور رات کی تاریکی میں گاؤں کے گاؤں لوٹ کر واپس چلا جاتا۔لوگ اس کا نام سن کر ہی خوف سے کانپنے لگتے تھے۔ مائیں بچوں کو ڈرانے کے لئے منگو کا نام لیتی تھیں ۔پولیس اسے گرفتار کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ وہ مزے سے ڈاکہ ڈال کر غاروں میں چھپ جاتا اور پولیس اسے ڈھونڈتی ہی رہ جاتی۔ دراصل یہ غار بہت محفوظ تھے اور ان تک جانے کا راستہ بہت دشوار گزار تھا۔ کئی بڑے بڑے پولیس آفیسر بھی اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہے ۔تب اس علاقے کے نئے تھانے دار محی الدین نے عہد کیا کہ وہ اسے ضرور گرفتار کر کے رہے گا۔ منگو کے ساتھی اکثر بھیس بدل کر آس پاس کے گاؤں میں جاتے رہتے تھے تاکہ صورت حال کا پتہ چلتا رہے۔ منگو ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام ان کی معلومات کے مطابق ہی بناتا تھا۔
ایک روز منگو اپنے غار سے باہر دھوپ میں بیٹھا اپنی بندوق صاف کر رہا تھا کہ اس کا ایک ساتھی جو قریبی گاؤں گیا ہوا تھا ،بکریاں چرانے والے کے بھیس میں چند بکریوں کو ہنکاتا ہوا اس کے قریب آیا۔
’’سلام سردار !‘‘
’’وعلیکم السلام ،کیا خبر ہے راجو ؟‘‘
’’بڑی زبر دست خبریں ہیں سردار ۔‘‘
’’کیا؟‘‘منگو نے بھنویں اچکائیں۔
’’ایک نیا تھانے دار آیا ہے سردار اور اس نے قسم کھائی ہے کہ تمہیں گرفتار کر کے رہے گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘منگو نے زور سے قہقہہ لگایا۔’’تو پھر ہو جائے ایک زبر دست حملہ… خان گلریز خان کی حویلی پر۔ ‘‘
’’مگر سردار حالات موافق نہیں ہیں۔ ساد الباس میں تھانے دار محی الدین کے آدمی ادھر ادھر سونگھتے پھرتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ تمہار انشانہ اب خان گلریز ہی ہو گا۔ اس نے تمہارا طریقہ کار اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ میں نے خود اسے بھی ایک دو بار خان کی حویلی کے آس پاس منڈلاتے دیکھا ہے۔ وہ جو قیمتی جواہرات اور موتیوں کی خبر تھی نا…وہ در اصل محی الدین نے تمہیں چارا ڈالا ہے۔‘‘
’’اور ہم یہ چار اہڑپ کر جائیں گے راجو۔ ‘‘منگو نے اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے قہقہہ لگایا۔’’ تو سب کو مہم کی خبر دے دے۔‘‘
’’جو حکم سردار ‘‘
راجو بکریوں کو وہیں چھوڑ کر غار میں چلا گیا۔
محی الدین پوری طرح مستعد تھا ۔اسے یقین تھا کہ قیمتی جواہرات کی خبر سنتے ہی منگو ،خان کی حویلی کا ضروررخ کرے گا۔ چنانچہ اس کے آدمی ساد الباس میں خان کی حویلی کے ارد گرد چکر لگاتے پھرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ خود بھی چکر لگا آتا۔ اس روز ابھی وہ خان کی حویلی کے پاس پہنچا ہی تھا کہ دو شخص اس حالت میں وہاں آئے کہ ان کی پگڑیاں ان کی گردن میں لٹک رہی تھیں ۔بالوں میں خاک پڑی اور کپڑے کیچڑ اور مٹی میں لت پت ہو رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص با قاعدہ واویلا کر رہا تھا۔
’’اے سنو! کیا بات ہے ،تم پر کیا مصیبت آپڑی ہے؟‘‘ محی الدین نے اس سے پوچھا۔
’’منگوڈا کو سے بڑی بھی کوئی اور مصیبت ہے۔ ہم لٹ گئے سر کار !…منگو نے ہمیں لوٹ لیا۔ ‘‘
منگو کا نام سن کر محی الدین چو نکا۔
’’آرام سے…آرام سے ساری بات تفصیل سے بتاؤ بلکہ چلو اندر حویلی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘‘
وہ انہیں ساتھ ہی لے گیا اور ایک بڑے ہال نما کمرے میں ایک طرف بیٹھتے ہوئے پوچھا۔’’ ہاں اب بتاؤ !‘‘
’’ کیا بتاؤں جناب ۔‘‘ایک شخص نے بدستور آہ وزاری کرتے ہوئے کہا۔’’یہ ہمارے خان صاحب ہیں۔ ان کے ادھر غزنی کی طرف انگوروں کے باغات ہیں ۔ادھر یہاں سے تین میل پرے ایک گاؤں میں خان صاحب کے ایک دوست رہتے ہیں ۔ان کا خط ملا کہ وہ مصیبت میں ہیں اور اسے کچھ رقم چاہئے۔ سوخان صاحب اسی وقت رقم کا بندوبست کر کے مجھے ساتھ لے کر چل پڑے لیکن براہومنگو اور اس کے ساتھیوں کا ۔انہوں نے ہمیں راستے میں لوٹ لیا۔ ہمارے گھوڑے چھین لئے …اور…‘‘
’’کیا تم نے منگو اور اس کے ساتھیوں کی شکلیں دیکھی تھیں؟‘‘محی الدین نے بے قراری سے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں…انہوں نے منہ چھپارکھے تھے۔ ‘‘
’’اوہ …وہ کس طرف تھے۔ ‘‘
’’یہاں سے شمال کی طرف اور جناب…‘‘دوسرے شخص نے پہلی بار زبان کھولی۔’’ہم تو لٹ گئے سولٹ گئے ،پیسے جانے کا دکھ نہیں۔ غم ہے تو صرف یہ کہ دوست کو کیا منہ دکھاؤں گالیکن جو لٹنے والے ہیں انہیں تو بچالیجئے۔ یہاں کوئی تھانہ چوکی ہے تو خدا کے واسطے وہاں خبرکیجئے ہم تو اجنبی ہیں۔ نہ یہاں کے رہنے والوں کو جانتے ہیں اور نہ تھانے کی خبر ہے۔آج رات کوئی خان گلریز خان ہے جس کی حویلی پر زبر دست ڈاکہ پڑنے والا ہیْ‘‘
’’کیا؟ ‘‘محی الدین سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
’’ہاں صاحب ۔‘‘پہلے شخص نے بات شروع کی۔ ’’ہم نے وہاں ڈاکوئوںکو یہی بات کرتے ہوئے سنا تھا۔ ہم جھا ڑیوں میںدبکے بیٹھے تھے کہ کہیں ڈا کو پلٹ کر ہمیں مار ہی نہ دیں۔ کیا بھروسہ ان کا۔ للہ خان گلریز کو خبر کر دیجئے تاکہ وہ بچاؤ کر سکیں۔‘‘
’’بے فکر رہو بھائی۔ ‘‘محی الدین کی آنکھیں چمکنے لگیں۔’’ان شاء اللہ آج منگو کا فیصلہ ہو ہی جائے گا۔ آپ جہاں اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں، یہ خان گلریز خان کی ہی حویلی ہے، اور میں یہاں تھانے کا انچارج ہوں۔ محی الدین! ‘‘
پہلے شخص نے فورا اٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے خوشی کا اظہار کیااور پھر ا جازت چاہی۔
’’مگر آپ کہاں جائیں گے۔ ‘‘
’’دوست کے پاس خالی ہاتھ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ واپسی کی سبیل کریں گے ۔‘‘
’’مگر آج ہی اتنے سفر کے بعد میرے خیال میں تو آپ کو آرام کرنا چاہئے، میں خان صاحب سے کہہ کریہیں حویلی میں آپ کا انتظام کروائے دیتا ہوں۔ کل صبح آرام سے جائیے گا۔‘‘
’’یہ احسان کیا ہے تو پھر ایک اور احسان بھی کیجئے ۔یہ انگوٹھی ہے، اصلی ہیرا ہے، بہت قیمتی ہے، اسے ڈاکوؤںکی نظر سے بچا کر میں نے جوتے میں ڈال دیا تھا۔ اسے فروخت کر کے ہمارے لئے کل صبح دو گھوڑوں کا بندوبست کروادیجئے گا۔‘‘
’’ارے نہیں نہیں رہنے دیجئے۔ گھوڑوں کا بندوبست ہو جائے گا۔ ‘‘
خان گلریز جو اس اثنا میں اندر آ گیا تھا اس نے انگوٹھی واپس کرتے ہوئے کہا۔’’ہم آپ کے بڑے احسان مند ہیں۔‘‘
’’احسان مند تو ہمیں آپ کا ہونا چاہئے کہ آپ نے ہمیں بر وقت ڈاکوؤں کے حملے سے باخبر کر دیا۔ ‘‘
’’یہ تو فرض تھا ہمارا۔ ‘‘
’’تو بس آپ کا فرض پورا ہوا۔ اب ہمیں اپنا فرض پورا کرنے دیجئے۔‘‘خان گلریز ہنسا۔
محی الدین رات ڈاکوؤں کے مقابلے کا انتظام کرنے کے لئے چلا گیا۔ تو خان گلریز کافی دیر تک ان سے گفتگو کر تا رہا۔ ہیرے کی وہ قیمتی انگوٹھی اس شخص نے بصد اصرار بطور تحفہ خان کو دے دی۔وہ خان نگریز کے لئے بہت فکر مند تھا۔
’’بہت پکا انتظام ہونا چاہئے خان۔ منگو بہت چالاک ہے۔‘‘
’’ہمارے محی الدین صاحب بھی کم چالاک نہیں ہیں۔‘‘خان گلریز ہے۔
’’ پھر بھی خان …!‘‘
’’ارے آپ یونہی فکر مند ہو رہے ہیں۔ چلئے میں آپ کو سب انتظام دکھاتا ہوں۔تجوریاں تو خالی پڑی ہیں اور اصل مال یہاں گتے کے ڈبوں میں بند سٹور میں پڑا ہے۔ منگو کو گمان تک نہیں ہو گا۔ ‘‘
’’واقعی ہم قائل ہو گئے محی الدین صاحب کے۔‘‘
اس شخص نے اطمینان کا اظہار کیا تو خان گلریز خان نے انہیں مہمان خانے بھجوا دیا تا کہ وہ نہا دھو کرآرام کر سکیں۔
شام ہوتے ہی پولیس کی ساری نفری حویلی کے ارد گرد پھیل گئی۔ پولیس مستعد تھی۔ رات کے دو بجے اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں تو اندر حویلی میں بھگدڑ مچ گئی کہ شاید ڈا کو آگئے ہیں سب باہر کی طرف بھاگے۔ اتنے میں مہمان خانے کا دروازہ آہستہ سے کھلا۔دو سائے باہر نکلے۔
’’سٹور کی طرف سردار ۔‘‘
’’چپ…!!‘‘ دوسرے نے ڈانٹا اور دونوں دبے قدموں سٹور کی طرف بڑھنے لگے۔
کافی دیر بعد جب ذرا ہنگامہ کم ہوا اور محی الدین اندر حویلی میں ان کے کمرے کے پاس سے گزرے تو ایک شخص نے ذرا سا دروازہ کھول کر باہر جھا نکا۔
’’کیا بات ہے تھانے دار صاحب کیا منگو کے آدمی تھے۔ یہ باہر گولیاں کیسی چل رہی تھیں۔‘‘
’’ شاید وہی تھے لیکن بھاگ گئے ،ہو سکتا ہے پھر پلٹ کر آئیں۔ ‘‘
’’کسی مدد کی تو ضرورت نہیں صاحب؟ میرا آدمی اچھا نشانہ باز ہے۔ ‘‘
’’ارے نہیں خان صاحب آپ آرام کریں میرے آدمی چوکس ہیں۔ ‘‘محی الدین آگے بڑھ گئے اور اس شخص نے دروازہ بند کر لیا۔
صبح دم جب رات کے تھکے ہارے سب سو رہے تھے ،وہ دونوں باہر نکلے اور چپکے سے پہریداروں اورمحی الدین کے آدمیوں سے بچتے بچاتے باہر نکل گئے۔
محی الدین جو رات بھر کا جاگا ہواتھا ،اندر بڑے کمرے میں پلنگ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا کہ خان گلریز اندرداخل ہوئے۔
’’غضب ہو گیا تھانے دار صاحب !آپ کے ہوتے ہوئے میں لٹ گیا۔ ڈا کو سب کچھ لے گئے۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘محی الدین ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔’’یہ کیسے ہو سکتا ہے جناب؟ اندر حویلی میں تو کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکا۔‘‘
’’ہو گیا جناب ،پور اسٹور خالی پڑا ہے۔ ‘‘
’’یہ اندر ہی کا کوئی آدمی ہے خان صاحب، باہر سے کوئی اندر نہیں آیا۔ آپ نے کس کس سے ذکر کیا تھاکہ تجوری سے تمام مال نکال کر سٹور میں ڈال دیا ہے۔ ‘‘
’’کسی سے بھی نہیں …اوہ خدایا ۔‘‘وہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولے۔’’ان دونوں مسافروں سے جو مہمان خانے میں ٹھہرے ہیں۔ ‘‘
’’اوہ ۔‘‘محی الدین اضطراب کے عالم میں مہمان خانے کی طرف لپکے۔لیکن کمرا خالی پڑا تھا اور دونوں غائب تھے ۔دیوار پر کوئلے سے موٹا موٹا لکھا تھا۔’’منگوڈا کو۔‘‘
’’چوٹ ہو گئی خان صاحب۔‘‘محی الدین نے بے بسی سے ہاتھ ملے۔’’مگر خیر ابھی وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے، میں ان کے پیچھے ہی جاتا ہوں۔‘‘
’’لیکن تھانے دار صاحب اکیلے؟‘‘
’’ہاں بھیڑ بھاڑ سے وہ چونک جائیں گے۔ یوں وہ بھی تو اکیلا ہی ہے۔ ایک ہی ساتھی ہے اس کے ساتھ۔ اس بار اس کا طریقہ واردات پہلے سے بہت مختلف ہے۔‘‘
محی الدین اسی وقت گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑوں کی سمت چل پڑا۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا ہوا ہولے ہولے گھوڑے کو دوڑائے چلا جارہا تھا۔ کہ اچانک کہیں اوپر سے اس پر ایک جال نما پھندا آکر پڑا اور پھر وہ اس میں چکڑاہوا اوپر اٹھتا چلا گیا ۔اب وہ گھنے پتوں اور شاخوں والے ایک درخت کے درمیان معلق تھا۔ تب ہی درخت پر سے کسی نے چھلانگ لگائی تو محی الدین نے دیکھا۔ یہ وہی کل والا اجنبی تھا۔
’’کیسے ہو محی الدین؟‘‘وہ ہنسا۔
’’تم منگو ہو؟‘‘محی الدین نے اسی طرح جال میں جکڑے جکڑے پوچھا۔
’’ہاں‘‘
’’دیکھو منگو!ڈا کے ڈالنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آج یا کل تم ضرور پکڑے جاؤ گے۔ میں نہیں تو کوئی اورتمہیں پکڑلے گا لیکن اگر تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو تو میں وعدہ کرتا ہوں تمہاری سزا کم کروانے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’بہت خوب محی الدین صاحب! منگو اپنا راستہ نہیں چھوڑ سکتا۔ آج تک کوئی مائی کالال ایسا پیدا نہیں ہواجو منگو سے ہتھیار ڈلوا سکے۔‘‘
’’دیکھو منگو ،مجھے پتا ہے تم فطرتا ًاچھے آدمی ہو۔ اگر تم وعدہ کرو کہ تم آئندہ ڈاکہ نہیں ڈالو گے تو میںتمہیں گرفتار کئے بغیر واپس چلا جاؤں گا اور تمہیں موقع دوں گا کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوسری طرف نکل جاؤ اور رزق حلال کماؤ۔ ‘‘
’’یہ فریب کسی اور کو دینا بھائی، اس وقت تو تم میرے رحم و کرم پر ہو۔ لیکن میں تمہیں چھوڑتا ہوں، چل بے بھالو! صاحب کو احتیاط سے نیچے اتار دے۔ ‘‘
جال آہستہ آہستہ نیچے آگیا۔
’’دیکھو منگو !ایک بار پھر کہتا ہوں یہ غلط راہ ہے جو تم نے اختیار کر رکھی ہے۔ ‘‘
’’بس محی الدین صاحب ہم تو چلے۔ آپ یہیں آرام کیجئے۔ آپ کے ساتھی یقینا آپ کی تلاش میں آئیں گے اور آپ کو آزاد کرا دیں گے۔ ‘‘
منگو نے قہقہہ لگایا اور گھوڑے دوڑاتے ہوئے محی الدین کی نظروں سے دور ہو گئے۔
جب وہ پہاڑی غاروں میں پہنچے تو سب ساتھی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی پہاڑان کے نعرے سے گونج اٹھے۔ ’’منگوڈا کو زندہ باد۔ ‘‘
جواب میں منگو نے بھی نعرہ لگایا اور گھوڑے سے اتر آیا لیکن گھوڑے سے اترتے ہی اس کی نظر ایک سفید ریش بزرگ پر پڑی جو ایک چٹان پر سر جھکائے بیٹھے تھے اور ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔
’’یہ کس بزرگ کو پکڑ لائے ہو جاہلو؟‘‘اس نے ڈانٹا۔
’’ہم پکڑ کر نہیں لائے سردار ،یہ خود ہی راستہ بھٹک کر ادھر آگئے ہیں۔ ہم نے تو صرف انہیں واپس نہیںجانے دیا۔‘‘
’’ہوں، واپسی کا مطلب تھا ہمارے ٹھکانے کا دوسروں کو پتا چل جائے۔ ‘‘
’’کیا خیال ہے سردار اس کا خاتمہ کر دوں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘منگو نے جانے کیا سوچ کر کہا اور بزرگ کو سلام کیا۔’’ادھر کیسے آنکلے بزرگو…؟‘‘
’’ بس تقدیر لے آئی ۔‘‘
’’ادھر آنے کا مطلب جانتے ہیں۔‘‘
’’ہاں موت! ‘‘وہ بڑے سکون سے بولے۔
’’ایک صورت اور بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کو یہیں قیدی بنا کر رکھ لیا جائے۔ دونوں میں سے کون سی صورت قبول ہے ۔‘‘
’’دونوں ہی قابل قبول ہیں جو تمہارا دل چاہے۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے پھر یہیں رہو لیکن کہیں بھاگنے کی کوشش ہر گزنہ کرنا۔ ویسے کرتے کیا تھے آپ؟‘‘
’’سکول میں بچوں کو پڑھاتا تھا۔ ‘‘
’’تو ٹھیک ہے پھر ان جاہلوں کو پڑھادیجئے گا۔ ‘‘منگو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور زور سے ہنسا۔
اور یوں بزرگ غار میں ڈاکوؤں کے ساتھ رہ کر انہیں پڑھانے لگے۔ چونکہ ان دنوں سب ڈا کو فارغ تھے۔ منگو بھی اکثر سب کے ساتھ اس بزرگ سے پڑھنے بیٹھ جاتا۔ پہلے تو وہ یونہی بیٹھتا تھا لیکن پھر ہولے ہولے اسے اس بزرگ کا درس اچھا لگنے لگا۔ وہ لکھنا پڑھنا سکھانے کے بعد انہیں اسلامی تاریخ کے خاص خاص واقعات سناتے۔ ایک روز وہ بزرگ عبدالقادر جیلانی کا واقعہ سنارہے تھے کہ بچپن میں ایک بار جب وہ علم حاصل کرنے کے لئے ایک قافلے کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور سب مال واسباب لوٹ لیا۔ عبد القادر جیلانی جو اس وقت ابھی بچے تھے اور ان کی والدہ نے اشرفیاں ان کے کرتے کے اندر سی دی تھیں اور ڈاکوؤں کو تلاش کے باوجود جب ان کے پاس سے کچھ نہ ملا تو انہوں نے یوں ہی پوچھا۔’’لڑکے تمہارے پاس کچھ ہے؟‘‘
’’جی ہاں ۔‘‘انہوں نے اطمینان سے جواب دیا۔’’میرے پاس کچھ اشرفیاں ہیں جنہیں میری والدہ نے کرتے میں سی دیا تھا۔‘‘
ڈا کو بہت حیران ہوئے۔
’’تم نے ہمیں یہ سب کچھ کیوں بتایا؟‘‘
’’اس لئے کہ میری والدہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کی ہے۔‘‘
ڈا کو اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے فوراً توبہ کر لی۔
وہ بزرگ واقعہ سنارہے تھے اور منگو کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے غار میں چلاگیا۔ اس نے یونہی شغل کے طور پر ان بزرگ کو پڑھانے کیلئے کہا تھا لیکن ان کے علم نے اس کی کایا پلٹ دی تھی۔ دل ہی دل میں ایک فیصلہ کر کے اس نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا۔ ساتھیوں کا خیال تھا کہ اب چونکہ پہلی واردات کو بہت عرصہ ہو گیا ہے اس لئے شاید کوئی نئی واردات کرنے کا خیال ہے، لیکن منگو نے ان کی توقع کے خلاف یہ کہا کہ وہ آج سے تائب ہو رہا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر دے گا اور سزا کے بعد رزق حلال کما کر کھائے گا۔ تم نے ہر اچھے اور برے وقت میں میرا ساتھ دیا ہے۔ اب جو جہاں جانا چاہے چلا جائے۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم سب غزنی یا بخارا چلے جاؤ۔ پیسہ تمہارے پاس ہے، وہاں جا کر کوئی باعزت کا روبار کر لینا۔
’’سردار حصہ تو تمہارا بھی ہے۔ تم بھی ہمارے ساتھ غزنی چلو۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اپنے دل بھی اب اکتا گئے ہیں اور ہم بھی شرافت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ‘‘راجو نے کھڑے ہو کر کہا۔
’’نہیں راجو۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے جرائم کی سزا کے بعد ہی نئے سرے سے زندگی کا آغاز کروں گا۔ اور رہا میرا حصہ توہ بھی تم آپس میں تقسیم کر لو کہ یہ بزرگ کہتے ہیں، جو دولت ناجائز ذرائع سے حاصل کی جائے حرام ہے۔ میں نئی زندگی کا آغاز رزق حلال سے کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’واہ سردار۔‘‘بھالونے مسخرے پن سے کہا۔’’خود رزق حلال کھاتے ہو اور ہمیں حرام کی تلقین کرتے ہو۔ ہم سب تمہارے ساتھ گرفتاری کے لئے پیش ہوں گے اور سزا بھگتیں گے کہ ہم نے ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔‘‘
منگو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان بزرگ کو پتا چلا تو وہ بے اختیار سجدے میں گر گئے کہ ان کی تعلیم رائیگاں نہیں گئی تھی۔
جب منگو کی قیادت میں سب ڈا کو تھانے پہنچے تو محی الدین حیرت سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ہم اپنی گرفتاری پیش کرنے آئے ہیں تھانے دار صاحب ۔‘‘منگو نے ہاتھ آگے بڑھا دیے۔’’ لیجئے ہتھکڑی ڈال دیجئے۔ ‘‘
محی الدین صاحب حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ منگو جس سے سارا علاقہ خوف کھاتا تھا ۔جسے کسی بھی قسم کا لالچ آج تک ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکا تھا۔وہ خود چل کر ان کے پاس آگیا تھا۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔
’’ یہ فیصلہ تم نے کیسے کیا منگو ؟‘‘بڑی دیر بعد انہوں نے پوچھا۔
’’ یہ سب علم کی روشنی ہے تھانے دار صاحب۔ ایک نیک دل بزرگ نے ہمیں علم دیا اور اس علم نے ہمیںشعور دیا ۔ہمیں نیکی اور بدی ۔بھلائی اور برائی میں فرق سمجھایا اور صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی کی۔
منگو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے مڑ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ آگے بڑھا دیے۔ لیکن محی الدین نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالنے کے بجائے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور کہا۔’’منگو! اگر ڈاکو اپنی مرضی اور خوش دلی سے توبہ کرلے تو اسلامی قانون اسے گرفتار کرنے کا نہیں معاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ‘‘
پھر محی الدین نے آگے بڑھ کر منگو کو گلے لگالیا اور اسے اچھی زندگی گزارنے کے عزم پر مبارکباد دی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top