skip to Main Content

بڑے بول کی مار ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا۔‘‘
(مسلم، بخاری) معارف الحدیث، صفحہ نمبر ۲۱۷، جلد اول)
۔۔۔۔۔

’’دیکھا کتنے مزے کا ہے۔‘‘ ارشد نے کہا۔ ’’میرے ابو نے بھیجا ہے دوبئی سے یہ چاکلیٹ‘‘۔
’’ہاں واقعی بہت مزے کا ہے۔‘‘ نوید نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’میرے ابو نے جوتے بھی بھیجے ہیں وہ جو بہت مہنگے ہوتے ہیں جوگرز۔‘‘ ارشد کے لہجے میں بے حدفخر تھا۔
’’اے ادھر آئو۔‘‘ ارشد نے ذرا دور کھڑے سلمان کو مخاطب کیا۔
سلمان ان کے قریب آ گیا۔
’’کیا بات ہے آج کسی نے کوئی اخبار نہیں خریدا؟‘‘ ارشد نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
سلمان نے اس کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولا ’’کسی دن زیادہ بک جاتے ہیں کسی دن کم۔ اللہ کی مرضی۔‘‘
سلمان اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے صبح سویرے لوگوں کے گھروں میں اخبار ڈالتا تھا اور شام تین بجے سے چھ بجے تک شام کے اخبارات فروخت کیا کرتا تھا۔
’’ایک تو چھوٹے چھوٹے معمولی کام کرتے ہو تم لوگ، اوپر سے الزام اللہ میاں پر ڈال دیتے ہو۔ آج کل موبائل کے دور میں اخبار کون خریدتا ہے بھلا؟‘‘ ارشد کے انداز میں تضحیک تھی۔
سلمان نے آہستہ سے کہا ’’جو میرے بس میں ہے وہی کام کر سکتا ہوں۔‘‘
’’لو بھئی …‘‘ ارشد نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا ’’ان لوگوں کو کوئی بات سمجھائو تو یہ منہ ٹیڑھا کر لیتے ہیں۔‘‘
سلمان چپ ہی رہا۔
نوید بولا ’’چھوڑویار، تم اپنے جوگرز دکھائو۔‘‘
’’ہاںچلو گھرتم کو دکھاتا ہوں۔‘‘ پھر اس کی نظر سلمان کے جوتوں پر پڑی جو بہت سستے معلوم ہو رہے تھے۔
اس نے پوچھا ’’سلمان تمہارے جوتے کتنے کے ہیں؟‘‘
’’ڈیڑھ سو کے، امی لائی تھیں بہت آرام دہ ہیں۔‘‘
’’ڈیڑھ سو کے جوتے اور آرام دہ۔ میرے جوگرز پتا ہے کتنے کے ہیں۔ پورے ڈھائی ہزار کے۔‘‘ ارشد کے لہجے میں فخرو غرور تھا۔
’’اللہ مبارک کرے۔‘‘ سلمان نے کہا۔ ’’میری امی تو کہتی ہیں کہ پیروں میںپیسے پہننے کی کیا ضرورت۔؟ اصل مقصد تو پائوں کو محفوظ رکھنا ہے۔‘‘
’’ہا ہا … ہا ہا… ہا ہا…‘‘ ارشد نے قہقہہ لگایا۔ ’’جب خریدنے کے لئے پیسے نہ ہوں انسان دل کو سو تسلیاں دے لیتا ہے۔‘‘
سلمان کچھ نہ بولا۔
ارشد نوید کو لے کرچلا گیا۔
سلمان، ارشد، نوید تینوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ نوید کے والد ایک سرکاری دفتر میں معمولی ملازم تھے۔
سلمان کے والد کو ایک ایکسیڈنٹ میں کمر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے تکلیف رہتی تھی جس وجہ سے وہ زیادہ کام نہیں کر پاتے تھے۔ اس لئے اکثر کام سے چھٹیاں ہو جاتی تھیں۔ مگر ان کے سیٹھ بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے سلمان کے والد سے کہا ’’کوئی بات نہیں۔ جب چاہو چھٹی کر لو مگر کام نہ چھوڑنا۔‘‘
سلمان کے ابو خراد کے بہت اچھے کاریگر تھے۔ سلمان لوگ دو ہی بہن بھائی تھے۔ جب پیسوں میں کمی ہوئی تو سلمان نے صبح اور شام کے اوقات میں اخبار و رسائل فروخت کرنا شروع کر دیئے جس سے اس کو آمدنی ہونے لگی اور کتابوں، کاپیوں کا اپنا ہی نہیں بہن کا خرچ بھی اٹھانے لگا۔

٭٭٭

ارشد کے والد اپنے کسی رشتے دار کی مدد سے دوبئی چلے گئے اور وہاں کی کمائی سے اپنا گھر بھرنے لگے۔ مکان پختہ بنوا لیا۔ بچوں کے لئے چاکلیٹ، قیمتی کپڑے، کھلونے وغیرہ ہر مہینے ہی آنے لگے۔
حالات اچھے ہوئے تو رویوں میں فرق آ گیا۔ ارشد کے ہر انداز میں بڑا پن چھلکنے لگا۔
وہ دوستوں کی چھوٹی موٹی باتوں کا، ان کی چیزوں کا مذاق اُڑانے لگا۔
سلمان اپنی خاموش طبیعت کے باعث اکثر اس کا نشانہ بنتا تھا۔
بعض اوقات تو ارشد کی بات اتنی تکلیف دہ ہوتی تھی کہ سلمان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے، مگر وہ ضبط سے کام لے کر خاموش ہی رہتا۔
نوید کی فطرت میں خوشامد تھی۔ وہ ارشد کی ہاں میں ہاں ملاکر خوش رہتا تھا۔

٭٭٭

’’میں نے امی سے کہا ہے کہ مجھے دوسرے اسکول میں داخل کرائیں۔‘‘ ایک دن ارشد نے اعلان کیا۔
’’کیوں بھلا، اتنا اچھا اسکول تو ہے ہمارا ؟‘‘ نوید نے تعجب سے پوچھا۔
’’اچھا اسکول۔‘‘ ارشد نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔ ’’پیلی رنگت کی دیواریں ، ٹوٹے پھوٹے ڈیسک، دیواروں سے چونا جھڑتا ہے اور ماسٹر حضرات بغیر استری کے کپڑوں میں آ جاتے ہیں۔‘‘ ارشد نے منہ بنایا۔
’’کل میں اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ اس کے اسکول گیا تھا۔ کیا اسکول ہے یار۔ ایک دم زبردست، چمکیلے فرش، شاندار بلیک بورڈز، کھیل کا اتنا بڑا میدان اور ٹیچرز کے کپڑے گویا دعوت میں آئے ہوئے ہوں اور یہاں … ہر چیز …!‘‘ ارشد کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔
’’کون سا اسکول؟‘‘ سلمان نے پوچھا۔
’’وہی…‘‘ ارشد نے شہر کے مشہور پرائیویٹ اسکول کا نام بتایا۔
’’وہ …‘‘ نوید اور سلمان دونوں ہی حیران ہوگئے۔ اس کی فیس تو اتنی زیاد ہ تھی کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کبھی خود وہاں جا بھی سکتے ہیں۔
’’اس کی تو فیس بہت زیادہ ہے؟‘‘ نوید نے آہستہ سے کہا۔
’’ارے تو کیا ہوا؟ میرے ابا تم لوگوں کی طرح غریب تو نہیں ہیں نا۔ ان کے لئے کیا مسئلہ؟‘‘ ارشد کے لہجے میں غرور تھا۔
’’ابو کہتے ہیں کہ غریبوں کی جان چھوڑو۔ ہم تو کچھ عرصے میں گھر بھی بدل لیں گے۔‘‘ ارشد کے لہجے میں تکبر بھی چھلک رہا تھا۔
وہ دونوں خاموشی سے اسے دیکھتے رہ گئے۔

٭٭٭

کچھ دنوں کے بعد ارشد کا داخلہ نئے اسکول میں ہو گیا اور اسکول کی بڑی سی وین ارشد کو لینے آنے لگی۔
نئے اسکول کی خوشی میں ارشد کی ماں نے سارے محلے کی دعوت کی۔ اصلی مقصد تو اپنے آپ کو نمایاں کرنا تھا۔
ارشد کی ماں نے سب کو بتایا ’’ہم اگلے ماہ دوسرے گھر شفٹ ہو جائیں گے۔‘‘
’’اور یہ گھر؟‘‘ سلمان کی امی نے پوچھا۔
’’کرائے پر چڑھا دیں گے پیسے آتے کیا برے لگتے ہیں؟‘‘ ارشد کی ماں نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
’’اللہ تعالیٰ آپ کو مزید عطا کرے۔‘‘ سلمان کی امی نے دعادی۔
’’بس تم غریب لوگ دعائوں پر ہی زندگی گزار دینا۔ خود سے کچھ نہ کرنا۔‘‘ ارشد کی ماں کے لہجے میں بھی غرور تھا۔
’’میں تو دعا ہی دے رہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا پتا کس لمحے کس پر مہربان ہو جائے اور دن پلٹ جائیں۔‘‘ سلمان کی امی نے مسکراتے ہوئے کہامگر ان کادل بہت دکھا تھا۔
مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ اور ہے۔ ہوا یوں کہ ارشد کے والد چھٹیوں کے بعد واپس جانے لگے تو ان کے ایک ملنے والے نے اپنے بیٹے کے لئے کچھ تحائف دیئے کہ یہ ان کے بیٹے تک پہنچا دیئے جائیں۔
ارشد کے والد نے بڑی خوشی سے حامی بھر لی۔
مگر جب وہ سعودی عرب کے ایئرپورٹ پر اترے اور سامان کی چیکنگ ہونے لگی تو انہیں ایئرپورٹ پر روک لیا گیا۔ پتاچلا کہ وہ تحائف جو اُن کے جاننے والوں نے اپنے بیٹے کے لئے دیئے تھے ان میں ہیروئن اوردیگر منشیات بھی موجود تھی۔
ارشد کے والد کو اسی وقت گرفتار کرلیا گیا کیونکہ دوبئی، سعودی عرب اور خلیج کی دیگر تمام ریاستوں (جنہیں متحدہ عرب امارات کہا جاتا ہے) میں منشیات لانا اتناسنگین جرم ہے کہ اس کی سزا موت ہے۔
ارشد کے والد روتے پیٹتے رہے کہ یہ سامان کسی نے ان کو دیا تھا مگر وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہ کروا سکے کیونکہ جس کے سامان سے منشیات یا کوئی بھی غیر قانونی چیز برآمد ہو وہی مجرم ٹھہرتا ہے۔ پندرہ دن کی قانونی کارروائی کے بعد انہیں سزائے موت سنا دی گئی اور جمعہ کے دن ان کا سر گردن سے جدا کر دیا گیا۔
یہ حادثہ ارشد کے گھر والوں پر قیامت بن کر ٹوٹا۔ خاندان سمیت محلے بھر میں بدنامی علیحدہ ہوئی اور معاشی حالات بری طرح بگڑ گئے۔
کچھ عرصے کے بعد ارشد کا مہنگا اسکول چھوٹ گیا۔
گھر تبدیل کرناپڑا اور وہ واپس اسی محلے میں آ گئے۔

٭٭٭

ایک دن شام کو سلمان مارکیٹ میں اخباربیچ رہا تھا کہ اس کو ارشد دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپربیگ تھا ۔ وہ ایک جوتوں کی دکان میں داخل ہو رہاتھا ۔
سلمان چپکے سے دکان کے دروازے کی اوٹ میں کھڑا ہو گیا۔
ارشد دکاندار سے کچھ کہہ رہا تھا۔
یہ ماڈرن شوز ہائوس تھا جس میں قسم قسم کے جوتے فروخت ہوتے تھے۔
ارشد کی دکان کے مالک سے بات ہو رہی تھی پھر اس نے دیکھا کہ دکان کے مالک نے چھ سو روپے ارشد کے ہاتھ میں رکھے اور اس سے شاپر لے لیا اور اس میں سے جوگرز نکال کے دیکھنے لگا۔
سلمان کو یاد آ گیا کہ یہ وہی ڈھائی ہزار والے جوگرز تھے۔ ارشد دکان سے باہر نکل آیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
وہ ذرا آگے نکلا تو پیچھے سے سلمان نے اسے آواز دی ’’ارشد۔ ارشد۔‘‘
ارشد نے پیچھے مڑ کے دیکھا۔
سلمان اسے بلا رہا تھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ ارشد نے پوچھا اور منہ دوسری طرف کر کے جلدی سے آنسو پونچھے۔
’’اتنے دنوں بعد نظر آئے ہو۔ چلوچائے پیتے ہیں۔‘‘
اس نے ارشد کا ہاتھ پکڑا اور سامنے چھوٹے سے ہوٹل میں داخل ہو گیا۔
اس نے دو کپ چائے اور بسکٹ کا آرڈر دیا۔
ارشد خاموش بیٹھا رہا۔
سلمان نے کہا ’’یار مجھے بھی افسوس ہوا کہ چاچا جان کو جھوٹے الزام میں سزا ہوئی۔‘‘ اس نے جان بوجھ کر موت کی سزا کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ ارشد کی دل آزاری نہ ہو۔
’’تم پریشان نہ ہو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمیں بڑے بول مار گئے۔ ہم اللہ پاک کی نعمتوں کے شکر کے بجائے اپنے اوپر فخر کرنے لگے تھے۔ مگر یہ بھول گئے کہ اصل بڑا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جوجب چاہے سب چھین لے۔‘‘ ارشد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اسے وہ وقت یاد آیا جب اس نے نوید کو تو چاکلیٹ دی مگر سلمان کونظرانداز کر دیا تھا۔ اس نے ہمیشہ سلمان کا مذاق اڑایا مگر سلمان نے ہمیشہ نظراندازکیا۔ خاموش رہا اور بس!
’’سلمان بھائی مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہارا بہت دل دکھایا۔‘‘
’’بھائی بھی کہتے ہو اور معافی بھی مانگتے ہو۔‘‘ سلمان نے جھوٹ موٹ غصہ دکھایا۔
’’چلو جلدی سے چائے پیو۔ بسکٹ کھائو۔ مجھے اخبار بھی بیچنے ہیں۔ ورنہ آج کے اخبار کل پرانے ہو جائیںگے۔ بیکار ہو جائیں گے …‘‘ سلمان ہنسا ’’مگر دوست تو پرانے ہی اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
ارشد کتنی دیر بعد پہلی بار ہنسا تھا۔ دونوں مزے سے چائے پینے لگے۔
ارشد سوچ رہا تھا کہ واقعی ہم نے بڑائی میں آ کر بڑے بول بولے۔ حالانکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ سچ ہے کہ تکبر آخرت سے پہلے دنیا برباد کر دیتا ہے۔

٭…٭

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top