skip to Main Content

دو غم

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جنگل بہت خوب صورت تھا،لیکن یہاں کے رہنے والے آج کل بہت اُداس تھے۔یہ تو سب جانتے ہیں، جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا ہے۔ شیر بہت طاقت ورجانور ہے۔جنگل کے دوسرے جانور اس سے خوف کھاتے ہیں اور اس کا ہر حکم بجالاتے ہیں،لیکن اس جنگل کی تو بات ہی اور تھی۔یہاں کا بادشاہ شیر ضرورتھا،لیکن وہ اس قدر نیک،رحم دل اور سمجھ دار تھاکہ تمام جانور اس سے محبت کرتے تھے اوراس کی ضرورتوں کا ہرطرح سے خیال رکھتے تھے۔شیر بادشاہ کی ملکہ یعنی شیرنی بھی اپنے شوہر کی طرح نیک اوررحم دل تھی۔اورتواورننھا شیربھی اپنے ماں باپ کی طرح نیک تھا۔اس کے دوستوں میں نہ صرف دوسرے کم زورشیروں کے بچے بھی شامل تھے بلکہ لومڑی،چیتے،ہاتھی،خرگوش اور گلہری کے بچے بھی تھے۔
سب جانورپیارومحبت سے مل کر جل کررہتے تھے۔انسان کبھی کبھی آپس میں جھگڑپڑتے ہیں،مگر اس جنگل کے ان جانوروں کو کبھی کسی نے آپس میں جھگڑتے نہیں دیکھا۔البتہ پچھلے ایک ہفتے سے یہاں عجیب عجیب واقعات ہورہے تھے۔شیر بادشاہ نے ان واقعات کا پتالگانے کی بہت کوشش کی مگراسے کامیابی نہیں ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شیربادشاہ کسی کام میں ناکام ہواتھا۔بادشاہ کے بعد چالاک لومڑی نے بھی جانوروں کی پریشانی دور کرنی چاہی،لیکن اسے بھی ناکامی ہوئی۔
اصل میں، ایک ہفتے سے جنگل میں قتل اوراغوا کی وارداتیں ہورہی تھیں۔سب سے پہلے تو بندریا کاچھوٹا بیٹا پنکی قتل ہوا۔جنگل کے مشرقی کنارے سے اس کا جسم ملاجس سے سرغائب تھا۔کسی نے اس ننھے اورمعصوم بچے کا سراس کے جسم سے کاٹ دیاتھا۔دوسرے دن ہرن کا بچہ اغوا ہوگیا۔تیسرے دن گلہری کی بوڑھی ماں مردہ حالت میں پائی گئی۔چوتھے،پانچویں،چھٹے اورساتویں دن ریچھ،چیتے،خرگوش اور مور کے بچے اغوا اور قتل ہوئے۔یہ سنگین صورت حال دیکھ کر بادشاہ نے تمام جانوروں کوایک جگہ جمع کیااور ان کے سامنے مجرموں کاپتا لگانے کا وعدہ کیا،مگر جب ان کا طاقت وراور عقل مند بادشاہ ناکام ہوگیاتوجانور بہت مایوس ہوئے۔
آج اتوار کادن اور شام کا وقت تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔جنگل کے سب جانوردرختوں میں گھری اس مخصوص جگہ جمع تھے جو انہوں نے مل کر بیٹھنے کے لیے بنائی تھی۔یہ جگہ پورے جنگل میں سب سے خوب صورت تھی۔ جانور اُداس اورپریشان تھے۔ان پر ایسی مصیبت پہلے بھلا کب آئی تھی۔وہ تو پیار،محبت اوراتفاق سے رہتے تھے۔سب لوگ دائرے کی صورت میں بیٹھے تھے۔ ان کے درمیان شیر بادشاہ اپنی ملکہ اور بیٹے کے ساتھ بیٹھاتھا۔اس کی نگاہیں بار بار سب جانوروں کاجائزہ لے رہی تھیں۔لومڑ ی کے ساتھ ہی خرگوش بیٹھاتھا۔اس کا چہرہ ستاہواتھا۔اسے اپنے بیٹے سے بے حدمحبت تھی۔وہ سارادن اس کی یادمیں روتارہتاتھا۔دوسرے جانوروں سے اس کا دُکھ دیکھانہیں جاتا تھا۔خرگوش کے ساتھ ہی وہ تمام جانورموجودتھے جن کے رشتے دار قتل یا اغوا ہوئے تھے۔لومڑی نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
”بادشاہ سلامت اپنی کوشش میں ناکام ہوچکے ہیں،پھر ہمیں کیوں جمع کیا گیا ہے؟“
”معلوم نہیں،لیکن ضرورکوئی خاص بات ہے،ورنہ وہ ہمیں یہاں کیوں بلاتے۔“خرگوش نے بھی آہستہ سے جواب دیا۔
”خاموش ہوجاؤ۔دیکھو،بادشاہ سلامت ہماری طرف متوجہ ہیں۔“گلہری نے کہا۔وہ سب شیربادشاہ کو دیکھنے لگے۔
”حضور!آپ نے ہمیں یہاں کیوں جمع کیاہے؟“ہرن نے قدرے بلند آواز میں کہا۔
”کیا آپ اس نامعلوم مجرم کوپکڑنا نہیں چاہتے جوہمارے گھر،خوب صورت جنگل کے امن کوتباہ کرنے پر تلاہوا ہے؟“شیربادشاہ کی رعب دار آواز گونجی۔
”ہماری تو یہی دُعا ہے، وہ بدبخت پکڑاجائے۔“تمام جانورایک ساتھ بولے۔
”ایسا ہے تو پھر میری باتیں پوری توجہ سے سنو،میں نے ایک منصوبہ بنایاہے۔اگرہم نے اس پر عمل کیاتوکوئی وجہ نہیں کہ وہ مجرم نہ پکڑاجائے۔“شیر بادشاہ نے بلند آواز میں کہا۔
”کیسامنصوبہ بادشاہ سلامت؟“لومڑی بولی۔
”سنو!آج سے کوئی جانوراکیلا اپنی خوراک حاصل کرنے نہیں جائے گا۔کم ازکم دوجانورمل کرجائیں اور اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔جہاں اورجب بھی کوئی خلاف معمول بات یا تبدیلی نظرآئے تو پھر مجھے یا کالو ریچھ کو اطلاع دی جائے۔ویسے میں نے جنگل پرنظر رکھنے کے لیے بیس رکنی کمیٹی بنادی ہے۔کالوریچھ اس کمیٹی کی نگرانی کریں گے۔“شیر بادشاہ نے کہا۔
”حضور!کیا ان قدامات سے مجرم پکڑاجائے گا؟“خرگوش نے پوچھا۔
”کیوں نہیں،اگر ہم نے اتفاق سے کام کیاتو مجھے یقین ہے،یہ مصیبت ضرور ٹل جائے گی۔ بس آپ کو ہمت اورحوصلے سے کام لینا ہوگا۔“ شیربادشاہ نے انھیں تسلی دی۔
”ٹھیک ہے،ہم آپ کی ہدایات پر عمل کریں گے۔“تمام جانور ایک ساتھ بولے۔
”اب آپ جاسکتے ہیں۔“شیربادشاہ نے کہا۔
سب جانوروہاں سے چلے گئے توشیرنے شیرنی سے کہا:
”بیگم!اپنی رعایاکے اُترے ہوئے چہرے مجھ سے دیکھے نہیں جاتے۔ایک بار وہ ظالم مل جائے تواُسے ادھیڑ کررکھ دوں گا۔“ شیر نے غصے سے کہا۔
”مجھے اُمید ہے، ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔آئیے!گھر چلتے ہیں، اندھیرا ہورہاہے۔“شیرنی نے کہا اور وہ وہاں سے چل دیے۔

O

ٹونی نے پاپا کی طرف دیکھا۔وہ بندوق میں گولیاں بھررہے تھے۔اس نے کہا:
”پاپا! میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا، ہم انسانوں کوجانوروں سے پیارکرنا چاہیے،انہیں بلاوجہ نہیں مارنا چاہیے مگر آپ تو۔“
”میرے پیارے بیٹے!یہ تومیراشوق ہے۔“پاپا مسکرائے اور زمین پر بیٹھ گئے۔
”یعنی خواہ مخواہ خون بہانا آپ کاشوق ہے؟“ٹونی اپنے پاپا سے بے حد ناراض تھا۔
ان دنوں ٹونی کو اسکول سے چھٹیاں تھیں۔وہ اور ماریہ گھر کے سامنے والے خوب صورت پارک میں روزانہ کھیلتے تھے۔ ایک دن پاپا اسے ساتھ لے کر، اس خوب صورت جنگل میں چلے آئے۔اس نے سوچا تھا، وہ یہاں کے خوب صورت جانوروں اورپرندوں کودیکھے گااور واپس جاکر ماریہ کوبتائے گا،لیکن اسے اس وقت بہت دُکھ ہوا،جب اس کے پاپا نے ایک دن اپنے تیز دھار خنجر سے ایک چھوٹے اورپیارے سے بندر کا سراس کے تن سے جدا کردیا۔اس وقت وہ معصوم بندرایک درخت کے نیچے سورہا تھا۔دوسرے دن ہرن کے ایک خوب صورت بچے کو اُٹھا لائے۔تیسرے دن ایک گلہری ان کا شکار ہوئی۔اس کے بعد یاتو وہ خواہ مخواہ کسی کوپکڑ لاتے یاپھر بغیر کسی وجہ کے کسی بھی جانور کو مار ڈالتے۔ کبھی کبھی توٹونی کو اپنے پاپا کی دماغی حالت پر شک ہونے لگتا۔وہ سوچتا، کیا میرے پاپا پاگل ہیں؟وہ سوچتااورپھر خودہی کہتا:
”نہیں…وہ پاگل نہیں ہیں،بس اس جنگل میں آکر تھوڑے ظالم بن گئے ہیں۔“
ٹونی کو سوچوں میں گم دیکھ کر اس کے پاپا بولے:
”کہاں کھوگئے ہو ٹونی بیٹا،آج شیر کا بچہ پکڑیں؟“ پھر اس کا جواب سنے بغیر، بندوق کے ساتھ دوسرا سامان اُٹھا کرجنگل کے اندرونی حصے کی طرف چل پڑے۔ٹونی کا جی نہیں چاہ رہاتھا،لیکن وہ پاپا کی وجہ سے مجبور تھا۔وہ اُن کے ساتھ ہولیا۔

O

”تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاتھااسے؟“شیربادشاہ نے کالوریچھ سے پوچھا۔
”جی حضور،وہ تعداد میں دوتھے۔ایک بڑا آدمی تھا،دوسراشاید اس کا بیٹا ہوگا۔“کالوریچھ نے جواب دیا۔
”کیا وہ بچہ بھی اپنے باپ کا ساتھ دیتاہے؟“
”جی نہیں حضور!میں نے اس کی باتیں سنی تھیں۔وہ اپنے باپ کے اس کام سے ناراض تھا۔“گلہری جلدی سے بولی۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس بچے کو کچھ نہیں کہنا چاہیے۔“
”وہ بہت پیارابچہ ہے،بالکل آپ کے بیٹے کی طرح۔“لومڑی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
شیر بادشاہ،کالوریچھ،گلہری،چیتا،ہاتھی کا بچہ اورلومڑی اس وقت گھنی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے۔مجرم کی تلاش کے سلسلے میں کل جب کالوریچھ اورچیتا گشت کررہے تھے توانہیں نوٹی اور اس کے پاپاباتیں کرتے نظرآئے تھے۔ان دونوں کے پاس ہی لومڑی اورگلہری بھی موجود تھیں۔انہوں نے گلہری کے ذمے ان دونوں کی باتیں سننے کا فرض لگایا جسے اس نے خوبی سے انجام دیا تھا۔اب وہ ٹونی اور اس کے پاپا کی گھات میں بیٹھے تھے۔چیتے اورہاتھی کوٹونی کے پاپا پر حملہ کرنا تھا۔انہیں چھپے کافی دیر ہوگئی۔شیربادشاہ بہت بے چین تھا۔اچانک دورسے انہیں ٹونی اور اس کے پاپا آتے دکھائی دئیے۔وہ چوکنے ہوگئے۔
اور پھر دونوں جیسے ہی قریب آئے، چیتے نے ایک لمبی چھلانگ لگائی۔اگلے ہی لمحے ٹونی کے پاپا اس کے نیچے تھے۔حملہ اس قدر اچانک تھا کہ وہ سنبھل نہ سکے۔چیتے کے بعد ہاتھی نے بھی حملہ کردیا۔تھوڑی ہی دیر میں ٹونی کے پاپا اپنے انجام کو پہنچ گئے،ظلم کی سزا تو ملا ہی کرتی ہے۔ ہاتھی نے ٹونی کی طرف دیکھا۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔پھر سب اس کے سامنے آگئے۔
ان سب کو دیکھ کر ٹونی کی حالت اور بھی خراب ہوگئی۔اسے اپنی موت سامنے دکھائی دینے لگی۔پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ہاتھی کے بچے نے خوف زدہ ٹونی کوسونڈسے اُٹھا کر اپنی کمر پر بٹھایا۔شیر بادشاہ،چیتے،گلہری،لومڑی اور کالوریچھ خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔
جنگل کے جانوروں نے ٹونی کی دعوت کی اوراسے جنگل کی خوب سیربھی کرائی۔ٹونی نے انہیں ان کے اغوا ہونے والے عزیز اور رشتے داروں سے بھی ملوادیا۔جانوروں نے اس سے دوستی کر لی تھی۔ ٹونی نے پورا ایک ہفتہ ان کے ساتھ گزارا۔ اس کے بعد انہوں نے اسے جنگل سے باہر چھوڑ دیا۔ ٹونی کا گھر جنگل سے بہت زیادہ دُور نہیں تھا۔ وہ سارے راستے پہچانتا تھا۔جب وہ گھر کی طرف چلا تو اسے دو غم تھے۔ ایک پاپا کی موت کا اوردوسرا پیارے، ہمدرد میزبانوں کا جن کے بہت سے عزیز اس کے پاپا کے ظلم کا شکار ہوئے تھے۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top