skip to Main Content

باباجی کا فیصلہ

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

سلیم اپنے دوست جمیل کے کمرے میں پہنچا تو وہاں اس نے ایک عجیب تماشا دیکھا۔اس نے دیکھاکہ جمیل کتابوں کی الماری کے پاس کھڑا ہے ۔الماری کا ایک پٹ ذرا ساکھلا ہے اور وہ اس پٹ سے اپنا چہرہ بہت قریب کرکے الماری کے اندر کچھ دیکھنے کی کوشش کررہاہے۔
”یہ کیا کررہا ہے؟اگر الماری کے اندر کوئی چیز ڈھونڈنی ہے تو پٹ کھول کیوں نہیں دیتا؟اس انداز سے اندر کیوں جھانک رہا ہے؟“سلیم نے سوچا اور آہستہ آہستہ چل کر جمیل کے پاس پہنچ گیا۔جمیل اسی طرح اندر جھانک رہا تھا۔
”جمیل! یہ کیا کر رہے ہو؟“
یہ آواز سنتے ہی جمیل نے الماری کا پٹ بند کردیا۔پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:”آﺅسلیم، ادھر آﺅ۔“
وہ سلیم کا ہاتھ پکڑ کر اس طرف لے جانے لگا جہاں کرسیاں پڑی تھیں۔
”میں پوچھتا ہوں تم آخر کیا کر رہے تھے؟“
سلیم نے کرسی پر بیٹھنے سے انکار کیا اور فوراً الماری کی طرف جانے لگا۔جمیل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”کیوں،بات کیا ہے؟“سلیم نے پوچھا۔
”الماری مت کھولو!وہ اڑ جائے گا۔“
”کون اڑ جائے گا؟“
”وہ جو الماری کے اندر ہے۔“
”نہیں، میں الماری کھولوں گا۔“یہ کہہ کر سلیم زبردستی الماری کھولنے لگا تو جمیل بولا:
”میں کہتا ہوں وہ اڑ جائے گا۔لو دیکھو۔“
اس نے ایک پٹ ذرا سا کھول دیا۔سلیم نے اندر دیکھنے کی کوشش کی،مگر کچھ بھی دکھائی نہ دیا تو اس نے ایک دم سارا پٹ کھول دیا۔اندر ایک چیز پھڑ پھڑائی اور اسی لمحے ایک توتا الماری میں سے نکل کر باہر آگیا اور کرسی کے بازو پر بیٹھ گیا۔
”یار!یہ کیا بے وقوفی کی ہے تم نے؟“یہ کہتے ہوئے جمیل جلدی جلدی کمرے کی کھڑکیا ںاور دروازے بند کرنے لگا۔پھر بولا:
”اب اسے پکڑیں گے کیسے؟“
سلیم نے غصے سے کہا:”مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ الماری کے اندر توتا بند ہے۔حوصلہ رکھو،پکڑ لیتے ہیں۔“
اب دونوں توتے کی طرف بڑھنے لگے۔وہ اڑ کر صوفے پر جا بیٹھا۔سلیم نے اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اسے قریب قریب پکڑ ہی لیا تھا کہ توتے نے اس کی انگلی پر کاٹ دیا۔سلیم نے ہائے کہہ کر ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔
”مزہ آیا اور کھولو الماری۔“جمیل نے ہنس کر کہا۔
”یوں کرتے ہیں کہ ہاتھوں کے گرد کپڑا لپیٹ کر پکڑتے ہیں۔“
سلیم کی یہ تجویز جمیل نے منظور کرلی۔وہ بھاگا بھاگا باہر گیا اور دو رومال لے آیا۔ایک رومال سلیم نے لے لیا اور دوسرا اس کے اپنے ہاتھ میں رہا۔
وہ جب بھی توتے کی طرف اسے پکڑنے لے لیے جاتے ،وہ اڑ کر دوسری جگہ پہنچ جاتا۔کئی منٹ وہ اسے پکڑنے میں مصروف رہے ۔آخر جمیل نے اسے پکڑ لیااور توتا اس کے رومال سے بندھے ہاتھ میں زور زور سے ٹیں ٹیں کرنے لگا۔وہ اسے الماری کے اندر بند کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
”جمیل!یہ پھر سے اڑ جائے گا۔اسے پنجرے میں بند کردو۔اسے لائے کہاں سے تھے؟“
”صبح ہمارے باغیچے میں آگیا تھا۔گھاس پر بیٹھا تھا کہ ہم نے مل کر پکڑ لیا۔“جمیل نے بتایا۔
”پنجرے میں رکھو اسے ورنہ ضرور اڑ جائے گا۔“
”پنجرہ ہے نہیں میرے پاس۔“
”میرے پاس ہے۔“سلیم نے اطلاع دی۔
”تو لے آﺅ۔“
جمیل کے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے سلیم یہ جا وہ جا۔قریب ہی اس کا گھر تھا۔چند منٹ میں وہ ایک خوب صورت پنجرہ لے آیا۔دونوں نے بڑی مشکل سے اسے پنجرے کے اندربند کردیا۔
”بولو مٹھو میاں اب کیا کہتے ہو؟“سلیم نے توتے سے کہا۔
پھر انہوں نے اس کی غذا کا انتظام کیا اور پنجرے کو کھڑکی میں لٹکا دیا۔آدھے گھنٹے آپس میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد سلیم نے پنجرہ کھڑکی سے اٹھا کر ہاتھ میں پکڑ لیااور بولا:
”اچھا جی!میں چلتا ہوں۔“
جمیل اس کی بے تکلفی پر حیران رہ گیا۔اس نے کہا:”تو میرا توتا کیوں اپنے ساتھ لے جا رہے ہو؟“
”میں تو اپنا پنجرہ لے جا رہا ہوں۔“سلیم نے جواب دیا۔
”پنجرے کے اندر توتا میرا ہے۔“
”مگر پنجرہ میرا ہے۔“
”توتا میرا ہے۔“
”پنجرہ میرا ہے۔“
دونوں میں تکرار ہونے لگی۔سلیم پنجرے کو لے جانا چاہتا تھا اور جمیل اسے لے جانے نہیں دیتا تھا۔تکرار کسی صورت میں کم نہ ہوئی تو جمیل کی باجی شور سن کر کمرے کے اندر آگئیں۔
”یہ شور کیوں مچا رکھا ہے؟“انہوں نے پوچھا۔
جمیل نے اصل قصہ بتا دیا۔دونوں پھر تکرار کرنے لگے۔باجی بولیں:
”توتے والا اپنا توتا لے لے اور پنجرے والا اپنا پنجرہ۔بات ختم۔“
جمیل جانتا تھا کہ اگر اس نے پنجرے میں سے اپنا توتا نکالا تو وہ اڑ جائے گا۔کہنے لگا:
”باجی!آپ فیصلہ کر دیں کہ اس کا حق دار کون ہے؟“
”ٹھیک ہے باجی!مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے۔“سلیم نے کہا۔
”آپ پورا پورا انصاف کریں گی۔“
لیکن باجی کے لیے ایسا انصاف کرنا جو دونوں کو منظور ہو بڑا مشکل تھا۔”نہیں بھئی، میں فیصلہ نہیں کر سکتی۔“انہوں نے اعلان کیا۔
”پھر فیصلہ کون کرے گا؟“سلیم نے پوچھا۔
باجی جو صوفے پر بیٹھ کر سر جھکائے سوچ رہی تھیں بولیں:”میں بتاﺅں کون فیصلہ کرے گا؟“
”ہاں باجی۔“دونوں بیک آواز بولے۔
”ہمارے محلے میں بابا جی ہیں نا۔“
”کون بابا جی؟“دونوں نے ہی بیک وقت پوچھا۔
”وہ راشدہ کے نانا جان۔سمجھ گئے ہو نا؟“
”ہاں ، ہاں۔“دونوں بول پڑے۔
”وہ بالکل ٹھیک فیصلہ کریں گے۔“باجی نے اپنی طرف سے منصف مقررکردیا۔”کہو کیا کہتے ہو؟ٹھیک ہے یہ بات؟“
”ٹھیک بالکل ٹھیک۔“سلیم بولا۔
”مجھے بھی ان کا فیصلہ منظور ہے۔“جمیل نے سلیم کی تائید کردی۔
راشدہ کے نانا جان کی ساری محلے میں بڑی عزت تھی۔لوگ جن معاملات کا فیصلہ خود نہیں کر سکتے تھے ان کا فیصلہ انہی سے کرواتے اور وہ جو کچھ بھی کہتے اسے ہر شخص مان لیتا۔کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا۔
سلیم اور جمیل ان کے پاس گئے تو وہ کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔دونوں نے سلام کیا تو انہوں نے عینک ذرا سرکائی اور کہنے لگے:”آﺅ بچو!کیا بات ہے۔“باباجی نے پوچھا۔
سلیم نے ادب اور احترام کے ساتھ سارا معاملہ ان کے گوش گزار کردیا۔
”تو اب تم کیا چاہتے ہو؟“
جمیل نے جواب دیا:”بابا جی!ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمارے جھگڑے کا فیصلہ کردیں،آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔“
”تم اس جھگڑے کا فیصلہ چاہتے ہو؟“
”جی….جی۔“
”خود کیوں نہیں فیصلہ کرتے؟“بابا جی بولے۔
”باباجی! اگر خود فیصلہ کر سکتے تو“
”سمجھ گیا۔بالکل سمجھ گیا۔جمیل تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اگر ہم خود فیصلہ کر سکتے تو بھلا آپ کے پاس کیوں آتے؟“بابا جی نے اپنی داڑھی کھجلاتے ہوئے کہا۔
”جی ….جی۔“
”تو بچو!ٹھیک ہے،مجھے کیا عذر ہو سکتاہے۔میں فیصلہ کردوں گا۔“
”شکریہ۔بابا جی۔“جمیل بولا۔
بابا جی نے کتاب بند کرکے ایک طرف رکھ دی اور کہنے لگے۔”میں کل آﺅں گا۔نہیں،نہیں،میں خود نہیں آﺅں گا۔تم دونوں،یعنی تم دونوں جن کے درمیان جھگڑا ہے،جھگڑے والی چیزلے کر کل صبح میرے پاس آجاﺅ۔جھگڑے والی چیز بھلا کیا ہے؟“
”وہ….جی پنجرہ۔“جمیل نے ہنس کر کہا۔
”بے وقوف ہو اوّل درجے کے۔میں نے کہا ہے جھگڑے والی چیز اور وہ پنجرہ نہیں۔“بابا جی نے جمیل کو ڈانٹ دیا۔
”توتا، جی توتا۔“سلیم بولا۔
”تم بھی نرے میاں مٹھو ہو۔توتا جھگڑے والی چیز نہیں ہے۔“بابا جی نے سلیم کو بھی اسی طرح ڈانٹ دیا۔
”تو پھر باباجی؟“
”ارے بے وقوفو!جھگڑے والی چیز توتے والا پنجرہ ہے۔یعنی وہ پنجرہ جس کے اندر توتا ہے یا وہ توتا جو پنجرے کے اندر بند ہے۔اب سمجھے۔“
دونوں نے شرمندگی سے اپنے سر جھکا لیے اور واپس چلے آئے۔
صبح ہوئی تو بابا جی کے سامنے سلیم اور جمیل بیٹھے تھے اور پنجرہ ایک طرف پڑا تھا۔بابا جی بولے:
”جھگڑا اس وجہ سے ہوا کہ جمیل کہتا ہے یہ توتا میرا ہے اس لیے پنجرہ بھی میرا ہے اور سلیم کہتا ہے کہ پنجرہ میرا ہے اس لیے توتا بھی میرا ہے۔ یہ ہے جھگڑے کی جڑ۔میں نے درست کہا ہے نا۔“
دونوں نے سر ہلادیے۔
”اب میرا فیصلہ سنو۔“یہ کہہ کر بابا جی نے پنجرہ اپنے قریب کرلیااور اس کا دروازہ کھول دیا۔ توتا پھر سے اڑ گیا۔
”تو تے کے بغیر پنجرہ بے کار ہے۔یہ میرے پاس رہے گا۔“یہ کہتے ہوئے بابا جی نے پنجرہ اپنے قریب کرلیا۔
دونوں بڑی حیرت سے باباجی کو دیکھ رہے تھے۔
”بچو!میرے فیصلے سے تم نے ایسا سبق سیکھ لیا ہوگا جسے تم کبھی نہیں بھلا سکو گے۔اب جاﺅ مزے کرو۔“یہ کہہ کر بابا جی حقہ پینے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top