skip to Main Content

آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا

کہانی: Whatever Next!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: ماہم احسن
۔۔۔۔۔

’’امی۔۔ امی!! آپ کو پتہ ہے۔۔ کل اسکول والے ہمیں چڑیا گھر کی سیر کرانے لے جارہے ہیں۔‘‘ایلین اسکول بیگ سمیت کچن میں داخل ہوئی۔’’کتنا مزا آئے گا نا۔۔۔ہم اپنے ساتھ سینڈوچز بھی لے جارہے ہیں۔‘‘
’’واہ۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘امی نے ہنڈیا میں چمچہ ہلاتے ہوئے کہا۔’’پکنک کا وقت کیا ہے؟‘‘
’’دس بجے کا وقت ہے۔‘‘ایلین نے جواب دیا۔’’مجھے امید ہے میں وقت پر پہنچ جاؤں گی۔‘‘
’’ہاں۔۔دس بجے کا وقت بالکل ٹھیک ہے۔ تم اپنی بائیسکل پر دس منٹ میں پہنچ جاؤ گی۔‘‘امی خوش دلی سے بولیں۔’’ہم ناشتہ آٹھ بجے کرتے ہیں تو تمہارے پاس تیار ہونے کے لیے کافی وقت ہوگا۔‘‘
’’مگر امی میری بائیسکل پنکچرہوگئی ہے۔‘‘ ایلین نے لاپروائی سے کہا۔’’شاید اس کا پچھلا والا ٹائر۔۔۔۔‘‘
’’کوئی بات نہیں، تم بائیسکل کی دکان پر انکل ٹام سے دوسرا ٹائر لگوا آؤ۔ یہ پیسے رکھو۔‘‘
’’ابھی نہیں امی، میں شام کی چائے پی کر نکلوں گی۔‘‘ ایلین نے نفی میں سر ہلایا۔مگر پیسے اس نے اپنے یونیفارم کی جیب میں ڈال لیے۔ اسی وقت ایک سکہ لڑھکتا ہوا اس کی جیب سے نیچے گرگیا۔
میری جیب کب پھٹی؟‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’تم با آسانی اسے سی سکتی ہو۔ اگر تمہیں یاد ہو ، میں نے تمہاری پچھلی سالگرہ پر ایک گلابی باسکٹ دی تھی۔ اس میں مختلف رنگ کی گٹیاں اور سوئی موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ تمہاری جیب مزید پھٹے، اس کو فوری طور پر سی لو۔‘‘ امی نے پیار سے اس کو سمجھایا۔
’’اچھا میں تھوڑی دیر بعد اس کو سی لوں گی۔‘‘ ایلین نے سستی سے کہا۔
’’یہ کس قدر بری بات ہے ایلین!‘‘ اب کی بار امی غصے سے بولیں۔’’تھوڑی دیرمیں، چائے کے بعد، کل۔۔۔تم ہر وقت یہی کہتی ہو، کوئی بھی کام اسی وقت نہیں کرتیں۔ اگر کوئی کام کرنا ہے تو اسی وقت کیوں نہ کیا جائے؟‘‘
’’میں پہلے چائے پیوں گی۔‘‘ ایلین ضدی پنے سے بولی۔’’پھر میں اپنے سارے کام کرلوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ رکی نہیں بلکہ منہ بنا کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔ امی غصہ سے اونہہ کہہ کر اس کو دیکھنے لگیں۔
کمرے کے دروازے کے قریب پہنچ کر وہ ایک پیر سے زور لگا کر جوتے اتارنے لگی۔ مگر جوتے کے تسمے سختی سے بندھے ہوئے تھے اس لیے اسے اور زور لگانا پڑا۔
’’اففف! میرے خدا! میں کہاں جاؤں؟ نہ جانے اس لڑکی کا کیا ہوگا۔۔‘‘ امی کافی دیر سے اس کی حرکتوں کو دیکھ رہی تھیں۔’’کبھی کبھی میں یہ سوچتی ہوں کہ پورے قصبے میں صرف ایک ہی نکمی اور سست لڑکی ہے اور وہ تم ہو۔۔۔۔جب جوتوں کے تسمے بندھے ہیں تو وہ تمہیں کھولنے پڑیں گے نا۔ اس طرح جوتے بھی خراب ہوں گے اور تمہیں خود بھی چوٹ لگ سکتی ہے۔‘‘
اس نے غصے میں جوتوں پر اور زور لگایا اور انہیں جھٹک کر اتار پھینکا۔
ایلین نے شام کی چائے پی۔ امی چائے پینے کے بعد باغ میں پھول جمع کرنے کے لیے چلی گئی تھیں مگر جاتے جاتے وہ اسے بائیسکل کی مرمت کروانے اور جیب کی سلائی کی یاددہانی کرواکر گئیں۔
’’بھولنا نہیں!‘‘جاتے جاتے انھوں نے کہا۔
’’آپ بے فکر رہیں۔‘‘ ایلین چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بولی۔’’سب سے پہلے میں بائیسکل کی دکان پر جاؤں گی اوروہاں سے بائیسکل کی مرمت کرواؤں گی۔‘‘
جیسے ہی امی گئیں ،ایلین نے کتابوں کے شیلف سے ایک کتاب اٹھائی۔ یہ کتاب خوفناک کہانیوں پر مشتمل تھی۔ وہ چپکے سے اوپر چلی گئی۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ بستر پر بیٹھی مزے سے پڑھنے لگی۔ حالانکہ اسے اس وقت بائیسکل کی دکان پرجانا تھا!
وہ نہیں گئی، یہاں تک کہ گھڑی نے چھ بجا دیے۔ دکان بند ہوچکی تھی۔
’’ارے۔۔۔افف!‘‘ ایلین بے اختیار بولی۔’’وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔کم ازکم مجھے اپنی جیب کی سلائی کرلینی چاہیے۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر سلائی والی باسکٹ نکالتی اس کی نظر الماری کے اوپر والے خانے میں رکھے پزلز پر پڑی۔ اس نے بے اختیار پزلز نکالے۔
’’بس تھوڑی دیر کھیل لیتی ہوں۔‘‘ اس نے سوچا۔
وہ کھیلنے میں مشغول ہوگئی اور وقتی طور پر اس کے دماغ سے سلائی اور تمام باتیں نکل گئیں۔ سونے کا وقت ہوگیا تھا۔ امی اسے آوازیں دیتی ہوئی اوپر آرہی تھیں۔
’’ایلین۔۔۔ایلین۔۔! کہاں ہو بیٹا؟ نیچے آؤ اور کھانا کھالو، پھر سونا بھی ہے۔‘‘
جب ایلین سونے کے لیے بستر پر لیٹی تو اس کو تمام باتیں یاد آگئیں۔ اس کی بائیسکل کا پنکچر اور پھٹی ہوئی جیب۔ افسوس! اس نے وقت پر کوئی کام نہیں کیا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر وہ بائیسکل کو دکان پر لے جاتی اور مرمت کروادیتی۔ اگلی صبح وہ مزے سے چڑیا گھر جا پاتی۔اپنی جیب کی سلائی کرلیتی جو بہت آسان کام تھا۔
اگلی صبح ایلین کی آنکھ کھلی تو اس کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ وہ آج چڑیا گھر جانے والی تھی۔ سورج کی نرم گرم کرنیں اس کے چہرے پر آئیں تو اس نے کروٹ لی مگر اٹھی نہیں۔لیٹے لیٹے وہ مزے سے خیالی پلاؤ پکانے لگی۔ اسی اثناء میں امی آوازیں دیتی ہوئیں کمرے میں داخل ہوئیں۔
ایلین تم ابھی تک بستر پر لیٹی ہو۔ کیا تمہیں دیر نہیں ہو رہی؟ تمہیں یاد ہے نا کہ تمہیں دس بجے اسکول میں ہونا چاہیے!‘‘
ایلین تقریباً چھلانگ مارکر بستر پر سے اتری۔ جلدی جلدی الٹا سیدھا منہ ہاتھ دھوکرباہر نکلی۔ اس نے دانت تک نہیں مانجھے۔ پھر بال بناتے ہوئے دو چار مرتبہ بالوں کو جھٹکا اور جلدی جلدی کنگھاپھیر لیا۔ بالوں کو صحیح طریقے سے نہیں سلجھایا۔
فراک پہن کر اس نے اوپر کے دو بٹنوںکو کھلا چھوڑ دیا۔ اور تو اور جوتوں کو پہنتے ہوئے تسمے بھی نہیں باندھے۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے پہنچی اور ٹھیک اسی وقت اس کی نگاہ گھڑی پر پڑی جو ساڑھے آٹھ بجا رہی تھی۔
’’پھر دیر ہوگئی؟‘‘ ابو نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔’’بیٹا تم نے اپنے بال درست طریقے سے نہیں بنائے، جوتوں کے تسمے تک نہیں باندھے اور حد ہوگئی بیٹا دو بٹن کھلے چھوڑنے کی کیا تک ہے؟‘‘
ایلین بالکل خاموش رہی البتہ اس نے بٹن لگا لیے۔ امی اس کے لیے سینڈوچز پیک کررہی تھیں۔
ناشتے میں اس نے چائے،دلیہ اور ابلا ہوا انڈہ کھایا۔
’’اچھا امی! اللہ حافظ۔ میں اسکول جارہی ہوں۔‘‘ اس نے تیزی سے سینڈوچز اٹھائے۔’’اس کے لیے بہت شکریہ!‘‘
وہ پھرتی سے دروازے سے نکلی۔ مبادا امی اس کو ہاتھ دھونے اور بال دوبارہ بنانے کے لیے روک لیتیں۔ اس نے گیراج کھولا اور بائیسکل نکالی۔ مگر یہ کیا؟
بائیسکل کا پچھلا ٹائر بری طرح متاثر تھا۔ اس کو نیا ٹائر لگوانا تھا۔ اس نے ٹائر میں ہوا بھری تاکہ اسکول تک کے لیے گزارا ہو جائے ۔
ٹائر بمشکل گزارے لائق درست ہوا۔ گلی سے نکلتے ہی ٹائر پھر خرابی کا رونا رونے لگا۔
’’مجھے اب گھر جانا پڑے گا اور امی سے بس کا کرایہ لے کر بس میں جانا ہوگا۔‘‘ اس نے بیزاری سے سوچا۔’’مجھے جلدی کرنی ہوگی کہیں بس نکل نہ جائے۔‘‘
وہ بائیسکل کو چلاتے ہوئے گھر تک لے گئی۔ اس نے باغ میں بائیسکل کو چھوڑا اور امی کے پاس پہنچی۔
’’امی! امی! میری بائیسکل کا پچھلا ٹائر پنکچر ہے۔ آپ مجھے بس کا کرایہ دے دیں۔‘‘
’’کیا تم بائیسکل کو دکان پر مرمت کروانے نہیں لے کر گئیں؟‘‘ امی غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں بولیں۔’’افف! تم کتنی سست ہو۔‘‘
’’ابھی مجھے مت ڈانٹیے، کیونکہ ابھی وقت نہیں ہے۔‘‘ ایلین بے صبری سے بولی۔’’جلدی دیں پیسے۔۔ شکریہ امی! اللہ حافظ!‘‘
اس نے نوٹ جیب میں ڈالا اور باغ میں لگی باڑ پر سے تیزی سے اتری۔ اسے جلدی کرنی تھی ورنہ بس نکل جاتی۔
بس اسٹاپ پر پہنچ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ نوٹ نکال کر ہاتھ میں پکڑ لے مگر نوٹ نہیں تھا۔ اس کو خیال آیا، باغ کی باڑ کو تیزی سے عبور کرتے وقت اس کی پھٹی ہوئی جیب میں سے نوٹ گرگیا ہوگا۔
اس نے دوبارہ پھٹی ہوئی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسی وقت اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
’’اففف! میں جیب کو سینا بھول گئی تھی۔ رات کو میں نے اسے کیوں نہیں سیا؟ حالانکہ میرے پاس کافی وقت تھا۔ اب میں کیا کروں؟ اگر کنڈکٹر کو کرایہ نہیں دیا تو وہ ہرگز مجھے بس میں بیٹھنے نہیں دے گا۔‘‘
وہ دیر تک کھڑی سوچتی رہی۔ اب گھر واپس جانے کا وقت نہیں تھا۔ اچانک اس کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔
’’مجھے پیدل بھاگتے ہوئے اسکول جانا چاہیے۔ اگر میں ایک منٹ بھی نہ رکوں اور بھاگتی رہوں تو وقت پر پہنچ جاؤں گی۔‘‘ وہ سوچ رہی تھی۔’’میں بہت تیز بھاگتی ہوں اور اس کے علاوہ میں کھیتوں کے پاس والا شارٹ کٹ بھی استعمال کرسکتی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ بس اسٹاپ کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دوڑ کا مقابلہ ہورہا ہے اور وہ ہر کھلاڑی کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہے۔ وہ بہت سی گلیوں سے گزرتی ہوئی اب کھیتوں سے گزر رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اس کا سانس بھی پھول رہا تھا مگر وہ پروا کیے بغیر بس بھاگ رہی تھی۔
مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس نے جوتوں کے تسمے نہیں باندھے تھے۔ تسمے نہ جانے کیسے اس کے جوتوں کے گرد لپٹے اور وہ بھاگتے بھاگتے منہ کے بل گری۔ اس کے دونوں گھٹنے بری طرح چھل گئے اور ہاتھ کہنیوں پر سے زخمی ہوگئے۔ اس کا سینڈوچز کا پیکٹ اڑتا ہوا قریب بنے ہوئے گٹر میں جاگرا جس کا ڈھکنا اتفاق سے کھلا تھا۔
ایلین کے زخموں سے خون رسنے لگا۔ ایلین بمشکل اٹھی اور اب وہ ہچکیاں لے کر رونے لگی۔
روتے روتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ابھی بھی وقت تھا وہ اسکول پہنچ سکتی تھی۔ پھر وہ سوچنے لگی کہ کاش اس نے ابو کے کہنے پر تسموں کو باندھ لیا ہوتا۔ ایک کے بعد ایک مسائل آتے رہے اور یہ سب اس کی غلطیوں کی وجہ سے ہوا۔ سب سے پہلے ٹائر کا مسئلہ ہوا،پھر پھٹی ہوئی جیب کا مسئلہ اور اب جوتوں کے تسموں کی وجہ سے اس نے سینڈوچز کو گنوادیا۔ اب آگے نہ جانے کیا ہونے والا تھا!
ایلین نے دوبارہ سے بھاگنے کی کوشش کی مگر اس کے گھٹنوں میں درد ہونے لگا۔وہ بمشکل چل پارہی تھی۔اب اسے اپنا چڑیا گھر جانا ناممکن نظر آرہا تھا۔
’’مجھے اب گھر جانا چاہیے۔‘‘ ایلین نے دل گرفتگی سے سوچا۔’’کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا۔ میں جو بھی کرنے کی کوشش کرتی ہوں کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔‘‘
وہ آہستگی سے چلتے ہوئے گھر پہنچ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو مستقل نکل رہے تھے جو اس کے گریبان کو بھگورہے تھے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ امی اسے واپس آتا دیکھ کر بہت حیران ہوئیں۔’’کیا تم بس نہیں پکڑ پائیں؟‘‘
’’امی! آج صبح سے میرے ساتھ سب کچھ بہت غلط ہورہا ہے۔‘‘ ایلین نے سسکی بھری۔’’سب سے پہلے میری بائیسکل کے ٹائر کا مسئلہ ہوا،پھر پیسے میری پھٹی ہوئی جیب سے گرگئے اور آخر میں جوتوں کے تسمے بندھے ہوئے نہ ہونے کے باعث میں گری، میرے چوٹیں آئیں۔ میری قسمت بہت خراب ہے۔‘‘
’’ایلین میں اب تمہیں بالکل بھی نہیں ڈانٹوں گی۔‘‘ امی سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔’’تم خود سوچو تم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔ میں بس ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں تمہارے ٹائر، جیب اور جوتے کے تسموں کا کوئی قصور نہیں تھا۔ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں سراسر تمہاری غلطی ہے،کیونکہ تم کوئی بھی کام وقت پر انجام نہیں دیتیں اور کام کو ٹالتی رہتی ہو۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔۔۔! جانتی ہوں۔۔!‘‘ ایلین چلائی۔’’میں اپنے ٹائر،جیب اور جوتے کے تسموں کو قصور وار نہیں ٹھہرارہی۔ اور۔۔۔اوہ۔۔۔امی میں نے سینڈوچز کو بھی گنوادیا۔۔۔وہ گٹر میں گرگئے تھے۔۔!‘‘
’’اچھا چلو اب چپ کرجاؤ۔ رونا بند کرو،منہ ہاتھ دھولو۔ میں ذرا قریبی مارکیٹ تک جارہی ہوں۔‘‘ امی پرس میں پیسے رکھتے ہوئے بولیں۔’’تم اب گھر پر رہو اور جو تمہارا دل چاہے وہ کرو۔‘‘
امی کے مارکیٹ جانے کے بعد ایلین خاموشی سے اٹھی اور بائیسکل کو دکان پر لے گئی۔ جہاں انکل ٹام نے بائیسکل کی مرمت کی۔
دکان سے واپس آنے کے بعد اس نے الماری سے باسکٹ نکالی۔ وہی باسکٹ جس میں سلائی کا سامان تھا۔ اس نے پھٹی ہوئی جیب کو بڑی محنت سے سیا۔ اب اس میں سے کچھ بھی نہیں گر سکتا تھا۔
’’ہمم۔۔‘‘ ایلین اب بہت اچھا محسوس کررہی تھی۔’’میں نے تمام نامکمل کاموں کو مکمل کرلیا ہے۔ مجھے امید ہے اگلی بار میں با آسانی چڑیا گھر کی سیر کے لیے جاسکوں گی۔‘‘
اس نے طمانیت سے آنکھیں موند لیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top