skip to Main Content

عجیب بیماری، عجیب علاج

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔

چوتھی صدی ہجری (گیارہویں صدی عیسوی)میں ہمارے پڑوسی ملک ایران کے ایک بڑے علاقے پر بویہی خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کے ایک بادشاہ علاؤ الدولہ نے 398ھ/ 1007ء سے433ھ/1041ء تک حکومت کی۔اس بادشاہ کے زمانے کا ذکر ہے کہ منصور نام کا ایک شخص جو بادشاہ کا قریبی عزیز تھا، ایک عجیب بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ بیماری یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو گائے سمجھنے لگا تھا اور سارا سارا دن گائے کی آواز کی طرح آواز نکالتا رہتا تھا۔ وہ گھر والوں سے کہتا تھا کہ مجھے ذبح کرو، میرے گوشت سے بہت عمدہ ہریسہ بنے گا۔ ہر یسہ ایک قسم کالذیذ کھانا ہوتا ہے جسے گیہوں کے آٹے، گوشت، گھی، نمک اور مسالوں وغیرہ سے تیار کیا جاتا ہے۔ گھر والوں اور دوسرے لوگوں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ تم گائے نہیں بلکہ انسان ہو لیکن اس کو اپنے گائے ہونے کا ایسا وہم ہو گیا تھا کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتا تھا۔ بادشاہ نے ملک کے بڑے بڑے طبیبوں کو اس کے علاج پر مقرر کیا۔ انھوں نے مریض کے علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن اس کی بیماری بڑھتی ہی گئی۔ کسی طبیب کی سمجھ میں نہیں آ تا تھا کہ مریض کو مالیخولیا کی بیماری ہے یا اس کے دماغ میں خرابی ہے۔ انھوں نے ہر قسم کے علاج آزمائے لیکن مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مریض کا کھانا پینا چھوٹ گیا۔ گھر والے بڑی مشکل سے اس کے گلے سے کھانے پینے کی کوئی چیز اتارتے تھے تا کہ وہ بھوک سے ہلاک نہ ہو جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مریض سخت کمزور ہو گیا۔ بس وہ ہر وقت یہی رٹ لگائے رکھتا تھا کہ میں گائے ہوں مجھے ذبح کرو۔ جب سارے طبیب اس کے علاج سے عاجز آ گئے اور انھوں نے اس کے علاج سے جواب دے دیا تو بادشاہ نے اپنے وز یرخواجہ ابوعلی سے کہا،”خواجہ!تم ہی منصور کے علاج کی کوئی تدبیر سوچو۔“
یہ خواجہ ابوعلی کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کا شمارمسلمانوں کی تاریخ کے ان وزیروں میں ہوتا ہے جن کی علمی لیاقت، انتظامی قابلیت اور دانائی کو دوست دشمن سب مانتے تھے اور جنھوں نے اپنے ملکوں کا انتظام ایسے عمدہ طریقے سے کیا تھا کہ سب لوگ خوشحال ہو گئے تھے۔ بادشاہ نے مریض کے بارے میں خواجہ ابوعلی سے بات کی تو وہ بڑی دیر تک اس معاملے پر غور کرتا رہا۔ آخر اس کو مریض کا علاج کرنے کی ایک ترکیب سوجھ گئی اور اس نے بادشاہ سے کہا:
”حضور! میں اس مریض کا علاج کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ اس کے گھر والوں کو حکم دیں کہ میں ان سے جو کہوں، وہ اس کے مطابق عمل کر یں اور میرے کسی کام میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔“
بادشاہ نے مریض کے گھر والوں کو ایسا ہی حکم دے دیا۔ دوسرے دن خواجہ ابوعلی نے مریض کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ،”میں تمہارے گھر ایک قصائی کی صورت میں آ رہا ہوں۔تم مریض سے کہو کہ قصائی تمہیں ذبح کرنے کے لیے آرہا ہے۔“
گھر والوں نے جب مریض سے کہا کہ قصائی تمہیں ذبح کرنے کے لیے آ رہا ہے تو اس نے اس بات کو اپنے لیے خوشخبری سمجھا اور مارے خوشی کے ناچنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد خواجہ ابوعلی ہاتھ میں ایک چھری لیے مریض کے گھر پہنچا اور بڑے دبدبے سے گھر والوں سے کہا:
”کہاں ہے وہ گائے، اسے ادھر لاؤ میں اسے ذبح کرنا چاہتا ہوں۔“
مریض نے خواجہ کی آواز سن کر گائے کی طرح آواز نکالی۔ خواجہ نے گھر والوں سے کہا:”اسے گھر کے صحن میں لاؤ اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر میرے سامنے گراؤ تا کہ میں اس کے گلے پر چھری پھیروں۔“
یہ سنتے ہی مریض دوڑ کر گھر کے صحن میں آیا اور سید ھے پہلو پر لیٹ گیا۔ خواجہ نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور پھر چھری تیز کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ قصائیوں کی طرح مریض کے پہلو کے قریب بیٹھ کر اس کے جسم کو دو چار جگہ دبا کر بڑے غصے کے ساتھ بولا:
”یہ تم نے کیسی د بلی گائے رکھی ہوئی ہے۔ اس میں تو نام کو بھی گوشت نہیں اور یہ ذبح کرنے کے لائق نہیں ہے۔ اس کو دن میں تین چار مرتبہ اچھی قسم کا چارہ دیا کر وتا کہ یہ موٹی ہو جائے اورذبح کرنے کے لائق ہو جائے۔“
یہ کہہ کر خواجہ ابوعلی اٹھ کھڑا ہوا اور مریض کے گھر والوں سے کہا،”اس کے ہاتھ پاؤں کھول دو اور جو چیز یں میں تمہارے پاس بھیجوں،اس کے پاس لے جاؤ اور اس سے کہو کہ یہ کھاؤ تا کہ جلد موٹے ہو جاؤ۔“
اس کے بعد خواجہ اپنے گھر گیا اور وہاں سے نہایت عمدہ کھانے مریض کے لیے بھجوائے۔ گھر والوں نے خواجہ کے کہنے کے مطابق مریض کے سامنے رکھے اور اس سے کہا کہ انہیں کھاؤ تا کہ جلد موٹے ہو جاؤ۔ مریض نے سارے کھانے شوق سے کھائے۔ اس کے بعد خواجہ ہر روز مریض کے لیے عمدہ عمدہ کھانے تجویز کرتا اور طبیبوں کے مشورے سے ان میں ایسی دوائیں بھی ملا دیتا جو نہ صرف مریض کی کمزوری دور کرتیں بلکہ اس کی بیماری کے لیے بھی بہت مفید ہوتی تھیں۔ مریض موٹا ہونے کے لالچ میں یہ کھانے بڑے شوق سے کھا تا تھا۔ اللہ کا کرنا کہ ایک ہی مہینے میں مریض کی بیماری جاتی رہی اور وہ بالکل تندرست ہو گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top