skip to Main Content

ایک کتے کی کہانی

ناول: The Call of The Wild
مصنف: Jack London
مترجم: رفیع الزماں زبیری
۔۔۔۔۔
بَک جج ملر کا کتا تھا۔ وہ جنوبی کیلے فورنیا میں رہتا تھا جہاں کا موسم بڑا نرم گرم اور خوش گوار تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ گھر کے سب لوگ اس سے محبت کرتے تھے، اُس کا خیال رکھتے تھے۔ کھیلنے اور آرام کرنے میں اُس کے دن گزرتے تھے۔
پھر ایک دن کیا ہوا جج ملر کا ملازم، مینویل جوئے میں اپنی ساری پونجی ہار گیا۔ اُس نے سوچا کہ بک ایک تن درست اور توانا کتا ہے۔ ایسے کتوں کی شمال کے برفانی علاقوں میں بڑی ضرورت ہوتی ہے جہاں ان سے برف پر پھسلنے والی گاڑیاں چلوائی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کتے کی اچھی قیمت مل جائے گی۔ چناں چہ اُس نے بک کے گلے میں رسی باندھی اور اُس کو اپنے ساتھ لے کر چل دیا۔ وہ دن بڑا ہی خوش گوار تھا مگر بک اُداس تھا۔ اُس کا گھر اُس سے چھٹ رہا تھا۔
مینویل نے دو آدمیوں کے ہاتھ کتے کو بیچ دیا۔ یہ پر الٹ اور فرانکوئے تھے۔ وہ بک کو ٹرین میں بٹھا کر شمال کی طرف لے چلے۔ بک کے گلے میں رسی پڑی تھی۔ وہ اُسے بہت تکلیف دے رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ رسی اُس کے کیوں باندھی ہے۔ وہ جب رسی تڑانے کی کوشش کرتا تو اسے زیادہ تکلیف ہوتی۔ اُسے جھنجھلاہٹ آگئی مگر کیا کرتا، رسی تو کھول نہیں سکتا تھا۔
دو دن اور دو راتیں وہ ٹرین میں سفر کرتا رہا۔ پھر آخری اسٹیشن بھی آگیا اور وہ بک کو لے کر اسٹیشن پر اُتر گئے۔ ہوا میں ٹھنڈک تھی۔ بک اُتر کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ رسی اب بھی اس کے گلے میں بندھی تھی۔ وہ دو آدمی جو اُسے خرید کر لائے تھے دوسرے آدمیوں سے باتیں کرنے لگے۔ بک بہت اداس تھا اور اُسے غصہ بھی آرہا تھا۔ اُس نے رسی کھینچنا شروع کر دی۔ پر الٹ اور فرانکوئے نے اُسے زور سے جھڑ کا مگر وہ رسی کھینچتا ہی رہا ۔وہ رسی اپنے گلے سے اتارنا چاہتا تھا۔
پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ فرانکوئے نے اپنا ڈنڈا اٹھایا اور دھڑ سے بک کے سر پر دے مارا۔ بک نے جج ملر کے ہاں بھی ایسا ڈنڈا دیکھا تھا۔ وہاں اُس سے کھیلا کرتا تھا۔ اس وقت بھی جب فرانکوئے ڈنڈا لے کر اُس کی طرف بڑھا تو وہ یہی سمجھا کہ شاید وہ اُس سے کھیلنے آرہا ہے مگر جب وہ ڈنڈا اُس کے سر پر پڑا تو وہ سہم کر رہ گیا۔ اب تک وہ کبھی نہیں پٹا تھا۔ ڈنڈا لگنے سے اُسے بہت تکلیف ہوئی ۔اُس نے غصے میں آکر فرانکوئے کو کاٹنا چاہا۔ یہ اُس کی ایک اور غلطی تھی۔ فرانکوئے نے ڈنڈے سے اُسے دھڑا دھڑ مارنا شروع کر دیا۔ اُس کے منھ سے خون بہنے لگا اور وہ درد سے بے چین ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اُسے معلوم ہو گیا کہ انسان، ڈنڈے اور رسی کے سامنے وہ کتنا بے بس ہے۔ وہ لوگ بھی اس کی بے بسی پر ہنس رہے تھے۔
ان آدمیوں نے اب ایک اور کتا خریدا۔ اُس کا نام کرلی تھا۔ پھر وہ ریلوے اسٹیشن سے بندرگاہ کی طرف گئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ بک اور کرلی ان کے ساتھ تھے۔ کشتی شمال کی طرف چل پڑی۔
کرلی اچھا کتا تھا۔ بک اُس کے پاس ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں فرانکوئے ایک اور کتا لے کر آیا اور اسے بھی ان دونوں کتوں کے پاس بٹھا گیا۔ نئے کتے کا نام ڈیو تھا مگر وہ بُرا کتا تھا۔ اُس نے ان دونوں سے کوئی بات نہیں کی اور الگ جا کر بیٹھ گیا۔
دن گزرتے رہے اور کشتی چلتی رہی۔ جیسے جیسے وہ شمال کی طرف بڑھتے ہوامیں خنکی بڑھتی جاتی۔ کشتی پر سب دن ایک ہی جیسے تھے۔ کتے کھاتے اور سوتے بس یہی کام تھا۔ ایک دن ڈیو نے بک کا راتب چرا کر کھا لیا۔ پر الٹ نے دیکھ لیا اور ڈنڈے سے ڈیو کی خوب پٹائی کی۔ بک کو پر الٹ سے نفرت تھی مگر ڈیو کی پٹائی اس کے خیال میں ٹھیک تھی۔
پھر چلتے چلتے ایک دن کشتی رُک گئی۔ پر الٹ اور فرانکوئے نے کتوں کے گلے میں رسی باندھی اور اُنھیں لے کر کشتی سے اُترے ۔ بک نے زمین پر پاؤں رکھا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کیچڑ ہو۔ مگر یہ کیچڑ نہیں تھی۔ زمین ٹھنڈی اور گیلی تھی۔ یہ برفانی علاقہ تھا، لیکن بک کو کیا پتا، وہ تو کبھی ایسے علاقے میں نہیں آیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ برف پر کھڑا تھا اور برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوا کے ساتھ اُس کے منھ پر لگ رہے تھے۔
یہ بک کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ اُس کی چین اور آرام کی زندگی ختم ہو چکی تھی۔ فرانکوئے اور پرالٹ اب اُس کے نئے مالک تھے۔ رسی اور ڈنڈا انسان کا قانون تھا اور اب اسی سے اس کا واسطہ تھا۔ اس نے ایک سبق اور سیکھا اوروہ یہ کہ شمال کے اس برفانی علاقے میں درندگی کا راج ہے۔
برفانی علاقے میں پہلے ہی روز بک اور کرلی کی ملاقات اپنے نئے مالکوں کے دوسرے کتوں سے ہوئی۔ کر لی ایک پیارا ساکتا تھا۔ اُس نے دوسرے کتوں کی طرف دوستی کی نگاہ سے دیکھا اور ایک کتے کی طرف بڑھا کہ اپنا تعارف کرائے مگر دوسرا کتا غضب ناک ہو کر اُس پر جھپٹا۔ پھر تو دوسرے کتے بھی کرلی پر جھپٹ پڑے اور ذرا سی دیر میں کرلی خون میں نہا گیا اور مر گیا۔
بک سہم کر رہ گیا۔ اُسے اپنے دوست کے مرنے کا غم تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کتوں نے اس کے دوست کو کیوں مار ڈالا۔ اُسے غصہ آرہا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ ان بہت سے کتوں سے وہ اکیلا نہیں لڑسکتا۔ پھر وہ لڑائی بھڑائی کا عادی بھی تو نہ تھا۔
فرانکو ئے کرلی کے بے جان جسم کو گھسیٹ کر ایک گڑھے میں پھینک آیا۔ پھر پر الٹ نے بک کے گلے میں اس طرح کے کچھ پٹے ڈالے اور انھیں بکسوئے سے باندھا جس طرح جج ملر کے گھوڑے کو گاڑی میں جوتتے وقت اس کے ڈالے جاتے تھے ۔بک اور دوسرے کتوں کو بھی اسی طرح دو رو کی قطار میں کھڑا کر کے ایک بڑی سی برفانی گاڑی میں جوت دیا گیا تھا۔ فرانکوئے اور پر الٹ گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک لمبا سا کوڑا تھا جسے وہ بار بار کتوں پر مارتے تا کہ وہ تیز چلیں۔ یہ بک کے لیے ایک نیا تجربہ تھا اور بڑا تکلیف دہ۔ برفانی گاڑی بھاری اور زمین برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس کے پاؤں ٹھنڈے ہوئے جا رہے تھے۔ ایک کتا جو سب سے آگے تھا اس کا نام اسپٹز تھا۔ وہ گاڑی کھینچنے والے کتوں کا سردار تھا۔ جب بھی بک کے پاؤں غلط پڑتے اُس کی پیٹھ پر کوڑا لگتا یا اُس کے برابر والا کتا اُسے کاٹ کھاتا۔ بک غصے میں تھا اور اُسے تھکن بھی تھی، لیکن اُسے زندہ رہنا تھا اس لیے جو کچھ اُس سے کہا جاتا وہ کرتا۔
پورا دن اسی طرح گاڑی کھینچتے گزر گیا۔ پھر جب اندھیرا چھانے لگا تو فرانکوئے اور پر الٹ رک گئے۔ انھوں نے رات گزارنے کے لیے کیمپ لگایا۔ بک بھوک سے نڈھال اور تھکن سے چور تھا۔ سخت، پرفیلی زمین پر دوڑتے دوڑتے اس کے پاؤں دکھ گئے تھے۔ پرالٹ نے جو گوشت اُس کے آگے رکھا، وہ اُس نے ذرا سی دیر میں صاف کر دیا۔ کھانا کھا کر دوسرے کتے غائب ہو گئے۔ بک کو سردی لگ رہی تھی اور سونے کے لیے برف سے ڈھکی زمین کے سوا کوئی جگہ نہ تھی۔ اُس نے کیمپ کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ باقی کتوں کا کہیں پتا نہ تھا۔ اچانک اُسے برف کے نیچے سے کتوں کی آوازیں آئیں۔ اُس نے اپنے پنجوں سے برف کھودی تو دیکھا کہ اسپٹز زمین میں ایک گڑھا بنائے آرام سے سو رہا ہے۔ اچھا تو شمال میں جانور اس طرح سوتے ہیں۔ اُس نے بھی ایک گڑھا بنایا اور آرام سے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں برف نے اُس کو اوپر سے ڈھانک دیا۔ وہ ساری رات سوتا رہا۔
دن اسی طرح گزر تے رہے۔ کتے برف باری اور ٹھنڈ میں اسی طرح گاڑی کھینچتے رہے۔ وہ روزانہ چالیس میل کا سفر طے کرتے۔ بک نے گاڑی کھینچنا سیکھ لی، اُسے لڑنا بھی آگیا۔ وہ یہ بھی جان گیا کہ دوسرے کتوں پر کیسے غضب ناک ہو کر دانت نکالنے چاہئیں۔ آہستہ آہستہ وہ ایک پالتو کتے سے ایک جنگلی جانور بنتا جا رہا تھا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جج ملر کے گھر کے آرام اور چین کو بھولتا جا رہا تھا اور پھر تو اُسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ گرم دن کیسے ہوتے ہیں۔ جنوبی کیلے فورنیا کی خوش گوار آب و ہوا کو وہ بھول چکا تھا۔ وہ زندہ رہنا چاہتا تھا اور شمال کی بے رحم فضا میں زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ تمام کتوں سے زیادہ طاقت وراور خوں خوار ہو۔
فرانکوئے اور پرالٹ کو چار سو میل کا سفر طے کرنا تھا۔ ان کے پاس نو کتے تھے اور بک ان ہی میں ایک تھا۔ وہ روزانہ برفانی گاڑی کھینچتا۔ محنت نے اُس کو طاقت ور بنا دیا تھا اور اس کی طاقت بڑھتی جارہی تھی۔ کتوں کا سردار اسپٹز تھا اور وہ بک کو ذرا بھی پسند نہ کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بک اُس کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ وہ کتوں کا سردار بننا چاہتا۔
۲
ایک روز دن بھر برفانی گاڑی کھینچنے کے بعد کتے سستانے کو بیٹھ رہے تھے۔ بک اور اسپٹز نے ایک دوسرے کو خوں خوار نگاہوں سے دیکھا۔ دونوں جانتے تھے کہ سرداری کے لیے ان میں کسی وقت بھی مقابلہ ہونے والا ہے۔ اسی دوران کچھ شور ہوا۔ کتے اپنے بھٹوں سے نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ اجنبی کتے خیمے میں سے گوشت اور کھانے کا دوسرا سامان لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرانکوئے اور پرالٹ ان کی طرف لپکے اور ساتھ ہی ان کے نو کتے بھی۔ اجنبی کتے بہت بھوکے لگ رہے تھے۔ بک نے اس سے پہلے ایسے کتے نہیں دیکھے تھے۔ ان کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں اور وہ بہت کم زور دکھائی دے رہے تھے۔ بک کے ساتھی تن درست و توانا تھے۔ انھوں نے ان اجنبی کتوں پر حملہ کر دیا مگر وہ شاید اتنے بھوکے تھے کہ کھانے کے پاس سے ہلے تک نہیں۔ اب لڑائی شروع ہوگئی۔ فرانکوئے اور پر الٹ نے اجنبی کتوں پر ڈنڈے برسائے مگر پھر بھی وہ کھانے کی بہت سی چیزیں لے کر بھاگ گئے۔ بک اور اُس کے ساتھی بھی جو لڑ کر بے جان ہو گئے تھے، اپنے اپنے بر فیلے بھٹوں میں گھس گئے۔ بک کو آج یہ بات معلوم ہوئی کہ بھوک سب کچھ کرا دیتی ہے۔
لڑنے بھڑنے سے چوں کہ کتوں کا بُرا حال ہو گیا تھا اس لیے فرانکوئے اور پر الٹ نے دوسرے دن سفر نہیں کیا۔ تیسرے دن جب وہ تازہ دم ہو گئے تو سفر پر روانہ ہوئے۔ چار سو میل کا سفر لمبا سفر تھا۔ دن گزرتے رہے اور وہ گاڑی کھینچتے رہے۔ اسپٹز اور بک میں اکثر کھانے پر جھگڑا ہوتا رہتا تھا، لیکن پرالٹ یہ جھگڑا بڑھنے نہیں دیتا تھا۔ باقی سات کتوں کو بھی پتا تھا کہ دونوں میں لڑائی ہوکر رہے گی۔ سیدھی سی بات تھی، ایک ہی کو سردار رہنا تھا۔ پھر ایک دن بک اور اسپٹر میں مقابلہ ہو ہی گیا۔
بک کیمپ کے قریب گھوم رہا تھا کہ اسپٹز نے اس پر حملہ کر دیا۔ پہلے اُس نے بک کی گردن میں کاٹا اور پھر منھ پر۔ بک بھی غضب ناک ہو گیا۔ اُس نے اسپٹز پر حملہ کیا مگر وہ داؤ دے گیا۔ بک نے اُسے زمین پر گرا کر اُس کی گردن میں دانت گاڑ دیے۔ اور اُسے مار ڈالا۔
باقی ساتوں کتے بک کے پاس آئے اور اُس کو چاٹنے لگے۔ بک نے اُن کو منھ اُٹھا کر دیکھا۔ اب وہ اُن کا سردار تھا۔ وہ سب سے طاقت ور اور خوں خوار تھا۔ دوسرے دن صبح کے وقت جب چلنے کی تیاری ہوئی تو فرانکوئے اور پرالٹ کو اسپٹز نظر نہیں آیا۔ انھوں نے بک کو دیکھا کہ وہ زخمی ہے۔ وہ سمجھ گئے کہ سرداری کے مقابلے میں بک نے اسپٹز کو مار ڈالا ہے۔ مگر انھوں نے بک کو سب سے آگے نہیں رکھا اور ایک اور کتے کو جس کا نام سولک تھا ،برف گاڑی میں سب سے آگے جو تنے لگے۔ سولک بک سے اتنا زیادہ خوف زدہ تھا کہ اُس نے آگے آنے سے انکار کر دیا اور پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ بک سرداری کا مقابلہ جیت چکا تھا اور اسے اس کا حق ملنا چاہیے تھا۔ پر الٹ اور فرانکوئے کو اُس کا یہ حق کہ وہ سب سے آگے رہے تسلیم کرنا پڑا۔
اب بک سردار تھا اور اُس کی قیادت میں کتوں نے روزانہ سے دوگنا زیادہ فاصلہ طے کرنا شروع کر دیا۔ وہ اپنی سرداری میں مگن تھا اور کتوں کو مجبور کرتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تیز چلیں۔ آخر کار وہ شہر اسکاگ وے پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر پرالٹ اور فرانکوئے نے کتوں کو بیچ دیا اور اپنے کام میں لگ گئے۔
چارلس، مرسیڈیز اور ہال اب ان کتوں کے نئے مالک تھے۔ وہ شمال کے برفانی علاقے میں سیر و تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے۔ وہ پہلی مرتبہ یہاں آئے تھے۔ اُنھیں برفانی علاقے میں کتوں کے ساتھ سفر کرنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ بک اور اُس کے ساتھی کتوں کو لمبے سفر کے بعد کم سے کم ایک ہفتے آرام کی ضرورت تھی۔ مگر یہ نئے سیاح اس سے واقف نہیں تھے۔
ایک تو انھوں نے یہ حماقت کی کہ کتوں کو آرام کرنے کا موقع نہیں دیا اور پھر دوسری غلطی یہ کی کہ برفانی گاڑی پر بہت زیادہ سامان لاد دیا۔ کتوں کے راتب کا بھی انھوں نے خیال نہیں رکھا۔ بس تھوڑا سا گوشت رکھ لیا۔ کتے تھکے ہوئے تھے پھر بھی انھوں نے گاڑی کھینچنے کی کوشش کی۔ بوجھ کی وجہ سے گاڑی اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں۔ چارلس نے اُن کے ایک کوڑا رسید کیا۔ کتوں نے پھر زور لگایا۔ برفانی گاڑی کچھ آگے بڑھی اور پھر لڑھک گئی۔ بوجھ بہت زیادہ تھا۔ سیاحوں نے کچھ سامان کم کیا تاکہ گاڑی ہلکی ہو جائے۔ اب گاڑی چل پڑی۔
بک بہت تھکا ہوا تھا، لیکن اُس نے اپنے کام میں کمی نہیں کی۔ پہلی رات سیاحوں نے خیمہ لگانے کی کوشش کی مگر وہ گر پڑا۔ بک انھیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ یہ لوگ بالکل اناڑی تھے۔ کبھی برفانی علاقے میں آئے ہی نہ تھے۔ انھوں نے کتوں کو کھانا بھی ضرورت سے زیادہ دے دیا۔ چناں چہ چند ہی دن میں کتوں کا راتب ختم ہوگیا۔ مرسیڈیز کو سردی بہت لگتی تھی۔ اسے شمال کا یہ سفر پسند نہیں تھا۔ چارلس اور ہال بھی اب اپنی حماقت پر پچھتا رہے تھے مگر واپس جانے کا سوال نہیں تھا۔ قریب سے قریب شہر بھی کوسوں دور تھا۔ شمالی علاقے میں اب بہار کا موسم شروع ہو گیا تھا۔ برف پگھلنے لگی تھی۔ بک کو اپنے پنجوں کے نیچے زمین نرم محسوس ہو رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ جب برف پگھلنے لگتی ہے تو دریاؤں پر جہاں سردیوں میں برف جم جاتی ہے، سفر نہیں کرنا چاہیے، یہ بڑا خطرناک ہوتا ہے کیوں کہ بوجھ سے برف ٹوٹ جاتی ہے اور دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن چارلس اپنی برفانی گاڑی کو منجمد دریا پر ہی چلا رہا تھا۔
دن گزرتے رہے۔ سیاح خوش نہیں تھے۔ اُنھیں اس سفر میں مزہ نہیں آرہا تھا۔ کتے بھی بھو کے تھے۔ ایک روز اُن کا گزر ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک شخص جان تھورنٹن نے کیمپ لگایا تھا۔ جان کے پاس دو کتے تھے اسکیٹ اور نِگ۔ تھور نٹن نے سیاحوں کو روک کر ان سے باتیں کیں۔ اُسے بہت جلد معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ بے وقوف ہیں اور نہیں جانتے کہ شمال کے علاقوں میں سفر کیسے کیا جاتا ہے۔ اُس نے کتوں کو بھی دیکھا۔ وہ تھکن اور بھوک سے چور نڈھال ہو رہے تھے۔ جان تھور نٹن نیک اور رحم دل انسان تھا۔ اُسے کتوں کا یہ حال دیکھ کر افسوس ہوا۔
چارلس، مرسیڈیز اور ہال کچھ دیر وہاں رہے۔ جان نے انھیں کافی پلائی پھر وہ چلنے کے لیے اٹھے۔ کتوں کو گاڑی کھینچنے کا اشارہ کیا مگربک بہت تھکا ہوا تھا۔ اُس نے گاڑی نہیں کھینچی، وہ مر جانا چاہتا تھا، اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ چارلس کو غصہ آگیا۔ اُس نے چابک اُٹھایا اور زور سے بک کے مارا۔ اس بے رحمی پر جان کو غصہ آگیا۔ اُس نے لپک کر چارلس سے چابک چھین لیا۔ اس پر چارلس غصے سے بولا:
’’یہ کیا حرکت ہے؟‘‘
’’اگر تم نے اب اس کتے کو مارا تو میں تمھیں مار ڈالوں گا۔‘‘ جان نے کہا اور چاقو نکال لیا۔
جھگڑا بڑھتے دیکھ کر ہال خوف زدہ ہو گیا اور مرسیڈیز تو رونے لگی۔
’’یہ میرا کتا ہے ۔‘‘چارلس بولا ۔
’’ٹھیک ہے۔ یہ کتا اب میرے پاس رہے گا ۔‘‘ جان تھورنٹن نے بک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
چارلس نے سوچا یہ آدمی یہیں کا رہنے والا ہے۔ اور مارنے مرنے پر تلا ہے، اس سے لڑنا بے کار ہے۔ وہ جان سے بولا:
’’یہ کتا تم شوق سے لے سکتے ہو۔ یوں بھی یہ مراؤ دھرا ہے۔‘‘
پھر وہ تینوں اپنی گاڑی پر سوار ہو گئے۔ کتے آہستہ آہستہ اسے کھینچنے لگے۔ بک جہاں پڑا تھا وہیں پڑا رہا۔
’’دیکھو دریا پر سفر نہ کرنا۔ برف پگھل رہی ہے۔ یہ بڑا خطرناک ہے۔‘‘ چلتے وقت جان تھورنٹن نے چارلس سے کہا، لیکن چارلس کی سمجھ میں نہیں آیا اور وہ دریا ہی کے راستے پر چل پڑا۔ جان کو معلوم تھا کہ برف کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی وہ دریا میں ڈوب جائیں گے۔ بہر حال اُس نے اُن کو سمجھا دیا تھا۔ پھر وہ بک کی طرف متوجہ ہوا۔ اُس نے بک کے دبلے پتلے بدن کو ٹٹول کر دیکھا۔ کہیں کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی ہے۔ پھر اس کی پیٹھ اور ٹانگوں کی مالش کی، اُسے گوشت دیا اور دیر تک اُس کے پاس بیٹھا رہا۔ اچانک ایک آواز سنائی دی۔ یہ برف ٹوٹنے کی آواز تھی۔ پھر چیخوں کی آوازیں آئیں۔ جان تھورنٹن اور اُس کے کتوں نے کان کھڑے کیے۔ یہ چارلس، مرسیڈیز اور ہال کی چیخیں تھیں۔ دریا پر جمی ہوئی برف ٹوٹ گئی تھی اور وہ تینوں کتوں اور برفانی گاڑی سمیت دریا میں ڈوب گئے تھے۔
بک حیران تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ جان اس قدر مہربان کیوں ہے اور اُس کے کتے اُس سے لڑنے کی بجائے اس کا بدن کیوں چاٹ رہے ہیں۔ اُس نے سر اٹھایا اور جان تھورنٹن کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ کتنا نیک اور اچھا انسان تھا۔ اُس کا دل احسان مندی کے جذبے سے بھر گیا۔
جان کو جانوروں سے محبت تھی اور کتوں سے تو وہ خاص طور پر محبت کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کتے انسان کی خاطر بڑی محنت کرتے ہیں۔ اُسے ان لوگوں پرغصہ آتا تھا جو کتوں پر ظلم کرتے ہیں۔
دو ہفتے تک جان نے بک کی رات دن دیکھ بھال کی۔ وہ اسے نہلاتا اور اپنے ہاتھ سے کھانا دیتا۔ وہ اس کا بڑا خیال رکھتا۔ اس کے دوسرے دو کتے، اسکیٹ اور نِگ رات کو بک کے پاس سوتے تاکہ وہ گرم رہے۔ آہستہ آہستہ بک کی طاقت بحال ہونے لگی اور اُس کی توانائی واپس آنے لگی۔ وہ خوش تھا۔ بہت دن کے بعد کسی نے اس سے محبت کی تھی۔ ابتدا میں کچھ دن تک وہ جان تھورنٹن کو غور سے دیکھتا رہا۔ اُسے ہر وقت یہ ڈر لگتا کہ اب اس کے ڈنڈا پڑا یا چابک لگا۔ جب کئی دن تک ایسا نہیں ہوا تو اُسے اطمینان نصیب ہوا۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اُس کے ساتھ اتنی محبت اور مہربانی کا برتاؤ کیا تھا۔ جج ملر بھی اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے لیکن جان کی طرح کس نے اُس سے محبت نہیں کی تھی۔
۳
جلد ہی بک دوڑنے بھاگنے لگا۔ اسکیٹ اور نگ اس کے ساتھ کھیلتے تھے۔ جان تھورنٹن لکڑی کے ٹکڑے پھینکتا اور یہ تینوں دوڑ کر انھیں پکڑتے اور اس کے پاس لے آتے۔ تھورنٹن کتوں کو اپنے ساتھ دُور تک ٹہلانے لے جاتا اور انھیں گوشت کھانے کو دیتا۔ بک بھی اپنے مالک سے بہت محبت کرنے لگا تھا۔ وہ ہر وقت اُس کے ساتھ رہتا۔ وہ بہت خوش تھا۔ رات کے وقت جب تھور نٹن آگ کے سامنے بیٹھتا تو بک اُس کے پاس آبیٹھتا اور اس کے قدموں میں سر ڈال دیتا۔
اب موسم بہار شروع ہو چکا تھا۔ تھورنٹن اپنا سرمائی کیمپ چھوڑ کر اپنے دوستوں سے ملنے چل پڑا۔ اُس کے پاس ایک چھوٹی سی برفانی گاڑی تھی جسے اس کے تینوں کتے کھینچتے۔ برف پگھل جانے سے دریا پھر بہنے لگے تھے۔ ایک ہفتے تک وہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھر ایک جگہ رُک کر تھورنٹن اپنے دوستوں کا انتظار کرنے لگا۔ چند ہی دن میں اُس کے دوست پیٹ اور ہانس ایک کشتی میں سوار وہاں پہنچ گئے۔ دریا کے کنارے کشتی ٹھیرا کر اُنھوں نے جان اور اس کے کتوں کو کشتی میں سوار کرایا اور ڈاسن شہر کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے کھانے پینے کا سامان خریدا، کشتی وہیں چھوڑی اور برفانی گاڑی پر اگلی منزل کی طرف چل دیے۔
یہ بڑا ہی خوش گوار سفر تھا۔ سب ایک دوسرے کے دوست تھے۔ انسان بھی اور کتے بھی۔ بک ایک جنگلی کتا تھا اور تھورنٹن کی محبت کے باوجود وہ اب بھی جنگلی کتا ہی تھا۔ وہ کبھی کبھی جنگل میں بھاگ جاتا، لیکن جلد ہی تھور نٹن کے پاس واپس آجاتا۔ اسی طرح ان کا سفر جاری رہا۔ موسم بہار موسم گرما میں بدل گیا اور پھر گرمیاں بھی رخصت ہونے لگیں۔ تھورنٹن اور اس کے دوستوں کا سفر جاری تھاکہ اچانک ایک حادثہ پیش آگیا۔ وہ دریا کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ تھورنٹن دریا میں گر پڑا۔ پانی کا بھائو تیز تھا۔ تھورنٹن بہتا چلا گیا۔ بک نے تھورنٹن کو ڈوبتے دیکھا تو چھلانگ لگا کر پانی میں کود گیا، اور تیزی سے تیرتا ہوا تھورنٹن کے پاس پہنچا۔ پانی کا زور تھا مگر بک نے تھورنٹن کا کوٹ مضبوطی سے دانتوں میں پکڑ لیا اور اُسے کھینچتا ہوا کنارے تک لے آیا۔ بک نے اس کی جان بچالی۔ تھورنٹن نے بک کو دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ سوچنے لگا،’’ یہ کتا کتنا اچھاہے۔ کیسا وفادار دوست ہے ۔‘‘
سفر جاری رہا۔ بک تھورنٹن کے ساتھ ساتھ رہتا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُسے کوئی نقصان پہنچے۔ تھورنٹن کے دوست بھی بک کی تعریف کرتے۔ اُن کا خیال تھا کہ بک نہ صرف ایک بہترین کتا ہے بلکہ شمال میں اس سے زیادہ طاقت ور اور کوئی کتا نہیں ہوگا۔ اب خزاں کا موسم آگیا۔ تھورنٹن اور اس کے دوست گھومتے پھرتے پھر ڈاسن شہر واپس آگئے۔ اُنھیں برفانی گاڑی خریدنے کے لیے رقم چاہیے تھی۔ بک نے یہ رقم انھیں مہیا کر دی اور وہ ایسے کہ انھوں نے کچھ لوگوں سے یہ شرط لگائی کہ بک ایک ہزار پونڈ وزن کھینچ سکتا ہے۔ وہ لوگ ہنس پڑے کیوں کہ مضبوط سے مضبوط کتا بھی سات سو پونڈ سے زیادہ وزن نہیں کھینچ سکتا۔ انھوں نے شرط قبول کرلی اور کہا کہ اگر بک ایک ہزار پونڈ وزن کھینچ لے تو وہ سولہ سو ڈالر دیں گے۔
جان تھورنٹن نے بک سے کہا کہ یہ شرط جیتنا ہے۔ پھر اُسے برفانی گاڑی میں جوت دیا۔ بک نے گاڑی کھینچنے کی کوشش کی مگر وہ ذرا نہ ہلی۔ بک جانتا تھا کہ تھورنٹن کو رپے کی ضرورت ہے۔ وہ زور لگاتا رہا، گاڑی نے حرکت شروع کی۔ پہلے آہستہ آہستہ پھر ذرا تیزی سے اور پھر تو بک اُسے لے کر تیزی سے دوڑنے لگا۔ وہ لوگ حیران رہ گئے۔ انھوں نے شمال میں بڑے مضبوط کتے دیکھے تھے، لیکن ایسا مضبوط اور طاقت ور کتا اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ وہ شرط ہار گئے۔ انھوں نے تھورنٹن کو سولہ سو ڈالر دے دیے۔ تھورنٹن نے خوش ہو کر بک کی طرف دیکھا۔ بک بھی خوش تھا کہ اس نے پانچ منٹ میں اپنے مالک اور دوست کے لیے سولہ سو ڈالر کما لیے۔ شرط میں جیتی ہوئی رقم سے جان اور اس کے دوستوں نے ایک نئی برفانی گاڑی، گرم کپڑے اور کھانے کا سامان خریدا۔ برفانی گاڑی جو اُنھوں نے نئی خریدی تھی وہ بھاری تھی اس لیے جان نے کئی کتے اور خریدے۔ انھیں دُور شمال میں جانا تھا۔ وہ سونے کی تلاش میں تھے۔ اُن سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے وہاں جانے کی کوشش کی مگر جو گیا وہ واپس نہ آیا۔ سونے کی تلاش میں بہت لوگوں نے اپنی جانیں کھوئیں۔
جان اور اس کے دوستوں نے سُنا تھا کہ بہت دُور شمال کے برفانی علاقے میں سونے کی کان ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس سونے کی کان کی تلاش میں بہت ے لوگوں کی جانیں گئی ہیں، مگر وہ اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے۔
پھر ایک دن وہ اپنے نئے سفر پر روانہ ہو گئے۔ برفانی گاڑی کو جو کتے کھینچ رہے تھے ان کا لیڈر بک تھا۔ اُس کے پیچھے اسکیٹ اور نگ، پھر بعد میں دوسرے نئے کتے جو جان نے ڈاسن میں خریدے تھے۔ دن گزرتے چلے گئے۔ ان کا سفر جاری رہا۔ بک نے اب تک جو راستے دیکھے تھے وہ پیچھے رہ گئے۔ اب وہ نئے راستوں پر جا رہا تھا جہاں بہت کم انسان آئے تھے۔ مگر وہ جان کی گاڑی کھینچنے میں خوش تھا۔
راستے میں جان اور اس کے دوست کبھی ایک ایک ہفتے ایک جگہ ٹھیرتے۔ وہ چشموں کے پانی میں کچھ تلاش کرتے۔ بک کو نہیں معلوم تھا کہ وہ پانی میں سونے کے ذرے تلاش کرتے ہیں۔ جب یہ ذرے اُنھیں نہیں ملتے تو وہ پھر آگے سفر شروع کر دیتے۔ چند ہفتے سفر کرنے کے بعد پھر کہیںرک جاتے ۔بک رات کو آگ کے پاس بیٹھ جاتا۔ کبھی کبھی اُس کو جنگل سے کچھ عجیب سی آوازیں سنائی دیتیں۔ یہ کسی جانور کی آوازیں تھیں جسے بک نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ جب یہ آوازیں آتیں تو جان اور اُس کے دوست بندو قیں سنبھال کر بیٹھ جاتے۔ جب وہ ایک آدھ ہفتے کے لیے کہیں رکتے تو بک اور اُس کے ساتھی کتوں کو کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ آپس میں کھیلتے رہتے، لیکن بک جنگل میں چلا جاتا۔ اُسے جنگل پسند تھے۔ ایک دن اُس نے جنگل میں ایک جانور دیکھا جو کتے کی طرح کا تھا مگر بک جانتا تھا کہ وہ کتا نہیں ہے۔ بک اس جانور پر لپکا تاکہ اُسے مار ڈالے، لیکن وہ پلٹ کر بک کے پاس آگیا اور دوستی کے اظہار کے طور پر اپنی ناک اس کی ناک سے رگڑنے لگا۔ یہ ایک جنگلی بھیڑیا تھا۔ وہ بک سے چھوٹا تھا۔ بک چاہتا تو اُسے بھنبھوڑ ڈالتا مگر وہ جنگلی بھیڑیے کا دوست بن گیا۔ وہ اُس کے ساتھ جنگل میں دوڑتا پھرا۔ پھر وہ کیمپ میں واپس آگیا جان کے پاس۔؎
بک کا جی چاہتا تھا کہ وہ جان تھورنٹن کے پاس سے نہ جائے مگر اس کا دل جنگل میں لگتا تھا۔ وہ بھیڑیے کو اپنا بھائی سمجھتا تھا۔ دن میں وہ جنگل میں چلاجاتا، بھیڑیے کے ساتھ کھیلتا کودتا اور شام کو واپس جان کے پاس آجاتا۔ ایک مرتبہ وہ رات کو بھی جنگل ہی میں رہا، لیکن صبح ہوتے ہی جان کے پاس واپس آگیا۔
جان اور اس کے دوستوں کو آخر کار سونا مل ہی گیا۔ سونے کے بڑے بڑے ڈلے اُن کو مل گئے اور وہ کئی ہفتوں کے لیے وہاں رہ پڑے۔ بک جنگل میں چلا گیا۔ بھیڑیے کے ساتھ شکار کھیلتا اور دوڑتا۔ پھر کچھ اور بھیڑیے آگئے اور وہ ان کے ساتھ جنگل میں دُور نکل گیا۔ تین دن وہ اُن کے ساتھ رہا۔ پھر اچانک اسے جان یاد آگیا اور وہ میلوں دور سے بھاگتا ہوا کیمپ کی طرف چل پڑا۔
کیمپ سے کوئی میل بھر اِدھر اُسے ہوا میں کچھ عجیب سی بو محسوس ہوئی ۔وہ چوکنا ہو گیا، آگے بڑھا تو دیکھا نگ مرا پڑا ہے۔ ایک تیر اس کے جسم میں لگا تھا۔دوسرے کتے بھی اسی طرح مرے پڑے تھے۔ اُن کے بھی تیر لگے تھے۔ کیمپ سے کوئی سو گز کے فاصلے پر جان تھورنٹن کی لاش پڑی تھی، اس کے برابر ہی پیٹ اور ہانس مرے پڑے تھے اور کچھ انڈین اُن کے قریب آگ کے گرد ناچ رہے تھے۔
اُنھیں دیکھ کر بک کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ انھوں نے اُس کے دوست کو مار ڈالا تھا۔ اُس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے لپک کر ایک انڈین پر حملہ کر دیا اور اس کی گردن چبا ڈالی۔ پھر اس نے دوسرے انڈین پر حملہ کیا اور اسے بھی مار ڈالا، پھر ایک تیسری کی گردن چیا ڈالی۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ ان سب کو مار ڈالے۔ جو انڈین بچ رہے تھے وہ خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلے۔ انھوں نے کسی جانور کو کبھی اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔
بک، جان تھور نٹن کی لاش کے پاس بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ وہ روتا رہا، روتا رہا۔ کئی گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ پھر بھیڑ یے آگئے۔ بک نے انھیں غصے سے دیکھا۔ وہ بک پر غراتے، بک اُن پر غرایا۔ وہ زیادہ طاقت ور تھا اور زیادہ زور سے غرا رہا تھا۔ بھیڑیوں نے اُسے اپنا سردار مان لیا۔ بگ اب خود ایک بھیڑیا تھا۔ شمال کے برفانی علاقوں کے جنگلی بھیڑیوں کا سردار۔
بک بھیڑیوں کے ساتھ جنگل میں چلا گیا۔ وہیں رہنے لگا۔ کبھی کبھی اُسے جان تھور نٹن یاد آتا تو وہ کیمپ کی جگہ آجاتا اور وہاں بیٹھ کر روتا۔ اُسے جان کی محبت اور اس کی مہربانیاں یاد آتیں۔ پھر یہ اُداس لمحے گزار کر وہ واپس جنگل میں چلا جاتا۔ آخر تو وہ جنگلی بھیڑیوں کا سردار تھا، ان سب سے زیادہ طاقت ور۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top