ایک تھی نوری
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔
”لو بہن!سنبھالو میرا گھر۔میں نے تو تیاری کرلی ہے۔“
”جا رہی ہو؟“
”ہاں بہن!کافی دور جانا ہے،شام تک پہنچوں گی۔“
”اچھا بہن!بڑا بوجھ ڈال رہی ہو مجھ پر۔خیر دیکھاجائے گا۔“
”کیا کروں بہن! کسی پر اعتبار نہیں،تم صرف ہمسائی ہی نہیں بہن بھی ہو،تم پر اعتبار نہیں کروں گی تو کس پر کروں گی؟“
بھلا بتاﺅ تو سہی ،یہ گفت گو کن کے درمیان ہوئی تھی؟میرا خیال ہے کہ آپ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ باتیں دو عورتوں کے درمیان ہوئی تھیں۔
نہیں بچو! ایسا نہیں،یہ باتیں عورتوں کے درمیان نہیں ہوئی تھیں۔تو پھر یہ باتیں کرنے والی کون تھیں؟یہ تھیں دو چڑیاں۔ایک کا نام تھا نوری اور دوسری کا فرخو۔دونوں کے گھونسلے پیپل کی ایک شاخ پر تھے۔نوری کا گھونسلا فرخو کے گھونسلے سے کافی نیچے تھااور پوری طرح پتوں سے بھرا ہو اتھا۔فرخو کا گھونسلا بڑی اونچی شاخ پر تھا اور دونوں کے گھونسلوںمیں فاصلہ تھا،مگر ان دونوں نے اس فاصلے کا کبھی خیال نہیں کیا تھا۔ان کے دلوں میں ایک دوسر کے لیے بڑی محبت تھی۔صبح جاگ کر دانہ دنکا چگنے سے پہلے ایک دوسری سے ضرور ملتی تھی اور حال پوچھتی تھی۔کوئی ایک پریشان ہوتی تھی تو دوسری کو بھوک پیاس بھول جاتی تھی اور جب تک یہ پریشانی دور نہ کرلیتی اسے چین نہیں آتا تھا۔اب ہوا یہ تھا کہ فرخو کی بہن بڑی دور اپنے گھربیمار تھی اور اس نے فرخو کو بلا بھیجا تھا۔ایک بہن بیمار ہو اور دوسری آرام سے اپنے گھر بیٹھی رہے،یہ کیسے ہو سکتا ہے۔چناں چہ فرخو اپنی بہن کے ہاں جا رہی تھی۔گھر میں کوئی تھا نہیں،اس لیے اس نے اپنی ہمسائی نوری سے کہا کہ میں جا رہی ہوں۔ تم میرے گھر کی حفاظت کرنااور نوری نے یہ بات مان لی تھی۔
فرخو کو اطمینان ہو گیاکہ جب تک وہ لوٹے گی نہیں،اس کے گھونسلے کی حفاظت نوری کرتی رہے گی اور وہ نوری کا شکریہ ادا کرکے بہن کے گھر کی طرف اڑ گئی۔فرخو کے جانے کے بعد نوری کو پہلی تکلیف یہ ہوئی کہ اس کا گھونسلا تو ایک نچلی شاخ پرتھا ا ور اس کی ہمسائی کا گھونسلانچلی شاخ پر تھا۔دونوں گھونسلے ساتھ ساتھ ہوتے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔اپنے گھونسلے کے دروازے پر بیٹھ کر وہ دوسرے گھونسلے کو آسانی سے دیکھ سکتی تھی۔لیکن اب ایسا ہوہی نہیں سکتا تھا۔اس لیے وہ آدھا دن تو اپنے گھونسلے میں رہتی اور باقی آدھا دن فرخو کے گھونسلے میں گزارتی تھی۔رات کے وقت بھی کبھی اپنے گھونسلے میں رہتی تھی اور کبھی دوسرے میں۔
چند دن گزرے ہوں گے کہ اس کی ماںاس سے ملنے کے لیے وہاں آ گئی۔نوری بڑی خوش ہوئی کہ اب وہ دن رات فرخو کے گھونسلے میں رہ کر اس کی حفاظت کرسکتی تھی۔
ماں سے بولی:”امی!آپ آگئی ہیں تو میں فرخو کے گھر میں رہوں گی۔“
”وہ کیوں بیٹی؟“اس کی امی نے پوچھا۔
”وہ اس لیے امی کہ مجھے فرخو کے گھر کی حفاظت کرنی ہے۔یہ کام وہ میرے سپرد کر گئی ہے۔دیکھیں نا امی!گھر خالی ہوتو کوئی نہ کوئی اس پر قبضہ کر سکتا ہے۔“
”یہ تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے،بیٹی !کہو تو میں فرخو کے گھونسلے میں چلی جاتی ہوں۔“
”نہیں امی!آپ کو وہاں گرمی لگے گی۔گھونسلے کے ارد گرد پتے ہیں نہیں۔یہاں آپ کو آرام ملے گا۔“
نوری فرخو کے گھونسلے میں چلی گئی اور اس کی حفاظت کرنے لگی۔دن میں دو تین باراپنے گھونسلے میں آکر اپنی امی سے کچھ دیر باتیں کر لیتی تھی۔ان سے پوچھ لیتی تھی،امی کھانے پینے کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے اور پھر واپس فرخوکے گھونسلے میں چلی جاتی۔
ایک صبح تیز ہوا چلنے لگی۔نوری اپنی ایک سہیلی سے ملنے گئی ہوئی تھی۔اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر ہوا تیز ہوتی گئی تو یہ آندھی بن جائے گی۔میرا گھر تو پتوں سے گھرا ہوا ہے،اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،مگر فرخو کا گھونسلا تو ننگا ہے۔آندھی کے جھونکوں سے وہ گر کر بکھر جائے گا اور پھر اسے دوبارہ بنانا بڑا مشکل کام ہوگا۔یہ سوچتے ہی وہ اڑی اور تیز ہوا کے آندھی بننے سے پہلے ہی اپنے گھونسلے میں پہنچ گئی۔اس کی امی اسی کا راستہ دیکھ رہی تھی۔
”خدا کا شکر ہے تم آگئی ہو بیٹی نوری!میں تو بہت گھبرا رہی تھی۔“
نوری کہنے لگی:”امی!میں تو آگئی ہوں،مگر فرخو کے گھونسلے کا کیا بنے گا۔اس کی حفاظت میرے ذمے ہے۔“
”بیٹی! آندھی میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟“
”اللہ کرے آندھی نہ آئے۔“نوری نے دعا مانگی،لیکن آندھی چلنے لگی اور رات تک چلتی رہی۔
نوری کی آنکھوں میں نیند کہاں۔بے چاری یہ خیال کرکے تڑپتی رہی کہ فرخو کا گھر تباہ ہو جائے گا۔وہ لوٹے گی اور اپنا گھر نہیں دیکھے گی تو اسے بڑا دکھ ہوگا۔
صبح منہ اندھیرے ہی نوری اپنے گھونسلے سے نکلی اور درخت کے اوپر وہاں پہنچی جہاں فرخو نے گھونسلا بنا رکھا تھا،مگر یہ دیکھ کر اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیاکہ وہاں گھونسلا نظر ہی نہیں آتا تھا۔”ہائے میری پیاری بہن کا گھر برباد ہوگیا۔“نوری کے منہ سے نکلا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔وہ ایک ٹہنی پر بیٹھی رہی اور آنسو بہاتی رہی۔پھر وہاں سے اپنے گھونسلے میں آگئی۔
”کیا ہوا نوری بیٹی؟اتنی غمگین کیوں ہو؟“اس کی امی نے پوچھا۔
”امی میری فرخو کا گھر تباہ ہوگیا ہے۔“
اس کی امی کو اس کا بڑا افسوس ہوا مگر وہ کیا کر سکتی تھی۔
”امی!اب میں کیا کروں؟“نوری نے اپنی ماں سے سوال کیا۔
”بیٹی! تو کیا کر سکتی ہے۔کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔تمہاری ہمسائی نے اتنی بلندی پر گھر کیوں بنایا تھا اور پھر ایک ننگی ٹہنی پر کیوں بنایا تھا؟“نوری کا دل بری طرح بے چین تھا۔اس کی سمجھ میںنہیں آتا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔اس کا دل کوئی کام کرنے کو نہیں چاہتا تھا۔اس کی امی اسے باربار سمجھاتی تھیں کہ نوری بیٹی،اب تو کیا کر سکتی ہے۔نہ آندھی آتی نہ فرخو کا گھر تباہ ہوتا۔
”پر امی!اس کے گھر کی حفاظت کرنا تو میرا کام تھا۔“
“پگلی بیٹی!آندھی میں تو اس کے گھر کی کیوں کر حفاظت کر سکتی تھی۔“اس کی امی بولی۔
”امی فرخو کو بڑا دکھ ہوگا۔“
”ہاں دکھ تو ہوگا اسے۔“ماں نے کہا۔
نوری دیر تک بیٹھی رہی،پھر یکایک اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
”امی!میں ہمت کروں گی ،اس کا گھر بناﺅں گی۔“
اور یہ کہہ کر نوری گھونسلے سے نکلی اور ایک ایک تنکا اوپر ایک ٹہنی پر لانے لگی۔
وہ یہ کام کرتی رہی، کرتی رہی،یہاں تک کہ تھک کر نڈھال ہوگئی۔مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور شام سے پہلے پہلے فرخو کاگھونسلا بن گیا۔ رات کو وہ بے ہوش ہو کر سو گئی۔
صبح ابھی سورج نکلا ہی تھا کہ نوری نے آنکھ کھول کر ادھر ادھر دیکھا۔اس کے پاس فرخودکھائی دے رہی تھی۔
”فرخو!بہن تم آگئیں۔“
”ہاں نوری بہن میں کچھ دیر پہلے آئی ہوں۔“
”کیسی ہے تمہاری بہن؟“نوری نے پوچھا۔
”ٹھیک ہے۔“
”نوری بہن !خالہ نے مجھے سب کچھ بتادیا ہے جو کچھ تم نے میرے لیے کیا ہے،اس کاشکریہ میں ادا کر ہی نہیں سکتی۔“فرخو کی آنکھوں سے خوشی کے مارے آنسو بہنے لگے۔
”میری بہن شکریے کی کوئی ضرورت نہیں۔“اور یہ کہتے ہوئے نوری نے فرخو کو گلے لگا لیا۔