skip to Main Content
آئیوان: ایک احمق لڑکا

آئیوان: ایک احمق لڑکا

کہانی: Ivan The Fool
مصنف: Leo Tolstoy
انگریزی میں ترجمہ: Guy Daniels
انگریزی سے ترجمہ: جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باب: 1
بہت دور کسی ریاست میں ایک متمول کسان رہتا تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ شمعون (سپاہی)، تارس بروکھان (موٹا آدمی)، آئیوان (احمق) اور ایک بیٹی میلانیا، جو پیدائشی گونگی بہری تھی۔ شمعون فوج میں بھرتی ہوکر دور چلاگیا تھا اور تارس نے شہر میں جاکر تجارت شروع کردی تھی۔ تیسرا بھائی آئیوان، اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ گھر میں ہی رہتا تھا اور کھیتوں میں کام کرتا تھا۔
شمعون کو فوج میں بہادری سے خدمات انجام دینے پر جائیداد ملی تھی اور اس نے ایک رئیس کی بیٹی سے شادی بھی کرلی تھی۔ اپنی بھاری تنخواہ کے علاوہ وہ اپنی جائیداد سے اچھی آمدنی حاصل کرتا تھا۔ مگر پھر بھی اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو کچھ بچاتا، اس کی شاہ خرچ بیوی سب اڑا دیتی۔ ایک دن شمعون اپنی زمین پر آمدنی لینے کے لئے گیا تو ملازموں نے بتایا کہ اس دفعہ کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا۔ ”حضور! ہمارے پاس نہ ہل ہیں،نہ بیل اور نہ ہی بیج۔ یہاں تک کہ ماہی گیری کے جال بھی پھٹ چکے ہیں۔ تو آمدنی کہاں سے ہوگی۔ پہلے آپ کو یہ سب کچھ ہمیں خرید کر دینا ہوگا۔“
آخر شمعون اپنے والد کے پاس آیا اور کہا۔”آپ بہت امیر ہیں، لیکن آپ نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ جائیداد میں ایک تہائی حصہ میرا ہے۔ وہ مجھے دیں تاکہ میں اسے اپنی ضروریات میں استعمال کرسکوں۔“
بوڑھے کسان نے جواب دیا۔ ”ہمارے گھر میں خوشحالی لانے میں تمہارا کوئی کردار نہیں ہے، لہٰذا تم کو تیسرا حصہ نہیں مانگنا چاہیے۔ یہ آئیوان اور اس کی بہن کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔“
”لیکن، آئیون بالکل احمق ہے اور بہن گونگی ہے۔ ان کو بھلا کسی چیز کی کیا ضرورت؟ وہ روپے سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟“
”اچھا، چلو آئیوان سے پوچھ لیتے ہیں۔“باپ نے کہا۔
آئیون بولا۔”ٹھیک ہے۔ آپ اپنا حصہ لے سکتے ہیں۔“
شمعون نے اپنا حصہ لیا اور واپس لوٹ گیا۔
تارس کامیابی کے ساتھ کاروبار کر رہا تھا۔ وہ بہت امیر ہو گیا۔ اس نے ایک سوداگر کی بیٹی سے شادی بھی کرلی تھی، لیکن پیسے کے لیے اس کی ہوس بڑھتی جارہی تھی۔ لہٰذا وہ بھی اپنے والد کے پاس آیا اور کہا۔”مجھے میرا حصہ دے دیں۔“
بوڑھے باپ نے اس کی درخواست کو رد کردیا اور کہا۔ ”اس جائیداد کو بنانے میں تمہارا کوئی ہاتھ نہیں۔ آج ہمارے گھر میں جو کچھ ہے، وہ آئیوان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ آئیون اور اس کی بہن کے ساتھ ظلم ہوگا۔“
تارس نے جواب دیا۔ ”لیکن انھیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک احمق ہے۔ وہ شادی نہیں کرسکتا ہے، کیوں کہ کوئی لڑکی اس سے شادی نہیں کرے گی اور بہن کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ پیدائشی گونگی ہے۔“
وہ آئیوان کی طرف رخ کرتے ہوئے بولا۔ ”تمہارے پاس جتنا اناج ہے، وہ آدھا مجھے دے دو۔ میں اوزاروں یا ماہی گیری کے جالوں کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا اور مویشیوں میں سے، میں صرف بھوری گھوڑی ہی لوں گا کیوں کہ وہ ہل چلانے کے قابل نہیں ہے۔“
آئیوان نے ہنس کر کہا۔ ”ٹھیک ہے، میں جاکر تمہارے سامان کا بندوبست کرتا ہوں۔“
تارس بھورے رنگ کی گھوڑی اور اناج لے کر شہر چلاگیا اور آئیوان کے پاس صرف ایک بوڑھے گھوڑے کو چھوڑگیا، مگر آئیوان اسی طرح محنت سے کام کرتا رہا اور اپنے ماں،باپ اور بہن کی خدمت کرتا رہا۔

باب: 2
یہ دیکھ کر بوڑھے شیطان کو بہت مایوسی ہوئی کہ بھائیوں نے جائیداد کی تقسیم پر کوئی جھگڑا نہیں کیا اور وہ پر امن طورپر الگ ہوگئے ہیں۔ آخر اس نے اپنے تین چھوٹے شیطانوں کو بلایا اور غصے سے بولا۔ ”یہ دیکھو! یہاں تین بھائی رہتے ہیں۔ شمعون، تارس اور آئیوان۔ میں چاہتا تھا کہ وہ آپس میں لڑیں جھگڑیں مگر وہ پرامن رہے اور اپنے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا۔ اب وہ ایک دوسرے کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ انھوں نے میرے تمام منصوبوں کو ملیا میٹ کردیا ہے۔ تم تینوں ان کے پاس جاؤ اور کچھ ایسا کام کرو کہ وہ ایک دوسرے کے سر پھاڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ کیا تم یہ کرسکتے ہو؟“
”ہاں، ہم یہ کر سکتے ہیں۔“ انھوں نے جواب دیا۔
”تم یہ کیسے کرو گے؟“
”ہم پہلے انھیں اس حد تک برباد کردیں گے کہ ان کے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں بچے گا۔ پھر ہم انھیں ایک جگہ جمع کریں گے اور انھیں آپس میں لڑوا دیں گے۔“
”بہت خوب! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے کام کو سمجھتے ہو۔ جاؤ! اور میرے پاس اس وقت تک واپس نہ آنا جب تک تم تینوں بھائیوں کے درمیان تنازعہ پیدا نہ کردو۔“
تینوں چھوٹے شیطان دلدل میں اتر گئے تاکہ اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے لیے مشورہ کرسکیں۔ مگر ان میں بحث ہونے لگی۔ ہر کوئی آسان ترین کام لینا چاہتا تھا اور مشکل پر راضی نہیں تھا۔ آخر یہ طے کیا گیا کہ جس کا کام پہلے ختم ہو جائے گا اسے آکر دوسروں کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ معاہدہ ہونے پر انھوں نے دوبارہ ملنے کا ایک دن مقرر کیا، تاکہ جان سکیں کہ کس کا کام پورا ہوگیا ہے اور کس کو مدد کی ضرورت ہے اور اپنے اپنے مشن پر روانہ ہوگئے۔
کچھ دنوں بعد مقررہ دن پر تینوں چیلوں نے دوبارہ دلدل میں ملاقات کی اور اپنی اپنی کارگزاری سنائی۔ شمعون کے ساتھ لگا شیطان بولا۔ ”میں نے اپنے کام میں کامیابی حاصل کی ہے اور کل شمعون اپنے والد کے پاس واپس آجائے گا۔“
اس کے ساتھیوں نے تفصیلات کے لیے اشتیاق ظاہر کیا تو اس نے روداد سنانی شروع کی۔
”سب سے پہلے میں نے یہ کیا کہ شمعون کے دماغ میں غرور اور تکبر پیدا کیا، جس سے وہ دشمن کو کمزور سمجھنے لگا۔ وہ، زار کے پاس گیا اور اس کے لیے پوری دنیا کو فتح کرنے کی پیش کش کی۔ زار نے اسے فوج کا سپہ سالار بنا دیا اور ہندوستان کے بادشاہ سے لڑنے کے لیے ایک بڑی فوج کے ساتھ بھیجا۔ اپنے سفر کے آغاز پر انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں ان کا پیچھا کررہا ہوں اور میں نے ان کا سارا گولہ بارود بھگو دیا ہے۔ پھر میں ان سے پہلے ہندوستان پہنچ گیا اور وہاں کے بادشاہ کو بتایا کہ میں کس طرح تنکوں سے لاتعداد فوجی بنا سکتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوا اور اس نے مجھے کام کی اجازت دے دی۔
جنگ شروع ہوئی۔ میرے تخلیق کیے ہوئے جنگجوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شمعون کی فوج کو گھیرے میں لے لیا۔ اُس کی فوج اتنے بڑے ٹڈی دل کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔ شمعون نے توپوں اور رائفلوں سے فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔ مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے، کیوں کہ سب بارود گیلا ہوچکا تھا۔ وہ بوکھلا گئے۔ ان کے حوصلے پست ہوگئے اور ان میں ابتری پھیل گئی۔ آخر وہ میدان جنگ سے فرار ہوگئے۔ اس طرح شمعون کو خوفناک شکست کی بدنامی برداشت کرنی پڑی۔ اس کی جائیداد ضبط ہوگئی اور کل اسے پھانسی دی جائے گی۔ لہٰذا بس میرا یہ کام رہ گیا ہے کہ اسے قید سے فرار کرا کے اس کے ماں باپ کے پاس پہنچا دوں،پھر کام ختم۔ تم میں سے جس کو میری مدد چاہیے۔ میں مدد کے لیے تیار ہوں۔“
پھر دوسرے (تارس والے) شیطان نے اپنی کہانی بیان کی۔”مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے کام پر میری مکمل گرفت ہے، جو ایک ہفتے میں ختم ہوجائے گا۔ پہلے میں نے تارس کے دل میں لالچ کو خوب ہوا دی۔ وہ الٹے سیدھے سودے کرنے لگا۔ جس میں اُسے نقصان ہوا۔ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اسے سود پر قرض لینا پڑا، مگر اگلے سودوں میں بھی اس نے نقصان اٹھایا۔ آہستہ آہستہ اس کا سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ اس کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ اس ہفتے کے اختتام پر اس نے تمام قرض کی ادائیگی کرنی ہے، لیکن اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی سب جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔ وہ دیوالیہ ہو جائے گا۔ آخر وہ بھی اپنے والد کے پاس واپس جانے پر مجبور ہوجائے گا۔“
اس بیان کے اختتام پر انھوں نے تیسرے شیطان سے استفسار کیا کہ اس کے اور آئیوان کے مابین معاملات کیسے چل رہے ہیں۔
اس نے کہا۔”میری رپورٹ اتنی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ سب سے پہلے میں نے اس کے کوس (رائی کا مشروب) کے جگ میں پیٹ کے درد کی بوٹی ملادی۔ میرا خیال تھا کہ وہ اب کام نہیں کرے گا، مگر وہ کھیت میں چلا آیا اور کام شروع کردیا۔ میں نے کھیت کی زمین کو لوہے کی طرح سخت کردیا۔ لیکن بدھو نے اس کے باوجود کام جاری رکھا۔ وہ درد سے کراہتا رہا۔ پھر میں نے ایک ہل توڑ دیا، لیکن وہ اس کی جگہ دوسرا لے آیا۔ آخر میں نے زمین کی سطح کے نیچے جا کر ہل کو مضبوطی سے پکڑ لیا، لیکن آئیوان کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس نے ہل کو اتنی طاقت سے دھکیلا کہ میرے ہاتھ کٹتے کٹتے بچے۔ میری پوری کوشش کے باوجود، وہ کھیت کے ایک چھوٹے حصے کے علاوہ سب پر ہل چلانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ تو بھائیو! مجھے مدد کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر ہم اسے قابو نہ کرسکے تو وہ اسی طرح کام کرتا رہے گا اور کامیاب ہوجائے گا۔ پھر وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرے گا اور ہمارا منصوبہ ناکام ہوجائے گا۔“

باب: 3
آئیوان اپنی زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے سوا باقی سب پر ہل چلانے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اگلے دن وہ اس کو پورا کرنے کے لئے پھر واپس آیا۔ اس کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا، لیکن اس کا خیال تھا کہ اسے اپنے کام کو جاری رکھنا چاہئے۔ اس نے زمین پر ہل چلانے کی کوشش کی، لیکن ہل نے حرکت نہیں کی، ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی سخت جڑ میں اٹک گیا ہے۔ یہ زمین میں گھسے شیطان کی حرکت تھی۔ جس نے ہل کو چاروں طرف سے اپنے ہاتھوں پیروں میں جکڑ لیا تھا۔
”حیرت کی بات ہے۔ یہاں پہلے تو کوئی جڑ نہیں تھی۔”آئیون نے سوچا۔
اس نے اپنا ہاتھ زمین میں پھیرا تو کچھ نرم محسوس ہوا۔ اس نے اسے باہر نکالا۔ وہ ظاہری شکل میں جڑ کی طرح تھا، لیکن ایسا لگتا تھا کہ اس میں زندگی موجود ہے۔ آئیون نے اسے اٹھاکر دیکھا۔ وہ چھوٹا شیطان تھا۔ وہ ناراض ہو کر حیرت سے چلّایا۔ ”او گندی مخلوق! تو یہاں کیا کر رہا ہے؟“ اور اس کا گلا دبانے لگا۔
”مجھے قتل نہ کرو، میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا۔“ شیطان گھگیا کر بولا۔
”تم میرے لیے کیا کرسکتے ہو؟“
”مجھے بتائیں کہ آپ کی کیا خواہش ہے؟“ چھوٹے شیطان نے پوچھا۔
آئیون نے کسانوں کی عادت کے مطابق اپنی گدّی کھجائی جیسے کچھ سوچ رہا ہو، پھر بولا۔”میں پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ کیا تم میرا علاج کر سکتے ہو؟ ”
”ہاں، میں کر سکتا ہوں۔“ چھوٹے شیطان نے کہا۔
”پھر کرو۔“
شیطان زمین کی طرف جھکا اور کوئی بوٹی تلاش کرکے آئیوان کو دی اور بولا۔ ”اگر آپ یہ کھالیں تو آپ اس بیماری سے فوراً ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔“
آئیوان نے ہدایت کے مطابق کیا اور اسے فوراً آرام آگیا۔
”میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ مجھے اب جانے دیں۔“ چھوٹے شیطان نے التجا کی۔”میں پھر کبھی زمین سے باہر نہیں آؤں گا۔“
”بہت اچھا۔ تم جاسکتے ہو۔ خدا تم کو برکت دے۔“
جیسے ہی آئیون نے خدا کا نام لیا چھوٹا شیطان روشنی کی شعاع کی طرح زمین سے ٹکرایا اور پاتال میں چلاگیا۔ بس زمین پر صرف ہلکا سا سوراخ رہ گیا۔
آئیون نے جو جڑیں بچ گئی تھیں وہ اپنی ٹوپی میں رکھ لیں اور ہل چلانے لگا۔ جلد ہی اپنا کام ختم کرنے کے بعد وہ گھر لوٹ گیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس نے اپنے بھائی شمعون اور اس کی بیوی کو کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کی جائیداد ضبط ہوچکی تھی اور وہ خود بمشکل جیل سے فرار ہوا تھا۔ جہاں اسے پھانسی دی جانے والی تھی۔ اب اس کے پاس رہائش کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی اور وہ سر چھپانے کے لئے اپنے والد کے پاس آیا تھا۔
آئیوان کی طرف رخ کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ”میں تم سے یہ پوچھنے آیا تھا کہ جب تک مجھے کوئی کام نہیں مل جاتا تب تک تم ہمارا بوجھ برداشت کرو گے؟“
”بالکل، آپ ہمارے ساتھ رہ سکتے ہیں۔“ آئیوان نے جواب دیا۔
وہ میز پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ شمعون کی اہلیہ نے نفرت سے منھ بنایا کیونکہ آئیوان کے بھیڑ کی کھال کے بنے کفتان (کوٹ) سے بدبو آرہی تھی۔ وہ اپنے شوہر سے کہنے لگی۔ ”میں میز پر کسی ایسے کسان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گی جس سے بو آتی ہو۔“
شمعون اپنے بھائی کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا۔”میری بیوی تمہارے کپڑوں کی بو پر اعتراض کررہی ہے۔ تم برآمدے میں جاکر کھانا کھاؤ۔“
آئیوان نے کہا۔ ”اچھی بات ہے، میں ایسا ہی کرتا ہوں۔“
اس نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں اپنا کفتان لیا اور کمرے سے چلا گیا۔

باب: 4
دوسرے شیطان نے اس رات شمعون کے ساتھ کام ختم کیا اور معاہدے کے مطابق اپنے اس ساتھی کی مدد کرنے پہنچا جس کے پاس آئیون کی ذمہ داری تھی۔ اس نے کھیت میں جاکر ہر جگہ تلاش کیا، لیکن اس سوراخ کے علاوہ کچھ نہیں ملا جس کے ذریعے چھوٹا شیطان غائب ہوا تھا۔
میرے ساتھی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے۔ شاید وہ مارا گیا ہے۔ مجھے اس کی جگہ لینا پڑے گی اور اس نے جو کام شروع کیا تھا اسے پایہ تکمیل کو پہنچانا ہوگا۔ میرا خیال ہے بدھو کل برابر والے کھیت سے فصل کاٹے گا۔ مجھے اس میں پانی چھوڑ دینا چاہیے۔ لہٰذا اس نے ایسا ہی کیا۔
اگلی صبح جب آئیوان کھیت میں گیا اور فصل کاٹنے کی کوشش کی تو اسے پتا چلا کہ گھاس گیلی ہے۔ اس نے کئی بار کوشش کی لیکن ناکام رہا آخر اس نے فیصلہ کیا کہ گھر لوٹ جائے اور اپنی درانتی کو پھر سے تیز کر کے لائے۔ وہ چلّایا۔ ”میں واپس آؤں گا اور اس وقت تک کام کرتا رہوں گا جب تک تمام فصل نہ کاٹ لوں۔ چاہے مجھے پورا ایک ہفتہ ہی کیوں نہ لگ جائے۔“
یہ سن کر شیطان سوچ میں پڑ گیا کہ آئیوان تو بہت سخت آدمی ہے۔ مجھے اس پر فتح پانے کے لیے اپنا ذہن لڑانا ہوگا۔
آئیوان جلد ہی اپنی تیز دھار درانتی کے ساتھ واپس آیا اور گھاس کاٹنے لگا۔ شیطان نے درانتی پکڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ کیوں کہ آئیوان تیزی سے ہاتھ چلا رہا تھا۔ جب کھیت کا تھوڑا سا حصہ سا رہ گیا تو شیطان بھاگ کر کونے میں چھپ گیا اور جب درانتی چلتی ہوئی اس کے سر پر آئی تو اس نے خود کو زمین میں دفن کرلیا۔ آئیوان کو روکنا اس کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔ وہ اتنی تیزی سے ہاتھ چلا رہا تھا کہ اس نے شیطان کی دم کا ایک حصہ کاٹ ڈالا۔
آئیوان کام ختم کر کے گھر واپس آیا تو اس نے اپنی بہن کو گھاس جمع کرنے کا حکم دیا، جبکہ وہ خود دوسرے کھیت میں رائی کاٹنے چلا گیا، لیکن شیطان نے اس سے پہلے وہاں پہنچ کر رائی پر کچھ ایسا عمل کیا کہ آئیوان کے لئے اس کو کاٹنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ تاہم اس نے ہمت نہ ہاری اور سخت مشقت کے بعد رائی کاٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر اس نے اپنے آپ سے کہا۔”اب میں کل جَو کاٹنا شروع کروں گا۔“
یہ سن کر شیطان نے سوچا۔ میں اس کو رائی کے کاٹنے سے روک نہیں سکا، لیکن صبح ہونے پر میں اسے جو کاٹنے سے ضرور روکوں گا۔“
اگلے دن جب شیطان کھیت میں آیا تو اس نے دیکھا کہ جو کی فصل پہلے ہی کٹی ہوئی ہے۔ آئیوان نے رات کے وقت یہ کام کیا تھا۔ یہ دیکھ کر شیطان غصے سے پاگل ہوگیا۔ وہ چلایا۔ ”اس بدھو نے مجھے تنگ کردیا ہے۔ مجھے میدان جنگ میں بھی ایسی بدبختی نہیں ملی تھی جیسی یہاں مل رہی ہے۔“
پھر شیطان نے قسم کھائی۔”میں اس سے ہار نہیں مانوں گا۔ اب میں کھلیان میں جاؤں گا اور ہر چیز کو سڑادوں گا۔“
وہ نئے کٹے ہوئے اناج کے ڈھیر پر گیا اور اپنا شیطانی عمل شروع کیا اور تمام اناج کے ڈھیروں کو گیلا کرنے کے بعد اس نے آگ جلائی اور خود کو گرم کرنے لگا، پھر وہ جلد ہی سوگیا۔
آئیوان نے بہن کو ساتھ لیا اور گھوڑے کی مدد سے کھیت سے رائی کو گھر لانے لگا۔
پہلے ڈھیر سے ایک دو گٹھّے اٹھانے کے بعد اس کا دوشاخہ (ترنگل) شیطان کی کمر سے ٹکرایا۔ شیطان اچھل پڑا اور درد بھری چیخ ماری۔
آئیوان نے کہا۔”اوہ…… تو پھر آگیا؟“
”میں دوسرا ہوں۔ وہ میرا بھائی تھا۔ مجھے آپ کے بھائی شمعون کے پاس بھیجا گیا تھا۔“
”ٹھیک ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم کون ہو۔ میں تم سب کو ٹھیک کر دوں گا۔“ آئیوان نے کہا۔
وہ اس کا گلا گھونٹنے والا تھا کہ شیطان نے عاجزی سے کہا۔ ”مجھے جانے دو، میں تمہیں مزید کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ تم جو چاہتے ہو میں کروں گا۔“
”تم میرے لیے کیا کرسکتے ہو؟“آئیوان سے پوچھا۔
”میں تنکوں سے فوجی بنا سکتا ہوں۔“
”ان کا کیا فائدہ ہے؟“
”وہ آپ کے لئے سب کچھ کریں گے۔“
”کیا وہ گا سکتے ہیں؟“
”ہاں وہ گا سکتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے، انہیں بناؤ۔“
شیطان نے تنکوں کا ایک گھٹا کھول کر زمین پر پھیلایا اور کوئی منتر پڑھا۔ اچانک ہر ایک تنکا سپاہی میں تبدیل ہوگیا اور وہ اپنے سر پر بینڈ بجانے لگے۔
”ارے دیکھو! یہ کیا کمال ہوا۔ گاؤں کے بچے یہ تماشا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔“ آئیوان نے کہا۔
”اب مجھے جانے دو۔“شیطان نے اسے منتر سکھا کر کہا۔
لیکن آئیوان نے کہا۔”نہیں، میں ابھی آپ کو جانے نہیں دوں گا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ انہیں دوبارہ تنکوں میں تبدیل کردیں۔“
شیطان نے ایسا ہی کیا۔ پھر اس نے دوسری بار رہائی کی التجا کی۔
آئیوان نے اسے دو شاخہ (ترنگل) سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ ”خدا کی برکت سے تم چلے جاؤ!“
اور جیسا کہ پہلے ہوا تھا اس دفعہ بھی شیطان پاتال میں اتر گیا۔
آئیوان جب گھر آیا تو اس نے وہاں تارس کے کنبے کو بیٹھے دیکھا۔ تارس اپنا قرض ادا نہیں کرسکا تھا اور اپنے قرض خواہوں سے بھاگ کر اپنے والد کی چھت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہو گیا تھا۔ آئیوان کو دیکھ کر اس نے کہا۔ ”آئیوان! کیا ہم یہاں رہ سکتے ہیں جب تک کہ میں کوئی نیا کاروبار شروع نہ کردوں؟“
آئیوان نے ویسا ہی جواب دیا جیسا کہ اس نے شمعون کو دیا تھا۔ ”ہاں، آپ جب تک چاہیں یہاں رہیں۔ ہم مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنا کفتان اتارا اور دوسروں کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھنے لگا۔ لیکن تارس کی اہلیہ نے اس کے کپڑوں کی بو پر اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ ”میں بُدھو کے ساتھ کھانا نہیں کھاسکتی۔ اس کے کپڑوں میں سے بو آرہی ہے۔“
تارس نے کہا۔ ”آئیوان تمہارے کپڑوں میں سے بدبو آ رہی ہے، برآمدے میں جاکر کھانا کھاؤ۔“
”بہت اچھی بات ہے۔“ آئیوان نے کہا اور کچھ روٹی لے کر حکم کے مطابق باہر چلا گیا۔

باب: 5
وہ شیطان جس کے پاس تارس کی ذمہ داری تھی، اسی رات اپنا کام ختم کر کے معاہدے کے مطابق اپنے باقی دو ساتھیوں کی مدد کرنے اورآئیوان کو شکست دینے کے لیے وہاں پہنچا۔ کھیت میں جاکر اس نے اپنے ساتھیوں کی تلاش شروع کی لیکن اسے صرف وہ سوراخ ملا جس میں پہلا شیطان غائب ہوا تھا۔پھر گھاس کے میدان میں سے گزرتے ہوئے اس نے دوسرے کی کٹی ہوئی دم کو دریافت کیا اور رائی کے کھیت میں اسے ایک اور سوراخ ملا۔
یہ بات واضح ہے کہ میرے ساتھیوں کے ساتھ بد قسمتی سے کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔ اب مجھے ان کی جگہ لینی ہوگی اور بھائیوں کے درمیان جھگڑا پیدا کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔ اس نے سوچا۔
پھر شیطان آئیوان کی تلاش میں گھر گیا، لیکن وہ نہیں ملا، دراصل وہ اپنے بھائیوں کے لئے نئے مکانات تعمیر کرنے کے لئے جنگل میں درخت کاٹنے گیا ہوا تھا، کیونکہ ان سب لوگوں کا ایک ہی چھت کے نیچے رہنا مشکل ہورہا تھا۔
تیسرے شیطان نے آخر کار اس کو جنگل میں ڈھونڈ لیا اور ایک درخت پر چڑھ کر اس کے کام میں دخل اندازی کرنے لگا۔ آئیوان نے ایک درخت کاٹا جو زمین پر گرنے کے بجائے دوسرے درختوں کی شاخوں میں الجھ گیا۔ اسے نیچے اتارنے کے لیے آئیوان کو سخت محنت کرنی پڑی۔ اگلے درخت کو کاٹنے میں بھی وہ اسی مشکل سے دوچار ہوا اور تیسرے کے ساتھ بھی۔ اتنی محنت کر کے اس کی کمر میں درد ہونا شروع ہوگیا تھا۔ وہ کچھ دیر آرام کرتا، پھر کام میں لگ جاتا۔ یہ دیکھ کر چھوٹا شیطان خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس نے سوچا۔ ”اب احمق تھک چکا ہے اور جلد کام چھوڑ دے گا۔ پھر میں بھی آرام کروں گا۔“ وہ درخت کی شاخ پر بیٹھ کر خوشی سے جھولا جھولنے لگا۔
آئیوان کا خیال تھا کہ وہ ایک دن میں پچاس درخت کاٹ لے گا، لیکن اندھیرا ہونے تک وہ صرف دس درخت کاٹنے میں کامیاب ہوا۔ گھر جاتے جاتے آئیوان اٹھا اور کلہاڑی لے کر ایک درخت کو مخالف سمت سے ایک زوردار ہاتھ مارا۔ جس سے درخت، شیطان کو ساتھ لیے زمین پر آگرا۔ آئیون شاخوں کو کاٹنے کے لئے آگے بڑھا تو شیطان نظر آیا، وہ بہت حیران ہوا اور بولا۔
”اوہ شیطان! تو پھر یہاں چلا آیا ہے؟“
”میں تیسرا ہوں۔ میں آپ کے بھائی تارس کے ساتھ تھا۔“ شیطان نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں تم سب کو ٹھیک کر دوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ کلہاڑی سے اس پر ضرب لگانے والا تھا کہ شیطان نے التجا کی۔
”مجھے قتل نہ کرو، تم جو چاہو گے۔ میں ویسا کروں گا۔“
آئیوان نے پوچھا: ”تم کیا کرسکتے ہو؟“
”میں آپ کی خواہش کے مطابق دولت فراہم کر سکتا ہوں۔“ پھر اس نے سمجھانا شروع کیا کہ وہ کیسے دولت مند بن سکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ درخت سے شاہ بلوط کے خشک پتے توڑیں اور انھیں ہاتھوں میں مسل کر زمین پر پھینک دیں اور یہ منتر پڑھیں، وہ سونے کے سکوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔
آئیوان نے اس کی ہدایت کے مطابق عمل کیا، فوراً ہی اس کے پاؤں میں سونے کے سکے گرنا شروع ہوگئے۔ اس نے کہا۔ ”گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ تفریح کرنے کیلئے یہ ایک عمدہ کھیل ہے۔“
”کیا اب میں رخصت لے سکتا ہوں؟“ شیطان سے پوچھا۔
آئیوان نے جواب دیا۔ ”خدا کی برکت سے تم جا سکتے ہو۔“
خدا کا نام سن کر شیطان زمین میں غائب ہوگیا۔

باب: 6
بھائیوں نے اپنا گھر مکمل ہونے کے بعد اس میں سکونت اختیار کرلی۔ آئیوان نے فصل کاٹنے کے بعد ایک شاندار دعوت کی۔ جس میں اس نے اپنے بھائیوں کو بھی بلایا اور بتایا کہ اس کے پاس پینے کے لئے مشروب کی کافی مقدار موجود ہے۔ تاہم بھائیوں نے آئیوان کی مہمان نوازی کو مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ”ہم نے کسانوں کو مشروب پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم ان گنواروں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے۔“
آئیوان نے گاؤں کے سارے کسانوں کی بھرپور دعوت کی اور ان کے ساتھ مشروب پیا۔ یہاں تک کہ وہ سیر ہو گیا۔ پھر اس نے گاؤں کے لڑکیوں سے کہا کہ وہ اس کی تعریف میں گانا گائیں۔ وہ اس کے بدلے میں انہیں ایسی چیز دکھائے گا جو انھوں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ لڑکیاں ہنس پڑی اور آئیوان کی تعریف میں گانا شروع کیا اور جب وہ فارغ ہوئیں تو انہوں نے کہا۔ ”اب ہمیں وہ چیز دکھاؤ۔“
آئیوان نے جواب دیا، ”میں جلد ہی تمہیں دکھاؤں گا۔“
وہ ایک خالی تھیلا ہاتھ میں لے کر جنگل کی طرف چل دیا۔ لڑکیاں یہ کہتے ہوئے ہنس دیں کہ ”وہ کتنا بُدھو ہے!“ اور اپنا کھیل دوبارہ شروع کرتے ہوئے وہ اس کے بارے میں سب بھول گئیں۔
کچھ دیر بعد آئیوان اچانک ان کے درمیان اپنے ہاتھ میں تھیلا اٹھائے نمودار ہوا جو اب بھرا ہوا لگ رہا تھا۔
”کیا میں یہ سب آپ لوگوں میں بانٹ دوں؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں ضرور بانٹو! ہاں ضرور بانٹو! ”انہوں نے مل کر گایا۔
چنانچہ آئیوان نے اپنا ہاتھ بیگ میں ڈالا اور جب اسے باہر نکالا تو وہ سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔ جو وہ ان میں تقسیم کرنے لگا۔ سب چھوٹے بڑے اس کے گرد جمع ہوگئے۔ ان قیمتی سکوں کے لیے وہ آپس میں لڑنا شروع ہوگئے۔ اس ہنگامے میں ایک بوڑھی عورت لوگوں کے پیروں میں کچلتے کچلتے بچی۔
آئیوان پہلے ہنس پڑا پھر لوگوں کو سونے کے چند ٹکڑوں پر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا۔
”اوہ! احمقو! تم نے بوڑھی دادی کو قریب قریب کچل کر مار دیا تھا۔ صبر کرو۔ میرے پاس بہت سارے سکے ہیں۔ میں یہ تمہیں دیتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے سکے نکال نکال کر پھینکنا شروع کردیے۔
لوگ اس کے گرد مکھیوں کی طرح جمع تھے۔ آئیوان اس وقت تک پھینکتا رہا جب تک کہ اس نے اپنا بیگ خالی نہیں کردیا۔ انہوں نے مزید مانگے۔ آئیوان نے جواب دیا۔”سونا تو سب ختم ہو گیا ہے۔ اب بعد میں ملے گا۔ بس اپنا ناچ گانا شروع کرو۔“
چھوٹے بچوں نے گانا گایا، لیکن آئیوان نے ان سے کہا۔ ”آپ کے گانے اچھے نہیں ہیں۔“
بچوں نے کہا، ”پھر ہمیں بتائیں کہ بہتر گانے کا طریقہ کیا ہے۔“
اس کے جواب میں آئیوان نے کہا۔ ”میں آپ کو ایسے لوگ دکھاؤں گا جو آپ سے بہتر گانے گائیں گے۔“
اس کے ساتھ ہی آئیوان گودام میں گیا اور اس نے تنکوں کا ایک گٹھا اٹھایا اور جیسے تیسرے شیطان نے اسے ہدایت دی تھی، ویسے کیا۔ اسی وقت گاؤں کی گلی میں فوجیوں کا ایک دستہ نمودار ہوا اور آئیوان نے انہیں گانے اور ناچنے کا حکم دیا۔
لوگ حیرت زدہ تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آئیوان، فوجیوں کو کہاں سے لے آیا ہے۔
فوجیوں نے کچھ دیر گاؤں والوں کو خوب گانے سنائے، اور جب آئیوان نے انھیں رکنے کا حکم دیا تو وہ فوراً ہی رک گئے۔
اس کے بعد آئیوان نے حیرت زدہ اور مخمسے میں مبتلا کسانوں کو یہ کہتے ہوئے رک جانے کا حکم دیا کہ وہ اس کے پیچھے نہ آئیں۔ گودام میں پہنچ کر اس نے سپاہیوں کو دوبارہ تنکوں میں بدل دیا اور آرام کرنے کے لئے گھر چلا گیا۔

باب: 7
اگلی صبح گاؤں میں ہر طرف آئیوان کی باتیں ہورہی تھیں۔ جب اس کے حیرت انگیز کارنامے کی خبر اس کے بھائی شمعون کے کانوں تک پہنچی تو وہ فوراً آئیوان کے پاس آیا اور بولا۔ ”ذرا مجھے بتاؤ۔ تم فوجیوں کو کہاں سے لائے تھے اور پھر انھیں کہاں لے گئے؟“
”آپ اس بارے میں کیوں جاننا چاہتے ہیں؟“ آئیوان نے پوچھا۔
”میں فوجیوں کی مدد سے پوری ریاست کو فتح کرسکتا ہوں۔“ شمعون نے جواب دیا۔
اس بات نے آئیوان کو حیرت زدہ کردیا۔ اس نے کہا۔ ”آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ میں آپ کو جتنے چاہے سپاہی بناکر دے سکتا ہوں۔“
اس کے بعد آئیوان اپنے بھائی کو گودام میں لے گیا اور بولا۔ ”جب میں سپاہیوں کو تیار کردوں تو آپ انہیں یہاں سے لے جائیے گا کیونکہ اگر ان کو کھانا کھلانا پڑا تو گاؤں کا سارا کھانا ان کے ایک دن کی خوراک کے برابر ہوگا۔“
شمعون نے آئیوان کی بات ماننے کا وعدہ کیا۔ آئیوان نے کام شروع کیا۔ اس نے بھوسے کے ایک گٹھے سے ایک پوری رجمنٹ بنائی۔ اتنے سارے سپاہی ایسے دکھائی دیے جیسے جادو کے ذریعے زمین سے نکل آئے ہوں۔ پورا میدان ان سے بھر گیا تھا اور کوئی جگہ خالی نہیں رہی تھی۔
آئیوان نے شمعون سے پوچھا۔ ”کیا یہ تعدادکافی ہے؟“
خوشی سے چہکتے ہوئے شمعون نے جواب دیا۔ ”ہاں آئیوان! آپ کا شکریہ۔“
”شکریہ کی کوئی بات نہیں۔ اگر آپ زیادہ چاہیں تو میں اور بنادوں گا۔ میرے پاس بہت سارا بھوسہ ہے۔“
شمعون نے اپنے فوجیوں کو کئی پلاٹونوں اور کمپنیوں میں بانٹ دیا اور انھیں ڈرل کراتا ہوا دشمن سے لڑنے اور انھیں فتح کرنے کے لیے گاؤں سے نکل گیا۔
شمعون ابھی اپنے فوجیوں کے ساتھ گاؤں سے نکلا ہی تھا کہ دوسرا بھائی تارس، آئیوان کے پاس آیا۔ اس نے پچھلے دن کی کارکردگی کے بارے میں سن لیا تھا اور وہ اس طاقت کا راز جاننا چاہتا تھا۔ اس نے آئیوان سے کہا۔”مجھے سونے کی فراہمی کا راز بتاؤ، کیونکہ اگر میرے پاس کافی رقم ہوتی تو میں دنیا کا سب سے بڑا تاجر بن جاتا۔“
آئیوان اس کی بات کو سن کر بہت حیران ہوا اور کہا۔ ”آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ میں آپ کو بہت زیادہ سونا فراہم کرسکتا ہوں۔“
تارس بہت خوش ہوا اور بولا۔ ”مجھے سونے کے تین تھیلے مل سکتے ہیں؟“
آئیوان نے کہا، ”ٹھیک ہے۔ہم جنگل میں چلتے ہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہم گھوڑے کو استعمال کریں۔ کیوں کہ ہم اتنا وزن خود نہیں اٹھا سکیں گے۔“
دونوں بھائی جنگل میں گئے اور آئیوان، بلوط کے خشک پتوں کو توڑ کر ہاتھوں کے درمیان رگڑنے لگا۔ جوں ہی پتے زمین پر گرتے وہ سونے کے سکوں میں بدل جاتے۔
جب ایک ڈھیر جمع ہوگیا تو آئیوان نے تارس کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا کہ”کیا اتنا سونا کافی ہے؟“
تارس نے جواب دیا۔ ”آئیوان، آپ کا شکریہ، اس وقت کے لئے یہ کافی ہوگا۔“
”اگر آپ کو اور بھی ضرورت ہو تو میرے پاس آئیے گا۔ میں جتنے چاہے پتے رگڑ دوں گا، کیوں کہ یہاں شاہ بلوط کے درختوں کی کمی نہیں ہے۔“
تارس، سونے سے بھرے تین تھیلے لے کر شہر چلا گیا تاکہ وہاں تجارت کرسکے اور خوب دولت کما سکے۔ اس طرح دونوں بھائی وہاں سے چلے گئے۔
شمعون کے فوجیوں نے اس کے لئے ایک ریاست فتح کی اور وہ وہاں کا حاکم بن گیا۔ تارس نے بڑے پیمانے پر تجارت کی اور بہت بڑا تاجر بن گیا۔ اس نے ایک بڑا علاقہ خریدا اور وہاں اپنی ریاست قائم کرلی۔
کچھ عرصے بعد دونوں بھائیوں نے ملاقات کی اور ایک دوسرے کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ خوشحال ہونے اور پیسے کی فراوانی کے باوجود وہ ابھی تک خوش نہیں ہیں۔
شمعون نے کہا۔”میں نے ایک ریاست فتح کرلی ہے اور نہایت خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں، لیکن میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ اپنے فوجیوں کے لئے روز کھانے کا بندوست کرسکوں۔“
جب کہ تارس نے اعتراف کیا کہ وہ بے پناہ دولت کا مالک ہے، لیکن اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کے خیال سے ہر وقت بے چین رہتا ہے۔
شمعون نے کہا۔ ”آئیں ہم اپنے بھائی کے پاس دوبارہ چلیں۔ میں اسے مزید فوجی بنانے کا حکم دوں گا اور وہ آپ کو دے دوں گا، پھر آپ اس سے کہیے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سونا بنائے تاکہ ہم ان کے لیے کھانا خرید سکیں۔“
وہ آئیوان کے پاس گئے۔ شمعون نے کہا۔ ”میرے پاس زیادہ فوجی نہیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے کم سے کم دو ڈویژن فوج اور بنادو۔“
آئیوان نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔ ”میں اب آپ کو کسی بھی قیمت پر فوجی بناکر نہیں دوں گا۔“
”لیکن تم نے وعدہ کیا تھا؟“شمعون نے کہا۔
”مجھے یاد ہے، لیکن اب میں نے اپنا خیال بدل دیا ہے۔“ آئیوان نے جواب دیا۔
”لیکن بدھو! تم وعدہ خلافی کیوں کررہے ہو؟“
”اس وجہ سے کہ آپ کے سپاہی لوگوں کو مار ڈالتے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ سپاہی صرف باجا بجاتے ہیں، لیکن کل میں نے انھیں ایک آدمی کو مارتے ہوئے دیکھا ہے۔“
اس کے بعد تارس، آئیوان کے پاس پہنچا اور اسے مزید سونا بنانے کا حکم دیا۔ لیکن آئیوان نے پھر اپنا سر نفی میں ہلایا۔ تارس نے اسے اپنا وعدہ یاد دلایا۔
”مجھے معلوم ہے کہ میں نے وعدہ کیا تھا، لیکن میں پھر بھی یہ کام کرنے سے انکار کرتا ہوں۔“
”لیکن کیوں بدھو! کیا تم اپنا وعدہ پورا نہیں کرو گے؟“ تارس سے پوچھا۔
”نہیں، اس لیے کہ آپ کا سونا میخائلوانا کو اس کی گائے سے محروم کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔“
”وہ کیسے؟“ تارس نے استفسار کیا۔
آئیوان نے کہا۔ ”اس عورت نے گائے پال رکھی تھی۔ جس سے اس کے بچوں کو پینے کے لئے وافر مقدار میں دودھ ملتا تھا، لیکن کچھ دن قبل اس کا ایک لڑکا میرے پاس دودھ مانگنے آیا۔ جب میں نے پوچھا کہ آپ کی گائے کہاں گئی؟ تو اس نے جواب دیا کہ تارس کا ایک ملازم ہمارے گھر آیا تھا اور اس کے بدلے سونے کے تین سکے پیش کیے اور گائے لے گیا۔ بس میں آپ کو مزید سونا بناکر نہیں دوں گا۔“
یہ سن کر دونوں بھائی مایوس ہوکر اپنے مسئلے کے بارے میں کوئی منصوبہ سوچتے ہوئے واپس روانہ ہوگئے۔
شمعون نے کہا۔ ”آئیے ہم اس کا بندوبست اس طرح کرتے ہیں کہ میں آپ کو اپنے آدھے فوجی، آپ کی دولت کی حفاظت کے لئے دے دوں اور آپ مجھے میری سلطنت کے نصف سپاہیوں کو کھانا کھلانے کے لئے رقم دیں۔“
اس انتظام پر تارس نے اتفاق کیا اور دونوں بھائی خوش ہوگئے اور مزے سے حکمرانی کرنے لگے۔

باب: 8
آئیوان فارم پر ہی رہا اور اپنے والد، ماں اور گونگی بہن کی کفالت کے لئے کام کرتا رہا۔ ایک بار یہ ہوا کہ ان کا پالتو بوڑھا کتا بیمار ہو گیا۔ آئیوان نے سوچا کہ وہ مر رہا ہے اور اس پر ترس کھا کر اس نے اپنی ٹوپی میں کچھ روٹی رکھی اور اس کے پاس لے گیا۔ جب کتے نے روٹی نکالی تو شیطان کی دی ہوئی بوٹی ٹوپی میں سے نیچے گر گئی۔ بوڑھے کتے نے اسے روٹی کے ساتھ نگل لیا اور فوری طور پر ٹھیک ہو گیا۔ وہ اچھل کود کرنے لگا اور خوشی کے اظہار کے لیے دم ہلانے لگا۔ آئیوان کے والد اور والدہ نے کتے کو اتنی جلدی ٹھیک ہوتا دیکھ کر پوچھا کہ اس نے ایسا معجزہ کیسے انجام دیا ہے۔
آئیوان نے جواب دیا۔ ”میرے پاس کچھ جڑیں تھیں جو کسی بیماری کا علاج کرتی ہیں۔ کتے نے ان میں سے ایک نگل لی ہے۔“
یہ واقعہ اسی وقت ہوا تھا جب زار کی بیٹی بیمار ہوگئی تھی اور اس کے والد نے ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں یہ اعلان کروادیا تھا کہ جو بھی اس کا علاج کرے گا اسے بیش قیمت انعام ملے گا اور اگر وہ خوش قسمت شخص جوان اور غیر شادی شدہ ہوا تو وہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی بھی کر دے گا۔
یہ اعلان آئیوان کے گاؤں میں بھی کیا گیا تھا۔
آئیوان کے والد اور والدہ نے اس سے کہا۔ ”اگر تمہارے پاس ان حیرت انگیز جڑوں میں سے کوئی بچی ہے تو تم جاکر زار کی بیٹی کا علاج کیوں نہیں کرتے۔ تمہارے اس عمل سے وہ یقیناخوش ہوں گے۔“
”اچھی بات ہے۔ میں ابھی جاتا ہوں۔“ آئیوان نے کہا اور اصطبل سے گھوڑا نکالا۔ جب وہ گھر سے نکل رہا تھا تو ایک بھکاری عورت اپنا ٹوٹا ہوا بازو تھامے دروازے پر آگئی اور بولی۔ ”میں بہت غریب ہوں۔ اپنا علاج نہیں کرواسکتی۔ میرے ہاتھ میں درد ہے۔ براہ کرم کیا آپ میرا علاج کریں گے؟“
آئیوان نے جواب دیا۔ ”ہاں، میں ضرور آپ کا علاج کروں گا۔“
اس نے ایک جڑ نکالی اور بھکاری عورت کے حوالے کر کے اسے نگلنے کو کہا۔
اس نے آئیوان کے کہنے کے مطابق عمل کیا اور فوراً اس کے بازو کی تکلیف ٹھیک ہو گئی اور وہ خوشی خوشی چلی گئی۔
آئیوان کے والد اور والدہ اس کے سفر میں حفاظت اور خوش قسمتی کی دعا کرنے باہر نکلے تو اس نے غریب عورت کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی آخری جڑ اسے دے دی ہے۔ یہ سن کر اس کے والدین نے اپنا سر پیٹ لیا اور اسے ڈانٹنے لگے۔وہ بولے۔
”تم کو ایک بھکاری عورت پر ترس آیا لیکن تم نے زار کی بیٹی کا کوئی خیال نہیں کیا۔“
آئیوان نے جواب دیا، ”مجھے زار کی بیٹی پر بھی ترس آیا ہے۔ میں وہاں جارہا ہوں۔“ وہ اچک کر گھوڑے پر بیٹھ گیا۔
والدین نے کہا۔ ”احمق! اب کہاں جا رہے ہو؟ زار کی بیٹی کا علاج کرنے کے لئے اب تمہارے پاس کیا بچا ہے؟“
”میں جاکر دیکھتا ہوں۔“ آئیوان نے جواب دیا۔
کہتے ہیں رحم دل آدمی کے قدموں میں برکت ہوتی ہے۔جب وہ محل پہنچا۔ اسی لمحے زار کی بیٹی بالکنی میں آئی اور اس کی طبیعت ٹھیک ہوگئی۔ زار کو بہت خوشی ہوئی اور اس نے آئیوان کو شاہی لباس میں اپنے دربار میں لانے کا حکم دیا اور اسے اپنے داماد کی حیثیت سے مخاطب کیا۔ آئیوان کی شادی زاریوینا سے ہوگئی اور شادی کے فوراً بعد ہی زار کا انتقال ہوگیا۔ آئیوان نیا حکمران بن گیا۔ یوں تینوں بھائی مختلف ریاستوں میں حکمران بن گئے۔

باب: 9
اب تینوں بھائی اپنی اپنی ریاستوں میں حکومت کرتے تھے۔ سب سے بڑے بھائی شمعون نے اپنے تنکے کے فوجیوں کے ساتھ حقیقی فوجیوں کو ملا لیا تھا اور سب کو یکساں تربیت دی تھی۔ پڑوسی ریاستوں پر اس کا بہت رعب تھا۔
دوسرے بھائی تارس نے آئیوان سے حاصل کردہ سونے کو ضائع نہیں کیا تھا بلکہ اس سے اپنے کاروبار کو بہت پھیلا لیا تھا۔ اس کی دولت بڑھتی جارہی تھی اور وہ بہت اچھی طرح زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ بہت دولت مند تھا، اس کی پیسے کی ہوس ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنی رعایا پر آئے دن نت نئے ٹیکس لگاتا رہتا تھا۔
آئیوان نے اپنی دولت سے اتنا لطف نہیں اٹھایا تھا۔ جتنا اس کے بھائیوں نے اٹھایا تھا۔ جیسے ہی اس کے سسر مرحوم زار کو دفن کیا گیا۔ اس نے شاہی لباس پہننا ترک کردیا اور ایک بار پھر کسانوں کا لبادہ پہنا اور پہلے کی طرح کام کرنا شروع کردیا۔
اس کا کہنا تھا۔ ”میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہوں، مجھے بھوک بھی نہیں لگتی اور نہ ہی میں سو پاتا ہوں۔“
آئیوان نے اپنے باپ، ماں اور گونگی بہن کو اپنے پاس بلالیا اور کھیتی باڑی کرنے لگا۔
لوگوں کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ آئیوان ایک بے وقوف آدمی ہے۔ ایک دن اس کی اہلیہ نے اس سے کہا۔ ”آئیوان! لوگ کہتے ہیں کہ آپ بیوقوف ہیں۔“
”ٹھیک ہے، اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو انھیں ایسا سمجھنے دو۔“ اس نے جواب دیا۔
اس کی اہلیہ نے کچھ دیر اس کے جواب پر غور کیا اور آخر کار فیصلہ کیا کہ اگرچہ آئیوان احمق ہے پر اسے اپنے شوہر کو ہر حال میں قبول کرنا ہوگا کیونکہ پرانا محاورہ ہے۔ ”جہاں جائے سوئی وہاں جائے دھاگہ۔“ اس لیے اس نے عمدہ لباس پہننا ترک کردیا اور عام لباس میں ملبوس ہوکر گونگی بہن کے ساتھ کام سیکھنے لگی۔ جلد ہی وہ سب کچھ سیکھ کر آئیوان کی بہت بڑی مددگار بن گئی۔
یہ دیکھ کرکہ آئیوان ایک احمق ہے، تمام عقل مند آدمی سلطنت چھوڑ گئے اور صرف احمق ہی رہ گئے۔ ان کے پاس پیسہ نہیں تھا۔ ان کی دولت صرف ان کی پیداوار پر مشتمل تھی، لیکن وہ سکون کے ساتھ رہتے تھے اور راحت کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ مقدور بھر غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے تھے۔

باب: 10
بوڑھا شیطان خوشخبری کے انتظار میں تھک گیا تھا۔ وہ چھوٹے شیطانوں کا منتظر تھا تاکہ بھائیوں کی بربادی کا حال سن سکے۔ مگر جب وہ نہیں آئے وہ ان کی تلاش میں نکلا۔ کچھ دیر ادھر ادھر ڈھونڈنے کے بعد اسے زمین کے تین سوراخوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ آخر وہ سمجھ گیا کہ وہ ناکام ہوگئے ہیں اور اسے خود ہی یہ کام کرنا پڑے گا۔
اس کے بعد بوڑھا شیطان تینوں بھائیوں کی تلاش میں نکلا، لیکن وہ اپنے ٹھکانوں پر نہیں ملے۔ وہ گھومتا رہا آخر کچھ عرصے کے بعد اس نے انھیں اپنی مختلف سلطنتوں میں خوش اور مطمئن زندگی گزارتے پایا۔ یہ دیکھ کر بوڑھے شیطان کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا۔”اب مجھے خود اس مشن کو پورا کرنا پڑے گا۔“
وہ پہلے سپاہی شمعون کے پاس ایک سپہ سالار کے روپ میں حاضر ہوا اور کہا۔”آپ ایک عظیم جنگجو ہیں اور مجھے بھی جنگ کا کافی تجربہ ہے۔ میں آپ کی خدمت کا خواہشمند ہوں۔“
شمعون نے اس سے پوچھ گچھ کی اور یہ دیکھ کر کہ وہ ایک ذہین آدمی ہے اسے اپنی فوج میں شامل کر لیا۔
نئے سپہ سالار نے شمعون کو بتایا کہ فوج کو کیسے مضبوط بنایا جاتا ہے۔ اس نے فوج کی سخت تربیت کی۔انھیں نت نئے ہتھیاروں سے متعارف کروایا اور توپیں اور رائفلیں بنانے کے لیے نئے کارخانے بھی لگائے۔ اس نے ایک منٹ میں سو بم پھینکنے کی صلاحیت رکھنے والی توپیں بھی تیار کر کے دیں۔ جس کے بارے میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ یہ جنگ میں مہلک ہتھیار ثابت ہوں گی۔
نئے سپہ سالار کا اگلا قدم شمعون کو پڑوسی ریاست کے خلاف بھڑکانا اورجنگ کا اعلان کروانا تھا۔ آخر اس نے اپنی طاقت ور فوج کے ساتھ دشمن پر بھرپور حملہ کیا۔ ان کے لوگوں کو مار ڈالا اور گھروں اور فصلوں کو جلا کر راکھ کردیا۔ یہ دیکھ کر اس ملک کا حکمران اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اس نے اپنی آدھی سلطنت بہ خوشی شمعون کو دے دی، تاکہ باقی آدھی کو بچایا جاسکے۔
شمعون نے اپنی کامیابی پر خوش ہوکر ہندوستان پر حملے اور اس کے حکمران کو اپنے زیرنگیں لانے کے ارادے کا اعلان کیا،لیکن شمعون کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی یہ بات ہندوستانی حکمران کے کانوں تک پہنچ گئی، اس نے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ اس نے جدید ہتھیار تیار کروائے اور چودہ سال سے زیادہ عمر کے تمام لڑکوں اور تمام غیر شادی شدہ خواتین کو فوج میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ یہاں تک کہ اس کی فوج کی تعداد شمعون سے کئی گنا بڑھ گئی۔ انھوں نے ایک توپ ایجاد کی تھی جس سے دشمنوں کے کیمپ پر بہت دور سے بم پھینکے جاسکتے تھے۔
شمعون پورے اعتماد اور طاقت کے ساتھ ہندوستان کو فتح کرنے نکلا، مگر اس بار قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور فاتح ہونے کی بجائے خود مفتوح ہوگیا۔
ہندوستانی حکمران نے اپنی فوج کا اتنا اچھا بندوبست کیا تھا کہ شمعون میدان جنگ میں کوشش کے باوجود آگے نہیں بڑھ سکا۔ پھر دشمن نے اتنا بھرپور حملہ کیا کہ شمعون کو اپنی جان بچانے کے لئے میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
شمعون سے فارغ ہونے کے بعد شیطان، تارس کے پاس پہنچا۔ وہ ایک سوداگر کے بھیس میں تھا۔ اس نے تارس سے ملاقات کی اور اسے شیشے میں اتارلیا۔ جلد ہی اس نے تارس کی سلطنت میں کام کرنے کی اجازت حاصل کرلی۔ اس نے وہاں کچھ نئے منصوبے شروع کیے اور خریداری کرنے لگا۔ اس نے ہر چیز کی زیادہ قیمت ادا کی۔لوگ اپنا سامان بیچنے کے لئے اس کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ کیوں کہ وہ اس کے توسط سے کافی رقم کمانے کے قابل ہوگئے تھے۔ پھر سوداگر نے وہاں فیکٹری قائم کی اور لوگوں پر روزگار کے دروازے کھول دئیے۔ تارس نے شروع میں اس سے بہت منافع کمایا۔ وہ خوش تھا۔ اس نے تاجر کا شکریہ ادا کیا۔
کچھ عرصے بعد تارس نے بھی نئی عمارتیں بنانے کا منصوبہ بنایا اور مزدوروں کے لئے اعلان کروایا۔ اس کا خیال تھا کہ لوگ پہلے کی طرح کام کرنے کے لیے بے چین ہوں گے، کیونکہ وہ انھیں اچھی مزدوری دیتا تھا، لیکن اس کی بجائے اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ وہ تاجر کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انھیں تاجر کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے اجرتوں میں اضافہ کیا، لیکن تاجر نے بھی ان لوگوں کی اجرتیں بڑھادیں۔ آخر تارس کو عمارت بنانے کے منصوبے کو ترک کرنا پڑا۔
اس کے بعد تارس نے اعلان کیا کہ وہ نئے باغات اور چشمے بنانا چاہتا ہے۔ یہ کام موسم خزاں میں شروع کیا جانا تھا، لیکن کوئی بھی اپنی خدمات پیش کرنے نہیں آیا اور اسے پھر اپنے ارادوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ سردیوں کا آغاز ہو گیا تھا اور تارس کو کچھ اعلیٰ قسم کی ملائم بالوں والی کھال کی ضرورت تھی جس سے وہ اپنا کوٹ بنواسکے۔ اس نے اپنے ایک آدمی کو اس کی خریداری کے لئے بازار بھیجا، لیکن نوکر خالی ہاتھ لوٹ آیا کہ بازار میں ذرا سی بھی کھال دستیاب نہیں۔ نئے تاجر نے ساری کھال، زیادہ قیمت ادا کرکے خرید لی ہے۔
پھر تارس کو گھوڑے کی ضرورت پڑی۔ اس نے خریدنے کے لئے ایک آدمی کو بھیجا، لیکن وہ بھی اسی طرح کی کہانی کے ساتھ واپس آیا۔ کوئی بھی گھوڑا نہیں ملا کیونکہ تاجر نے سب گھوڑے ایک مصنوعی تالاب میں پانی لے جانے کے لئے خرید لیے تھے جس کی وہ تعمیر کر رہا تھا۔ آخر کار تارس اس کام کو بھی ترک کرنے پر مجبور ہوگیا۔ وہ بہت رنجیدہ تھا۔ اسے ہر قدم پر نئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے باورچی، کوچوان اور دوسرے تمام خادم اسے چھوڑ کے تاجر کے پاس چلے گئے تھے۔ اپنی ساری دولت کے باوجود اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور جب وہ بازار گیا تو اس نے دیکھا کہ تاجر اس سے پہلے وہاں موجود تھا اور اس نے تمام سامان خرید لیا تھا۔
تارس آخر کار اس قدر غصے میں آگیا کہ اس نے تاجر کو اپنی سلطنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ وہ چلا گیا، لیکن حدود سے باہر ہی آباد ہوگیا اور پہلے ہی کی طرح اپنا کاروبار جاری رکھا۔ لوگ بھی اس کے ساتھ تھے۔ تارس کو کئی دن بغیر کھائے رہنا پڑا۔ یہ افواہ بھی گرم تھی کہ تاجر نے گھمنڈ میں آکر کہا ہے کہ وہ تارس کو بھی خریدنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر تارس انتہائی گھبراہٹ کا شکار ہوگیا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ کیا کیا جائے۔
اسی وقت بڑا بھائی شمعون وہاں پہنچا اور اس نے کہا۔ ”میری مدد کریں، میں ہندوستانی حکمران کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہوں۔“
تارس نے جواب دیا۔ ”میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں، مجھے خود دو دن سے کھانا نہیں ملا۔“

باب: 11
بوڑھا شیطان دوسرے بھائی سے فارغ ہوکر آئیوان احمق کے پاس گیا۔ اس بار اس نے پھر ایک سپہ سالار کا روپ دھار رکھا تھا۔ وہ بولا۔”ریاست کے حکمران کا فوج کے بغیر ہونا ذلت کی بات ہے۔ آپ اجازت دیں۔ میں آپ کی رعایا کو ایک بہترین فوج میں بدل دوں گا۔“
آئیوان نے اس کے مشورے کو مان لیا اور کہا۔ ”ٹھیک ہے آپ میری رعایا سے ایک فوج تشکیل دے سکتے ہیں، لیکن آپ کو انھیں گانا بھی سیکھانا ہوگا کیونکہ میں گانا بہت پسند کرتا ہوں۔“
بوڑھا شیطان خوش ہوکر آئیوان کی ریاست میں گھومنے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ”آئیں! اپنے سر منڈوائیں اور سپاہی بن جائیں۔ میں آپ کو سرخ رنگ کی ہیٹ اور کافی مقدار میں مشروب دوں گا۔“
اس پر بیوقوف لوگ ہنس پڑے اور کہا۔ ”ہمارے پاس بہت مشروب ہے، کیونکہ یہ ہم خود بناتے ہیں اور ٹوپیاں ہماری لڑکیاں اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی رنگ کی خوبصورت کناروں کے ساتھ ہمیں بنا کر دے دیتی ہیں۔“
اس طرح شیطان انھیں فوج میں بھرتی کرنے میں ناکام رہا۔ چنانچہ وہ آئیوان کے پاس واپس آیا اور کہا۔ ”آپ کے بیوقوف لوگ رضاکارانہ طور پر فوجی بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لہٰذا انہیں اس پر مجبور کرنا پڑے گا۔“
آئیوان نے جواب دیا، ”بہت اچھی بات ہے، اگر آپ چاہیں تو طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔“
چنانچہ بوڑھے شیطان نے اعلان کیا کہ تمام احمقوں کو فوجی بننا ہوگا۔ جو لوگ انکار کریں گے آئیوان ان کو موت کی سزا دے گا۔“
بیوقوف لوگ اس کے پاس آئے اور کہا۔ ”آپ کا کہنا ہے کہ آئیوان ان تمام لوگوں کو موت کی سزا دے گا جو فوجی بننے سے انکار کریں گے، لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جنگ میں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ ہم نے سنا ہے کہ جنگ میں لوگ مارے جاتے ہیں؟“
”ہاں، یہ سچ ہے۔“ اس نے جواب دیا۔
یہ سن کر احمقوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے صاف انکار کردیا۔
انہوں نے کہا۔ ”ہم مرنا نہیں چاہتے اس لیے ہم فوجی نہیں بنیں گے۔“
بوڑھے شیطان نے کہا۔ ”اوہ احمقو! سپاہی جنگ میں مارے جاتے ہیں اور بچ بھی جاتے ہیں، لیکن اگر آپ آئیوان کے احکام کی نافرمانی کریں گے تو آپ کی موت یقینی ہے۔“
احمق کچھ دیر سوچتے رہے پھر آئیوان کے پاس اس معاملے پر بات چیت کرنے آئے۔
وہ بولے۔ ”آپ کا سپہ سالار ہمارے پاس حکم لے کر آیا ہے کہ ہم سب فوجی بن جائیں اور اگر ہم نے اس سے انکار کیا تو ہمیں موت کی سزا ملے گی۔ کیا یہ سچ ہے؟“
آئیوان یہ سن کر ہنسنے لگا اور کہا۔ ”میں اکیلا تمھیں موت کی سزا کس طرح دے سکتا ہوں۔“
”پھر ہم فوج میں نہیں جائیں گے۔“ انہوں نے کہا۔
”بہت اچھی بات ہے۔ جب تک کہ تمہاری اپنی مرضی نہ ہو، تم کو فوجی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔“ آئیوان نے جواب دیا۔
بوڑھا شیطان اپنی ناکامیوں سے تنگ آکر تاراقانیہ کے حکمران کے پاس گیا اور اس کا دوست بن گیا۔ پھر اس سے کہا۔
”چلیں آئیوان کی سلطنت کو فتح کرلیں۔ اس کے پاس دولت نہیں ہے، لیکن اس کے پاس مویشی، اناج اور مختلف چیزیں ہیں جو آپ کے لیے کارآمد ہوں گی۔“
تاراقانی حکمران نے اپنی فوج کو اکٹھا کیا اور اسے توپوں اور رائفلوں سے لیس کر کے سرحد عبور کرنے کا حکم دیا۔ لوگ آئیوان کے پاس گئے اور کہا۔ ”تاراقانیہ کا حکمران ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے ایک بڑی فوج بھیج رہا ہے۔“
آئیوان نے جواب دیا۔ ”انہیں آنے دو۔“
تاراقانی فوجی سرحد عبور کرنے کے بعد لڑنے کے لئے آگے بڑھے مگر مقابلے کے لیے کوئی دکھائی نہیں دیا۔ وہ کچھ دیر انتظار کرتے رہے، پھر دیہات پر حملہ کیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ وہاں کے لوگ خاموشی سے انھیں دیکھتے رہے اور کوئی مزاحمت نہیں کی،بلکہ کہا۔
”عزیز دوستو! اگر آپ کو اپنی زمین میں روزی کمانا مشکل معلوم ہو رہا ہے تو یہاں آکر ہمارے ساتھ رہو، یہاں ہر چیز وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔“
فوجی کچھ دن وہاں ٹھہر گئے۔ لوگوں نے ان کی خوب خاطر مدارت کی۔ وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ آخر وہ تاراقانیہ کے حکمران کے پاس واپس لوٹے اور کہا۔ ”ہم ان لوگوں کے ساتھ نہیں لڑسکتے۔ کیونکہ وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ آپ ہمیں کسی اور جگہ بھیج دیں۔“
تاراقانی حکمران نے مشتعل ہوکر فوجیوں کو حکم دیا کہ پوری سلطنت کو ختم کردو، دیہاتوں کو لوٹ لو، مکانات اور سامان کو آگ لگادو اور مویشی ذبح کردو۔ وہ بولا۔ ”اگر تم میرے احکامات کی نافرمانی کرو گے تو میں تم سب کو پھانسی دے دوں گا۔“
سپاہی خوفزدہ ہوکر اس کے حکم کے مطابق کام کرنے لگے، لیکن آئیوان کی بیوقوف رعایا نے بالکل مزاحمت نہیں کی، بس وہ یہ کہہ رہے تھے۔ ”ہمارے ساتھ اتنا ظلم مت کرو! ہمیں برباد نہ کرو! اگر تم کو ان چیزوں کی ضرورت ہے تو انھیں اپنے ساتھ لے جاؤ اور ہمیں سکون سے رہنے دو۔“
آخر فوجیوں کو ان پر رحم آگیا۔ انھوں نے اس راستے پر مزید چلنے سے انکار کردیا اور پوری فوج مختلف سمتوں میں بکھر گئی۔

باب: 12
بوڑھا شیطان، آئیوان کی بادشاہی کو برباد کرنے میں ناکام رہا تو اس نے خود کو پھر ایک رئیس آدمی کے روپ میں تبدیل کیا، نہایت عمدہ لباس پہنا اور آئیوان کی سلطنت کا خاتمہ کرنے کی نیت سے اس کے پاس آیا اور کہا۔ ”میری خواہش ہے کہ آپ کو حکمت سکھاؤں اور دوسری خدمات پیش کروں۔ میں آپ کو محل اور کارخانے بنا کر دوں گا۔“
”بہت اچھی بات ہے۔ آپ ہمارے ساتھ رہ سکتے ہیں۔“ آئیوان نے کہا۔
اگلے دن رئیس چوک پر نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھوں میں سونے کی اشرفیوں سے بھری بوری تھی۔ وہ گھر بنانے کا منصوبہ لے کر آیا تھا۔ وہ لوگوں سے مخاطب ہوا۔ ”تم لوگ خنزیروں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہو۔ میں تمہیں سکھاؤں گا کہ کس طرح مہذب طریقے سے رہا جاتا ہے۔ تم لوگوں کو منصوبے کے مطابق میرے لئے ایک مکان تعمیر کرنا ہوگا۔ میں خود کام کی نگرانی کروں گا اور سونے کے سکّوں میں تمہاری خدمات کا معاوضہ ادا کروں گا۔“
پھر اس نے بوری کھول کر انھیں سونے کے سکے دکھائے۔
سب بہت حیران ہوئے اور کہا۔ ”واہ…… یہ کتنے چمک دار کھلونے ہیں۔“
ان کی مملکت میں پیسہ گردش میں نہیں تھا۔ وہاں چیز کے بدلے چیز کا تبادلہ ہوتا تھا یا مزدوری کے ذریعہ ادائیگی کی جاتی تھی۔ وہ رئیس آدمی کے ساتھ خوشی سے کام کرنے لگے۔ وہ اپنی چیزیں یا خدمات اسے دیتے اور اس کے بدلے سنہری سکّے حاصل کرتے۔
بوڑھا شیطان یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ”اب میری گاڑی پٹری پر آگئی ہے۔ اب میں بدھو کو برباد کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ جیسا کہ میں نے اس کے بھائیوں کو کیا تھا۔“ وہ بڑبڑایا۔
احمقوں نے کافی سونے کی اشرفیاں حاصل کرلی تھیں۔ گاؤں کی خواتین اور جوان لڑکیاں اس سے زیور بنواکر پہن رہی تھیں، جبکہ بچے سڑکوں پر ان سے کھیل رہے تھے۔
جب انھوں نے سونے کے سکّوں کا اچھا خاصا ذخیرہ محفوظ کرلیا تو انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیاحالانکہ ابھی رئیس کے گھر کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی۔ وہ لوگوں کو بلاتا رہا مگر کسی نے اس کی پکار پر جواب نہیں دیا۔ صرف ایک بار ایک چھوٹا لڑکا، سونے کے لیے انڈوں کا تبادلہ کرنے اس کے پاس آیا۔
یوں رئیس کا سارا منصوبہ ٹھپ ہونے لگا۔ وہ سارا دن پریشان بیٹھا رہتا۔ ایک دن جب اس کا نعمت خانہ خالی ہوگیا، وہ کھانے کی کسی چیز کی تلاش میں گاؤں گیا۔ اس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک مرغی کے بدلے میں سونے کی پیش کش کی، لیکن اسے انکار کر دیا گیا۔ مالک نے کہا۔ ”ہمارے پاس سکے پہلے ہی کافی ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔“
اس کے بعد وہ ایک مچھلی بیچنے والی عورت کے پاس نمکین گوشت خریدنے گیا۔ اس نے بھی مچھلی کے بدلے اس کا سونا قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا۔ ”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میری کوئی اولاد بھی نہیں ہے جو اس کے ساتھ کھیلے۔ میرے پاس تین اشرفیاں پہلے سے موجود ہیں جو میں نے محض خوب صورتی کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔“
اس کے بعد وہ روٹی خریدنے کے لیے نان بائی کے پاس گیا، لیکن اس نے بھی سونا قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا۔ ”مجھے اشرفیوں کا کیا کرنا ہے۔ تم روٹی کے بدلے مجھے کھانے کی کوئی چیز دو اور اگر وہ تمہارے پاس نہیں ہے تو میں تمہیں اللہ کے نام پر روٹی دے سکتا ہوں۔“
بوڑھا شیطان اس کی بات سن کر بہت ناراض ہوا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ اللہ کے نام کا ذکر اس کے گلے میں چاقو کی طرح جاکر لگا تھا۔ آخر وہ بھوکا سو گیا۔
ان باتوں کی خبر جلد ہی آئیوان کے کانوں تک جا پہنچی۔ لوگ اس کے پاس آئے اور کہا۔ ”ایک رئیس ہمارے درمیان موجود ہے۔ وہ اچھا لباس پہنتا ہے اور بہترین کھانے پینے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن کام کرنے پر راضی نہیں ہے اور اللہ کے نام پر کھانے کے لئے بھیک بھی نہیں مانگتا ہے۔ وہ صرف ہر ایک کو سونے کی اشرفیاں پیش کرتا ہے۔ مگر اب لوگوں کو اشرفیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ بتائیں ہم کیا کریں؟ وہ بھوک سے مر بھی سکتا ہے۔“
آئیوان نے ان کی باتیں سنیں اور کہا کہ وہ اسے چرواہے کی حیثیت سے ملازمت دے دیں اور باری باری اسے کھانا دے دیا کریں۔
بوڑھے شیطان کے پاس اس مشکل سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ آخر اس کو یہ تسلیم کرنا پڑا۔
جلد ہی بوڑھے شیطان کی باری آئیوان کے گھر بھی آگئی۔ وہ وہاں کھانا کھانے آیا تو اس نے آئیوان کی گونگی بہن کو روٹی پکاتے ہوئے دیکھا۔ بوڑھے شیطان نے دستر خوان پر جلدی سے ایک جگہ سنبھال لی۔ وہاں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ نکمے اور کام چور لوگ بھی باورچی خانے میں کھانا کھانے آجاتے تھے۔ اس لیے گونگی بہن نے یہ اصول بنارکھا تھا کہ جن کے ہاتھ کام کرنے سے سخت ہوگئے ہوں۔ وہ باورچی خانے میں بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے اور کوئی نہیں۔
لہٰذا گونگی لڑکی نے اس کے ہاتھ پکڑ کر دیکھے۔ جو نرم، سفید اور صاف ستھرے تھے۔ لہٰذا اس نے اسے میز سے اٹھا دیا۔
آئیوان کی اہلیہ نے بوڑھے شیطان سے کہا۔ ”آپ برا نہیں مانیے گا۔ یہ یہاں کا دستور ہے۔ آپ کو رات کا کھانا ختم ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا،پھر اگر کچھ بچا تو آپ کو ملے گا۔“
بوڑھا شیطان اس بات پر بہت ناراض ہوا۔ اتنی دیر میں وہاں آئیوان بھی چلا آیا۔ اس نے آئیوان سے شکایت کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کی بادشاہی میں یہ عجیب قانون ہے کہ تمام افراد کو ہاتھ سے کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کیا صرف ہاتھوں سے کیا جاتا ہے؟ اکثر لوگ دماغ سے بھی کام کرتے ہیں۔“
آئیوان نے جواب دیا۔ ”ہم بے وقوف اس بارے میں کیا جانیں۔ ہم بس اپنے ہاتھوں ہی سے کام کرتے ہیں۔“
شیطان نے جواب دیا۔ ”میں آپ کو دماغ استعمال کرنے کا طریقہ سکھاتا ہوں، جو زیادہ فائدہ مند ہے،مگر وہ مشکل بھی ہے۔ بعض اوقات اس سے دماغ پھٹنے بھی لگتا ہے۔“
”پھر آپ کیوں ہاتھ کے کام کا انتخاب نہیں کرتے؟ جو آسانی سے انجام دیا جاسکتا ہے؟“ آئیوان نے پوچھا۔
شیطان نے کہا۔ ”کیونکہ مجھے آپ جیسے بے وقوفوں پر ترس آتا ہے۔ میں نے ساری زندگی دماغ کا استعمال کیا ہے اور اب میں آپ کو سکھانا چاہتا ہوں۔“
آئیوان بہت حیران ہوا اور اس نے کہا۔ ”ٹھیک ہے ہمیں یہ سکھائیں، تاکہ جب ہمارے ہاتھ تھک جائیں تو ہم ان کی جگہ اپنے سروں کو استعمال کرسکیں۔“
اس نے اپنی پوری سلطنت میں اس بات کا اعلان کروادیا کہ ایک دانشور ہمیں مفید باتیں بتائیں گے۔ آپ سب لوگ آکر سیکھیں۔
آئیوان کی بادشاہی میں ایک اونچا مینار تھا۔ جس کی بالکنی تک لمبی سیڑھی جاتی تھی۔ آئیوان نے بوڑھے شیطان سے کہا کہ آپ مینار پر چڑھ جائیں تاکہ سب آپ کو دیکھ سکیں۔
بوڑھا شیطان مینار پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کرنے لگا۔ لوگ جوق در جوق وہاں آنے لگے۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ دماغ سے کام کرنے کا طریقہ بتائے گا۔ مگر وہ ادھر ادھر کی باتیں کررہا تھا۔
بوڑھے شیطان نے دو دن تک لوگوں سے خطاب کیا۔ وہ اپنے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں جمع ہوجاتے۔ اس دوران وہ بھوک سے بے حال ہوگیا، لیکن اس نے لوگوں سے کھانے کو کچھ نہیں مانگا۔ لوگوں نے بھی اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ان کا خیال تھا اگر وہ اپنے ہاتھوں کے مقابلے میں اپنے سر سے بہتر کام کرسکتا ہے تو اسے اپنے لیے روٹی بھی خود ہی پیدا کرنی چاہیے۔ تیسرے دن بھی اس نے لوگوں کو آوازیں دے کر جمع کیا۔ وہ تجسس سے اسے سننے کے لئے چلے آئے۔
بوڑھے شیطان نے تقریر شروع کی لیکن وہ بھوک سے نڈھال ہوچکا تھا، اچانک وہ لڑکھڑایا اور اس کا سر مینار کے ستون سے ٹکرایا۔
یہ دیکھ کر ایک بے وقوف آئیوان کی بیوی کے پاس بھاگ کر گیا اور کہا۔ ”آخرکار اس شریف آدمی نے اپنے سر سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔“
وہ آئیوان کو بتانے کے لئے کھیت کی طرف بھاگ گئی۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور کہا۔ ”چلو ہم اسے چل کر دیکھتے ہیں۔“
آئیوان گھوڑے پر وہاں پہنچا۔ جب وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا تو بوڑھا شیطان سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے جاگرا۔ اس کا سر پھٹ گیا تھا۔ کیوں کہ وہ ہر قدم پر زور سے سیڑھی سے ٹکرایا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ سیڑھیاں گن رہا ہو۔
آئیوان نے کہا۔ ”بھائیو! دیکھو! یہ سچ کہتا تھا کہ بعض اوقات دماغ سے کام کرنے سے دماغ پھٹ جاتا ہے۔“
پھر وہ سیڑھیاں اتر کر اس کے پاس گیا، لیکن اسی وقت زمین پھٹی اور شیطان اس میں سما گیا۔ بس وہاں صرف ایک سوراخ رہ گیا تھا۔
آئیوان نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ ”یہ دیکھو! یہ گندا بھی ایک شیطان تھا اور یہ غالباً ان تینوں کا باپ تھا۔“
آئیوان اب بھی زندہ ہے اور لوگ اس کی مملکت میں اسی طرح رہ رہے ہیں۔ اس کے بھائی بھی اس کے پاس چلے آئے ہیں۔ اس نے مہمان نوازی کو اپنا شیوہ بنارکھا ہے۔ جو بھی اس کے پاس آکر کھانا مانگتا ہے۔وہ کہتا ہے۔
”بہت اچھا! آئیں خوش آمدید۔ ہمارے پاس آپ کے لیے مزیدار کھانے ہیں۔“
آئیوان کی ریاست میں صرف ایک غیر مُتغیر رواج پایا جاتا ہے۔ وہاں سخت ہاتھ رکھنے والے شخص کو ہمیشہ دستر خوان پر بٹھایا جاتا ہے، جبکہ نرم ہاتھ رکھنے والوں کو آخر میں بچے کچے کھانے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top