سائیکل
نورالسحر انصاری
۔۔۔۔۔
احسن، ربیعہ ،سنعیہ تینوں بہن بھائی آٹھویں، ساتویں اور چھٹی جماعت کے طالب علم تھے، ان کی امی ایک پرائمری سکول میں ٹیچر تھیں اور ان کے ابو ایک دفتر میں گیارہ سوروپے ماہوار کے ملازم تھے۔ ان کی محدود آمدنی سے گھر کے تمام اخراجات اور مکان کا کرایہ، غرض تمام ضروریات پوری ہو رہی تھیں۔ اس کے علاوہ احسن کی امی آڑے وقت کے لئے ہر ماہ کچھ پیسے بھی بچالیا کرتی تھیں تا کہ ضرورت پڑنے پر کسی سے مانگنانہ پڑے۔ یہ خوش و خرم گھرانہ دین و دنیا کے کاموں میں مصروف تھا۔
پھر اچانک یوں ہوا کہ ایک روز احسن کے ابو اپنے دفتر سے واپس آرہے تھے کہ ان کی بس کی ایک ٹرک سے ٹکر ہو گئی۔ کئی افراد تو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اوربہت سے زخمیوں کے ساتھ احسن کے ابو کو بھی شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ احسن کی امی نے سکول سے پندرہ روز کی چھٹی لے لی اور احسن کے ابو کی دن رات کی پروا کئے بغیر خدمت کرنے لگیں۔ ان کے علاج معالجے پر تمام جمع کی ہوئی رقم خرچ ہو گئی اور نوبت زیورات بیچنے کی آگئی۔ لیکن احسن کی امی نے خدا کی مرضی کے آگے اف تک نہ کی اور تمام زیورات فروخت کر دیے۔ اور احسن کے ابو کے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھار کھی،لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی میں تو کوئی د خل دے نہیں سکتا، احسن کے ابو تمام علاج اور پوری توجہ کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکے اور طویل علاج معالجے کے باوجود اللہ کو پیارے ہو گئے۔
احسن کی امی پر احسن کے ابو کی جدائی کے غم کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داری کا بھی بوجھ آپڑا ۔مکان کا کرایہ ،گھر کا خرچ اور بچوں کی تعلیم کا خرچ، غرض ڈھیر سارے مسائل ان کے سامنے تھے۔ وہ سکول کی ملازمت کے ساتھ ساتھ محلے والوں کے کپڑے بھی سینے لگیں اور اس طرح بڑی مشکل سے گھر کی گزر بسر ہوتی۔
احسن، ربیعہ، سنعیہ چونکہ سمجھ دار تھے۔ لہٰذا ان سے اپنی امی کا اتنا زیادہ کام کرنا دیکھا نہیں جاتا تھا لہٰذار بیعہ سنعیہ تو گھر کے کام کے ساتھ ساتھ سلائی میں بھی اپنی امی کا ہاتھ بٹانے لگیں اور احسن اس سوچ میں پڑ گیا کہ اسے کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے کچھ پیسے بھی ہاتھ آئیں اور اس کی تعلیم کا بھی حرج نہ ہو۔ تعلیم کو وہ ہر صورت میں جاری رکھنا چاہتا تھا کیونکہ تعلیم کے بغیر نہ توہ بڑا افسر بن سکتا تھا اور نہ ہی امی کے خواب پورے کر سکتا تھا۔
کافی سوچ بچار کے بعد اسے ایک ترکیب سمجھ میں آئی ۔وہ سیدھا شاکر صاحب کے گھر گیا، شاکر صاحب احسن کے ابو کی زندگی میں ان کے گھر اخبار ڈالنے آتے تھے۔ دروازے پر دستک دینے اور اندر آنے کی اجازت لینے کے بعد احسن نے شاکر صاحب سے پوچھا۔ ’’ شاکر صاحب !آپ جس شخص کے اخبار بانٹتے ہیں ،وہ صاحب آپ کو کتنے پیسے دیتے ہیں اور اس کام میں آپ کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے ؟‘‘
شاکر صاحب نے احسن کو بتایا کہ’’ میں سو گھروں میں اخبار ڈالتا ہوں اور مجھے اس کا معاوضہ بھی سوروپے ملتا ہے ،بس یوں سمجھو گھر سے آنے اور جانے میں وقت لگتا ہے۔ اخبار بانٹنے کے لئے تو چودھری صاحب سائیکل دیتے ہیں۔‘‘
سائیکل کا نام سنتے ہی احسن نے فورا ًشاکر صاحب سے کہا۔’’ شاکر صاحب کیا یہ ملازمت مجھے بھی مل سکتی ہے؟‘‘
شاکر صاحب نے کہا۔’’کیوں نہیں، تم ایسا کرو کل نماز فجر کے بعد میرے ساتھ ہی چلو، میں تمہیں چودھری صاحب سے ملوا دوں گا۔ وہ اگر چاہیں گے تو تم کو رکھ لیں گے۔ مگر تمہیں سائیکل چلانی بھی آتی ہے؟‘‘
’’شاکر صاحب !میں اپنے دوست کی سائیکل پراکثراپنا شوق پورا کرتارہتا ہوں۔ اب تو مجھے بڑی اچھی سائیکل چلانی آگئی ہے۔‘‘
’’بس پھر تو ٹھیک ہے ،کل فجر کے بعد میرے گھر آجانا۔ ‘‘شاکر صاحب نے کہا۔
احسن خدا حافظ کہہ کر خوشی خوشی گھر آیا۔ اس نے اس بات کا ذکر اپنی امی سے نہیں کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ امی اس کے فیصلے سے خوش نہیں ہوں گی، اس نے سوچا نوکری مل گئی تو بعد میں امی کو منالوں گا۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد احسن نے سکول کا کام کیا اور سونے کے لئے لیٹ گیا، صبح حسب معمول احسن کی امی نے اسے فجر کی نماز کے لئے اٹھایا تو وہ ایک ہی آواز پر اٹھ بیٹھا اور جلدی سے مسجد کے لیے چل دیا اور چلتے چلتے اس نے اپنی امی سے کہا کہ آج میں ذرا دیر سے گھر آؤں گا مجھے شاکر صاحب سے کچھ کام ہے، ان کی طرف جاؤں گا۔ لہٰذا آپ فکر نہ کیجئے گا۔
نماز کی ادائیگی کے بعد وہ سیدھا شاکر صاحب کے گھر گیا۔ شاکر صاحب احسن کے منتظر تھے۔ احسن اور شاکرصاحب، چودھری نیوز ایجنسی پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چودھری صاحب ایک ہاکر کو روز روز ناغہ کرنے پر ڈانٹ رہے ہیں اور یہ ڈانٹ آخر کا رہا کر کی چھٹی پر ہی ختم ہوئی۔
شاکر صاحب نے احسن سے سرگوشی کے انداز میں کہا ۔’’لو بھائی، تمہارا کام بن گیا ۔‘‘یہ کہتے ہوئے شاکر نے احسن کا چودھری صاحب سے تعارف کرایا اور ساری بات چودھری صاحب کو بتادی، چودھری صاحب کو تو ہا کر کی ضرورت تھی ہی، انہوں نے فوراًہامی بھر لی اور اس ہاکر سے کہا۔’’ احسن کو دو تین دن تک وہ گھر دکھا دو جہاں اسے اخبارات بانٹنے جانا ہو گا۔ تب تمہیں تمہارے پیسے ملیں گے۔‘‘
ہاکر نے احسن کو وہ تمام گھر دکھائے۔ احسن تمام اخبار ڈالنے کے بعد گھر پہنچا تو اس کی امی نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو احسن نے ساری بات بتادی، احسن کی امی نے احسن کی ملازمت کا سنتے ہی سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا ۔’’جب تمہاری تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو کیا ضرورت ہے اس ملازمت کی۔ اس سے سکول کو دیر ہو جایا کرے گی۔‘‘
’’ نہیں امی ،میں کوشش کروں گا کہ سکول کو دیر نہ ہو اور اب آپ بھی سلائی کے کپڑے کچھ کم کر دیں۔ اس سے آپ کی صحت پر برا اثر پڑ رہا ہے، میرے اگر ایک گھنٹے کے کام سے سو روپے مل جاتے ہیں تو کوئی بری بات نہیں، بس میں یہ ملازمت ضرور کروں گا۔‘‘ احسن نے فیصلے سناتے ہوئے کہا۔
احسن کی امی بیٹے کی ضد کے آگے خاموش ہو گئیں اور یوں احسن روزانہ اخبار ڈالنے جانے لگا۔
پہلی تنخواہ ملی تو وہ خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا اور سوروپے امی کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے بولا۔’’امی لیجئے میری پہلی تنخواہ! ‘‘
احسن کی امی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھی آئے اور وہ رنجیدہ بھی ہو گئیں کہ کھیلنے کودنے کی عمر میں اس بچے کو گھر کی ذمہ داری کا احساس کرنا پڑ گیا ہے۔ انہوں نے بیٹے کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا ۔’’بیٹے تمہیں سائیکل کا بہت شوق ہے نا۔ ایسا کرو، ان پیسوں کو کسی محفوظ جگہ پر جمع کرتے رہو ۔جو نہی پیسے جمع ہو جائیں، تم سائیکل خرید لینا ۔ہاں اتنا ضرور کرو،ان پیسوں میں سے جتنا تمہار ادل چاہے ،ہر ماہ چھوٹی بہنوں کو کچھ جیب خرچ دے دیا کرو۔‘‘
’’ نہیں امی ،سائیکل اللہ نے چاہا تو پھر لے لیں گے، آپ کپڑے سیناکم کر دیں۔‘‘ احسن نے اپنی امی کی تکلیف کا سوچتے ہوئے کہا۔
احسن کی امی نے کہا ۔’’دیکھو بیٹا ! ملازمت کرنا تمہاری ضد تھی، ہم نے مان لی۔ اب یہ ہماری خواہش ہے لہٰذا تمہیں بھی ہماری بات ماننا ہو گی۔‘‘
’’ چلیں ٹھیک ہے ،جیسے آپ کی مرضی۔‘‘یہ کہتے ہوئے احسن نے ربیعہ اور سنعیہ کو آواز دی۔ دونوں بہنیں دوڑی ہوئی آئیں اور کہا ’’جی بھیا آپ نے ہمیں بلایا ہے؟‘‘ احسن نے دونوں بہنوں کو پندرہ پندرہ روپے دیتے ہوئے کہا ۔’’یہ لو بھئی تمہارا جیب خرچ ،اب میں ان شاء اللہ ہر ماہ تمہیں جیب خرچ دیا کروں گا۔‘‘
’’ شکریہ بھیا …!‘‘دونوں نے بھر پور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ احسن کی آنکھیں خوشی سے چھلک پڑیں۔ احسن کی امی نے بے ساختہ احسن کو گلے لگالیا۔ ربیعہ ،سنعیہ خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھیں۔ لیکن احسن گہری سوچ میں غرق تھا۔ اس نے سوچاوہ بیس روپے اپنے جیب خرچ کے لئے رکھے گا اور ہر ماہ با قاعدگی سے پچاس روپے جمع کرے گا تا کہ جلد از جلد سائیکل خریدی جاسکے اور سکول جانے اور سودا سلف لانے میں بسوں کے کرائے سے نجات ملے۔
احسن اپنے جیب خرچ میں سے کاپی پنسل اور اس طرح کی چھوٹی موٹی ضرورت خود پوری کرنے لگا۔ اور اس کے علاوہ کبھی کبھار گھر کے لئے کوئی پھل وغیرہ بھی لے آتا اور اس کے ساتھ ساتھ پچاس روپے باقاعدگی سے جمع کرتے ہوئے اب اس کے پاس تین سو روپے ہو گئے تھے۔ میرے خدا اب بھی سات سو روپے جمع کرنے ہیں۔ شاکر صاحب کہہ رہے تھے ،سائیکل کم از کم ایک ہزار روپے کی آتی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں، احسن نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
جوں جوں وقت گزر تا جار ہا تھا،ا حسن کی سائیکل خرید نے کی خواہش بڑھتی جارہی تھی کیونکہ سائیکل نہ ہونے کی وجہ سے اسے سودا سلف لانے، نیوز ایجنسی جانے اور وقت پر سکول پہنچنے میں کافی دشواری ہوتی تھی۔ گھر سے نیوز ایجنسی پہنچنے میں اس کا آدھ گھنٹہ صرف ہو تا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی احسن کو نیوز ایجنسی کے مالک کی ڈانٹ سننی پڑتی تو کبھی سکول دیر سے پہنچنے پر سزا ملتی۔ مگر وہ سب کچھ اس لئے برداشت کر رہا تھا کہ اسے اس کی امی نے بتایا تھا کہ خدا اس شخص کو ضرور آزماتا ہے جو خدا کو پیارا ہوتا ہے۔
احسن کے لئے یہ سب کچھ آزمائش ہی تھی لہٰذاوہ تمام تکلیفوں کو بھول کر خوشی خوشی روز مرہ کے کام سرانجام دیتا۔ وقت یونہی گزرتا جار ہا تھا کہ ایک دن احسن کی امی نے احسن سے کہا۔’’ بیٹا عبدالمجید صاحب کی بیگم آئی تھیں، کہہ رہی تھیں کہ ان کے ہاں ہر جمعرات کی شام کو عصر کی نماز کے بعد درس قرآن پاک ہوتا ہے ۔آپ بھی احسن کو بھیج دیا کیجئے۔ تو بیٹے آج شام عصر کی نماز کے بعد تم سیدھے درس قرآن پاک میں چلے جانا اور ہاں وقت کی پابندی کاخیال رکھنا ورنہ دیر سے پہنچنے کی صورت میں تم درس کو اچھی طرح سمجھ نہیں پاؤ گے۔‘‘
شام ہوتے ہی احسن ،عبدالمجید صاحب کے ہاں پہنچا ۔سلام اور تعارف کے بعد خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر درس سننے لگا۔
آج کے درس کا موضوع ’’دعا ‘‘تھا۔ دعا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ انسان کو اپنی معمولی سے معمولی چیز کے لئے بھی خدا سے دعا کرنی چاہئے۔ دعا کی قبولیت میں دیر کو یہ ہرگز نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی اور ہمیں ہماری مطلوبہ چیز نہیں ملی لہٰذا دعا ہی مانگنا چھوڑ دیں۔ اللہ دعائیں ضرور قبول کرتے ہیں ۔یا تو بندے کو وہ چیز دے دیتے ہیں جو وہ مانگ رہا ہوتا ہے یا پھر آنے والی مصیبتیں ٹال دیتے ہیں، یا پھر آخرت میں وہ دعا کام آتی ہے لہٰذاو سائل کی پرواکئے بغیر ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضروریات کے لئے دعامانگنی چاہئے۔ دل سے نکلی ہوئی دعا پر خدا غیب سے مدد بھیجتا ہے۔
درس کے اختتام پر عبدالمجید صاحب نے کہا۔’’ اب آپ میں سے اگر کوئی سوال کرنا چاہے تو میں جواب کے لئے حاضر ہوں۔‘‘
احسن تو جیسے اس کا منتظر ہی تھا۔ اس نے فوراً سوال کیا۔’’غیب سے مدد کیسے آتی ہے؟‘‘
عبدالمجید صاحب نے کہا ۔’’آپ نے بہت اچھا سوال کیا ۔میں آپ کو بتاتا ہوں غیب سے مدد کیسے آتی ہے۔ دیکھیں مثال کے طور پر آپ کو کسی چیز کی شدید ضرورت ہے اور آپ کے پاس اسے خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں، تو آپ خدا سے یوں دعا کریں کہ اے میرے رب اگر تو بہتر سمجھتا ہے تو یہ چیز مجھے عنایت فرما ۔ہو سکتا ہے آپ کی دعا کرتے وقت رحمت الٰہی کو جوش آجائے اور آپ کے کوئی عزیز ماموں، چچایا کوئی رشتہ دار جو،کسی دوسرے ملک یا دوسرے شہر میں رہتے ہوں، آپ سے ملنے آئیں اور تحفے میں وہی چیز آپ کو دیں جس کیلئے آپ نے خدا سے دعا کی ہو، تو سمجھ لیں کہ یہ غیب سے مدد آئی ہے لیکن دعا میں جلدی نہیں کرنی چاہئے ۔یہ خدا کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ دعا کے الفاظ ختم ہوتے ہی دعا قبول کرے یا پھر مہینہ سال یا کئی سال بعد آپ کی وہ خواہش پوری کر دے جس کے لئے آپ مسلسل دعا مانگ رہے ہوں۔‘‘
یہ بات نا صرف احسن کی سمجھ میں آگئی بلکہ اسے بہت اچھی لگی۔ درس کے اختتام پر دعا مانگی گئی۔ احسن نے گڑ گڑا کر سائیکل کے لئے دعامانگی اور واپس آکر دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگا ۔کھیل ہی کھیل میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد جونہی احسن کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے، اسے فور اًوہ الفاظ یاد آگئے کہ دل سے نکلی ہوئی بات پر خدا غیب سے مدد بھیجتا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر خدا سے دعا مانگی۔‘‘ اے میرے رب! تو جانتا ہے کہ میرے کوئی چچا،ماموں یا قریبی رشتہ دار نہیں ہیں اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ سائیکل کی مجھے کتنی ضرورت ہے ۔اس کے نہ ہونے سے مجھے اکثر چودھری صاحب اور ماسٹر صاحب کی ڈانٹ پڑتی ہے، یا اللہ مجھے ڈانٹ سے بچالے اور میری غیب سے مدد کرتے ہوئے مجھے سائیکل دلا دے۔‘‘
اس دعا کو بار بار دہراتے ہوئے احسن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس نے آمین کہتے ہوئے کلمہ پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیر لئے اور گھر آگیا۔ کھانا کھانے، ہوم ورک کرنے اور عشاء کی نماز ادا کرنے بعد وہ سونے کے لئے لیٹ گیا۔ بستر پر لیٹا ہوا احسن سوچ رہا تھا کہ میری دعا ضرور قبول ہو گی کیونکہ درس میں بتایا گیا ہے کہ دل سے نکلی ہوئی دعا پر اللہ تعالیٰ غیب سے مدد بھیجتے ہیں، اس لئے اب غیب سے مدد آنے والی ہے۔ احسن نے پر امید ہو کر دعا مانگنی شروع کی اور دعامانگتے مانگتے سو گیا۔
وقت گزرتا گیا۔ احسن دعا کے ساتھ ساتھ سائیکل خریدنے کے لئے پیسے بھی جمع کرتا رہا۔ اب اس کے پاس پانچ سوروپے جمع ہو گئے تھے۔
ایک دن جب احسن سکول سے گھر واپس آیا تواس نے دیکھا کہ گلی میں کچھ لوگ فضل کریم کے گھر کے سامنے جمع ہیں۔ اس نے گھر آکر اپنی امی کو بتا یا۔ احسن کی امی نے کہا ۔’’تم کھانا کھاؤ ،میں معلوم کر کے آتی ہوں ۔‘‘
احسن کی امی فضل کریم کے گھر پہنچیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ چار پائی پر فضل کریم خون میں لت پت بے ہوشی کی حالت میں پڑا ہے اور اس کی بیوی اور تینوں بیٹیاں بیٹھی رو رہی ہیں۔ احسن کی امی کے پوچھنے پر فضل کریم کی بیوی نے روتے ہوئے بتایا کہ فضل کریم آج کل ایک عمارت کے کام میں مزدوری کر رہا تھا۔ آج وہ جب تیسری منزل پر مستری کو اینٹیں دینے جارہا تھا تو اس کا پیر پھسل گیا اور وہ سڑک پر آ گرا۔ سڑک پر بھی اینٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ بلندی پر سے گرنے کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا اور جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی ہیں، ایک ٹانگ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے۔
احسن کی امی نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔’’ صبر کرو بہن !خدا اپنے نیک بندوں ہی کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔‘‘
ابھی احسن کی امی دلاسہ دے ہی رہیں تھیں کہ محلے کے لوگ فضل کریم کو ہسپتال لے جانے کے لئے آگئے۔ احسن کی امی اجازت لے کر گھر آگئیں ۔انہوں نے ربیعہ، سنعیہ اور احسن کو تمام باتیں بتاتے ہوئے کہا، ’’احسن بیٹے! میں تو فضل کریم کی بیوی سے فضل کریم کی طبیعت کا پوچھ آئی ہوں۔ اب تم فضل کریم کے ہوش آنے پر ہسپتال جا کر عیادت کر آنا۔‘‘
احسن کی امی اور محلے کے خدا ترس لوگوں نے حسب توفیق فضل کریم کی دوائیوں اور دیگر اخراجات کے لئے اس کی بیوی کو پیسے دیے اور یوں فضل کریم کا علاج ہوتارہا لیکن اب فضل کریم کی ٹانگ کے آپریشن کی باری تھی ۔فضل کریم کی بیوی کو تمام محلے والوں نے اور احسن کی امی نے جتنے پیسے دیے، ان سب کو ملا کر بھی آپریشن کے لئے رقم جمع نہیں ہوئی تو احسن کا خیال اپنے ان پانچ سو روپے کی طرف گیا۔ جو اس نے بڑی محنت سے اپنی سائیکل کی خریداری کے لئے جمع کئے تھے، یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا ۔ایک طرف تو احسن کا سائیکل کا پورا ہوتا ہوا شوق تھا اور دوسری طرف فضل کریم کی زندگی۔ احسن نے سوچا اگر خدا نخواستہ فضل کریم مرجاتے ہیں تو ان کی بیوی اور بیٹیاں کیا کام کریں گی وہ تو ہماری امی کی طرح پڑھی لکھی بھی نہیں ہیں جو کسی سکول میں ملازمت کر کے گھر کا گزر بسر کر سکیں۔ انہیں اندیشوں نے احسن کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ چاہے سائیکل آئے یا نہ آئے میں اپنے جمع کئے ہوئے پیسے فضل کریم کے علاج کے لیے دے دوں گا۔ احسن نے ساری بات اپنی امی کو بتائی۔
احسن کی امی نے احسن کے اس نیک جذبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔’’ ٹھیک ہے بیٹے !دے دو پیسے، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہم کسی کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کریں گے۔‘‘
احسن کے فیصلے کو امی کی حمایت ملی تو احسن نے پانچ سو روپے امی کو دیتے ہوئے کہا۔’’ مجھے شام کو درس قرآن پاک میں جانا ہے، آپ فضل کریم کی بیوی کو دے آئیے گا۔‘‘
احسن نے فضل کریم کے علاج کے لئے پانچ سو روپے تو دیے لیکن اسے اس بات کا احساس کھائے جارہا تھا کہ اب اسے پھر اتنی ہی رقم از سر نو جمع کرنی پڑے گی۔ اس کے لہجے میں اللہ تعالیٰ کے لئے شکوہ تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔’’میرے اللہ! غیب سے مدد کب آئے گی، کب مجھے سائیکل ملے گی ،کب میں روز روز کی ڈانٹ سے بچوں گا۔ میرے لئے غیب سے مدد بھیج۔ ‘‘
اب احسن کا دل نہ کھانے میں، نہ پڑھنے میں ،نہ نماز میں، کسی چیز میں بھی تو نہیں لگ رہا تھا۔ رات کو جب وہ تھکاہوا بستر پر سونے کے لئے لیٹا تو نیند بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کی امی اور بہنیں گہری نیند سو چکی تھیں، احسن پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ اس نے دعا کرتے ہوئے کہا ۔’’میرے اللہ غیب سے مدد بھیج دے ،مجھے تیری مدد کی ضرورت ہے ۔‘‘
وہ تمام رات رو رو کر سائیکل کے لئے دعا مانگتا رہا یہاں تک کہ رات کے دو بجے اس کی امی کے تہجد پڑھنے کا وقت ہو گیا تو اس نے جلدی سے آنسوؤں سے بھیگا ہوا تکیہ پلٹ کر کروٹ بدلی اور سونے کی کوشش کرنے لگا اور آخر کار اسے نیند آگئی۔
صبح حسب معمول احسن کی امی نے جب احسن ،ربیعہ اور سنعیہ کو نماز کے لئے اٹھا یا تو احسن نے امی اور بہنوں سے کہا۔’’ آج رات میں نے بڑا اچھا خواب دیکھا ہے۔‘‘ احسن نے خواب سناتے ہوئے کہا ۔’’میں نے دیکھا کہ ہمارے بر آمدے میں ایک بالکل نئی سائیکل کھڑی ہے اور میں اسے صاف کر کے اور زیادہ چمکارہا ہوں۔‘‘
احسن کی امی نے خواب سننے کے بعد کہا ۔’’ہو سکتا ہے بیٹے یہ تمہارا خواب سچا ہو ،کیوں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک قسم کے خواب رویائے صالحہ کہلاتے ہیں۔ رویائے صالحہ وہ خواب ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ یہ خواب سچے اور اچھے یعنی حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔‘‘
احسن نے اپنی امی سے خوابوں کے متعلق سنا تو جلدی جلدی سے دعا مانگنے لگا۔ ’’یا اللہ میرا یہ خواب رویائے صالحہ میں سے ہو۔‘‘ اس خوبصورت خواب کو سوچ کر خوش ہوتے ہوئے وہ جلدی جلدی ادائیگی نماز کے لئے مسجد گیا۔ گھروں میں اخبار ڈالے اور سکول چلا گیا۔
اردو کے ٹیچر نے کلاس میں آکر بتایا کہ’’ ہمارے ضلع کے تمام سکولوں کے درمیان ایک تقریری مقابلہ’’ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ‘‘کے عنوان سے ہو رہا ہے ۔جو لڑ کا حصہ لینا چاہے، وہ اپنا نام لکھوا دے۔ ‘‘
احسن نے بھی اپنا نام لکھوا دیا۔ گھر آکر اس نے امی سے تقریر لکھوائی اور اسے یاد کرنا شروع کر دیا۔
آج اس کے سکول میں تمام لڑکوں میں سب سے بہترین تقریر کرنے والے لڑکے کے چناؤ کا دن تھا۔ احسن نے بھی پوری تیاری کی ہوئی تھی۔ ٹیچر نے تمام لڑکوں سے باری باری تقاریر سنی اور آخر کار احسن کو اس کے سکول کی طرف سے نمائندگی کرنے کا موقع مل ہی گیا۔ احسن بہت خوش تھا کہ کل اسے ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں جانا ہے۔ اس کی دعا تھی کہ اپنے سکول کی طرح وہاں بھی وہ تمام سکولوں کے بچوں پر سبقت لے جائے اور اسے پہلا انعام ملے۔ احسن نے رات ہی کو اپنا یونیفارم نکال کر استری کر کے لٹکا دیا ۔جوتے پالش کر لئے اور صبح ہوتے ہی اپنے تمام کام نمٹا کر وہ جلدی سے سکول پہنچا اور ایک دفعہ سر کو تقریر سنائی اور پھر دوسرے ٹیچرز کے ساتھ ڈسٹرکٹ کونسل ہال کے لئے روانہ ہو گیا۔
ہال میں کافی سکولوں کے بچے آچکے تھے اور بہت سے آرہے تھے۔ جشن کا سا سماں تھا۔ آج کے تقریری مقابلے کے مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر صاحب تھے۔ تقریری مقابلے کا آغاز کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد باری باری تمام سکولوں کے نمائندہ بچوں نے تقاریر کیں۔ تقاریر کے اختتام پر احسن بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا کہ دیکھیں کون سالڑ کا پہلے انعام کا حقدار ہوتا ہے اور ساتھ ہی اپنے اول آنے کی دعائیں مانگ رہا تھا کہ اعلان کیا گیا کہ جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق یہ تین بچے پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ ان تینوں بچوں میں احسن نام بھی تھا۔ احسن کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور اب فرط جذبات سے جیسے اس کا دل دھڑکنا بھی بھول گیا کہ پورے ضلع میں اول نمبر پر آنے والے بچے احسن نظیر کو تالیوں کی گونج میں انعام لینے کے لئے بلایا گیا۔
احسن تالیوں کی گونج میں اپنا انعام لے کر آیا ہی تھا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے احسن کی تقریر کے خوبصورت انداز اور ٹھوس دلائل سے متاثر ہوتے ہوئے پانچ سو روپے نقد انعام کا اعلان کیا۔ احسن اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر کے کہنے لگا۔ ’’عبدالمجید صاحب سچ کہتے تھے کہ دل سے نکلی ہوئی دعاپر اللہ تعالیٰ غیب سے مدد بھیجتے ہیں۔‘‘
ابھی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا بھی نہ تھا کہ ڈھائی سو روپے کا اعلان ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف سے ہوا۔ احسن نے ڈھائی سو اور پانچ سو روپے کو جمع کرتے ہوئے کہا۔ ’’ساڑھے سات سو، خدایا تیرا شکر ہے ۔سائیکل خریدنے کے لئے کافی پیسے ہو گئے ہیں ۔‘‘
احسن خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کہ ہال میں بیٹھے ہوئے ایک اور شخص نے ڈھائی سوروپے احسن کو دینے کا اعلان کیا۔ ’’پورے ایک ہزار روپے۔‘‘ احسن نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تو نے واقعی غیب سے میری مدد کی ہے۔ تقریب اختتام کو پہنچی ۔احسن انعامی کپ اور ایک ہزار روپے لے کر خوشی خوشی گھر آیا۔ اپنی امی اور بہنوں کو سارا واقعہ سناتے ہوئے کہا۔’’ اللہ تعالیٰ نے واقعی میرے لئے غیب سے مدد بھیجی ہے، اور اب میرے پاس اتنے پیسے ہو گئے ہیں کہ میں ایک سائیکل خرید سکتا ہوں۔‘‘
اس کی امی نے احسن کو گلے لگالیا اور اس کا ماتھا چوم لیا۔

