skip to Main Content

ننھا پرندہ

کہانی: The Little Bird
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔

ایک چھوٹا سا پرندہ ہوا کرتا تھا جو دن بھر لوگوں کی کہانیاں دوسرے لوگوں کو سنایا کرتا تھا۔ وہ تھا تو ننھا سا مگر تھا مکمل سردرد…
ایک صبح جب وہ ڈیم وِنکل کی کھڑکی پر بیٹھا تھا تو اس نے ڈیم وِ نکل کو جوتے پہنتے دیکھا…اور عزیز ساتھیو!اس کی نظر ڈیم وِنکل کے موزے میں ہوئے سوراخ پر پڑ گئی…بس پھر کیا تھا…اسے تو ایک موضوع مل گیاتھا۔وہ سارا دن قصبے میں اڑتا رہا اور لوگوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا رہا۔’’ڈیم وِنکل کے موزے میں سوراخ ہے۔‘‘
ایک دن اس نے پٹر پٹر نامی بونے کو پڑوسی کے باغ میں کود کر سیب توڑتے دیکھ لیا۔ ننھا پرندہ دن بھر اڑتا رہا اور ہر ملنے والے کو یہ کہانی سناتا رہا۔’’ پٹر پٹر نے سیب توڑ لیے حالاں کہ وہ سیب اس کے اپنے نہیں تھے۔‘‘
اس ننھے سے چغل خور کی زبان سے کوئی محفوظ نہیں تھا۔وہ لوگوں کی کھڑکیوں، کونوں کھدروں اور آنگنوں میں جھانکتا پھرتا۔ قصبے کے لوگوں کو اس کی نوکیلی چونچ جب بھی کسی کونے میں دکھائی دیتی، وہ اسے مارنے کی کوشش کرتے مگر وہ ان سے ذرا زیادہ ہوشیار تھا، ہمیشہ بچ نکلتا۔
اور پھر ایک دن اس نے قصبے کے لوگوں کو گوگنس چڑیل کے بارے میں ایک کہانی سنائی۔ اس دن دوپہر کو جب وہ اس کے باغ میں اترا تو وہ کرسی پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔وہ اس کے قریب گیا، اور قریب گیا اور بہت قریب ہوگیا۔اس نے ایک حیران کن چیز دیکھی اور وہ یہ تھی کہ گوگنس چڑیل گردن نہیں دھوتی۔اوہ میرے عزیزو! پھر تو اس نے خوشی سے بھرپور ایک اڑان بھری اور پھر جلد ہی وہ پورے قصبے کو کہانی سنا رہا تھا۔’’گوگنس چڑیل اپنی گردن نہیں دھوتی…ذرا سوچو تو سہی کہ گوگنس چڑیل اپنی گردن نہیں دھوتی۔‘‘
اس شہر کے قانون کے مطابق ہر ایک کے لیے اچھی طرح نہانا ضروری تھا۔پرندے نے جیسے ہی’ یلوبوائے‘ نامی پولیس والے کے کان میں سرگوشی کی ، وہ گوگنس چڑیل کے پاس جا پہنچا اور اسے سخت ڈانٹ پلائی ۔ چڑیل نے انتہائی معذرت کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر اسے یہ بات بتائی کس نے ہے، تو وہ بولا:
’’اس ننھے سے پرندے نے۔‘‘ یلو بوائے نے دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں ننھا پرندہ بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔ گوگنس گردن دھونے کے لیے اندر چلی گئی اور اس نے دل میں قسم کھائی کہ ننھے پرندے کو ہر حال میں پکڑ کر سزا دے گی۔
مگر آپ کا کیا خیال ہے کہ ننھا سا وہ چالاک پرندہ اسے اپنے قریب بھی آنے دیتا؟یقینا نہیں!اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اسے دیکھتے ہی اڑ کھڑاہوا تاکہ کسی کی کوئی نئی کہانی تلاش کر سکے۔ وہ گوگنس چڑیل کے ہاتھ تو آنے والا تھا نہیں البتہ یہ ہوسکتا تھا کہ چڑیل پہلے اسے مکھی بناتی اور پھر اسے کھانے کے لیے مکڑی بھیج دیتی۔
بالآخر گوگنس چڑیل نے اس پر پانی پھینکنے کے لیے ایک چھوٹا سا پانی کا ڈبہ تیار کیا۔پھر اس نے اس شریر پرندے کو غائب کرنے کے لیے اس میں ایک جادو ڈال دیا۔اس نے سوچا کہ جب وہ پرندہ دکھائی ہی نہیں دے گا تو اس کی کہانیاں بھی کسی کو سنائی نہیں دیں گی۔وہ کھڑکی کے پردے کے پیچھے چھپ کر انتظار کرنے لگی۔
اور بالآخر وہ پکڑ میں آہی گیا۔اس نے جاسوسی کے غرض سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے نیچی اڑان بھری اور چڑیل نے جادو والا پانی اس پر پھینک دیا۔جادو نے کام کیا اور وہ فوراً غائب ہوگیا۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں…؟وہ نظروں سے تو غائب ہو گیا مگر اس کی آواز غائب نہیں ہوئی۔وہ اب بھی لوگوں کے کندھوں پر بیٹھ کر کہانیاں سناتا ہے۔اس نے پرستان میں مزید رہنے کی جرأت نہ کی کہ گوگنس چڑیل کہیں اگلی بار اسے پکڑ ہی نہ لے۔وہ ہماری دنیا میں اتر آیا اور آج تک کہانیاں سناتا پھر رہا ہے۔
بعض اوقات لوگوں کو وہ بات بھی معلوم ہوتی ہے جو آپ کو معلوم نہیں ہوتی اور اگر آپ ان سے پوچھو۔’’ تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟‘‘ تو وہ کہتے ہیں۔’’مجھے ایک ننھے سے پرندے نے بتائی ہے۔‘‘ تو یقینا آپ سمجھ جاتے ہیں کہ کہانیاں سنانے والا ننھا، بے ہودہ کہانی گو آپ کے گھر میں موجود ہے مگر آپ اسے کبھی دیکھ نہیں پائیں گے کیوں کہ وہ ابھی تک نظروں سے پوشیدہ ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top