وُضو کانور
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
نذیر اور سلیم اپنی امی کے ساتھ دوسرے شہر سے، خالو جی کے گھر آئے ہوئے تھے۔ سلیم نے گھڑی دیکھی۔ رات کے آٹھ بجے تھے۔ اس نے پوچھا:
”خالو جی! آپ کے علاقے میں اتنا اندھیرا کیوں ہے؟“
”بیٹے! یہ علاقہ ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا۔ ابھی اسے ترقی دی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر بتیاں بھی نہیں لگی ہیں، اس لیے رات میں اندھیرا رہتا ہے۔“ خالو جی نے جواب دیا۔
پھر وہ کہنے لگے: ”اندھیرے پر مجھے خیال آیا کہ جب قیامت آئے گی تو جن لوگوں نے دنیا میں برے عمل کیے ہوں گے، وہ تو اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے اور وہاں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے اور ہاتھ پاؤں جگمگا رہے ہوں گے۔“
”یہ کون لوگ ہوں گے، ابوجی؟“فرید نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”اس کے جواب میں، ایک حدیث نبوی سنو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے روز اپنی امت کے لوگوں کو پہچان لوں گا۔ کسی نے پوچھا۔ اے اللہ کے رسول! وہاں تو ساری دنیا کے انسان جمع ہوں گے، یہ کیسے ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ایک پہچان یہ ہوگی کہ وضو کے نور کی وجہ سے میری اُمت کے چہرے اور ہاتھ پاؤں جگمگارہے ہوں گے۔“ پھر خالوجی نے کہا:
”اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ وضو اچھی طرح کیا جائے اور اس کے فرائض، اور سنتوں کا پوری طرح خیال رکھا جائے۔ نماز کے لیے وضو شرط ہے۔ اگر وضوا اچھی طرح نہ کیا گیا تو نماز بھی نہیں ہوگی۔“
”خالو جی! اچھی طرح وضو کرنا کیا بہت مشکل ہے؟“ سلیم نے پوچھا۔
”نہیں تو، یہ آپ سے کس نے کہ دیا۔ میں آپ کو چند بنیادی باتیں بتا دیتا ہوں کہ وضو میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وضو میں چار کام فرض ہیں۔ ان میں سے کوئی فرض چھوٹ جائے، یا جسم کے جن حصوں کا دھونا فرض ہے، ان کو دھوتے ہوئے بال برابر جگہ بھی سوکھی رہ جائے تو وضو مکمل نہیں ہوتا۔ رشید بیٹے آپ کو یاد ہیں وضو کے فرائض؟“
”جی ہاں، ابو جی۔ پہلا فرض ایک بار پورے چہرے کا دھونا ہے، یعنی پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک دھونا۔ دوسرا فرض ہے، ایک بار دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔ تیسرا فرض ہے، ایک بار چوتھائی سر کا مسح کرنا ور چوتھا فرض ہے، ایک بار دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھونا۔“رشید نے جواب دیا۔
”مگر خالو جی، ہم تو ہا تھوں، پیروں اور چہرے کو تین تین بار دھوتے ہیں۔“سلیم نے حیرانی سے پوچھا۔
”بالکل ٹھیک کرتے ہیں، اس لیے کہ وضو میں ہر عضو کو تین بار دھونا سنت ہے۔ اس طرح وضوز یادہ اچھی طرح ہو سکتا ہے اور کسی عضو کے سوکھے رہ جانے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ سنت پر عمل کا ثواب بھی ملتا ہے۔“خالو نے سمجھایا۔
”وضو کی سنتیں کیا ہیں خالوجی؟“ نذیر نے سوال کیا۔
”بیٹے وضو میں پندرہ سنتیں ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کی نیت کرنا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر وضو شروع کرنا، ہر عضو کو تین بار دھونا، پورے سرکامسح کرنا، دونوں کانوں کا مسح کرنا اور مسواک کرنا۔“
”ابو جی! مسواک کرنا بہت ضروری ہے؟“ نوید نے پوچھا۔
”مسواک کرنا فرض تو نہیں ہے لیکن پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، مسواک کرنے کاغیر معمولی اہتمام فرماتے تھے بلکہ ایک حدیث میں تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے اُمت کی مشقت کاخیال نہ ہوتا تو میں حکم دیتا کہ وہ ہر وضو میں مسواک کیا کرے۔“
”میرا ایک دوست ہمیشہ قبلے کی طرف رخ کر کے وضو کرتا ہے۔“سلیم نے کہا۔
”بیٹے! تمہارا دوست بہت اچھا کرتا ہے۔ قبلے کی طرف رخ کر کے وضو کرنا مستحب ہے یعنی یہ نفل ہے۔ یہ لازمی تو نہیں ہے مگر جو اس پر عمل کرے گا، اسے زیادہ اجر ملے گا۔ اسی طرح وضو کرتے ہوئے ذرا اونچی جگہ بیٹھنا کہ پانی بہ کر اپنی طرف نہ آئے، دائیں ہاتھ سے کلی کرنا، بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا، بائیں ہاتھ سے پیر کومل مل کر صاف کرنا، یہ سارے کام بھی مستحب ہیں۔ ان کا خیال رکھنے سے وضو بہتر ہو جاتا ہے۔“
”ابو جی! میرا ایک دوست جب بھی وضو کرتا ہے تو باتیں کرتا رہتا ہے۔“‘ فرید نے کہا۔
”بیٹے! آپ اسے نرمی سے بتادیجیے گا کہ وضو کے دوران میں باتیں کرنا مکروہ ہے۔“
”مکروہ کیا، ابوجی؟“
”مکروہ ناپسندیدہ عمل ہے جس کو مجبوری کے عالم میں کیا جا سکتا ہے، کسی مجبوری کے بغیرمکروہ عمل کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ کچھ اور کام بھی ہیں جو وضو کے دوران میں مکروہ قرار دیے گئے ہیں مثلاً وضو کرتے ہوئے پانی ضائع کرنا مکروہ ہے۔ اس کے علاوہ وضو کرتے ہوئے چاروں طرف چھینٹے اڑانا بھی مکروہ ہے۔“
”خالو جی! وضو کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں نا؟“ نذیر نے پوچھا۔
”ہاں! رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وضو کرنے سے چھوٹے چھوٹے گناہ دھل جاتے ہیں اور اچھی طرح وضو کرنے والا، آخرت میں بلند درجات سے نوازا جائے گا۔“خالوجی نے بتایا، پھر انھوں نے گھڑی دیکھی اور بولے:
”چلیں بھئی نو بج گئے ہیں۔ یہاں تو لوگ جلدی سو جاتے ہیں۔ صبح نماز فجر کے لیے اٹھنا ہے۔“
یہ سن کر وہ سب سونے کے لیے چلے گئے۔