محبت کی آگ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
جمال دین اپنی جھونپڑی نما دکان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے دروازے کی جگہ مضبوطی سے بندھا ہوا پردہ کھولا اور پردے کو گول مول کر کے ایک طرف ڈال دیا۔ اپنی سائیکل پر بندھی ہوئی سبزیاں اس نے سائیکل سے اتاریں اور دکان کے تختے پر ڈھیر کر دیں۔ چند لمحوں بعد وہ تمام سبزیاں سلیقے سے جما رہا تھا۔
”سلام چاچا!“ تقریبا ًدس برس کا ایک بچہ کھڑا ہوا مسکرارہا تھا۔
”کون مجید؟ صبح صبح آ گیا میرا د ھندا خراب کرنے۔“جمال دین نے براسامنہ بنا کر کہا۔
”چا چا! آدھا کلوٹماٹر کی ضرورت ہے۔“
”آدھا کلو؟ میں تو تجھے آدھا ٹماٹر بھی نہ دوں گا۔ تیری پوری برادری سے میری بات چیت نہیں ہے، تجھے نہیں معلوم؟“جمال دین نے ٹماٹروں کو نوکری میں سجاتے ہوئے کہا۔
”چاچا! میں نے تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔؟“
”بس بس زیادہ باتیں نہ بنا، چلا ہے مجھے سبق پڑھانے، کہ جو دیا کہ ٹماٹر کے بغیر سالن پکالے۔“
”چا چا، آپ لوگ ایک دوسرے سے لڑتے کیوں ہیں؟ لڑنا اچھی بات ہے کیا؟“لڑکاجاتے جاتے کہ گیا۔ اس نے جمال دین کا جواب نہیں سنا تھا، جو کہہ رہا تھا:
”کل کا بچہ، ہمیں سکھا رہا ہے، اس کو کیا معلوم، چودھری نے اس کی پوری برادری سے لین دین بند کرایا ہوا ہے۔“
……٭٭٭……
گاؤں زیادہ بڑا نہ تھا، مگر گاؤں والوں کے دل بھی بڑے نہ تھے۔ گاؤں میں دو برادریاں آباد تھیں۔ ان کے درمیان جھگڑے ہوتے رہتے۔ کبھی کسی کی فصل میں دوسرے کے مویشی گھس آتے تو لڑائی ہو جاتی کبھی فصلوں کے لیے پانی کی تقسیم پر تکرار ہو جاتی۔ کبھی بچوں کے درمیان معمولی سی لڑائی بڑھ کر بڑے جھگڑے میں بدل جاتی۔ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں برادریاں ایک دوسرے کے قریب رہنے کے باوجود، ایک دوسرے سے دُور دُور رہتی تھیں۔ ایک برادری کے لوگ دوسری برادری کے گھر نہ جاتے تھے۔ دونوں برادریوں کی شادیاں اور دیگر تقریبات الگ الگ ہوتی تھیں حتیٰ کہ دونوں برادریوں کے لوگ الگ الگ دکانوں سے سودا خریدتے تھے۔ گاؤں میں مسجد یں بھی دو تھیں۔
ماسٹر فضل کریم گاؤں کے پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کا دل، گاؤں میں ہونے والے جھگڑوں کو دیکھ کر بہت کڑھتا۔ انھوں نے دونوں برادریوں کے بڑوں کو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ذاتیں، یہ خاندان، برادریاں، اللہ نے اس لیے پیدا کی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔ یہ آپس میں تعارف کا ذریعہ ہیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ لوگ ان پر غرور کریں اور دوسروں کو نیچ سمجھیں مگر ہر بار دونوں برادریوں کے بڑوں نے کہا: ”ماسٹر صاحب! ہم آپ کی عزت کرتے ہیں۔ آپ کی باتیں بالکل صحیح ہیں مگر ہمارے باپ دادا کہ گئے ہیں کہ ہمارے جتنے بندے دوسری برادری والوں نے مارے ہیں، ان سب کا بدلہ لینا ہے۔“
ماسٹر فضل کریم ان باتوں کو سنتے اور دکھی دل کے ساتھ واپس چلے آتے۔ انھوں نے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بھی مختلف مواقع پر بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اسلام تو ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں میں اتحاد پیدا کرتا ہے، ان میں محبت کو بڑھاتا ہے، قرآن مجید اوراحادیث نبوی میں مسلمانوں کو بار بار ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں مل جل کر رہیں۔ بچے ان کی بات سن تو لیتے لیکن کبھی کبھی دبی زبان سے کہ دیتے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمارے بڑے ہماری بات کبھی نہ مانیں گے۔ ماسٹر فضل کریم پھر بھی نا امید نہ ہوتے۔ گاؤں والوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا ہونے کی دعائیں کرتے۔
وہ رات بہت سرد تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے جب درختوں کے پتوں سے ٹکراتے تو عجیب سی کھر کھڑاہٹ پیدا ہوتی۔ شاید سخت سردی کی وجہ سے گاؤں کے کتے بھی بھونکنے کی بجائے، کہیں کونوں میں دبک گئے تھے۔ جمال دین سبزی فروش اپنی جھونپڑی میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ قریب ہی اس کی بیوی اور بچے سور ہے تھے۔ پتا نہیں کیوں جمال دین کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ د کان میں موجود سبزیوں کے بارے میں سوچنے لگا، پھر اس کا دھیان مہنگائی کی طرف چلا گیا۔ گاؤں والے اب سبزیاں کم خرید رہے تھے۔ پتا نہیں اس کا سبب سبزیوں کا مہنگا ہو جانا تھا یا لوگوں نے سبزیوں کی بجائے گوشت کھانا شروع کر دیا تھا۔ پھر اسے یاد آیا، اس کی دکان کے قریب ہی نواب دین نے بھی سبزی کی دکان لگالی تھی۔ نواب دین کا تعلق دوسری برادری سے تھا۔ پہلے وہ شہر میں جا کر سبزی کا ٹھیلا لگاتا تھا، اب اس نے گاؤں آکر یہی کام شروع کر دیا تھا۔
”ہوں!“ اس نے سوچا۔”تو یہ وجہ ہے میری آمدنی کم ہونے کی۔ اس نواب دین کا بھی علاج کرنا پڑے گا۔ مگر علاج کیا ہو؟“ وہ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اسے خیال آیا کیوں نہ نواب دین کی دکان میں آگ لگا دی جائے۔ وہ اس منصوبے پر غور کرتا رہا۔ اس کے ضمیر نے اسے ملامت کی۔ اس کی نگاہوں کے سامنے نواب دین کے دو چھوٹے بچوں کے چہرے ابھر آئے جو اپنی معصوم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس سے پوچھ رہے ہوں۔’چاچا، آپ نے ہمارے بابا کی دکان کیوں جلا دی؟‘ لیکن دوسرے ہی لمحے شیطان نے اسے بہکایا۔’نواب دین نے آکر تمہارے حصے کی روزی چھین لی ہے۔ ویسے بھی وہ دوسری برادری کا ہے۔ اس کی دکان کا جل جانا ہی بہتر ہے۔‘ اس کے ضمیر اور نفس میں کچھ دیر تک جنگ ہوتی رہی۔ آخر وہ یہ سوچ کر سونے کی کوشش کرنے لگا کہ اس منصوبے کااچھی طرح جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بے خبر سور ہا تھا۔
”رشید کے ابا، رشید کے ابا!“
جمال دین کی بیوی اسے جھنجوڑ رہی تھی۔ جمال دین بڑ بڑا کر اٹھا، اس کی بیوی خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی ہوئی تھیں، جمال دین کے دونوں بچے بھی شور سے گھبرا کر اٹھ بیٹھے تھے اور ماں کو پکار کر رور ہے تھے۔
”ہیں!ہوا کیا ہے، رشید کی ماں!“جمال دین نے گھبرا کر پوچھا۔
”آگ لگ گئی ہے، آگ۔“
”کب، کدھر؟“جمال دین کی زبان سے یہی دو لفظ نکلے۔
”ادھر ماسی رحمت بی بی کے گھر سے پرے بڑے بڑے شعلے اُٹھ رہے ہیں، شور مچا ہوا ہے، جلدی کریں، آگ ادھر بھی پھیل رہی ہے۔ ہائے اللہ یہ کیا ہو گیا۔“جمال دین کی بیوی رونے لگی۔
”صبر کر، ہمت سے کام لے۔’“جمال دین اب پوری طرح ہوش و حواس میں آ گیا تھا۔
”ضروری نقدی اور زیور، اٹھالے، ایک بچے کو تو اٹھا، دوسرے کو میں اٹھاتا ہوں، چل جلدی کر۔“
جمال دین کی بیوی نے روپے پیسے اور اپنا زیور جلدی سے ایک چادر میں باندھ کر چھوٹی سی پوٹلی بنالی۔ دونوں نے اپنے بلکتے بچوں کو اٹھایا اور گھر سے نکل آئے۔ گلی میں شور مچا ہوا تھا۔ لوگ اپنا سامان اٹھا کر اور بچوں کو چمٹا کر بھاگ رہے تھے۔ گلی جہاں ختم ہوتی تھی، اس کے پار اونچے اونچے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ہوا بہت تیز تھی اور آگ اسی وجہ سے بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ جھونپڑیوں کے سرکنڈے دھڑ دھڑ جل رہے تھے اور اندر کا سامان بھی آگ کی لپیٹ میں تھا۔
جمال دین اور اس کی بیوی، بچوں کو اٹھائے، دوڑتے ہوئے باہر میدان میں آگئے، جہاں ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ سردی غضب کی تھی جسم کو کاٹنے والی ہوا چل رہی تھی۔ بچوں نے رو رو کر برا حال کر رکھا تھا۔ ہر طرف سے سسکیاں لینے اور ایک دوسرے کو تسلیاں دینے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایک نوجوان لڑکا دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے چیخ کر کہا:
”نواب دین اور اس کے بچے آگ میں پھنس گئے ہیں۔“
دوسری طرف سے دونو جوان بھاگتے ہوئے آئے اور ان میں سے ایک ہانپتے ہوئے بولا:
”آگ چودھری اشرف کے گھر تک پہنچ گئی ہے۔ لوگ مدد کے لیے پہنچیں۔“
بہت سے لوگ چودھری اشرف کے گھر کی طرف دوڑے لیکن ان سے پہلے جمال دین، نواب دین کی جھونپڑی کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اس کی بیوی اور دوسرے لوگ اسے آوازیں دیتے رہ گئے۔
جمال دین بجلی کی طرح نواب دین کی جھونپڑی تک پہنچا۔ نواب دین کی جھونپڑی اور آس پاس کی کئی جھونپڑیوں میں شعلے لپک رہے تھے اور ان کی تپش دور تک محسوس ہو رہی تھی۔ بعض جھونپڑیوں میں مٹی کا تیل رکھا تھا، اس نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔ مختلف اشیاء کے جلنے کی ناگوار بد بو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔
چندلمحوں کے لیے جمال دین کی سمجھ میں نہ آیا کہ نواب دین اور اس کے بچے کہاں ہیں، پھر اسے ذرا دور سے چیخ پکار کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ آوازوں کی سمت لپکا۔ جلد ہی اسے چنددوسری جلتی ہوئی جھونپڑیوں کے پار کچھ سائے نظر آئے اور آواز یں بھی صاف سنائی دینے لگیں۔ اس نے نواب دین کی آواز صاف پہچان لی۔
جمال دین کو اپنا مکروہ منصوبہ یاد آیا۔ اس نے سوچا تھا کہ نواب دین کی دکان میں آگ لگا دے گا۔ اسے سخت شرم آئی۔ وہ کتنا خود غرض ہو گیا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ کو یاد کیا۔سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی، اللہ کی مدد مانگی اور کلمہ پڑھتا ہوا ایک ایسی جگہ سے آگ کے اندر کود گیا جہاں شعلے ذرا کم تھے، پھر بھی گرم گرم آگ اس کے بازوؤں کو چاٹتی ہوئی گزر گئی۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے بازوؤں میں خنجر اتار دیے ہوں۔
جلتی ہوئی چیزوں سے بچتا ہوا وہ تیزی سے آگے بڑھا، اسی لمحے ایک جلتا ہوا بانس اس کے پیچھے گرا، اگر اسے ایک لمحے کی دیر ہو جاتی تو یہ بانس اس پر گرتا۔ جلد ہی وہ نواب دین اور اس کی بیوی بچوں تک پہنچ گیا۔
نواب دین نے حیرت سے دیدے پھاڑ کر جمال دین کو دیکھا، جو اس کے بچوں کواٹھاتے ہوئے کہ رہا تھا:
”نواب دین بھائی میرے پیچھے پیچھے آجائیں۔ جلدی کریں، آگ پھیل رہی ہے۔“
نواب دین اور اس کی بیوی جمال دین کے پیچھے پیچھے تیزی سے چلنے لگے۔ جمال دین میں جیسے بجلی بھر گئی تھی۔ جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں آگ کے بھیا تک شعلے بھڑک رہے تھے اور جان بچانے کے لیے، ان شعلوں کو پار کرنا ضروری تھا، تو اس نے بچوں کو گود سے اتار دیا۔ اس نے پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آگئی۔
جمال دین نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور ذرا پیچھے ہٹ کر نواب دین کے ساتھ مل کر زمین کھودنے لگا۔ زمین چونکہ نرم تھی اس لیے ذرا سی دیر میں جمال دین اور نواب دین دونوں نے مل کر اچھی خاصی مقدار میں مٹی جمع کر لی۔ نواب دین کی بیوی نے اپنی چادر دی، اس میں مٹی بھر کر جمال دین اور نواب دین نے آگ کے شعلوں پر پھینکنی شروع کر دی۔ مٹی پڑنے سے جیسے ہی شعلے ذرا مدھم ہوئے، جمال دین نے نواب دین کے بچوں کو اٹھا کر دوڑ لگا دی۔ بچوں کو آگ کے پار پہنچا کر وہ تیزی سے پلٹا، نواب دین اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ رہا تھا اور وہ خوف سے چیخ رہی تھی۔”میرے بچے، میرے بچے!“
جمال دین نے بچی ہوئی مٹی جلدی سے آگ پر پھینکی۔ آگ دھیمی ہو گئی۔ تینوں جلدی سے شعلوں کی دیوار پھلانگ کر نکل آئے مگر انھیں ایسا لگا کہ کسی نے انھیں بھٹی میں ڈال کر بھون دیا ہے۔
نواب دین کے بچے اپنی ماں کو پکار پکار کر رور ہے تھے۔ نواب دین کی بیوی نے جاتے ہی بچوں کو سینے سے لگا کر چومنا شروع کر دیا اور نواب دین نے اپنی پگڑی اتار کر جمال دین کے قدموں میں ڈال دی۔
”جمال دین تو نے مجھے خرید لیا ہے۔“وہ کہ رہاتھا۔”میں تیر احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا۔“
جمال دین نے نواب دین کی پگڑی اُٹھا کر اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا:
”اوپر والے کا شکر ادا کر نواب دین، جس نے تجھے اور مجھے بچایا، تیری بیوی اور بچوں کو بچایا اور مجھے سیدھارستہ دکھا دیا۔ ہم کتنے نالائق ہیں کہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہے۔“
نواب دین نے بانہیں پھیلا کر جمال دین کو اپنے سینے سے لگالیا، وہ سسکیاں لے رہا تھا، اس کے آنسو بہتے ہوئے جمال دین کے کندھے کو بھگو ر ہے تھے۔
جمال دین نے نواب دین کو نرمی سے الگ کیا اور بولا:
”چل بچوں اور بھابی کو ادھر میدان میں لے چلتے ہیں۔ اللہ جانے، باقی گاؤں والوں کا کیا حال ہے۔ کہتے ہیں آگ تو چودھری اشرف کے گھر تک پہنچ گئی تھی۔“
وہ سب تیزی سے میدان کی طرف چل پڑے۔
گاؤں والے چار گھنٹے کی جدو جہد کے بعد آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔ گاؤں کے تمام نوجوانوں نے بڑی ہمت کی۔ وہ نہر سے بالٹیاں بھر بھر کر لا رہے تھے اور جلتے ہوئے مکانوں پر پھینک رہے تھے۔ شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن کئی افراد جھلس کر زخمی ہو گئے تھے۔ گاؤں کے تقریباً تمام مکانات جل کر راکھ ہو چکے تھے، چودھری اشرف کے مکان کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ چودھری رحیم بخش کے مکان کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ان کے بہت سے مویشی بھی جل کر مر گئے تھے۔
گاؤں کے لوگ کئی گھنٹے تک سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے، صبح ہونے تک قریبی گاؤں سے لوگ امدادی سامان لے کر پہنچ گئے تھے۔
فجر کا وقت ہو تو ماسٹر فضل کریم نے اُٹھ کر اذان دی۔ لوگ نہر سے وضو کر کے آگئے۔ گاؤں کی دونوں مساجد کے امام صاحبان، موجود تھے۔ بہت سے لوگوں کی سوالیہ نظریں، دونوں کی طرف اٹھ گئیں۔کیا یہاں بھی دونوں برادریوں کی الگ الگ نمازیں ہوں گی؟ بہت سے لوگ سوچ رہے تھے لیکن سب نے حیرت سے دیکھا، دونوں امام صاحبان آگے بڑھے، دونوں نے ماسٹر فضل کریم سے درخواست کی کہ وہ نماز فجر کی جماعت کی امامت فرمائیں۔ ماسٹر فضل کریم پہلے تو انکار کرتے رہے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہو گئے۔ میدان ہی میں صفیں بن گئی تھیں۔ چودھری، موچی، نانبائی،سبزی فروش، ملک، میاں، سب ایک جگہ صفیں بنائے کھڑے تھے۔ نہ کوئی اعلیٰ تھا، نہ ادنیٰ، سب اپنے اعلیٰ اور برتر رب کے حضور حاضر تھے۔ماسٹر فضل کریم کی ہدایت پر مردوں کی صفوں کے پیچھے عورتوں نے بھی صف بنائی تھی۔
ماسٹر فضل کریم نے نماز پڑھائی۔ ان کی آواز میں نہ جانے کیسا درد اور سوز تھا اور اتنے بڑے حادثے میں جانیں بچ جانے پر لوگوں میں اللہ کا شکر ادا کرنے کا احساس بھی دلوں میں تھا، چنانچہ نماز کے دوران میں لوگ ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے۔ ماسٹر فضل کریم نے سلام پھیرتے ہی، تمام نمازیوں کو متوجہ کیا، وہ کہ رہے تھے:
”دعا سے پہلے قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں، جو میں نے نماز میں تلاوت کی تھی۔ یہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103ہے جس کا ترجمہ ہے:
’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تفرقہ میں مت پڑو اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچایا۔ اس طرح اللہ تم کواپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔“
ماسٹر فضل کریم قرآنی آیت کا ترجمہ بیان کر رہے تھے اور فضا میں سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ ترجمہ بیان کرنے کے بعد انھوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو لوگ بلند آواز سے رونے لگے۔
ان آنسوؤں نے برسوں کی نفرتوں اور دشمنیوں کو دھو ڈالا تھا۔ اب سب کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کی آگ بھڑک رہی تھی۔